• 19 اپریل, 2024

سورۃ الحجر اور النّحل کا تعارف ازحضرت خلیفۃ المسیح الرابع

سورۃ الحجر اور النّحل کا تعارف
ازحضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃ الحجْر

یہ سورت مکی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو آیات ہیں۔

اس سورت کا آغاز الٓرٰ سے ہوتا ہے اور اس کے بعد ان مقطعات کو نہیں دہرایا گیا۔

گزشتہ سورت میں مذکور جلالی و جمالی نشانات کے نتیجہ میں بعض اوقات کفار کے دل پر بھی رعب طاری ہو جاتا ہے، اس کا ذکر یوں فرمایا گیا کہ وہ بھی دل ہی دل میں کبھی تو حسرت کرتے ہیں کہ کاش ہم تسلیم کرنے والوں میں سے ہو جاتے۔ لیکن اس کے بعد پھر اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ جاتے ہیں اور رسولوں کے غلبے کا تو انکار کر نہیں سکتے، الزام یہ لگاتے ہیں کہ شاید یہ ہماری آنکھوں پر جادو کر دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ بڑی تحدّی سے یہ اعلان فرماتا ہے کہ دشمن خواہ کچھ بھی کہے یقیناً ہم نے ہی اس کتاب کو نازل فرمایا ہے اور آئندہ بھی اس کی حفاظت کرتے چلے جائیں گے۔

اس کے بعد کی آیات میں بُرُوْج کا ذکر فرمایا گیا ہے جو سورۃ البُرُوْج کی یاد دلاتا ہے اور ’’ہم ہی اس کلام کی حفاظت کریں گے‘‘ کے مضمون پر سے پردہ اٹھاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگ معمور ہوتے رہیں گے جو قرآن کریم کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت مستعد رہیں گے ۔ یہاں بروج میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جو مجددین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ برجوں کے طور پر آتے رہے وہ بھی اسی کام پر معمور تھے۔

جس طرح قرآن کریم کے مضامین نہ ختم ہونے والے ہیں اسی طرح بنی نوع انسان کی تمام ضرورتیں پوری کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً ایسے خزائن عطا فرماتا رہتا ہے جو نہ ختم ہونے والے ہیں ۔ چنانچہ ایندھن کا نظام اس کی ایک عظیم مثال ہے۔ کبھی انسان کو فکر تھی کہ لکڑی ختم ہو جائے گی تو کیا کریں گے۔ کبھی یہ فکر لاحق ہوئی کہ کوئلہ ختم ہو جائے گا تو کیا کریں گے۔ کبھی یہ فکر لاحق ہوئی کہ تیل ختم ہو جائے گا تو کیا کریں گے ۔ لیکن اس سے پہلے کہ تیل ختم ہو اللہ تعالیٰ نے ایک اور نہ ختم ہو نے والی قوت کے ذریعہ کی طرف انسان کی توجہ مبذول فرما دی ہے یعنی ایٹمی توانائی ۔ انسان اگر اس توانائی سے پورا استفادہ کرنے کے قابل ہو جائے اور اس کے منفی اثرات سے بچاؤ کی تدبیریں سوچ لے تو یہ وہ توانائی ہے جو قیامت تک کبھی ختم نہیں ہو سکتی ۔پس قرآن کے روحانی خزائن کی طرح انسان کی بقا کے مادی خزائن بھی نہ ختم ہونے والے ہیں ۔

اس کے بعد یہ بھی ذکر ہے کہ یہ دونوں قسم کے خزائن جو انسان کے لئے قیامت تک نازل کئے جاتے رہیں گے ان کے نتیجہ میں شیطان وسوسے بھی پیدا کرتا رہے گا اور وساوس کا یہ سلسلہ بھی قیامت تک منقطع نہیں ہو گا ۔

اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ بعض دیگر انبیاء اور ان کی قوموں کا ذکر ملتا ہے ۔اس سلسلہ میں اَصْحَابُ الْاَ یْکَہ اور اَصْحَابُ الْحِجْر قوموں کی مثال بھی دی گئی ہے یہ بتانے کے لئے کہ اسی طرح آئندہ زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ رسولوں کے مخالفوں کو ختم کرتا چلا جائے گا۔

اسی طرح اس میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ایک بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری کا بھی ذکر ہے۔ اس پیشگوئی میں اگرچہ حضرت اسحاق ؑ اور یعقوبؑ وغیرہ کا بھی ذکر ہے لیکن اوّل طور پر یہ پیشگوئی حضرت اسماعیلؑ پر چسپاں ہوتی ہے جن کی جسمانی اور روحانی ذرّیت میں سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا ہونا تھا ۔

پس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ تجھ پر جو تمسخر کرتے ہیں اُن سے در گزر کر ۔ہم خود ہی اُن سے نپٹنے والے ہیں اور جب بھی تیرے دل کو ان کی باتوں سے تکلیف پہنچے تو صبر کے ساتھ اپنے ربّ کی حمد کرتا چلا جا ۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ، صفحہ424-423)

سورۃ النّحل

یہ مکی سورت ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو انتیس آیات ہیں۔

گزشتہ سورت کی آخری آیت میں جس یقین کا ذکر فرمایا گیا ہے اس کے ایک معنٰے موت کے بھی لئے گئے ہیں مگر پہلا معنیٰ بہر حال یقین ہی ہے۔ اس سورت کا آغاز ہی اس امر سے فرمایا گیا ہے کہ جس یقینی امر کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا وہ آیا ہی چاہتا ہے ۔پس اے منکرو! تم اس کے طلب کرنے میں جلدی نہ کرو اور یقین رکھو کہ آسمان سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے ،اپنے فرشتے نازل فرماتا ہے۔

اس کے بعد ہر قسم کے جانوروں کی تخلیق کا ذکر فرمانے کے بعد یہ عظیم الشان پیشگوئی فرمائی گئی ہے کہ اس قسم کی اور سواریاں بھی اللہ تعالیٰ پیدا فرمائے گا جن کا تمہیں اس وقت کوئی علم نہیں ۔ چنانچہ فی زمانہ ایجاد ہونے والی نئی نئی سواریوں کی پیشگوئی اس آیت میں فرما دی گئی ہے ۔

اسی طرح ہر قسم کے جانداروں کی بقا کے متعلق فرمایا کہ وہ آسمان سے اترنے والے پانی ہی کے ذریعہ ہوتی ہے جس سے زمین میں سبزہ اُگتا ہے اور ہر قسم کے درخت اور پھل پیدا ہوتے ہیں ۔لیکن آسمانی پانی کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے وہ اَنْعَام نہیں جانتے جو گھاس وغیرہ چرتے تو ہیں لیکن اس کی کُنہ کو نہیں سمجھتے ۔ پس روحانی پانی سے جو زندگی اللہ کے رسول پاتے ہیں اور اس فیض کو آگے جاری کرتے ہیں اسے وہ لوگ نہیں سمجھ سکتے جن کی مثال قرآن کریم نے اَنْعَام سے دی ہے بلکہ ان کو اَشَرّ قرار دیا ہے کہ ان کا تو جانداروں سے بھی بد تر حال ہے کیونکہ اَنْعَام تو اس کو سمجھنے کی بھی اہلیت ہی نہیں رکھتے مگر یہ دین کو بظاہر سمجھنے کے باوجود پھر بھی اس کے فیض سے محروم رہتے ہیں۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے سمندر میں پائی جانے والی نعمتوں اور سمندر میں کھارے پانی میں پلنے والی مچھلیوں وغیرہ کا بھی ذکر فرما دیا جو کھارا پانی پیتی ہیں، اسی میں گزر بسر کرتی ہیں لیکن ان کے گوشت میں کھار کا کوئی ادنٰی سا بھی نشان نہیں پایا جاتا۔ اور اس طرف بھی توجہ دلائی کہ پانی کے ذریعہ اس بقا کے نظام کا انحصار ان پہاڑوں پر ہے جو بڑی مضبوطی سے زمین میں گڑے ہوتے ہیں۔ اگر یہ پہاڑ نہ ہوتے تو سمندر سے شفاف پانی کے اٹھنے اور اس کے برسنے کا یہ نظام جاری رہ ہی نہیں سکتا تھا۔

