• 5 مئی, 2024

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام (قسط 38)

ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام
بیٹیوں سے پیار، محبت اور اکرام
قسط 38

آفتابِ ہدایت طلوع ہونے سے پہلے بیٹی کی پیدائش کی خبر سے گھر میں سوگ کی کیفیت پیدا ہوجا تی بعض قبائل میں اس سانحے کو اس قدر باعثِ ذلت و رسوائی سمجھا جاتا کہ بچی کو زندہ درگور کردیا جاتا۔ رحمۃللعالین حضرت محمد مصطفیﷺ نے ہر تاریکی کو نور میں بدلنے کے لئے انقلابی تعلیم دی اور خود عمل کرکے مثال پیش فرمائی۔

آنحضورﷺ نے فرمایا: ’’جس کی تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو لڑکیاں اور دو بہنیں ہوں اور وہ انہیں ادب سکھائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کی شادی کردے تو ان کے لیے جنت ہے۔‘‘

(ابو داوٴد)

جس کی ایک بیٹی ہو اور اس نے اسے اچھا ادب سکھلایا اور اچھی تعلیم دی اور اس پر ان انعامات کو وسیع کیا جو کہ اللہ نے اس کو دیےتو وہ بیٹی اس کے لیے جہنم سے رکاوٹ اور پردہ بنے گی۔

(احمد بن حنبل 4:414)

جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اسے تعلیم دے اور اچھی طرح سے پڑھائے اور ادب سکھائے اور خوب اچھی طرح سے ادب سکھائے اور پھر اسے آزاد کرکے شادی کردے تو اسے دو اجر ملیں گے۔

تین بیٹیاں، دو بیٹیاں، ایک بیٹی حتی ٰکہ لونڈی کی اچھی تعلیم و تربیت پر جنت کی بشارتیں دیں۔ بیٹیوں سے حسن سلوک کے طریق سیکھنے اور جزا میں جنت جیسی نعمت کے حصول کے لئے آپؐ کے اپنی بیٹیوں سے برتاؤ کا مطالعہ کرتے ہیں۔

حضرت سیدہ زینبؓ 

آنحضرتﷺ کی دوسری اولاد اور پہلی صاحبزادی تھیں۔ آپؐ کے اعلانِ نبوت سے دس سال قبل حضرت خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ اپنی والدہ کے ساتھ اسلام قبول کرلیا ان کی شادی کم سنی میں خالہ زاد ابوالعاص سے ہوگئی تھی۔ جب آنحضورﷺ نے مکہ سے ہجرت کی تو آپ نے اپنے شوہر کے ساتھ رہنا پسند کیا۔ مگر ہجرت کے بعد مخالفین نے مکہ میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا ابو العاص نے بھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ بنتِ رسولؐ کو انتہائی خطرہ تھا۔ اس لئے حضورﷺنے ان کو مدینہ بلالیا۔ جب یہ اونٹ پر سوار ہو کر مکہ سے روانہ ہوئیں تو کافروں نے ان کا راستہ روک لیا۔ ظالم ہباربن الاسود نے نیزہ مار کر ان کو اونٹ سے زمین پر گرا دیا چوٹ لگنے سے ان کا حمل ساقط ہو گیا یہ دیکھ کر ان کے دیور کنانہ کو طیش آ گیا اور اس نے جنگ کے لیے تیر کمان اٹھا لیا۔ مشرکین نے پسپائی اختیار کر لی مگر سیدہ زینبؓ ان کے چنگل سے نکل کر ہجرت کی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکیں۔

غزوہ ٔبدر کے قیدیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابو العاص بن ربیع بھی تھے اہل مکہ نے جب اپنے اپنے قیدیوں کا فدیہ روانہ کیا تو حضرت زینبؓ نے اپنے شوہر کے فدیہ میں اپنی والدہ حضرت خدیجہؓ کا شادی کے وقت دیا ہؤا ہار بھیجا جو آنحضرتﷺ نے پہچان لیا اور آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ یہ ہار تو خدیجہؓ کا ہے پھر آپؐ نے صحابہؓ سے پوچھا کہ اگر مناسب سمجھو تو یہ ہار اس کو واپس کردیں اور اس قیدی کو چھوڑ دیں سب نے سرتسلیم خم کرتے ہوئے قیدی کو بھی چھوڑ دیا اور ہار بھی واپس کردیا۔ آپؐ نے ابوالعاص سے یہ وعدہ لیا کہ مکہ جا کر میری بیٹی زینبؓ کو مدینہ روانہ کردے گا۔ آنحضورؐ اپنی بیٹی کی وجہ سے پریشان رہتے تھے۔ ایک دن حضرت زید بن حارثہؓ سے ارشاد فرمایا کہ کیا تم زینب کو میرے پاس لا سکتے ہو؟حضرت زیدؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! کیوں نہیں؟ چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا یہ انگوٹھی لے جاؤ اور زینب کو پہنچادو حضرت زیدؓ کمال حکمت سے مکہ گئے اور شہر کے نواح میں پہنچ کر جائزہ لینے لگے۔ اس دوران حضرت زیدؓ ایک چرواہے سے ملے اور اس سے پوچھا کہ تم کس کے ملازم ہو؟ اس نے بتایا کہ میں ابوالعاص کا ملازم ہوں پھر حضرت زیدؓ نے پوچھا یہ بکریاں کس کی ہیں اس نے کہا زینب بنت محمدﷺ کی۔ حضرت زیدؓ نے نبی کریمﷺ کی انگوٹھی اس چرواہے کے ذریعہ حضرت زینبؓ کو بھجوائی۔ انگوٹھی دیکھ کر وہ سمجھ گئیں کہ ان کے باپ کا سندیسہ ہے اگلی رات ابو العاص حضرت زینبؓ کو لے کر نکلے اور یاجج کے مقام پر انہیں حضرت زیدؓ کے ساتھ مدینہ روانہ کرکے واپس آگئے حضرت زینب اپنے مقدس والد کے پاس مدینہ پہنچ گئیں۔ ابوالعاص نے حسب وعدہ حضرت زینبؓ کو مدینہ منورہ بھیج دیا۔ فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور مدینہ تشریف لائے آپؐ نے ہجرت کے چھ سال بعد حضرت زینبؓ کو ان کی زوجیت میں دے دیا۔ آپ کی خدمت میں پہنچ کر سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کفار کی طرف سے پہنچنے والے مظالم کا ذکر فرمایا تو آپؐ کا دل بھر آیا فرمایا

ھِیَ اَفْضَلُ بَنَاتِیْ اُصِیْبَتْ فِیَّ

یہ میری بیٹیوں میں اس اعتبار سے بہت فضیلت والی ہے کہ میری طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔ آپؐ کو اپنی نواسی امامہؓ سے بھی بہت محبت تھی وہ جو نماز پڑھتے ہوئے بچی کو اٹھانے کا واقعہ ہے وہ امامہ ہی تھیں کھڑے ہوتے تو اسے گود میں اٹھا لیتے اور سجدے میں جاتے تو ایک طرف بٹھا دیتے ایک دفعہ نجاشی نے کچھ تحائف بھیجے تو ان میں ایک قیمتی انگوٹھی بھی تھی جو آپ نے امامہ کو عنایت فرمائی اسی طرح کسی نے ایک مرتبہ بہت ہی بیش قیمت اور انتہائی خوبصورت ایک ہار نذر کیا تو آپﷺ نے یہ فرمایا کہ میں یہ ہار اس کو پہناؤں گا جو میرے گھر والوں میں مجھ کو سب سے زیادہ پیاری ہے یہ فرما کر آپﷺ نے یہ قیمتی ہار اپنی نواسی امامہ کے گلے میں ڈال دیا۔

