• 25 اپریل, 2024

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 17)

سیّدنا امیر المؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
کا دورہٴ امریکہ 2022ء
12؍اکتوبر 2022ء بروز بدھ
قسط 17

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبح چھ بج کر پندرہ منٹ پر مسجد بیت الرحمن تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

• صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے نے دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

امریکہ میں سیرالیون کے سفیر کی ملاقات

• پروگرام کے مطابق صبح گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میٹنگ روم میں تشریف لائے جہاں سیرالیون کے امریکہ میں سفیر آنریبل صدیق ابوبکر Waiصاحب حضور انور سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے۔ موصوف نے حضور انور کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جماعت احمدیہ سیرالیون میں صحت اور تعلیم کے میدان میں مسلسل ہماری مدد کر رہی ہے۔ جماعت کا تعاون ہمیں حاصل ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ ہمارا فرض ہے۔ سفیر نے بتایا کہ بچپن میں انہیں احمدیہ اسکول میں داخلہ نہ مل سکا تھا وہاں معیار دیکھا جاتا تھا۔ میں معیار پر پورا نہ اتر سکا۔

• حضور انور نے ملک کی معیشت اور اقتصادی حالت کے بارے میں دریافت فرمایا کہ ملک کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن کیا ہے؟ اس پر سفیر نے عرض کیا کہ سیرالیون زرعی ملک ہے۔حضور انور نے فرمایا آپ زراعت پر زیادہ توجہ دیں۔ کوئی ماڈل فارم بنائیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ کس طرح زراعت کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ آپ لوگ پرانے طریقوں پر انحصار کر رہے ہیں۔ اب نئی تکنیک اختیار کریں۔جدید مشینری کا استعمال کریں اور جدید طور پر کاشت کاری کریں۔

• حضور انور نے فرمایا وہاں خواتین پرانے آلات کے ذریعہ چھوٹےلیول پر کساوا اور بعض دوسری فصلیں کاشت کرتی ہیں۔ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے یہ بھی ٹھیک ہے لیکن آپ لوگوں کو بڑے پیمانے پر کام کرنا چاہیے۔ حضور انور نے فرمایا سیرا لیون کی زمین بہت زرخیز ہے۔

• حضور انور کے دریافت فرمانے پر سفیر موصوف نے بتایا کہ امریکہ میں سیرالیون کے چار لاکھ پچاس ہزار کے قریب لوگ رہتے ہیں۔

• اس پر حضورانور نے فرمایا یہ تو ایک بڑی تعداد ہے۔

• یہ ملاقات قریباًدس منٹ تک جاری رہی۔ ملاقات کے آخر پر موصوف نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت بھی پائی۔

اسٹیٹ یونورسٹی آف نیویارک کی
ایک پروفیسر کی ملاقات

بعد ازاں پروگرام کے مطابق پروفیسر Shobana Shankar صاحبہ نے حضور انور سے شرف ملاقات پایا۔

موصوفہ اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک میں تاریخ کی پروفیسر ہیں اور ان کا تعلق انڈیا سے ہے۔ تاریخ کے شعبہ میں ان کی خصوصیت افریقہ میں مختلف مذاہب، اقلیتی کمیونٹی اور بین الاقوامی انسانی ہمدردی ہے۔

پروفیسر صاحبہ نے عرض کیا کہ میں چند سال پہلے غانا میں رہی ہوں۔ وہاں کچھ عرصہ کے لئے گئی تھی۔ حضور انور نے فرمایا میں نے غانا میں ایک عرصہ گزارا ہے۔ اس پر موصوفہ نے عرض کیا کہ اگرچہ حضور نے کافی عرصہ پہلے ہی غانا چھوڑ دیا تھا لیکن حضور کا کام اب بھی وہاں زندہ ہے۔ حضور کے کام اب بھی باقی ہیں۔

پروفیسر صاحبہ نے عرض کیا کہ وہ مغربی افریقہ کے احمدیوں پر ایک کتاب لکھنا چاہتی ہیں۔ اس پر حضورانور نے فرمایا اگر آپ کتاب لکھنا چاہتی ہیں تو پھر آپ کو وہاں جانا پڑے گا اور وہاں کے احمدیوں کے انٹرویوز کرنے پڑیں گے۔ آپ کو خود معلومات حاصل کرنا ہوں گی۔ خاص طور پر اگر آپ تحقیق کرنا چاہتی ہیں تو ہم آپ کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ پروفیسر صاحبہ کی درخواست پر حضور نے فرمایا کہ مقامی زبانوں میں ترجمہ کرنے کے حوالہ سے بھی ہم آپ کی مدد کریں گے۔پروفیسر صاحبہ نے بتایا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں لیکن ان کی دادی صاحبہ نے ان کو سکھایا تھا کہ ہندو ہونے کے باوجود مسلمانوں کا احترام کرنا چاہیے۔

• موصوفہ کے ایک سوال پر حضور انورنے فرمایا کہ میں چار سال غاناکے انتہائی نارتھ کے علاقہ میں رہا ہوں اور چار سال ساؤتھ کے علاقہ میں رہا ہوں۔ حضور انور نے فرمایا نارتھ اور ساؤتھ میں قبائلی سسٹم مختلف ہے اور ان کے مختلف کلچر ہیں۔ شمال میں مسلمان ہیں اور جنوب میں عیسائی ہیں اور جو جماعت کی تعداد بڑھی ہے وہ نارتھ میں ہے۔ ہمارے مشن ہاؤسز سکول اور ہسپتال ساؤتھ میں ہیں۔ سالٹ پانڈ میں ہمارا پہلا مشن ہاؤس اور مسجد ہے اور وہاں ہمارا ہیڈکوارٹر رہا ہے۔

• پروفیسر صاحبہ نے گندم اگانے کے منصوبہ کے بارے میں پوچھا جس پر حضور انور نے فرمایا میں نے سوچا اگر نائجیریا میں گندم اگائی جا سکتی ہے تو یہاں غانا میں کیوں نہیں اگائی جاسکتی۔ تو میں نے وہاں تجربہ کیا اور یہ کافی کامیاب رہا۔ حضور انور نے فرمایا وہاں ہر قسم کی سبزیاں اگائی جاسکتی ہیں بشرطیکہ آپ کو مناسب سہولیات میسر ہوں۔

حضور انور کے استفسار پر پروفیسر صاحبہ نے بتایا کہ وہ اپنی کتاب میں لڑکیوں کے احمدی اسکولوں پر توجہ کرنا چاہتی ہیں۔ بہت سے افریقی پروفیسروں نے مجھے بتایا کہ احمدی اسکول میں پڑھتے تھے۔ افریقہ میں لڑکیوں کے لیے یہ بہترین احمدیہ اسکولز تھے جہاں لڑکیوں نے بہترین رنگ میں تعلیم حاصل کی۔ موصوفہ نے کہا کہ وہ افریقہ کے پرنٹنگ پریس اور احمدیہ اخبارات سے بھی متاثر ہیں۔ یہ اسلامی انگریزی اخبار جماعت احمدیہ نے ہی شروع کیا تھا۔ حضورانور نے فرمایا ’’The Truth‘‘ اخبار تھا۔ پروفیسر صاحبہ نے کہا کہ میں اپنی کتاب میں یہ دکھانا چاہتی ہوں کہ جماعت احمدیہ نے افریقہ کی ترقی میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ آخر پر حضور انور نے فرمایا کہ افریقہ میں احمدیہ مسلم خواتین اور ان کی کی تعلیم پر اپنی تحقیق کو وسعت دینے کے لیے سیرا لیون اور فرانکوفون ممالک کا بھی دورہ کریں۔

یہ ملاقات گیارہ بج کر بیس منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر موصوفہ نے تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

امریکہ میں گیمبیا کے سفیر کے سیکرٹری کی ملاقات

بعد ازاں پروگرام کے مطابق حضور انوراپنے دفتر تشریف لے آئے جہاں امریکا میں گیمبیا کے سفیر کے سیکرٹری Saikou Ceesay نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ سے شرف ملاقات پایا۔

حضور انور نے موصوف سے گیمبیا کے حالات کے بارے میں دریافت فرمایا۔ موصوف Ceesay صاحب نے گیمبیا میں جماعت کی تعلیمی و طبی خدمات اور دیگر منصوبوں اور پروگراموں پر شکریہ ادا کیا۔ موصوف نے بتایا کہ وہ جاپان میں بھی رہے ہیں اور جاپانی زبان بھی بولتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ناگویا جاپان میں ہماری مسجد ہے اورانہیں وہاں جانا چاہیے۔

حضورانور نے فرمایا کہ جماعت جو گیمبیا میں خدمات کی توفیق پا رہی ہے یہ ان شاء اللّٰہ جاری رہیں گی۔ ملاقات کے آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ موصوف نے تصویر بنوانے کا شرف پایا۔

فیملی ملاقاتیں

• اس کے بعد پروگرام کے مطابق فیملی سے ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ آج صبح کے اس سیشن میں 37فیملیز کے162 افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔

• آج ملاقات کرنے والوں کے احباب اور فیملیز MaryLanad کی مقامی جماعت کے علاوہ دیگر مختلف18 جماعتوں اور علاقوں سے آئی تھیں۔ albany سے آنے والی فیملیز 353 میل، Charlotte سے آنے والی 422 میل بوسٹن سے آنے والی 427 میل جب کہ Georgia سے آنے والی 661میل اور Orlando سے آنے والے احباب اور فیملیز 874 میل کا طویل سفر طے کر کے آئے تھے۔

