• 20 اپریل, 2024

’’یہ شخص میرا سچا عاشق ہے‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت شیخ اصغر علی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ عام طور پر حضرت اقدس علیہ السلام سے جب باہر سے آئے ہوئے دوست واپسی کی اجازت طلب کرتے تو بار بار آپ اُن کو جلدی جلدی آتے رہنے کی تاکید فرماتے اور بعض وقت فرمایا کرتے تھے کہ ابھی اور ٹھہرو۔ ایسے اصحاب کو جن کے متعلق حضور انور کو خیال ہوتا کہ وہ ابھی اور ٹھہرنے کی گنجائش رکھتے ہیں۔ (ہر ایک کو نہیں کہتے تھے، جن کے بارہ میں خیال تھا کہ یہ ٹھہر سکتے ہیں اُن کو فرماتے تھے کہ ابھی اور ٹھہرو۔) گویا دوستوں کو حضور انور سے جدا ہونا بہت شاق گزرتا تھا۔ ہر ایک دوست کو رخصت ہونے سے پہلے مصافحہ کرنے کی تاکید ہوتی تھی اور سب دوست مصافحہ کرکے اور اجازت حاصل کر کے واپس ہوا کرتے تھے۔ خواہ کتنی بھی دیر ہو جائے۔ مصافحہ کر کے اجازت حاصل کئے بغیر جانا جہاں تک مجھ کو علم ہے کبھی کسی کا نہیں ہوتا تھا۔ بعض دوستوں کے ساتھ ایسا واقعہ بھی ہوا کہ مصافحہ کی باری بہت دیر سے آئی اور جب روانہ ہوئے تو اُنہیں امیدنہ تھی کہ وہ اسٹیشن پر گاڑی کے وقت پہنچ سکیں گے لیکن الٰہی تصرف سے حضور انور کی دعاؤں کی برکت سے کئی دفعہ یہ واقعہ ہوا کہ گاڑی دیر سے بٹالہ پہنچی اور گاڑی پر چڑھ گئے۔ پھر اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ خود میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا کہ ہم دیر سے چلے اور اس روز یکّہ بھی نہ ملا۔ ہم چند بھائی تھے سب پیدل روانہ ہوئے۔ شاید ان دنوں چھ بجے کے قریب گاڑی بٹالہ آیا کرتی تھی اس پر سوار ہونے کا خیال تھا مگر بہت کم وقت معلوم ہوتا تھا۔ دعائیں بھی کرتے رہے اور خوب تیز رفتار چلے حتّی کہ کچھ راستہ دوڑتے بھی کاٹا۔ اللہ تعالیٰ نے خوب ہمت دی اور جب ہم تحصیل کے قریب والے حصہ میں پہنچے اور پتہ کیا تو پتہ لگا کہ گاڑی ابھی نہیں آئی اور پھر تھوڑی دیر بعد جب آئی تو ہم آرام سے سوار ہوئے۔ یہ محض حضرت اقدس کی توجہ کی برکت تھی۔

(ماخوز ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد4 صفحہ171، 172روایت شیخ اصغر علی صاحب)

حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحبؓ ولد حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ فرماتے ہیں: خاکسار کی عادت تھی کہ جب کبھی بھی خاکسار کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملتا یا حضور کا لیکچر سنتا تو خاکسار کاپی پینسل اپنے پاس رکھتا اور جب دیکھتا کہ حضور نے کوئی بات فرمائی ہے جو خاکسار کے نزدیک قابل عمل اور زندگی کے لئے مفید اور ضروری ہے تو خاکسار فوراً اُس کو اُس میں درج کر لیتا۔

(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد7 صفحہ71 روایت حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحبؓ)

