• 10 مئی, 2024

’’اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سیدنا حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے دو نام بیان فرمائے ہیں۔ ایک محمدؐ اور دوسرا احمدؐ۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے ’’احمد‘‘ نام کی نسبت سے اپنے فرقہ کا نام ’’احمدیہ‘‘ رکھا اور جو آپؑ پر ایمان لائے وہ ’’احمدی‘‘ کہلائے۔ بعض لوگ لفظ احمدی کو حضرت مسیح موعودؑ کے نام غلام احمد ؐ کی طرف بھی منسوب کرتے ہیں۔ جبکہ حضرت مسیح موعودؑ نے خود لفظ احمد یا لفظ احمدی کی نسبت قرآن کریم میں بیان حضرت محمدؐ کے نام احمدؐ سے جوڑی ہے۔ اور فرمایا ہے کہ محمدؐ جلالی نام ہے اور وہ دور بھی جلالی تھا جبکہ احمد جمالی نام ہے اور آپؐ کا یہ دور جمالی ہے۔

آپؑ فرماتے ہیں۔
’’لوگوں نے جو اپنے نام حنفی شافعی وغیرہ رکھے ہیں۔ یہ سب بد عت ہیں۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہی نام تھے۔ محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ آنحضرت کا اسم اعظم محمدؐ ہے صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم اللہ ہے۔ اسم اللہ دیگر کل اسماء مثلاً حیّ، قیّوم، رحمٰن، رحیم وغیرہ کا موصُوف ہے۔ حضرت رسول کریم ؐ کا نام احمدؐ وہ ہے جس کا ذکر حضرت مسیحؑ نے کیا۔ یَّاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِی اسۡمُہٗۤ اَحۡمَدُ (الصف: 7) مِنۡۢ بَعۡدِی کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ وہ نبی میرے بعد بلا فصل آئے گا یعنی میرے اور اس کے درمیان اور کوئی نبی نہ ہو گا۔ حضرت موسیٰؑ نے یہ الفاظ نہیں کہے۔ بلکہ انہوں نے مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَالَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ (الفتح: 30) میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جب بہت سے مومنین کی معیت ہوئی جنہوں نے کفار کے ساتھ جنگ کئے۔ حضرت موسیٰؑ نے آنحضرت کا نام محمد بتلایا صلی اللہ علیہ وسلم۔ کیونکہ حضرت موسیٰؑ خود بھی جلالی رنگ میں تھے۔ اور حضرت عیسیٰؑ نے آپ کا نام احمدؐ بتلایا۔ کیونکہ وہ خود بھی ہمیشہ جمالی رنگ میں تھے۔ اب چونکہ ہمارا سلسلسہ بھی جمالی رنگ میں ہے اس واسطے اس کا نام احمدی ؐہوا۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ208 ایڈیشن 1984ء)

•پھر اسی مضمون کے تسلسل میں یوں بیان فرمایا۔
’’جمعہ حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے پیدا ہونے کا دن تھا۔ اور یہی متبرک دن تھا۔ مگر پہلی اُمّتوں نے غلطی کھائی۔ کسی نے شنبہ کے دن کو اختیار کیا۔ کسی نے یکشنبہ کے دن کو۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل دن کو اختیار کیا۔ ایسا ہی اسلامی فرقوں نے غلطی کھائی۔ کسی نے اپنے آپ کو حنفی کہا۔ اور کسی نے مالکی اور کسی نے شیعہ اور کسی نے سُنّی۔ مگر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف دو ہی نام تھے۔ محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے دو ہی فرقے ہو سکتے ہیں۔ محمدیؐ یا احمدیؐ۔ محمدیؐ اس وقت جب جلال کا اظہار ہو۔ احمدیؐ اس وقت جب جمال کا اظہار ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ209 ایڈیشن1984ء)

