• 18 مئی, 2025

مسجد اقصیٰ و مسجد مبارک قادیان

مسجد اقصٰی

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے والد صاحب نے سال(1875ء) میں مسجد اقصی جیسی عظیم الشان جامع مسجد کی بنیاد رکھ دی۔عمر بھر کی ناکامیوں کی وجہ سے چونکہ آپ کے والد ماجد کو مسلسل اورپیہم صدمات سے دو چار ہونا پڑاتھا اور دل زخم رسیدہ ہو چکا تھا۔ اس لئے زندگی کے آخری دنوں میں انہوں نےمافات کی تلافی کے لئے قادیان میں ایک جامع مسجد تعمیر کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیا۔اس سے پہلے انہوںنے اس مسجد کے حصول کی از حدکوشش کی جسے رام گڑھیہ سکھوں نے بالجبر قبضہ کر کے دھرم سالہ بنا دیا تھا۔ لیکن جب خود مقامی مسلمانوں کی مخالفانہ شہادتوں نے اس کی بازیافتگی کا رستہ مسدود کر دیا تو آپ نے اس کے نزدیک ہی قصبہ کے وسط میں ایک او رجگہ منتخب کی جو اس وقت سکھ کارداروں کی حویلی تھی۔لیکن اس حویلی کی نیلامی کا مرحلہ آیا تو اہل قریہ نے ایک بار پھر آپ کو زمین سے محروم کرنے کی کوشش کی اور مقابل پر قیمت میں ڈٹ کر مقابلہ کیا۔لیکن آپ نے خدا تعالیٰ کے حضور یہ پختہ عہد کر رکھا تھا کہ اگر باقی جائیداد بھی فروخت کرنا پڑے تو میں یہ زمین لے کرمسجد ضرور بناؤں گا۔اس لئے آپ نے مالیات کے سبھی پہلو نظر انداز کرکے چند روپوں کی مالیت کا قطعہ 700روپے کی قیمت میں خرید لیا اور اخلاص و ندامت بھرے دل کے ساتھ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔

یہ جامع مسجد جو اب مسجد اقصیٰ سے موسوم ہے تخمیناً 1875ء کے آخری دنوں سے تعمیر ہونی شروع ہوئی اور جون 1876ء کو پایۂ تکمیل تک پہنچی اور اس کے پہلے خادم اور امام میاں جان محمد صاحب مرحوم مقرر ہوئے۔

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ125-126)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’ایک مرتبہ حضرت والد صاحب نے یہ خواب بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ بڑی شان کے ساتھ میرے مکان کی طرف چلے آتے ہیں جیسا کہ ایک عظیم الشان بادشاہ آتا ہے تو میں اُس وقت آپ کی طرف پیشوائی کے لئے دوڑا جب قریب پہنچا تو میں نے سوچا کہ کچھ نذر پیش کرنی چاہئے۔ یہ کہہ کر جیب میں ہاتھ ڈالا جس میں صرف ایک روپیہ تھا اور جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بھی کھوٹا ہے۔ یہ دیکھ کر میں چشم پُرآب ہوگیا اور پھر آنکھ کھل گئی۔‘‘ اور پھر آپ ہی تعبیر فرمانے لگے کہ دنیاداری کے ساتھ خدا اور رسول کی محبت ایک کھوٹے روپیہ کی طرح ہے اور فرمایاکرتے تھے کہ میری طرح میرے والد صاحب کا بھی آخر حصہ زندگی کا مصیبت اور غم اور حزن میں ہی گذرا اور جہاں ہاتھ ڈالا آخر ناکامی تھی اور اپنے والد صاحب یعنی میرے پردادا صاحب کا ایک شعر بھی سنایا کرتے تھے جس کا ایک مصرعہ راقم کو بھول گیا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ؎

’’جب تدبیر کرتا ہوں تو پھر تقدیر ہنستی ہے۔‘‘

اور یہ غم اور درد ان کا پیرانہ سالی میںبہت بڑھ گیا تھا۔ اسی خیال سے قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والد صاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی کہ جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے اور وصیّت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو تا خدائے عزّوجلّ کا نام میرے کان میں پڑتا رہے کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو۔ چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت بہمہ وجوہ مکمل ہوگئی اور شاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہوگئے اور اس مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہوکر نشان کیا تھا دفن کئے گئے۔

(روحانی خزائن جلد13 صفحہ190-191 حاشیہ)

