• 5 مئی, 2024

کشف و الہام کے ذریعہ تصحیح حدیث

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ پرمعترضین کی طرف سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپؑ نے اپنی تحریرات میں بذریعہ کشف و الہام حدیث کی تصحیح کا جو اصول بیان فرمایا ہے اس بارہ میں کسی بھی محدث کی ایسی کوئی تحریر نہیں ہے جس میں اس اصول کو درست تسلیم کیاگیا ہو کہ اہل کشف محدثین کی جرح کے پابند نہیں ہوتے بلکہ براہ راست نبی کریمﷺ سے احادیث کی صحت کے بارے میں پوچھ لیتے ہیں۔

یہ اعتراض بالکل بے بنیاد اور معترض کی کم علمی کا مظہر ہے۔ کیونکہ محدثین عظام و بزرگان سلف تصحیح حدیث بذریعہ کشف و الہام کے قائل تھے اور وہ خود بذریعہ کشف و الہام حدیث کی صحت سے اطلاع پاتے تھے۔ بطور ثبوت ایسی چند احادیث پیش ہیں جن کوضعیف قرار دیا گیا لیکن ان کی تصحیح بذریعہ کشف والہام بزرگان و علمائے سلف نے تسلیم کی ہے۔نیزاس موقف کے قائلین محدثین و بزرگان سلف کے کچھ حوالہ جات بھی پیش خدمت ہےجن سے یہ بات بخوبی عیاں ہے کہ وہ کشف والہام کے ذریعہ سے تصحیح احادیث کو جائز قراردیتے تھے۔

1۔ حدیث ’’أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ
بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ‘‘

بذریعہ کشف تصحیح ہونیوالی احادیث میں سے ایک معروف حدیث ’’أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ‘‘ ہے۔جسے علمائے فن حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن یہ حدیث اہل کشف و رؤیا کے نزدیک صحیح ثابت ہے۔ چنانچہ معروف محدث و فقیہ امام شعرانیؒ (متوفی:973ھ) اپنی تصنیف ’’المیزان الکبریٰ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:

’’ویؤیدنا حدیث اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم انتھی وهذا الحديث وإن كان فيه مقال عند المحدثين فهو صحيح عند أهل الكشف‘‘

(الميزان الكبرى للشعرانی جزء1 صفحہ29)

حدیث ’’اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم‘‘ بھی ہمارے موقف کی تائید کرتی ہے۔ بے شک محدثین کے نزدیک اس حدیث میں کلام ہے لیکن اہل کشف کے نزدیک یہ صحیح حدیث ہے۔

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ امام شعرانیؒ کے مذکورہ بالا حوالہ کی تصدیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پھر صفحہ 33 میں فرماتے ہيں کہ بعض حديثيں محدثين کے نزديک محل کلام ہوتی ہيں مگر اہل کشف کو اُن کی صحت پر مطلع کيا جاتا ہے جيسا کہ اصحابی کالنجوم کی حديث محدثين کے نزديک جرح سے خالی نہيں مگر اہل کشف کے نزديک صحيح ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد3 صفحہ176)

2۔ حدیث‘‘علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل’’

اس حدیث کے بارہ میں محدثین عظام اور علمائے فن حدیث نے کہا ہے کہ ’’لَا أَصْلَ لَهُ‘‘ یعنی اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے۔ دور حاضر کے عالم محمد بن علی بن موسیٰ نے سنن ابن ماجہ کی شرح ’’مشارق الانوارالوھاجة و مطالع الاسرار البھاجة‘‘ میں علامہ البانی کا قول درج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اصل نہ ہونے پر علماء متفق ہیں اور یہ وہ حدیث ہے جس سے قادیانی (احمدی) رسول کریمﷺ کے بعد نبوت کے بقا (جاری رہنے) کا استدلال کرتے ہیں۔ اگر یہ حدیث صحیح ہوتو ان کےلیے بطور حجت ہے جیساکہ اس پر تھوڑی سے غوروفکر سے بھی ظاہر ہے۔ انتہی۔‘‘

(مشارق الأنوار الوهاجة ومطالع الأسرار البهاجة في شرح سنن الإمام ابن ماجة جزء3 صفحہ188)

