• 5 مئی, 2024

چوہدری شمس الدین مرحوم لاہور کا ذکر خیر

ٹاؤن شپ لاہورکے ذکر کیساتھ ہی جس نیک فطرت شخصیت کا نام ذہنوں میں آتا ہے وہ ہے مکرم چوہدری شمس الدین صاحب مرحوم سابق صدر ٹاؤن شپ لاہور۔ آپ ایک انتہائی شریف، سادہ اور منکسرالمزاج انسان تھے۔ اپنی عاجزی انکساری اور ہنس مکھ طبیعت کے باعث بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ سفید پوش شخصیت تھے۔ محدود وسائل کیساتھ گھر کو چلایا بچوں کو پڑھایا اور ان کی شادیاں کیں۔ جماعت کے کاموں کو تدبر، فراست، عاجزی انکساری اور کیساتھ چلایا۔ سفید پگڑی آپ کی شخصیت کی پہچان ہوا کرتی تھی۔ آپ میں خلافت اور نظام جماعت سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ عبادتوں خصوصا پنج وقت نماز باجماعت کی ادائیگی آپ کا خاص وصف تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب آپ واپڈا ہاؤس لاہور میں تعینات تھے تو وہاں بھی آپ نے گراؤنڈ فلور پر الگ سائڈ پر نماز باجماعت پڑھنے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ مکرم عبد الحلیم طیب صاحب قائد ضلع ہوا کرتے تھے اور ان کا الائیڈ بنک ریگل بس سٹاپ کے قریب واقع تھا۔ وہ بھی اکثر نماز پڑھنے واپڈا ہاؤس چلے جاتے اور مجھے بھی متعدد بار وہاں نماز پڑھنے کا موقع ملا۔ چوہدری شمش الدین صاحب کے بیٹے منیر الدین شمس صاحب اور خاکسار دونوں ضلعی مجلس عاملہ کے ممبر تھے، کم و بیش دس، بارہ سال ایک ساتھ کام کیا۔ لہذا جب جماعتی کام سے واپڈا ہاؤس ملنے جاتا تو نماز کے وقت وہیں نماز پڑھ لیتے اور مکرم چوہدری شمس الدین صاحب امامت کراتے تھے۔ جس سے ان کی پنج وقت نماز کی ادائیگی سے والہانہ عشق کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپ کی ٹاون شپ کی صدارت دو دہائیوں سے کچھ زائد عرصہ پر محیط رہی ہے اور اس دوران اللہ کے فضل سے حلقہ میں بہت ترقیات ہوئیں اور ایک مضبوط جماعتی نظام کی تشکیل ہوئی۔

تاریخ اور ماضی کے اگر اوراق پلٹے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ کئی دہائیاں قبل اس نام کی کوئی مجلس یا حلقہ لاہور میں موجود نہ تھا پھر یہاں چوہدری مکرم شمس الدین صاحب ایسی نیک ہستی اس علاقہ میں پہنچی تو پھران کی دعاؤں، کوششوں کے نتیجہ میں یہاں کے رہنے والوں کے لئے آسانیاں پیدا ہونے لگی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ عرصہ بعد یہاں نئی جماعت کا جنم ہوا اور وہ تیزی سے پھل پھولنے لگی اور ان ساری برکات کا سبب شمش الدین صاحب کی خلافت سے والہانہ وابستگی تھی۔ وقت گزرتا رہا اور آج یہاں نہ صرف جماعتی حلقہ موجود ہے بلکہ ’’ٹاؤن شپ‘‘ کے نام سے لوکل امارت بھی 2016ء میں معرض وجود میں آچکی ہے، اب یہاں ایک بڑی مسجد کی تعمیر ہو چکی ہے۔ اور احمدیوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ٹاؤن شپ کی بھی تقسیم ہوئی اور اس سے نئی جماعت ’’گرین ٹاؤن‘‘ کے نام سے معرض وجود میں آئی۔ ٹاون شپ جماعت کا قیام اور پھر لوکل امارت بننا، بعد ازاں جماعت اور ممبرز زیادہ ہونے ا کے بعد نئی جماعت کا قیام، یہ سب لمبے سفر کے بعد ممکن ہوا۔ ان کے بیٹے اور ہمارے جماعتی کولیگ منیر الدین شمس صاحب کے مطابق میرے والد صاحب کے اس علاقہ میں آنے کے بعد کےشروع کے ایام میں ہمارا گھر نماز سنٹر رہا، پھر ایک احمدی کا گھر خالی ہوا تو وہ کرایہ پر لیا لیکن پھر دوبارہ ہمارا کا گھر سنٹر بن گیا۔