مسجد اقصیٰ کی پہلی مرتبہ توسیع 1900ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہوئی۔ (ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ15) 13؍مارچ 1903ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مسجد کے صحن کے مشرقی و شمالی کونے میں مینارۃ المسیح کی بنیاد رکھی۔ (تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ117) خلافت اولیٰ1910ء کی پہلی سہ ماہی میں مسجد اقصیٰ کی دوسری مرتبہ توسیع ہوئی اور ایک بڑا کمرہ اور لمبا برآمدہ تیار ہو گیا۔ (تاریخ احمدیت جلد3 صفحہ314) چونکہ قادیان کی آبادی ہر سال تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ اس لئے حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے مسجد اقصیٰ کی توسیع کی ہدایت فرمائی اور 12؍اپریل 1938ء کو دس بجے صبح جنوبی جانب کے نئے حصہ کی بنیاد رکھی۔ اس تقریب کی خبر اخبار الفضل نے مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع کی:
’’حضور سوا نو بجے ہی تشریف لے آئے اور توسیع مسجد کا نقشہ ملاحظہ فرمانے کے بعد دیر تک حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے گفتگو فرماتے رہے۔ حضرت میر محمد اسحٰق صاحب۔ جناب مولوی عبدالمغنی خان صاحب اور جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بھی ہمراہ تھے۔ مقامی احباب کثیر تعداد میں اس مبارک تقریب پر جمع تھے۔ دس بجے کے قریب حضور نے مغربی کو نہ میں خشت بنیاد رکھی۔ بنیاد کے لئے چند چھوٹی اینٹیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کی تھیں مسجد اقصیٰ کی چھت کی ایک برجی سے… لائی گئی تھیں بنیاد رکھنے کے وقت حضور کے ارشاد سے حافظ محمد رمضان صاحب نے بآواز بلند قرآن کریم کی وہ دعائیں بار بار دہرائیں جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھتے وقت اللہ تعالیٰ سے کیں۔ اس کے بعد حضور نے مجمع سمیت لمبی دعا فرمائی۔

(روزنامہ الفضل قادیان 14؍اپریل 1938ء صفحہ2)

اس جگہ خاکسار مسجد اقصیٰ کے تعلق سے ایک اہم واقعہ بیان کردینا مناسب خیال کرتا ہےجو کہ ’’خطبہ الہامیہ‘‘ کے بارہ میں ہے۔یہ خطبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد اقصیٰ کے سب سے قدیمی حصہ کے درمیانی در میں کھڑے ہوکر ارشاد فرمایا تھا چنانچہ اس بارہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم اس وقت بچے تھے صرف سات آٹھ سال کی عمر تھی لیکن مجھے بھی وہ نظارہ یاد ہے حضرت صاحب بڑی مسجد کے درمیانی در کے پاس صحن کی طرف منہ کئے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کے چہرے پر ایک خاص رونق اور چمک تھی اور آپ کی آواز میں ایک خاص رعب تھا اور آپ کی آنکھیں قریباً بند تھیں۔

(سیرت المہدی حصہ اول صفحہ164)

پہلی بار لاؤڈ اسپیکر کا انتظام: حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے نمازیوں کی تعداد میں اضافہ کے پیش نظر 3؍دسمبر 1937ء کومسجد اقصیٰ میں لاؤڈاسپیکر لگانے کی تاکید فرمائی۔ جس پر صوبہ سرحد کے خان صاحب فقیر محمد خان صاحب نے اپنے آقا کے منشاء مبارک کو اپنے خرچ سے پورا کر دیا اور حضورؓ نے پہلی بار 7؍جنوری 1938ء کو اس آلہ کے ذریعہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔

(تاریخ احمدیت جلد8 صفحہ539)

مسجد اقصیٰ کی چوتھی مرتبہ توسیع: صد سالہ خلافت جوبلی کے موقعہ پر سال 2008ء میں کی گئی، اور مسجد کے مشرقی جانب دفاتر صدر انجمن احمدیہ کی پرانی عمارت کو منہدم کرکے مسجد سے ملحق تین منزلہ خوبصورت عمارت تعمیر کی گئی۔ جماعت احمدیہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر مسجد اقصیٰ کی توسیع انتہائی ضروری ہو گئی تھی۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے عہد مبارک میں خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی کے موقعہ پر مورخہ 7؍جون 2008ء کواس جگہ تین منزلہ عمارت کی بنیاد محترم فاتح احمد صاحب ڈاہری انچارج انڈیا ڈیسک لندن نے رکھی۔ (بدر 21؍اگست 2008ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہد مبارک میں یہاں ایک غیر مسلم نے بلند وبالا عمارت تعمیر کرنی شروع کی تو احباب جماعت نے مسجد اور دارالمسیح کے قرب کی وجہ سے اپنی فکرو تشویش کا اظہار کیا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے خدا تعالیٰ سے علم پاکر فرمایا کہ:
’’یہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ شاہی کیمپ کے پاس کوئی شخص نہیں ٹھہر سکتا۔‘‘

(الفضل 3؍مئی 1932ء صفحہ5)