اس کے بالمقابل مشہور صوفی سید علی حرازم ابن العربی برادہ المغربی الفاسی (متوفی:1214ھ) اپنی تصنیف ’’جواہر المعانی و بلوغ الامانی فی فیض سیدی ابی العباس التجانیؓ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’سیدنا ابو عباس التجانیؓ سے بعض مسائل کے بارہ میں دریافت کیا گیا۔ ان میں سے ایک حدیث رسول ؐ ’’علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل‘‘ کے متعلق بھی سوال تھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ’’خدا توفیق دے اور درست بات پراحترام کرے‘‘۔ جہاں تک اس مذکورہ حدیث کا تعلق ہے تو یہ حدیث نہیں ہے جسے علامہ سیوطیؒ نے اپنی تصنیف ’’الدر المنتثرة فی الاحادیث المشتھرہ‘‘ میں درج کیا ہے۔صاحب الابریز نے اپنے شیخ سے اس بارہ میں پوچھا تھاتو انہوں نے کہا کہ یہ حدیث نہیں ہے لیکن اسے کشفی طور پر درست بیان کیا کیونکہ علم حدیث کی رُو سے اس کی درایت میں کوئی سقم نہیں۔ پس ان کا یہ قول دوسروں کی رائے پر حجت ہے کیونکہ وہ قطب (ولی اللہ) ہیں جیساکہ صاحب الابریز نے بھی ذکر کیا ہے۔‘‘

(جواهر المعاني و بلوغ الامانی جزء2 صفحہ 275، مطبوعہ دارالکتب العلمیة بیروت، لبنان)

3۔ حدیث ’’اذکروا اللّٰہ حتی یقولوا مجنون‘‘

امام شعرانیؒ (متوفی:973ھ) اپنی تصینف ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں حضرت ابوالمواھب شاذلیؒ (متوفی:بعد 850ھ) کا تذکرہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ
’’ابولمواھب شاذلی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے رؤیا میں رسول اللہﷺ کی زیارت نصیب ہوئی تو میں نے آپ سے حدیث مشہور کے متعلق سوال کیا: اذکروااللّٰہ حتی یقولوا مجنون یعنی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو یہاں تک کہ لوگ مجنون کہیں۔ جو کہ صحیح ابن حبان میں یوں ہے: اکثروا من ذکر اللّٰہ حتی یقولوا مجنون۔ یعنی ذکرالٰہی کی کثرت کرو یہاں تک کہ لوگ مجنون کہیں۔ تو حضور علیہ السلام نے فرمایا: ابن حبان اپنی روایت میں سچا ہے جبکہ اذکرواللّٰہ کا راوی بھی سچا ہے کیونکہ میں نے دونوں طرح فرمایا ہے ایک دفعہ اس طرح اور دوسری دفعہ اس طرح۔‘‘

(الطبقات الکبریٰ للشعرانی جزء2 صفحہ151)

4۔ شیخ محی الدین ابن عربیؒ (متوفی:638ھ) کا بذریعہ کشف صحت حدیث معلوم کرنا

مشہور صوفی بزرگ اور عالم شیخ الاکبر محی الدین ابن عربیؒ بھی بذریعہ کشف تصحیح حدیث کے قائل تھے۔ آپ نے اپنی تصنیف فتوحات مکیہ میں اس موقف کا بدلائل مفصل ذکر کیا ہے جس میں خود اپنے واقعات بھی بیان فرمائے ہیں۔ چنانچہ ملا علی قاری (متوفی:1014ھ) شرح مشکوٰة المصابیح میں بیان کرتے ہیں کہ
’’شیخ مُحِیُّ الدین ابن عر َبیؒ فرماتے ہیں کہ مجھے آنحضرتﷺ کی یہ حدیث پہنچی کہ جو شخص ستر ہزار بار ’’لاالہ الا اللّٰہ‘‘ پڑھے تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ اسی طرح جس شخص کے لیے پڑھا جائے اس کی بھی مغفرت کردی جاتی ہے۔ چنانچہ میں اس کلمہ کو روایت کردہ عدد کے مطابق خاص طور پر کسی کی نیت کیے بغیر پڑھا کرتا تھا۔ اتفاقاً ایک روز میں بعض اصحاب کے ساتھ ایک دعوت میں موجودتھا اور ان میں ایک نوجوان بھی تھا جو کشف کے بارہ میں بہت مشہور تھا۔ کھانا کھانے کے دوران اچانک وہ رونے لگا، میں نے اس سے اس کاسبب پوچھا تو بولا کہ ’’میں کشفی طور پر اپنی ماں کو عذاب میں مبتلا دیکھ رہا ہوں‘‘۔ اس پر میں نے کلمہ مذکورہ کا ثواب دل میں ہی اس کی ماں کے لیے بخش دیا۔ اس پروہ جوان ہنسنے لگا اور بولا کہ ’’اب میں اپنی ماں کو جنت میں دیکھ رہا ہوں‘‘۔ شیخ ابن عربیؒ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے اس حدیث کی صِحَّت اس (نوجوان وَلی) کے کشف سے معلوم کی اور اس کے کشف کی صِحَّت حدیث سے۔‘‘