تاثرات

• آج بھی ملاقات کرنے والوں میں بہت سے ایسے احباب اور فیملیز تھیں جن کی زندگی میں حضور انور سے پہلی ملاقات تھی۔

جماعت Syracufe سے آنے والے ایک دوست طاہر احمد صاحب کہنے لگے کہ میری تو دنیا ہی بدل گئی ہے۔ اس سے اچھا دن میری زندگی میں نہیں ہو سکتا۔ میری پہلی ملاقات تھی۔ موصوف رو رہے تھے۔ جب حضور دور سے آتے تھے تو ہم دیکھ لیتے تھے لیکن آج میں انتہائی قریب تھا۔ میں بتا نہیں سکتا کہ میری کیا حالت ہے ۔

• ایک دوست فاتح باجوہ Long Island جماعت سے آئے تھے کہنے لگے کہ میں شروع میں بہت گھبرایا ہوا تھا لیکن جوں ہی میں اندر گیا اور نظر حضور انور پر پڑی تو میں نے اپنے دل میں بے انتہا سکون پایا۔ میں مسجد میں ڈیوٹی کر رہا تھا میری بیوی نیویارک میں تقریبا چار سو میل دور تھی وہ فوراً ٹرین کے ذریعے یہاں پہنچی ہے اور ہمیں ملاقات کا شرف نصیب ہوا ہے۔

• جماعت Atlanta سے آنے والے ایک دوست فضل الٰہی صاحب ملاقات کے بعد باہر آئے تو رونے لگ گئے اور بات ہی نہیں کر سکتے تھے۔ بڑی مشکل سے کہنے لگے کہ مجھے اپنے جذبات پر کنٹرول نہیں ہے۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ میری ملاقات ہوگئی ہے۔ میں دس سال کا تھا اور دعا کرتا تھا کہ میری بھی خلیفۂ وقت سے ملاقات ہو۔ آج 34 سال بعد میری ملاقات ہوئی ہے۔ حضور کے چہرے پر نور ہی نور تھا۔ میں دیکھ نہیں سکتا تھا۔ حضور انور نے ہمیں بہت دعائیں دی ہیں۔ میرے بیٹے کو پیدائش میں تھوڑا مسئلہ ہوا تھا اس کا آپریشن ہوا تھا۔ یہ وقف نو ہے۔ حضور انور نے اس بچے کو بہت دعائیں دی ہیں۔

• محمد واصف صاحب جماعت Cleveland سے آئے تھے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے ہم پاکستان میں تھے۔ حضور انور کو ٹی وی پر دیکھا کرتے تھے اور دعا کیا کرتے تھے کہ ہمیں بھی حضور سے ملنا نصیب ہو۔ آج اللہ تعالیٰ نے ہماری دعائیں قبول کرتے ہوئے ہمیں ملاقات کی نعمت عطا کر دی۔ ملاقات سے ہمارے دل کو تسکین ملی ہے۔

حضور انور نے ہمیں نصیحت فرمائی کہ نماز نہیں چھوڑیں کیونکہ ہم لاپرواہی کرتے تھے۔

• ایک دوست عتیق چوہدری صاحب بیان کرتے ہیں کہ ملاقات کے لئے بہت دیر سے انتظار کر رہا تھا۔ ہم صبح سات بجے کے آئے ہوئے تھے۔ جیسے ہی ہم ملاقات کے لیے اندر گئے تو پھر اس دنیا میں نہ رہے۔ اس وقت میرے جذبات ایسے ہیں کہ الفاظ میں بتا نہیں سکتا۔ ہم حضور انور کے خطبات سنتے ہیں اور ٹی وی پر حضور انور کو دیکھتے ہیں لیکن جو ملاقات میں جو کیفیت تھی وہ بیان نہیں کی جاسکتی۔

حضور انور نے ہمیں فرمایا نماز پڑھا کریں۔ حضور انور نے ہمیں نماز کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ دلائی۔

• جماعت بالٹی مور سے آنے والے دوست عبدالمالک ولی صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم بہت کچھ سوچ کر گئے تھے لیکن وہاں جا کر کچھ نہ کہا جا سکا۔ جو کہنا تھا وہ سب کچھ بھول گئے۔ حضور نے فرمایا بیٹے کی داڑھی ہے لیکن ابو کی داڑھی چھوٹی ہے۔ ابو نے مجھے ملاقات سے پہلے ہی کہا تھا کہ حضور انور یہ پوچھیں گے کہ تمہاری داڑھی بڑی اور ابو کی چھوٹی ہے۔

• ظہور طیب صاحب جماعت willinboro سے آئے تھے۔ کہنے لگے میں بیان نہیں کر سکتا میں نے تو کمرے میں نور ہی نور دیکھا ہے۔ حضور نے مجھ سے بہت پیار سے بات کی۔ مجھے بہت سکون ملا ہے۔ حضور نے مجھے نصیحت فرمائی ہے کہ اب جاکر جلدی شادی کر لو۔

• جماعت Charlotte سے ایک دوست شریف احمد صاحب ملاقات کے لیے آئے تھے۔ کہنے لگے زندگی میں پہلی بار حضور انور سے ملاقات ہوئی ہے۔ آج میری زندگی کا بہترین دن ہے۔ اب معلوم نہیں کہ دوبارہ یہ دن نصیب ہو یا نہ ہو۔ ان کی اہلیہ رونے لگ گئیں۔ کہنے لگی کہ سب برکت حضور کے قدموں میں بیٹھنے میں ہے۔ جماعت کی خدمت میں ہے۔ مجھے جماعت کی وجہ سے بہت برکتیں ملی ہیں۔ میں نے بچوں کو بھی یہی سمجھایا ہے کہ جماعت کے کام کرو گے تو تمہیں برکتیں ملیں گی۔ جماعت کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔

ان کا بیٹا جامعہ احمدیہ کینیڈا کے ساتویں سال میں ہے۔ کہنے لگا کہ حضور نے مجھے نصیحت فرمائی کہ پہلے اپنے خاندان کے افراد کو تبلیغ کرو۔ حضور نے مجھے بہت ہی پیار دیا۔

• ملاقاتوں کا یہ پروگرام ایک بج کر بیس منٹ پر ختم ہوا۔ بعد ازاں ایک بج کر چالیس منٹ پر حضور نے مسجد بیت الرحمن تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کرکے بڑھائی۔

نو مبائعین کی تقریب بیعت

نماز کی ادائیگی کے بعد پروگرام کے مطابق بیعت کی تقریب ہوئی۔ حضور انور کے دست مبارک میں بیعت کی سعادت پانے والے دوست Christopher R Meyers کا ہاتھ تھا۔ یہ صاحب گزشتہ تین ماہ سے زیر تبلیغ تھے اور نومبائعین کے پروگرام میں شامل ہوئے تھے اور وہاں انہوں نے حضور انور کے دست مبارک پر بیعت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

کرسٹوفر صاحب کے ساتھ 3نو مبائعین حمزہ الیاس صاحب، حماد احمد سلیم صاحب اور ہسپانوی نژاد دوست Roberto William Cerrato بھی بیعت میں شامل تھے۔

بیعت کی اس تقریب میں حضور انور کی اقتداء میں نماز میں شامل ہونے والے تمام احباب اور خواتین شامل ہوئے جن کی تعداد 13سو سے زائد تھی۔ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہم دستی بیعت کی سعادت حاصل کریں گے۔بعضوں نے روتے ہوئے کہا کہ ہماری زندگی میں یہ پہلی بیعت کی ایسی تقریب تھی جس میں ہم شامل ہوئے۔

• بعضوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ جب ہمیں علم ہوا کہ آج نماز ظہر اور عصر کے بعد بیعت کی تقریب ہے تو ہم اپنے گھروں سے مسجد کی طرف بھاگے ہیں کہ وقت سے پہلے پہنچیں کہیں اس سعادت سے محروم نہ رہ جائیں۔

• بیعت کی تقریب کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

مسرور ٹیلی پورٹ مسلم ٹی وی احمدیہ انٹرنیشنل کا معائنہ

پروگرام کے مطابق چھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور ’’مسرور ٹیلی پورٹ مسلم ٹی وی احمدیہ انٹرنیشنل‘‘ کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے۔ ایم ٹی اے کا یہ اسٹیشن مسجد بیت الرحمن کے بیرونی احاطہ میں واقع ہے۔

حضور انور نے سب سے پہلے نیٹ ورک آپریشن سینٹر (ٹرانسمیشن روم) کا معائنہ فرمایا اور ڈائریکٹر ٹیلی پورٹ چوہدری منیر احمد صاحب سے سسٹمز کے بارے میں بعض امور دریافت فرمائے۔