تعمیر کے بعد ہی مالک مکان پر پے در پے مصیبتیں آنے لگیں۔اس نے عمارت کو منحوس خیال کرتے ہوئے اسے صدر انجمن احمدیہ کو فروخت کر دیا۔ 25؍اپریل 1932ء کو اس میں صدر انجمن کے دفاتر منتقل ہوگئے۔ (الفضل 28؍اپریل 1932صفحہ2) 2008ء میں یہ عمارت انتہائی خستہ ہو چکی تھی۔ دوسری طرف مسجد اقصیٰ کی توسیع بھی ضروری تھی۔ لہٰذا اسے منہدم کرکے مسجد کی توسیع ہوئی اور ایک دفعہ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی کہ شاہی کیمپ کے پاس کوئی شخص نہیں ٹھہر سکتا۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک اس کی توسیع کا کام سال2011ء میں مکمل ہوا۔ اس جگہ اب دو منزلہ وسیع عمارت بنائی گئی ہے جو مسجد کا حصہ ہے اور اس میں بزرگوں اور معذروں کی آسانی کے لئے لِفٹ (Lift) کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔

خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی 2008ء کے موقع پر قادیان میںجدید تعمیرات

سیدنا حضرت اقدس امیر الموٴمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی منظوری سے قادیان میں مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی۔ اس توسیع کا سنگ بنیاد موٴرخہ 7؍جون 2008ء کو محترم فاتح احمد ڈاہری صاحب وکیل تعمیل وتنفیذ نے اپنے دورہ قادیان کے دوران رکھا۔ اس موقعہ پر محترم حافظ صالح محمد الٰہ دین صاحب صدر، صدر انجمن احمدیہ قادیان، محترم مولانا محمد انعام صاحب غوری ناظر اعلیٰ و امیر جماعت احمدیہ قادیان اور صدر انجمن احمدیہ کے مختلف شعبوں کے ناظر صاحبان، نائب ناظر صاحبان، وکلاء تحریک جدید، ناظمین وقف جدید اور ذیلی تنظیموں کے صدر صاحبان اور موقعہ پر موجود درویشان قادیان اور لندن و ربوہ سے آنے والے انجینئر صاحبان نے بنیادمیں اینٹیں رکھیں۔ جس کے بعد محترم فاتح احمد صاحب وکیل تعمیل وتنفیذنے دعا کروائی۔ یہ کام مکرم اطہر الحق صاحب ایڈیشنل ناظم تعمیرات قادیان کی زیر نگرانی ہوا۔ جس میں لندن اور ربوہ سے آنے والے انجینئر صاحبان بھی خدمت سرانجام دیتے رہے ہیں۔

مسجد اقصیٰ کے سامنے والے دفاتر کی عمارت اور نمائش ہال کو منہدم کر کے تین منزلہ مسجد تعمیر کی گئی۔ مسجد کی تعمیر کا کام اگست 2008ء میں شروع کر کے اکتوبر2010ء میں ختم کیا گیا۔ مسجد کے ہر فلور کا ایریا 7200سکوائر فٹ ہے اور اس قدر وسیع ہال بغیر Beam اور Piller کے نئی تکنیک کے ذریعے تعمیر کئے گئے ہیں۔مسجد میں جانے کے لئے درمیان میں ایک سیڑھی تعمیر کی گئی ہے۔ اسی طرح شمالی جانب کونے میں ایک سیڑھی تعمیر کی گئی۔

(ماخذ از ریکارڈ شعبہ تاریخ)

رینوویشن بیسمنٹ مسجد اقصیٰ

مسجد اقصیٰ کی توسیع کے ساتھ ہی پُرانی بیسمنٹ کی توسیع اس طرح عمل میں آئی کہ اس کی تمام درمیانی دیواروں کو نکال کر کھلے ہال کی شکل دے دی گئی اور ایک حصہ کی چھت پر R.C.C کی سلیب ڈالی گئی اور زائد کھڑکیوں اور روشن دانوں کے ذریعے اس بیسمنٹ کو روشن اور ہوا دار بنایا گیا ہے۔ اس کا کل ایریا 5800 sqft ہے۔ دسمبر 2010ء میں بیسمنٹ کی توسیع کا کام مکمل ہوگیا اور اب جلسہ سالانہ قادیان کے ایام میں اس مسجد اقصیٰ کی توسیع والی تینوں منزلوں کے ساتھ بیسمنٹ بھی استعمال میں آرہی ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

