• 19 مئی, 2024

حقیقی معرفت

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
میں یہ سب باتیں بار بار اس لئے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گُم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی۔اسے دوبارہ قائم کرے۔

عام طور پر تکبّر دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ علماء اپنے علم کی شیخی اور تکبّر میں گرفتار ہیں۔ فقراء کو دیکھو تو ان کی بھی حالت اور ہی قسم کی ہو رہی ہے۔ ان کو اصلاح نفس سے کوئی کام ہی نہیں رہا۔ ان کی غرض و غایت صرف جسم تک محدود ہے۔ اس لئے اُن کے مجاہدے اور ریاضتیں بھی کچھ اور ہی قسم کی ہیں جیسے ذکر ارّہ وغیرہ۔ جن کا چشمہ نبوت سے پتہ نہیں چلتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ دل کو پاک کرنے کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں۔ صرف جسم ہی جسم باقی رہا ہوا ہے۔ جس میں رُوحانیت کا کوئی نام و نشان نہیں۔ یہ مجاہدے دل کو پاک نہیں کر سکتے اور نہ کوئی حقیقی نور معرفت کا بخش سکتے ہیں۔ پس یہ زمانہ اب بالکل خالی ہے۔ نبوی طریق جیسا کہ کرنے کا تھا وہ بالکل ترک کر دیا گیا ہے اور اس کو بھُلا دیا ہے۔ اب اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عہد نبوت پھر آ جاوے اور تقویٰ اور طہارت پھر قائم ہو۔ اور اس کو اس نے اس جماعت کے ذریعہ چاہا ہے۔

پس فرض ہے کہ حقیقی اصلاح کی طرف تم توجہ کرو اسی طرح پر جس طرح پر آنحضرت صلے اﷲ علیہ وسلم نے اصلاح کا طریق بتایا ہے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ213-214 ایڈیشن 1988ء)

• انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابلِ قدر شئے ہوجاوے گا۔ اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیھا کا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پاکر وہ ہلاک ہوجاوے گا۔ خدا تعالیٰ مہلت اس لئے دیتا ہے کہ وہ حلیم ہے لیکن جو اس کے حلم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھاوے تو اسے وہ کیا کرے۔ پس انسان کی سعادت اسی میں ہے کہ وہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور تعلق بنائے رکھے۔ سب عبادتوں کا مرکز دل ہے۔ اگر عبادت تو بجالاتا ہے مگر دل خدا کی طرف رجوع نہیں ہے تو عبادت کیا کام آوے گی۔ اس لئے دل کا رجوعِ تام اس کی طرف ہونا ضروری ہے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ222 ایڈیشن 1988ء)

پچھلا پڑھیں

رومانیہ کے ایک ٹی وی پروگرام میں اسلام احمدیت کی شمولیت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جولائی 2022