• 21 جولائی, 2025

اسلامی اصطلاحات کی اہمیت اور ان کے استعمال کی تحریک (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس)

اسلامی اصطلاحات کی اہمیت اور ان کے استعمال کی تحریک
از افاضات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اسلامی اصطلاحات سے مراد وہ اسلامی شعائر، دعائیں، اذکار، عبادات ہیں جو یا تو خود فی ذاتہ انفرادی حیثیت میں کامل عبارت یا جملہ ہوتے ہیں یا کسی مجموعہ کا نام بھی بطور اصطلاح رائج ہے۔ جیسے ارکانِ اسلام ایک مجموعہ ہے اور اذان ایک انفرادی اصطلاح ہے۔

جماعت احمدیہ ہمیشہ سے اسلامی اصطلاحات کو تعظیم دیتی آئی ہے اور اسی طرح تعظیم دیتی ہے جس طرح اس کا حق ہے۔ اور اگر بحیثیت مجموعی اس میں کمی نظر آئے تو خلیفۂ وقت کا بابرکت وجود احباب جماعت کو توجہ دلا دیتا ہے۔ مختلف مواقع پر خطبات اور سوالات کی صورت میں ان اصطلاحات سے متعلق جو حضور انور نے بیان فرمایا یا جوابات دئے وہ قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔

اذان

ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو پھر اس کے کان میں کیوں اذان دینی چاہئے؟

اس کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
دائیں کان میں اذان دیتے ہیں بائیں کان میں تکبیر کہتے ہیں۔ تاکہ پہلی آواز جو اس زندگی میں آ کر سُنے وہ اللہ تعالیٰ کانام اس کے کان میں پڑے۔ کلمہ طیبہ اس کے کان میں پڑے۔ تاکہ وہ توحید پہ قائم ہو اور اس رسول کا نام پڑے جو توحید قائم کرنے میں سب سے بڑا رسول ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان ہو۔

(الفضل انٹر نیشنل 11 جولائی 2014ء)

ارکانِ اسلام

ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ وقف نو بچی کو پوری پانچ نمازیں دن میں پڑھنی چاہئیں یا صرف تین چار کافی ہیں۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
وقف نو کا کیا سوال ہے ہر مسلمان کے لئے پانچ نمازیں فرض ہیں۔ ہر ایک کو پڑھنی چاہئیں۔ تین چار کیا باقی نمازیں تم بخشوا کے آئی ہو۔ وقف نو کا سوال نہیں ہے ہر جو سچا مسلمان ہے اس کے لئے پانچ نمازیں فرض ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ کے ہمیں بتائیں کہ کس طرح پڑھنی ہیں کون کون سے وقت پر پڑھنی ہیں اور کتنی تعداد میں پڑھنی ہیں اس لئے یہ تو فرائض ہیں۔ ارکان اسلام کیا ہیں؟ آتے ہیں؟ وقف نو کی بچی ہو اور ارکان اسلام ہی نہیں آتے تو وقف نو کی ٹریننگ آپ نے کیا کرائی ہوئی ہے۔ جس کو ارکان اسلام نہیں آتے اس بیچاری نے نماز کیا پڑھنی ہے۔ کلمہ طیبہ، نماز، روزہ، زکوۃ اور حج یہ پانچ ارکانِ اسلام ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا :
سمجھ آئی؟ کلمہ کے بغیر تم مسلمان نہیں ہو سکتی۔ نماز فرض ہے۔ پانچ وقت کے لئے اس کو پڑھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر تم مسلمان نہیں ہو سکتی۔ پھر روزہ ہے جو کہ فرض ہے اور اس میں بعض حالات میں چھوٹ بھی ہے۔ نماز ہر ایک کے لئے فرض ہے اس میں کوئی چھوٹ نہیں۔ باقی جو ارکان ہیں ان میں ہے کہ تم روزہ رکھو۔ بیمار ہو تو نہیں رکھ سکتے۔ مسافر ہو تو نہیں رکھ سکتے۔ چھوٹی عمر ہے تو نہیں رکھ سکتے۔ جب فرض ہو جائیں تو شرائط پوری کرتے ہوئے رکھو۔ زکوٰۃ ان پہ جن کے پاس پیسے ہوں اور ایک حد تک اتنا ہو مال جو پورا سال ان کے پاس رہے۔ یا جانور ہوں یا اور جائیداد ہو وہ زکوۃ دیتے ہیں۔ ان پر زکوٰۃ فرض ہے۔ اور حج ان پر فرض ہے جو رستے کا خرچ بھی دے سکتے ہوں۔ امن اور سکون کی حالت بھی ان کو میسّر ہو۔ حج زندگی میں ایک دفعہ ہی عموماً لوگ کرتے ہیں۔ پانچ نمازیں فرض ہیں۔ تم نے کہیں اپنے امّاں ابا کو تین نمازیں پڑھتے دیکھ لیا تم سمجھی تین نمازیں ہوتی ہیں۔ تین نمازیں نہیں ہوتیں پانچ ہوتی ہیں: فجر ظہر عصر مغرب عشاء۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ جو پانچ نمازیں نہیں پڑھتا وہ احمدی نہیں۔

(الفضل انٹر نیشنل 11 جولائی 2014ء)

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ

حضور انور ایدہ اللہ نے حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کے اقتباسات کے کو کلمہ طیبہ کو ماٹو قرار دیتے ہوئے فرمایا:
ہمارا ماٹو تو تمام قرآن کریم ہی ہے لیکن اگر کسی دوسرے ماٹو کی ضرورت ہے تو حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے مقرر کر دیا اور وہ ہے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ اور یہ تمام قرآن کریم کا خلاصہ ہے۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ تمام تعلیمیں اور تمام اعلیٰ مقاصد توحید سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح بندوں کے آپس کے تعلقات اور بندے کے خدا تعالیٰ سے تعلقات یہ بھی توحید کے اندر آ جاتے ہیں۔ اور توحید ایسی چیز ہے جو بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کے ظاہر نہیں ہو سکتی۔ اس لئے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ لگا دیاگیا ہے کہ حقیقی معبود کی تلاش یا خدا تعالیٰ کو اگر دیکھنا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد سے دیکھو۔ گویا آپ ہی وہ عینک ہیں جس سے معبود حقیقی نظر آ سکتا ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد لی جائے تو اَلْحَمْدُ سے لے کر اَلنَّاسِ تک ہر جگہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا مضمون نظر آئے گا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک ہی ہے جن کے آنے سے دنیا میں توحید حقیقی قائم ہوئی ورنہ اس سے پہلے بعض لوگوں نے حضرت عزیر کو بعض نے حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ بعض لوگ ملائکہ کو معبود بنائے بیٹھے تھے۔ ایسے وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ہر قسم کے فسادوں کو دور فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی توحید کے قیام کے لئے کھڑا کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہی دنیا میں پھر توحید قائم ہوئی اور یہی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا ماٹو ہے جو ہم اپنی اذانوں کے ساتھ بھی بلند کرتے ہیں۔ جب کسی شخص کو اسلام میں لایا جاتا ہے تو اسے بھی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہلوایا جاتا ہے کیونکہ حقیقی اسلام اسی کا نام ہے۔ اگر کسی میں دینی کمزوری پیدا ہوتی ہے تو اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اس کے سامنے سے ہٹ گیا ہوتا ہے ورنہ اگر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہر وقت سامنے ہو توانسان دینی کمزوریوں سے محفوظ رہے۔