سال2011ء میں مسجد اقصیٰ کے پُرانے حصہ میںبعض جگہ دراریں آنے کی وجہ سے۔ سال2011ء – 2012ءمیں پُرانے حصہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے (Retro fitting) کا کا م ہوا۔اس کے معاً بعد سال2012ء میں مسجد کی دیواروں سے پرانے پلستر کو اتار کر نئے سرے سے پلستر اور رنگ و روغن کروایا گیا۔ اس کے علاوہ مسجد کے پرانے حصہ کا فرش بھی تبدیل کیا گیا۔ مسجد کے ستونوں کے ساتھ المونیم اور شیشے کے دروازے لگائے گئے۔پہلے یہ دروازے نہیں ہوا کرتے تھے۔ سال2013ء میں مسجد اقصیٰ کے شمال سے ایک راستہ باہر بازار کی جانب نکالا گیا۔

(ماخذ از ریکارڈ شعبہ تاریخ)

مسجد اقصیٰ کی تزئین و آرائش: 23؍مئی 2015ء کومسجد اقصیٰ قدیمی حصہ کے تزئین و آرائش کا کام شروع ہوا۔مسجد کے مغربی حصہ یعنی قدیم مسجد اقصیٰ کے ساتھ ملحق بر آمد ہ اور مسجد اقصیٰ کی چھت جو کہ لکڑی کےبالوں اورلوہے کے ٹی۔آر (T.R) گارڈرسےبنی تھی تبدیل کرکے پختہ سیمنٹ (جو کہ انجینئر کی زبان میں آر۔سی۔سی کہلاتاہے) کی چھت بنائی گئی اور چھت ڈالنے کا کام 3؍اگست 2015ء کو مکمل ہوگیا۔

مسجد اقصیٰ کے برآمدہ میں باہر کی جانب مسجد کے ستونوں کے ساتھ المو نیم اور شیشے کے دروازے 2012ء میں لگائے گئے تھے ان دروازوں کو نکال دیا گیا ہے ان کی جگہ اب ساگوان کی عمدہ لکڑی جو کہ جنوب ہند (کیرلہ) سے خاص طور پر منگوائی گئی ہے اس سے دروازے تیار کر کے لگائے جا رہے ہیں۔

اسی طرح مسجد اقصیٰ کے قدیمی حصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد صاحب کے وقت میں خوبصورت گنبد بنائے گئے تھے۔ مسجد کی خوبصورتی اور یکسانیت کے پیش نظر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے مسجد کے جنوبی حصہ میں بالکل ویسے ہی گنبد بنایاگیا جوماہ نومبر2015ء کو پایۂ تکمیل کو پہنچا۔

مسجد اقصیٰ میں مینارة المسیح کے ساتھ شمالی جانب ملحق دیوار پرانی اور بوسیدہ ہونے کی وجہ سے 9؍فروری 2016ء کو گرائی گئی اور اس دیوار کو بنیاد تک اکھیڑ کر اس کی جگہ آر۔سی۔سی (R.C.C) کی دیوار تعمیر کی گئی ہے۔

1938ءمیں قدیمی حصہ میں بنی سیڑھیاں جو کہ مسجد کے برآمدہ میں بنی چھت تک جاتی تھی اس کی تزئین و آرائش کےلئے وہ ختم کر دی گئی ہیں۔مسجد اقصیٰ کےشمالی اور جنوبی گنبدوں کے درمیان ایک خوبصورت اور بلند داخلی گیٹ مسجد کے برآمدہ کے بیرونی جانب تیار کیا گیاہے۔

مینارۃ المسیح: مسجد اقصیٰ کو یہ فخر اور اعزاز بھی حاصل ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی پیشگوئی یَنْزِلُ عِیْسیَ ابْنُ مَریَمَ عِنْدَالمَنَارَۃِ الْبَیْضَاءِشَرْقِیَّ دِمَشْق۔ یعنی مسیح موعود دمشق کے شرقی جانب سفید منارہ کے پاس نازل ہوگا‘‘۔ (کنزل العمال جلد7 صفحہ22) کے مطابق اس مسجد کے صحن کو مینارة المسیح کی تعمیر کے لئے منتخب فرمایا۔موٴرخہ 13؍مارچ 1903ء بروز جمعہ اس مسجد کے صحن میں مینارة المسیح کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ (بحوالہ قادیان گائیڈ صفحہ34) بعض وجوہات کی بناء پر حضرت مسیح موعودؑ کے عہد مبارک میں اس کی تکمیل نہ ہو سکی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے عہد خلافت کے پہلے ہی سال مؤرخہ 27؍نومبر 1914ء کو مینارة المسیح کی نامکمل عمارت پر اپنے دست مبارک سے اینٹ رکھ کر اس کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کروا دیا۔ 16؍فروری 1915ء کو یہ عنقریب مکمل ہوگئی۔(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ161) 1916ء کو مینارة المسیح مکمل تیار ہوگیایہ خوشنما اور دلکش منارہ 105فٹ اونچا ہے۔ اس کی تین منزلیں اور اوپر گنبد اور 92سیڑھیاں ہیں۔ 18؍جون 1916ء کو پہلی بار مینارة المسیح پر سفیدی کی گئی۔

