• 18 مئی, 2024

ماں باپ کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اپنے عمل سے بچوں کو بھی نمازی بنائیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس ماں باپ کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اپنے عمل سے بچوں کو بھی نمازی بنائیں۔ اپنے عمل سے بچوں کو بھی سچ پر قائم کریں۔ اپنے عمل سے دوسرے اعلیٰ اخلاق بھی اُن کے سامنے رکھیں تا کہ وہ بھی اُن اخلاق کو اپنانے والے ہوں۔ جھوٹی قسمیں کھانے سے اپنے آپ کو بھی بچائیں تا کہ بچے بھی بچ سکیں۔ عملی طور پر بچپن میں پیدا کئے گئے خیالات کا کس قدر اثر رہتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صحابی کی مثال دی ہے جو سکھوں کے ایک رئیس خاندان سے تھے اور احمدی ہو گئے تھے، گائے کا گوشت نہیں کھاتے تھے اور اُن کے ساتھیوں نے اُن کی چِڑ بنا لی تھی کہ ہم نے آپ کو گائے کا گوشت ضرور کھلانا ہے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ مہمان خانے میں آگے آگے وہ تیز تیز چلے جا رہے ہیں اور پیچھے پیچھے اُن کے دوست کہہ رہے ہیں، ہم نے آپ کو آج یہ بوٹی ضرور کھلانی ہے اور وہ ہاتھ جوڑ رہے ہیں کہ خدا کے لئے یہ نہ کرو اور بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کو یا کسی اَور نومسلم کو کسی نے کھلا دی تو عملاً اتنی کراہت آئی کہ اُس نے اُس کی قَے کردی۔ اُس کو اُلٹی آگئی۔ تو یہ بچپن سے گائے کے گوشت سے نفرت پیدا کرنے کا نتیجہ ہے کہ بڑے ہو کر مسلمان ہو کر پھر بھی اُس سے کراہت ہے۔ اب عقیدہ کے لحاظ سے بیشک انہوں نے اپنا عقیدہ بدل لیا۔ نیا عقیدہ اختیار کر لیا لیکن ماں باپ نے عملی نمونے سے اُن کو گائے کے گوشت سے جو نفرت دلوا دی تھی وہ پھر بھی دُور نہ ہوئی۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ عمل چونکہ نظر آنے والی چیز ہے اس لئے لوگ اُس کی نقل کر لیتے ہیں اور یہ بیج پھر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ لیکن عقیدہ کیونکہ نظر آنے والی چیز نہیں ہے اس لئے وہ اپنے دائرے میں محدود رہتا ہے اور اس کی مثال اس طرح ہی ہے کہ عقیدہ ایک پیوندی درخت ہے۔ درخت کو جس طرح پیوند لگائی جائے تو پھر اُس سے نئی شاخ پھوٹتی ہے، نئی قسم کا پھل نکل آتا ہے۔ اُسے خاص طور پر لگایا جائے تو لگتا ہے۔ عمل کی مثال تخمی درخت کی طرح ہے یعنی جو بیج سے پھیلتا ہے۔ آپ ہی آپ اس کا بیج زمین میں جڑ پکڑ کر اُگنے لگ جاتا ہے جب بھی موسم سازگار ملتا ہے۔

(ماخوذ ازخطبات محمود جلد17 صفحہ346-350 خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍مئی 1936ء)

پس بُرے عمل کا پھیلنا بہت آسان ہے اور یہ معاشرے میں اپنوں کے بد عمل کی وجہ سے بھی پھیلتا ہے اور غیروں کے بد عمل کی وجہ سے بھی پھیلتا ہے۔ یعنی نیکیوں اور بدیوں کے پھیلنے میں معاشرے کا بہت زیادہ اثر ہے۔ اس لئے ہمیشہ اس بات کو ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ بعض اور اسباب بھی ہیں جو ان شاء اللّٰہ آئندہ بیان کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اصلاح کی طرف اور اپنے بچوں کی عملی اصلاح کی طرف ہمیشہ توجہ رکھنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔

(خطبہ جمعہ 13؍دسمبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 نومبر 2022