اس سینٹر میں کمپیوٹر سروسز، سیٹلائٹ، فائبر آپٹک آن لائن سٹریمنگ ٹرانسمیشن کے سسٹمز نصب ہیں۔ حضور انور نے ازراہ شفقت اس حصے کا بھی معائنہ فرمایا۔ اس کے بعد حضور انور ٹیلی پورٹ کے MCR ماسٹر کنٹرول روم میں تشریف لائے جہاں سارے چینلز کے کنٹرول اور مانیٹرنگ سسٹمز نصب ہیں۔ حضور انور نے ڈائریکٹر ٹیلی پورٹ سے نارتھ اور ساؤتھ امریکہ سے ٹرانسمیشن کے بارے میں بعض امور دریافت فرمائے اور ہدایات دیں۔ بعدازاں ڈائننگ اور بورڈ روم سے ہوتے ہوئے حضور انور ٹیلی پورٹ کے دفتر میں تشریف لے آئے۔

ڈائریکٹر ٹیلی پورٹ چوہدری منیر احمد صاحب نے حضور انور کی خدمت میں دفتر کی کرسی کو برکت بخشنے کی عاجزانہ درخواست کی۔ حضور انور نے کچھ دیر کے لیے دفتر کی کرسی پر تشریف رکھی اور ڈائریکٹر صاحب کو ہدایت کی کہ آپ سامنے والی کرسی پر بیٹھ جائیں تاکہ تصویر میں آسکیں۔ بعد ازاں حضور پر جانے والی loby تشریف لائے جہاں مسرور ٹیلی پورٹ کے اسٹاف کے ممبران ایک قطار میں کھڑے تھے۔ حضور انور نے دوسری منزل کے بارے میں دریافت فرمایا۔ حضور انور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ وہاں اسٹور کو تبدیل کرکے پوسٹ پروڈکشن کا آفس بنایا ہے۔

بعد ازاں حضور انور باہر برآمدے میں تشریف لے آئے اور چند لمحہ باہر بڑی سیٹلائٹ ڈش کا معائنہ فرمایا۔

واقفات نو کے ساتھ کلاس

• اس وزٹ کے بعد چھ بج کر پانچ منٹ پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد بیت الرحمن کے مردانہ ہال میں تشریف لے آئے جہاں واقفات نو کی حضور انور کے ساتھ کلاس شروع ہوئی۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیز فائزہ انور صاحبہ نے کی اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی پیش کیا۔ تلاوت کا اردو ترجمہ آمنہ نور شاہ صاحبہ نے پیش کیا۔

• بعد ازاں ثوبیہ جمیل صاحبہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ اور اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔

حدیث مبارکہ کا درج ذیل اردو ترجمہ عزیزہ ہالہ مسرور صاحبہ نے پیش کیا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے کہ دنیا کی عورتوں میں سے بہتر عمران کی بیٹی مریم تھی اور اس زمانے کی عورتوں میں سے بہتر عورت خدیجہ ہیں۔

(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء)

• اس کے بعد عزیزہ ہما منیر صاحبہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ جب کہ ہر ایک انسان بالطبع راحت اور آسائش چاہتا ہے اور ہموم و غموم اور کردو بے افکار سے خواستگار نجات ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ جب اس کو ایک مجرب نسخہ اس مرض کا پیش کیا جاوے تو اس پر توجہ ہی نہ کرے۔ کیا للّٰہی وقت کا نسخہ 1300برس سے مجرّب ثابت نہیں ہوا؟ کیا صحابہ کرامؓ اسی وقف کی وجہ سے حیات طیبہ کے وارث اور ابدی زندگی کے مستحق نہیں ٹھہرے؟ پھر اب کون سی وجہ ہے کہ اس نسخہ کی تاثیر سے فائدہ اٹھانے میں دریغ کیا جاوے۔

بات یہی ہے کہ لوگ اس حقیقت سے ناآشنا اور اس لذّت سے جو اس وقت کے بعد ملتی ہے۔ نہ واقف محض ہی۔ ورنہ اگر ایک ایک شمہ بھی اس لذت اور سرور سے ان کو مل جاوے تو بے انتہا تمناؤں کے ساتھ وہ اس میدان میں آئیں۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ501)

• بعد اذاں آبیہ شکر ورک صاحبہ نے اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔

• اس کے بعد ہبہ ہدایت چوہدری صاحبہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا پاکیزہ منظوم کلام ؎

خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار
جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اس پر نثار

خوش الحانی سے پیش کیا۔ اس اردو نظم کا انگریزی ترجمہ عزیزہ سلمیٰ طاہر صاحبہ نے پیش کیا۔

• اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نے فرمایا کہ جن کو اردو آتی ہے ہاتھ کھڑا کریں۔ اس پر واقفات نو نے اپنے ہاتھ کھڑے کیے۔

• تو اس پر فرمایا کمال ہے 30 سے 40 فیصد ہیں جن کو اردو آتی ہے۔ باقی جو ہیں وہ بھی اردو لکھنا اور پڑھنا سیکھیں۔ اردو سیکھو تاکہ تم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اصل زبان میں سمجھ سکو اور ان سے رہنمائی لے سکو۔ ترجمہ کبھی بھی اصل متن سے انصاف نہیں کر سکتا۔ کسی حد تک تو ترجمہ احاطہ کرتا ہے لیکن مکمل طور پر نہیں۔ اگر آپ اپنا دینی علم بڑھانا چاہتی ہیں تو اردو سیکھیں۔ واقفات نو کو اردو سیکھنی چاہیے تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں سمجھ سکیں۔

حضور انور نے فرمایا: آپ میں سے کتنی ہیں جو قرآن کریم کا ترجمہ جانتی ہیں اور کتنی ہیں جو ترجمہ سیکھ رہی ہیں۔ (واقفات نو نے ہاتھ اٹھائے)

اس پر فرمایا: آپ سب کو قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنا چاہیے۔ اگر نہیں سیکھیں گے تو آپ کو قرآنی مضامین سمجھ میں نہیں آئیں گے۔ قرآن کریم میں دی گئی ہدایات اور احکامات سمجھ نہیں آئیں گے۔ لازماً ترجمہ سیکھیں اور روزانہ ایک یا دو رکوع تلاوت کریں اور پھر اس کا ترجمہ بھی پڑھیں۔ اگر ممکن ہو تو یاد رکھنے کی کوشش بھی کرو یا کم از کم مشکل الفاظ کا ترجمہ یاد کرو۔ الاسلام ویب سائٹ پرلفظی ترجمہ موجود ہے وہاں سے سیکھنا شروع کریں۔ یہ آپ کی ڈیوٹی ہے۔

• بعد ازاں واقفات نو بچیوں نے حضور انور کی اجازت سے مختلف سوالات کئے۔

• ایک وقفہ نو راضیہ تبسم نے سوال کرتے ہوئے عرض کی کہ بچوں کو معاشرے کے بد اثرات سے بچانے کے لیے پبلک یا پرائیویٹ اداروں میں بھجوانے کی بجائے گھر میں اسکولنگ فراہم کرنے کے بارے میں حضور کیا فرماتے ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا: اگر آپ اپنے بچوں کو گھر پر پڑھا سکتی ہیں اور ان کی ٹریننگ کر سکتی ہیں تو ابتدائی دس سالوں میں اپنے بچوں کو اسکول جانے کے بجائے گھر میں تعلیم دینا آجکل سب سے بہترین طریقہ ہے۔ لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کتنا وقت دے سکتی ہیں۔ اور پھر یہ سمجھتی ہیں کہ آپ کی قوت برداشت میں بہت اچھی ہیں۔ کیونکہ بچوں کو پڑھانا کوئی آسان کام نہیں۔ اس طرح نہیں کہ ایک چھوٹی سی غلطی پر آپ بچے کو تھپڑ مار دیں کہ غلط کیوں پڑھ رہا ہے۔پس آپ نے صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر آپ کے صبر کا معیار اچھا ہے تو آپ پڑھا سکتی ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ زیادہ بہتر ہے۔ بہت سی مائیں یہ کر رہی ہیں اور یہ طریق کافی کامیاب ہے۔ ایک مرتبہ جب بنیاد مضبوط ہو جائے اور بچے اپنے ایمان میں پختہ ہو جائیں، اپنے فرائض سمجھنے والے ہوجائیں اور اخلاقیات بھی سمجھ جائیں، اخلاقی اقتدار حاصل کرلیں یا یہ سمجھ لیں کہ دین ان سے کیا چاہتا ہے تو اس کے بعد آپ انہیں اسکول بھیجوا سکتی ہیں۔

ایک واقفہ نو ہالہ مسرور نے سوال کیا کہ حضور میرے اسکول کی طرف سے مجھے بعض کتب دی گئی اور پھر ان کے مطالعہ کے بعد ان پر اپنا تجزیہ بیان کرنے کا بھی کہا۔ اس کتاب کا متن غیراسلامی تھا۔ مثلاً اس میں دہریہ خیالات، تعدد ازواج، ڈرگز اور عریانی کے تصورات تھے۔ حضور کیا ایک احمدی کو ایسی اسائنمنٹ سے معذرت کرلینی چاہیے ؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا: آپ اپنے استاد کو بتا سکتے ہیں کہ میں نے کتاب پڑھی ہے اور آپ اس کے مضامین سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہ غیر اخلاقی باتیں ہیں اور مذہب کی بنیادی تعلیمات سے دور کرتے ہیں اور میرے اخلاق کے خلاف ہے یہ میں پسند نہیں کرتی۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں اس پر اپنا تجزیہ پیش کروں تو اس کتاب میں تمام چیزیں لغویات ہیں اور ان باتوں کے حوالہ سے اپنا نقطہ نظر بیان کریں اور بتائیں کہ آپ کیوں اتفاق نہیں کرتیں۔ اپنی رائے دیں۔ اگر پھر وہ آپ کو صفر مارک دیں تو پرواہ نہ کریں۔