(الفضل قادیان دارالامان 18؍جون 1916ء صفحہ1)

فروری 1923ء میں اس پر گیس کے ہنڈے نصب ہوئے۔ 1929ء کو مینارة المسیح پر گھڑیاںلگانے کے لئےویسٹ اینڈواچ کمپنی سے خط و کتاب کی گئی اور 1930ء میں لیمپ لگائے گئے اور 1931ء میں ٹاور کلاک آیا اور اکتوبر 1935ء میں مینارة المسیح پربجلی کے لئے وائرنگ کی منظوری دی گئی۔ (بحوالہ تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ161) سن 1981ء – 1982ء میں مینارة المسیح پر سنگ مرمر لگانے کا کام ہوا۔

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ161)

اور سال 2012ء میں سنگ مرمر کی خراب پلیٹوں کی مرمت اور پالش کی گئی۔ سال 2014ء کے آخر میں مینارة المسیح کے بجلی کے پرانے قمقمے تبدیل کئے گئے اور اس پر لائٹنگ کی گئی۔ جو دور سے نہایت دلکش منظر پیش کرتی ہے۔

(ماخذ از ریکارڈ شعبہ تاریخ)

مسجد مبارک

مسجد مبارک کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خطبہ الہامیہ میں ذکر فرماتے ہیں کہ

سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۲﴾

(بنی اسرائیل: 2)

قرآن شریف کی یہ آیت …… معراج مکانی اورزمانی دونوں پر مشتمل ہے اوربغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے۔پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا تھا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکتِ اسلام کے زمانہ سے جو آنحضرت ﷺ کا زمانہ تھا برکات اسلامی کے زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا۔ پس اس پہلو کی رُو سے جو اسلام کے انتہاء زمانہ تک آنحضرت ﷺ کا سیر کشفی ہے۔مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجد ہے جو قادیان میں واقع ہے جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام ہے مُبَارَکٌ وَّ مُبَارِکٌ وَّ کُلُّ اَمْرٍ مُبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ اور یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اورفاعل واقع ہوا قرآن شریف کی آیت بَارَکْنَا حَوْلَہ ٗکے مطابق ہے۔پس کچھ شک نہیں جو قرآن شریف میں قادیان کا ذکر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ اس آیت کے ایک تو وہی معنے ہیں جو علماء میں مشہور ہیں یعنی یہ کہ آنحضرت ﷺ کے مکانی معراج کا یہ بیان ہے مگر کچھ شک نہیں کہ اس کے سوا آنحضرت ﷺ کا ایک زمانی معراج بھی تھا جس سے یہ غرض تھی کہ تاآپ کی نظر کشفی کا کمال ظاہر ہو اور نیز ثابت ہو کہ مسیحی زمانہ کے برکات بھی درحقیقت آپ ہی کے برکات ہیں جوآپ کی توجہ اور ہمت سے پیدا ہوئی ہیں اسی وجہ سے مسیح ایک طور سے آپ ہی کا رُوپ ہے اوروہ معراج یعنی بلوغ نظر کشفی دنیا کی انتہا تک تھا جو مسیح کے زمانہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اوراس معراج میں جوآنحضرت ﷺ مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک سیر فرماہوئے وہ مسجد اقصیٰ یہی ہے جو قادیان میں بجانب مشرق واقع ہے جس کا نام خدا کے کلام نے مبارک رکھا ہے۔یہ مسجد جسمانی طور پر مسیح موعود کے حکم سے بنائی گئی ہے اورروحانی طور پر مسیح موعود کے برکات اورکمالات کی تصویر ہے جو آنحضرت ﷺ کی طرف سے بطور موہبت ہیں اورجیسا کہ مسجد الحرام کی روحانیت حضرت آدم اورحضرت ابراہیم کے کمالات ہیں اور بیت المقدس کی روحانیت انبیاء بنی اسرائیل کے کمالات ہیں ایسا ہی مسیح موعود کی یہ مسجد اقصیٰ جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے اس کے روحانی کمالات کی تصویر ہے۔‘‘

(خطبہ الہامیہ، روحانی خزائن جلد16 صفحہ21-22)