سیدہ زینبؓ آپؐ کی زندگی ہی میں پرانے زخموں کے ہرا ہونے کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔ آنحضورﷺ نے بہت صدمہ محسوس فرمایا تجہیز و تکفین کے بارے میں ہدایات دیں اپنا تہہ بند ان کے کفن کے لئے دیا اور نماز جنازہ پڑھا کر خود اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کو قبر میں اتارا۔ آپؓ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی غمگین دل کے ساتھ فرمایا ’’میں نے زینب کے ضعف کے خیال سے اللہ سے دعا کی ہے کہ اے اللہ! اس کی قبر کی تنگی اور غم کو ہلکا کردے اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کرلی اور اس کے لئے آسانی پیدا کردی ہے‘‘

آپؐ نے وفات پر وفورغم سے رونے والوں کو منع نہیں فرمایا بلکہ بین کرنے سے منع فرمایا۔
’’وہ دکھ جو آنکھ اور دل سے ظاہر ہو وہ اللہ کی طرف سے ایک پیدا شدہ جذبہ ہے اور رحمت اور طبعی محبت کا نتیجہ ہے اور جو ہاتھ اور زبان سے ظاہر ہو وہ شیطانی فعل ہے‘‘

حضرت سیدہ رقیہؓ 

حضرت سیدہ رقیہؓ آنحضرتﷺ کی دوسری صاحبزادی تھیں۔ آپؐ کےاعلانِ نبوت سے سات سال قبل حضرت خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ اپنی والدہ کے ساتھ اسلام قبول کرلیا۔ حضرت رقیہؓ کا پہلا رشتہ ابولہب کے بیٹے عُتْبَہ سے ہؤا مگر اس نے رخصتی سے قبل ہی اسلام دشمنی میں طلاق دے دی۔ اس کے بعد آپؓ کی شادی حضرت عثمان بن عفانؓ سے ہوئی۔ رسول اللہﷺ اپنی بیٹی کے گھر تشریف لائے۔ وہ اس وقت حضرت عثمانؓ کا سر دھو رہی تھیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹی! ابوعبداللہ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتی رہو۔ یقینا ًیہ میرے صحابہ میں اخلاق کے لحاظ سے مجھ سے سب سے زیادہ مشابہ ہیں۔

(المعجم الکبیر للطبرانی جزء1 صفحہ76 حدیث98 دار احیاء التراث العربی 2002ء)

حضرت رقیہؓ اور حضرت عثمانؓ دونوں ہی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اَحْسَنَ زَوْجَیْنِ رَاٰھُمَا اِنْسَانٌ رُقَیَّۃُ وَزَوْجُھَا عُثْمَانُ۔ سب سے خوبصورت جوڑا جو کسی انسان نے دیکھا ہو وہ حضرت رقیہؓ اور ان کے شوہر حضرت عثمانؓ ہیں۔

(شرح علامہ زرقانی جزء4 صفحہ322، 323 باب فی ذکر اولادہ الکرام،
دارالکتب العلمیۃ
بیروت1996ء)

حضرت سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عثمان بن عَفانؓ نے ارضِ حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ رقیہ کو بھی ہمراہ لے جاؤ۔ میرا خیال ہے کہ تم میں سے ایک اپنے ساتھی کا حوصلہ بڑھاتا رہے گا۔ یعنی دونوں ہوں گے تو ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے رہو گے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ کو فرمایا کہ جاؤ اور ان دونوں کی خبر لاؤ کہ چلے گئے ہیں؟ کہاں تک پہنچے ہیں؟ کیا حالات ہیں باہر کے؟ حضرت اسماءؓ جب واپس آئیں تو حضرت ابوبکر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت عثمانؓ ایک خچر پر پالان ڈال کر حضرت رقیہؓ کو اس پر بٹھا کر سمندر کی طرف نکل گئے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے ابوبکر ! حضرت لوطؑ اور حضرت ابراہیمؑ کے بعد یہ دونوں ہجرت کرنے والوں میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے ہیں۔

(مستدرک جزء4 صفحہ414 کتاب معرفۃ الصحابہ باب ذکر رقیہ بنت رسول اللّٰہ حدیث 6999 دارالفکر بیروت 2002ء)

حضرت عثمانؓ حبشہ میں چند سال رہے۔ اس کے بعد جب بعض صحابہؓ قریش کے اسلام کی غلط خبر پا کر اپنے وطن واپس آئے تو حضرت عثمانؓ بھی آگئے۔ یہاں آ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی ہے۔ اس بنا پر بعض صحابہ پھر حبشہ کی طرف لوٹ گئے مگر حضرت عثمانؓ مکہ میں ہی رہے یہاں تک کہ مدینہ کی ہجرت کا سامان پیدا ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام صحابہ کو مدینہ کی طرف ہجرت کا ارشاد فرمایا تو حضرت عثمانؓ بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے۔

(سیر الصحابہ جلد اوّل (خلفائے راشدین) صفحہ 178 ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور پاکستان)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت عثمانؓ کو اپنی بیٹی حضرت رقیہؓ کے پاس چھوڑا۔ وہ بیمار تھیں اور انہوں نے اس روز وفات پائی جس دن حضرت زید بن حارِثہؓ مدینہ کی طرف اس فتح کی خوشخبری لے کر آئے جو بدر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو عطا فرمائی تھی۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الجزء الثالث صفحہ32، عثمان بن عفان،
داراحیاء التراث العربی
بیروت، 1996ء)

آپؐ کی پیاری بیٹی اکیس سال کی عمر میں وفات پا گئی۔ آپؐ اپنی لختِ جگر کی وفات سے طبعاً مغموم ہوئے۔ حضرت فاطمہؓ جب رسول اللہﷺ کے ساتھ قبر پر حاضر ہوئیں تو وہ بھی آبدیدہ تھیں۔ آپؐ نے ان کو تسلی دی اور آنسو پونچھے۔

حضرت ام کلثومؓ 

حضرت ام کلثوم نے بھی اپنی والدہ محترمہ اور بہنوں کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا۔ آپؓ کا رشتہ عُتبہ کے بھائی عُتَیْبَہ سے ہو چکا تھا۔ جب سورۃ المَسَدْ یعنی سورۃ اللّھب نازل ہوئی تو ان کے باپ ابولہب نے ان سے کہا کہ اگر تم دونوں محمدﷺ کی بیٹیوں سے علیحدہ نہ ہوئے تو میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ یہ رشتے توڑ دو۔ اس پر ان دونوں نے رخصتی سے قبل ہی دونوں بہنوں کو طلاق دے دی۔

(شرح علامہ زرقانی جزء4 صفحہ322-323
باب فی ذکر اولادہ الکرام، دارالکتب العلمیۃ بیروت1996ء)

