• 19 اپریل, 2024

ممکنہ تیسری عالمی جنگ (قسط 3)

ممکنہ تیسری عالمی جنگ
قسط 3

8۔ جنگ عظیم اول

جون 1914ء کو صوبہ بوسنیا کے شہر ساراجیوو میں ایک دہشت گرد گروپ نے آرچ ڈیوک اورآسٹرین ولی عہد فرانز فرڈیننڈ اور ان کی اہلیہ کو قتل کر دیا جب وہ ایک سرکاری دورے پر تھے۔ 23؍جولائی کو جرمن آشیرباد کے ساتھ آسٹریا اور ہنگری نے سربیا کو جنگ کا ایلٹی میٹم دے دیا۔ 30؍جولائی کو روس نے سربیا کی حمایت کا اعلان کر دیا، اس کےساتھ ہی جرمنی نے روس کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا اور اس کے ساتھ ہی فرانس بھی جنگ میں کود پڑا۔ 2؍اگست کو جرمنی نے بیلجیئم کو حکم دیا کہ وہ جرمن فوجوں کو راستہ اپنے ملک میں سے گزرنے کا دے جس کو بیلجیئم نے رد کر دیا۔ 3؍اگست کو جرمنی نے فرانس کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی جرمنی نے بیلجیئم پر حملہ کردیا، اس وقت ترکی اور اٹلی نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر دیا۔

برطانیہ نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ دوسری طرف امریکہ نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کیا۔ 7؍اگست جرمنی نے بیلجیئم کے قلعہ لیج پر قبضہ کر لیا۔ 12؍اگست کو روس نے EAST PRUSSIA پر حملہ کر دیا۔ اگست 1914ء میں یونان نے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر دیا جبکہ اس وقت تک قریباََ تمام محاذوں پر جنگ چھڑ چکی تھی۔ 10؍اکتوبر کو جرمنی نے ببلجیئم کے شہر آنتوورپ کو فتح کرلیا۔ یکم نومبر کو ترکی نے اعلانِ جنگ کر دیا۔ اگلے دن روس اور سربیا نے ترکی کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ 5؍نومبر کو برطانیہ اور فرانس نے بھی ترکی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ 11؍نومبر کو سلطنت عثمانیہ کے سلطان نے بطور خلیفہ برطانیہ اور فرانس کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا۔ 2؍جنوری 1915ء روس نے برطانیہ کو مشورہ دیا کہ وہ ترکی کو الجھائے۔ 3؍فروری 1915ء ترکی کی افواج نہر سویز کو عبور کرنے میں ناکام ہو گئیں۔ مارچ 1915ء میں اتحادی فوجوں نے ترکی کی آبنائے داردانیل کے بیرون پر بمباری شروع کردی۔اینگلو فرانس بحریہ نے ترکی کے شانک پر جو ایشائی سمت میں واقع ہے حملہ کیا اور اپنے تین بحری جنگی جہازوں کے تباہ ہونے بعد پسپائی اختیار کرلی۔ 22؍مارچ روس نے پولینڈ کے شہر پر فتح حاصل کی اور ایک لاکھ قیدی ہاتھ آئے۔ 22؍اپریل کو جرمنی نے پہلی مرتبہ زہریلی گیس کا استعمال کیا مغربی محاذ پر۔ 25؍اپریل کو اتحادی فوجوں نے گلیلی پولی پر حملہ کا آغاز کردیا۔ 10؍اگست 1915ء کو ترکی نے جوابی کاروائی میں برطانیہ اور نیوزی لینڈ کی فوجوں کو گلیلی پولی سے نکال باہر کیا۔ 23؍مئی 1915ء کو اٹلی کی حکومت نے آسٹریا اور ہنگری کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ مئی کو برطانیہ اور فرانس نے اپنی ایمونیشن /اسلحہ سے متعلق وزارتوں کو مدغم کرنے کا فیصلہ کیا تا اسلحہ کی مختلف محاذوں پر نئی نئی ضرورتوں کو احسن طورپر پورا کیا جائے۔ جولائی 1915ء کو روس نے آسٹریا اور ہنگری کے علاقہ گالیشیا سے پسپائی اختیار کرلی۔ 7؍اگست 1915ء زارِ روس نے روسی فوجوں کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی۔ 19؍ستمبر 1915ء کو جرمنی نے ویلنس شہر پر قبضہ کرلیا اور اس طرح سے جرمنی کو پولینڈ اور لیتھوینیا پر مکمل قبضہ حاصل ہو گیا۔ 25؍ستمبر 1915ء کو جنگِ لُوس میں برطانوی فوجوں نے پہلی مرتبہ کیمیائی گیس کا استعمال پیدل فوج کے حملہ سے قبل کیا مگر اس گیس کا درمیانی اور بائیں جانب کا حصہ ناکام رہا اور ہوا کے ساتھ واپس برطانوی مورچوں کی طرف ہی آگیا۔ 27؍ستمبر کو یونان کے بادشاہ کانسٹنٹائن نے مقدونیہ کے علاقہ سالونیکا میں اتحادی فوجوں کی آمد کی حمایت کردی۔ 5؍اکتوبر 1915ء کو جرمنی اور آسٹریا نے سربیا پر مشترکہ حملہ کر دیا۔ دوسری طرف فرانس اور برطانیہ کی فوجیں سالونیکا میں اتر گئیں۔ 9؍اکتوبر کو سربیا کے شہر بلغراد پر جرمن آسٹرین فوج نے قبضہ کر لیا اور آسٹریا نے اس کے بعدمونٹی نیگرو پر دھاوا بول دیا۔ اکتوبر بلغاریہ کی فوجیں سربیا میں داخل ہو گئیں۔ 27؍جنوری 1916ء برطانیہ نے قانون بنایا کہ 18سے 41 سال کے درمیان مردوں پر فوج میں بھرتی لازمی ہو گی۔ 25؍مئی 1916ء میسوپوتامیہ میں برطانوی اور ہندوستانی فوجی جنگی قیدی بنا لئے گئے جبکہ 3000غیرفوجیوں کو قید کرلیا گیا۔ جون 1916ء شریف حسین نے مدینہ میں بغاوت کردی اور ارض حجاز کی آزادی کا مطالبہ کر دیا۔ 27؍اگست 1916ء رومانیہ نے آسٹریا اور ہنگری کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ 6؍ستمبر کو رومانیہ نے ٹرانسلوینیا کا مکمل قبضہ حاصل کر لیا۔ 15؍ستمبر برطانوی فوجوں نے پہلی مرتبہ، سوم، کی جنگ میں ٹینک کا استعمال کیا۔ جنگِ سوم 25؍نومبر 1916ء کو ختم ہو گئی۔