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح کتاب الصلاة باب ما علی الماموم من المتابعة و حکم المسبوق)

حدیث رسولﷺ کی بذریعہ کشف و الہام تصحیح کے متعلق علامہ ابن عربیؒ کا قول نقل فرماتے ہیں:

’’و قد صححت منہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عدة احادیث قال بعض الحفاظ بضعفھا فاخذت بقولہ صلی اللہ علیہ وسلم فیھا و لم یبق عندی شک فیما قالہ و صار ذلک عندی من شرعہ الصحیح اعمل بہ و ان لم یطعنی علیہ العلماء بناء علی قواعدھم۔۔‘‘

’’میں نے کئی احادیث کی تصحیح رسول اللہﷺ سے کروائی۔ جن احادیث کو بعض حفاظ نے ضعیف قرار دیا ان کے متعلق میں نے رسول اللہﷺ سے رہنمائی لی اور مجھے ان کے بارہ میں کوئی شک نہ رہا اور وہ میرے لیے شریعت کے عین مطابق ہوگئیں اور میں اس پر عمل کرتا بے شک علماء اپنے بنائے ہوئے قواعد کی بناء پر میری اس بات کو نہ مانیں۔‘‘

(سعادة الدارین لیوسف بن اسماعیل نبھانی صفحہ440)

5۔ معروف محدث امام جلال الدین سیوطیؒ کا
بذریعہ کشف تصحیح حدیث

امام عبد الوہاب شعرانی ؒعلامہ جلال الدین سیوطیؒ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:
’’میں نے امام جلال الدین سیوطیؒ کے شاگردوں میں سے ایک شخص شیخ عبد القادر شاذلی کے پاس آپ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک رقعہ دیکھا جو آپ نے اس آدمی کےلیے بھیجا جس نے آپ سے سلطان قایتبای کے پاس سفارش کی درخواست کی تھی۔ فرمایا: اے میرے بھائی! تجھے معلوم ہے کہ اب تک میں بیداری کی حالت میں بالمشافہ 75مرتبہ حضور نبی کریمﷺ کی زیارت سے مشرف ہوچکا ہوں۔ اگر حکام کے پاس جانے کی وجہ سے مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ سرکار علیہ الصلوة والسلام مجھے اس شرف سے محروم فرمادیں گے تو میں قلعہ میں جاکر سلطان کے پاس تیری سفارش ضرور کرتا جب کہ میں آپ کی احادیث شریفہ کے خادموں میں سے ہوں اور مجھے ان احادیث کی صحت کے بارے میں جنہیں محدثین نے اپنے طریق کے مطابق ضعیف قرار دیا ہے حضور نبی پاکﷺ سے استفادہ کرنا ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فائدہ تیرے ایک شخص کے فائدے سےکہیں زیادہ ضروری ہے۔‘‘

(المیزان الکبریٰ للشعرانی جزء1 صفحہ44، الطبعة الاولیٰ، شرکة مصطفى البابي الحلبي مصر 1940)

اس کے بعد امام شعرانیؒ فرماتے ہیں:

’’ویؤید الشیخ جلال الدین فی ذالک مااشتھر عن سیدی محمد بن زین المادح لرسول اللّٰہ انہ کان یری رسول اللّٰہ صلعم یقظة و مشافھة ولما حج کلمہ من داخل القبر‘‘

’’شیخ جلال الدین کی اس بات کا مؤید وہ واقعہ ہے جو سید محمد بن زین سے مشتہر ہے وہ آنحضرتﷺ کی زیارت سے بیداری میں مشرف ہوتے جب حج کو جاتے تو روضۂ مبارک میں آپ سے ہمکلام ہوتے۔‘‘

(المیزان الکبریٰ للشعرانی جزء1 صفحہ44، الطبعة الاولیٰ، شرکة مصطفى البابي الحلبي مصر 1940)