• ایک واقفہ نو تہمینہ منشاء نے کہا کہ کیا حضور خیال کرتے ہیں کہ رشیا یوکرائن کی جنگ کے نتیجہ میں اور خاص کر روس کی جانب سے یوکرائن کے اندر حالیہ بمباری کے بعد دنیا بدل جائے گی؟

اس پر حضور انورنے فرمایا: یہ صرف رشیا اور یوکرائن جنگ کا مسئلہ نہیں ہے، یہ تو اب بڑھتی جائے گی اور لگتا ہے کہ روس اور یوکرائن سے بھی آگے پھیل جائے گی اور اگر ساری دنیا اس میں ملوث ہو جائے گی۔ اگر ساری دنیا اس میں شامل ہوجائے تو پھر میں امید کرتا ہوں کہ لوگ سوچیں گے یہ سب کیوں ہوا ہے۔ لیکن اس وقت تک اس بات پر غور کرنے کے لیے بہت ہی تھوڑے افراد رہ جائیں گے۔ وہ تب میرے خیال میں اپنے پیدا کرنے والے کی طرف جھکیں گے۔ اچھائی کی طرف جھکیں گے اور سچا مذہب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔ اس وقت احمدی مرد و خواتین کا کام ہوگا کہ ان کی سیدھے رستے کی طرف رہنمائی کریں اور انہیں بتائیں کہ اب تم نے اپنی خواہشات کا مزہ چکھ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہدایات اور احکامات کی پابندی کرو اور مجھ پر ایمان لاؤ۔ اگر اب بھی اس پر عمل نہیں کرو گے تو پھر ایک اور جہنم مقدر ہو گی اور نتیجتاً دنیا تباہ ہو جائے گی۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیا ہونے والا ہے لیکن کوشش کریں کہ کس طرح دنیا کو اللہ کی پہچان کروانے کی تبلیغ کر سکتے ہیں۔

• ایک واقفہ نو تانیہ انجم قریشی نے سوال کرتے ہوئے عرض کیا گیا کہ بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ جماعت میں بھی ایسے بچے جن کی ذہنی نشونما کم ہوتی ہے یا معذور بچوں بالخصوص autism سے متاثر بچوں کو Stigmatize کیا جاتا ہے۔ حضور رہنمائی فرمائیں کہ اس Stigmatization کوکس طرح ختم کیا جاسکتا ہے اور کس طرح اس حوالہ سے برداشت اور تحمل پیدا کیا جا سکتا ہے؟

اس پر حضور نے فرمایا: اگر لوگ ایسے بچوں کا خیال نہ رکھیں اور ان کے والدین کے جذبات کا خیال نہ رکھیں تو ایسے لوگ جاہل ہیں۔ اس طرح نہیں ہونا چاہیے۔ ان سے مریض کی طرح ہی نیک برتاؤ کرنا چاہیے اور ان بچوں اور ان کے والدین سے ہمدردی کرنی چاہیے۔ یہی ایک راستہ ہے۔ میں ہمیشہ یہی کہتا آیا ہوں۔ آجکل autism یا اس کی ایک معمولی قسم ADHD عموماً 10 سے 15 فیصد لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ پس ہمیں اس کا ادراک کرنا چاہیے اور بچوں اور والدین کے جذبات کا خیال کرنا چاہیے اور انہیں بطور مریض ہی لینا چاہیے۔

• ایک واقفہ نو تمثیلہ مدثر صاحبہ نے سوال کیا کہ اگر حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے بھی دنیا قائم تھی تو پھر حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم انسانوں کو بھی دینے کے بجائے صرف فرشتوں کو کیوں دیا گیا؟

اس پر حضور نے فرمایا: یہ کہاں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ کہا کہ آدم ہی واحد انسان ہے جس کو سجدہ کرو یا اس کی مدد کرو یا احترام کرو؟ یہ نا تو قرآن کریم میں ہے نہ ہی بائبل میں اور نہ ہی کسی قدیمی صحیفہ میں لکھا ہے۔ وہ آدم جس سے ہماری انسانی نسل کا آغاز ہوا ہے اس سے پہلے بھی بہت سے آدم تھے اور اللہ تعالیٰ نے اسی طرح فرشتوں کو حضرت آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ دیکھیں ایک مرتبہ حضرت ابن عربی رحمہ اللہ جوکہ بہت ہی پایہ کے دینی عالم ہیں اور تاریخ اسلام کی ایک مشہور شخصیت ہیں۔ ان کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ عمرہ کر رہے تھے تو انہوں نے رؤیا میں بعض اور افراد کو بھی عمرہ کرتے دیکھا جو کہ شکل و شباہت کے لحاظ سے مختلف تھے۔ ان سے حضرت ابن عربی رحمہ اللہ نے دریافت فرمایا کہ آپ آدم کی اولاد ہو؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ کس آدم کی بات کر رہے ہو؟ آدم تو بہت سارے ہیں۔ قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر ہے، لیکن آدم کوئی ایک نہ تھا۔ دنیا کو بنے صرف چھ ہزار سال تو نہیں ہوئے۔ دنیا تو لاکھوں کروڑوں سال سے قائم ہے۔ آسٹریلیا کے aborigines ہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا دین 45 ہزار سال سے قائم ہے اور اسی طرح بعض اور قدیمی قومیں بھی ایسے ہی دعوے کرتی ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے آدم کے لئے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ موجودہ انسانی نسل 6000 سال پرانی ہے۔ اس سے قبل بھی بہت سے آدم تھے۔

• ایک واقفہ نو نوال مجید صاحبہ نے سوال کیا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے تو ایسی چیز بنانے کا مقصد کیا تھا جس نے بالآخر ختم ہی ہو جانا ہے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا: آپ یہ دیکھیں کہ آپ کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ کیا آپ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟ یہی سلسلہ ساری دنیا میں جاری ہے۔ ہر انسان جو پیدا ہوتا ہے ایک عرصے کے بعد فوت ہو جاتا ہے۔ بعض تیس سال بعد چالیس سال اور بعض سو سال تک۔ زندگی کا دورانیہ اتنا ہی ہے۔ اسی طرح دنیا کا بھی ایک دورانیہ ہے اور موت کے بعد کا بھی ایک عرصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس دنیا کی ابتداء جیسے ایک زور دار دھماکے سے ہوئی یہی تم مانتے ہو اور یہی سائنس بھی کہتی ہے کہ دنیا کی ابتدا Big bang سے ہوئی۔ پھر اس سے ستارے نظام شمسی اور کائنات وجود میں آئی۔ اسی طرح فرماتا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ پھر ہر چیز اسی Black hole میں واپس چلی جائے گی۔ سائنس بھی یہی کہتی ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے۔ پھر دوبارہ سے ایک بگ بینک کے ذریعہ ایک نئی دنیا کا آغاز ہوگا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ ہماری دنیا کا آغاز اس طرح ہوا لیکن یہ دنیا بھی اربوں کھربوں سال پرانی ہے۔ تو اس چیز کی فکر نہ کریں کہ یہ کوئی جلد ختم ہونے والی ہے۔

• ایک واقفہ نو ارفہ تنویر بٹ نے سوال کیا کہ حضور جب آپ کسی ملک سے اپنا دورہ مکمل کر کے تشریف لے جاتے ہیں تو احمدی بہت اداس ہو جاتے ہیں حضور کے کیا جذبات ہوتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: آپ کا کیا خیال ہے کہ میرے کیا جذبات ہونے چاہئیں؟ اگر آپ میرے جانے پر اداس ہو جاتے ہیں تو میرے جذبات کس طرح مختلف ہو سکتے ہیں۔ ایسا ہی ہوتا ہے لیکن کچھ دیر کے بعد آپ لوگ اپنے کاموں میں مگن ہوجاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ میں آیا تھا اور چلا گیا۔ لیکن میں آپ کو کبھی نہیں بھولتا۔ میں ہر وقت آپ لوگوں کے لیے دعا کرتا رہتا ہوں۔ اسی طرح نظام چلتا ہے۔ اسی طرح جو شخص آپ کے شہر یا علاقہ یا زندگی میں آئے، اس کو بالآخر جانا ہے اور ہمیں اس کے لیے دعا کرنی چاہیے ہمیں ایک دوسرے کے لئے دعا کرنی چاہیے۔ اسی طرح ہم اپنے تعلق کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ یہی آپ کو کرنا چاہیے اور یہی مجھے کرنا چاہیے۔

• عزیزہ کاشفہ وہاب مرزا نے سوال کیا کہ سورۃ النور کی آیت 36 میں اللہ تعالیٰ اپنے نور کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ زیتون کے تیل سے روشن ہوئی ہے یہاں زیتون کے درخت کی کیا اہمیت ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: زیتون کے تیل کی یہ خوبی ہے کہ وہ دھواں نہیں کرتا۔ اس سے صرف روشنی پیدا ہوتی ہے۔ یہ تو ایک چیز ہے۔ پھر زیتون اس علاقہ کی علامت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے جس علاقہ میں زیادہ تر انبیاء مبعوث ہوئے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کو پسند بھی ہے۔ اس وقت میرے پاس قرآن کریم نہیں ہے لیکن آپ اس کی اگلی چند آیات دیکھیں تو وہاں اس کی اہمیت بھی بیان کی گئی ہے۔

