• 25 اپریل, 2024

اسلامی اصطلاح۔ جزاک اللہ خیرا کا استعمال

اسلامی اصطلاح۔ جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا کا استعمال

اسلام نے ایک مومن کو جو آداب سکھائےہیں ان میں سے ایک ادب شکر گزاری یا شکر بجا آوری بھی ہے۔ اس کے دو حصے ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا اور دوسرا اپنے معاشرہ میں ایک دوسرے کے احسانات کا شکر ادا کرنا ہے۔

جہاں تک اپنے رب کائنات کی نعمتوں کاذکر ہے۔ اس میں دو قسم کی نعمتیں ہیں ایک تو صفت ’’الرحمٰن‘‘ کے تحت بن مانگی نعمتیں ہیں جیسے ہوا، پانی، زمین و آسمان اور دوسری صفت ’’الرحیم‘‘ کے تحت اللہ تعالیٰ سے مانگی گئی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر شکر نعمت کاذکر فرمایا ہے۔ سورۃ النمل کے مطابق شکر کرنے کا فائدہ اپنے نفس کے لئے ہے۔

پھر سورۃ ابراہیم آیت 8 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ۔

کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمہیں بڑھاؤں گا۔ سورۃ النمل آیت 20 میں اللہ تعالیٰ نے شکر ادا کرنے کی دُعا بھی سکھلادی جو ان الفاظ میں ہے۔

رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰٮہُ وَ اَدۡخِلۡنِیۡ بِرَحۡمَتِکَ فِیۡ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیۡنَ۔

(النمل: 20)

ترجمہ: اے میرے ربّ! مجھے توفیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کی اور میرے ماں باپ پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جو تجھے پسند ہوں۔ اور تُو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر۔

اور سب سے بڑھ کر سورۃ لقمان میں لقمان کی اپنے بیٹے کو نصائح میں سےا یک نصیحت شکر کی نعمت ہے۔ جس کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس کے بعد انسان کو شکر کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے جو اس سورة کریمہ میں ایک مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔بار بار حضرت لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو شکر کی نصیحت فرماتے ہیں۔ پس حضرت لقمانؑ کو جو حکمت عطا ہوئی اس کا مرکزی نکتہ ہی شکر الہٰی ہے جس سے ان کی نصیحت کا آغاز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تو کوئی انتہاہی نہیں جس نے زمین اور آسمان اور اس میں مخفی تمام طاقتوں کو انسان کی نشوونما کے لئے مسخر کر دیا حتّٰی کہ کائنات کے کنارے پر واقع گیلیکسیز (Galaxies) بھی انسان میں مخفی طاقتوں پر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ڈال رہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اس کائنات کا کوئی علم نہیں رکھتے اور اپنی لا علمی کے باوجود بڑھ بڑھ کر اللہ تعالیٰ پر باتیں بناتے ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی ہدایت ہے اور نہ کوئی روشن کتاب ہے جس میں شرک کی تعلیم دی گئی ہو۔

(قرآن کریم مترجم حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صفحہ710)

اللہ تعالیٰ کے شکر کی بجا آوری کے لئے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے الفاظ یا دیگر تسبیحات استعمال ہوتے ہیں۔ جبکہ انسان کے انسان پر احسانات کے لئے مختلف زبانوں میں مختلف الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔

جیسے انگریزی زبان میں thanks اور thank you اور اردو میں شکریہ، عربی میں جَزَاکَ اللّٰہُ یا شُکْراً جَزِیْلاً کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا:

مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِاللّٰہَ

(الترمذی)

کہ جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہ کیا۔ اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا۔

عربی چونکہ امّ الالسنۃ ہے اور ہمارے بہت ہی پیارے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی زبان ہے اور اللہ کا کلام بھی اسی زبان میں نازل ہوا ہے اس لئے عربی میں جَزَاکَ اللّٰہُ کو رواج دینا چاہئے۔ اگر ہم اس حوالہ سے احادیث کے دریچہ میں جھانکیں تو سب سے بہتر دُعا جو آنحضور ﷺ دیا کرتے تھے وہ جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْراً کے الفاظ میں ہے جس کے معنیٰ ہیں اللہ تم کو بہتر بدلا دے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ صُنِعَ إِلَیْہِ مَعْرُوْفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِہٖ: جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِی الثَّنَآءِ۔