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ نے بھی کشف کے ذریعہ تصحیح حدیث کامضمون بیان فرماتے ہوئے امام شعرانی کی کتاب میزان الکبریٰ کے حوالہ سے اس واقعہ کا ذکر اپنی تصنیف ازالہ اوہام میں تحریر فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
’’بہتیرے اولیاء اللہ سے مشتہر ہو چکا ہے کہ وہ آنحضرت صلعم سے عالم ارواح میں یا بطور کشف ہم مجلس ہوئے اور اُن کے ہمعصروں نے اُن کے دعوے کو تسلیم کیا۔ پھر امام شعرانی صاحب نے ان لوگوں کے نام لئے ہیں جن میں سے ایک امام محدث جلال الدین سیوطی بھی ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ورق جلال الدین سیوطی کا دستخطی اُن کے صحبتی شیخ عبد القادر شاذلی کے پاس پایا جو کسی شخص کے نام خط تھا جس نے اُن سے بادشاہ وقت کے پاس سفارش کی درخواست کی تھی سو امام صاحب نے اس کے جواب میں لکھا تھا کہ میں نے آنحضرت صلعم کی خدمت میں تصحیح احادیث کے لئے جن کو محدثین ضعیف کہتے ہیں حاضر ہوا کرتا ہوں چنانچہ اس وقت تک پچہتر دفعہ حالت بیداری میں حاضر خدمت ہوچکا ہوں اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ میں بادشاہ وقت کے پاس جانے کے سبب اس حضوری سے رُک جاؤں گا تو قلعہ میں جاتا اور تمہاری سفارش کرتا۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ177)

6۔ شمس محمد بن ابی حمائل

علامہ یوسف نبھانی علامہ ابن حجر ہیثمی کا قول اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں کہ
علامہ ابن حجر ہیثمی بیان کرتے ہیں کہ میرے شیخ اور ان کے والد شمس محمد بن ابی حمائل بیداری کی حالت میں رسول اللہﷺ کی زیارت کا بکثرت شرف پاتے تھے اور جب ان سے کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا اور اس میں مشکل پیش ہوتی تو وہ کہتے کہ میں اسے نبی کریمﷺ کی خدمت میں پیش کرکے دریافت کروں گا۔ پھر آپ اپنا سر اپنے قمیض کے گریبان میں ڈالتے اور پھر فرماتے کہ نبی کریمﷺ نے اس بارہ میں یہ فرمایا ہے۔ چنانچہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا جیساکہ وہ بیان کرتے تھے پس اس بات کے انکار میں احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ اس کا انکار زہر کے مترادف ہے۔

(سعادة الدارين صفحہ422-423)

7۔ کشف ولی سے تصحیح حدیث

علامہ یوسف نبھانی اپنی کتاب ’’سعادة الدارین‘‘ میں مشہور صوفی عبداللہ بن اسعد یافعی (متوفی:768ھ) کی روایت جو انہوں نے روض الریاحین میں بیان کی ہے تحریر کرتے ہیں:
’’کسی ولی نے مجھے بتایا کہ وہ کعبہ کے گرد فرشتے اور پیغمبر کو دیکھتا ہے اور اکثر ایسا جمعہ، پیر کی رات اور جمعرات کو ہوتا ہے۔ اس (ولی) نے مجھے انبیاء کی ایک کثیر جماعت گنوائی اوربتایاکہ وہ ان میں سے ہر ایک کو ایک مخصوص جگہ پر کعبہ کے گرد بیٹھا ہوا دیکھتا ہے اور اس (نبی) کے متبعین میں سے اس کے اہل خانہ، رشتہ دار اوراصحاب اس کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ ہمارے نبی ﷺکے پاس اتنے اولیاء جمع ہوتے ہیں جن کی تعداد خدا کے سوا کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ اور اس قدر تعداد باقی تمام انبیاء کے پاس بھی جمع نہ ہوپاتی۔ اور حضرت ابراہیمؑ اور ان کی اولاد باب کعبہ کے پاس اپنے معروف مقام پر بیٹھتے ہیں اور حضرت موسیٰؑ اور انبیاء کی ایک جماعت رکن یمانی کے درمیان اورحضرت عیسیٰؑ اوران کی ایک جماعت حجر اسود کی طرف بیٹھتی ہے۔ اس نے ہمارے نبیﷺ کواہل بیت رسولﷺ، اور صحابہ کرامؓ اور اولیائے امتؒ کے ساتھ رکن یمانی کے پاس بیٹھے دیکھا۔ اس نے بعض اولیاء کے متعلق بیان کیا کہ وہ ایک فقیہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ اس فقیہ نے ایک حدیث بیان کی تواس ولی نے کہا کہ یہ حدیث باطل ہے اس پر فقیہ نے کہا کہ آپ یہ کس بناء پر کہتے ہیں؟ تو اس ولی نے کہا کہ یہ دیکھیں، نبی کریمﷺ آپ کے سر پر کھڑے یہ فرما رہے ہیں کہ ’’میں نے یہ حدیث بیان نہیں کی۔اس وقت اس فقیہ کو یہی کشف ہوگیا اور اس نے آنحضرتﷺ کو کھڑے ہوئے دیکھا۔‘‘