(ماخوذاز خطبات محمود جلد17 صفحہ563تا565 خطبہ جمعہ فرمودہ 28اگست 1936ء)

حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:آج جبکہ شرک کے ساتھ دہریت بھی بہت تیزی سے پھیل رہی ہے بلکہ دہریت بھی شرک کی ایک قسم ہے یا شرک دہریت کی قسم ہے۔ ہم اپنے آپ کو ایک نعرے پر محدود کر کے اور اس پر اکتفا کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے نہیں بن سکتے۔ نہ ہی ہم انسانیت کی خدمت کے زعم میں اپنی نمازوں اور عبادتوں کو چھوڑ سکتے ہیں۔ جو ایسا کرتا ہے یا کہتا ہے اس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ پس ہمیں اپنے حقیقی مطمح نظر اور مقصود کو ہمیشہ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم تمام دینی و دنیاوی انعامات کے حاصل کرنے والے بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 9؍ مئی 2014ء)

جمعۃ الوداع اور لیلۃ القدر

حضور انور جمعۃ الوداع اور لیلۃ القدرکی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’رمضان کا آخری عشرہ بھی بڑی تیزی سے گزر رہا ہے۔ اس عشرے میں دو چیزوں کی طرف مسلمان زیادہ توجہ رکھتے ہیں یا انہیں بہت اہمیت دیتے ہیں ان میں سے ایک تو لیلۃ القدر ہے اور دوسری چیز جمعۃ الوداع۔ ان میں سے ایک یعنی لیلۃ القدر تو ایک حقیقی اہمیت رکھنے والی چیز ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ احادیث میں اس کا مختلف روایتوں میں ذکر ہے۔ اسی طرح قرآن شریف میں بھی اس کا ذکر موجود ہے لیکن جمعۃ الوداع کو تو خود ہی مسلمانوں نے یا علماء کی اپنی خود ساختہ تشریح نے غلط رنگ دے دیا ہے۔

۔۔۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے جسے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ جب اس لیلۃ القدر میں سے کامیاب گزریں گے تو ترقی کرنے اور اس میں بڑھتے چلے جانے کے فیصلے بھی غیر معمولی ہوں گے۔ فیصلے تو اللہ تعالیٰ نے کرنے ہیں، دعائیں تو اللہ تعالیٰ نے سننی ہیں، لیلۃ القدر تو اللہ تعالیٰ نے دکھانی ہے۔ پس ان باتوں کی پابندی بھی ضروری ہے جو لیلۃ القدر کے حاصل کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ پھر مطلع الفجر بھی غیر معمولی ہوتا ہے اور پھر جو دن طلوع ہو گا یہ غیر معمولی کامیابیوں کے ساتھ نظر آئے گا۔ پس لیلۃ القدر سے فیض یاب ہونے کے لئے ہمیں ان باتوں کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ لیلۃ القدر اس قربانی کی ساعت کا نام ہے جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو اور جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو جائے اس سے بڑھ کر اور کوئی نفع کا سودا نہیں ہے۔ پس مقبول قربانیوں کی کوشش کرنی چاہئے ۔۔۔۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ جمعہ اس لئے نہیں آیا کہ ہم اس کو پڑھ کر رمضان کو وداع کر دیں یا رخصت کر دیں بلکہ اس لئے آیا ہے کہ اگر ہم چاہیں تو اس سے فائدہ اٹھا کر ہمیشہ کے لئے اسے اپنے دل میں قائم کر لیں۔ جمعہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لئے عیدوں میں سے ایک عید قرار دیا ہے۔ اور اس دن میں احادیث کے مطابق ایک ایسی گھڑی بھی آتی ہے جس میں دعائیں خصوصیت کے ساتھ قبول ہوتی ہیں۔ ان سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے۔ آج کے دن ہم اس لئے مسجد میں نہیں آئے، نہ آنا چاہئے اور یہ ایک احمدی کی سوچ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کہیں کہ تونے جو مصیبت رمضان کی صورت میں ہم پر ڈالی تھی شکر ہے وہ آج ٹل رہی ہے یا رخصت ہو رہی ہے۔ بلکہ اس لئے آئے ہیں کہ ان مبارک گھڑیوں میں یہ دعا کریں کہ رمضان کے دن تو تین چار دن میں گزر جائیں گے لیکن اے خدا !تُو رمضان کی حقیقت اور اس میں کی گئی عبادتیں اور دوسرے نیک اعمال ہمارے دل کے اندر محفوظ کر دے اور وہ ہم سے کبھی جدا نہ ہوں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 25؍ جولائی 2014ء)

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ

حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے 7جون 2003ء کی چلڈرن کلاس میں ربوہ کے اطفال کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’ربوہ کے بچے ماشاء اللہ آپ لوگوں کی طرح بہت ہی پیارے بچے ہیں۔ ان کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ احمدیوں کو سلام کو رواج دینا چاہیے یعنی ہراحمدی کو یہ عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ ہر ملنے والے کو سلام کہے اور اس کیلئے حضرت صاحبؒ نے قادیان کی مثال دی تھی کہ وہاں ہر بڑا چھوٹا سلام کہتا تھا اور ایک بہت پیارا اور محبت والا ماحول تھا۔ تو عمومی طور پر حضرت صاحبؒ نے سارے بچوں کو اور بڑوں کو یہ کہا تھا کہ جب آپس میں ملیں تو سلام کہیں، خوش اخلاقی سے ملیں، لیکن ربوہ کے بچوں کو خاص طور پر کہا تھا کہ وہاں کاماحول ایسا ہے کہ سلام کی عادت ڈالیں۔ تو ربوہ کے بچوں کے لئے یہی میرا پیغام ہے کہ ربوہ کے ماحول کو ایسا بنا دیں کہ ہر طرف سے سلام سلام کی آوازیں آرہی ہوں، بڑے بھی چھوٹے بھی بچے بھی۔ بعض دفعہ بڑوں سے سستیاں ہوجاتی ہیں تو بچے اس کی پابندی کریں کہ انہوں نے بہرحال ہر ایک کو سلام کہنا ہے اور سلام کرنے میں پہل کرنی ہے تو اس طرح ربوہ کے ماحول پر بڑا خوشگوار اثر پڑے گا۔ ان شاء اللّٰہ۔ ایک تو یہ بات ہے۔

(الفضل ربوہ 10جون 2003ء)

پھر فرمایا کہ
’’… اپنے بچوں کو سلام کہنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ یہ تو ٹریننگ کا ایک مستقل حصہ ہے، بچے کو سمجھاتے رہیں کہ وہ سلام کرنے کی عادت ڈالے، گھر سے جب بھی باہر جائے سلام کرکے جائے اور گھر میں جب داخل ہو تو سلام کرکے داخل ہو۔ پھر بچوں کو اس کا مطلب بھی سمجھائیں کہ کیوں سلام کیا جاتا ہے تو بہرحال بچوں، بڑوں سب کو سلام کہنے کی عادت ہونی چاہیے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3 ستمبر 2004ء)