(الترمذی)

کہ جس شخص کے ساتھ کوئی بھلائی کی گئی اور اس نے بھلائی کرنے والے سے جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْراً کہا تو اس نے اس کی تعریف کی انتہاء کردی۔

بعض لوگ جَزَاکَ اللّٰہُ کے ساتھ اَحْسَنَ الْجَزَآء، اَطْیَبُ الْجَزَآء، اَجْزَءَ الْجَزَآء، اَخْیَرَ الْجَزَآء کے الفاظ استعمال کرنا مستحب سمجھتے ہیں۔ جیسے ایک دفعہ آنحضورﷺ صحابہ کرام میں کھجوریں تقسیم کر رہے تھے۔ اس وقت حضرت اسید بن حضیرؓ نے آپؐ کا شکریہ ’’جَزَاکَ اللّٰہُ اَطْیَبُ الْجَزَآءِ‘‘ کے الفاظ میں ادا کیا جس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا:

فَجَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْراً اَجْزَءَ الْجَزَآءِ وَاَطْیَبُ الْجَزَآءِ

(المستدرک)

اگر کسی عورت کو یہ دُعا دینی ہو تو اسے کاف پر زیر کے ساتھ جَزَاکِ اللّٰہُ کہیں گے۔

اس مسنون طریق کو رواج دینا چاہئے۔ ہمارے یہاں لندن میں خلافت کی برکت سے ’’جَزَاکَ اللّٰہ ُ‘‘ کہنے کابہت رواج ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ، thank you یا شکریہ بہت کم کہا جاتا ہے۔ معمولی سے معمولی احسان پر چھوٹا بڑا جَزَاکَ اللّٰہُ یا جَزَاکُمُ اللّٰہُ کے الفاظ استعمال کرتا ہے جو بہت خوش آئند بات ہے۔

ایشائی معاشرے میں ہمیں دوسروں کی نقل اُتارنے کا بہت شوق رہتا ہے۔ بالخصوص انگریزی کی نقل میں انگلش بولنے کا اور ہم thanks, thank you کے الفاظ استعمال کرتے ہیں بلکہ سوشل میڈیا میں تو مخفف کرکے Thx بھی لکھ دیا جاتا ہے۔ اگر نقل کرنی ہے تو کیوں نہ سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی کریں جو جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْراً کے الفاظ استعمال فرمایا کرتے تھے۔

یہ فقرہ ہمارے معاشرے میں اس حد تک مستعمل ہونا چاہئے کہ ایم ٹی اے پر حضور کا خطبہ سنیں، درس سنیں، تقریر سنیں تو ہمیں جَزَاکَ اللّٰہُ یَا سَیِّدِیْ کہنا چاہئے۔ اپنی مساجد میں خطبہ سنیں درس سنیں کوئی نیکی کی بات سنیں تو سب کو ان الفاظ میں دعا دینی چاہئے۔ ہم نے بالعموم دیکھا ہے کہ واٹس ایپ یا سوشل میڈیا پر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بار بار میسج کر کے لوگوں سے منگواتے ہیں مگر جب ان کووہ چیز یا لیٹر کسی طرف سے مل جاتا ہے تو چپ سادھ لیتے ہیں۔یا صرف jzk لکھ دیتے ہیں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایک دعا ہے اور اس کا مخفف بنانا ٹھیک نہیں، اگر رومن انگریزی میں لکھنا ہو تو JazakAllah لکھنا چاہئے۔ اور Aکیپیٹل ہی ہو کیونکہ یہ اللہ کا نام ہے اور اللہ کے سارے نام بڑے حروف میں ہی لکھے جاتے ہیں۔ ایک اور بات یاد رکھیں کہ اگر آپ کو کوئی جَزَاکَ اللّٰہُ کہے تو جواب میں آمین کہیں اگر لکھ کر جواب دینا ہو تو بھی یہی لکھنا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی اصطلاحات کو اپنانے اور اپنے زیر استعمال رکھنے کی توفیق دے۔ آمین

پچھلا پڑھیں

This week with Huzoor (24ستمبر 2021ء قسط اول)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 اکتوبر 2021