آنحضرتؐ نے حضرت رقیہؓ کی وفات کے بعد حضرت اُمِّ کلثومؓ  کی حضرت عثمانؓ سے شادی کر دی اس وجہ سے آپؓ کو ذوالنورین کہا جانے لگا۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ لامام حجر العسقلانی، جزء4 صفحہ377، عثمان بن عفان،
دارالکتب العلمیۃ
بیروت، 2005ء)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمانؓ سے مسجد کے دروازے پر ملے اور فرمانے لگے کہ عثمان یہ جبریل ہیں انہوں نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ام کلثوم کا نکاح رُقَیَّہ جتنے حق مہر پر اور اس سے تمہارے حسن سلوک پر تمہارے ساتھ کر دیا ہے۔

(سنن ابن ماجہ افتتاح الکتاب فضل عثمانؓ حدیث نمبر 110)

آپؐ نے حضرت ام ایمنؓ سے فرمایا میری بیٹی ام کلثوم کو تیار کر کے عثمان کے ہاں چھوڑ آؤ اور اس کے سامنے دف بجاؤ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ رسول اللہﷺ تین دن کے بعد حضرت ام کلثومؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا۔ اے میری پیاری بیٹی! تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ ام کلثوم نے عرض کیا وہ بہترین شوہر ہیں۔

(سیرۃامیرالمؤمنین عثمان بن عفان شخصیتہ وعصرہ از علی محمد الصلابی، صفحہ41، الفصل الاول، ذوالنورین عثمان بن عفان بین مکۃ والمدینۃ زواجہ من ام کلثوم سنۃ 3 دار المعرفۃ بیروت 2006ء)

حضرت ام کلثومؓ حضرت عثمانؓ کے ہاں 9؍ہجری تک رہیں اس کے بعد وہ بیمار ہو کر وفات پا گئیں۔ رسول اللہﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی قبر کے پاس بیٹھے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ام کلثومؓ کی قبر کے پاس اس حال میں بیٹھے ہوئے دیکھا کہ آپؐ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔

(سیرۃامیرالمؤمنین عثمان بن عفان شخصیتہ وعصرہ از علی محمد الصلابی، صفحہ42، المبحث الثالث:ملازمتہ للنبیﷺ فی المدینۃ/ وفاۃ ام کلثوم، دارالمعرفۃ بیروت2006ء)

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراؓ 

معروف روایات کے مطابق آپ کی پیدائش مکہ میں بعثت نبوی کے پہلے سال ہوئی چال ڈھال طور اطوار میں آنحضورؐ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتی تھیں کم سنی میں والدہ کی وفات ہو گئی۔ اور والدؐ کے اعلان نبوت کی وجہ سے شدید دشمنی کا آغاز ہو گیا۔ آپؓ کو ہر روز اذیت کے ایک نئے انداز کا سامنا کرنا پڑتا۔ نبوت کے ابتدائی سال انتہائی تکلیف دہ تھے ابوطالب کی وفات کے بعد تو ان کا ہاتھ اور بھی کھل گیا۔ ایک دفعہ کسی ظالم نے آپؐ کے سر پر خاک ڈال دی ننھی فاطمہؓ باپ کا سر دھوتی اور روتی جارہی تھیں۔ آپؐ نے تسلی دی بیٹی رو نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کا محافظ ہے۔ ایک دن آپؐ نماز پڑھتے ہوئے سجدے میں گئے تو مخالفین نے اونٹ کی بچہ دانی لا کر آپؐ کی پیٹھ پر رکھ دی وہ اتنی گندی ’’بدبودار اور بوجھل تھی کہ آپؐ سجدے سے اٹھ نہ سکتے تھے۔ کم سن حضرت فاطمہؓ نے روتے روتے اپنے ہاتھوں سے بچہ دانی ہٹائی۔ آپؓ کو غزوات میں شریک ہوکر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ جنگ احد میں آنحضورؐ کے لہو لہان زخمی چہرہ مبارک کی مرہم پٹی کی۔ حضرت فاطمہؓ زخم دھو رہی تھیں اور حضرت علیؓ ڈھال میں سے پانی ڈال رہے تھے۔ جب حضرت فاطمہؓ نے دیکھا کہ پانی خون کو اَور نکال رہا ہے تو انہوں نے بوریہ کا ایک ٹکڑا لیا اور اس کو جلایا اور ان کے ساتھ چپکا دیا۔ اس سے خون رک گیا اور اس دن آپؐ کا سامنے والا دانت بھی ٹوٹ گیا تھا اور آپؐ کا چہرہ زخمی ہو گیا تھا اور آپؐ کا خَود آپؐ کے سر پر ٹوٹ گیا تھا۔

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب ما اصاب النبیﷺ من الجراح یوم احد حدیث نمبر4075)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ تحریر فرماتے ہیں: آنحضرتﷺ اپنی اولاد میں سب سے زیادہ حضرت فاطمہؓ کو عزیز رکھتے تھے۔ اور اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے وہی اس امتیازی محبت کی سب سے زیادہ اہل بھی تھیں۔ اب ان کی عمر کم وبیش پندرہ سال کی تھی حضرت علیؓ  نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر رشتے کی درخواست پیش کر دی۔ دوسری طرف آنحضرتﷺ کو خدائی وحی کے ذریعہ یہ اشارہ ہوچکا تھا کہ حضرت فاطمہؓ کی شادی حضرت علیؓ سے ہونی چاہیے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے درخواست پیش کی تو آپؐ نے فرمایا کہ مجھے تو اس کے متعلق پہلے سے خدائی اشارہ ہوچکا ہے۔ پھر آپ نے حضرت فاطمہؓ سے پوچھا تو وہ بوجہ حیا کے خاموش رہیں۔ یہ بھی ایک طرح کا اظہارِ رضا مندی تھا۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت کو جمع کرکے حضرت علیؓ اور فاطمہ کا نکاح پڑھایا۔ یہ 2ہجری کی ابتدا یاوسط کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد جب جنگ بدر ہو چکی تو غالباً ماہ ذوالحجہ 2؍ہجری میں رخصتانہ کی تجویز ہوئی اور آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ کوبلا کر دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس مہر کی ادائیگی کے لیے کچھ ہے یا نہیں؟۔۔۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!ؐ میرے پاس تو کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا وہ زرہ کہاں ہے جو میں نے اس دن یعنی بدر کے مغانم میں سے تمہیں دی تھی؟ حضرت علیؓ نے عرض کیا وہ تو ہے۔ آپؐ نے فرمایا بس وہی لے آؤ۔ چنانچہ یہ زرہ چار سواسی درہم میں فروخت کردی گئی اور آنحضرتﷺ نے اسی رقم میں سے شادی کے اخراجات مہیا کیے۔ جو جہیز آنحضرتﷺ نے حضرت فاطمہؓ کودیا وہ ایک بیل دار چادر، ایک چمڑے کا گدیلا جس کے اندر کھجور کے خشک پتے بھرے ہوئے تھے اور ایک مشکیزہ تھا اور ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کے جہیز میں ایک چکی بھی دی تھی۔ جب یہ سامان ہوچکا تومکان کی فکر ہوئی۔ حضرت علیؓ اب تک غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد کے کسی حجرے وغیرہ میں رہتے تھے مگر شادی کے بعد یہ ضروری تھا کہ کوئی الگ مکان ہو جس میں خاوند بیوی رہ سکیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے ارشاد فرمایا کہ اب تم کوئی مکان تلاش کرو جس میں تم دونوں رہ سکو۔ حضرت علیؓ نے عارضی طورپر ایک مکان کا انتظام کیا اور اس میں حضرت فاطمہؓ کارخصتانہ ہو گیا۔ اسی دن رخصتانہ کے بعد آنحضرتﷺ ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور تھوڑا سا پانی منگوا کر اس پر دعا کی اور پھر وہ پانی حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ ہر دو پریہ الفاظ فرماتے ہوئے چھڑکاکہ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْھِمَا وَبَارِکْ عَلَیْھِمَا وَبَارِکَ لَھُمَا نَسْلَھُمَا یعنی اے میرے اللہ!تو ان دونوں کے باہمی تعلقات میں برکت دے اور ان کے ان تعلقات میں برکت دے جودوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوں اور ان کی نسل میں برکت دے اور پھر آپؐ اس نئے جوڑے کو اکیلا چھوڑ کر واپس تشریف لے آئے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ صفحہ455-456)