پھر فرمایا:
’’پس اللہ تعالیٰ کی سلامتی حاصل کرنے کے لئے اللہ اور رسول ﷺ نے یہی راستہ بتایا ہے کہ سلام کو رواج دو۔ اس سے آپس میں دلوں کی کدورتیں بھی دور ہوں گی، محبت بھی بڑھے گی، عفو اور درگزر کی عادت بھی پیدا ہو گی اور پھر اس سے معاشرے میں ایک پیار اور محبت کی فضا پیدا ہو جائے گی جو کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک بڑا اہم حکم ہے جس سے حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ پیدا ہو جائے گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 11؍مئی 2007ء)

سلام اور مصافحہ

مصافحہ کرنے اور عہدیداران کو کھڑے ہوکر مصافحہ کرنے کی تحریک کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا :
’’ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ملتا اور آپؐ سے گفتگو کرتا، آپؐ اس سے اپنا چہرہ مبارک نہ ہٹاتے۔ یہاں تک کہ وہ خود واپس چلا جائے اور جب کوئی آپؐ سے مصافحہ کرتا تو آپؐ اپنے ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہ چھڑاتے یہاں تک کہ وہ خود ہاتھ چھڑا لے۔ اور کبھی آپؐ کو اپنے ساتھ بیٹھنے والے سے آگے گھٹنے نکال کر بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔

(ابن ماجہ، کتاب الادب باب اکرام الرجل جلیسہ)

اس سے جہاں ہم سب کے لیے نصیحت ہے،خاص طور پر جماعت کے عہدیداران کو بھی میں کہنا چاہتا ہوں، ان کو بھی سبق لینا چاہیے کہ ملنے کے لیے آنے والے کو اچھی طرح خوش آمدید کہنا چاہیے۔ خوش آمدید کہیں، ان سے ملیں، مصافحہ کریں، ہر آنے والے کی بات کو غور سے سنیں۔ بعض لکھنے والے مجھے خط لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے بعض معاملات ہیں کہ آپ سے ملنا تو شاید آسان ہو لیکن ہمارے فلاں عہدیدار سے ملنا بڑا مشکل ہے۔ تو ایسے عہدیداران کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ حسنہ کو یاد رکھنا چاہیے، ملنے والے سے اتنے آرام سے ملیں کہ اس کی تسلی ہو اور وہ خود تسلی پا کر آپ سے الگ ہو۔ پھر دفتروں میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ہر آنے والے کو کرسی سے اٹھ کر ملنا چاہیے، مصافحہ کرنا چاہیے۔ اس سے آپ کی عاجزی کا اظہار ہوتا ہے اور یہی عاجزی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی ہے۔ دیکھیں آپ بیٹھتے وقت بھی کتنی احتیاط کیا کرتے تھے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3 ستمبر 2004ء)

استغفار

حضور انور نے بارہا استغفار کی حقیقت سے متعلق خطبات جمعہ میں تفصیل بیان فرمائی۔ حضور فرماتے ہیں :
’’استغفار کاحکم ایک ا یسا حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود بھی مومنوں کودیا اور انبیاء کے ذریعہ سے بھی کہلوایا اور مومنین کو ا ستغفار کی طرف توجہ دلائی۔ انبیاء کو کہا کہ مومنوں کو استغفار کی طرف توجہ دلاؤ اور جب اللہ تعالیٰ مومنوں کو ’’وَاسْتَغْفِرُوااللّٰہَ‘‘ یعنی اللہ سے بخشش مانگو، کا حکم دیتا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی فرماتا ہے کہ ’’اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ یقیناً اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور باربار رحم کرنے والا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ یہ اعلان آنحضرتﷺ سے بھی کرواتا ہے کہ مومنوں کو بتا دو کہ یہ مہینہ بخشش کا مہینہ ہے اور خود بھی اس بارہ میں یہ کہہ رہاہے کہ بخشش میرے سے مانگو، مَیں بخشوں گا۔ بڑ ابخشنے والا اور رحم کرنے والا ہوں تو اللہ تعالیٰ پھر بخشتا بھی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتاکہ اللہ تعالیٰ کے بندے بخشش مانگتے ہوئے اس کے آگے جھکیں اور بخشے نہ جائیں۔اصل میں تو یہ رحمت، بخشش اور آگ سے نجات ایک ہی انجام کی کڑیاں ہیں اور وہ ہے شیطان سے دُوری اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کاقرب حاصل کرنا۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 10؍اکتوبر تا 16؍اکتوبر 2008ء)

شیطان سے پناہ کے لئے تَعَوُّذ اور استغفار

ایک بچے نے سوال کیا کہ کوئی نیک کام کرنے سے پہلے جب شیطان ہمیں بہکاتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے فرمایا :
تَعَوُّذ اور استغفار پڑھیں، ثابت قدم رہیں اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔

(الفضل انٹرنیشنل 23 اکتوبر 2020ء)

رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا

ایک ناصرہ نے پوچھا کہ ہائی سکول کی پڑھائی کے پریشر کو کس طرح برداشت کیا جائے اور اچھے رنگ میں پڑھائی کیسے کی جائے؟

اس کے جواب میں حضورا نور نے فرمایا:
جو بھی آپ نے اگلے دن پڑھنا ہو، اس کو گھر سے پڑھ کر جائیں اور پھر جب آپ کلاس میں ٹیچر کا لیکچر سن رہی ہوں گی تو آپ کے لیے سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ پھر جب آپ گھر واپس آئیں تو اس کی دہرائی کریں۔ پھر آپ پر زیادہ دباؤ نہیں پڑے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کریں۔ اپنی دعاؤں میں یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے یہ کام آسان کرے۔

حضور انور نے فرمایاکہ طلبہ کو اپنی پنجوقتہ نمازوں میں اپنی کامیابی کے لیے دعا کرنی چاہیے اور یہ چیز انہیں پر سکون رکھے گی اور ان کی پڑھائی کا دباؤ اور پریشانی بھی کم ہوگی۔ مزید برآں حضور انور نے دو قرآنی دعاؤں

رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا

اور

رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ۔ وَ یَسِّرۡ لِیۡۤ اَمۡرِیۡ۔ وَ احۡلُلۡ عُقۡدَۃً مِّنۡ لِّسَانِیۡ۔ یَفۡقَہُوۡا قَوۡلِیۡ۔

کا ذکر فرمایا اور ان کو باقاعدگی سے پڑھنے کی تلقین فرمائی۔

(الفضل انٹرنیشنل، 25 اگست 2021ء)

ایک اور طالبعلم نے سوال کیا کہ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا کے علاوہ کون سی دعا پڑھائی میں آسانیاں پیدا کر سکتی ہے۔

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یہ قرآن کریم کی دعا ہے۔ اس کے علاوہ رَبِّ اشۡرَحۡ لِیۡ صَدۡرِیۡ … کی دعا ہے۔ ایک دعا رَبِّ اَرِنِیْ حَقَآئِقَ الْاَشْیَآءِ ہے۔ یہ دعائیں ہیں۔ ان کو پڑھو اور ان پر غور کرو۔

(الفضل انٹرنیشنل 9 اگست 2013ء)

جَزَاکُمُ اللّٰہُ

ایک واقفہ نَو نے پوچھا کہ جزاک اللہ کا جواب کیا ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جَزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَآء۔ قرآن کریم کہتا ہے ہَلۡ جَزَآءُ الۡاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ (الرحمٰن: 61) یعنی احسان کا بدلہ احسان ہے۔ جو جَزَاکَ اللّٰہُ کہتا ہے وہ تم پر احسان کر رہا ہے تمہارے لئے دعا کر رہا ہے تو تم اس کے لئے دعا کردو۔ اَحْسَنَ الْجَزَآء دے۔ اور بھی بڑھ کر جزاء کہ تم میرے لئے دعائیں کر رہے ہو۔