قرآن کریم نے سایوں کے زمین پر بچھے ہونے کا ذکر اس رنگ میں فرمایا ہے گویا وہ سجدہ ریز ہیں ۔لیکن دَآبَّۃ اور ملائکہ بھی اللہ کی عظمت کے حضور سجدہ ریز رہتے ہیں ۔ دَآبَّۃ زمین سے اپنی زندگی کا سامان پانے کے نتیجہ میں زبانِ حال سے ہمیشہ اللہ کے حضور سجدہ ریز رہتے ہیں اور فرشتے آسمان سے اترنے والے پانی کی معرفت حاصل ہونے کی وجہ سے سربسجود رہتے ہیں ۔

آیت کریمہ نمبر62 میں یہ حیرت انگیز مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر اللہ انسانوں کے ہر ظلم پر فوراً گرفت فرمانا شروع کر دے تو زمین پر چلنے پھرنے والے جانوروں کی صف لپیٹ دی جائے۔ دراصل انسان کو اس پر غور کرنے کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے کہ اگر دَآبَّۃ نہ ہوتے تو انسان کی بقا ممکن ہی نہ تھی۔ اسی لئے پھر معاً بعد یہ فرمایا کہ مویشیوں میں تمہارے لئے بہت بڑا عبرت کا سامان ہے

اس کے بعد وحی کی عظمت کا بیان شہد کی مکھی کی مثال دے کر فرمایا گیا۔ کسی دوسرے جانور پر وحی کے نزول کا ذکر نہیں ملتا۔ دیکھا جائے تو شہد کی مکھی اُسی طرح ایک مکھی ہی ہے جیسے عام گندگی پر پلنے والی مکھی ہوتی ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ وحی کے ذریعہ خدا نے اس کو ہر گندگی سے پاک کر دیا۔ یہ اپنے گھر بھی پہاڑوں پر اور بلند درختوں پر اور اُن بیلوں پر بناتی ہے جو بلند سہاروں پر چڑھائی جاتی ہیں۔ پھر اس پر وحی کی گئی کہ وہ ہر پھول کا رس چوسے اگرچہ لفظ ثَمَر استعمال فرمایا ہے مگر اس میں دوہری حکمت یہ ہے کہ مکھی کے اس پھول کو چوسنے کے نتیجہ میں ہی اس میں سے ثمر پیدا ہوتا ہے اور ہر پھل کا عرق اور نچوڑ بھی وہ پھول سے ہی چوستی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو شہد بناتی ہے اس میں انسانوں کے لئے ایک عظیم الشان شفا رکھ دی گئی ہے ۔

یہاں یَخۡرُجُ مِنۡۢ بُطُوۡنِہَا فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ شہد صرف پھولوں کے رس سے نہیں بنتا بلکہ شہد کی مکھی کے بطن سے جو لُعاب نکلتا ہے اسے وہ پھولوں کے رس سے ملا کر اور بار بار زبان ہوا میں نکال کر اسے گاڑھا کر کے شہد میں تبدیل کرنے کے بعد چھتوں میں محفوظ کرتی ہے ۔

