• 9 مئی, 2025

تاریخ جلسہ ہائے سالانہ سپین

آنحضرت کی پیشگوئی کے مطابق سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1889ء میں جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی اور جماعت کے قیام کے جلد بعد احباب جماعت کے تقویٰ کا معیار بڑھانے، آخرت پر یقین میں اضافہ کرنے، باہمی محبت و اخوت اور مودت کا رشتہ مضبوط کرنے، ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے والے حقائق و معارف اور ربانی باتوں کے سننے کے لئے جلسہ سالانہ کا آغاز فرمایا تھا۔ اس جلسہ کے شاندار مستقبل کے بارہ میں آپؑ نے فرمایا تھا:
’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آ ملیں گی کیونکہ یہ اُس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ341)

شروع میں یہ جلسہ قادیان میں ہوتا تھا۔ تقسیم ہندوستان کے بعد یہ جلسہ پاکستان میں منعقد ہوتا رہا۔ پھرحالات کی وجہ سے پاکستان سے باہر دوسرے ممالک میں جلسے منعقد ہونے شروع ہو گے۔ مسیح پاک کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ خدائی الفاظ یوں تو ابتداء سے ہی اپنی شان دکھانے لگے تھے تاہم جب اس جلسہ کی شاخیں قادیان سے نکل کر پہلے ربوہ، امریکہ، انگلستان، غانا، نائیجیریا، انڈونیشیا،جرمنی اور پھر دنیا کے بہت سے ممالک پر سایہ فگن ہونے لگیں تو ان الفاظ کے پورا ہونے کی الگ ہی شان نظر آنے لگی۔ ان جلسوں میں دور دراز کے ممالک سے مختلف اقوام کے احباب جماعت کےشامل ہونے کا منظر سیدنا حضرت مسیح موعود ؑکے اِن الفاظ سے خوب واضح ہوتا ہے
’’اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آ ملیں گی‘‘

سپین کے جلسہ کے متعلق بیان کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتاہے کہ سپین اور سپین میں اسلام کی تاریخ کے بارے میں کچھ ذ کر کردیا جائے۔

سپین کا مختصر تعارف

سپین یورپ کا ایک خوبصورت ملک ہے۔ اس کانام ہسپانیہ ہے۔ سرکاری طور پر مملکت ہسپانیہ کاستین، کتالان، باسک سمیت بہت سی قدیم قوموں کا ملک ہے۔ مغرب کی جانب يہ پرتگال، جنوب ميں جبل الطارق اور مراکش اور شمال مشرق ميں انڈورا اور فرانس کے ساتھ ملتا ہے۔ اسپین میں زیادہ تر لوگ مسیحی مذہب کو مانتے ہیں۔ 76 فی صد ہسپانیہ کے باشندے مسیحی ہیں۔ 2 فی صد باشندے دوسرے مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

سپین میں اسلام کی آمد

تاریخ میں عام طور پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ مسلمان سپین یعنی اندلس میں 91 ہجری بمطابق 709 عیسوی کاؤنٹ جولیس کی درخواست پر آئے جس کی بیٹی کے ساتھ راڈرک بادشاہ نے زیادتی کی تھی۔ اور پھر 711ء میں طارق بن زیاد کے ہاتھوں راڈرک کی شکست کے بعد یکے بعد دیگرے قرطبہ ،طلیطلہ اور اشبیلیہ مسلمانوں کے قبضہ میں آتے چلے گئے۔ لیکن ایک اور حقیقت جس کا بعض مؤرخین نے ذکر کیا ہے اسے عموما ً فراموش کر دیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان یہاں پر اسلام کے آغاز میں ہی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد پہنچ گئے تھے اور ان کی یہ ہجرت کسی دنیاوی لالچ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس زمانے میں ابھرنے والے بعض فتنوں سے بچنے کی خاطر تھی۔ بہر حال جب مسلمان اس ملک میں آئے تو انہوں نے یہاں آ کر ایک تو اس ملک کے قوانین کا احترام برقرار رکھا دوسرے یہاں کی رعایا کا ہر طرح سے خیال رکھا اور عدل و انصاف کو قائم کیا۔

