مسجد نبویؐ
مقام قباء میں چودہ دن قیام فرمانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے۔ آپؐ اونٹنی پر سوارتھے جبکہ باقی لوگ پیدل آپؐ کے ساتھ چل رہے تھے۔ آپؐ کی اونٹنی اس جگہ آ کر بیٹھ گئی جہاں اب مسجد نبوی ہے۔ وہ جگہ بنونجار کے دو یتیم بچوں سہیل اور سہل کی تھی جو اسعد بن زرارہ کی پرورش میں تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئی تو آپؐ نے فرمایا خدا کی منشاء میں یہی ہماری قیام گاہ ہے۔ پھر آپؐ نے ان بچوں کو بلایا اور ان سے زمین خریدنے کا ذکر کیا اور قیمت پوچھی۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!ہم یہ زمین ہبہ کرتے ہیں اور اللہ سے اس کا اجر چاہتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا نہیں ہم اسے خریدیں گے پھر وہ جگہ خرید لی گئی اور حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس کی قیمت ادا کی۔ جو سونے کے دس دینار تھی۔ اس جگہ کچھ قبریں تھیں وہاں سے ہڈیاں نکال کر دوسری جگہ دفن کی گئی اور قبروں اور گڑھوں کو برابر کر دیا گیا اور کچھ کھجور اور غرقد کے درخت تھے انہیں کاٹ دیا گیا۔ پھر اس جگہ مسجد کی تعمیر شروع ہو گئی۔
وفاء الوفا میں لکھاہے کہ جبریل علیہ السلام نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا اے محمد! اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ آپ اس کا گھر بنائیں اور اس کی بنیاد مٹی اور پتھرسے اٹھائیں جب آپ نے اسے بنانے کا ارادہ کیا تو آپ نے پتھر لانے کا ارشاد فرمایا۔ آپؐ نے ایک پتھر پکڑا اور اسے بنیاد میں رکھا۔ پھر آپ کے ارشاد پر حضرت ابوبکرؓ پتھر لائے اور آپؐ کے پتھر کے ساتھ رکھا۔ پھر حضرت عمرؓ ، پھر حضرت عثمانؓ اور پھرحضرت علیؓ نے بالترتیب اپنے اپنے پتھر رکھے۔
(وفا الوفقا با خبار دارا لمصطفی تالیف نور الدین علی بن احمد السہودی دارالنفائس الریاض 332۔3333)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھنے کے بعد صحابہؓ سے مل کر مسجد کی تعمیر شروع کر دی۔ اس کے معمار بھی صحابہؓ تھے اور مزدور بھی۔ آرکیٹیکٹ بھی صحابہ تھے اور نقشہ نویس بھی، دوسرے صحابہ ایک ایک اینٹ لاتے اور حضرت عمارؓ دو دو اینٹیں لاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی برابر صحابہؓ کے ساتھ اس کام میں شریک تھے۔ آپؐ کا بدن مبارک مٹی سے اٹ جاتا۔ مگر کام جاری رہتا۔ صحابہؓ اس وقار عمل کے ساتھ ساتھ حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاریؓ کا یہ شعر پڑھتے۔؎
هَذَا الحِمَالُ لاَ حِمَالَ خَيْبَرْ
هَذَا أَبَرُّ رَبَّنَا وَاَ طْھَرُ
یہ بوجھ خیبر کے تجارتی مال کا بوجھ نہیں ہے جو جانور وں پر لاد کر آیاکرتا ہے۔ بلکہ اے ہمارے رب! یہ بوجھ تقویٰ اور طہارت کا بوجھ ہے جو ہم تیری رضا کے لئے اٹھاتے ہیں اور کبھی یہ شعر پڑھتے۔؎
اَللَّهُمَّ إِنَّ الْأَجْرَ أَجْرُ الْآخِرَهْ
فَارْحَمْ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ
اےاللہ! اصل اجر تو صرف آخرت کا اجر ہے پس تو اپنے فضل سے انصار اور مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما۔
جب صحابہؓ یہ اشعار پڑھتے تو بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہؓ کے ہم آواز ہو کر یہ شعر پڑھتے۔
(بخاری کتاب مناقب الانصار باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ الی لمدینہ 3906)