•ایک اور مقام پر جماعت پر اعتراض کہ اپنی جماعت کو الگ سے نام کیوں دیا؟ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا۔
’’یہ نام تو صرف شناخت کے واسطے ہے جیسا کہ مسلمانوں میں بہت سے فرقے ہیں۔ کوئی اپنے آپ کو حنفی کہتا ہے کوئی شافعی کوئی اہلحدیث وغیرہ۔ چونکہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالی نام احمد کا ظہور ہو رہا ہے اس واسطے اس جماعت کا نام احمدی ہوا۔ اور یہ نام اسی زمانہ اور اسی جماعت کے واسطے مقدر تھا۔ اس سے پہلے اگرچہ بعض ایسے آدمی ہوئے جو کسی جماعت کے امام بنے اور ان کے نام میں احمد کا لفظ تھا مگر کبھی خد اتعالیٰ نے کسی جماعت کا نام احمدی نہ ہونے دیا۔ مثلاً امام احمد بن حنبل تھے۔ ان کی جماعت حنبلی کہلائی۔ سیّد احمد بریلوی تھے تو ان کی جماعت مجاہدین کہلائی۔ سیّد احمد علیگڑھ کے تھے تو ان کے ہم خیال نیچری کہلائے۔ علیٰ ہذٰا القیاس اور کسی کا نام کبھی احمدی نہیں ہوا۔‘‘

(ملفوظات جلد10صفحہ3 ایڈیشن1984ء)

•ایک اور جگہ احمدیہ فرقہ کے قیام کی غرض یوں بیان فرماتے ہیں
’’اس وقت تقویٰ بالکل اُٹھ گیا ہے۔ اگر مُلّانوں کے پاس جائیں تو وہ اپنے ذاتی اور نفسانی اغراض کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ مسجدوں کو دکانوں کا قائمقام سمجھتے ہیں۔ اگر چار روز روٹیاں بند ہو جائیں تو کچھ تعجب نہیں کہ نماز پڑھاناہی چھوڑ دیں۔ اس دین کے دو ہی بڑے حصے تھے ایک تقویٰ دوسرے تائیدات سماویہ۔ مگر اب دیکھا جاتا ہے کہ یہ باتیں نہیں رہیں۔ عام طور پر تقویٰ نہیں رہا اور تائیدات سماویہ کا یہ حال ہے کہ خود تسلیم کر بیٹھے ہیں کہ مدت ہوئی ان میں نہ کوئی نشانات ہیں نہ معجزات اور نہ تائیدات سماویہ کا کوئی سلسلہ ہے۔ جلسہ مذاہب میں مولوی محمد حسین نے صاف طور پر اقرار کیا تھا کہ اب معجزات اور نشانات دکھانے والا کوئی نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر کا کہ تقویٰ نہیں رہا کیونکہ نشانات تو متقی کو ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دین کی تائید اور نصرت کرتا ہے مگر وہ نصرت تقویٰ کے بعد آتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات اور معجزات اس لئے عظیم الشان قوت اور زندگی کے نشانات ہیں کہ آپ سیّد المتقین تھے۔ آپ ؐ کی عظمت اور جلال کا خیال کر کے بھی انسان حیران رہ جاتا ہے۔ اب پھر اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ آپ کا جلال دوبارہ ظاہر ہو اور آپ کے اسم اعظم کی تجّلی دنیا میں پھیلے اور اسی لئے اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے اور اس کی غرض اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر کرنا ہے اس لئے کوئی مخالف اس کو گزند نہیں پہنچا سکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ34 ایڈیشن 1984ء)

•اس آرٹیکل میں اگر حضرت مسیح موعودؑ کے بیان فرمودہ اغراض و مقاصد بیان ہو جائیں تو سلسلہ احمدیہ کے قیام کا مقصد واضح ہو جائے گا اور ہمیں ان اغراض کو سامنے رکھ کر اپنے آپ کو سنوارنے کا موقع بھی ملے گا۔

*سلسلہ احمدیہ کے قیام کی ضرورت بیان کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں :
’’یقیناً یاد رکھو۔ یہ سلسلہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ قائم نہ ہوتا تو دنیا میں نصرانیت پھیل جاتی اور خدائے وحدہُ لا شریک کی توحید قائم نہ رہتی۔ یا یہ مسلمان ہوتے جو اپنے ناپاک اور جھوٹے عقیدوں کے ساتھ نصرانیت کو مدد دیتے ہیں۔ اور اُن کے معبود اور خدا بنائے ہوئے مسیح کے لئے میدان خالی کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب کسی ہاتھ اور طاقت سے نابُود نہ ہو گا۔ یہ ضرور بڑھے گا اور پھُولے گا اور خدا کی بڑی بڑی برکتیں اور فضل اس پر ہوں گے۔ جب ہمیں خدا کے زندہ اور مبارک وعدہ ہر روز ملتے ہیں اور وہ تسلی دیتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری دعوت زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ پھر ہم کسی تحقیر اور گالی گلوچ پر کیوں مضطرب ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ284 ایڈیشن1984ء)

اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے

بعض غیر لوگوں نے جب حضرت مسیح موعودؑ سے اعتراض کیا کہ آپ نے احمدیہ فرقہ کا نام مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لئے رکھا ہے۔

چنانچہ ایک مولوی صاحب آئے اور انہوں نے سوال کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے۔ آپ نے اپنے فرقہ کا نام احمدی کیوں رکھا ہے؟ یہ بات ہُوَ سَمّٰٮکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (الحج: 79) کے برخلاف ہے۔ اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا:
اسلام بہت پاک نام ہے اور قرآن شریف میں یہی نام آیا ہے۔ لیکن جیسا کہ حدیث شریف میں آچکا ہے اسلام کے تہتّر (73) فرقے ہو گئے ہیں اور ہر ایک فرقہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔ انہی میں ایک رافضیوں کا ایسا فرقہ ہے جو سوائے دو تین آدمیوں کے تمام صحابہؓ کو سبّ و شتم کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواجِ مطہرات کو گالیاں دیتے ہیں۔ اولیاء اﷲ کو بُرا کہتے ہیں۔ پھر بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔خارجی حضرت علی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو بُرا کہتے ہیں اورپھر بھی مسلمان نام رکھاتے ہیں۔ بلادِ شام میں ایک فرقہ یزید یہ ہے جو امام حسینؓ پر تبرّہ بازی کرتے ہیں اور مسلمان بنے پھرتے ہیں۔ اسی مصیبت کو دیکھ کر سلفِ صالحین نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں سے تمیز کرنے کے واسطے اپنے نام شافعی، حنبلی وغیرہ تجویز کئے۔ آجکل نیچریوں کا ایک ایسا فرقہ نکلا ہے جو جنت، دوزخ، وحی، ملائک سب باتوں کا منکر ہے۔ یہانتک کہ سید احمد خاں کا خیال تھا کہ قرآن مجید بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کا نتیجہ ہے اور عیسائیوں سے سُن کر یہ قصے لکھ دیئے ہیں۔ غرض ان تمام فرقوں سے اپنے آپ کو تمیز کرنے کے لیے اس فرقہ کا نام احمدیہ رکھا گیا۔

حضرت یہ تقریر کر رہے تھے کہ اس مولوی نے پھر سوال کیا کہ قرآن شریف میں تو حکم ہے کہ لَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران: 104) اور آپ نے تو تفرقہ ڈال دیا۔

حضرت نے فرمایا: ہم تو تفرقہ نہیں ڈالتے بلکہ ہم تفرقہ دور کرنے کے واسطے آئے ہیں۔ اگر احمدی نام رکھنے میں ہتک ہے تو پھر شافعی حنبلی کہلانے میں بھی ہتک ہے، مگر یہ نام ان اکابر کے رکھے ہوئے ہیں جن کو آپ بھی صلحا مانتے ہیں۔ وہ شخص بدبخت ہوگا جو ایسے لوگوں پر اعتراض کرے اور اُن کو برا کہے۔ صرف امتیاز کے لیے ان لوگوں نے اپنے یہ نام رکھے تھے۔ ہمارا کا روبار خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ہم پر اعتراض کرنے والا خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور احمدی ایک امتیازی نام ہے۔