حضرت فاطمہؓ اپنی تنگدستی اور غربت کے باوجود زہد و قناعت کا نمونہ دکھایا کرتی تھیں۔ حضرت علیؓ نے بیان فرمایا کہ حضرت فاطمہؓ نے چکی چلانے سے اپنے ہاتھ میں تکلیف کی شکایت کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو وہ حضورؐ کی طرف گئیں اور آپؐ کو نہ پایا۔ آپؓ حضرت عائشہؓ سے ملیں اور ان کو بتایا کہ کس طرح میں آئی تھی۔ جب نبی کریمﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے حضرت فاطمہؓ کے اپنے ہاں آنے کا بتایا۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے۔ ہم کھڑے ہونے لگے تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنی جگہوں پر ٹھہرے رہو۔ پھر آپؐ ہمارے درمیان بیٹھ گئے یہاں تک کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی۔ آپؐ نے فرمایا کیا میں تم دونوں کو اس سے بہتر بات نہ بتاؤں جو تم نے مانگا ہے وہ یہ ہے کہ جب تم دونوں اپنے بستروں پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللّٰہ اکبر کہو، تینتیس دفعہ سبحان اللّٰہ کہو اور تینتیس دفعہ الحمدللّٰہ کہو۔ یہ تم دونوں کے لیے خادم سے زیادہ بہتر ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاوالتوبۃ……باب التسبیح اوّل النہار و عند النوم حدیث نمبر6915-6918)

آخر میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیْرٌ، پڑھنے کا بھی ذکر ہے۔

اپنی لخت جگر کے حالات دیکھ کر یہ دعا بھی کی کہ کبھی ان کو بھوک کی تکلیف نہ ہو فاطمہؓ فرماتی ہیں اس کے بعد مجھے کبھی بھوک کی تکلیف نہیں پہنچی۔

اولاد کی تربیت کا اتنا خیال تھا کہ شادی کے بعد چھ ماہ تک فجر کی نماز کے وقت حضرت فاطمہؓ کے دروازے کے پاس سے گزرتے تو فرماتے ’’اے اہلِ بیت نماز کا وقت ہوگیا ہے‘‘ پھر آپؐ سورہ احزاب کی آیت 33 پڑھتے کہ ’’اے اہلِ بیت! اللہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کرنا چاہتا ہے اور تم کو اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے‘‘

حضرت علی بن ابو طالبؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہﷺ ایک رات ان کے اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تم دونوں نماز نہیں پڑھتے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ جب وہ چاہے کہ ہمیں اٹھائے تو ہمیں اٹھاتا ہے۔ آپﷺ نے مجھے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور واپس تشریف لے گئے۔ نماز سے مراد تہجد تھی یعنی کہ نماز تہجد اگر نہیں پڑھتے، تہجد کے وقت اگر ہماری آنکھ نہیں کھلتی تو یہ اللہ کی مرضی ہے اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ہمیں اٹھا دے اور جب اٹھا دیتا ہے تو ہم پڑھ لیتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے کوئی بحث نہیں کی اور واپس تشریف لے گئے۔ پھر میں نے آپؐ کو سنا جبکہ آپؐ واپس جا رہے تھے۔ آپؐ اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے فرما رہے تھے کہ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا کہ انسان سب سے بڑھ کر بحث کرنے والا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب التہجد باب تحریض النبیﷺ علیٰ قیام اللیل والنوافل …… حدیث نمبر 1127)

باپ بیٹی کا پیار مثالی تھا۔ جب آپؓ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوتیں آپؐ کھڑے ہوجاتے تھے محبت سے ان کا ہاتھ تھام لیتے تھے اسے بوسہ دیتے تھے اور اپنے ساتھ بٹھاتے تھے اسی طرح جب رسول کریمﷺ آپؓ کے ہاں جاتے تو آپؓ کھڑی ہوجاتیں آپؐ کے ہاتھ تھام کر انہیں بوسہ دیتیں اور اپنے ساتھ حضورؐ کو بٹھاتیں۔ آپؐ مدینہ سے سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں اپنی پیاری بیٹی سے ملتے واپسی پر مسجد نبوی میں نفل ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ سے ہی ملتے۔ آپﷺ کی ساری اولاد آپؐ کی زندگی میں وفات پاگئی صرف حضرت فاطمہؓ آپؐ کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں صرف آپؓ سے سادات کی نسل چلی۔ آپؐ کا اپنی بیٹی کا اکرام دیکھئے فرماتے ہیں: ’’فاطمہؓ اس امت کی عورتوں‘‘ تمام جہانوں کی عورتوں ’’بہشت میں جانے والی عورتوں اور ایمان لانے والی عورتوں کی سردار ہیں‘‘

اسی طرح فرمایا: ‘‘فاطمہ کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے اور اس کی ناراضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے’’

(استفادہ از اہل بیت رسول اللہﷺ از حافظ مظفر احمد)

حضرت اقدس مسیح موعود ؑکا
بیٹیوں سے پیار محبت اور اکرام

آنحضورﷺ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مماثلت کا ایک پہلو آپؑ کا بیٹیوں سے پیار محبت اور اکرام بھی ہے آپﷺ کی پیش گوئی تھی کہ آنے والا مسیح شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی۔ یہ مبارک فرمان اس طرح پورا ہؤا کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے آپؑ کو سات بیٹوں اور پانچ بیٹیوں سے نوازا۔ سب بیٹیاں اس زمانے کی خدیجہ ’’ہماری ماں حضرت نصرت جہاںؓ کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ آپؑ نے اپنی بیٹیوں سے پیاردُلار میں اپنے آقاومطاعﷺ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق پائی۔