حضور نے فرمایا کہ وقف نو ہو کتنی عمر ہے؟

اس پر بچی نے عرض کیا کہ 13 سال کی ہوں۔

حضور انور نے فرمایا: 13سال لیکن تمہاری انگریزی اچھی ہے۔ تو فائیو والیم کمنٹری سے اس کی تفصیل پڑھو۔ جہاں یہ آیت ہے وہاں اس کا جواب تفصیل سے دیا گیا ہے۔ یہی بات ہے جو میں نے بتائی ہے کہ زیتون کا تیل جلایا جائے تو دھواں نہیں ہوتا صرف روشنی ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا استعمال استعارہ کے طور پر کیا ہے۔ تمام انبیاء کی روشنی ہے اور سب سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی ہے۔

حضور انور نے سورہ نور آیت 36 کا بھی ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو۔ وہ چراغ شیشے کے شمع دان میں ہوں وہ شیشہ ایسا ہو گویا ایک چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے۔ وہ (چراغ) ایسے مبارک درخت سے روشن کیا گیا ہو۔ اسی طرح انبیاء کی بھی روشنی ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ہے۔

• عزیزہ ہانیہ رحمان نے سوال کیا کہ کیا واقفات نو کو علم فلکیات میں جانے کی اجازت ہے جیسا کہ NASA یا Space میں کام کر سکتی ہیں؟

• فرمایا: ہاں اگر تمہیں اس میں دلچسپی ہے تو کر سکتی ہو .لیکن یہ بات یقینی بناؤ کہ جہاں کام کر رہی ہوں وہاں اپنے لباس کا خیال رکھو اور لباس اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو. کام کر سکتی ہو لیکن NASA میں جانے سے پہلے اجازت حاصل کر لو۔

• عزیزہ مریم مبارک احمد نے سوال کیا کہ کیا کوئی اتفاق نامی چیز بھی ہے یا پھر ہر ایک عمل کو اللہ تعالیٰ کی مرضی قرار دینا چاہیے؟

• اس پر حضور انورنے فرمایا: اگر آپ خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو اگر آپ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے دعا کرتے ہیں اور پھر وہ بھی جائے۔ اسی طرح اگر آپ کہتی ہیں کہ فلاں شخص کا برتاؤ ایسا ہو وغیرہ اور آپ اس کے لئے دعا کرتی ہیں تو پھر ایسا ہو بھی جائے۔ تو آپ چونکہ خدا پر ایمان رکھتی ہیں تو یہی کہیں گی کہ اللہ تعالیٰ نے مدد کی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تب بھی یہی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اسی میں ہوگی۔ لیکن اگر کوئی دہریہ ہے تو وہ ان چیزوں کو اتفاق کہے گا۔ اگر کوئی چیز گم گئی ہے اور آپ اسے تلاش کرنے کے لیے دعا کر رہی ہیں اور اچانک آپ کے ذہن میں آ جائے کہ وہ چیز تو فلاں جگہ رکھی تھی یا پھر وہ چیز آپ کو کہیں مل جائے تو آپ نے چونکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی، اللہ پر ایمان رکھتی ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہے۔ جبکہ دہریہ کہے گا کہ اتفاقاً یاد آگیا کہ فلاں جگہ چیز رکھی تھی۔ فرق یہ ہے کہ جب آپ دعا کرتے ہیں اور پھر وہ چیز مل جائے تو یہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد ہے۔ اگر آپ نے نہیں بھی کی، تب بھی یہی سوچنا چاہیے کے ہر کام اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہوتا ہے۔ اگر بغیر دعا کے بھی کوئی چیز مل جائے تب بھی وہ اللہ تعالیٰ کی ہی مدد سے ملی ہے۔ اگر کوئی خواہش بغیر دعا کیے پوری ہو جائے تب بھی ہمیں اسے اللہ تعالیٰ کی رضا قرار دینا چاہیے۔

• عزیزہ سعدیہ نوال نے سوال کیا کہ حضور استخارہ کرنے کا ٹھیک طریقہ کیا ہے؟ مثلا اگر کوئی رشتہ آتا ہے تو کیا ہم اس پر غور کرنے سے پہلے استخارہ کریں یا پھر جب فیملیز وغیرہ مل لیں تب استخارہ کریں؟

• اس پر حضور انورنے فرمایا: جب تمہیں یا کسی لڑکی کو کوئی رشتہ آئے تو پہلے چھان بین کر لینی چاہیے کہ ظاہری طور پر لڑکا کیسا ہے، دینی معیار کیا ہے، برتاؤ کیسا ہے، اخلاق کیسے ہیں؟ اگر لڑکا اچھا ہے، فیملی اچھی ہے تو پھر استخارہ کرو۔ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی طلب کریں کہ اگر یہ لڑکا میرے لیے بہتر ہے تو اللہ تعالیٰ مدد کرے۔ استخارہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کوئی خواب دیکھیں گے یا اللہ تعالیٰ آپ کو الہام کے ذریعہ بتائے گا کہ یہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ استخارہ یہ ہے کہ اگر یہ بہتر ہے تو میرے ذہن کے خدشات اور خوف دور ہو جائیں اور اس رشتے کو میرے لئے بابرکت بنا دے اور اگر یہ میرے لئے بہتر نہیں ہے تو پھر اس رشتہ کو میرے سے دور کردے۔ بس یہ استخارہ ہے کہ آپ کے دل میں ایک تسلی پیدا ہو جاتی ہے۔ سو فیصد مشکل ہوتا ہے لیکن 90 فیصد تک تسلی ہو جاتی ہے۔ اگر دلی تسلی ہو تو رشتہ قبول کر لینا چاہیے اور اگر تسلی نہیں تو انکار کر دینا چاہیے۔

• عزیزہ سائرہ حسین بھٹی نے سوال کیا کہ حضور کیا فرشتے بھی انسانوں کی طرح محدود زندگی رکھتے ہیں یا پھر جب اللہ تعالیٰ نے فرشتے بنا دیے تو پھر ہمیشہ رہتے ہیں؟

• فرمایا :فرشتوں کی کوئی جسمانی شکل نہیں ہوتی۔ دراصل اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کو مختلف نام دیئے ہوئے ہیں مثلا جبرائیل علیہ السلام جو انبیاء پر نازل ہوتے ہیں، حضرت عیسی علیہ السلام پر یہ کبوتر یا فاختہ کی شکل میں نازل ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر انسانی شکل میں۔ لیکن اس کے باوجود ان کا کوئی جسمانی وجود نہیں ہوتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کا مظہر ہیں۔ چونکہ ان کا کوئی جسم نہیں ہوتا تو یہ پیدا ہونے اور فوت ہونے کا محتاج نہیں ہوتے۔ تو ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہی ہے جتنا چاہے زندہ رکھے۔ جیسا کہ ہر چیز فنا ہونی ہے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ فرشتوں کو کیسے ختم کرے گا۔ چونکہ ان کا جسمانی وجود نہیں ہے اس لیے یہ انسانوں کی طرح فوت نہیں ہوتے۔

• عزیزہ افشاں زہرہ میاں نے سوال کیا کہ کیا احمدی واقفات نو موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کو روکنے کے لئے کچھ کر سکتے ہیں؟

اس پر فرمایا: آپ کو زیادہ درخت لگانے چاہئیں۔ پھر گاڑی انتہائی ضرورت پر استعمال کریں یہ نہیں کہ سو گز دور برگر کی دکان پر جانے کے لئے گاڑی نکال لیں۔ ماحول کو آلودہ نہ کریں۔ Carbon Emissions کم کریں اور اس کے لیے درخت لگائیں۔ ہر واقفہ نو کو سال میں کم از کم دس درخت لگانے چاہئیں اور اس طرح ہم ہزاروں درخت لگا لیں گے اور اس سے بھی مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ لوگوں میں آگہی پیدا کرنی چاہیے اور لوگوں کو ان کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف توجہ دلائیں کوشش کریں کہ Climate change اور greenhouse effect کے بڑے پروموٹر بن جائیں. تو اس طرح آپ اپنے ملک اپنے علاقہ اور شہر کی مدد کرسکتے ہیں۔

• عزیزہ ہبۃ الحئی مشکوٰۃ نے سوال کیا کہ کیا تمام موصی جنت میں جائیں گے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا: ہمیں یہ امید کرنی چاہیے کہ یہ سب جنت میں جائیں کیونکہ انہوں نے اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیا ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے کام کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا دین پھیلانا چاہتا ہے اور نیک بھی ہے۔ یہ نہیں کہ جو موصی ہو کر پانچ نمازیں بھی نہ پڑھتا، ہو لڑائی جھگڑے کرتا ہو، بری عادات ہوں، اخلاقی حالت ٹھیک نہ ہو اور پھر امید ہو کہ وہ لازما ًجنت میں جائے گا، تو ایسا نہیں ہوگا۔ اگر کوئی مذہب سے عقیدت رکھتا ہے، پنجوقتہ نماز کا التزام کرتا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد قائم کرتا ہے، اچھی اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے دین کی ترویج کے لیے اتنی بڑی مالی قربانی کرتا ہے تو جب یہ تمام خوبیاں اکٹھی ہوتی ہیں تو وہ شخص بلاشبہ جنتی ہے، تمام باتیں دیکھی جاتی ہیں، تمام خوبیاں ہوں اور پھرزندگی بھر مالی قربانی اور وفات کے بعد ایک بڑی رقم اللہ کی راہ میں دے تو پھر امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے گا اور جنت میں مقام دے گا۔