مسلمانوں نے یہاں کی زمینوں کو آباد کر کے زراعت کے قابل بنایا اور اجاڑ بستیوں کو آباد کیا۔ بڑی پُر شکوہ اور خوبصورت عمارتیں تعمیر کیں اور دوسری اقوام سے تجارتی تعلقات استوار کئے۔ مہمانوں کے لئے سرائیں اور مریضوں کے لئے بڑے بڑےشفا خانے بنائے جہاں امیر اور غریب کے فرق کے بغیر سب کو بہترین علاج اور دوسری سہولیات مہیا کی جاتیں۔ تعلیم و تدریس کو عام کیا یونانی اور لاطینی کتب کے ترجم ہونے لگے اور ایسی یونیورسٹیاں بنائی گئیں جو مدت تک پورے یورپ کے لئے علم کا مرکز بنی رہیں۔ مسلمانوں کے ان کارناموں کی وجہ سے عوام کے دلوں میں ان کی محبت مسلسل بڑھتی رہی اور سات سو سال تک انہوں نے بڑی شان و شوکت کے ساتھ یہاں پر حکومت کی حتیٰ کہ قرونِ وسطی کے ایک جرمن مؤرخ نے اپنے مخطوط میں قرطبہ کو دنیا کا نگینہ قرار دیا اور لکھا کہ قرطبہ کی صاف اور پکی سڑکیں اس زمانہ میں بھی لندن اور پیرس کی ریتلی اور گرداُڑاتی سڑکوں سے بالکل مختلف تھیں۔

احیاء دین کا آغاز

سپین کی یہ حکومت اگرچہ اس وقت کے مسلمان حکمرانوں کی بد عملیوں اور سازشوں کے نتیجہ میں قائم نہ رہ سکی لیکن خلفائے احمدیت نے سپین میں دین حق کے از سر نو احیاء کے لئے ہمیشہ جو مخلصانہ کوششیں اور درد مندانہ دعائیں کی ہیں وہ ایک دن ضرور رنگ لائیں گی۔

حضرت خلیفۃ ا لمسیح الثالث ؒ جب پہلی بار سپین تشریف لائے تو غرناطہ میں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کی متضرعانہ دعاؤں کو سنا اور ایک عظیم الشان بشارت سے نوازا۔ چنانچہ حضور ؒنے فرمایا۔
’’میں بہت پریشان تھا۔ سات سو سال تک وہاں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے۔ اس وقت کے بعض غلط کار علماء کی سازشوں کے نتیجہ میں وہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔ ۔ ۔ ۔ غرناطہ جاتے ہوئے میرے دل میں آیا کہ ایک وقت وہ تھا کہ یہاں کے در ودیوار سے درود کی آوازیں اُٹھتی تھی۔ آج یہ لوگ گالیاں دے رہے ہیں۔ طبیعت میں بڑا تکدر پیدا ہوا۔ چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ جس حد تک کثرت سے درود پڑھ سکوں گا پڑھوں گا تاکہ کچھ تو کفارہ ہو جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت نے مجھے بتائے بغیر میری زبان کے الفاظ بدل دیئے۔ گھنٹے دو گھنٹے کے بعد اچانک جب میں نے اپنے الفاظ پر غور کیا تو میں اس وقت درود نہیں پڑھ رہا تھا بلکہ اس کی جگہ لا الہ الا انتَ اور لا الہ الا ھو پڑھ رہا تھا یعنی توحید کے کلمات میری زبان سے نکل رہے تھے۔ تب میں نے سوچا کہ اصل تو توحید ہی ہے۔‘‘

الغرض حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ارض اندلس پر ازسرِ نو دین حق کا جھنڈا لہرانے کے لئے یکم فروری 1936ء کو محترم ملک محمد شریف صاحب گجراتی کو قادیان سے سپین روانہ فرما کر جس مشن کا آغاز فرمایا تھا وہ خلفائے احمدیت کی بابرکت دعاؤں اور تاریخ ساز منصوبوں کے ذریعہ محترم مولانا کرم الہی صاحب ظفر جیسے وفا شعار اور فدائی واقفین زندگی کی بے لوث قربانیوں کے جلو میں مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور اللہ کے فضل سے ہر آنے والے دن میں اس میں تقویت اور وسعت پیدا ہو رہی ہے۔
جماعت احمدیہ کو سپین میں تقریبا ً750 سال کے طویل عرصہ کے بعد خلافت ثالثہ کے عہد با سعادت میں پیدرو آباد کے مقام پر بیت الذکر بنانے کی توفیق ملی اور 9 اکتوبر 1980ء کو وہ ساعت سعد آئی جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے اپنے دست مبارک سے نہایت متضرعانہ دعاؤں کے ساتھ اس کا سنگ بنیاد رکھا اور اسے ’’بیت بشارت‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔ پیدرو آباد میڈرڈ سے قرطبہ جانے والی شاہراہ پر قرطبہ سے 34 کلو میٹر پہلے واقع ہے۔ بیت الذکر کے دونوں اطراف سے سڑکیں گذرتی ہیں اور بلند مقام پر واقع ہونے کی وجہ سے بیت کے سفید مینار دور سے دکھائی دیتے ہیں۔ بلاشبہ جماعت احمدیہ کی یہ بیت اس خطہّ میں دین حق کے احیائے نو کے اس عظیم الشان انقلاب کا پیش خیمہ ہے جس کا ظہور خدا تعالیٰ کا منشاء اور اس کی اٹل تقدیر ہے۔