مسجد کی عمارت پتھروں کی سلوں اور اینٹوں کی تھی اور مسجد کے اندر سہارے کےلئے کھجور کے ستون تھے اور چھت کھجور کے تنے اور پتوں کی تھی۔ جب تک منبر تعمیر نہیں ہوا تھا حضورؐ انہیں تنوں میں سے کسی ایک ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے اور صحابہؓ کو خطاب فرماتے۔ مسجد کا فرش کچا تھا۔ جب بارش ہوتی تو چھت کے ٹپکنے سے کیچڑ ہو جاتا تھا۔ مسجد کی بلندی 10 فٹ اور طول ایک سو پانچ فٹ اور عرض نوے فٹ کے قریب تھا۔ بعد میں توسیع کر دی گئی تھی۔
مسجد کے ایک گوشے میں ایک چبوترہ بنا دیا گیا تھا جو اصحاب صفہ کے لئے تھا۔ یعنی ان غریب صحابہؓ کے لئے جن کے گھر نہ تھے۔ وہ یہیں رہتے تھے۔
اس زمانہ میں کوئی پبلک عمارت ایسی نہ تھی جہاں قومی امو ر سر انجام دئیے جاتے اس لئے ایوان حکومت کا کام یہی عمارت دیتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہیں مجالس لگاتے۔ یہیں مجالس شوریٰ کا انعقاد ہوتا۔ مقدمات کا فیصلہ بھی یہیں ہوتا اور ضرورت کے مطابق جنگی قیدیوں کو بھی یہیں ٹھہرایا جاتا اور بعض قاتلوں کو مسجد نبوی کے ستونوں کے ساتھ ہی باندھا جاتا تھا۔
مسجد نبوی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے حجرے بھی تعمیر کئے گئے۔ جب تک تعمیر ہو رہی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت ایوب انصاریؓ کے گھر میں رہائش رکھی۔ حجرات کی تکمیل ہونے کے بعد آپؐ وہاں منتقل ہو گئے۔ بعدازاں جب آپؐ کی ازواج مطہرات وفات پا گئیں تو ان حجرات کو مسجد نبوی کا حصہ بنا دیا گیا۔
سر ولیم میو راس مسجد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’گو یہ مسجد سامان تعمیر کے لحاظ سے نہایت معمولی اور سادہ تھی۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مسجد اسلامی تاریخ میں ایک خاص شان رکھتی ہے۔رسول خدا اور ان کے اصحاب اسی مسجد میں اپنے وقت کا بیشتر حصہ گزارتے تھے۔ یہیں اسلامی نماز کا باقاعدہ باجماعت صورت میں آغاز ہوا۔ یہیں تمام مسلمان جمعہ کے دن خدا کی تازہ وحی کو سننے کے لئے موٴدبانہ اور مرعوب حالت میں جمع ہوتے تھے۔ یہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فتوحات کی تجاویز پختہ کیا کرتے تھے۔ یہی وہ ایوان تھا جہاں مفتوح اور تائب قبائل کے وفود ان کے سامنے پیش ہوتے تھے۔ یہی وہ دربار تھا جہاں سے وہ شاہی احکام جاری کئے جاتے تھے۔جو عرب کے دور دراز کونوں تک باغیوں کو خوف سے لرزا دیتے تھے اور بالآخر اسی مسجد کے پاس اپنی بیوی عائشہؓ کے حجرے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان دی اور اسی جگہ اپنے دو خلیفوں کے پہلو بہ پہلو دفن ہیں۔
(لائف آف محمدؐ مصنفہ سر ولیم میور)
منبر رسولؐ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باقاعدہ منبر بننےسے پہلے کھجور کے تنے کا سہارا دوران خطبہ لے لیا کرتے تھے۔ لیکن جب عمر مبارک زیادہ ہو گئی اور جسم بھی بھاری ہو گیا اور آپ تھکان محسوس کرنے گلے تو منبر بنانے کی تجویز ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک زیادہ ہو گئی۔ جسد اطہر ضعف محسوس کرنے لگا تو حضرت تمیم داریؓ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! اگر آپؐ ارشاد فرمائیں تو میں آپؐ کے لئے منبر تیار کروا دوں۔ جس سے آپ استراحت محسوس فرمائیں! آپؐ نے فرمایا ہاں ( بنوا دو) چنانچہ انہوں نے آپ کے لئے دو زینوں کا منبر تیار کروا دیا۔
(ابو داؤدکتاب الجمعہ اتخاذ المنبر)