• عزیز فاتحہ مسرور نے سوال کیا کہ میری بہن اور میں بڑی باقاعدگی سے مسجد جاتے ہیں ہماری جماعت کافی بڑی ہے لیکن ہماری عمر کی لڑکیاں مسجد نہیں آتیں تو پھر میں اور میری بہن کس طرح احمدی سہیلیاں بنا سکتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: دیکھیں بچیوں پر تو پنج وقتہ نماز مسجد میں جا کر ادا کرنا فرض نہیں ہے۔ آپ جاتی ہیں تو اچھی بات ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ صرف آپ جاتی ہوں گی اور بھی بچیاں ہوں گی جو کہ مسجد آتی ہوں گی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر اس بچی نے عرض کی کہ حضور بڑی عمر کے لوگ ہوتے ہیں۔

اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا چلو پھر ان بڑی عمر کے لوگوں سے کہا کرو کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بھی لے کر آئیں۔ انہیں بھی پتہ چلے گا کہ آپ آتی ہیں اور وہ اپنے گھروں میں جاکر بیٹیوں کو بھی کہیں گے کہ کم از کم ہفتے میں ایک دو مرتبہ مسجد آجایا کریں۔ دوسرا مسجد کے علاوہ بھی دیکھ سکتی ہیں اچھی لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اپنے آس پڑوس میں دیکھیں۔ اپنے اجلاسات اور میٹنگز میں بھی مل جائیں گی۔ واقفات نو کی یہ کلاس 7 بجے اپنے اختتام کو پہنچی۔

واقفین نو کے ساتھ کلاس

بعد ازاں سات بج کر دس منٹ پر پروگرام کے مطابق واقفین نو کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلاس شروع ہوئی۔

کلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیز مصباح الدین صاحب نے کی اور اس کا ترجمہ انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ تلاوت کا اردو ترجمہ حافظ اسیداللہ ورک نے پیش کیا۔

اس کے بعد عزیزم حبیب ظفر اعوان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ پیش کی اور اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔

حدیث مبارکہ کا درج ذیل اردو ترجمہ عزیز احمد نوربہاد نے پیش کیا۔

حضرت ابو عبس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جس کے قدم خدا کی راہ میں غبار آلود ہو گئے اللہ تعالیٰ اسے دوزخ پر حرام کر دے گا۔

(صحیح بخاری کتاب الجمعہ)

• اس کے بعد عزیزم سید نواس احمد نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں خود جو اس راہ کا پورا تجربہ کار ہو اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور فیض سے میں نے اس راحت اور لذت سے حظّ اٹھایا ہے، یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لیے اگر مر کے پھر زندہ ہو ںاور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتا ہی جا وے۔ پس میں چونکہ خود تجربہ کار ہوں اور تجربہ کرچکا ہوں اور اس وقف کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہے کہ اگر مجھے یہ بھی کہہ دیا جائے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں، بلکہ تکلیف اور دکھ ہوگا، تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رک نہیں سکتا۔ اس لیے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اپنی جماعت کو نصیحت کروں اور یہ بات پہنچا دوں۔ آئندہ ہر ایک کا اختیار ہے کہ وہ اسے سنے یا نہ سنے۔ اگر کوئی نجات ہے حیات طیبہ یا ابدی زندگی کا طلبگار ہے، تو وہ اللہ کے لیے اپنی زندگی وقف کرے اور ہر ایک اس کوشش اور فکر میں لگ جاوے کہ وہ اس درجہ اور مرتبہ کو حاصل کرے کہ کہہ سکے کہ میری زندگی، میری موت، میری قربانیاں، میری نمازیں، اللہ ہی کے لیے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اس کی روح بول اٹھے:

اَسلَمتُ لِرَبِّ العٰلَمیِن

جب تک انسان خدا میں کھویا نہیں جاتا۔ خدا میں ہو کر نہیں مرتا وہ نہیں زندگی نہیں پا سکتا۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ501-502)

• اس اقتباس کا انگریزی ترجمہ عزیزم ماہر احمد وڑائچ نے پیش کیا۔

• اس کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا منظوم کلام

؎خدمت دین کو اک فضل الہی جانو
اس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہو

عزیزم عقیل احمد اکبر نے خوش الحانی سے پیش کیا اور اس نظم کا انگریزی ترجمہ عزیزم معیز احمد نے پیش کیا۔

• بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نے فرمایا:
اردو بولنی سیکھو، پڑھنی سیکھو تاکہ آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اصل صورت میں پڑھ سکیں۔ ترجمہ تو اصل متن سے انصاف نہیں کر سکتا۔ اس طرح سمجھ سکیں گے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے تھے۔

حضور انور نے فرمایا: پھر اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ جب تلاوت کر رہے ہو تو اس کا مطلب بھی سمجھنے کی کوشش کرو۔ روزانہ قرآن کریم کا ایک رکوع ترجمہ کے ساتھ تلاوت کرو۔ لفظی ترجمہ بھی الاسلام ویب سائٹ پر موجود ہے۔ کچھ پارے تو ہیں باقی بھی جلد آ جائیں گے۔ پس ترجمہ قرآن کریم سیکھنے کی کوشش کرو تاکہ آپ کو سمجھ آئے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے کیا چاہتا ہے۔ کیا احکامات ہیں۔ مذہب پر عمل کرنے کی کیا ہدایات ہیں۔ ٹھیک ہے بس یہ دو باتیں ہمیشہ یاد رکھو۔

نیز فرمایا: پر ایک اور ضروری چیز پنجوقتہ نمازیں ہیں۔ نمازوں کی ادائیگی کبھی بھی کسی صورت میں نہیں بھولنی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: کہ ہاتھ اٹھائیں جنہوں نے پانچ نمازیں پڑھی ہیں۔ پھر فرمایا: پانچ نمازیں ہر ایک مسلمان پر فرض ہیں۔ آپ سب کو پانچ نمازیں ادا کرنی چاہیں۔

• بعد ازاں واقفین نو نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے کی اجازت سے سوالات کیے۔

• عزیزم تیمور عبداللہ نے سوال کیا کہ وہ کون سی ایسی چیز ہے جس میں یو ایس اے جماعت کے ممبران کو انفرادی اور اجتماعی طور پر بہتری کرنی چاہیے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: روزانہ پنج وقتہ نمازوں کی پابندی کریں۔ یہ وہ ایک چیز ہے جس میں ہر ایک ممبر جماعت کو ٹارگٹ بنا لینا چاہیے کہ وہ روزانہ پانچ نمازیں ادا کریں گے۔ یہ نہیں کہ صرف نماز ادا ہو بلکہ مکمل توجہ سے ادا کی جائے۔ جب آپ نماز پڑھیں گے تو پھر آپ اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے والے ہوں گے اور پھر آپ مذہب کے بارے میں مزید علم حاصل کریں گے اور اپنی ذمہ داریاں سمجھیں گے۔

• عزیزم احتشام نجیب چودھری نے سوال کیا کہ خلافت سے قبل کس طرح حضور نے خلیفہ ٴوقت سے قرب کا تعلق قائم رکھا۔ خاص کر جب کہ حضور اتنی دور غانا میں تھے اور پھر خلافت کے یو کے منتقل ہونے کے بعد حضور ایک عرصہ ربوہ میں رہے۔ حضور ہمیں امریکہ میں رہنے والوں کو کیا نصیحت فرمائیں گے کہ ہم بھی اسی طرح خلافت سے قرب حاصل کر سکیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: میری پرورش ایسے ماحول میں ہوئی تھی جس میں یہ سکھایا گیا تھا کہ خلافت کے بغیر کوئی زندگی نہیں، کوئی روحانی زندگی نہیں۔ جب میں وقف کرکے غانا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو باقاعدگی سے خطوط لکھتا تھا۔ پھر حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو بھی اسی طرح باقاعدگی سے خطوط لکھتا تھا۔ پھر میں اپنے لیے دعا بھی کرتا رہتا تھا کہ میں ہمیشہ خلافت کے قریب رہوں اور کبھی بھی ایسا کچھ نہ کروں کہ جس سے خلیفہ وقت کو تکلیف ہو۔ یہ دو چیزیں ہیں جن سے آپ خلافت سے تعلق مضبوط کر سکتے ہیں۔ خلیفہ المسیح سے زندہ تعلق قائم رکھیں اور پھر خلیفہٴ وقت کے لئے مسلسل دعائیں کرتے رہیں۔ اپنے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایمان میں پڑھائے اور خلیفہ المسیح سے سے تعلق میں ترقی اور مضبوطی عطا فرمائے۔