اگر صرف مسلمان نام ہو تو شناخت کا تمغہ کیونکر ظاہر ہو۔ خدا تعالیٰ ایک جماعت بنانا چاہتا ہے اور اس کا دوسروں سے امتیاز ہونا ضروری ہے۔ بغیر امتیاز کے اس کے فوائد مترتب نہیں ہوتے اور صرف مسلمان کہلانے سے تمیز نہیں ہو سکتی۔امام شافعی اور حنبل وغیرہ کا زمانہ بھی ایسا تھا کہ اس وقت بدعات شروع ہو گئی تھیں۔ اگر اس وقت یہ نام نہ ہوتے تو اہل حق اور ناحق میں تمیز نہ ہوسکتی۔ ہزار ہاگندے آدمی ملے جلے رہتے۔ یہ چار نام اسلام کے واسطے مثل چار دیواری کے تھے۔ اگر یہ لوگ پیدا نہ ہوتے تو اسلام ایسا مشتبہ مذہب ہو جاتا کہ بدعتی اور غیربدعتی میں تمیز نہ ہو سکتی۔ اب بھی ایسا زمانہ آگیا ہے کہ گھر گھر ایک مذہب ہے۔ ہم کو مسلمان ہونے سے انکار نہیں، مگر تفرقہ دور کرنے کے واسطے یہ نام رکھا گیا ہے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے توریت والوں سے اختلاف کیا اور عام نظروں میں ایک تفرقہ ڈالنے والے بنے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ تفرقہ خود خدا ڈالتا ہے۔ جب کھوٹ اور ملاوٹ زیادہ ہو جاتی ہے تو خد اتعالیٰ خود چاہتا ہے کہ ایک تمیز ہو جائے۔

مولوی صاحب نے پھروہی سوال کیا کہ خدا نے تو کہا ہے کہ

ہُوَ سَمّٰٮکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ

(الحج: 79)

فرمایا: کیا اس میں رافضی اور بدعتی اور آجکل کے مسلمان شامل ہیں؟ کیا اس میں آجکل کے وہ لوگ شامل ہیں جو اباحتی ہو رہے ہیں؟ اور شراب اور زنا کو بھی اسلام میں جائز جانتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ اس کے مخاطب تو صحابہؓ ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرون ثلاثہ کے بعد فیج اعوج کا زمانہ ہو گا جس میں جھوٹ اور کذب کا افشا ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے لَیْسُوْا مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُمْ۔ نہ اُن کا مجھ سے کوئی تعلق ہے نہ میرا اُن سے کوئی تعلق ہے۔ وہ لوگ مسلمان کہلائیں گے مگر میرے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔

جو لوگ اسلام کے نام سے انکار کریں یا اس نام کو عار سمجھیں۔ ان کو تو میں لعنتی کہتا ہوں۔ میں کوئی بدعت نہیں لایا۔ جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے بلکہ احمد کے نام میں اسلام کے بانی احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اِتّصال ہے۔ اور یہ اِتّصال دوسرے ناموں میں نہیں۔ احمد، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے۔ اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے۔ حدیث شریف میں محمدی رکھا گیا ہے۔ بعض اوقات الفاظ بہت ہوتے ہیں مگر مطلب ایک ہی ہوتا ہے۔ احمدی نام ایک امتیازی نشان ہے۔ آجکل اس قدر طوفان زمانہ میں ہے کہ اوّل آخر کبھی نہیں ہوا اس واسطے کوئی نام ضروری تھا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک جو مسلمان ہیں وہ احمدی ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ180-182 ایڈیشن1984ء)

احمدیہ سلسلہ کے قیام کے مقاصد

اس آرٹیکل کے آخر میں قارئین کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زبان مبارک سے بیان جماعت اور سلسلہ کے قیام کے مقاصد رکھے جاتے ہیں تا ان مبارک الفاظ کو سامنے رکھ کر ہم اپنے اندر روحانی، اخلاقی تبدیلی پیدا کر سکیں۔

آپؑ فرماتے ہیں:
’’میں سچ کہتا ہوں کہ اس وقت آسمان باتیں کر رہا ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ زمین کے رہنے والوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہو جس طرح سے ہر ایک بادشاہ طبعاً چاہتا ہے کہ اُس کا جلال ظاہر ہو۔ اسی طرح منشاء الٰہی یُونہی ہو رہا ہے۔ کہ اس کی عظمت و جبروت کا اہلِ دنیا کو علم ہو اور وہ خدا جو پوشیدہ ہو رہا ہے دنیا پر اپنا ظہور دکھائے۔ اس لیے اس نے اپنا ایک مامور بھیجا ہے تا کہ دنیا کا جذام جاتا رہے۔