مسجد مبارک کی بنیاد (حضرت پیر سراج الحق صاحبؓ کی عین شہادت کے مطابق) 1882ء میں اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ترابؓ کی تحقیق کے مطابق 1883ء میں رکھی گئی تھی۔حضرت اقدس کے چوبارہ کے ساتھ جہاں مسجد کی تأسیس ہوئی در اصل کوئی جگہ موزوں نہیں تھی کیونکہ ’’بیت الفکر‘‘ کے عقب میں گلی تھی او ر گلی کے ساتھ آپؑ کے چچا مرزا غلام محی الدین کا رقبہ تھا۔ جس میں ان کے خراس کی قدیم عمارت کےکھنڈر پڑے ہوئے تھے اور اس کے بقیہ آثار میں سے شمالی جانب ایک بوسیدہ سی دیوار کھڑی تھی۔ حضور نے اسی دیوار اور اپنے گھر کی جنوبی دیوار پر اپنے باغ کی دیسی لکڑی سے سقف تیار کرایا۔اینٹوں کی فراہمی کے لئے بعض پرانی بنیادوں کی کھدائی کی گئی۔مسجد کا اندورنی حصہ حتمی طور پر 9؍اکتوبر 1883ء تک پائے تکمیل کو پہنچ گیالیکن اس کی سفیدی بعد کو ہوئی۔

(بحوالہ حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحہ24-25)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسجد مبارک کی تعمیر اس لئے نہیں کی تھی کہ گھر سےمسجد اقصیٰ تک جانے میں آپ کو تکلیف ہوتی تھی بلکہ آپ کا معمول تھاکہ مسجد میں عموماًنماز سے پہلے جاتے اور عصر کی نماز کے بعد علی العموم مسجد اقصیٰ ہی میں ٹہلتے رہتےاور مغرب کی نماز پڑھ کرآتےاور پھر عشاء کی نماز کے لئےجاتے۔

(حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحہ21)

لیکن جب اللہ تعالیٰ کی وحی نے اس طرف اشارہ کیا تو آپ نے اپنے گھر کے اس چوبارہ کے ساتھ جہاں آپ تصنیف کا کام کیا کرتے تھے تعمیر مسجد کا ارادہ فرمایا۔یہ چوبارہ مسجد مبارک کے شمالی جانب میں ہے وہ وحی جس میں اس مسجد کی تعمیر کی طرف اشارہ وحی الٰہی الم نجعل لک سھولۃً فی کل امرہٖ بیت الفکر و بیت الذکر و من دخلہٗ کان اٰمنا

بیت الفکر سے مراد اس جگہ وہ چوبارہ ہےجس میںیہ عاجز کتاب کی تالیف کے لئے مشغول رہا ہے اور رہتا ہے اور بیت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے کہ جو اس چوبارہ کے پہلو میں بنائی گئی ہےاورآخری فقرہ مذکورہ اسی مسجد کی صفت میں بیان فرمایا ہے جس کے حروف سے بنائے مسجد کی تاریخ بھی نکلتی ہے اور وہ یہ ہے:

مُبارِکٌ ومبارَکٌ وَّکلُّ امرٍ مبارَکٍ یُجْعَلُ فیہ

(تذکرہ صفحہ83 مطبوعہ 2006ء قادیان)

تعمیرمسجد کے لئے حضور نے اس جگہ کو بیت الفکر و بیت الذکر کے باہم قریبی ذکر اور ایک ہی الہام میں ہونے کی ترتیب کی وجہ سے پسند فرمایا۔یہاں کوئی جگہ تو تھی نہیں اس لئے آپ نے اس کوچہ کو مسقف فرمایا جو احمدیہ چوک بازار اور مسجد اقصیٰ کو جاتا ہے۔جس جگہ آج کل دفتر محاسب ہے اسی جگہ مرزا غلام محی الدین مرحو م حضرت کے چچا کا خراس تھاان کی وفات کے بعد اس کی چھت وغیرہ گر گئی اور اس کو دوبارہ تعمیر کرنے کی نوبت نہ آئی جب حضرت نے مسجد مبارک کی تعمیر کا ارادہ کر لیا اور اس کی چھت کو مسجد مبارک کا فرش قرار دیکر تعمیر کا کام شروع کیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مالی حالت اس وقت بہت کمزور تھی نیچے کی چھت کے لئے دیسی لکڑی وغیرہ جو باغ وغیرہ سے کاٹی گئی ڈال دی گئی اور اوپر چھت پر وہی لکڑی استعمال ہوئی۔ اس کے لئے اینٹوں کو مہیاکرنے کے واسطے عام طور پر پرانی بنیادوں کو کھود کر اینٹیں نکلوائی گئیں۔ پیراں دتا ایک معمار جو علی العموم اس خاندان کا تعمیری کا م کیا کرتا تھا اس کی تعمیر کے لئے مقرر ہوا اور کام شروع ہوگیا۔ایک طرف مالی مشکلات تھیں دوسری طرف عم زاد بھائیوں کی مخالفت تھی اس لئے کہ ان کی ایک دیوار پر چھت ڈالی جا رہی تھی اور اس کھنڈر کی طرف ایک کھڑکی رکھی جارہی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ اس مسجد کے تعلق میں سہولتوں کا وعدہ فرمایا تھا ہر قسم کی سہولتیں میسر کر دیں اور تعمیر کاکام بآسانی ہوتا چلا گیا اور آخر خدا تعالیٰ کےفضل سے یہ مسجد (9؍اکتوبر 1883ء کو۔ناقل) مکمل ہوگئی۔