اکتوبر 1916ء جرمن نے ٹرانسلوینیا اور دوبروجا کو فتح کر لیا۔ 11؍اکتوبر 1916ء کو اتحادی فوجوں نے یونان کی فوج کو غیر مسلح کر دیا جس پر ایتھنز میں مظاہرے کئے گئے۔ یکم فروری 1917ء جرمن نے آبدوزوں کا بے دریغ استعمال شروع کر دیا۔ 20؍فروری کو ارض حجاز میں حجاز ریلوے پر پہلا حملہ باغیوں کی طرف سے ہوا۔ 11؍مارچ 1917ء کو جنرل ماؤد نے بغداد کو فتح کرلیا۔ 12؍مارچ انقلاب روس کا آغاز ہو گیا۔ 15؍مارچ 1917ء زارِ روس نے خود کو معزول کر لیا۔ 6؍اپریل 1917ء امریکہ نے جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ اپریل 1917ء کو لینن پیٹروگراڈ میں پہنچ گیا۔ 12؍جون 1917ء یونان کے بادشاہ کانسٹنٹائن نے خود کو معزول کرلیا اور اپنے بیٹے کو تخت پر بٹھادیا۔ جبکہ اتحادی فوجیں یونان کے شہر پیراؤس میں داخل ہو گئیں۔ 31؍اکتوبر اٹالین فوجوں نے فلسطین میں غزہ کی تیسری جنگ کا آغاز کر دیا۔ 6؍نومبر 1917ء کو کینیڈا نے پاسکاندیل پر قبضہ کر لیا (برطانیہ کے زیر اثر مملکت ہونے کے ناطے برطانوی اعلان جنگ کینیڈا پر از خود اطلاق پاتا تھا)۔ 7؍نومبر کو فوجی بغاوت کے ذریعے جسے انقلابِ اکتوبر بھی کہا جاتا ہے۔ عارضی حکومت کو معزول کر دیا گیا اور سویت نے روس کا انصرام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ روس کا جنگی معاہدہ جو فرانس اور برطانیہ کے ساتھ تھا اس کو ختم کر دیا گیا۔ روس کا جہاں تک تعلق ہے ان سب امور کا مطلب تھا جنگ کا خاتمہ۔ 8؍ نومبر کو لینن نے امن کی تجویز پیش کی جس میں کہا گیا کہ نہ تو تاوان دیا جائے گا اور نہ ہی کسی علاقہ پر تسلط دیا جائے گا۔ 16؍نومبر 1917ء جنرل ایڈمینڈ ایلن بائے، ایک برطانوی جرنیل نے یروشلم کی طرف پیش قدمی جاری رکھی دسمبر 1917ء کو یروشلم کو فتح کرلیا۔ 10؍دسمبر 1917ء کو رومانیہ اور سنٹرل کمان میں جنگ بندی ہو گئی۔ دسمبر کو روس اور سنٹرل کمان میں جنگ بندی طے پا گئی۔ 9؍فروری 1918ء جرمنی اور یوکرائین کے مابین الگ ایک امن معاہدہ طے پاگیا۔ 19؍فروری 1918ء جرمن فوجوں نے پیٹروگراڈ کے اندر 80کلومیٹر تک پیش قدمی کی۔ 3؍مارچ 1918ء روس جنگ سے دستبردار ہو گیا۔ جنرل ایلن بائے نے فلسطین میں جنگ المجیدو جیت لی۔ 20؍ستمبر 1918ء رائل ائیر فورس کے جہازوں نے وادیٴ فارا میں ترک سیونتھ آرمی کو تباہ کردیا۔ 23؍ستمبر 1918ء کو برطانوی فوج نے آکرے اور حیفہ پر قبضہ کرلیا۔ یکم اکتوبر جنرل ایلن بائے اور لارنس دونوں بیک وقت دمشق میں پہنچ گئے۔ اکتوبر 1918ء کو اتحادی فوجوں نے اٹلی کے شہر وتوریو وانیتو میں جنگ جیت لی اور اس کے بعدان کی پیش قدمی کی وجہ سے چیکوسلاویکیہ سربیا کروشیا اور پولینڈ کی فوجوں نے بھاری تعداد میں راہ ِفرار اختیار کی۔ 30؍اکتوبر 1918ء کو برطانیہ اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ہو گیا اور سلطنت عثمانیہ عالمی جنگ سے باہر ہو گئی۔ 3؍نومبر آسٹریا اور ہنگری نے جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا۔ قیصر ویلہلم دوم نے خود کو معزول کر لیا۔ نومبر 1918ء اتحادیوں اور جرمنی کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا۔ 18؍مارچ 1918ء سلطنت عثمانیہ کی شاہی عثمانیہ پارلیمنٹ کا آخری اجلاس منعقد ہوا۔ جبکہ 23؍اپریل کو کمال اتاترک کی حکومت بحال ہوگئی 25؍اپریل 1918ء لیگ آف نیشنز نے میسوپوتامیہ اور فلسطین کے لئے اکثریت رائے سے ان کو برطانوی انتظام کے تحت دے دیا۔