(الفضل انٹرنیشنل 20؍ تا 26؍جولائی 2012ء)

سہو صلاة کے لئے سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنا

ایک واقفِ نو نے سوال کیا کہ جب امام نماز پڑھا رہا ہو، مثلاً تین رکعات کی بجائے دو پڑھا دے تو کیا کرنا چاہئے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا:
’’سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘ ایک دفعہ کہہ دو۔ اگر امام نے سن لیا تو ٹھیک ہے۔ نہیں تو خاموش رہو اور بار بار نہ کہو۔ یہ نہیں کہ پہلے پہلی صف اور پھر دوسری صف والے ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘ کہنا شروع ہو جائیں اور پھر تیسری صف شروع کر دے۔ اس طرح بار بار کے کہنے سے امام کو بھول ہی جاتا ہے کہ میں نے کرنا کیا ہے، کیا غلطی ہو گئی ہے، وہ نماز میں کچھ کہہ نہیں سکتا، کچھ کہنے کی اجازت نہیں ہے۔ تو اسلئے ایک دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنا کافی ہے۔ امام کو سمجھ آگیا تو ٹھیک ہے، نہیں یاد آتا تو خاموش رہو اور جب امام سلام پھیر دے تو اس کو یاد کروا دو کہ آپ نے دو رکعتیں پڑھی تھیں، پوری تین رکعات نہیں پڑھ سکے۔ تو امام سلام پھیرنے کے بعد پھر کھڑا ہو گا اور ایک رکعت پڑھا دے گا۔ سارے اس کے ساتھ پڑھیں گے اور رکعت کے بعد جب سلام پھیرنے لگے تو اس سے پہلے سجدہ سہو کے دو سجدے کرے گا اور سلام پھیر دے گا۔ بس ایک دفعہ امام کو یاد کروا دو۔ بعض دفعہ امام confuse بھی ہو جاتے ہیں۔ مجھے بھی بعض دفعہ لوگ ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘ اس طرح کہنے لگتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ غلطی کیا کی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا:
ایک دفعہ ایسا اتفاق ہو چکا ہے کہ کوئی کچھ نہیں بولا اور میں نے دو رکعات مغرب کی نماز کے بعد سلام پھیر دیا تو پھر نمازیوں نے کہا کہ آپ نے تو دو رکعتیں پڑھی ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، پھر ایک رکعت اور پڑھ لیتے ہیں۔ تو یہ ہو جاتا ہے، ہر ایک سے ہو جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ایک دفعہ چار کی بجائے پانچ رکعات پڑھا دی تھیں۔ صحابہ ؓ نے کچھ نہیں کہا۔ بعد میں کسی نے کہا کہ کیا نماز کے بارے میں نیا حکم آگیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ نہیں۔ تو کہا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو پانچ رکعتیں پڑھی ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘ کہہ کر یاد کروا دینا تھا۔ بھول تو ہر ایک سکتا ہے۔ لیکن اگر امام کو یاد آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ سلام پھیرنے کے بعد نماز کا جو حصہ رہ گیا ہے، وہ پورا کر لے گا۔

(الفضل انٹرنیشنل 19تا25 ؍جولائی 2013ء)

نماز میں توجہ قائم رکھنے کا طریق

ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور! بعض دفعہ نماز میں توجہ ادھر اُدھر ہو جاتی ہے پس نماز میں توجہ کو قائم رکھنے کے لیے کیا کرنا چاہئے؟

فرمایا:
کیونکہ نماز ادا کرتے ہوئے آپکی ترجیح نماز نہیں ہوتی اس لیے۔اس پر حضور نے اس خادم سے استفسار فرمایا کہ آپ کیاسٹڈی کر رہے ہیں ؟ موصوف نے جواب دیا۔ میں اے لیول کر رہا ہوں اس پر حضور نے فرمایا۔ کون کون سے SUBJECTS ہیں؟۔ اس پر موصوف نے جواب دیا کہ آرٹس، میتھ، اور کمپیوٹر سائنس۔ فرمایا: بعض دفعہ آپکی توجہ بٹ جاتی ہے اور آپ کمپیوٹر سائنس کے کسی مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔یا بعض دفعہ آپ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح ریاضی کے اس فارمولہ کو سیکھا جائے یا پھر اس سوال کو کیسے حل کیا جائے۔ بعض دفعہ آپ ٹی وی پر ڈرامہ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آپ کے ذہن میں اس ڈرامے کا کوئی کریکٹر آجاتا ہے کہ وہ یہ کر رہا ہے یا یہ کر رہا ہے۔ تو یہ چیزیں ہیں جو نماز میں آپکی توجہ کو کسی اور طرف بٹا دیتی ہیں اور آپ نماز میں توجہ نہیں کر رہے ہوتے۔تو جب آپ نماز میں سورۃ الفاتحہ پڑھ رہے ہوں تو ’’اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ‘‘ کا بار بار ورد کرنا چاہیے۔ ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ‘‘۔ پڑھیں۔ اور اگر آپ باجماعت نماز ادا کر رہے ہیں تو۔ ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھیں اور اس کے بعد جو امام پڑھ رہا ہو اس پر فوکس کریں۔ اور جب آپ اکیلے نماز ادا کر رہے ہوں، سنت ادا کر رہے ہوں یا گھر میں (انفرادی) نماز ادا کر رہے ہوں تو آپ۔ ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ‘‘، ’’لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ‘‘، اور ’’اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ‘‘ پڑھیں۔ اور جس جگہ بھی آپ کو پتا چلے کہ آپکی توجہ بٹ رہی ہے تو ان ذکر کو پڑھیں اور پھر وہیں سے شروع کر دیں۔ مثلاَ آپ سورۃ الفاتحہ میں ’’مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ‘‘ اد اکرنے کے بعد (آپکی توجہ) کمپیوٹر کے کسی مسئلہ کو حل کرنے یا میتھ کا سوال حل کرنے یا پھر ڈرامے کے کسی کریکٹر کی طرف چلی گئی ہو تو پھر۔ ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ‘‘ اور ’’اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ‘‘ پڑھیں اور دوبارہ ’’اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ‘‘ سے شروع کریں۔ اور بار بار اس طرح کرتے چلے جائیں اور خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے رہیں۔خدا تعالیٰ بھی مدد فرمائے گا۔یہ ایک مسلسل کوشش ہو گی تو پھر کچھ عرصے بعد جب آپ کافی ٹرین ہو جائیں گے تو (ان شاءاللہ) پھر آپکی توجہ نہیں بٹے گی۔

(ملاقات خدام الاحمدیہ Midlands ریجن، منعقدہ 10 ستمبر 2020ء)

