• 20 اپریل, 2024

مادیت پسندی اور مادیت پرستی کےنقصانات

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔

اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَکَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰہُ بِہِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَأْتِیَھُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ

(النحل:46)

آج مادیّت کی وجہ سے، مادیّت پسندی کی وجہ سے انسان بعض اخلاقی قدروں سے دُور، مذہب سے دُور اور خدا سے دُور جا رہا ہے اور بہت کم ایسے ہیں جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ تمام وہ نعمتیں اور وہ چیزیں جن سے انسان فائدہ اٹھا رہا ہے خداتعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے انہیں انسان کے تابع کیا ہوا ہے اور پھر اس اشرف المخلوقات کو جو دماغ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس سے وہ نت نئی ایجادیں کرکے اپنی سہولت اور حفاظت کے سامان کر رہا ہے۔ پس یہ بات ایسی ہے کہ جو انسان کو اس بات کی طرف توجہ دلانے والی بننی چاہئے کہ وہ اپنے خدا کا شکر گزار بنے، اپنے مقصد پیدائش کو سمجھے، جو کہ اس خدائے واحد کی عبادت کرنا ہے جس نے یہ سب نعمتیں مہیا کی ہیں، جس نے یہ تمام نظام پیدا کیا اور انسان کی خدمت پر لگایا ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا بہت کم ایسے ہیں جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں بلکہ ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو نہ صرف سمجھتے نہیں بلکہ اس کے خلاف چل رہے ہیں اور مادیت پسندی اور مادیت پرستی میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ نہ صرف مذہب سے تعلق نہیں رہا بلکہ مذہب کا مذاق اڑانے والے بن رہے ہیں، انبیاء کے ساتھ استہزاء کرنے والے ہیں اور ایسا طبقہ بھی ہے جو خدا کے وجود کا نہ صرف انکاری ہے بلکہ مذاق اڑانے والا ہے۔ خدا سے انکار کے بارے میں کتابیں لکھی جاتی ہیں اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتب میں ان کا شمار ہوتا ہے، بڑی پسندیدہ کتب میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ یورپ اور مغرب میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو خدا سے دُور جا رہے ہیں جو اس قسم کا بیہودہ لٹریچر پیدا کر رہے ہیں اور ایسے پیدا کردہ لٹریچر کو پسند کرنے والے ہیں اور اس بات میں یہ لوگ اس لحاظ سے مجبور ہیں ان کی بیچارگی بھی ہے کہ ان کو ان کے مذہب نے دل کی تسلی نہیں دی۔

ایک خدا کی بجائے جو سب طاقتوں کا سرچشمہ اور ہر چیز کا خالق ہے، اس کو چھوڑ کر جب یہ لوگ ادھر ادھر بھٹکتے ہیں اور کئی خداؤں کے تصور کو جگہ دیتے ہیں، دعا کے فلسفے اور دعا کے معجزہ سے ناآشنا ہیں اور زندہ خدا کے تعلق سے ناآشنا ہیں۔ تو پھر ظاہر ہے کہ یہ جو ایسے لوگ سوچتے ہیں ان سوچنے والے ذہنوں کو خدا اور مذہب کے بارے میں یہ بات بے چینی میں بڑھاتی ہے کہ تصور تو مذہب کا ہے لیکن ہمیں کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ ایک خدا کو بھول گئے ہیں اور یہی چیز ان کو مذہب سے دور لے جا رہی ہے، جیسا کہ مَیں نے کہا، بعض اس میں اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ خدا کے تصور سے ہی انکاری ہیں اور صرف انکاری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر استہزاء آمیز الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ پھر ایک طبقہ ایسا ہے جو اسلام کے بغض اور کینےمیں اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہر روز اسلام، بانی ٔاسلام حضرت محمد مصطفیﷺ اور قرآن کریم پر نئے سے نئے انداز میں حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن اور آنحضرتﷺ کی طرف وہ باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا قرآن کی تعلیم اور آنحضرتﷺ کے عمل سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ تو بہرحال یہ لوگ اور پہلی قسم کے لوگ جو مَیں نے بتائے جو مذہب سے دور ہٹے ہوئے ہیں اور خدا کے تصور کو نہ ماننے والے ہیں یہ بھی تنقید کا نشانہ بنانے کے لئے زیادہ تر اسلام اور مسلمانوں کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان سب کو نظر آ رہا ہے کہ مذہب کا اور خدا کی ذات کا صحیح تصور پیش کرنے والی اگر کوئی تعلیم ہے تو اب صرف اور صرف اسلام کی تعلیم ہے، قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ بعض سے تو اسلام اور آنحضرتﷺ سے بغض اور کینےکا اظہاراس قدر ہوتا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس زمانے میں، ان پڑھی لکھی قوموں میں، مغرب میں، جو اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ اور آزادی کا علمبردار اور دوسروں کے معاملے میں دخل نہ دینے کا دعویٰ کرنے والے ہیں یہاں ایسے لوگ ہیں جو تمام حدیں پھلانگ گئے ہیں اور اسلام دشمنی نے ان کو بالکل اندھا کر دیا ہے۔