(بحوالہ حیات احمد جلد دوم نمبر دوم صفحہ21-23)

توسیع اول

جب اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بڑھا دیا تو اس مسجد کی توسیع کی ضرورت پیش آئی اور خدا نے خود ہی اس کی وسعت کے سامان پیدا کردئیے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد جو اوائل تعمیر میں مخالفت کرتے رہے۔ آخر کار انہوں نے اپنے مملوکہ خراس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بیچ دیا۔چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہونے والی توسیع اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زمانہ میں ہونے والی توسیع کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’مسجد مبارک کی پہلی توسیع حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہی آپ کے منشاء کے مطابق صدر انجمن احمد یہ کے انتظام کے ماتحت ہمارے نانا جان مرحوم (یعنی محترم میر ناصر نواب صاحبؓ )کی نگرانی میں 1907ء میں ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی وفات تک جو مئی 1908ء میںہوئی اسی توسیع شدہ حصہ میں نمازیں ادا فرماتے رہے۔گویا اس توسیع نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں سے اصل مسجد کی برکتوں کا خمیر حاصل کر لیا۔‘‘

(بحوالہ الفضل قادیان 26؍مارچ 1945ء صفحہ3)

توسیع دوم

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زمانہ میں ہونے والی توسیع کے بارہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’اس کے بعد دوسری توسیع اب 1944ء میں آکر حضرت امیر الموٴ منین خلیفۃ المسیح الثانی اید ہ اللہ کے ہاتھوں سے ہوئی ہے اور اس توسیع کے لئے روپیہ بھی حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ کی ذاتی اپیل پر دوستوں نے پر جوش طوعی چندوں کی صورت میں پیش کیا ہے۔جس میں ایک معقول حصہ خود حضرت امیر المؤ منین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ذاتی چندہ کا بھی شامل ہےاور اس تعمیر کی نگرانی کا کام حضور کے حکم کے ماتحت خاکسار (یعنی حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ ۔ناقل) سرانجام دیتا رہاہے۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ اور عملی نگرانی سید سردار حسین شاہ صاحب اور سیر نے کی ہے۔ فَجَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرَاً۔ یہ توسیع عملاً دسمبر1944ء میں مکمل ہو چکی تھی۔چنانچہ حضرت امیر المؤ منین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مؤرخہ 2؍دسمبر کو اس حصہ میں نماز کا آغاز کر دیا تھا گو تکمیل کی بعض جزئیات کا سلسلہ 1945ء میں بھی جاری رہا ہے۔‘‘

(بحوالہ الفضل قادیان 26؍مارچ 1945ء صفحہ4)

تقسیم ملک کے بعد دور درویشی میں مسجد مبارک میں مختلف چھوٹے چھوٹے تعمیری و مرمت کے کام کروائے جاتے رہے۔سال2010ء کے آخر میں مسجد مبارک کی چھت پر وہ کمرہ جوسرخی کے چھینٹوں کے نشان والے کمرے کے بالکل اوپر ہے اور اسٹور کے طور پر استعمال ہوتا تھا گرادیا گیا۔یہ کمرہ چند سال قبل اسٹور کے لئے تعمیر ہوا تھا اور مسجد مبارک کی چھت پر ہرے رنگ کی فائبر شیٹ سے شیڈ ڈال دیا گیا تا کہ جلسہ سالانہ میں مہمانوں کی کثرت کے پیش نظر چھت پر بھی نماز کا انتظام کیا جا سکے۔ مگر چھت کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے اسے ہٹا دیا گیا۔یہ شیڈ دور سے مینارة المسیح دیکھنے والوں کے درمیان حائل ہو جا تا تھا۔اس لئے بھی اسے ہٹانا مناسب سمجھا گیا۔ فروری2013ء میں اس شیڈ کو گرا دیا گیا۔