حضرت ابی بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد پر چھت ڈالے جانے سے پہلے کھجور کے خشک تنے کے پاس نماز ادا فرماتے اور اسی تنے کے پاس خطبہ بھی ارشاد فرماتے تھے۔ آپؐ کے صحابہؓ میں ایک صحابی نے عرض کیا۔ کیا ہم آپؐ کے لئے ایک ایسی چیز بنوا دیں جس پر کھڑے ہو کر آپ خطبہ جمعہ دیں تاکہ لوگ آپؐ کا دیدار بھی کر سکیں اور خطبہ بھی آسانی سے سن سکیں۔آپؐ نے فرمایا۔ ٹھیک ہے چنانچہ انہوں نے آپؐ کے لئے تین زینوں والا منبر تیار کروا یا۔
(ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوٰۃ باب ماجاء فی ابدء شان المنبر)
حضرت سہل بن سعد الساعد یؓ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم! مجھے معلوم ہے کہ منبر کس درخت کی لکڑی کا ہے اور بخدا پہلے ہی دن جب اسے رکھا گیا اور مجھے اس دن کا بھی علم ہے جبکہ پہلی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر جلوہ افروز ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی ایک عورت کو بلوایا اور فرمایا کہ تم اپنی بڑھئی غلام سے کہو کہ میرے لئے لکڑ ی کا منبر بنا دے کہ میں اس پر بیٹھ کر لوگوں سے خطاب کروں۔ چنانچہ اس عورت نے اپنے غلام کو منبر بنانے کا حکم دیا۔ وہ غابہ سے جھاؤ کے درخت کی لکڑی لایا اور اس سے منبر تیار کر کے لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر وہ منبر وہاں رکھ دیا گیا جہاں آج بھی موجود ہے۔
(صحیح بخاری کتاب الجمعہ باب الخطبۃ علی المنبر)
حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس کھجور کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے جب منبر آ گیا اور حضورؐ نے اس سے ٹیک لگائی تو وہ تنا دس ماہ کی گابھن اونٹنی کی طرح آواز نکالنے لگا یہاں تک کہ حضورؐ منبر سے اتر کر اس کے پاس آئے اور اپنا دست شفقت اس پر پھیرا تو وہ خاموش ہوا۔
( بخاری کتاب الجمعہ 918)
بخاری کتاب المناقب میں ہے وہ تنا بچے کی طرح رونے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اتر کر اس کے پاس گئے۔ اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ تو وہ تنا بچے کی طرح سسکیاں بھرتا ہوا خاموش ہو گیا۔
(بخاری کتاب المناقب حدیث 3584)
7ھ میں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اہل خیبر پر فتح عطا فرمائی اور آپ غنائم اور مال ومنال کے ساتھ واپس مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے مسجد نبوی کی توسیع کا ارادہ فرمایا۔ کیونکہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر مسجد میں نمازیوں کی گنجائش کم تھی اور کھجور کے ستون اور چھت بھی بوسیدہ ہو چکی تھی اس لئے تجدید ناگزیر تھی۔ مسجد نبوی سے متصل ایک انصاری شخص کا مکان تھا آپ نے اسے ترغیب دلائی کہ وہ مسجد کے لئے دے دے فرمایا اگر تم اپنا مکان مسجد کے لئے دو گے تو اللہ تعالیٰ جنت میں تمہیں محل عطا فرمائے گا۔ لیکن وہ باوجوہ ایسا نہ کر سکا۔ پھر حضورؐ نے اعلان فرمایا کہ جو شخص اس آدمی سے جگہ خرید کر مسجد کے لئے دے دے اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا۔ جب یہ آواز حضرت عثمانؓ نے سنی فوراً وہ جگہ خرید کر مسجد کے نام کر دی۔ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ تمہیں اس کا اجر اللہ تعالیٰ عطا فرمائے گا۔ سنن ترمذی میں ہےکہ نمازیوں کے لئے مسجد میں جگہ کی کمی کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو آدمی فلاں خاندان کا قطعہ اراضی خرید کر مسجد کو کشاد ہ کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے جنت میں اس سے بہتر گھر عطا فرمائے گا۔ چنانچہ حضرت عثمانؓ نے اسے اپنے ذاتی مال میں سے خرید کر مسجد میں شامل کر دیا۔
(ترمذی کتاب المناقب باب فی مناقب عثمانؓ 3712)