چوہدری شمس الدین صاحب کہا کرتے تھے کہ جب تک جماعت کا اپنا سنٹر نہ ہو وہاں ترقی ممکن نہیں ہوتی۔ پھر ایک وقت آیا کہ ان کی سب سے بڑی خواہش اللہ نے پوری کی اور ٹاؤن شپ میں خانہ خدا یعنی مسجد کی تعمیرمقامی احباب کی دعاؤں اور احباب جماعت کی کوششوں اور مالی قربانیوں کی بدولت تعمیر ہوئی اور 1992 میں مسجد کی تعمیر کا خواب حقیقت کے روپ میں ڈھل گیا۔ تعمیر مسجد ٹاؤن شپ کی روئیداد بھی بہت ایمان افروز ہے۔ مناسب وقت پرایک کینال اور چار مرلہ کا ایک پلاٹ فروری 1991ء آپ کے دور میں خریدا گیا۔ مقامی طور پر مالی تنگی کے باوجود لوکل جماعت کے فنڈز کے علاوہ لاہور کے دیگر حلقہ جات سے بھی چندہ اکھٹا کیا گیا، مرکز سے قرض حاصل کیا گیا اور کچھ احمدی احباب نے انفرادی طور پر مسجد کی تعمیرمیں بہت مدد کی۔ ان میں مکرم عبد الطیف ستکوہی صاحب کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ مکرم چوہدری شمس الدین صاحب صدر جماعت ٹاؤن شپ کے پاس سائیکل سواری تھی، مکرم ستکوہی صاحب شام کو اپنی کار لے آتے اور دونوں مل کر لاہور کے احباب سے مسجد ٹاؤن شپ کے لئے چندہ اکھٹا کرتے۔ بعد ازاں مسجد کا نقشہ تیار اور منظور کرایا گیا۔ جب تعمیر کا وقت آیا تو پھر پیسے کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔ اس موقع پربھی اللہ تعالیٰ نے غیبی سامان پیدا کئے اور انڈس ویلی کنسٹرکشن کمپنی کے مالک مکرم میجر(ریٹائرڈ) شاہد عطاء اللہ صاحب کے اہل خانہ نے تعمیر کے اخراجات برداشت کرنے کی خواہش ظاہر کی اور الحمد للّٰہ اس کو پورا کیا اور اسٹرکچر مکمل ہو گیا۔ بعد ازاں اس کی مکمل فنشنگ یعنی پلستر، فرش وغیرہ کا کام لوکل جماعت ٹاؤن شپ نے مکمل کرائے اور یوں 1992ء میں مسجد کی تعمیرمکمل ہوگئی الحمد للّٰہ، اس کا نام ’’بیت الکریم‘‘ رکھا گیا تھا۔ بعد ازاں کئی سال تک یہ مسجد مقامی ٹاؤن شپ اور گرین ٹاؤن کے احباب کے اجلاسات کے لئے استعمال ہوتی رہی۔ آپ کی وفات کے بعد یہاں جمعہ نماز کی ادائیگی بھی شروع ہو گئی اور پہلا جمعہ مکرم مرزا ناصر محمود صاحب مربی انچارج لاہور نے مکرم منیر احمد شیخ صاحب امیر جماعت احمدیہ کی ہدایت پر 7مئی 2010ء کو پڑھایا، اس وقت صدر جماعت مکرم منیر الدین شمس صاحب ابن مکرم چوہدری شمس الدین صاحب تھے۔ اس سے پہلے دسمبر2006 میں یہ جگہ صدر انجمن احمدیہ ربوہ کے نام ٹرانسفر ہو چکی تھی۔

مکرم چوہدری شمس الدین صاحب کے دور صدارت میں ٹاؤن شپ کے سیکٹرسی ون، سی ٹو، ڈی ون اور ڈی ٹو میں جب احمدی گھرانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو آپ نے مشاورت سے سیکٹر ڈی ٹو میں ایک پانچ مرلہ کا پلاٹ خرید کرجو ایک احمدی دوست مکرم شیخ ناصر احمد کی ملکیت تھا، جولائی2000 میں نیا حلقہ گرین ٹاؤن بننے کیساتھ ہی وہاں بھی نماز سنٹر بنادیا تھا۔