(روزنامہ الفضل 29اپریل 2010 صفحہ5 – 6)

سپین میں جلسہ سالانہ کی تاریخ

سپین میں جلسہ سالانہ کاآغاز 1983ء سے ہوا۔ اس کےبعد سوائے چند سالوں کے ہر سال باقاعدہ جلسہ سالانہ مسجد بشارت میں منعقد کیا جاتا رہا۔ مسجد بشارت میں کام کی وجہ سے چند سال جلسہ مسجد بیت الرحمان والنسیا میں منعقد ہو تا رہا۔ 2019ء میں سپن کا 32 واں جلسہ سالانہ پیدروآباد میں منعقد ہوا۔

2005ء اور 2010ء کا جلسہ سالانہ سپین تاریخی تھا۔ ان جلسوں میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت بنفس نفیس شرکت فرمائی اور آپ نے ان جلسوں سے خطاب بھی فرمایا۔ ان دونوں کی روداد روزنامہ الفضل سے پیش ہے۔

7 اور 8 جنوری 2005ء کو سپین کا جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےشرکت فرمائی اور جلسہ سے خطاب بھی فرمایا۔ اس جلسہ میں بیعت کی تقریب ہوئی۔ تین پاکستانی اور ایک مراکش سے تعلق رکھنے والے دوست نے حضور انور کے دست مبار ک پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔

سپین میں یہ پہلا موقع ہے کہ صدر مملکت نے اپنا پیغام جلسہ کے لئے بھیجا ہے۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ نئے سال کے اس پہلے ہفتہ میں ہی اور پھر حضور انور ایدہ اللہ کے سپین کے پہلے سفر میں اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت کے نظارے نظر آئے۔ الحمد للہ۔

صدر مملکت کا پیغام

صدر مملک نے اپنے پیغام میں کہا:۔ Hon. Jose Luis Rodriguez Zapatero

جماعت احمدیہ کے روحانی رہنما کی سپین آمد کے موقع سے استفادہ کرتے ہوئے میں آپ کو دلی طور پرخوش آمدید کہتاہوں۔ اور بڑے زور سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتاہوں کہ انسانیت کے مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ مختلف مذاہب کے مابین گفتگو ہوتی رہے۔ اور عقائد بھی باربار منظر عام پر لائے جائیں جن سے قوموں کے مابین امن قائم ہو سکے اور انسانی حقوق کو فروغ دیا جائے اور نفرتوں اور جھگڑوں کو ختم کیا جائے جو ہمیں ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں اور مسلسل تباہ کر رہے ہیں۔

مزید کہ خصوصی طور پر یہ کام جو پیدروآباد میں کیا جا رہاہے یہ مختلف مذاہب کے لوگوں کو پر امن طریق پر اکٹھا کرنے کی بہترین مثال ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کون سی جگہیں ہیں جہاں اخلاقی اور مذہبی اقدار پائی جاتی ہیں اور کون وہ لوگ ہیں جو مذہبی معاملات کو خلط ملط کرکے دین کو بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آج کی پُر مسائل دنیا اور مختلف قسم کے عقائد بڑے زور کے ساتھ ہماری توجہ اس طرف مبذول کرواہے ہیں کہ مختلف قوموں، تہذیبوں کو اب اکٹھے مل کر پہلے سے بڑھ کر پیار محبت کی فضا قائم کرنی چاہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس جلسے سے ڈائریکٹر آف ریلئجیس افیئرز نے بھی خطاب فرمایا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ حکومت کا کوئی نمائندہ جلسہ سالانہ سپین میں شامل ہو۔