حضرت اللہ دتہ صاحبؓ ہیڈ ماسٹر ولد میاں عبدالستار صاحب فرماتے ہیں کہ: غالباً 1901ء یا 1902ء میں ایک نواب صاحب مع اپنے خادمان کے علاج کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں قادیان آئے۔ ایک دن جبکہ مَیں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں حاضر تھا، نواب صاحب کے دو اہلکار ایک سکھ اور ایک مسلمان آئے اور عرض کیا کہ نواب صاحب کے علاقے میں وائسرائے آنے والے ہیں۔ آپ ان لوگوں کے تعلقات سے واقف ہیں۔ نواب صاحب کا منشاء ہے کہ چند روز کے لئے حضورؑ ان کے ہمراہ چلیں (یعنی خلیفہ اوّل کو کہا)۔ انہوں نے (حضرت مولانا نورالدین صاحب حضرت خلیفہ اوّلؓ نے) فرمایا کہ مَیں اپنی جان کا آپ مالک نہیں۔ میرا ایک آقا ہے اُس سے پوچھو۔ چنانچہ ظہر کے وقت میں مسجد مبارک میں ان ملازمین نے حضرت نبی اللہؑ کی خدمت میں عرض کیا۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر ہم مولوی صاحب کو آگ میں ڈالیں انکار نہیں کریں گے۔ پانی میں ڈبوئیں تو انکار نہیں کریں گے۔ لیکن اُن کے وجود سے یہاں ہزاروں انسانوں کو فیض پہنچتا ہے۔ ایک دنیا دار کی خاطر ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اتنے فیضان بند کر دیں۔ اگر ان کو (یعنی جو نواب صاحب تھے) زندگی کی ضرورت ہے تو یہاں رہ کر علاج کرائیں ’’اور یہ نہیں ہے کہ وائسرائے صاحب آ رہے ہیں تو ان کی طرف چلے جاؤ، کیونکہ یہاں غریبوں کا فائدہ ہو رہا ہے اس لئے اولیت غرباء کی ہے۔ (آگے یہ حضرت خلیفہ اوّل کا اس پر جو ردّ عمل، اظہار تھا وہ روایت کرتے ہیں۔ ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اظہار تھا کہ پانی میں ڈالوں، آگ میں ڈالوں تو کود جائیں گے۔ خلیفہ اوّل کے اظہار کے بارے میں یہ بیان کرتے ہیں کہ) اُسی دن بعدہٗ صلوٰۃ عصر حضرت خلیفہ اولؓ درس قرآن کے وقت فرمانے لگے (نمازِ عصر کے بعد جو درسِ قرآن تھا اُس میں فرمانے لگے) کہ آج مجھے اس قدر خوشی ہے کہ مجھ سے بولا تک نہیں جاتا۔ ایک میرا آقا ہے۔ مجھے ہر وقت یہی فکر رہتی ہے کہ وہ مجھ سے خوش ہو جائے۔ آج کس قدر خوشی کا مقام ہے کہ وہ میری نسبت ایسا خیال رکھتا ہے کہ اگر میں نور الدین کو آگ میں ڈالوں تو انکار نہیں کرے گا۔ پانی میں ڈبوؤں تو انکار نہیں کرے گا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد7 صفحہ397-398 روایت حضرت اللہ دتہ صاحبؓ ہیڈ ماسٹر)

حضرت ماسٹر ودھاوے خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ: ماسٹر اللہ دتہ صاحب ریٹائرڈ سکول ماسٹر حال قادیان محلہ دارالرحمت نے جبکہ وہ گوجرانوالہ میں قلعہ دیدار سنگھ (سکول) میں نائب مدرس تھے، مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ قادیان میں مَیں گیا ہوا تھا تو مسجد مبارک میں حضور علیہ السلام احباب میں تشریف فرما تھے اور حضرت مولوی نورالدین صاحب بھی وہاں پر موجود تھے۔ حضور نے اُن کی طرف (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ حضرت حکیم مولانا نورالدین کی طرف) اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ شخص میرا سچا عاشق ہے۔ اس کے بعد جب مسجد سے باہر آئے تو مولوی صاحب نے چوک میں وعظ کے رنگ میں بیان کیا کہ جس شخص کو اُس کا معشوق یہ کہہ دے کہ میرا یہ عاشق ہے اس کو اور کیا چاہئے؟۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر11 صفحہ26۔ روایت حضرت ماسٹر ودھاوے خاں صاحبؓ)

حضرت ماسٹر مولا بخش صاحبؓ ولد عمر بخش صاحب فرماتے ہیں: ایک دفعہ یہاں (قادیان) آیا ہوا تھا۔ تعطیلات کے دو تین دن باقی تھے۔ میں حضور سے اجازت لے کر روانہ ہو کر جب خاکروبوں کے محلے کے باہر بٹالہ کے راستے پر چلا گیا تو آگے جانے کو دل نہ چاہا۔ وہیں کھیت میں بیٹھ گیا اور چلّا چلّا کر زار و زار رویا اور واپس آ گیا۔ (جانے کو دل نہیں کر رہاتھا، ایک بے چینی تھی اور بہر حال بیٹھ کرروکے وہیں سے واپس آگیا) موسمی تعطیلات ختم کر کے پھر گیا۔ یہ حضور کی محبت کا اثر تھا۔

(رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد7 صفحہ147-146روایت حضرت ماسٹر مولا بخش صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 11؍ مئی 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

This week with Huzoor (24ستمبر 2021ء قسط اول)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 اکتوبر 2021