لاہور میں آمد کے بعد کا ابتدائی دور

مکرم چوہدری شمس الدین صاحب ٹاؤن شپ کے علاقہ میں آنے سے پہلے1959ء – 1960ء میں شیخوپورہ سے ٹرانسفر ہوکر شاہ جمال کالونی لاہور میں گھر خرید کر رہائش اختیار کی اور خدام الاحمدیہ کیساتھ وابسطہ رہے اور خدمت دین کی توفیق پائی۔ رحمان پورہ کے سیکرٹری تحریک جدید بھی رہے۔ اس دور میں مکرم شیخ ریاض محمود صاحب جب قائد ضلع لاہور تھے تو انکے زعیم حلقہ کی حیثیت سے ایک مثالی وقار عمل کرنے کی توفیق ملی تھی۔ آپ محکمہ واپڈا میں ملازم تھے۔ 1967ءمیں جب آپ کو ٹاؤن شپ میں گھر الاٹ ہوا تو وہاں شفٹ ہوگئے اور اس وقت ٹاؤن شپ کا علاقہ زیادہ تر بالکل ہی غیر آباد تھا۔ چھ سے آٹھ سال تک یہاں کے احمدی احباب جماعت ماڈل ٹاؤن جماعت کے ساتھ منسلک رہے۔ اس وقت جب مکرم مبشر دہلوی صاحب ماڈل ٹاؤن کے قائد مجلس تھے، آپ کو بطور زعیم حلقہ کام کرنے کی توفیق مل اور پہلی بار علم انعامی لینے والی مجلس عاملہ میں مکرم چوہدری شمس الدین صاحب کا نام بھی شامل تھا۔ انصاراللہ میں جانے کے بعد بھی آپ کا جماعتی کاموں میں دلچسپی نہ صرف برقرار رہی بلکہ اس میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا اور آپ کو اس وقت کے مکرم چوہدری افتخار صاحب زعیم اعلیٰ کی عاملہ میں بطور زعیم ٹاؤن شپ حلقہ کام کرنے کی توفیق ملی اور اسی زعامت نے پھر اول پوزیشن کیساتھ علم انعامی حاصل کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب ٹاؤن شپ کی پہلے والی ویرانی ختم ہورہی تھی اور اس کی جگہ اب نئے گھر اور نئی آبادیاں بن رہی تھیں جس کے باعث مزید نئے احمدی گھروں کی آمد بھی ہوچکی تھی یوں ٹاؤن شپ کے میں احمدیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا تھا۔ 1976ء تک یہاں بہت سے احمدی گھرانے آباد ہو چکے تھے اور احمدیوں کی تعداد میں خاظر اضافہ ہو چکا تھا اور تب ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس وقت کے امیر صاحب نے1977 ’’ٹاؤن شپ‘‘ حلقہ کو ’’ماڈل ٹاؤن‘‘ سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا اوراس نئے جماعتی حلقہ ’’ٹاؤن شپ‘‘ کے لئے مکرم چوہدری ادریس نصراللہ خان صاحب کی بطور نگران صدر ٹاؤن شپ نامزدگی کی اور پھر اگلے سال 1977ء – 1978ء کے لئے ٹاؤن شپ کے پہلے صدر کا انتخاب ہوا جس میں چوہدری صاحب صدر جماعت منتخب ہوئے اور کئی دہائیوں تک اس ذمہ داری کو احسن طریق سے نبھایا۔ صدر جماعت بننے سے پہلے آپ نے سیکرٹری مال، سیکرٹری اصلاح و ارشاد، دعوت الی اللہ کی حیثیت سے خدمت دین کی توفیق پائی۔ جلسہ سالانہ ربوہ پر جانے کے لئے ٹاؤن شپ کے احباب و فیملیز کے آنے اور جانے کے لئے بسوں کا انتظام بخوبی کرتے رہے، ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی والے احباب کی خاص طور پر مدد کرتے تاکہ وہ جلسہ کی برکات سے محروم نہ رہ سکیں۔ دعوت الی اللہ کے کاموں میں بھی آپ پیش پیش رہتے تھے اور پرجوش اور نڈرداعی الی اللہ تھے اور مہمانوں سے بھری بسیں ربوہ لے جایا کرتے تھے۔ صبح فجر کی نماز کے بعد پارک کی سیر کو جاتے اور سیر کے دوران ہر ملنے والے کو سلام کہتے اور کوشش کرکے گفتگو کا موقع پیدا کرتے۔