(سعادة الدارين صفحة432 والفتاوى الحديثية لابن حجر الهيثمي صفحہ297)

8۔ رسول اللہؐ سے حالت کشف میں
تحصیل علم اب بھی جاری ہے

مشہور محدث علامہ ابن حجر ہیثمی (اللہ تعالیٰ آپ کےعلوم سے بہرہ ور کرے اور آپ سے راضی ہو) سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا اب بھی نبی کریم ﷺ سے حالت بیداری میں شرف ملاقات پاکر علوم سیکھے جاسکتے ہیں؟‘‘ تو آپؒ نے جواباً فرمایا کہ ہاں بالکل یہ ممکن ہے اور پھر آپؒ نے کرامات اولیاء کا صراحتاً ذکر کیا جن میں شافعی مسلک کے امام غزالی، علامہ بارزی، علامہ تاج سبکی اورصوفی عفیف یافعی اور مالکی مسلک کے علامہ قرطبی اور ابن ابی جمرہ شامل ہیں اور انہوں نے بعض اولیاء کی حکایات بھی بیان کیں کہ ایک فقیہ کی مجلس میں وہ شریک تھے اور اس فقیہ نے ایک حدیث بیان کی تو ایک ولی نے اسے کہا کہ یہ حدیث باطل ہے تو اس فقیہ نے اس پر کہا کہ آپ یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں تو ولی نے کہا کہ یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ یہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے جو تمہارے سر پر کھڑے ہیں۔اس پر اس فقیہ نے آپﷺ کی کشفاً زیارت کی۔

(الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي صفحہ297)

9۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا کشف

رئیس محدثین ہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی متعدد تصانیف میں کشف و الہام پر اعتماد اور اس سے استشہاد کیے ہیں۔ آپ نے ایک رسالہ ’’درثمین فی مبشرات النبی الامین‘‘ لکھا۔ جس کے مقدمہ میں آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’کمترین خلائق احمد جو ولی اللہ بن عبد الرحیم العمر الدہلویؒ کے نام سے مشہور ہے، عرض کرتا ہے کہ احادیث مبارکہ میں سے یہ چالیس حدیثیں ہیں جو عالم خواب میں یا آپ کی روح مبارک کے مشاہدے کی حالت میں آپ سے روایت کی گئی ہیں، میں نے انہیں اس رسالے میں جمع کردیا ہے ان میں سے کچھ حدیثیں ایسی ہیں جنہیں کسی واسطے کے بغیر براہ راست ذات اقدس سے میں نے اخذ کیا ہے اور بعض احادیث ایسی ہیں کہ آپ کی روایت میں میرے اور آنحضورﷺکے درمیان دو یا تین واسطے ہیں۔ میں نے اس کا نام ’’الدر الثمین فی مبشرات النبی الامینﷺ‘‘ تجویز کیا ہے۔‘‘

(مقدمہ کتاب الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین ﷺ
بحوالہ مجموعۂ رسائل امام شاہ ولی اللہؒ جلد ششم مرتبہ مفتی عطاء الرحمٰن قاسمی صفحہ103)

اسی کتاب میں آپ نے بسند مستقل شیخ محمد بن عبد الرحمٰن الخطاب شارح مختصر خلیل سے روایت کیا ہے کہ
’’ہم اپنے شیخ عارف باللہ عبد المعطی التونسی رحمة اللہ علیہ کے ساتھ آنحضورﷺ کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔ جب ہم روضہ مقدسہ کے قریب پہنچے تو پاپیادہ ہوگئے۔ ہمارے شیخ عبد المعطی رحمة اللہ علیہ چند قدم اٹھاتے، پھر رک جاتے، الغرض وہ اسی کیفیت میں روضہ مقدسہ پر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے کچھ ایسی باتیں کہیں جو ہماری سمجھ سے بالا تھیں۔ واپس پلٹے تو ہم نے شیخ سے رک رک کر چلنے کی وجہ پوچھی، انوں نے فرمایا، میں آنحضرتﷺ سے حاضری کی اجازت طلب کرتا تھا، اجازت ملتی تو قدم اٹھاتا، ورنہ رک جاتا، اسی طرح بارہ گاہ نبویؐ میں حاضر ہوا،میں نے آپ سے پوچھا یا رسول اللہﷺ بخاری نے آپ سے حدیثیں روایت کی ہیں وہ صحیح ہیں؟ فرمایا: صحیح ہیں۔ میں نے عرض کیا، میں آپ سے وہ حدیثیں روایت کروں؟ فرمایا: شوق سے۔ چنانچہ شیخ عبد المعطی رحمة اللہ علیہ نے شیخ محمد خطابؒ کو یہ اجازت عطا فرمائی، پھر ان میں ہر ایک دوسرے کو اجازت دیتا رہا۔چنانچہ شیخ احمد بن عبد القادر رحمة اللہ علیہ نے شیخ نخلیؒ کو اس سند کے ساتھ روایت کرنے کی اجازت دی۔شیخ نخلیؒ نے ابو طاہرؒ کو اجازت بخشی اور شیخ ابوطاہر نے مجھے اجازت عطا فرمائی۔