صاحبزادی عصمتؓ
(مئی1886ء تا جولائی 1891ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں آپ کی لڑکی عصمت ہی صرف ایسی تھی جو قادیان سے باہر پیدا ہوئی اور باہر ہی فوت ہوئی۔ اس کی پیدائش انبالہ چھائونی کی تھی اور فوت لدھیانہ میں ہوئی۔ اُسے ہیضہ ہوا تھا۔ اس لڑکی کو شربت پینے کی عادت پڑ گئی تھی۔ یعنی وہ شربت کو پسند کرتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے لئے شربت کی بوتل ہمیشہ اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔ رات کو وہ اٹھا کرتی تو کہتی ابّا شربت پینا۔ آپ فوراً اُٹھ کر شربت بنا کر اسے پلادیا کرتے تھے۔

(سیرت المہدی جلد سوم صفحہ 775 روایت نمبر879)

حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سے روایت ہے کہ آپ بچوں کی خبرگیری اور پرورش اس طرح کرتے ہیں کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرے کہ آپ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہوگی۔ اور بیماری میں اس قدر توجہ کرتے ہیں اور تیمارداری اور علاج میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ گویا اورکوئی فکر ہی نہیں مگر باریک بین دیکھ سکتاہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے او رخداکے لئے اس کی ضعیف مخلوق کی رعایت اور پرورش مدنظر ہے۔ آپ کی پلوٹھی بیٹی عصمت لدھیانہ میں ہیضہ سے بیمار ہوئی آپ اس کے علاج میں یوں دوا دہی کرتے کہ گویا اس کے بغیر زندگی محال ہے اور ایک دنیا دار دنیا کی عرف اور اصطلاح میں اولاد کا بھوکا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکاہی کر ہی نہیں سکتا۔ مگر جب وہ مر گئی آپ یوں الگ ہو گئے کہ گویا کوئی چیز تھی ہی نہیں اورجب سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ کوئی لڑکی تھی۔

(سیرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی عرفانیؓ)

صاحبزادی نواب مبارکہ بیگمؓ 

مبارکہ بیگم 1897ء میں پیدا ہوئیں۔ کل گیارہ سال اور چوبیس دن حضرت اقدسؑ کا ساتھ رہا۔ ذہین تھیں مشاہدہ اچھا تھا۔ آپ کی یادداشت میں محفوظ باتوں سے حضرت اقدسؑ کی بیٹیوں سے پیار محبت اور تعلیم و تربیت کے بارے میں رہنما اصولوں اور ان پر عمل کا علم ہوتا ہے۔ تعلیم و تربیت کے لحاظ سے بیٹوں بیٹیوں میں تفریق نہیں کی صاحبزادی مبارکہؓ  نے تین سال کی عمر میں پڑھنا شروع کیا۔ ساڑھے چار سال کی عمر میں قرآن پاک مکمل پڑھ کے دہرا بھی لیا تھا۔ آپؓ نے اردو، حساب، فارسی اور انگریزی بھی پڑھ لی۔ شعر کے اوزان کا تعارف بھی ہوگیا۔ قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کے لیےحضرت اقدسؑ نے آپؓ کو حضرت مولوی عبدالکریمؓ کے پاس بھیجا۔ آپؓ پہلے ترجمہ پڑھنے جاتیں پھر پیر جی سے باقی کتابیں پڑھتیں۔ حضرت مولوی عبدالکریمؓ کی وفات کے بعد حضرت حکیم نورالدینؓ (خلیفہ اول) کے پاس ترجمہ سیکھنے کے لیے بھیجا۔ اس کے ساتھ آپؓ نے تجرید بخاری اور کچھ دوسرے مجموعہ احادیث پڑھ لیے۔ حضرت پیر صاحبؓ بیمار ہوگئے تو حضرت اقدسؑ نے فارسی خود پڑھائی۔ یہ سلسلہ آپؑ کی مصروفیات کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا۔ آپؑ نے فرمایا ’’مجھے بہت کام ہوتا ہے۔ نہیں چاہتا کہ تمہاری تعلیم میں ناغہ ہو۔ مولوی صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ ) سے کہو فارسی بھی پڑھا دیا کریں۔‘‘

بچوں کی آمین والی نظم میں مبارکہ بیٹی کی ذہانت وفطانت کے اعتراف کا خوب صورت اظہار دیکھئے:

اور اِن کے ساتھ دی ہے ایک دُختر
ہے کچھ کم پانچ کی وہ نیک اَختر
کلام اللہ کو پڑھتی ہے فَرفَر
خدا کا فضل اور رحمت سراسر
ہوا اِک خواب میں یہ مجھ پہ اظہر
کہ اس کو بھی ملے گا بختِ برتر
لقب عزّت کا پاوے وہ مقرر
یہی روزِ اَزل سے ہے مقدّر
خدا نے چار لڑکے اور یہ دُختر
عطا کی، پس یہ اِحساں ہے سراسر

(درثمین)

لمحہ لمحہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں نیک تربیت کے بارے میں حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ بیان فرماتی ہیں: ’’حضرت مسیح موعودؑ کی زبان میں معجزانہ اثر تھا آپؑ نہ بات بات پر ٹوکتے نہ شوخیوں پر جھڑکنے لگتے بلکہ انتہائی نرمی سے فرماتے کہ یوں نہ کرو جس بات سے آپ نے منع کیا مجھے یاد نہیں کہ کبھی بھول کر بھی وہ بات پھر کی ہو۔ وہ پیار بھری زبان معجز بیان کہ ایک بار کہا پھر عمر بھر کو اس بات سے طبیعت بیزار ہوگئی۔ ایک شام آسمان پر ہلکے ہلکے ابر میں خوب صورت رنگ کی دھنک دیکھ کر ہم بچے خوش ہو رہے تھے۔ آپؑ اس وقت صھن میں ٹہل رہے تھے۔ جو بعد میں ام ناصر کا صحن کہلاتا رہا ہے میں نے کہا:یہ جو کمان ہے اس کو سب لوگ (پنجابی میں) مائی بڈھی کی پینگ کہتے ہیں۔ اس کو عربی میں کیا کہتے ہیں؟ فرمایا: اس کو عربی میں قوس قزح کہتے ہیں مگر تم اس کو ’’قوس اللہ‘‘ کہو قوس قزح کے معنی شیطان کی کمان ہیں۔ یہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہی۔ ہمارے بچپن میں ایک کھلونا آتا تھا Look and Laugh دور بین کی صورت کا۔ اس میں دیکھو تو عجیب مضحکہ خیز صورت دوسرے کی نظر آتی تھی۔ جب یہ کھلونا لاہور سے کسی نے لاکردیا۔ آپ کو یہ چیز میں نے دکھائی۔ آپ نے دیکھا اور تبسم فرمایا کہا: ’’اب جاؤ دیکھو اور ہنسو کھیلو مگر دیکھو یاد رکھنا میری جانب ہرگز نہ دیکھنا‘‘ سب والدین بچوں کو تہذیب سکھاتے ہیں مگر یہ ایک خاص بات تھی اللہ تالیٰ کا فرستادہ نبی مؤدب بن کر بھی آتا ہے اور خود اس کو اپنا ادب بھی اپنی ذاتی شخصیت کے لئے نہیں ’’بلکہ اس مقام کی عزت کے لئے جس پر اس کو کھڑا کیا گیا‘‘ اس ذاتِ برتر کے احترام کی وجہ سے جس نے اس کو خاص مقام بخشا جس کی جانب سے وہ بھیجا گیا سکھانا پڑتا ہے۔ مجھے اور مبارک احمد کو قینچی سے کھیلتے دیکھ کر تنبیہہ فرمائی کیونکی قینچی کی نوک اس وقت میں نے مبارک احمد کی طرف کر رکھی تھی فرمایا: *کبھی کوئی تیز قینچی ’’چھری‘‘ چاقو اس کے تیز رُخ سے کسی کی طرف نہ پکڑاؤ اچانک لگ سکتی ہے‘‘ کسی کی آنکھ میں لگ جائے کوئی نقصان پہنچے تو اپنے دل کو بھی ہمیشہ پچھتاوا رہے گا اور دوسرے کو تکلیف یہ عمر بھر کو سبق ملا اور آج تک یاد ہے۔۔۔