آپ کی زندگی سے وابستہ قابل ذکرواقعات میں بطور زعیم اعلیٰ مجلس ٹاؤن شپ پاکستان بھر میں پانچویں پوزیشن حاصل کر کے شوریٰ پر حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی ربوہ سے سند خوشنودی کا وصول کرنا ہے۔ 1991ء فروری میں ٹاوٴن شپ میں مکرم رانا ریاض صاحب کی شہادت ہوئی تھی جب کہ ان کے والد رانا عبد الستار صاحب کو شدید زخمی کردیا تھا بلکہ اپنی دانست میں مار کر چلے گئے تھے۔ روزنامہ الفضل ربوہ کے 7؍ فروری 1991ءکے شمارہ کے صفحہ اول پرتفصیل موجود ہے۔ 2007ءمیں مکرم چوہدری شمس الدین صاحب لندن جلسہ پر گئے اور حضور انور ایدہ اللہ سے ملاقات کے دوران جناح کیپ پہنے ہوئے تھے، جس پر حضور ایدہ اللہ نے دریافت فرمایا کہ آپ پگڑی کیوں نہیں لائے؟ جس پر چوہدری صاحب نے عرض کی کہ حضور دوسرے ملک میں پگڑی کی حفاظت مشکل ہے، اس لئے نہیں لایا۔ حضور ایدہ اللہ نے مسکرا کر فرمایا آج یا کل نماز مغرب پر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے ملاقات کر لیں۔ ملاقات ہونے پر مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ کی پگڑی اور قولہ دیا جسے آپ پاکستان میں بھی پہنتے رہے۔ جماعت کی مالی تحریکات میں شمولیت کا منفرد اور الگ انداز تھا۔ تحریک جدید، وقف جدید میں لمبی فہرست مرحومین کی ہے جن کا چندہ آپ ادا کرتے رہے۔ خلفاء کی طرف سے جاری کی گئی تحریکات میں ہر سال جون میں کچھ نہ کچھ ضرور ادا کرتے تھے اور تمام مدات میں ایک رسید اپنی طرف سے کاٹتے۔

عشق نماز اور خانہٴ خدا سے محبت کا یہ حال تھا کہ آپ کی وفات بھی نماز فجر کے لئے مسجد جاتے ہوئے راستہ میں ہوئی۔ آپ کے بیٹے اوراس وقت کے صدر جماعت ٹاؤن شپ مکرم منیر الدین شمس صاحب کے مطابق وفات والے دن (15جون 2009ء) کو گھر میں نماز تہجد اور سنتوں کی ادائیگی کے بعد گھر سے نماز فجر کے لئے نکلے۔ وہیں گھر سے خاکسار اور میرے بیٹے (ان کے دونوں پوتے) مکرم منتظر احمد مربی سلسلہ اور مکرم ثمر احمد بھی نماز کے لئے گھر سے گاڑی میں نکلے۔ گاڑی والے ہم تینوں ’’بیت الکریم‘‘ پہنچ گئے لیکن چوہدری شمس الدین صاحب وہاں نہ تھے۔ صدر صاحب جماعت نے مکرم منتظر احمد صاحب مربی سلسلہ (ان کے پوتے) کو نماز پڑھانے کا کہا، جبکہ خاکسار کو شدید پریشانی تھی کہ چوہدری صاحب مسجد کیوں نہیں پہنچے؟ نماز ختم ہوئی تو ایک مقامی نمازی کو مسجد کی گلی کے کونے پر زمین پر آپ بیٹھے نظر آئے۔ انہوں نے سہارا دیکر مسجد پہنچایا۔ خاکسار نے درس بھی نہ سنا اور پریشانی میں گیٹ پر گیا وہاں آپ کرسی پر بیٹھے تھے اور خوب پسینہ آیا ہوا تھا۔ میں نے ان کے بوٹ اتارے اور درد، تکلیف بارے پوچھا۔ آپ نے کہا مجھے اندر لے چلو نماز کے لئے۔ خاکسار نے سہارا دیا تو بمشکل چند قدم چل سکے۔ اندر سے تمام نمازی بھی آ گئے۔ چارپائی پر آپ کو بٹھایا گیا مگر آپ بیٹھ نہ سکے۔ اسی دوران ایمبولنس بھی آگئی، مسجد کے اندر ہی چار پائی پر آپ کی سانسیں بند ہوگئیں۔ سانس بحال کرنے کی کوشش کی گئی مگر آپ جانبر نہ ہوسکے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ اسی ایمبولنس نے جناح ہسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی وفات کی تصدیق کردی۔ آپ کی نماز جنازہ اسی دن بعد نماز عصر بیت الکریم میں مکرم چوہدری حمید نصراللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور نے پڑھائی۔ اگلے روز ربوہ میں حافظ مظفر احمد صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور مبشر احمد کاہلوں صاحب نے تدفین کے بعد دعا کرائی۔ 2؍جون 2009ء کو حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی (روزنامہ الفضل ربوہ 7؍جولائی 2009ء صفحہ7) آپ نے پسماندگان میں تین بیٹے اور چار بیٹیاں سوگوار چھوڑے تھے۔ بیٹوں میں مکرم منیر الدین شمس صاحب، مکرم نصیرالدین صاحب حال مقیم بیلجیم اور مکرم صلاح الدین طارق حال مقیم یوکے شامل ہیں۔

(بشکریہ منیر الدین شمس صاحب جنہوں نے تصاویر اور معلومات فراہم کرنے میں مدد کی)

(منور علی شاہد -جرمنی)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 ستمبر 2022