جنگ عظیم اول میں قیصر ویلہلم (1859ء سے 1941ء) کا کردار

یہ تیسرا جرمن بادشاہ تھا اس نے برطانوی بحریہ کو خوف زدہ کرنے کے لئے جرمن بحریہ کو وسعت دی اس نے بہت نفرت آمیز طریق سے جرمنی کی فوقیت اور حب الوطنی کا پرچار کیا جس کی وجہ سے وہ ایک ناپسندیدہ شخصیت بن گیا اس نے یورپ میں اسلحہ کی دوڑ کا آغاز کیا وہ پہلی جنگ عظیم کے لئے براہ راست ذمہ دار تھا اور دوسری جنگ عظیم کے لئے بالواسطہ ذمہ دار تھا۔

(مندرجہ بالا موادبشکریہ کتاب ورلڈ وار ون)

جنگ عظیم اول میں یہودیوں کا کردار

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے سورۃ بنی اسرائیل (کی آیت61 صفحہ 358) کی تفسیر میں فرمایا۔۔۔ چنانچہ دیکھ لو کہ گزشتہ جنگ عظیم (اول) بھی یہود کی دخل اندازی کی وجہ سے ہوئی تھی اور موجودہ جنگ (عظیم دوم) بھی انہی کی وجہ سے ہے۔ پہلی جنگ میں یہود نے منظم طور پر جرمنی کے خلاف کام کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب جرمنوں نے یہود پر ظلم کرنا شروع کیا اور بدلہ لیا، انہوں نے پھر ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا اور موجودہ جنگ شروع ہوئی۔ روس کے انقلاب میں بھی کہ وہ اس عذاب کا ایک حصہ ہے یہود کا سب سے بڑا دخل ہے اور روس کے کئی بڑے بڑے لیڈر یہودی النسل ہیں۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے بعض اخبارات نے یہود کی بعض تحریرات شائع کی تھیں کہ یہود سازش کر رہے ہیں کہ ایک بڑی جنگ کراکے فلسطین واپس لینے کے سامان پیدا کریں۔ آئندہ واقعات نے اس کی تصدیق کر دی مگر جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے یہود کا فلسطین میں آنا عارضی ہو گا ان کو یہ ملک دائمی طور پر نہیں مل سکتا کیونکہ دائمی طور پر تو یہ ملک مسلمانوں کے لئے مقدر ہو چکا ہے۔

(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ358)

9۔ جنگ عظیم دوم

جنگ عظیم دوم کے اسباب کے ذیل میں کتاب ’’ورلڈ وار ٹو‘‘ کا مصنف لکھتا ہے کہ پس جب 28؍جون 1919ء کو توپوں کی گھن گرج میں جنگ بندی کے معاہدہ کا اعلان کیا گیا تو اس وقت جہاں جنگ عظیم اول کو دفن کیا جا رہا تھا عین اسی وقت جنگ عظیم دوم کا بیج بو دیا گیاتھا۔۔۔جنگ عظیم دوم کا فوری سبب جو چیز بنی وہ معاہدہ ورسیلزتھا۔۔۔ ۔ کیونکہ اس معاہدہ میں 11؍نومبر 1918ء میں طے پانے والی جنگ بندی کے معاہدہ کو اتحادیوں نے سبو تاژ کر دیا تھا،اور اس وجہ سے جو توہین آمیز سلوک جرمنی کے ساتھ روا رکھا گیا اس نے آگے چل کر ہٹلر کو پورے جرمنی کو اپنا ہمنوا بنانے اور ایک جنگجو قوم میں تبدیل کرنے کا جواز مہیا کر دیا تھا، اس طرح جب جب ہٹلر نے ورسیلز معاہدہ کی خلاف ورزیاں کیں وہ جرمن قوم کی نظر میں حق بجانب تھا۔