سجدہ میں دعا کی ترتیب

ہستی باری تعالیٰ سے متعلق ایک انٹرویو میں عامر سفیر صاحب ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز نے سوال کیا کہ
حضور! کہا جاتا ہے کہ سجدے میں ذاتی نوعیت کی دعائیں کرنے کی اجازت ہے اور یہ ایسی حالت ہے جب انسان خدا کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ دعا کی ترتیب کے حوالے سے کئی آراء ہیں یعنی جس ترتیب سے ہمیں سجدہ میں دعا کرنی چاہیے۔ جیسے کوئی اپنے لیے سب سے پہلے دعا کرے یا کسی اَور چیزکے لیے دعا کرے پھر اپنے لیے؟ حضور! ذاتی دعاؤں کی کیا ترتیب ہونی چاہیے، بالخصوص حالت سجدہ میں؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یہ ہر شخص کی اپنی کیفیت ہے اور جن حالات سے وہ گزر رہا ہے یا جس معاملہ میں وہ مستغرق ہے۔ فطرتی طو رپر آپ ایسے مسئلہ پر روئیں گے یا زیادہ جذباتی ہوجائیں گے جو آپ کے لیے اہمیت کا حامل ہے، اسی طرح آپ ایسے معاملہ کے لیے دعا کریں گے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ آپؑ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے تعلق کی مضبوطی کے لیے دعا کرتے تھے اور پھر جماعتی ترقی اور پھر اپنے خاندان کے لیے اور دوست احباب کے لیے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک ترتیب تو بیان فرمادی ہے۔ ہر شخص کی الگ کیفیت ہوتی ہے بعض ایسے معاملات ہوتےہیں جو کسی شخص کو زیادہ جذباتی کر دیتے ہیں۔ ایک شخص ممکن ہے کہ کسی سخت مسئلے سے دوچار ہو تو وہ ایسے معاملات کے لیے دعا سے آغاز کرسکتا ہے تاکہ اسے نماز کی درست کیفیت میسر آجائے۔ اس کا کوئی معین اصول نہیں ہے لیکن ہر کسی کو ایسے معاملات کے لیے دعا کرنی چاہیے جن سے دعا کی اصل کیفیت پیدا ہو جائے اور جو آپ کے لیے زیادہ جذباتی ہوں۔

آپ کو سب سے پہلے استغفار کرنا چاہیے پھر جب آپ اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر نظر کریں جو اس نے آپ پر فرمائےہیں اور جب آپ اپنی حالت کو دیکھیں اور کمزوریوں کو تو یہی چیز آپ کو جذبات سے بھر دے گی اور جذباتی کیفیت پیدا کردے گی۔

(الفضل انٹرنیشنل 27 مئی 2021ء)

استخارہ

ایک واقفہ نَو نے سوال کیا کہ شادی کے سلسلہ میں استخارہ کی کیا اہمیت ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :
ہر کام کے لئے اللہ تعالیٰ سے راہنمائی لینے کے لئے استخارہ کا حکم ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر استخارہ یا ہر دعا کے بعد ضرور خواب بھی آئے اور جب تک خواب نہ آئے تم کہو کہ نہیں۔ اگر دل کو کسی بارے میں تسلی ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی منشاء ہے۔ رات کو نماز کے بعد خاص طور پر دو نفل پڑھ کے کسی مقصد کے لئے دعا کرو اور پھر سو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ سے یہ مدد مانگو کہ اگر یہ رشتہ میرے لئے بہتر ہے تو میرے دل میں تسکین اور سکون پیدا کردے اور اگر بہتر نہیں تو روک ڈال دے اور اس رشتے کے بارے میں میرے ماں باپ کے دل میں سے بھی نکال دے اور میرے دل میں سے بھی نکال دے۔ یہی مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ کبھی ماں راضی ہو جاتی ہے تو کبھی باپ راضی ہو جاتا ہے اور کبھی خود لڑکی کی مرضی ہوتی ہے۔ سارے راضی ہو جائیں تو زیادہ اچھا ہے۔

واقفہ نَو نے سوال کیا کہ کس کو استخارہ کرنا چاہئے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
لڑکی کو خود کرنا چاہئے۔ حضرت اماں جانؓ فرمایا کرتی تھیں کہ جب لڑکیاں چھ سات سال کی ہو جائیں تو اپنے نیک نصیب کے لئے دعا کرنی شروع کر دیں۔ تو ہر لڑکی کو اپنے نیک نصیب کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ جب بھی ایسا وقت آئے جب ان کا رشتہ آئے تو جو بہتر ہو وہ ہو۔ یہ نہیں کہ فلاں کے پاس پیسے ہیں، فلاں کے پاس عہدہ ہے، فلاں کے پاس ملازمت ہے، فلاں خاندان اچھا ہے تو میں نے رشتہ کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، غیب کا علم اس کو ہے، وہ جس کے لئے جو بہتر سمجھتا ہے اس کے مطابق کرو۔ باقی چھوٹی چھوٹی باتیں تو رشتوں کے بعد بھی ہو جاتی ہیں۔ پھر ان کو Ignore بھی کرنا چاہئے۔ پھر یہ ہے کہ غیرمتعلقہ لوگ جو ہیں جن کا کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوتا ان سے بھی استخارہ کروالینا چاہئے۔ ان کو بھی بعض دفعہ کوئی خواب آجاتی ہے یا کوئی نہ کوئی پیغام مل جاتا ہے۔

(الفضل انٹرنیشنل 20 تا 26؍جولائی 2012ء)

ایک طالبعلم نے سوال کیا کہ استخارہ کرنے کا اصل طریقہ کیا ہے؟ اس پر حضور انور نے فرمایا پہلی بات تو یہ ہے کہ استخارہ کو سمجھو۔ جو بھی کام کرنے لگے ہو اللہ تعالیٰ سے خیرمانگو۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کام کی خیر مانگنا کہ اللہ کے نزدیک یہ بہتر ہے تو میرے حق میں ہوجائے۔

دوسرا یہ ہے کہ رات کو سونے سے قبل دو نفل پڑھو۔ زیادہ لمبی دعائیں نہیں بتاتا۔ دو نفل پڑھو اور اس میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور استخارہ کرکے سو جاؤ اور کئی دن تک کرو، بعض لوگ چالیس دن بھی رکھتے ہیں۔ بعض کو تو تیسرے، چوتھے دن بعض باتوں کی تسلی ہو جاتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ خبریں پہنچائے۔ خبریں پہنچانے کے لئے استخارہ نہیں ہوتا۔استخارہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے خیرمانگنا کہ جو کام میں کرنے جارہا ہوں اس میں اگر میرے لئے خیر ہے تو میرے لئے آسانی کے سامان پیدا فرما۔

(الفضل انٹرنیشنل 27 تا 2؍اگست 2012ء)

لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ

جون2012ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورۂ امریکہ کے دوران مسجد بیت الرحمٰن واشنگٹن میں طالبات کے ساتھ ایک نشست ہوئی۔

ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:
’’سوسائٹی میں، اپنے گھر میں، اپنے سسرال والوں کے ساتھ اور اپنے ماحول میں جو بھی بے چینیاں اور پریشانیاں پیدا ہوں وہ استغفار کرنے اور

لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ

پڑھنے سے دور کی جاسکتی ہیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 17؍ اگست 2012ء)