حضرت اماں جانؓ بہت زیادہ شفقت اور محبت فرماتی تھیں مگر آخر ماں تھیں وہ تربیت اپنا فرض جانتی تھیں کبھی کبھی کہتیں اتنی ناز برداری لڑکیوں کی ٹھیک نہیں ہوتی۔ نہ معلوم کسی کی قسمت کیسی ہو؟ آپؑ فرماتے ’’تم فکر نہ کرو خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے‘‘ آپؑ فرماتے: ’’لڑکی ہے آخر ہمارے پاس چند دن کی مہمان ہے یہ کیا یاد کرے گی‘‘ میں بچہ تھی بالکل چھوٹی جب بھی آپؑ نے مجھے کہا اور شاید کئی بار کہ ’’جب تم آنکھ کھلے کروٹ لیتی ہو اس وقت ضرور دعا کرلیا کرو‘‘ میں اٹھ نہ سکوں ’’بیمار ہوں‘‘ کچھ ہو یہ عادت میری اب تک قائم ہے دعا کرتے کرتے درود پڑھتے نیند آجاتی ہے پھر آنکھ کھلے تو وہی سلسلہ۔ یہ سب آپؑ کے الفاظ کی برکت ہے۔

میں چھوٹی تھی تو رات کو اکثر ڈر کر آپؑ کے بستر میں جا گھستی تھی جب ذرا بڑی ہونے لگی تو آپؑ نے فرمایا ’’جب بچے بڑے ہونے لگتے ہیں اس وقت میری عمر کوئی پانچ سال کی تھی تو پھر بستر میں اس طرح نہیں آ گھسا کرتے۔ میں تو اکثر جاگتا رہتا ہوں تم چاہے سَو دفعہ مجھے آواز دو میں میں جواب دوں گا پھر تم نہیں ڈروگی اپنے بستر سے ہی مجھے پکار لیا کرو۔ ایک بار میرے چھوٹے بھائی صاحب حضرت شریف احمد نے وہ بھی آخر بچہ ہی تھے اصرار کیا کہ میرا پلنگ بھی ابا کے قریب بچھا دیں، مگر میں نے اپنی جگہ چھوڑنا نہیں مانا حضرت اماں جان نے فرمایا کہ ’’یہ ہمیشہ پاس لیٹتی ہے کیا ہوگا‘‘ اگر شریف کا بھی دل چاہتا ہے ایک دو دن یہ اپنی ضد چھوڑ دے بھائی کو لیٹنے دے تو کیا حرج ہے ہو جائے گا‘‘ مگر حضرت مسیح موعود نے فرمایا ’’نہیں یہ لڑکی ہے اس کا دل رکھنا زیادہ ضروری ہے‘‘

لاہور میں آپؑ شام کو تھوڑی دیر کے لئے لینڈو میں سیر کو تشریف لے جاتے ایک بار حضرت اماں جانؓ نے کہا لڑکی کو ساتھ لے جاتے ہو وہ دونوں بہوئیں ہیں ان کو کسی دن لے جایا کرو۔ آپؑ نے فرمایا: ’’نہیں میرے ساتھ مبارکہ ہی جائے گی وہ الگ جا سکتی ہیں‘‘

ایک دفعہ آپؑ نے ماہ محرم کے پہلے عشرے میں ہمیں پاس بٹھا کر فرمایا آ و آج تم کو محرم کی کہانی سنائیں وہ ہمارے نبی کریمﷺ کے نواسے تھے ان کو منافقوں نے ’’ظالموں نے بھوکا پیاسا کربلا کے میدان میں شہید کردیا۔ اس دن آسمان سرخ ہوگیا تھا۔ چالیس روز کے اندر قاتلوں ظالموں کو خدا تعالیٰ کے غضب نے پکڑ لیا کوئی کوڑھی ہوکر مرا‘‘ کسی پر کوئی عذاب آیا اور کسی پر کوئی ’’یزید کے ذکر پر یزید پلید فرماتے تھے کافی لمبے واقعات آپؑ نے سنائے حالت یہ تھی کہ آپؑ پر روت طاری تھی آنسو بہنے لگتے تھے جن کو امنی انگشت شہادت سے پونچھتے جاتے تھے‘‘ وہ کیفیت مجھے ہمیشہ یاد آتی ہے۔

(مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ16-21 تک کا خلاصہ)

حضرت اماں جانؓ نے ایک دفعہ فرمایا: تمہارے ابا تمہاری ہر بات مان لیتے اور میرے اعتراض کرنے پر فرمایا کرتے تھی کہ لڑکیاں تو چار دن کی مہمان ہیں یہ کیا یاد کرے گی، یہ جو کہتی ہے وہی کرو’’

(مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ47)

ایک دفعہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ ان کے بھائی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد (مرحوم) ان سے ناراض ہوگئے ہیں اور کسی طرح راضی نہیں ہو رہے۔ حضورؑ نے جو اس وقت ایک کتاب تصنیف فرما رہے تھے مندرجہ ذیل اشعار لکھ کر دئیے جو حضرت نواب مبارکہ بیگم نے صاحبزادہ صاحب کے سامنے پڑھ دئیے تو وہ خوش ہو گئے۔

(روایت حکیم دین محمد رجسٹر روایات جلد13 صفحہ62)

مبارک کو مَیں نے ستایا نہیں
کبھی میرے دل میں یہ آیا نہیں
میں بھائی کو کیونکر ستا سکتی ہوں
وُہ کیا میری اَمّاں کا جایا نہیں
الٰہی خطا کر دے میری معاف
کہ تجھ بِن تو رَبّ البرایا نہیں!