میں نے شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کے ہاتھ سے اسی سند کے ساتھ، انہی الفاظ میں یہ حدیث لکھی ہوئی دیکھی ہے۔ البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ شیخ عبد المصطفیٰ رحمة اللہ علیہ نے زیارت سے فارغ ہوکر آنحضورﷺ سے بخاری اور مسلم دونوں کتابوں کی احادیث کی صحت سے متعلق پوچھا۔آپؐ نے دونوں کی تصدیق کی اور دونوں کی روایت کی اجازت عطا فرمائی۔‘‘

(الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین، مجموعہ رسائل شاہ ولی اللہ جلد ششم صفحہ116-117)

10۔ صاحب کشف و رؤیا علمائے امت

علامہ یوسف نبھانی نے ایسے محدثین عظام و علمائے سلف و اولیاء اللہ کے نام درج کیے ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺ سے حالت رؤیا وکشف میں زیارت رسولﷺ کا شرف پایا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’علمائے سلف میں سے جو نبی کریمﷺ سے حالت بیداری میں اور بالمشافہ شرف ملاقات پاتے تھے ان کے نام یہ ہیں: ابو مدین مغربی شیخ الجماعة، شیخ عبدالرحیم القناوی، شیخ موسی الزولی، شیخ ابوالحسن الشاذلی، شیخ ابولعباس المرسی، شیخ ابو السعود بن ابی العشائر، سید ابراہیم المتبولی، شیخ جلال الدین سیوطی جو فرمایا کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو متعددبار دیکھا اور ستر سے زائد مرتبہ حالت بیداری میں شرف ملاقات پایا۔ جہاں تک میرےاستاذ سید ابراہیم متبولی کا تعلق ہے تو وہ اپنی ہر مجلس میں زیارت رسول کا شرف پاتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ کے علاوہ میرا کوئی استاد نہیں۔ ابو العباس مرسی کہا کرتے تھے کہ اگر مجھ سے رسول اللہﷺ کی زیارت پل بھر بھی پس پردہ ہوجائے تو میں خود کو تمام مومنین میں شمار نہیں کرتا۔‘‘

(سعادة الدارین للنبھانی صفحہ439-440)

11۔ امام شعرانیؒ کا قول

برکات روحانی اردو ترجمہ طبقات امام شعرانی کے صفحہ 34پر امام شعرانیؒ کا قول درج ہے کہ
’’میں نے اپنے شیخ (امام شافعیؒ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ائمہ مذاہب نے اپنے مذاہب کی تائید شریعت کے ساتھ ساتھ حقیقت کے قواعد پر چل کرکی ہے اور ان حضرات نے اپنے پیروکاروں کو جتلایا کہ وہ شریعت اور حقیقت دونوں کے عالم تھے۔نیز شیخ نے فرمایا کہ تمام اہل کشف کے نزدیک ائمہ مجتہدین میں سے کسی کا کوئی قول شریعت سے خارج نہیں اور ان کا شریعت سے خارج ہونا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے جب کہ ان حضرات کو اپنے اقوال کے کتاب و سنت اور اقوال صحابہ کرام سے مستفاد ہونے پر اطلاع ہے کشف صحیح سے مشرف ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی روح حضور سید عالمﷺ کی روح پاک کے حضور حاضر ہوتی ہے اور انہیں دلائل میں سے جس چیز کے متعلق کچھ تردد ہوتا ہے اس کے بارے میں بارگاہ سیدعالمﷺ سے سوال کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ! کیا یہ آ پ کا ارشاد ہے یا نہیں؟اور انہیں استفادہ کا یہ شرف بیداری میں اور سرکار علیہ السلام کے روبرو ہوکر حاصل ہوتا ہے اور اہل کشف کے درمیان شروط معتبرہ کے ساتھ یہ حاضری ہوتی ہے۔اسی طرح یہ حضرات اپنی کتابوں میں ہر مسئلہ کی تدوین اور اس کے ساتھ طاعت الہٰیہ کا شرف پانے سے پہلے حضورﷺ سے پوچھ لیا کرتے تھے کہ یارسول اللہﷺ! ہمیں فلاں آیت سے یہ مسئلہ سمجھ آیا ہے اور فلاں حدیث پاک میں آپ کے اس ارشاد مبارک سے ہمیں یہ مسئلہ معلوم ہوا۔ آپ اسے پسند فرماتے ہیں یا نہیں؟ پھر حضورﷺ کے ارشاد یا اشارہ کے مطابق عمل کرتے۔