اس واقعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے فرمایا: جنگ عظیم اول ہوئی تو عالمی طاقتوں نے یہ غور کیا کہ جرمنی کے متعلق ایسی کاروائیاں کرنی چاہئیں کہ وہ پھر کبھی اٹھ ہی نہ سکے اور اس کو پھر کبھی یہ خیال نہ آسکے کہ میں بھی دنیا میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے بہت سے اقدامات کئے ان میں سے ایک اقدام یہ بھی تھا کہ ان پر پابندی لگ گئی کہ غالبا ایک لاکھ یا اس کے لگ بھگ سے زیادہ فوج نہیں رکھ سکتا اور اس طرح وہ مطمئن ہو گئے کہ ایک لاکھ فوج کے ساتھ جرمنی سے کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ ادھر جرمنی میں ہٹلر کے ایک جرنیل نے یہ مشورہ ہٹلر کو دیا کہ ایک لاکھ فوجی بھرتی کرنے کی بجائے ایک لاکھ افسر وں کو ٹرینڈ کرتے ہیں اور اس طرح ہر ایک سپاہی نہیں بلکہ ایک انسٹرکٹر ہو گا۔ دوسری ترکیب یہ ہوئی کہ وقتاََ فوقتاََ مثلاََ دس ہزار افسروں کو فارغ کردیا جائے گا اور ان کی جگہ دس ہزار اور افسروں کو بھرتی کر کے ٹرینڈ کیا جائے گا اور فارغ کئے جانے والے افسر تعلیمی اداروں میں طلبا کو ٹرینڈ کریں گے۔ یورپ میں سب سے پہلے اس سکیم کو چرچل نے بھانپ لیا اور اس نے ان الفاظ میں توجہ دلائی کہ میں خطرے کی گھنٹی تو بجا رہا ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ میں بھی بہت لیٹ ہو چکا ہوں۔ کیونکہ اس وقت تک جرمنی ایک فوجی طاقت بن چکا تھا۔ اب غور یہ کرنا تھا کہ جو کچھ نقصان ہو چکا ہے اس کی تلافی کیسے کی جائے۔

(ماخوذ از مشعل راہ جلدسوم صفحہ 286-287)

مصنف، ورلڈ وار ٹو، لکھتا ہے کہ اکتوبر 1918ء میں جرمنی کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اتحادیوں کے وہ 14 نکات کو قبول کرلے جو صدر ولسن نے اپنی تقریر میں بیان کئے تھے۔ جرمن کو دبا دینے والی ان کوششوں کی بابت مختلف انصاف پسند دانشوروں نے آواز اٹھائی، اٹلی کے وزیر اعظم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جرمن کو ایسا ایک موقع بھی نہ دیا گیا کہ اس کو سنا جائے جبکہ چرچ کے پرانے قانون کے مطابق یہ ضروری ہے کہ ہر ایک کو سنا جائے گا، یہاں تک کہ شیطان کو بھی۔

Etiam diabulus ailuster

سر ونسٹن چرچل نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا، ہم اپنے زبردستی اور جبر کے تمام ذرائع کو بھرپور طور پر استعمال کر رہے ہیں۔۔۔ جرمنی اس وقت قحط کے دہانے پر کھڑا ہے۔۔۔ سب سے پہلے یہ کہ ان کو بنیادی خوراک میسر نہیں ہے، دوسرے جرمن جن حالات میں سے گزر رہے ہیں، جرمنی کے سارے کے سارے قومی اور معاشرتی ڈھانچے کو اس فاقہ مستی اور غیر صحت مندانہ خوراک کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ایک اور مفکر کینیز نے لکھا، اور پھر شروع ہوا چرب زبانی کے ساتھ ساتھ معاہدہ کی بال کی کھال اتارنے کا مرحلہ اور ان تانوں بانوں کی مدد سے وہ کپڑا تیار کیا گیا جس کی مدد سے آخر کار اس معاہدہ کی ساری تحریر کو انتہائی غیر مخلصانہ اور بے رحم جامہ پہنا دیا گیا۔ اس وقت پیرس کی تمام جادوگر زبانوں پر یہ الفاظ رکھ دیئے گئے تھے

Fair is foul, and foul is fair,
Hover in the fog and filthy air.

یعنی جو درست نظر آ رہا ہے وہ ضروری نہیں کہ درست ہی ہو وہ غلط بھی ہو سکتا ہے اور جو کچھ آپ کو نظر آرہا ہے وہ آپ کی نظر کا دھوکہ بھی ہو سکتا ہے (یہ مکالمہ میکبتھ اور جادو گرنیوں کے ما بین ہوا تھا) اسی طرح 25؍مارچ 1919ء کو للائیڈ جارج نے ایک خط میں لکھا ہو سکتا ہے کہ آپ جرمن فوج کی قوت بازو کو کم کرتے کرتے محض ایک پولیس فورس بنا دو اور اس کی بحریہ کو ایک کمزور ترین بحریہ لیکن جب اس کو اس بات کا احساس ہو گا کہ اس کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیا گیا ہے تو لا محالہ وہ فاتح قوموں سے اس کے انتقام کے لئے راہ ڈھونڈ نکالے گا۔۔۔ فتح کے موقع پر کی گئی نا انصافیاں، تکبر اور نخوت کو کبھی بھی مفتوح کی طرف سے نہ معاف کیا جاتا ہے نہ ہی بھلایا جا سکتا ہے۔