پھر اس کے بعد دو غلاموں کی مثال دی گئی ہے ایک ایسا احمق غلام جس کے کاموں میں کوئی بھی بھلائی نہیں ہوتی اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ حسن ِ رزق عطا فرماتا ہے اور پھر وہ اسے آگے بھی بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے خرچ کرتا ہے۔ اس کا بھی شہد کی مکھی سے ایک بہت گہرا جوڑ ہے۔ عام مکھی تو ایسے مملوک کی طرح ہے جس کے اندر کوئی فائدہ نہیں اور شہد کی مکھی ایسے مملوک کی طرح ہے جسے رزقِ حسن عطا کیا جاتا ہے اور پھر وہ آگے بھی بنی نوع انسان کے فوائد کے لئے یہ رزق تقسیم کرتی ہے۔

اس کے بعد مختلف قسم کے غلاموں کی مثال کو آگے بڑھا کر انسانوں پر چسپاں فرمایا گیا ہے ۔وہ مملوک جو اللہ کی وحی سے فیضیاب نہیں ہوتا اور اللہ کو گونگا سمجھتا ہے وہ خود ہی اَبْکَمْ یعنی گونگا ہے ۔ وہ تو ایسا ہی ہے کہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالے گا نقصان ہی کا سودا کرے گا۔ خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ۔ اور دوسرے مملوک خدا کے انبیاء ہوتے ہیں جو بنی نوع انسان کو عدل کی تعلیم دیتے ہیں اور ہمیشہ صراطِ مستقیم پر رواں رہتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ شہد کی مکھی کے متعلق بھی یہی فرمایا تھا کہ اپنے ربّ کے رستوں پر چل ۔تو انبیاء اس پہلو سے اس پر بہت بڑی فضیلت رکھتے ہیں کہ اُس ایک سیدھے رستے پر چلتے ہیں جو لازماً اللہ تک پہنچا دیتا ہے۔

اس کے بعد اسی سورت میں پرندوں کے متعلق یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ جو آسمان پر اڑتے پھرتے ہیں یہ خیال مت کرو کہ محض اتفاقاً اُن کو پَر عطا ہوگئے ہیں اور اڑنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ۔صرف پروں کا پیدا ہونا ہی پرندوں میں اڑنے کی صلاحیت پیدا نہیں کرسکتا تھا جب تک کہ اس کی کھوکھلی ہڈیاں، اس کی چھاتی کی خاص بناوٹ اور چھاتی کے دونوں طرف نہایت مضبوط عضلات نہ بنائے جاتے جو بہت بڑا بوجھ اٹھا کر انہیں بلند پروازی کی توفیق بخشتے ہیں۔ یہ ایک ایسا حیرت انگیز کرشمہ ہے کہ انتہائی وزنی مگَھ بھی مسلسل کئی ہزار میل تک اڑتے چلے جاتے ہیں اور اور اڑتے وقت ان کی جو اندرونی ترکیب ہے وہ اس طرح ہے کہ جیسے جیٹ جہاز کا سامنے کا حصہ ہوا کو منتشر کرتا ہے اسی طرح ہوا کا دباؤ ان پر اس بناوٹ کی وجہ سے کم سے کم پڑتا ہے ۔اور جو مکَھ سب سے زیادہ اس دباؤ کو برداشت کرنے کے لئے دوسروں کے آگے ہوتا ہے ،کچھ دیر کے بعد پیچھے سے ایک اور مگَھ آکر اس کی جگہ لے لیتا ہے ۔پھر یہی پرندے آبی پرندے بھی بنتے ہیں اور ڈوبتے نہیں حالانکہ ان کو اپنے وزن کی وجہ سے ڈوب جانا چاہئے تھا ۔نہ ڈوبنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے جسم کے اوپر چھوٹے چھوٹے پَر ہوا کو سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں اور پَروں میں قید ہوا ان کو ڈوبنے سے بچاتی ہے ۔ اور یہ خود بخود ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ضروری ہے کہ ان پَروں کے گرد کوئی ایسا چکنا مادہ ہو جو پانی کو پَروں میں جذب ہونے سے روکے ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ پرندے سارے پَر اپنی چونچوں میں سے گزارتے ہیں ۔یہ عجیب بات ہے کہ اس وقت ان کے جسم میں سے اللہ تعالیٰ گرِیس (Grease) کی طرح کا وہ مادہ نکالتا ہے جسے پَروں پر ملنا لازمی ہے ۔ وہ مادہ کیسے از خود پیدا ہو اور ان کے منہ تک کیسے پہنچا اور ان پرندوں کو کیسے شعور ہوا کہ جسم تک پانی کے سرایت کرنے کوروکنا لازمی ہے ورنہ وہ ڈوب جائیں گے؟