امام شعرانی رحمة اللہ علیہ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ہم آئمہ مجتہدین کے کشف اور بارگاہ سید عالم ﷺ میں روحانی طور پر ان کے حاضر ہونے کا جو تذکرہ کیا ہےاگر اس کے بارے میں کسی کو الجھن ہوتو ہم اسے کہتے ہیں کہ یقیناً یہ اولیاء اللہ کی کرامات میں سے ہے اور اگر آئمہ مجتہدین اولیاء نہیں ہیں تو پھر روئے زمین پر کبھی کوئی ولی ہے ہی نہیں۔ جبکہ بے شمار اولیاء اللہ کے متعلق مشہور ہے حالانکہ وہ مرتبہ میں یقیناً آئمہ مجتہدین سے فروتر ہیں کہ انہیں رسول پاکﷺ کی بارگاہ میں حضوری کا اکثر شرف حاصل ہوتا تھا اور اس بات کی ان کے معاصرین تصدیق کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض کے اسماء گرامی یہ ہیں:

شیخ عبدالرحیم القضاوی،سیدی شیخ ابومدین المغربی،سیدی ابوالسعود بن ابی العشائر،سیدی شیخ ابراہیم الدسوتی،سیدی الشیخ ابوالحسن الشاذلی،سیسی الشیخ ابو العباس المرسی، سیدی الشیخ ابراہیم المتبولی، سیدی الشیخ جلال الدین السیوطی، سیدی الشیخ احمد الزواوی البجیری اور وہ مقدس جماعت جن کا ذکر ہم نے اپنی کتاب طبقات الاولیاء میں (یعنی یہی کتاب طبقات کبریٰ جو آپ کے ہاتھوں میں ہے) کیا ہے۔‘‘

(برکات روحانی اردو ترجمہ طبقات الکبریٰ صفحہ35)

12۔حکم عدل حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ کا فیصلہ

پس صاحب کشوف اولیاء اللہ اور ملہم من اللہ کی باتیں اپنی ذات میں ہی سند ہوتی ہیں کہ وہ خدا کے نور سے دیکھتے ہیں اور احادیث کی صحت اور عدم صحت کے بارہ میں بذریعہ وحی و الہام بھی اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پاتے ہیں۔ چنانچہ ایسی احادیث جو علمائے فن حدیث یا محدثین عظام کے نزدیک ان کے مقرر کردہ اصول و قواعداور معیاروں پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے صحیح قرار نہیں دی جاسکتیں، وہ بذریعہ کشف و الہام درست قرار دی جاسکتی ہیں کیونکہ صاحب کشف و ملہم من اللہ کو ان پر فوقیت حاصل ہے۔

رسول اللہﷺ کی پیشگوئی کے مطابق اس زمانہ کے حکم عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاحب کشف اور ملہم ومامور من اللہ ہیں۔ آپؑ نے اپنے سچے الہام کی بناء پرجن احادیث کو صحیح قرار فرمایا ہے تو بطور حکم عدل یہ آپؑ کا ہی منصب اورکام ہے۔

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ فرماتے ہیں:
’’حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کےلیے نیکی چاہتا ہے اس کے دل میں واعظ پیدا کردیتا ہے جب تک دل میں واعظ نہ ہو کچھ نہیں ہوتا اگر خدا کے قول کے خلاف کوئی قول ہو تو خدا کو اس خلاف قول کے ماننے میں کیا جواب دے گا۔ احادیث کے متعلق خود یہ تسلیم کر چکے ہیں۔ خصوصاً مولوی محمد حسین اپنے رسالہ میں شائع کر چکا ہے کہ اہلِ کشف احادیث کی صحت بذریعہ کشف کرلیتے ہیں اور اگر کوئی حدیث محدثین کے اُصولوں کے موافق صحیح بھی ہوتو اہلِ کشف اُسے موضوع قرار دے سکتے ہیں اور موضوع کو صحیح ٹھہرا سکتے ہیں۔‘‘

(الحکم 10اگست 1903ء نمبر29 جلد7 صفحہ3)

