• 29 اپریل, 2024

انسان کو ہر وقت اپنے قویٰ سے کام لینا چاہئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر آپ فرماتے ہیں کہ انسان کو ہر وقت اپنے قویٰ سے کام لینا چاہئے۔ فرمایا کہ: ’’غرض یہ قویٰ جو انسان کو دئے گئے ہیں اگر وہ ان سے کام لے تو یقیناً ولی ہو سکتا ہے۔‘‘ فرمایا: ’’مَیں یقینا کہتا ہوں کہ اس امت میں بڑی قوّت کے لوگ آتے ہیں جو نور اور صدق اور صفاسے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے کوئی شخص اپنے آپ کو ان قُویٰ سے محروم نہ سمجھے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی فہرست شائع کر دی ہے جس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہمیں ان برکات سے حصہ نہیں ملے گا‘‘۔ یعنی فلاں لوگوں کو ملنا ہے اور ہمیں نہیں مل سکتا، ایسی کوئی فہرست نہیں ہے۔ فرمایا: ’’خداتعالیٰ بڑا کریم ہے۔ اس کی کریمی کا بڑا گہرا سمندر ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور جس کو تلاش کرنے والا اور طلب کرنے والا کبھی بھی محروم نہیں رہا۔ اس لئے تم کو چاہیے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو۔ ہر ایک نماز میں دعا کے لئے کئی ایک مواقع ہیں۔ رکوع، قیام، قعدہ، سجدہ وغیرہ۔ پھر آٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ پڑھی جاتی ہے۔ فجر، ظہر، عصر، شام اور عشاء۔ ان پر ترقی کر کے اشراق اور تہجد کی نمازیں ہیں۔ یہ سب دعا ہی کے لئے مواقع ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ233-234 ایڈیشن 2003ء)

پھر اس بارے میں وضاحت فرماتے ہوئے کہ نماز کی اصل غرض اور مغز دعا ہی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ: ’’نماز کی اصلی غرض اور مغز دعا ہی ہے اور دعا مانگنا اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے عین مطابق ہے۔ مثلاً ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ جب بچہ روتا دھوتا ہے اور اضطراب ظاہر کرتا ہے تو ماں کس قدر بے قرار ہو کر اس کو دودھ دیتی ہے۔ اُلوہیّت اور عبودیّت میں اسی قسم کا ایک تعلق ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اور بندے میں اسی قسم کا تعلق ہے۔ ’’جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کے دروازے پر گر پڑتا ہے اور نہایت عاجزی اور خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے حضور اپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے تو اُلوہیت کا کرم جوش میں آتا ہے اور ایسے شخص پر رحم کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا دودھ بھی ایک گریہ کو چاہتا ہے۔‘‘ رونے اور آہ و زاری کو چاہتا ہے۔ ’’اس لئے اس کے حضور رونے والی آنکھ پیش کرنی چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ234 ایڈیشن 2003ء)

پھر فرمایا کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید رونے دھونے سے اور دعاؤں سے کچھ نہیں ملتا۔ اور آجکل دہریت نے نوجوانوں میں بھی اور بعض لوگوں میں بھی اس قسم کے خیالات بڑے زور شور سے پیدا کرنے شروع کئے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:‘‘بعض لوگوں کا یہ خیال کہ اللہ تعالیٰ کے حضور رونے دھونے سے کچھ نہیں ملتا بالکل غلط اور باطل ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی صفات قدرت و تصرف پر ایمان نہیں رکھتے۔ اگر ان میں حقیقی ایمان ہوتا تو وہ ایسا کہنے کی جرأت نہ کرتے۔ جب کبھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حضور آیا ہے اور اس نے سچی توبہ کے ساتھ رجوع کیا ہے’’۔ یہ سچی توبہ شرط ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احکام دئیے ہیں، اُن کی پابندی کرنی ہو گی۔ ‘‘اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اس پر اپنا فضل کیا ہے۔ یہ کسی نے بالکل سچ کہا ہے

عاشق کہ شد کہ یار بحالش نظر نہ کرد
اے خواجہ دردنیست وگرنہ طبیب ہست

کہ یہ عاشق کیسا ہے کہ یار نے اُس کے حال کو دیکھا تک نہیں۔ اے دوست! درد ہی نہیں ہے ورنہ طبیب تو حاضر ہے۔ تمہارے اندر ہی وہ درد پیدا نہیں ہو رہا ورنہ علاج کے لئے اللہ تعالیٰ تو حاضر ہے۔

فرمایا کہ: ’’خدا تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ تم اس کے حضور پاک دل لے کر آجاؤ۔ صرف شرط اتنی ہے کہ اس کے مناسب حال اپنے آپ کو بناؤ۔ اور وہ سچی تبدیلی جو خدا تعالیٰ کے حضور جانے کے قابل بنا دیتی ہے اپنے اندر کر کے دکھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میں عجیب درعجیب قدرتیں ہیں اور اس میں لا انتہا فضل وبرکات ہیں مگر ان کے دیکھنے اور پانے کے لئے محبت کی آنکھ پیدا کرو۔ اگر سچی محبت ہو تو خد اتعالیٰ بہت دعائیں سنتا ہے اور تائیدیں کرتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ234 ایڈیشن 2003ء)

(خطبہ جمعہ 4؍اکتوبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 اگست 2022