(الفضل 7 جولائی 1943ء صفحہ3)

حضرت سیدہ چھو ٹی آپا فرماتی ہیں درج ذیل واقعہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صا حبہؓ سے با ر ہا سنا ہے اور ہر بار سن کر دل ایک نئی کیفیت سے دو چا ر ہو تا ر ہا ہے۔ آپ نے فرمایا
’’قادیان میں اس زما نہ میں ڈبل رو ٹی کہاں تھی؟ دودھ اور ساتھ مٹھا ئی یا پراٹھا ہم لو گوں کو نا شتہ ملتا تھا۔ چا ئے کا بھی باقاعدگی سے کو ئی روا ج نہ تھا۔ ڈبل روٹی کبھی تحفۃً لا ہو ر سے آجاتی تھی۔ ایک روز کا واقعہ ہے صبح کا وقت تھا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام با ہر مردوں کے ہمراہ سیر کو تشریف لے گئے تھے۔ اصغری کی اماں جنہوں نے گیا رہ سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کھانا پکا نے کی خد مت بہت اخلا ص سے کی، کھانے کی تیا ری میں مصروف تھیں اور حضرت اما ں جانؓ بھی ان کے پاس باورچی خا نہ میں جو اس وقت ہمارے صحن کا ایک کو نہ تھا کوئی خاص چیز پکا نایا پکوا نا چا ہتی تھیں۔ اصغری کی اماں نے دودھ کا پیالہ اور دو توس کشتی میں لگا کر دیے کہ ’’لو بیوی نا شتہ کر لو‘‘ میں نے کہا مجھے تو س تل کر دو۔ مجھے تلے ہو ئے تو س پسند تھے۔ انہوں نے اپنے خا ص منت در آمدوالے لہجے میں کا م کا عذر کیا اور حضرت اماں جانؓ نے بھی فر ما یا اس وقت اور بہت کام ہیں اس وقت اسی طر ح کھا لو۔ تل کر پھر سہی۔ میں سن کر چپکی چلی آئی اور اس کمرہ میں، جو اب حضرت اماں جانؓ کا کمرہ کہلا تا ہے، کھڑکی کے رخ میں ہی کیا د یکھتی ہوں پیا رے مقدس ہا تھوں میں سٹول اٹھائے ہو (اب وہ کھڑکی بند ہو چکی ہے اور و ہاں غسل خانہ بن گیا ہے) ایک پلنگ بچھا تھااس پر پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئی۔ دل میں یقین تھا کہ دیکھو میرے ابا آتے ہیں اور ابھی سب ٹھیک ہو جا ئے گا۔ دیکھوں کیسے نہیں تلے جا تے میرے تو س۔ جلد ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر سے تشریف لے آئے۔ کمرہ میں دا خل ہو ئے۔ صرف میری پشت د یکھ کر رو ٹھنے کا اندازہ کر لیا اور اسی طرح خاموش واپس صحن میں تشریف لے گئے۔ با ہر جا کر پو چھا ہو گا اور جواب سے تفصیل معلوم ہوئی ہو گی۔ میں تھوڑی دیر ئے آئے اور میرے سا منے لا کر ر کھ دیا۔ پھر با ہر گئے اور خو دہی دونوں ہا تھو ں میں کشتی ا ٹھا کر لا ئے اور سٹو ل پر میرے آگے رکھ دی جس میں میرے حسب منشا تلے ہو ئے توس اور ایک کپ دودھ کا ر کھا تھا اور فرمایا ’’لو اب کھاؤ۔‘‘ میں ایسی بد تمیز نہ تھی کہ اس کے بعد بھی منہ پھولا رہتا، میں نے فورًا کھا نا شروع کر دیا۔ آج تک جب بھی یہ واقعہ، وہ خاموشی سے سٹول سامنے رکھ کر اس پر کشتی لا کر رکھنا یاد آتا ہے اور اپنی حیثیت پر نظر جاتی ہے تو آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ بڑے ہو کر ٹیسٹ (taste) بدل جاتے ہیں۔ مگر اس یاد میں، اب تک میں، بہت چاہت سے تلے ہوئے توس کبھی کبھی ضرور کھاتی ہوں۔

(سیرت و سوانح سیدہ نواب مبا رکہ بیگم مصنفہ و مرتبہ پروفیسر سیدہ نسیم سعید صفحہ نمبر 70)

حضرت اُم ناصر صاحبہ نے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام مجھ پر نہایت مہربانی اور شفقت فرمایا کرتے تھے۔ مجھے جس چیز کی ضرورت ہوتی حضورؑ سے عرض کرتی حضورؑ اس کو مہیا کردیتے اور کبھی انکار نہ کرتے۔ میرا اور سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا روز مرہ کا معمول تھا کہ عصر کے بعد ایک دن مَیں اور ایک دن مبارکہ بیگم حضورؑ کے پاس جاتے اور کہتے کہ حضورؑ بھوک لگی ہے۔ حضورؑ کے سرہانے دو لکڑی کے بکس ہوتے تھے۔ حضورؑ چابی دے دیتے۔ مٹھائی یا بسکٹ جو اس میں ہوتے تھے جس قدر ضرورت ہوتی ہم نکال لیتے، ہم کھانے والی دونوں ہوتیں تھیں مگر ہم تین یاچار یا چھ کے اندازہ کا نکال لیتیں اور حضورؑ کو دکھا دیتیں تو حضور علیہ السلام نے کبھی نہیں کہا کہ زیادہ ہے اتنا کیا کروگی۔

( سیرت المہدی حصہ پنجم صفحہ 253 روایت نمبر 1446)

محترمہ حسّو صاحبہ اہلیہ فجا معمار خادم قدیمی نے بیان کیا کہ جب بڑا زلزلہ آیا تھا مبارکہ بیگم اندر سوئی ہوئی تھیں میں جلدی سے اندر گئی اور بی بی کو اٹھا لائی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’یہ لڑکی بڑی ہشیار ہے۔ یہ جو بھاری کام کیا کرے گی اس میں برکت ہوگی اور اس کو تھکن نہیں ہوگی۔‘‘ حضور علیہ السلام کی برکت سے میں بھاری بھاری کام کرتی ہوں مگر تھکتی نہیں۔

(سیرت المہدی حصہ پنجم صفحہ 288 روایت نمبر 1518)

میری لختِ جگر مبارکہ بیگم

حضرت نواب محمد علی خانؓ کی طرف سے رشتے کی تحریک کے جواب میں حضرت اقدسؑ نے جو مکتوب تحریر فرمایا اس سے بیٹی کا پیار اور قدردانی خوب مترشح ہے:‘‘ میری لختِ جگر مبارکہ بیگم کی نسبت جو آپ کی طرف سے تحریک ہوئی تھی میں بہت دنوں تک اس معاملہ میں سوچتا رہا آج جو کچھ خدا نے میرے دل میں ڈالا ہے اس شرط کے ساتھ اس رشتے میں مجھے عذر نہیں ہوگا اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کو بھی اس میں تأمل نہیں ہوگا اور وہ یہ کہ مہر میں آپ کی دوسال کی آمدن جاگیر مورر کی جائے یعنی پچاس ہزار روپیہ اور اس اقرار کے بارے میں ایک دستاویز شرعی تحریری آپ کی طرف سے حاصل ہو۔۔۔ ’’

(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ319)