نیز فرمایا:
’’جس حال میں اہلِ کشف احادیث کی صحت کے اس معیار کے پابند نہیں جو محدثین نے مقرر کیا ہے بلکہ وہ بذریعہ کشف اُن کی صحیح قراردادہ احادیث کو موضوع ٹھہرانے کا حق رکھتے ہیں تو پھر جس کو حَکم بنایا گیا ہے اس کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا؟ خدا تعالیٰ جو اُس کا نام حَکم رکھتا ہے یہ نام ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ سارا طب ویابس جو اُس کے سامنے پیش کیا جاوے گا تسلیم نہیں کریگا بلکہ بہت سی باتوں کو ردّ کر دے گا اور جو صحیح ہونگی اُن کے صحیح ہونے کا وہ فیصلہ دے گا ورنہ حَکم کے معنے ہی کیا ہوئے ؟ جب اس کی کوئی بات ماننی ہی نہیں تو اُس کے حَکم ہونے سے فائدہ کیا؟‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 20-21)

مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعة السنة نمبر11 جلد7ٍ صفحہ نمبر 335تا346 پر اس موقف کے بارہ علماء و فقراء و اولیاء اللہ کی شہادتیں دے کر مفصل بحث کی جس کا خلاصہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ نے ازالہ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد3ٍ صفحہ175تا178 پر بیان فرمایا ہے۔

اس مفصل بحث کے بعد مولوی محمد حسین بٹالوی نے آخر پر لکھا ہے کہ
’’اس خیال و اعتقاد کے لوگ متقدمین و متاخرین اہل اسلام میں اور بہت ہیں، ان سب کے اقوال نقل کرنے کی اس مقام میں گنجائش نہیں۔ ان چند اقوال منقولہ بالا سے امر سوم کا بیان شافی ہوگیا اور بخوبی ثات ہوا کہ الہام یا کشف کو حجت و دلیل جاننے والے بھی اکابر اسلام (صوفیہ کرام و محدثین عظام) ہیں جیسے کہ اس کی حجیت کے منکر اکابر ہیں۔ یہ مسئلہ ایسا نیا اور انوکھا نہیں جس کا کوئی قائل نہ ہو۔‘‘

(اشاعة السنة نمبر11 جلد7ٍ صفحہ نمبر346)

حضرت مسیح موعودؑ مذکورہ بالا خلاصہ کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
’’الہام اور کشف کی عزت اور پایۂ عالیہ قرآن شریف سے ثابت ہے وہ شخص جس نے کشتی کو توڑا اور ایک معصوم بچہ کو قتل کیا جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے وہ صرف ایک ملہم ہی تھا نبی نہیں تھا۔ الہام اور کشف کا مسئلہ اسلام میں ایسا ضعیف نہیں سمجھا گیا کہ جس کا نورانی شعلہ صرف عوام الناس کے مُنہ کی پھونکوں سے مُنطفی ہوسکے یہی ایک صداقت تو اسلام کے لیے وہ اعلیٰ درجہ کا نشان ہے جو قیامت تک بے نظیر شان و شوکت اسلام کی ظاہر کررہاہے یہی تو وہ خاص برکتیں ہیں جو غیر مذہب والوں میں پائی نہیں جاتیں۔ ہمارے علماء اس الہام کے مخالف بن کر احادیث نبویہ کے مکذب ٹھہرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ہرایک صدی پر ایک مُجدّد کا آنا ضروری ہے اب ہمارے علماء کہ جو بظاہر اتباع حدیث کا دم بھرتے ہیں انصاف سےبتلاویں کہ کس نے اس صدی کے سر پر خدائے تعالیٰ سے الہام پاکر مُجدّد ہونے کادعویٰ کیا ہے یوں تو ہمیشہ دین کی تجدید ہورہی ہے مگر حدیث کا تو یہ منشاء ہے کہ وہ مجدد خدائے تعالیٰ کی طرف سے آئے گا یعنی علوم لَدُنّیہ و آیات سماویہ کے ساتھ۔ اب بتلاویں کہ اگر یہ عاجز حق پر نہیں ہے تو پھروہ کون آیا جس نے اس چودہویں صدی کے سر پر مجدّد ہونے کا ایسا دعویٰ کیا جیسا کہ اس عاجز نے کیا کوئی الہامی دعاوی کے ساتھ تمام مخالفوں کے مقابل پر ایسا کھڑا ہوا جیسا کہ یہ عاجز کھڑا ہوا تفکروا و تندّموا واتّقوا اللّٰہ ولا تغلوا‘‘

(ازالہ اوہام حصہ اول، روحانی خزائن جلد3 صفحہ178-179)

(ابو فاضل بشارت)

پچھلا پڑھیں

رومانیہ کے ایک ٹی وی پروگرام میں اسلام احمدیت کی شمولیت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جولائی 2022