آگے قرآن کریم کے اس حیرت انگیز معجزے کا ذکر فرمایا گیا کہ ہر چیز کی وہ تفصیل بیان فرما رہا ہے ۔اور دوسری کتابوں پر اس پہلو سے قرآن ِکریم کو جو فضیلت حاصل ہے وہی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیگر انبیاء پر ہے ۔ اسی وجہ سے جیسے وہ اپنی قوموں پر شہید تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ان انبیاء پر بھی شہید مقرر فرمایا گیا ۔

قرآن کریم کی تعلیم ہر چیز پر حاوی ہے ۔اس کی مثال آیت کریمہ نمبر91 ہے جو خود اخلاقی اور روحانی تعلیمات کو سمیٹے ہوئے ہے اور ان پر حاوی ہے ۔ سب سے پہلے عَدْل کا ذکر فرمایا گیا جس کے بغیر دنیا میں کوئی اصلاح ممکن نہیں۔ پھر اِحْسَان کا ذکر فرمایا گیا جو انسان کو عدل سے ایک بالا مقام عطا کرتا ہے۔پھر اِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی فرما کر اس مضمون کو آخری بلندی تک پہنچا دیا گیا کہ وہ بنی نوع انسان کی ہمدردی میں اس طرح خرچ کرتے ہیں کہ جیسے ماں اپنے بچوں پر کرتی ہے اور اس کے بدلہ میں کسی خدمت یا صلہ کا واہمہ تک اس کے دل سے نہیں گزرتا ۔اور یہ اعلیٰ ترین مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا تھا کہ آپ ہر قسم کے عوض کے تصور سے پاک رہ کر بنی نوع انسان کو فیض پہنچا رہے تھے۔

اس سورت کےآخری رکوع میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو ایک فرد تھے ،پوری امّت کے طور پرپیش کیا گیا ہے کیونکہ آپ ہی سے بہت سی امّتوں نے پیدا ہونا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ کر یہ مضمون اپنے معراج تک پہنچ جاتا ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ وحی فرمائی گئی کہ اس ابراہیمی سنت پر عمل پیرا ہو۔ اور اس کا خلاصہ یہ پیش فرما دیا گیا کہ اپنے ربّ کی طرف حکمت اور موعظۂ حسنہ سے بلاؤ۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان انتہائی صبر سے کام لینے والا ہو۔ لَا تَسْتَعْجِلْ میں جو ارشاد ہے اس میں بھی اس مضمون کی طرف اشارہ ہے۔ عظیم روحانی انقلاب آناً فاناً برپا نہیں ہوا کرتے بلکہ اس کے لئے بے انتہا صبر کی ضرورت ہے۔ پس یہ صبر تو تقویٰ کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان لوگوں کو عطا ہوتا ہے جو احسان کرنے والے ہیں۔

یہاں احسان کا ایک مضمون تو یَاْ مُرُ بِا لْعَدْ لِ وَا لْاِ حْسَانِ میں بیان فرما دیا گیا ہے اور دوسرا اس کی وہ تشریح ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی کہ احسان یہ ہے کہ جب تُو عبادت کے لئے کھڑا ہو تو ایسے کھڑا ہو گویا تُو اللہ کو دیکھ رہا ہے اور احسان کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ تُو اس طرح با ادب کھڑا ہو جیسے وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ438-435)

(مرسلہ: عائشہ چوہدری۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 ستمبر 2021

اگلا پڑھیں

آج کی دعا