پیدرو آباد کی مئیر نے بھی اس جلسہ سے خطاب فرمایا اور کہا۔ ’’میرے لئے مئیر کی حیثیت سے اور پیدروآباد کی عوام کے لئے یہ خوشی کی بات ہے کہ آپ ہمارے ملک اور گاؤں میں آئے…… سپین کے پہلے مشنری مکرم مولانا کرم الہی ظفر صاحب اور ان کے اہل وعیال کو خاص اور ہمدردانہ سلام کہنا چاہوں گی کہ انہوں نے ہمیشہ پیدروآباد کے ساتھ اپنا خاص تعلق سمجھااور ان کا جسد خاکی ہمارے گاؤں میں ہے اور ہمیشہ رہے۔

25 سال سے جب سے پیدروآباد میں احمدیہ جماعت کا مشن قائم ہے اور 1889 سے جب بانی جماعت احمدیہ نے دعویٰ کیا تھا میں سمجھتی ہو ں کہ ایک پرامن اور خوش آئندہ مستقبل ہی کی علامت ہے۔ آخر میں میں آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے میری گذارشات کو توجہ سے سنا اور خواہش کرتی ہوں کہ آپ کا بیسواں جلسہ سالانہ آپ کے لئے بہت مفید ہو اور آپ کی خواہشات کے مطابق پورا ہو۔

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے سپین کے اس تاریخی جلسہ سالانہ سے خطاب فرمایا۔ حضور انورنے اپنے خطاب میں سپین میں مسلمان حکومتوں کی عظمت و شوکت ،ان کے عروج اور پھر اس کے زوال کی وجوہات اور ان کے حالات بیان کرتے ہوئے احباب جماعت سپین کو دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دلائی۔ حضور انور نے فرمایا کہ جن لوگوں نے سپین پر سات سو سال عظیم الشان حکومت کی ان کے ساتھ تو خدا تعالیٰ کا وعدہ نہیں تھا۔ انہوں نے جب احکامات الہی سے رو گردانی کی تو ان کی وہ عظیم الشان حکومتیں بھی ختم ہو گئیں جن کی عظمت اور شان و شوکت کی گواہی آج ان کے دور کی مساجد اور محلات دیتے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے ساتھ تو خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آپ نے ہمیشہ کے لئے غالب آنا ہے اور یہ غلبہ ہم نے دلوں کو جیت کر حاصل کرنا ہے پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور پیغامِ حق پہنچانے کے لئے مستعد ہو جائیں۔

حضور انور نے خصوصا قرطبہ شہر کا ذکر کتے ہوئے فرمایا کہ اس شہر اور اس کے ارد گرد آباد لوگوں کو دعوت الی اللہ کریں۔ یہ عربوں کی ہی نسلیں ہیں ان کو پیغامِ حق پہنچائیں اور ان کے آباؤ اجدادکے بارے میں بتائیں کہ وہ مسلمان تھے اور زبردستی عیسائی بنائے گئے۔

حضور انور ایدہ اللہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے مسجد بشارت سپین کے سنگِ بنیاد کے موقع پر ایک ارشاد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس جگہ کا انتخاب نہ میں نے کیا ہے نہ کرم الہی ظفر صاحب نے بلکہ اس جگہ کا انتخاب خدا تعالیٰ نے کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے لئے اس جگہ کو چنا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا پس اب یہ جگہ اور یہ بیت الذکر بہت اہم ہے۔ اور اب ان شاء اللہ اسی جگہ سے سپین میں دینِ حق کا نور پھیلے گا اس جگہ کو اب ہمیشہ کے لئے ایک مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مکرم مولانا کرم الہی ظفر صاحب مرحوم کا ذکرِ خیر بھی فرمایا کہ کس طرح انہوں نے اپنی ساری زندگی سپین میں خدمتِ دین میں گزار دی۔

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا وہ تو شہید ہیں۔ فرمایا ان کا نمونہ آپ کے سامنے موجود ہے اس لئے اب آپ سب دعوتِ الی اللہ کی طرف توجہ دیں اور اس فرض کی کماحقہ ادائیگی کی توفیق پائیں۔

حضور انور ایدہ اللہ کا یہ خطاب جو ایم ٹی اے پر نشر ہو چکا ہے پون گھنٹہ تک جاری رہا۔ آخر پر حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد احباب جماعت نے نعرے بلند کئے اور افریقن احمدی بھائیوں نے اپنے مخصوص انداز میں کلمہ پڑھا۔