اکتوبر 1923ء میں فرانس نے ایک تحریک کی پشت پناہی شروع کی جس کا مقصد ایک آزاد کیتھولک سلطنت کا قیام تھا، اس تحریک میں سے اڈولف ہٹلر برآمد ہوا۔ ہٹلر نے جنگ عظیم اول میں لانس کارپورل کے طور پر حصہ لیا تھا۔ جنگ بندی کے معاہدہ کے بعد اس نے ایک پانچ افراد پر مشتمل ایک جرمن لیبر پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنائی جس کا وہ سربراہ تھا۔ بعد میں اس کا نام نیشنل سوشل جرمن لیبر پارٹی رکھ دیا گیا 9؍نومبر 1923ء کو قریباََ تیس ہزار افراد نے ایک جلوس نکالا جس کو منتشر کردیا گیا اور ہٹلر کو گرفتار کر کے قلعہ لینڈز برگ میں پانچ سال کے لئے قید کردیا گیا اس قید کے دوران ہٹلر نے ایک کتاب لکھی۔ جرمنی پر ہونے والی ناانصافیوں اور اس کو دیوار سے لگا دینے کی تمام کوششوں کے جواب میں اب ایک نئے جرمنی نے جنم لینا شروع کردیا تھا نیشنلسٹ سوشل پارٹی نازی نے 1930ء میں دوسری بڑی پارٹی کی حیثیت اختیار کر لی تھی اور 1933ء میں ہٹلر جرمنی کا چانسلر بن گیا 1933ء میں جرمنی اور پولینڈکے درمیان شدید مخاصمت چل رہی تھی جرمنی پولینڈ سے ’کاریڈور‘ یعنی ایک گزرگاہ کا مطالبہ کر رہا تھا اور اس کے علاوہ دانزنگ شہر بھی واپس مانگ رہا تھا جرمنی نے 1934ء میں پولینڈ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ تمام معاملات مذاکرات کے ذریعے سے ہوں گے اور اگلے دس سال تک کسی بھی جھگڑے کو جنگ سے نہیں مذاکرات سے حل کیا جائے گا۔ 16؍مارچ 1935ء میں ہٹلر نے اعلان کیا جس میں اس نے فوج میں بھرتی ہونا ہر ایک پر لازم قرار دے دیا۔ 13؍مارچ 1938ء کو ہٹلر نے آسٹریا کو اپنی نو آبادی بنا لیا۔ اکتوبر 1938ء چیکوسلواکیہ کے علاقہ سومیڈیتن پر قبضہ کرلیا اور 13؍مارچ 1939ء کو تمام چیکو سلواکیہ پر قبضہ کرلیا۔ ہٹلر نے اگلے ہفتے 21؍مارچ کو مطالبہ کردیا کہ شہر کو اس کے حوالے کیا جائے اور جرمن کو پولینڈ میں سے ایک راستہ کاریڈور مہیا کیا جائے۔ اس موقع پر برطانوی وزیر اعظم این چیمبر لین نے پولینڈ کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ ان حالات میں ایک اور حیران کن معاملہ وقوع پذیر ہوا اور روس نے برطانیہ کو چھوڑ کر جرمنی کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ موٴرخہ یکم ستمبر 1939ء ٹھیک بیس سال بعد جب جنگ عظیم اول کی فاتحین اقوام اپنے دشمنوں پر لگائی ہوئی تجارتی پابندیاں اٹھانےکے اعلان کر رہی تھیں جرمنی نے جنگ پر سے پابندی اٹھا دی اور پولینڈ پر حملہ کردیا، اٹھارہ دن کی جنگ کے بعد پولینڈ کی حالت اس طرح ہو گئی تھی جیسے تاش کے پتوں سے بنا ہوا مکان۔ جنوری 1940ء میں جرمنی نے رومانیہ کو فتح کرلیا اور بلغاریہ پر دباؤ بڑھادیا اور دو ماہ بعد یکم مارچ 1940ء کو اس پر قبضہ کرلیا۔ اب باری تھی یوگوسلاویہ کی لہٰذا اپریل 1940ء کو جرمنی نے بیک وقت یوگوسلاویہ اور یونان پر حملہ کر دیا۔ جون 1940ء کو جرمنی نے فرانس کو شکست دی،ساٹھ ہزار لوگ ہلاک ہو گئے۔ دو ملین سے زیادہ سپاہیوں نے ہتھیار ڈال دیئے، ملک پر بہت بھاری جنگی تاوان لگایا گیا جو اگلے کئی سالوں تک ادا کرنا تھا۔ فرانس نے اپنے ایک سفیر پے تاں کو سپین سے بلوایا تا وہ فرانس کی طرف سے معاہدہ پر دستخط کرے۔ پے تاں ایک 84سالہ ریٹائرڈ جرنیل تھاجس نے 1916ء میں جرمنی کی فوجوں کو واردون کے مقا م پر پیش قدمی سے روک دیا تھا، خیا ل یہ تھا کہ اس کے آنے سے فرانس کے عام شہری کا مورال بلند ہو گا۔ لیکن جرمن پروپیگنڈا کے باعث ایسا نہ ہو سکا، جرمنی نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ یہ انگلینڈ اور امریکہ ہیں جو جنگ کو ہوا دے رہے ہیں۔ جون 1940ء میں شمالی افریقہ جنگ کا میدان بنا جب اٹلی جرمنی کی حمایت میں برطانیہ کو تباہ کرنے کے لئے جنگ میں شامل ہوا۔ اٹلی کی فوجوں نے اگست میں سومالی لینڈ کو برطانیہ سے آزاد کروا لیا۔ستمبر میں مارشل روڈولف گرازیانی کی فوجیں مصر میں 60 میل تک اندر داخل ہو گئیں۔ البتہ برطانوی فوجوں نے بڑی حکمت عملی کے ساتھ اٹلی کی فوجوں کو نیچے بندر گاہ کی طرف دھکیل دیا اورعملی طور پر ان کی جنگی صلاحیتو ں کو ناکارہ کر دیا۔ اٹلی کی پسپا ہوتی فوج کو اس وقت سہارا ملا جب جرمن فوج جنرل رومیل کی سربراہی میں 1941ء میں افریقی محاذ پر ان کی مدد کو پہنچی۔ جنرل رومیل کی فوج ہر چیز کو روندتی ہوئی آگے بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ الامیان کے مقام تک جا پہنچے۔ یہاں پر ٹینکوں کی جنگ ہوئی اور جرمن فوج کو پسپا ہونا پڑا۔ ان کے تیس ٹینک تباہ ہوئے اور برطانوی فوج نے جرمن فوج کو واپس دھکیل دیا جہاں سے انہوں نے حملہ (پیش قدمی) کا آغاز کیا تھا۔ اگست میں برطانوی جنرل منٹگمری نے چارج سنبھالا اور جرمن فوج کو مصر سے دھکیلتا ہوا لبیا کے راستے مشرقی تیونس تک لے آیا۔ نومبر 1940ء کو امریکن فوجیں افریقہ میں اتریں تو اس کے ساتھ ہی جرمن کو مکمل شکست سے دوچار کر دیا۔