فروری 2013ء میں مسجد مبارک کی رینوویشن کا کام شروع ہوا۔مسجد کے پرانے پلستر کو اتار کر اس کی جگہ نیا پلستر کیا گیا۔مسجد کے فرش کو تبدیل کیا گیا۔مسجد کی بڑی سیڑھیوں کو جو پرانی ہو چکی تھیں نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔مسجد کی بڑی سیڑھیوں پر خوبصورت سنگ مرمر لگایا گیا۔بڑی سیڑھیوں سے اوپرجاتے ہی المونیم کا بڑا دروازہ نصب کیا گیا۔ المونیم کا ایک چھوٹا دروازہ مسجد کی جنوبی سیڑھیوں پر اور ایک المونیم کا چھوٹا دروازہ مسجد اور بیت الفکر کو جانے والی سیڑھیوں پر اوپر کی جانب لگایا گیا۔مسجد کی چھت کو جانے والی سیڑھیوں کے پرانے دروازوں کی جگہ ایلمونیم کے دروازے لگائے گئے۔مسجد میں پرانے پنکھوں کی جگہ نئے پنکھے لگائے گئے۔بجلی کی وائر نگ کاکام از سر نو کروایا گیا۔پرانے تاریخی دروازوں اورکھڑکیوں کو پالش کی گئی اور مسجد کو اندر اور باہر سے رنگ و روغن کرکے جاذب نظر بنایا گیا۔علاوہ ازیں مسجد کی چھت کی سیلنگ کا کام ہوا۔

اس جگہ خاکسارمسجد مبارک کی شان میں یہ بیان کر دینا بھی مناسب خیال کرتا ہےکہ قادیان میں مسجد مبارک ایک ایسی مسجد ہے جس کےبارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو متعدد بار چار الہام ہوئے ہیں جو ذیل میں در ج کئےجاتے ہیں۔

پہلا الہام

مُبارِکٌ ومبارَکٌ وکلُّ امرٍ مبارَکٍ یُجْعَلُ فیہ

(تذکرہ صفحہ83 مطبوعہ 2006ء قادیان)

یعنی یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اورہر ایک امر مبارک اس میں کیا جاویگا۔

دوسرا الہام

دوسرا الہام جو اس مسجد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوپانچ مرتبہ ہوا وہ بھی اول الذکر الہا م کے قریب کے زمانہ کا ہےاور وہ یہ ہے

فیہ برکاتٌ للناس و من دخلہ کان اٰمِناً

(تذکرہ صفحہ83 حاشیہ مطبوعہ 2006ء قادیان)

یعنی اس مسجدمیں لوگوں کے لئے غیر معمولی برکات رکھی گئی ہیں اس لئے اس مسجد کو خدا کے نزدیک یہ مرتبہ حاصل ہے کہ جو شخص بھی اخلاص اورنیک نیتی کے ساتھ اس کے اندر داخل ہوگا۔وہ ہر قسم کے خطرات سے محفوظ ہو جائیگا۔

تیسرا الہام

تیسرا الہام جو اس مسجدکے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوا وہ یہ ہے۔

بیت الفکر و بیت الذکر

(تذکرہ صفحہ82 مطبوعہ 2006ء قادیان)

یعنی اے خدا کے مقرر کردہ امام اگر تیرا گھر افکار علمی و روحانی کا گہوارہ ہےجس میں سے اسلام کی تائید میں شیطانی طاقتوں کی تردید میں گولہ و بارود تیار ہوکر نکلتا رہے گا تو یہ تیرے گھر کے ساتھ لگی ہوئی چھوٹی سی مسجد خدا کے علم میں بیت الذکر ہے جس میں ہمیشہ خدائے واحد کا نام لیا جاتا رہے گا۔

چوتھا الہام

چوتھا الہام جو اس مسجدکے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوا وہ یہ ہے:

لَا رَآدَّ لِفَضۡلِہٖ

(تذکرہ صفحہ88 مطبوعہ 2006ء قادیان)

اس الہام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو خوشخبری دی کہ آئندہ اس مسجد میں اور اس مسجد کے ساتھ تعلق رکھنے والوں پر اپنے فضل و رحمت کی بارشیں نازل فرمائے گا اور دنیا کی کوئی طاقت ان فضلوں کو روک نہیں سکے گی۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ قادیان کی یہ چھوٹی سی مسجد جس میں بمشکل پانچ سو سے چھ سو تک نمازیوں کی گنجائش ہےعجیب و غریب شان رکھنے والی اور ایک نادر مجموعہ برکات ہے۔ہاں روحانی برکتیں ایک چشمہ کا رنگ رکھتی ہیں اور کسی چشمہ کے اندر خواہ کتنا ہی پانی کیوں نہ ہو اس سے سیراب ہونے کے لئے بعض ظاہری باتوں کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے اور روحانی برکتوں سے فیضیاب ہونے کے لئے خصوصیت سے ضرورت ہے۔انسان کی طرف شوق و طلب کی اور خدا کی طرف سے توفیق اور فضل کی اور خوش قسمت ہے وہ جس کو یہ دونوں ہی باتیں نصیب ہو جائیں۔

(نیاز احمد نائیک۔ قادیان)

پچھلا پڑھیں

میانمار میں پہلی مسجد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 دسمبر 2022