لغویات سے بچاؤ کے لئے تَعَوُّذ اور لَاحَوْلَ

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ’قولِ سدید‘ کے قرآنی حکم کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’پھر سچائی کے معیار کے حصول کی نصیحت کے ساتھ مزید تاکید یہ فرمائی کہ جن مجالس میں سچائی کی باتیں نہ ہوں، گھٹیا اور لغو باتیں ہوں ان سے فوراً اٹھ جاؤ۔ جہاں خدا تعالیٰ کی تعلیم کے خلاف باتیں ہوں ان مجالس میں نہ جاؤ۔ اب یہ گھٹیا اور لغو باتیں اس زمانے میں بعض دفعہ لا شعوری طور پر گھروں کی مجلسوں میں یا اپنی مجلسوں میں بھی ہو رہی ہوتی ہیں۔ نظام کے خلاف بات ہوتی ہے۔ کئی دفعہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ عہدیداروں کے خلاف اگر باتیں ہیں، اگر نیچے اُس پر اصلاح نہیں ہو رہی تو مجھ تک پہنچائیں۔ لیکن مجلسوں میں بیٹھ کر جب وہ باتیں کرتے ہیں تو وہ لغو باتیں بن جاتی ہیں۔ کیونکہ اس سے اصلاح نہیں ہوتی۔ اُس میں فتنہ اور فساد اور جھگڑے مزید پیدا ہوتے ہیں۔ پھر اس زمانے میں ٹی وی پر گندی فلمیں ہیں۔ انٹرنیٹ پر انتہائی گندی اور غلیظ فلمیں ہیں۔ ڈانس اور گانے وغیرہ ہیں۔ بعض انڈین فلموں میں ایسے گانے ہیں جن میں دیوی دیوتاؤں کے نام پر مانگا جا رہا ہوتا ہے، یا اُن کی بڑائی بیان کی جا رہی ہوتی ہے جس سے ایک اور سب سے بڑے اور طاقتور خدا کی نفی ہو رہی ہوتی ہے۔ یا یہ اظہار ہو رہا ہو کہ یہ دیوی دیوتا جو ہیں، بت جو ہیں، یہ خدا تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ یہ بھی لغویات ہیں، شرک ہیں۔ شرک اور جھوٹ ایک چیز ہے۔ ایسے گانوں کو بھی نہیں سننا چاہئے۔

پس شیطان کے حملے سے بچنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے احسن قول ضروری ہے۔ ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ پھر دعا بھی اللہ تعالیٰ نے سکھائی کہ قرآنِ کریم کی آخری دو سورتیں جو ہیں جس میں شیطان کے ہر قسم کے حملوں سے بچنے کی دعا ہے۔

پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ۔

(حٰمٓ السجدۃ: 37)

اگر تجھے شیطان کی طرف سے کوئی بہکا دینے والی بات پہنچی ہے، ایسی باتیں شیطان پہنچائے جو احسن قول کے خلاف ہو تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی بہت زیادہ دعا کرو۔

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ پڑھو۔

لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ پڑھو۔

اللہ تعالیٰ یہ امید دلاتا ہے جو سننے والا اور جاننے والا ہے کہ اگر نیک نیتی سے دعائیں کی گئی ہیں تو یقیناً وہ سنتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 18؍ اکتوبر 2013ء)

گناہ سے بچنے کے لئے استغفار اور لَاحَوْلَ

عامر سفیر صاحب نے اسی انٹرویو میں ایک اور سوال پوچھا کہ:
حضور! پہلے جہاں گھر امن کی جگہ تھے اب خاندانوں کو گھروں کے اندر انٹرنیٹ اور ٹی وی کی بد اخلاقیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے اور یوں برائی کی طرف مائل کرنے والے بہکاوے گھروں میں اور گھروں سے باہر ہر جگہ موجود ہیں۔ معاشرے میں ایسی بہت سی بہکانے والی چیزوں کی موجودگی کے پیش نظر حضور کی کیا نصیحت ہے کہ خدا سے تعلق پیدا کر لینے کے بعد اسے کیسے برقرار رکھا جائے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ہمیں کثرت سے استغفار اور لَاحَوْلَ پڑھنا چاہیے۔ اگر استغفار صحیح طور پر کیا جائے تو یہ بہت طاقتور ہو سکتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ خود کو گناہ سے بچانے کے لیے اور نیکی کی حالت برقرار رکھنے کے لیے کثرت سے استغفار کرنا چاہیے۔ انبیاء اپنی قوم اور اپنے پیروکاروں کے لیے استغفار کیا کرتے تھے نہ کہ اپنے لیے اور وہ استغفار اس لیے بھی کرتے تھے تاکہ ماضی میں جو ان کو گناہوں سے بچنے کی توفیق ملی اس پر شکر ادا کر سکیں۔ یوں ماضی کے گناہوں کو مٹانے کےلیے اور مستقبل میں گناہوں سے بچنے کے لیے شکر گزاری کی خاطر ہر کسی کو استغفار کو اپنانا چاہیے۔

(الفضل انٹر نیشنل27 مئی 2021ء)

بے چینی سے بچنے کے لئے استغفار اور لَاحَوْلَ

ایک خادم نے سوال کیا کہ کرونا وبا کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی دماغی صحت متاثر ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر ڈپریشن اور بے چینی وغیرہ بڑھ رہی ہے تو ایسی صورت حال میں آپ خدام کو کیا نصیحت کریں گے کہ وہ ان معاملات کو کیسے deal کریں؟

فرمایا:خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ میری یاد اور میرا ذکر تمہارے دلوں کو اطمینان دے گا۔ پس ان دنوں (خاص طور پر) خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کرنی چاہیے، پنج وقتہ نماز کا التزام کرنا چاہیے اور اگر ممکن ہو تو با جماعت نماز کا التزام کرنا چاہیے۔ درود شریف، استغفار اور کثرت سے ذِکر کریں، خدا تعالیٰ کی مدد مانگیں۔ اس طرح خدا تعالیٰ آپ کو قلبی سکون دے گا۔ اس وائرس کے دوران وہ لوگ جو میرے پاس رہ رہے ہیں وہ بھی اور میں نے خود بھی کچھ برا محسوس نہیں کیا۔ میرا نہیں خیال، اس (بیماری) نے ہم پر کوئی برا اثر چھوڑا ہے۔ میں بھی (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ) ٹھیک ہوں اور آپ بھی (امید ہے) ٹھیک ہی ہوں گے۔اور وہ جو ٹھیک نہیں ہیں ان کو چاہیئے کہ وہ نماز میں باقاعدگی اختیار کرتے ہوئےخدا تعالیٰ سے مدد طلب کریں اور خدا تعالیٰ ان کی مدد کرے گا۔ مزید یہ کہ مختلف ذِکر کریں۔ کثرت سے استغفار اور درود شریف پڑھیں۔ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ بھی پڑھیں۔ اور بہت سی دعائیں جو کہ Prayer Book میں درج ہیں وہ بھی پڑھیں۔ اس سے آپ کو اطمینان ملے گا۔

(ملاقات خدام الاحمدیہ Midlands ریجن، منعقدہ 10 ستمبر 2020ء)