اگر یہ سوال ہو کہ تم نے آکر کیا بنایا۔ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ دنیا کو خود معلوم ہو جاوے گا۔ کہ کیا بنایا۔ ہاں اتنا ہم ضرور کہتے ہیں کہ لوگ آکر ہمارے پاس گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ اُن میں انکسار، فروتنی پیدا ہوتی ہے۔ اور رذائل دور ہو کر اخلاق فاضلہ آنے لگتے ہیں۔ اور سبزہ کی طرح آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں۔ اور اپنے اخلاق اور عادات میں ترقی کرنے لگتے ہیں۔ انسان ایک دم میں ہی ترقی نہیں کر لیتا۔ بلکہ دنیا میں قانون قدرت یہی ہے کہ ہر شے تدریجی طور پر ترقی کرتی ہے۔ اس سلسلہ سے باہر کوئی شۓ ہو نہیں سکتی۔ ہاں ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ آخر سچائی پھیلے گی اور پاک تبدیلی ہو گی۔ یہ میرا کام نہیں ہے بلکہ خدا کا کام ہے اُس نے ارادہ کیا ہے کہ پاکیزگی پھیلے۔ دنیا کی حالت مسخ ہو چکی ہے اور اُسے ایک کیڑا لگا ہوا ہے۔ پوست ہی پوست باقی ہے مغز نہیں رہا۔ مگر خدا نے چاہا ہے کہ انسان پاک ہو جاوے اور اُس پر کوئی داغ نہ رہے۔ اسی واسطے اُس نے محض اپنے فضل سے یہ سلسلہ قائم کیا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ278-279 ایڈیشن 1984ء)

•پھر آپؑ فرماتے ہیں :
’’اس سلسلہ میں داخل ہو کر تمہارا وجود الگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ۔ جو کچھ تم پہلے تھے وہ نہ رہو۔ یہ مت سمجھو کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں تبدیلی کرنے سے محتاج ہو جاؤ گے یا تمہارے بہت سے دشمن پیدا ہو جائیں گے۔ نہیں۔ خدا کا دامن پکڑنے والا ہر گز محتاج نہیں ہوتا۔ اس پر کبھی بُرے دن نہیں آسکتے۔ خدا جس کا دوست اور مدد گار ہو۔ اگر تمام دنیا اس کی دشمن ہو جاوے تو کچھ پرواہ نہیں۔ مومن اگر مشکلات میں بھی پڑے تو وہ ہر گز تکلیف میں نہیں ہوتا بلکہ وہ دن اس کے لئے بہشت کے دن ہوتے ہیں۔ خدا کے فرشتے ماں کی طرح اسے گود میں لے لیتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ263 ایڈیشن1984ء)

•پھر فرمایا:
’’خدا تعالیٰ خود ایک ایسی جماعت تیار کر رہا ہے جو قرآن شریف کی ماننے والی ہو گی۔ ہر ایک قسم کی ملونی اس میں سے نکال دی جائے گی اور ایک خالص گروہ پیدا کیا جاوے گا اور وہ یہی جماعت ہے۔ اس لئے میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کے احکام کے پورے پابند ہو جاؤ اور اپنی زندگیوں میں ایسی تبدیلی کرو جو صحابہ کرامؓ نے کی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دیکھ کر ٹھوکر کھاوے۔ ہاں میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ افتراء اور کذب کے سلسلہ سے الگ ہو جاوے۔ پس تم دیکھو اور منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو دیکھو۔ یہ میں جانتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اور زمین پر بارش ہوتی ہے تو جہاں مفید اور نفع رساں بُوٹیاں اور پودے پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی زہریلی بُوٹیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس وقت خدا تعالیٰ کا کلام اتر رہا ہے اور آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ چونکہ ایک سلسلہ حقہ قائم ہوا ہے۔ ضروری تھا کہ اس کے ساتھ جھوٹے مدعی اور مفتری بھی ہوتے جو اکثر وں کو گمراہ کرتے۔ پس ہر شخص کا فرض ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ سے کشود کار کے لئے دعا کرے اور دعاؤں میں لگا رہے۔ ہمارے سلسلہ کی بنیاد نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ پر ہے۔ پھر اس سلسلہ کی تائید اور تصدیق کے لئے اللہ تعالیٰ نے آیات ارضیہ اور سماویہ کی ایک خاتم ہم کو دی ہے۔ یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اسے ایک مہر دی جاتی ہے اور وہ مہر محمدی مہر ہے جس کو ناعاقبت اندیش مخالفوں نے نہیں سمجھا۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ142-143 ایڈیشن1984ء)