جنگ عظیم دوم میں یہودیوں کا کردار۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ  نے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 61 کی تفسیر میں فرمایا:
’’اس آیت کا تعلق پہلی آیات سے یہ ہے کہ ان میں آخری زمانہ کے خطرناک عذاب کو بطور مثال پیش کیا گیا تھا۔ اب اس آیت میں بتایا ہے کہ وہ عذاب اسراء والے کشف کا طبعی نتیجہ ہے کیونکہ اس عذاب سے اسلام کی ترقی وابستہ ہے اور اس کے بعد اسلام کی وسیع اور عالمگیر اشاعت مقدر ہے اور ساتھ ہی یہود کا ذکر کرکے یہ بتایا کہ یہ قوم بھی فتنہ ہے۔ یعنی وہ دوسرا فتنہ اس فتنہ گر قوم کے ذریعہ سے پیدا ہو گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ358)

10۔ جنگی ہتھیاروں کا ذکر

انسان کو ہتھیاروں کی ضرورت شکار، اپنی حفاظت، نفاذ قانون، باہمی جنگی حالت، مجرمانہ حملوں سے تحفظ، کھیل کھیل میں استعمال کی مہارت، نمائش اور دیگر معاشرتی ضرورتوں کے لئے استعمال کرتا رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان ہتھیاروں میں تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔ اس طرح یہ پتھر اور لکڑی کے استعمال سے چل کر مختلف دھاتوں کے استعما ل اور اب تو پلاسٹک کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ ابتدائے زمانہء وسطیٰ اس زمانہ چھٹی صدی عیسوی میں باربیریئن اور رومنوں نے کلہاڑیوں تلواروں اور نیزوں کا استعمال شروع کردیا تھا۔ (History of weapons en.m.wikipedia.org) دسویں صدی عیسوی میں بازنطینی فوجی انجینئروں نے مسلمانوں کے زیر استعمال ہتھیاروں کو دیکھتے ہوئے اپنے ہتھیاروں کو کافی ترقی دی تھی۔ مسلمان اس معاملہ میں کافی آگے تھے اور مزید انہوں نے چین کے زیر استعمال تکنیک سے بھی استفادہ کیا مسلمانوں نے سب سے پہلے منجنیق کا استعمال شروع کیااس کو انہوں نے منگولوں سے سیکھا، اس کے علاوہ مسلمانوں نے جہاں جہاں جنگیں لڑیں وہاں فتح یاب ہوئے اور وہاں شام، ایران، بازنطین کے جنگی ہتھیاروں اور تکنیک کو اختیار کرتے گئے اور بہت بھاری پتھر اس کے ذریعہ سے بہت دور دشمن پر گرائے جاتے۔ کچھ منجنیق کے ذریعہ مردہ گھوڑوں کو قلعہ بند دشمن پر گرایا جاتا،تا وہاں بیماریاں پھیل جائیں۔ چین میں یوں تو کافی بد امنی رہی مگر سانگ قبیلہ نے ایک اتحاد کی فضاء پیدا کی اور ان کے دور میں چین نےسلفر، کاربن کی مدد سے لگ بھگ 960ء میں گن پاؤڈر ایجاد کیا تھا۔ 1221ء میں چین نے گن پاؤڈر سے بم بناکر چلانے شروع کر دیئے تھے۔ جبکہ 1282ء میں انہوں نے توپ بنا لی تھی اور چودہویں صدی میں یورپ نے آتشیں ہتھیار کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ یونانیوں نے ایک ایسا اہتمام کر لیا تھاکہ وہ اپنے بحری دشمن کی طرف آگ پھینکتے تھے جو پانی پرجلتی رہتی تھی۔اس کو خاص طور پر قسطنطنیہ کے اوپر حملہ آور بحری جہازوں کے خلاف استعمال کرتے تھے۔ 1916ء تک محاذ جنگ پر فوٹو لینا قانوناً جرم تھا۔اسی طرح فوجی چھاؤنی اور فوجی اہمیت کی تنصیبات اور مقامات کے علاوہ پل وغیرہ کی فوٹو لینا ممنوع تھا۔ مگر سیٹلائیٹ کے دور میں جاسوسی اور مخبری کے ذرائع بہت ہی ترقی کر گئے۔

حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ نے خطبہ جمعہ 4؍ مارچ 1983ء کو ارشاد فرمایا:
’’بڑے بڑے ملک جو دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں ایک دوسرے کو نشانہ بنائے بیٹھے ہیں او روہ نشانے اس نوعیت کے ہیں کہ اگر رشین بلاک امریکن بلاک پر اچانک حملہ کر دے تو امریکن بلاک کے بم جو مقابلے کے لئے تیا ربیٹھے ہیں وہ اس بات کا انتظار نہیں کریں گے کہ کوئی ان کو حکم دے تو وہ چلیں کیونکہ اگر ایسا ہو تو جو ملک حملہ میں ابتدا کرتا ہے وہ لازماً جیت جائے گا۔۔۔ اگر سارا وائٹ ہاؤس ہی تباہ ہو جائے اور وہ لوگ جو فیصلوں کےمجاز ہیں وہ اچانک صفحہ ہستی سے مٹ جائیں تو کون حکم دے گاکہ جنگ شروع ہو چکی ہے،اس لئے جوابی حملہ کرو۔ اب ایک نیا سسٹم رکھا گیا ہے کہ مختلف علاقوں میں ایسے مزائل جو ہر وقت حملہ کے لئے تیاررہتے ہیں ان کو یہ آرڈر ہے کہ اگر تمہیں رکنے کا آرڈر نہ ملے تو تم نے چل پڑنا ہے۔۔۔ چنانچہ وہ علاقے جہاں یہ بم رکھے گئے ہیں وہاں کمپیوٹرز اور دیگر ذرائع سے ہر وقت یہ آرڈر جاری ہو رہے ہیں کہ بموں نے نہیں چلنا۔ نہیں چلنا، نہیں چلنا۔ اگر کسی وقت وہ کمپیوٹرز خراب ہو جائیں یا وہ علاقے اچانک تباہ کر دئیے جائیں تو یہ سارے بم از خود چل پڑیں گے پھر ان کو کوئی روک نہیں سکے گا۔‘‘

(خطبات طاہرجلد دوم صفحہ 136-137)

حضرت خلیفہ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:
’’جب آئن سٹائن سے پوچھا گیا کہ تیسری عالمگیر جنگ کن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی؟ (یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کا واقعہ ہے) تو اس نے یہ جواب دیا تھا کہا کہ تیسری جنگ کے ہتھیاروں کے متعلق تو میں کچھ نہیں کہوں گا لیکن میں یہ بتا دیتا ہوں کہ چوتھی جنگ ڈنڈوں اور پتھروں سے لڑی جائے گی۔‘‘

(خطبات طاہر جلد دوم صفحہ 138)

11۔ جنگوں میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال

دشمن کو نیست و نابود کر دینے کی آشا اور خود کو ہر حال میں کسی خراش کی بھی خواہش نہ کرنا انسان کے جنگی جنون کا ثبوت ہے۔ جیو اور جینے دو، دنیا کو خلق خدا کے لئے ایک پر امن مقام بناؤ یہ سب باتیں بار بار بتانا پڑتی ہیں حالانکہ وہ جو فساد کو اپنا شیوہ بنائے ہوتے ہیں ان کی تعداد ہمیشہ ہی نسبتاََ مُٹھی بھر ہی رہی ہے۔ موسمی مشکلات، قدرتی آفات، جنگلی حیات، کچھ اور زیادہ حاصل کرنے کی ہوس اور زندہ رہنے کی ضروریات نے انسان کو اور اہتمام کے ساتھ ہتھیاروں کی ایجاد کی طرف بھی راغب کیا۔ جنگی ہتھیاروں میں سے ان سطور میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر بات کی جائے گی۔

چھٹی صدی قبل مسیح میں اشوریوں نے دشمنوں کے کنوؤں میں زہر ڈالا۔ 1346ء میں تاتاریوں کی فوج میں طاعون پھوٹ پڑی تو وہ اپنے طاعون سے ہلاک شدہ فوجیوں کی لاشیں دشمنوں کی شہر پناہ کے اندر پھینک دیتے تا وہاں بھی بیماری پھوٹ پڑے۔ روسی فوجوں نے چیچک سے ہلاک شدہ اپنے فوجیوں کی لاشوں کو 1710ء میں اسی طرح سے اپنے دشمن سویڈن کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ برطانوی سر جیفرے ایمہرسٹ نے، فرانس کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے انڈین کو چیچک کے مریضوں کے استعمال شدہ کمبل مفت تقسیم کیے۔ جنگ عظیم اول میں جرمن نے ایسے گھوڑے اور دوسرے جانور جو گلینڈر کی بیماری سے متاثر ہو چکے تھے اپنے دشمنوں کو بھجوائے۔ یہ ایک بیماری ہے جو گھوڑوں اور خچروں سے انسانوں کو لگ جاتی ہے۔ جنگ عظیم اول میں جرمن قطبی ہرن کا شکار کیمیائی ہتھیاروں سے کرتے اور اس کو روس جانے والی برطانوی ترسیل میں بھجواتے اور یہ کوئی اکا دُکا واقعات نہ تھے بلکہ ایک باقاعدہ پروگرام کے تحت اس پر کام ہو رہا تھا۔اپریل 1915ء کو جرمن نے پہلی مرتبہ زہریلی گیس کا استعمال کیا مغربی محاذ پر۔

ستمبر 1915ء کو جنگِ لُوس میں برطانوی فوجوں نے پہلی مرتبہ کیمیائی گیس کا استعمال پیدل فوج کے حملہ سے 40منٹ قبل کیا مگر اس گیس کا درمیانی اور بائیں جانب کا حصہ ناکام رہا اور ہوا کے ساتھ واپس برطانوی مورچوں کی طرف ہی آگیا۔ 1945ء میں جاپان نے ہوائی جہازوں کے ذریعے طاعون زدہ پِسو چین اور منچوریا پر گرائے جس کے باعث وہاں طاعون پھوٹ پڑی۔ اس کے علاوہ جاپان نے ایک خفیہ لیبارٹری بنائی ہوئی تھی جس میں جنگی قیدیوں پر کیمیائی تجربات کئے جاتے تھے۔