• عزیزم قمر احمد خان نے سوال کرتے ہوئے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 120 میں فرماتا ہے کہ شیطان ان کو گمراہ کرے گا اور وہ اللہ کی تخلیق میں تغیر کریں گے۔ طبی میدان میں ترقی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ہم اپنی شکل و شباہت بہتر کر سکتے ہیں جیسا کہ کاسمیٹک سرجری بوٹوکس اور مختلف ٹرانسپلانٹ وغیرہ کے ذریعہ۔ کیا یہ طریقہ قرآن کریم کی اس ہدایت کے خلاف ہے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا: یہ علم اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمایا ہے اور یہ علم انسان کی بہتری کے لیے ہے۔ یہ کوئی تبدیلی تو نہیں ہے۔ یہ انسانی زندگی بہتر بنانے کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم دوسری قسم کی بھی تبدیلی یا تغیّر کرو گے جو کہ تمہیں جہنم میں لے جائے گا اور اس سے معاشرے کا امن برباد ہو جائے گا۔ یہ کلوننگ ہے۔ کلوننگ منع ہے۔ اس کے ذریعہ آپ انسان کی تمام خصوصیات تبدیل کر دیتے ہیں اور اسے جانور بنا دیتے ہیں اور اسی طرح کسی جانور کی شکل تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہ منع ہے۔ اس کے علاوہ تمام دیگر چیزیں انسان کی بہتری کے لیے ہیں اور یہ جائز ہیں۔

• اس کے بعد عزیزم مصطفی ٰاحمد ظفراللہ نے سوال کیا کہ بعض اوقات ہم بطور وقف نو یہ خیال کرتے ہیں کہ مجلس خدام الاحمدیہ اور جماعت کے مختلف کام کر رہے ہیں اور باقاعدہ وقف کرنا ضروری نہیں ہے ہم اپنے آپ کو کیسے motivate سکتے ہیں؟

اس پر حضور نے فرمایا: آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ کیا آپ کے والدین نے ایک مختصر وقت کے لئے یہ قربانی دی تھی اور اپنے بچے کو وقف کیا تھا؟ یا پھر مستقل خدمت کے لئے کیا تھا۔ آپ اس بات کا احساس کریں آپ کے والدین نے آپ کی تمام زندگی احمدیت کی خدمت کے لیے پیش کی تھی۔ ایم ٹی اے، سکیورٹی وغیرہ میں مختصر دورانیہ کے رضاکارانہ کام کرنا کافی نہیں ہے۔ اس لیے میں نے کہا ہے کہ 15 سال کی عمر کو پہنچ کر آپ تجدید عہد کریں کہ آپ اپنا وقف زندگی جاری رکھیں گے اور پھر 21 سال کی عمر میں پھر دوبارہ تجدید عہد کریں۔ مرکز کو باقاعدہ اطلاع دیں کہ آپ کس فیلڈ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کب تک تعلیم جاری رہے گی۔ مرکز سے پوچھیں کہ آیا جماعت کو میری خدمات کی ضرورت ہے؟ یا پھر آپ اپنی فیلڈ میں جاب کریں اور تجربہ حاصل کریں۔ مرکز آپ کی اس بارے میں رہنمائی کر دے گا۔ آپ کا یہ فرض ہے کہ آپ اپنے عہد کے مطابق جماعت کو اپنی خدمات پیش کر دیں جیسا کہ آپ کی ولادت سے قبل آپ کے والدین نے وعدہ کیا تھا۔

• عزیزم مدثر احمد صاحب نے سوال کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ہمارا مقدر لکھ دیا ہوا ہے تو پھر ہم اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے محنت کیوں کریں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا: آپ کی قسمت کا تو اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے، آپ کو تو علم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ اگر آپ اچھے کام کریں گے تو ان کا اچھا اجر پائیں گے اور غلط کام کریں گے تو اس کی سزا پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی نہیں فرمایا کہ آپ اصلاح نفس نہیں کر سکتے، نہ ہی یہ فرمایا ہے کہ معاف نہیں کرے گا۔ کہتے ہیں کہ ایک بڑا مجرم شخص تھا۔ اس نے ننانوے قتل کئے ہوئے تھے۔ بالآخر اس کے ذہن میں آیا کہ اس نے اتنے گناہ کیے ہیں وہ کبھی بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔کسی نے اس کو بتایا یا اس کے ذہن میں آیا کہ اللہ تعالیٰ بہت رحم کرنے والا ہے۔ پس وہ کسی نیک شخص کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ میں اتنے جرم کر چکا ہوں کیا اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرسکتا ہے؟ اس پر اس بظاہرنیک شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اس نے سوچا کہ جہاں ننانوے قتل کئے ہیں وہاں ایک اور سہی۔ چنانچہ اس نے اس شخص کو بھی قتل کر دیا۔ پھر کسی نے اس کو بتایا کہ اس شخص نے جو تمہیں بتایا وہ ٹھیک نہ تھا تم فلاں جگہ جاؤ وہاں جو شخص ہے وہ تمہیں اس بارے میں صحیح رہنمائی دے گا۔ چنانچہ یہ مجرم شخص اس سے ملنے چلا گیا لیکن راستے میں ہی فوت ہو گیا۔ جب وہ مرا تو جنت اور دوزخ کے فرشتے آ گئے۔ جنت والا فرشتہ کہتا کہ یہ نیک ارادے سے سفر کر رہا تھا اور راستے میں ہلاک ہو گیا ہے اس لیے میں اسے جنت میں لے جانے کے لئے آیا ہوں، جبکہ دوزخ والا فرشتہ کہنے لگا کہ یہ بڑا ظالم ہے یہ جہنم میں جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ راستے ناپے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ جس شخص کے پاس وہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی امید کرتے ہوئے جا رہا تھا اور جتنا فاصلہ وہ طے کر چکا تھا وہ زیادہ تھا بنسبت اس فاصلہ کے جتنا کہ باقی تھا۔ چنانچہ وہ فرشتہ جو جنت سے آیا ہوا تھا اسے جنت میں لے گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔ تو اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ قسمت جانتا ہے۔ ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ جانتا ہے لیکن غفور رحیم بھی اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں۔ گناہ معاف کرسکتا ہے۔ ۔ہمارا فرض ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلیں اور جس حد تک ہماری استطاعت ہے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ چاہے تو ہمارے گناہ بخش دے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ مقدر بھی تبدیل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم برے کام کرتے رہے تو اللہ تعالیٰ سزا دے گا اور اگر ندامت پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف جھکیں تو اللہ تعالیٰ یقینا معاف کر سکتا ہے۔

• عزیزم گلفام اشرف نے سوال کیا کہ کیا پاکستان میں حالیہ سیلاب احمدیوں پر مظالم کی سزا ہے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا: یہ صرف احمدیوں پر مظالم کی وجہ سے نہیں اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں۔ اب تو ان کے سیاستدانوں اور ملا نے بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ ملک میں سیلاب اور قدرتی آفات بدامنی اور سیاسی انتشار سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہے۔ لیکن اس بات کا ادراک نہیں کرنا چاہتے کہ یہ ان کے برے کاموں اور معصوم لوگوں کو ہلاک کرنے کا نتیجہ ہے۔ میرے خیال میں احمدیوں پر مظالم اس کی ایک وجہ ہو سکتا ہے۔

• عزیزم فاتح احمد نون نے سوال کیا کہ بعض اوقات نماز وقت پر ادا کرنے میں سستی ہو جاتی ہے اور پھر ہم ارادہ کرتے ہیں کہ آئندہ سستی نہیں کریں گے اس سستی کو کیسے ختم کر سکتے ہیں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ جب آپ تھکے ہوئے ہوں تو آپ کھانا کھانا بھول جائیں۔ تو جب آپ تھکے ہونے کے باوجود کھانا کھانا نہیں بھولتے تو نماز تو آپ کی روحانی غذا ہے۔ اگر آپ کا ایمان پختہ ہے اور آپ اللہ سے پیار کرتے ہیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ آپ کا فرض ہے تو پھر آپ نماز پڑھیں گے۔ آپ کو نماز کی اہمیت معلوم ہے کہ اس سے انسان اپنے خالق کا قرب حاصل کرتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ سب کچھ عطا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے جو کچھ آپ کے پاس ہے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے تو پھر آپ کو شکر بھی ادا کرنا چاہیے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بغیر کسی سستی کے نماز وقت پر ادا کی جائے گی۔

ایک وقف نو اسماعیل احمد نے سوال کیا کہ حال ہی میں ملکہ الزبتھ فوت ہوئی ہے اور حضور نے اس کی فیملی سے اظہار افسوس کیا ہے ملکہ الزبتھ کی وہ کون سی ایسی خصوصیت ہے جو حضور انور کو سب سے زیادہ پسند تھی اور مستقبل کے رہنماؤں کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہیے؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا: میں نے تو اس بارے میں سوچا نہیں۔ وہ ملک کی ملکہ تھی اور بطور برطانوی شہری میرا فرض تھا کہ میں اظہار افسوس کرتا۔ برطانوی سلطنت نے ہمیشہ سے تمام مذاہب کو آزادی دی ہے حتی کہ Colonialism کے دور میں بھی بھی برصغیر پاک وہند میں عیسائی حکومت ہونے کے باوجود اور عیسائیت اور عیسائی پادریوں کو حکومتی سرپرستی حاصل ہونے کے باوجود مسلمانوں کو مکمل آزادی دی۔ اس سے قبل سکھ حکومت کے دوران مساجد ویران ہوتی تھیں اور عبادت کی اجازت نہ ہوتی تھی۔ اس لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ان کی تعریف کی۔ اگرچہ انہوں نے بعض غلط کام بھی کیے ہیں لیکن تمام مذاہب کو آزادی دینا ایک اچھا قدم تھا اور اسی وجہ سے تعریف کی۔ برطانوی حکومت کی وجہ سے مسلمان محفوظ رہے نہیں تو ختم ہو جاتے۔