اس کے بعد سے آج تک ضرورت کے مطابق توسیع ہوتی چلی جا رہی ہے۔ مگر جو بھی جگہ حاصل کی گئی بلاجبرو اکراہ اور بغیر حقوق العباد کی پامالی کے، سیدنا حضرت ابو بکرؓ کے دور میں بھی۔سیدنا حضرت عمرؓ کے دور میں بھی۔ بعدازاں حضرت عثمانؓ نے مسجد میں عظیم الشان اضافہ کیا۔ دیواریں منقش پتھروں اور کچ سے بنوائیں۔ ستون منقش پتھروں کے اور چھت ساگوان کی لکڑی کی بنوائی۔ جب حضرت عمرؓ مسجد کو وسیع کرنے لگے تو چونکہ حضرت عباسؓ کا مکان مسجد سے متصل تھا اس لئے آپ نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ میں امہات الموٴ منین کے مکانات کو منہدم کر نے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ البتہ آپ کے مکان کے بارہ میں تین تجاویز ہیں جو چاہیں قبول کر لیں۔
- مکان میرے ہاتھ فروخت کر دیں منہ مانگی قیمت دی جائے گی۔
- مکان کے عوض مدینہ میں جو جگہ پسند کریں وہ آپ کو دے دی جائے گی۔
- اپنا مکان مسلمانوں کے لئے وقف کر دیں۔

حضرت عباسؓ نے حضرت امیر المومنین کی خواہش کو مقدم جانا اور بر ضاء رغبت اپنا مکان مسجد کی توسیع کے لئے دے دیا۔ اس کے علاوہ حضرت عمرؓ نے حضرت جعفرؓ کے مکان کا نصف بھی خرید کر مسجد میں شامل کر دیا۔ 88ھ/706ء میں خلیفہ ولید بن عبدالملک نے مدینہ کے امیر عمر بن عبدالعزیز کو مسجد کی توسیع کا حکم دیا۔ چنانچہ اس دور میں مسجد کے ساتھ تمام ازواج مطہرات کے حجرات اور دیگر مکان مسجد کا حصہ بنا دئیے گئے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے مسجد کی بنیادیں پتھروں کی بنوائیں۔ دیواریں تراشیدہ منقش پتھروں کی چونے سے کھڑی کیں ستون پتھر کے بنوائے۔ جن میں لوہا اور سیسہ بھرا ہوا تھا۔ دیواروں پر جواہرات اور سنگ مر مر کے ٹکڑوں سے جاذب نظر اور دلربا میناکاری کرائی۔ چھت ساگوان کی بنوا کر سونے سے نقش و نگار کروایا۔ ولید بن عبدالملک کی تعمیر سے پہلے مسجد کے مینار بنانے کا طریقہ رائج نہیں تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے وقت میں مسجد کے چاروں کونوں میں مینار بنائےگئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آج تک مختلف ادوار میں مسجد نبوی توسیع ہوتی رہی ہے۔ مدینہ منورہ میں مسلم آبادی میں اضافے کے باوجود مختلف جہتوں سے اس کی توسیع کے دوران اس کی حقیقی بنیاد کو محفوظ رکھنے کے لئے اس مسجد کے رقبے کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ سعودی عرب میں 1950ء میں شاہ عبدالعزیز نے اسی مسجد کو وسعت دی تھی۔ 1973ء میں شاہ فیصل کے دور میں توسیع ہوئی۔
2012ء میں شا ہ عبداللہ نے مسجد کو وسعت دینے کا منصوبہ شروع کیا اور اب شاہ عبداللہ کےبعد شاہ سلیمان نے توسیعی منصوبہ و دیگرکام دوبارہ کرنے پر زور دیا ہے۔ تاکہ حرمین شریفین کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکے۔ توقع ہےکہ توسیعی منصوبہ کے بعد 10 لاکھ سے زائد عبادت گزاروں کے لئے جگہ میسر ہو گی۔
(یہ معلومات بی بی سی اردو نے پہلی مرتبہ 11 نومبر 2019ء میں شائع کیں وہاں سے استفادہ کیا گیا ہے۔)
مسجد نبوی کے فضائل
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مسجد حرام کے علاوہ باقی ہر مسجد میں نماز پڑنے کی نسبت میری مسجد میں نماز ادا کرنا ہزار نمازوں سے بہتر ہے۔