گزشتہ دنوں یہاں ایک سیاسی لیڈر جن کا نام خیرت ولڈرز (Geert Wilders) تھا انہوں نے ایک بیان دیا تھا جس میں انہوں نے اپنے دل کے بغض اور کینےکا اظہار کیا ہے۔ ان کی ہرزہ سرائی آپ میں سے بہت سوں نے سنی ہو گی۔ دنیا کو بھی پتہ لگے، لکھتے ہیں کہ مَیں چاہتا ہوں کہ لوگ سچائی کو خود دیکھیں۔ ان لوگوں کی یہ بڑی دجّالی چالیں ہوتی ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ اس بات کا آغاز محمدﷺ سے شروع ہوتا ہے جس طرح اکثر مسلمان ان کی محبت بھری شخصیت کی خاکہ کشی کرتے ہیں حقیقت میں وہ ویسے نہیں تھے۔ جب تک وہ مکّہ میں رہے اور یہاں پر بھی صرف قرآن کے کچھ حصے وجود میں آئے اس وقت تک تو ان کی شخصیت میں محبت تھی لیکن جیسے جیسے ان کی عمر بڑھتی گئی اور خاص طور پر مدینے میں رہائش کے زمانے میں وہ بتدریج تشدد آمیز طبیعت کی طرف مائل ہوتے گئے (نعوذ باللہ)۔

پھر لکھتے ہیں کہ سورۃ 9 آیت 5 میں آپ دیکھتے ہیں کہ کس طرح عیسائیوں، یہودیوں اور مرتدوں کے خلاف تشدّد پر اُکسایا گیا ہے۔ اکثر آیات ایک دوسرے کی ضدّ ہیں۔ پھر بائبل کی تعریف کی ہے۔ خیر اس کا ایک علیحدہ موضوع ہے، مَیں نہیں چھیڑتا۔

پھر لکھتے ہیں قرآن میں حکومت اور مذہب کی علیحدگی کا کوئی تصور نہیں ہے، اس سے آپ انکار نہیں کر سکتے کہ نہ صرف محمدﷺ (نعوذ باللہ) ایک تشدد پسند شخصیت تھے بلکہ قرآن خود بھی متشددانہ خیالات پر مبنی کتاب ہے۔

پھر ایک اور اخبار میں لکھتا ہے کہ مَیں خدا کی عبادت کا سن سن کر تنگ آ گیا ہوں، اخبار میں بیان دیتے ہوئے خیرت ولڈرز (Geert Wilders) نے صرف قرآن پر پابندی لگانے کا ہی مطالبہ نہیں کیا بلکہ سیاسی رہنماؤں پر بھی تنقید کی کہ دہشت گرد مسلمانوں کو ملک میں جگہ دے رہے ہیں یعنی یہ بے چارے سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ مَیں اسلام سے تنگ آ گیا ہوں اب کوئی مسلمان یہاں ہجرت کرکے نہیں آنا چاہئے، مَیں ہالینڈ میں اللہ کی عبادت کا سن سن کر بھر چکا ہوں، مَیں ہالینڈ میں قرآن کے تذکرے سے تنگ آ گیا ہوں، نعوذ باللہ اس فاشسٹ (Fascist) کتاب پر پابندی لگائی جائے۔ فاشزم کا اظہار تو یہ خود کر رہے ہیں۔ اب آنحضرتﷺ پر انہوں نے پہلا اعتراض کیا ہے کہ جس طرح عمر بڑھتی گئی نعوذ باللہ تشدّد آمیز طبیعت کی طرف مائل ہوتے گئے، صاف ظاہر ہے کہ بغض اور کینے نے انہیں اتنا اندھا کر دیا ہے کہ قرآن پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور قرآن کو یہ لوگ ویسے بھی پڑھتے ہی نہیں، اِدھر اُدھر سے سنی سنائی باتیں کرتے ہیں اور قرآن تو خیر کیا پڑھنا تھا، یہ تاریخ کو بھی مسخ کر رہے ہیں۔ جوان سے بہت زیادہ علم رکھنے والے عیسائی تھے وہ بھی جو اعتراض نہیں کر سکے انہوں نے وہ اعتراض بھی کر دیا۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے یہ اعتراض ڈھونڈ نکالے ہیں۔ سورۃ مائدہ نہ صرف مدنی سورۃ ہے بلکہ اس بارے میں ساری روایتیں یہی ہیں کہ آنحضرتﷺ کے آخری سال میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس میں دشمنی اور تشدّد کو ختم کرنے کی اور انصاف قائم کرنے کی کیا ہی خوبصورت تعلیم ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ مدینے میں آ کر تشدّد کی تعلیم بڑھ گئی۔ یہ آخری سورۃ جو آنحضرتﷺ کی زندگی میں نازل ہوئی اس کی تعلیم کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (سورۃ المائدۃ آیت 9) کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم انصاف نہ کرو، تم انصاف کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔ اب یہ دکھائیں، یہ خوبصورت تعلیم ان کے یا کسی اور مذہب میں کہاں ہے۔ لیکن جن کو بغض اور کینے نے اندھا کر دیا ہو، ان کو سامنے کی چیز بھی نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ نے تو پہلے ہی فرما دیا ہے کہ جو اندھے ہیں ان کو تم نے راستہ کیا دکھانا ہے، ان کو تم نے روشنی کیا دکھانی ہے، کوشش کر لو، نہیں دکھا سکتے۔

(خطبہ جمعہ 24؍ اگست 2007ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

اعلانِ ولادت