انسان اور موت

اپنی جماعت کے دوستوں کو موت قریب ہونے اور زندگی کے دن تھوڑے رہنے کی طرف توجہ دلا کر نیکیوں کی طرف یوں بلاتے ہیں۔

’’موت کا کوئی وقت نہیں۔ آئے دن طاعون، ہیضہ، زلازل، وبائیں قحط اور اور طرح کے امراض انسان پر حملہ کر رہے ہیں اورا گر یہ بھی نہ ہوں تب بھی بعض اوقات خدا تعالیٰ کی ناگہانی گرفت اس طور سے انسان کو آدباتی ہے کہ پھر کچھ بَن نہیں پڑتا۔ پس ضروری ہے کہ جو اقرار کیا جاتا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اس اقرار کا ہر وقت مطالعہ کرتے رہو اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی کا عمدہ نمونہ پیش کرو۔ عمر کا اعتبار نہیں۔ دیکھو ہر سال میں کئی دوست ہم سے جدا ہو جاتے ہیں اور کئی دشمن بھی چل بستے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے بعض خوفناک خبریں دی ہیں اور وہ اپنی بات میں سچا ہے۔ ان سے اور بھی خوف آتا ہے۔ وہ بھی بہت ہی خطرناک ہیں۔ رنگا رنگ کے خوف احاطہ کئے ہوئے ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ335 ایڈیشن 1984ء)

*’’ایک ضروری نصیحت کرتا ہوں۔ کاش لوگوں کے دل میں پڑ جاوے۔ دیکھو عمر گزری جا ری ہے۔ غفلت کو چھوڑ دو اور تضرع اختیار کرو۔ اکیلے ہو ہو کر خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ خدا ایمان کو سلامت رکھے اور تم پر وہ راضی اور خوش ہو جائے۔‘‘

(ملفوظات جلد10 صفحہ413 ایڈیشن 1984ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے قیام کی اغراض و مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف مواقع پر جماعت کو جو نصائح فرمائیں، جن میں جماعت کے قیام کی غرض کے بارہ میں بھی بتایا اور افراد جماعت کی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی اور پھر ان ذمہ داریوں کے پورا کرنے اور اس غرض کے حصول کی کوشش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے جوفضل ہوں گے جن کا اللہ تعالیٰ نے آپؑ سے وعدہ کیا ہے اور من حیث الجماعت بھی اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کوکہاں تک پہنچانا ہے اس بارہ میں بھی آپ نے بتایا۔ سلسلہ کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’یہ زمانہ بھی روحانی لڑائی کا ہے۔ شیطان کے ساتھ جنگ شروع ہے۔ شیطان اپنے تمام ہتھیاروں اور مکروں کو لے کر اسلام کے قلعہ پر حملہ آور ہو رہا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسلام کو شکست دے مگر خداتعالیٰ نے اس وقت شیطان کی آخری جنگ میں اس کو ہمیشہ کے لئے شکست دینے کے لئے اس سلسلے کو قائم کیا ہے‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ16 جدید ایڈیشن)

آپؑ فرماتے ہیں: ’’مبارک وہ جو اس کو شناخت کرتا ہے‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ16 جدید ایڈیشن)

اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس سلسلہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ ہم میں سے بعض کو ان کے بزرگوں کی نیکیوں کی وجہ سے اس سلسلہ کو شناخت کرنے کی توفیق عطا ہوئی اور ہم احمدی خاندانوں میں پیدا ہوئے اور بعض کو خود اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ وہ بیعت کرکے سلسلے میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ جاری رہے گا تاکہ ہم اس گروہ خاص میں شامل ہو جائیں جس نے شیطان کے خلاف اسلام کی آخری جنگ لڑ کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بننا ہے۔ اس وجہ سے ہم میں سے بعض کو بعض ممالک میں سختیوں اور ابتلاؤں سے بھی گزرنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے اس زمانہ کے امام کو ماناہے۔ لیکن ایک عظیم مقصد اور غرض کے حصول کے لئے ہماری قربانیاں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو بے شمار تحریرات میں ہمیں ہمیشہ ان امتحانوں اور ابتلاؤں سے آگاہ فرماتے رہے جو آج بھی موجود ہیں کہ ابتلاء آئیں گے، تمہیں آزمایا جائے گا اور پھر اس کے نتیجہ میں خوشخبریاں بھی دیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’اس وقت میرے قبول کرنے والے کو بظاہر ایک عظیم الشان جنگ اپنے نفس سے کرنی پڑتی ہے۔ وہ دیکھے گا کہ بعض اوقات اس کو برادری سے الگ ہونا پڑے گا۔ اس کے دنیاوی کاروبار میں روک ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کو گالیاں سننی پڑیں گی۔ لعنتیں سنے گا۔ مگر ان ساری باتوں کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں ملے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ16)