بیٹی کا مہر نامہ تحریر کرواکے رجسٹر کروایا۔ حضرت صاحبؑ نے مہر نامہ کوباقاعدہ رجسٹری کروا کے اس پر بہت سے لوگوں کی شہادتیں ثبت کروائی تھیں۔۔ در اصل مہر کی تعدادزیادہ تر خاوند کی موجودہ حیثیت اور کسی قدر بیوی کی حیثیت پر مقرر ہوا کرتی ہے اور مہر نامہ کا باقاعدہ لکھا جانا اور رجسٹری ہونا یہ شخصی حالات پر موقوف ہے۔ چونکہ نواب محمد علی خان صاحب کی جائیداد سرکار انگریزی کے علاقہ میں واقع نہ تھی بلکہ ایک ریاست میں تھی اور اس کے متعلق بعض تنازعات کے پیدا ہونے کااحتمال ہو سکتا تھا اس لئے حضرت صاحب نے مہر نامہ کو باقاعدہ رجسٹری کروانا ضروری خیال کیا اور ویسے بھی دیکھا جاوے تو عام حالات میں یہی بہتر ہوتا ہے کہ مہر نامہ اگر رجسٹری نہ بھی ہو تو کم از کم باقاعدہ طور پر تحریر میں آجاوے اور معتبر لوگو ں کی شہادتیں اس پر ثبت ہو جاویں۔ کیونکہ در اصل مہر بھی ایک قرضہ ہوتا ہے جس کی ادائیگی خاوند پر فرض ہوتی ہے۔ پس دوسرے قرضہ جات کی طرح اس کے لئے بھی عام حالات میں یہی مناسب ہے کہ وہ ضبط تحریر میں آجاوے۔

(سیرت المہدی حصہ پنجم صفحہ 253 روایت نمبر369)

جس پر تم ہاتھ رکھ دو

ایک روز حضرت اماں جانؓ نے کسی کپڑے والے کو بلوایا تھا اور میرے جہیز کے لئے کچھ کپڑا خرید رہی تھیں حضرت مسیح موعودؑ میرے نزدیک آئے اور کہا ’’تمہاری اماں تمہارے لئے ریشم وغیرہ لے رہی ہیں ہمیں تو بنارسی کپڑا پسند ہے یہ تھان بنارسی جو رکھے ہیں جس پر تم ہاتھ رکھ دو وہ اپنے پاس سے خود تم کو لے دوں گا‘‘

(روایت نمبر1446)

حضرت صاحب آخری سفر میں لاہور تشریف لے جانے لگے تو آپ نے ان سے کہا کہ مجھے ایک کام درپیش ہے دُعا کرو اور اگر کوئی خواب آئے تو مجھے بتانا۔ مبارکہ بیگم نے خواب دیکھا کہ وہ چوبارہ پر گئی ہیں اور وہاں حضرت مولوی نورالدین صاحب ایک کتاب لئے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں اور مَیں ابوبکر ہوں۔ دوسرے دن صبح مبارکہ بیگم سے حضرت صاحب نے پوچھا کہ کیا کوئی خواب دیکھا ہے؟ مبارکہ بیگم نے یہ خواب سُنائی تو حضرت صاحب نے فرمایا۔ یہ خواب اپنی اماں کو نہ سُنانا۔

صاحبزادی امۃ النصیر
(جنوری 1903ء تا دسمبر1903ء)

آپ کم سنی میں وفات پا گئیں۔ شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ جب حضرت صاحب کی لڑکی امۃ النصیر فوت ہوئی تو حضرت صاحب اسے اسی قبرستان میں دفنانے کیلئے لے گئے تھے اور آپ خود اسے اُٹھا کر قبر کے پاس لے گئے۔ کسی نے آگے بڑھ کر حضور سے لڑکی کو لینا چاہا مگر آپ نے فرمایا کہ میں خود لے جاؤں گا۔

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ 203 روایت نمبر 201)

صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگمؓ 
(جون 1904ء تا 1987ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے آخری اولاد تھیں جو حضرت صاحب کی وفات کے وقت صرف تین سال گیارہ مہینے کی تھیں۔ بہت ذہین تھیں حضرت اقدسؑ بچی کا محبت سے ذکر فرماتے ہیں: ’’حضرت عیسیٰؑ کی نسبت لکھا ہے کہ وہ مہد میں بولنے لگے اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیدا ہوتے ہی یا دوچار مہینہ کے بولنے لگے اس سے یہ مطلب ہے کہ جب وہ چار برس کے ہوئے۔ کیونکہ یہ وقت تو بچوں کے پنگھوڑوں میں کھیلنے کا ہوتا ہے اور ایسے بچے کے لئے باتیں کرنا کوئی تعجب آمیز امر نہیں ہے۔ ہماری لڑکی امۃ الحفیظ بھی بڑی باتیں کرتی ہے‘‘

(تفسیر اٰل عمران صفحہ35)

رحیمن صاحبہ اہلیہ قدرت اللہ صاحب ریاست پٹیالہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ روزانہ صبح سیر کے لئے جایا کرتے تھے۔ صاحبزادی امۃ الحفیظ بیگم کی عمر اس وقت اندازاً تین سال کی تھی۔ میں اور حافظ حامد علی صاحب کی لڑکی آمنہ مرحومہ امۃ الحفیظ بیگم کو باری باری اٹھا کر ساتھ لے جاتی تھیں۔ چونکہ حضورؑ بہت تیز رفتار تھے۔ اس لئے ہم پیچھے رہ جاتے تھے۔ تو امۃ الحفیظ بیگم ہم سے کہتیں کہ ’’ابا کے ساتھ ساتھ چلو‘‘۔ اس پرمیں نے کہا کہ میں تھک جاتی ہوں تم حضرت صاحب سے دعا کے لئے کہنا۔ اس پر صاحبزادی نے حضرت صاحب سے کہا۔ آپ نے فرمایا۔ ’’اچھا! ہم دعا کریں گے کہ یہ تم کو ہمارے ساتھ رکھے۔‘‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اور آمنہ کو اتنی طاقت دی کہ ہم صاحبزادی کو اٹھا کر ساتھ ساتھ لے جاتیں اور لے آتیں مگر تھکان محسوس نہ ہوتی۔

(سیرت المہدی روایت نمبر1321)

حضورؑ حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ کے ناز اٹھاتے تھے۔ ایک دفعہ آپؑ سیر کو جا رہے تھے۔ حضرت امّاں جان نے کہلا کر بھیجا کہ امۃ الحفیظ رو رہی ہیں اور سا تھ جانے کی ضد کر رہی ہیں۔ آپؑ نے ملازمہ کے ہاتھ ان کو بلوایا اور گود میں اٹھا کر لے گئے۔

(دختر کرام از فو زیہ شمیم صفحہ6-7 ایڈیشن 2007ء)

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں:
‘‘میری ہمشیرہ ا مة الحفیظ بالکل چھوٹی سی تھیں کسی جاہل خادم سے ایک گالی سیکھ لی اور توتلی زبان میں حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے کسی کو دی۔ آپ نے بہت خفگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ اس چھوٹی عمر میں جو الفاظ زبان پر چڑھ جاتے ہیں وہ دماغ میں محفوظ بھی رہ جاتے ہیں اور بعض دفعہ انسان کی زبان پر مرتے وقت جاری ہوجاتے ہیں۔ بچے کو فضول بات ہرگز نہیں سکھانی چاہیے۔ ’’

(تقریر ذکر حبیب جلسہ سالانہ مستورات از حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگمؓ
الفضل 3؍جنوری 1974ء صفحہ3 بحوالہ دخت کرام)

بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار
پاک محمد مصطفیﷺ نبیوں کا سردار

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 ستمبر 2022