آخر پر حضور انور ایدہ اللہ نے آنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور ڈائریکٹر آف ریلیجئس افئیرز اور پیدرو آباد کی مئیر کو تحائف بھی پیش کئے۔

جماعت احمدیہ سپین کے اس بیسویں جلسہ سالانہ میں چار سو اکسٹھ احباب شامل ہوئے۔ گزشتہ سال کے جلسہ سالانہ سے یہ تعداد تین گنا ہے۔ سپین کے علاوہ انگلستان، جرمنی، پرتگال، ہالینڈ، اٹلی اور کینیڈا سے احباب جماعت اس جلسہ میں شمولیت کے لئے تشریف لائے۔

اس کے علاوہ چالیس سپینش مہمان بھی جلسہ میں شامل ہوئے۔ جلسہ سالانہ کی تصاویر کے ساتھ کوریج یہاں کے دو اخباروں، قرطبہ نے اپنی 8 جنوری کی اشاعت میں اور ملک کے ایک نیشنل اخبار نے بھی اپنی 8 جنوری 2005ء کی اشاعت میں کی۔ ان اخبارات نے حضور انور کی سپین میں آمد کا ذکر کیا۔ اور جلسہ کی خبریں دیں۔ اور لکھا کہ یہ پروگرام ایم ٹی اے کے ذریعہ ساری دنیا میں نشر ہو رہا ہے۔ ان اخبارات نے جماعت احمدیہ کی تعریف کی اور لکھا کہ یہ جماعت امن پسند ہے اور ہر قسم کے فتنہ و فساد کے خلاف ہے۔

(روزنامہ الفضل 19 جنوری 2005 صفحہ1-2)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا دوسرا دورۂ سپین

30 مارچ 2010ء وہ مبارک دن تھا جب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے سر زمین سپین کو دوسری بار اپنے وجود سے برکت بخشی۔ جماعت احمدیہ سپین نے اپنے پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ کی آمد سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا 25 واں جلسہ سالانہ 2اور 3 اپریل 2010ء کو ’’بیت بشارت‘‘ میں منعقد کرنے کی توفیق پائی۔

2 اپریل 2010ء کو جمعۃ المبارک کے خطبہ سے جماعت احمدیہ سپین کے سالانہ جلسہ کا آغاز ہوا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے سے قبل بیت بشارت کے احاطہ میں تشریف لے جا کر دوپہر دو بجے لوائے احمدیت لہرایا جبکہ سپین کا جھنڈا مکرم مبارک احمد خان صاحب امیر جماعت سپین نے لہرایا۔ اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کروائی۔ اور پھر 2 بج کر 5 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ جلسہ گاہ تشریف لے گئے جہاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ کے ساتھ جلسہ سالانہ کا افتتاح فرمایا۔

جلسہ سالانہ سپین 2010ءکا اختتامی اجلاس

3 اپریل 2010ء شام 5 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز جلسہ سالانہ سپین کے اختتامی اجلاس کے لئے جلسہ گاہ تشریف لائے۔ تلاوت اور نظم کے بعد حضور انور پُر نور جلسہ سالانہ سپین کے اختتامی خطاب کے لئے ڈائس پر تشریف لائےتو احباب نے فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر نعرے لگانے شروع کئےاس پر حضور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ جتنے نعرے لگانے ہیں ابھی لگا لیں کیونکہ آج میرا موضوع ایسا ہے کہ جس میں نعروں کی ضرورت نہیں ہو گی۔

اختتامی خطاب حضور انور ایدہ اللہ

پھر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تشہد، تعوذ اور سورہ الفاتحہ کے بعد فرمایا کہ وہ شخص یا قوم جس نے ترقی کی منازل طے کرنی ہوں اس کے سامنے ایک مطمع نظر ہوتا ہے۔ مومن کا کام صرف اپنا فائدہ دیکھنا نہیں بلکہ دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہے اور فائدہ تبھی پہنچایا جا سکتا ہے جب اپنے پاس وہ سامان ہوں جو دوسروں کے لئے فائدہ مند ہوں۔ فرمایا وہ اعلیٰ ترین خزانہ جس سے دوسروں کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے وہ نیکی کی باتیں اور اعلیٰ اخلاق ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ہر ایک شخص کا کوئی مطمح نظر ہوتا ہے جسے وہ اپنے پر مسلط کرتا ہے سو تمہارا مطمح نظر نیکیوں میں بڑھنا ہونا چایئے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتےہیں کہ خیر او ربھلائی کی ہر ایک قسم میں سبقت کرو اور زور مار کر سب سے آگے بڑھو۔ حضور انور نے فرمایا کہ صرف جماعت میں رسمی طور پر شامل ہو جانے سے فیض نہیں پہنچیں گے بلکہ ہر فرد کو یہ فیض حاصل کرنے کے لئے فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ پر توجہ دینا ہو گی۔