(بخاری کتاب افضل الصلوٰۃ باب فضل الصلوٰۃ مکۃ و المدینہ)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ گھر میں نماز پڑھنے والے کو ایک نماز کا ثواب ملتا ہے اور محلہ اور قبیلہ کی نماز پڑھنے والے کو پچیس گنا زیاہ ثواب ملتا ہے اور جامع مسجد میں نماز پڑھنے والے کو پانچ سو نمازوں کا ثواب ملتا ہے اور مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے والے کو پچاس ہزار نمازوں کا اجر ملتا ہے اور میری مسجد میں نماز پڑھنے کو پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ملتا ہے اور مسجد حرام میں نماز ادا کرنے والے کو ایک لاکھ نماز کا ثواب ملتا ہے۔
(ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ ماجاء فی الصلوٰۃ فی المسجد الجامع)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِنِّیْ اٰخِرُ الْاَنْبِیَآءِ، میں انبیاء میں سے آخری نبی ہوں۔ وَإِنِّی مَسْجِدَهُ آخِرُ الْمَسَاجِدِ اور میری مسجد مساجد میں سے آخری مسجد ہے۔
(مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوٰۃ مسجدی مکۃ و المدینہ)
اور سنن نسائی کتاب المساجد میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں بھی الفاظ ہیں۔
فَاِنِّیْ آخِرُ الْاَنْبِیَاءِ، وَاِنَّہٗ مَسْجِدِیْ آخِرُ الْمَسَاجِدِ
حضرت ابوہریرہ ؓبیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز ادا کرنا کسی بھی دوسری مسجد کی نسبت ہزار گنا بہتر ہے۔ سوائے مسجد حرام کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر الانبیاء ہیں اور آپ کی مسجد آخر المساجد ہے۔
(سنن نسائی کتاب المساجد باب فضل مسجد النبیؐ والصلوٰۃ فیہ)
کنز العمال میں حضرت جابر بن عبداللہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
میری اس مسجد میں ایک نماز دوسری مسجدوں کی نسبت ہزار درجہ فضیلت رکھتی ہے سوائے مسجد حرام کے اور میری مسجد میں ایک جمعہ دوسری مساجد کے ہزار جمعہ سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے اور میری اس مسجد میں ایک رمضان دوسری مساجد میں ایک ہزار رمضان سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے۔
(کنزالعمال جلد12 صفحہ236)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی کسی بھی مسجد کے مقابلہ میں مسجد نبوی میں نماز ادا کرنا ہزار گنا بلکہ پچاس ہزار گنا زیادہ ثواب کا موجب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم المرتب اور مقدس مسجد کو یہ عظمت اورر فعت کا منفرد مقام حاصل ہے کہ آپؐ کے گھر اور آپؐ کے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
حضرت عبداللہ بن زید المازنی، حضرت عبداللہ بن زید انصاری اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَا بَيْنَ بَيْتي ومِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِن رِيَاضِ الجَنَّةِ
کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
(مسلم کتاب الحج باب فضل مابین قبرہ و منبرہ)
نجران کے عیسائی وفد کی آمد اور مسجد نبوی میں عبادت
نجران سے ساٹھ افراد پر مشتمل نصارٰی کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ آیا اُن میں اُن کے چودہ بڑے بڑے علماء بھی تھے جن کی قدرومنزلت اور احترام روم کے بادشاہ بھی کرتے تھے انہوں نے ان نجرانیوں کے لئے بہت سارے گرجے تعمیر کروائے تھے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد (مسجد نبویؐ) میں آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے گفتگو فرمائی۔ توحید تثلیث وغیرہ کے مسائل زیر بحث آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ کی خدائی کا رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفت ’’الحیئ‘‘ کو پیش فرمایا۔