عزیزم شایان اسلم نے سوال کیا کہ حضور انور شہر زائن، ڈیلس اور اب میری لینڈ تشریف لائے ہیں اب تک حضور انور کو کیا چیز بہت پسند آئی ہے اور کیا بہتر کیا جا سکتا ہے؟

اس پر حضور انورنے فرمایا: ہر جگہ بہترین ہے۔ جہاں بھی میں احمدیوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ اچھے ہیں، ایمان میں مضبوط ہیں، خوش ہیں، نمازوں کے لئے آرہے ہیں تو میں خوش ہوتا ہوں۔ کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ باہر تو کہیں نہیں گیا صرف مسجد گیا ہوں اور احمدیوں سے ملا ہوں۔ بس یہی میری خوشی ہے کہ آپ سب کے ایمان مضبوط ہیں اور خلافت سے مضبوط تعلق رکھتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ آپ اپنے ایمان اور خلافت سے تعلق کو مضبوط تر کریں۔

عزیز مرزا مامون احمد بیگ نے سوال کیا کیا کہ حضور کی ایسے افراد کے لیے کیا رہنمائی و ہدایت ہے جو انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے وکیل بن رہے ہیں

اس پر حضور انورنے فرمایا: ’’انصاف‘‘ اور کوشش کریں کہ کامل عدل و انصاف کے بارے میں جو قرآن کریم نے ہدایات دی ہیں انہیں تلاش کریں۔ قرآن کریم کی کئی آیات کریمہ ہیں ان سے رہنمائی مل جائے گی۔ میں نے بھی کئی جگہ مختلف خطابات میں آیات بیان کی ہوئی ہیں وہاں بھی مل جائیں گی۔ تو اگر انصاف قائم کر سکیں یا اس کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں تو اس سے بہتر انسانی خدمت کیا ہو سکتی ہے۔

• عزیزم فاران سمیع جدران نے سوال کیا کہ حضور کی رائے میں کیا یو ایس اے میں رہنے والے افراد کے لیے حج و عمرہ کرنا محفوظ ہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: بالکل آپ کر سکتے ہیں۔ کسی کے پاسپورٹ پر نہیں لکھا کہ وہ احمدی ہے۔ بعض احمدی ایسے بھی ہیں جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ ہے اور ان پر احمدی لکھا ہوا ہے، اس کے باوجود وہ حج و عمرہ کے لئے جاتے ہیں۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو جا سکتے ہیں۔

• عزیزم فہد میاں نے سوال کیا کہ حضور جب دورہ پر کسی ملک تشریف لاتے ہیں تو اس ملک کے ہر احمدی اور ان کی فیملی اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ حضور انور سے شرف ملاقات حاصل کریں لیکن بہت کم لوگ یہ سعادت حاصل کر پاتے ہیں ان احمدیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے حضور کیا کہیں گے جو ملاقات کا شرف حاصل نہیں کر سکتے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: بہت سے احمدی ہیں، صرف یہاں یو ایس اے میں نہیں بلکہ دیگر جگہوں پر بھی ہیں۔ پاکستان میں بھی ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں احمدی ہیں، انڈیا میں، افریقہ میں۔ خلیفہ وقت تو ہر ایک کو جاکر نہیں مل سکتا۔ اب تو اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے ہر ایک احمدی ایم ٹی اے کے ذریعہ خلیفہ وقت سے رابطہ میں ہے۔ ہر جمعہ آپ خلیفۃ المسیح کا خطبہ سن سکتے ہیں۔ پس اگر آپ کا خلافت سے پختہ تعلق ہے تو آپ خطبہ سنیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح آپ اللہ تعالیٰ کو خوش کر سکتے ہیں۔ اس طرح آپ خلافت سے اپنا تعلق مضبوط کر سکتے ہیں۔ صرف فیملیز کے ساتھ ملاقات کرنا آپ کا مقصد نہ ہو اصل چیز یہ ہے کہ اپنا ایمان بڑھانے کی کوشش کریں اور خلافت سے تعلق مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔

• عزیزم اوصاف احمد تفہیم نے عرض کیا کہ میں 12 سال کا ہوں میرا سوال یہ ہے کہ جب حضور میری عمر کے تھے تو حضور کو کون سا کھیل پسند تھا اور کون سا مضمون پسند تھا؟

اس پر حضور انورنے فرمایا: میں کرکٹ کھیلا کرتا تھا۔ تاہم میں کھیل میں اچھا نہیں تھا۔ پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ حقیقت سننا چاہتے ہیں تو مجھے کبھی کوئی مضمون پسند نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مدد کی میں بس ایک اوسط درجہ کا طالب علم تھا۔

فرمایا: لیکن آپ کو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کو محنت کرنی چاہیے آپ وقف نو ہیں۔ آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟

اس پر اوصاف نے عرض کی کہ میں انجینئر بننا چاہتا ہوں۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا بس اگر انجینئر بننا چاہتے ہو تو محنت کرو۔

• عزیزم احتشام عباسی صاحب نے عرض کیا کہ کالج آنے والے طلباء تعلیم کے ساتھ ساتھ جماعتیں کاموں میں توازن کس طرح رکھ سکتے ہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا: آپ پانچ دن کالج جاتے ہیں اور ویک اینڈ پر دو دن فارغ ہوتے ہیں۔ اگر آپ ویک اینڈ پر وقت ادھر ادھر ضائع نہ کریں اور کمپیوٹر وغیرہ پر لغو چیزیں نہ دیکھیں تو آپ وہی وقت جماعت کو دے سکتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ سے کہیں کہ آپ کو کچھ کام دیں پھر ٹارگٹ رکھیں کہ ویک اینڈ پر چار سے پانچ گھنٹہ دینی تعلیم پر دیں۔ دینی علم بڑھائیں یہ آپ کو مستقبل میں جماعت کی خدمت کرنے میں مدد دے گا۔ ساتھ ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ سے کہیں کہ وہ کوئی ڈیوٹی دینا چاہتے ہیں تو دیں۔

• عزیز محمد احمد سید طاہر نے سوال کیا کہ حضور جماعت کی حالیہ ضرورت کے پیش نظر حضور ہمیں ہائی سکول کے بعد کس فیلڈ میں جانے کا مشورہ دیں گے؟

اس پر فرمایا: آپ کی دلچسپی کس میں ہے؟ موصوف نے عرض کیا کہ کمپیوٹر سائنس و ٹیکنالوجی میں دلچسپی ہے۔

اس پر فرمایا کہ ٹھیک ہے مرکز کو بتائیں کہ یہ آپ کی دلچسپی ہے اور آپ تعلیم مکمل کرنے کے بعد باقاعدہ زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو مرکز کی طرف سے رہنمائی مل جائے گی۔ فی الوقت آپ کو جس بھی مضمون میں دلچسپی ہے اس میں دل جمعی سے تعلیم حاصل کریں۔

• عزیزم عبدالودود بھٹی نے سوال کیا کہ ایسے واقفین نو جو اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں اور اپنی فیلڈ میں جاب حاصل نہیں کر سکے، وہ دیگر فیلڈز میں چلے جائیں یا پھر اپنی ہی فیلڈ میں کوشش کرتے رہیں؟

اس پر حضور انورنے فرمایا: بطور وقف نو تعلیم مکمل کرنے کے بعد سب سے پہلے آپ مرکز سے رہنمائی لیں۔ بتائیں کہ آپ نے تعلیم مکمل کر لی ہے اور پوچھیں کہ کیا کرنا چاہیے کیا جماعت چاہتی ہے کہ آپ کوامپلائی کرے یا پھر اپنی فیلڈ میں تجربہ حاصل کریںْ مرکز رہنمائی کرے گا لیکن اس دوران وقت ضائع کرنے کے بجائے کوئی نہ کوئی کام کریں چاہے کوئی چھوٹا ہی کام کیوں نہ ہو۔ اگر آپ کی فیلڈ میں کام نہیں مل رہا اور اس کی بجائے کوئی اور چھوٹا موٹا کام مل رہا ہو تو وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ کام کیا جائے۔ مصروف رہنا بہتر ہے اور مرکز سے بھی رہنمائی لیتے رہیں۔

• واقفین نو کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے کے ساتھ یہ کلاس آٹھ بج کر تین منٹ پر ختم ہوئی۔

• بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ دیر کے لئے اپنے دفتر تشریف لے گئے۔

• ساڑھے آٹھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت الرحمن تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائی۔

نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنا بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَ بَارِکْ لَنَا فِیْ عُمُرِہٖ وَ اَمْرِہٖ

(کمپوزڈ بائی:عائشہ چوہدری۔ جرمنی)

(رپورٹ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 نومبر 2022