سورة الفاتحہ کا دَم

عامر سفیر صاحب نے سورة الفاتحہ اور دم کے حوالہ سے سوال کیا کہ :
حضور! مجھے سورۃ الفاتحہ کے دم کے بارے میں مزید جاننے کا شوق ہے۔ میں نے کچھ لوگوں سے سن رکھا ہے کہ جب وہ آپ سے ملے، آپ نے اپنا ہاتھ ان پر رکھا اور دعا کی اور بعد میں انہوں نے بتایا کہ ان کی تکلیف دور ہوگئی ہے۔ کسی پر پھونک مارنے یا ظاہری طور پر اپنا ہاتھ کسی کے اوپر رکھنے اور دعا کرنے کی کیا حقیقت ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حدیث میں ہے کہ جب آنحضورﷺ کو پتہ چلا کہ آپؐ کے ایک صحابی نے ایک بیمار کا علاج کیاہے تو آپﷺ نے استفسار فرمایا کہ انہوں نے ایسا کیسے کیا۔ اس صحابی نے بتایا کہ انہوں نے سورۃ الفاتحہ کی تلاوت سے ایسا کیا۔ اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ انہیں کس طرح پتہ چلا کہ وہ سورۃالفاتحہ سے ایسا کر سکتے ہیں۔جس پر اس صحابی نے عرض کیا کہ چونکہ اس میں شفا ہے اور اسی لیے انہوں نے اسے یعنی سورۃ الفاتحہ کو پڑھ کر اس سے علاج کیا۔ آپﷺ اس بات کو سن کر خوش ہوئے اور فرمایا کہ اس موقعے پر سورۃ الفاتحہ پڑھنا بالکل درست تھا۔

پہلی بات یہ ہے کہ آپ کو پورا یقین ہونا چاہیے کہ جس سے آپ دعا مانگ رہے ہیں یا جس کا خیال آپ کو ہے وہ دعا کا جواب دے سکتا ہے اور اس میں شفا دینے کی طاقت ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا ہے کہ ہستیٔ باری تعالیٰ پر کامل ایمان اور ایقان کا ہونا بنیادی چیز ہے۔ دوسرا یہ کہ انسان میں شرک کی کوئی ملونی نہیں ہونی چاہیے۔ انسان کو خالصتاً یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ایسا محض خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کی بدولت ہی ممکن ہے۔

بسا اوقات جب میں ایسا کرتا ہوں تو میرے دل میں خیال آتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘۔ مزید برآں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی اس الہام کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی ہے کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ یعنی کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس لیے میرا یقین ہے کہ ضرور اس میں برکت رکھی گئی ہے۔ اس لیے بسا اوقات میں دعا کے لیے کہنے والوں پر دعا کرتے ہوئے یہ انگوٹھی بھی مس کرتا ہوں۔بہر حال میں ایسا اس وقت کرتا ہوں جب اللہ میرے دل میں یہ خیال ڈالے یا اگر کوئی بار بار مجھ سے ایسا کرنے کا کہے۔ میں کئی دفعہ ایسا اس لیے کرتاہوں کہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے شدت سے ایسا کرنے کا خیال آتا ہے کہ ایسا کرنے میں مضائقہ نہیں۔ میں ایسا ہر ایک کے لیے نہیں کرتا بلکہ ان کے لیے کرتا ہوں جس کے بارے میں اللہ میرے دل میں خیال ڈالتا ہے۔

جس طرح ہمارے پاس ظاہری بیماریوں کا علاج ہے اسی طرح یہ روحانی بیماریوں کا علاج ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ ہر دفعہ یہ سو فیصد ہی کارگر ثابت ہو کیونکہ یہ علاج اللہ تعالیٰ کی مرضی اور رضا سے حاصل ہوتاہے، جب اللہ چاہتا ہے۔ عمومی دعائیں اور التجائیں تو ہوتی ہی ہیں مگر یہاں خاص بات تبرک کی ہے۔ یہ الہام اللہ تعالیٰ کےقرآنی الفاظ پر مشتمل ہے اور پھر یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ہوا۔ حقیقت یہی ہے کہ جب اللہ کافی ہے تو پھر وہ اپنے فضل ظاہر کرنے پر بھی قادر ہے۔

میں نے کئی دفعہ لوگوں کو معجزاتی طور پر بیماریوں سے شفایاب ہوتے دیکھا ہے۔ بسا اوقات مجھے ان کی شفا کی اس قدر امید بھی نہیں ہوتی مگر جب لوگ دوبارہ ملتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ انہیں شفا مل گئی تھی اور یہ ہوتا بھی اسی لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا چاہتا تھا۔بہر حال میں پیروں یا فقیروں کی طرح نہیں ہوں (جو نام نہاد مذہبی پیر، روحانی عامل اور راہنما ہوتے ہیں)۔ جو اس طرح کے کام پیشہ کے طور پر کرتے ہیں اور اپنے پاس آنے والے ہر آدمی کے ساتھ ایسے عمل کو دہراتے ہیں۔

(الفضل انٹرنیشنل 27 مئی 2021ء)

آیۃ الکرسی

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ شفاعت کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں آیۃ الکرسی یاد کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’تم آیت الکرسی یاد کرو۔ جب وہ پڑھو گی پھر اس کا ترجمہ پڑھو گی تو تمہیں شفاعت کا مطلب پتا لگ جائے گا۔ بلکہ پڑھو اور ساری واقفات نو کو چاہئے کہ آیت الکرسی یاد کریں اور رات کو سوتے ہوئے اپنے اوپر پھونکا کریں تاکہ تم لوگوں میں نیکیوں کی روح پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آؤ۔‘‘

(الفضل انٹر نیشنل 11 جولائی 2014ء)

اسی طرح ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ تلقین فرمائی ہے کہ جو یہ آیات پڑھے وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا۔ تو آیات صرف پڑھنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون پر غور کرتے ہوئے ان باتوں کو اپنانے کی بھی ضرورت ہے اور وہ فہم اور اِدراک حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہے جو ان آیتوں کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ قرآن کریم نے اس کی وضاحت کئی جگہ پر کی۔ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو کھول کر ہمارے سامنے رکھا۔ اگر یہ باتیں ہوں گی تو پھر انسان خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کی حفاظت میں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 2؍ فروری 2018ء)

آیت الکرسی، سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے فضائل

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ آیت الکرسی، سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کے فضائل کے حوالہ سے بیان فرماتے ہیں کہ
’’روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سوتے وقت آیۃ الکرسی، سورۃ اخلاص، سورۃ فلق اور سورۃ النّاس یعنی قرآن کریم کی جو آخری تین سورتیں ہیں، یہ اور آیۃ الکرسی تین دفعہ پڑھ کر ہاتھوں پر پھونکتے اور پھر اپنے ہاتھوں کو جسم پر اس طرح پھیرتے کہ سر سے شروع کر کے جہاں تک جسم پر ہاتھ جا سکتا جسم پر پھیرتے۔

پس جس کام کو آپؐ نے باقاعدہ جاری رکھا یا باقاعدگی سے کیا تو یہ آپ کی سنّت بنی اور اس کام کو ہر مسلمان کو کرنا چاہئے اور ہم احمدی جن کی اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت پر عمل کرنے کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزید رہنمائی فرمائی ہے ہمیں اس پر عمل کرنے کی خاص کوشش کرنی چاہئے اور خاص طور پر ان حالات میں جن میں سے ہم گزر رہے ہیں دعاؤں اور نمازوں اور اذکار کی طرف خاص طور پر نہ صرف اپنی ذاتی روحانی اور دنیاوی ضروریات کے لئے توجہ دینی چاہئے بلکہ جماعتی فتنوں اور فسادوں اور حاسدوں اور دشمنوں کے شر سے بچنے کے لئے بھی ایک انتہائی اہم فرض سمجھ کر توجہ دینی چاہئے۔

۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہم باقاعدگی سے سونے سے پہلے یہ آیات پڑھ کر، ان دعاؤں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اپنے پر پھونکنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔’’

(خطبہ جمعہ 16؍ فروری 2018ء)