آپ نے فرمایا الم اللّٰہ لا الہ الا ھو۔ لیس معہ غیرہ شریک فی امرہ کوئی دوسرا اس کے معاملات میں شریک نہیں ہے۔ ’’الحی القیوم‘‘ الحی الذی لا یموت و قد مات عیسیٰ و صلیب فی قولھم۔ اللہ ’’الحی‘‘ زندہ ہے نہیں مرتا اور عیسیٰ تو مر چکے اور ان کے قول کے مطابق صلیب دئیے گئے۔
(ابن ہشام جلد2 صفحہ225)
اور علامہ ابوالحسن علی بن احمد الواحدی النشیا پوری لکھتے ہیں۔ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان عیسائیوں کو فرمایا۔ الستم تعلمون ان ربنا حیی لا یموت و ان عیسیٰ اتی علیہ الفناء۔
کیا تمہارے علم میں نہیں، تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے مرتا نہیں اور عیسیٰ پر فنا آ چکی ہے انہوں نے کہا ہمیں یہ بات تسلیم ہے۔
حیرت انگیز بات ہے کہ اسی دوران جب ان کی نماز کا وقت آیا تو اٹھ کر جانے لگے تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مسیحی وفد کو اپنی مسجد جسے ’’آخر المساجد‘‘ (مسلم) کا لقب دیا گیا ہے میں نے نماز پڑھنے کی اجازت عطا فرمائی اور انہوں نے اس مسجد یعنی مسجد نبوی میں نماز ادا کی۔
ثمامہ بن اثال بنو حنیفہ کے سرداروں میں سے ایک سردار تھا جس کے ہاتھ بہت سے مسلمانوں کے خون سے رنگین تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کو نجد کی طرف روانہ کیا تو یہ ان کے ہاتھ آ گیا۔ اسے مدینہ لایا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور پوچھا سناؤکیا حال ہے؟ اور تیرے پاس اپنے جرائم کا کیا جواب ہے؟ اس نے کہا ٹھیک ہوں اگر آپ مجھے قتل کر دیں ایک خونی اور قاتل کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان فرما کر چھوڑ دیں تو ایک شکر گزار اور قدر دان شخص کو چھوڑیں گے اور اگر مال کی طلب ہے تو جتنا مال آپ طلب کریں گے دیا جائے گا۔ اس کی یہ بات سن کر حضورؐ تشریف لے گئے اگلے دن پھر اس کے پاس آئے اس کا حال احوال پوچھا اور کہا کہ تیرے پاس تیرے جرائم کیا جواب ہے؟ اس نے کہا وہی جواب ہے جو میں آپ سے پہلے عرض کر چکا ہوں اگر آپ احسان فرمائیں گے تو ایک شاکر اور قدر دان پر احسان فرمائیں گے حضورؐ تشریف لے گئے اور تیسرے دن پھر حضورؐ اس کے پاس تشریف لائے اور وہی سوال کیا کہ تیرےپاس تیرے جرائم کا کیا جواب ہے؟ اس نے کہا وہی جواب ہے جو میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ثمامہ کو چھوڑ دو۔ اسے چھوڑ دیا گیا تو وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے جھنڈ میں گیا اور نہایا اور پھر وہ مسجد آیا اور کہنے لگا۔ اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلَ اللّٰہِ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں محمد اللہ کے رسول ہیں اور پھر کہا یا رسول اللہ!اللہ کی قسم زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرہ سے زیادہ مبغوض نہ تھا لیکن اب آپ کے چہرہ سے زیادہ محبوب اور پیارا چہرہ کوئی نہیں۔ اللہ کی قسم! آپ کے دین سے بڑھ کر مجھے کسی دین سے بغض نہ تھا مگر اب آپ کے دین سے بڑھ کر مجھے کسی دین سے محبت نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! آپ کے اس شہر سے بڑھ کر مجھے کسی شہر سے نفرت نہ تھی مگر اب آپ کے شہر سے بڑھ کر مجھے کسی شہرسے محبت نہیں ہے۔
(بخاری کتاب المغازی باب وفد بنی حنیفہ 4372)
ان دونوں واقعات میں سبق ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں اور پھر دوسرے کلمہ پڑھنے والوں کی مساجدکو گراتے اور ان کے میناروں کو توڑتے اور ان کو ویران کرنے کے درپے ہیں۔
(عبدالقدیر قمر)