فرمایا !
کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنے کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’تو کہہ دے کہ اے لوگواگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔‘‘

اسوہٴ رسول ﷺ میں سے تحمل و برداشت کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ایک بدوی نے مال لینے کے لئے آپ کی چادر کو اس قدر کھینچا کہ آپ کی گردن پر نشان پڑ گیا لیکن آپ نے اسے سزا دینے کی بجائے مزید عطا فرمایا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس زمانہ میں تحمل کی اعلیٰ ترین مثال ہمیں حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں نظر آتی ہے۔ فرمایا کہ ایک شخص آپ کو آپ کے رفقاء کے سامنے گالیاں دیتا چلا جاتا ہے لیکن حضرت مسیح موعودؑ ہیں کہ نہ خود اسے کچھ کہتے ہیں نہ کسی کو کہنے دیتے ہیں۔ آخر وہ خود ہی تھک کر چلا جاتا ہے۔

فرمایا : یورپ والوں نے پچھلی کچھ دہائیوں سے عورتوں کو بعض حقوق دیے ہیں اور ان حقوق کے نام پر اعتراض کرتے ہیں۔ حالانکہ آنحضرت ﷺ نے چودہ سو سال پہلے عورت کے حقوق قائم فرمائے۔ آپ نے اسے ورثہ میں حق دلایا۔ اسی طرح عورت کے مال کو اس کی ملکیت قرار دیا اور خاوند کو اس پر کسی قسم کے تصرف سے منع فرمایا۔ آپ ﷺ کو عورتوں کے جذبات کا اس قدر احساس تھا کہ ایک دفعہ فرمایا کہ نماز کے دوران بچہ کے رونے کی آواز پر میں نماز جلد ختم کر دیتا ہوں کہ اس کے رونے کی وجہ سے اس بچے کی ماں کو تکلیف نہ ہو۔ آپ ﷺ نے مسلمانوں کو جو آخری نصیحت کی اس میں فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ ہمیشہ حسنِ سلوک کرتے رہو۔

فرمایا حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ ’’اگر کوئی گناہ کی زہر کھا چکا ہے تو محبت اور اطاعت اور پیروی کے تریاق سے زہر کا اثر جاتا رہتا ہے اور جس طرح بذریعہ دوا مرض سے ایک انسان پاک ہو سکتا ہے ایسا ہی ایک شخص گناہ سے پاک ہو جاتا ہے اور جس طرح نور ظلمت کو دور کرتا ہے اور تریاق زہر کو زائل کرتا ہے اور آگ جلاتی ہے ایسا ہی سچی اطاعت اور محبت کا اثر ہوتا ہے‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم آنحضرت ﷺ کے اسوہ کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنےکی کو شش کرنے والے بنیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں۔

آخر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ سب شاملین جلسہ کو اپنے خاص فضل اور رحم سے نوازتا رہے۔ اس جلسہ کی برکات سب پر ہمیشہ ظاہر ہوتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور امان میں سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹیں اور ہمیشہ خدا تعالیٰ سب کا حامی و ناصر رہے آمین۔

(روزنامہ الفضل 30اپریل 2010 صفحہ4)

جلسہ کے اختتام پر حضور انور ایدہ اللہ نے دعا کروائی۔

2019 میں سپین کا جلسہ 32وان جلسہ سالانہ منعقد ہوا۔ کورنا وائرس کی وجہ سے اس کےبعد سے اب تک جلسہ نہیں ہوسکا۔ اللہ تعالیٰ ساری دنیا کے حالات بہتر بنائے تاکہ پھر اسی طرح سے ہر ملک میں جلسہ کی رونقیں بحال ہو سکیں۔

(کلیم احمد کاشمیری ۔ نمائندہ الفضل آن لائن سپین)

پچھلا پڑھیں

خلافت نور ِ رب العالمیں ہے

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