صلاة الکسوف و الخسوف

حضور انور فرماتے ہیں:
’’آج یہاں سورج گرہن تھا۔ اسی طرح بعض اور ممالک میں بھی گرہن لگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر خاص طور پر دعاؤں، استغفار، صدقہ خیرات اور نماز پڑھنے کی ہدایت فرمائی ہے۔

(صحیح بخاری، کتاب الکسوف باب الصلوٰۃ فی کسوف الشمس حدیث: 1044، صحیح مسلم، کتاب الکسوف وصلاتہ باب ذکر النداء بصلاۃ الکسوف…حدیث: 2117)

اس لحاظ سے جماعت کو جہاں جہاں بھی گرہن لگنے کی خبر تھی ہدایت کی گئی تھی کہ نماز کسوف ادا کریں۔ ہم نے بھی یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق یہ نماز ادا کی۔

احادیث میں اللہ تعالیٰ کے خاص نشانوں میں سے ایک نشان سورج اور چاند گرہن کو قرار دیا گیا ہے۔

(صحیح بخاری، کتاب الکسوف باب صلاۃ النساء مع الرجال فی الکسوف حدیث: 1035)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق مسیح موعود کی آمد کی نشانیوں میں سے ایک بڑی زبردست نشانی سورج اور چاند گرہن تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشرق اور مغرب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں پورا ہوا۔ پس اس لحاظ سے گرہن کی نشانی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت سے ایک خاص تعلق ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 20؍ مارچ 2015ء)

نقصان پر اِنَّالِلّٰہِ اور دوسری دعائیں

بیت الفتوح میں آتشزدگی کے بعد استغفار اور دعاؤں کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ:

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان آیات کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
۔۔۔۔ ہم آزماتے رہیں گے تم کو کبھی کسی قدر خوف بھیج کر، کبھی فاقہ سے، کبھی مال، جان اور پھلوں پر نقصان وارد کرنے سے۔ مگر ان مصائب شدائد اور فقر وفاقہ پر صبر کر کے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کہنے والے کو بشارت دے دو کہ ان کے واسطے بڑے بڑے اجر، خدا کی رحمتیں اور اس کے خاص انعامات مقرر ہیں۔ دیکھو ایک کسان کس محنت اور جانفشانی سے قلبہ رانی کر کے زمین کو درست کرتا۔ پھر تخم ریزی کرتا۔ آبپاشی کی مشکلات جھیلتا ہے۔ آخر جب طرح طرح کی مشکلات، محنتوں اور حفاظتوں کے بعد کھیتی تیار ہوتی ہے تو بعض اوقات خدا کی باریک در باریک حکمتوں سے ژالہ باری ہو جاتی یا کبھی خشک سالی ہی کی وجہ سے کھیتی تباہ وبرباد ہو جاتی ہے۔ غرض یہ ایک مثال ہے ان مشکلات کی جن کا نام تکالیف قضا و قدر ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو جو پاک تعلیم دی گئی ہے وہ کیسی رضا بالقضا کا سچا نمونہ اور سبق ہے اور یہ بھی صرف مسلمانوں ہی کا حصہ ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ413-414 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ نہ ہمارے اپنے دل میں کبھی یہ خیال آئے کہ خدا تعالیٰ کیوں بڑے بڑے نقصانوں اور ابتلاؤں سے ہمیں گزارتا ہے اور نہ ہی کسی مخالف کے ہنسی ٹھٹھا کرنے یا یہ کہنے پر ہم پریشان ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے تو پھر تمہارا نقصان کیوں ہوتا ہے۔۔۔

رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ کی دعا اور اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوُرِھِمْ۔ کی دعا پڑھیں اور رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ کی دعا پڑھنی چاہئے۔ اگر یہ واقعہ میں ہماری نااہلی اور کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے تو استغفار بھی بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ہمیں اپنی ذمہ داریاں صحیح رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کمزوریوں کو دور فرمائے۔ اور اگر یہ آزمائش ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں سے بھی کامیابی سے گزارے اور اپنے انعامات پہلے سے بڑھ کر عطا فرمائے اور ان صابرین میں ہمارا شمار فرمائے جن کو خوشخبریاں عطا فرماتا ہے اور پہلے سے بڑھ کر ہم ترقیات دیکھیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 2؍ اکتوبر 2015ء)

حرف آخر

اسلامی اصطلاحات کااستعمال ہر مسلمان کے لئے عقیدةً نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن احمدی مسلمانوں کو مختلف ممالک میں زبردستی روکا جاتا رہا ہے۔ حضور انور نے حالیہ آن لائن ملاقات میں اس حوالہ سے تفصیلی ذکر کیا۔

پاکستان میں اصطلاحات کے استعمال سے روکا گیا

ایک خادم نے سوال کیا کہ جیسا کے ہم دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان میں جب سے صاحبزادہ عبداللطیف صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی ہے تب سے افغانستان میں امن نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی ایک لمبے عرصہ سے شہادتیں اور ظلم ہو رہے ہیں۔ تو کیا پاکستان میں بھی کبھی امن ہو سکے گا؟

فرمایا:
جب تک پاکستانی نام نہاد علماء اپنے رویوں میں (مثبت) تبدیلی نہیں لاتے، اچھے اخلاق کا مظاہرہ نہیں کرتے، اچھا رویہ اختیار نہیں کرتےاور غیر انسانی سر گرمیوں کو چھوڑ کر حقیقی انسان نہیں بن جاتے تب تک پاکستان میں کبھی امن نہیں ہوگا۔ ہم نے 1953ء میں بھی یہ بات کہی تھی جب احمدیوں سے غیر انسانی سلوک رکھا جا رہا تھا، احمدیت کے خلاف احتجاج ہو رہے تھےاور کچھ احمدیوں کو شہید بھی کیا گیا تھا۔ لیکن اس وقت تک احمدی حکومت ِپاکستان میں آزادانہ شہری تصور کیےجاتےتھے۔ لیکن اب آئین میں تبدیلی کرکے اور پھر ضیاء الحق صاحب نے آئین میں مزید ترمیم بھی کی جس کے بعد مسلمانوں کو اپنے بچوں کے اسلامی نام رکھنے سے بھی روکا گیا۔ (اور یہ کہ احمدی) بِسْمِ اللّٰہِ نہیں کہہ سکتے، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ نہیں کہہ سکتے۔انہوں نے مزید احمدیوں پر قوانین کو مسلط کیا۔ اگر آپ پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو تب سے پاکستان میں امن نہیں ہے۔ جب بھی کوئی فوجی یا سیاسی حکومت آتی ہے تو وہ پریشان ہی رہتے ہیں کیونکہ ان کا عوام پر کنٹرول نہیں ہوتا۔ (نام نہاد) مو لویوں نے عوام پر کنٹرول کیا ہوا ہے۔ جب تک یہ لوگ حقیقی توبہ نہیں کر لیتے میرا نہیں خیال کہ پاکستان میں امن کے لحاظ سے کوئی تبدیلی آسکے۔

(ملاقات خدام الاحمدیہ Midlands ریجن، منعقدہ 10 ستمبر 2020ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(ذیشان محمود۔ مبلغ سلسلہ سیرالیون)

پچھلا پڑھیں

This week with Huzoor (24ستمبر 2021ء قسط اول)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 اکتوبر 2021