آج اس زمانہ میں بھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان الفاظ کو جوآپؑ نے فرمائے بعض ملکوں میں بعینہٖ اسی طرح پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اور آج بھی جو احمدی قربانیاں کر رہے ہیں وہ یقینا اللہ تعالیٰ کا اجر پانے والے ہیں۔ ان دنوں میں پاکستان میں اور پاکستان کے بعد ہندوستان میں بھی خاص طور پر غیر احمدیوں نے نومبائعین کے ساتھ انتہائی ظلم کا سلوک روا رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی نئی حکومت کے بعد احمدیوں پر ہر قسم کی ظلم و زیادتی کو کار ثواب سمجھا جاتا ہے۔ مولویوں کو حکومت نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے اور ان لوگوں کے عزائم اور منصوبے انتہائی خوفناک اور خطرناک ہیں۔ ایک تو ملک میں ویسے بھی قانون نہیں ہے۔ آج کل لاقانونیت کا دَور دَورہ ہے اور پھر احمدیوں کے لئے تو رہا سہا قانون بھی کسی قسم کی مدد کرنے کے قابل نہیں ہے۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ جب بھی یہ لوگ جماعت کے خلاف کوئی بڑا منصوبہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو خداتعالیٰ ان کے مکر ان پر الٹا دیتا ہے اور ان کو اپنی پڑ جاتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے ہم یہی دیکھ رہے ہیں اور ان دنوں میں بھی بظاہر یہی نظر آتا تھا کہ ایک منصو بہ جماعت کے خلاف بنانے کی کوشش کی جا ری ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے خود ملک میں ایسی افراتفری پیدا کر دی کہ ان کو اپنی پڑ گئی۔

پس جہاں جہاں بھی احمدی ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں وہ یاد رکھیں کہ یہ شیطان کے ساتھ آخری جنگ ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آپ اس فوج میں داخل ہوئے ہیں جو اس زمانے کے امام نے بنائی۔ اس لئے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے ثبات قدم اور استقامت مانگتے ہوئے ہمیشہ اور ہر وقت صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے آگے مزید جھکیں۔ آخری فتح ان شاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی ہی ہے۔ جیسا کہ آپؑ نے فرمایا ہے کہ ان شیطانی اور طاغوتی قوتوں کو شکست دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم فرمایا ہے۔ لیکن ایک بات ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ بیرونی شیطان کو شکست دینے کے لئے جو اندرونی شیطان ہے اس کو بھی زیر کرنا ہو گا۔ کیونکہ ہماری فتح مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے ظاہری اسباب سے نہیں ہونی بلکہ دعاؤں سے ہونی ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے والا بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے نفس کا جہاد بھی بہت ضروری ہے۔‘‘

(جماعت احمدیہ کے قیام کی اغراض و مقاصد اور احمدیوں کی ذمہ داریاں
خطبہ جمعہ6؍ مارچ 2009ء)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو احمدیہ فرقہ کے قیام کے مقاصد کو سمجھنے اور پر عمل کر کے اپنی زندگیوں میں اتارنے کی توفیق دے اور ہم سب کو جمالی نام کے پیش نظر اپنے اند جمالی صفت پیدا کرتے ہوتے اپنے عزیزوں اپنے دوستوں سے ہمدردی، پیار اور محبت سے پیش آنے والا بنا دے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

رومانیہ کے ایک ٹی وی پروگرام میں اسلام احمدیت کی شمولیت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جولائی 2022