جو جان لیوا اور خوفنا ک نتائج کے حامل تھے۔ امریکہ نے 1931ء میں فورٹ ڈیٹرک میں کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق کام شروع کیا۔ جس کو صدر نکسن کے حکم پر روک دیا گیا اور تمام کیمیکل کو ضائع کر دیا گیا۔ امریکہ کا ایک میڈیکل دفاعی پروگرام 1953ء میں شروع ہوا جو آج تک چل رہا ہے۔ 1972ء میں امریکہ اور کئی دوسرے ممالک نے ایک کنونشن پر دستخط کئے جس کے تحت ایسے کیمیکل پر تجربات کرنا، تیا ر کرنا، ذخیرہ کرنا اور استعمال کرنا ممنوع قرار دیا گیا مگر عملاََ بہت سے ممالک اس کام میں مصروف ہیں۔ 1970ء میں لاؤس اور کمبوڈیا پر ہوائی حملہ سے مختلف رنگوں کے ایسے کیمیکل گرائے گئے جس کے زیر اثر جانور اور انسان غیر مربوط قویٰ کا شکار ہوگئے۔ 1971ء میں روس کے شہر یکا ترین برگ میں حادثاتی طور پر ایک کیمیکل پھیل گیا جس سے بہت سے لوگ ہلاک ہوئے اور اس کے زیر اثر لوگ شدید بخار اور سانس کی دشواری سے دوچار ہوئے۔ 1978ء میں بلغاریہ نے اپنے ایک جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے جیورجی مارکوف نامی شخص کو ہلاک کرنے کے لئے ایک چھتری استعمال کی جس کی نوک پر چھوٹی سی گولی تھی۔ چھتری کاکونہ اس کی پنڈلی پر مارا گیا جس کے چند دن بعد اس کی وفات ہو گئی البتہ پوسٹ مارٹم میں یہ بات سامنے آئی۔ ہندوستان کی ایک فیچر فلم رازی میں دکھایا گیا کہ ایک انڈین جاسوس اسی طرح پاکستانی فوجی افسر کو راہ سے ہٹاتی ہے، جبکہ اس کی موت کو ہارٹ اٹیک گردانا جاتا ہے۔

امریکہ 1950ء کے وسط میں ٹاکسک گیسز بنانے والے ممالک میں سرِ فہرست تھا، حالانکہ حکومت نے اعلان کیا ہوا تھا کہ ہم بائیو لاجیکل ہتھیار نہیں تیار کریں گے۔ امریکہ میں ابھی تک دنیا کے انتہائی خوفناک اور مہلک ہتھیار کے ذخائر موجود ہیں جن میں شیلز، بم، بارودی سرنگیں جن میں سارین گیس اور مسٹرڈ گیسز بھری ہوئی ہیں موجود ہیں اور اس کے علاوہ اور زیادہ مہلک گیسز بھی موجود ہیں جو بہت زیادہ ٹاکسک ہیں کسی بھی کیمیکل کے مقابلہ میں جو عراق کے پاس ہو سکتا ہے۔

امریکہ عراق جنگ اور کیمیائی ہتھیار

پینٹاگان کا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دینے کا ایک اپنا طریق ہے اور اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ جنگ عظیم اول میں اتحادی فوجوں کو بہت حیرت ہوئی جب امریکن فوجی گیس ماسک پہنے بغیر اترے حالانکہ فرانس اور برطانیہ کی طرف سے امریکہ کو بتا دیا گیا تھا کہ جرمن زہریلی گیس کا استعمال کر رہے ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں امریکن فوجیوں کو جن کو زہریلی گیس کا سامنا تھا انہوں نے جنرل جا ن جے پرتینگ کو کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ کیمیائی جنگی ہتھیاروں کے پروگرام پر عمل درآمد شروع کر دے

(Bio Terrorism, page42)

خلیج فارس میں لڑنے والے ریزرو فوجیوں کے دعوؤں کو کئی سالوں تک رد کرنے کے بعد آخر کار پینٹا گان کے ترجمان نے یہ بات قبول کی ہے کہ کچھ فوجی جو مشکوک قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ عراق جنگ میں کیمیائی ہتھیاروں سے دوچار ہوئے ہوں گے۔ عراق پر امریکن جنگ سے متعلق رچرڈ پرسٹن کا دعوٰی ہے کہ عراق کے پاس ایک لمبی قطار کیمیائی ہتھیاروں کی موجود ہے اور صدر صدام اس کو امریکن انسپکٹروں سے چھپا رہا تھا یا یہ کوئی امریکن جاسوسی کے ادارے کی بنائی ہوئی کوئی داستان ہے۔

(Bio Terrorism,page41)

دوسری طرف اگر ہم عراقی مؤ قف کو سنیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ان انسپکٹروں کو اس لئے ملک میں داخل ہونے نہیں دے رہے کہ قطع نظر اس کے کہ عراق نے اقوام متحدکی قرارداد سے متعلق جو اقدام کئے ہیں اور قطع نظر اس کے کہ کس قدر عراقیوں کوان پابندیوں کی وجہ سے زحمت اٹھانا پڑ رہی ہے، امریکہ عراق سے پابندیاں نہیں اٹھائے گا جب تک صدام حسین وہاں بطور صدر موجود ہے۔ اس لئے ضرورت ہی کیا ہے کہ تعاون کیا جائے۔ عراقی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکن انسپکٹر اقوام متحدہ کی قرارداد پر عملدرآمد کو دیکھنے سے زیادہ اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ وہ اُن ٹارگٹس کے متعلق جان لیں جہاں ہوائی حملہ کی صورت میں امریکن جہازوں نے بمباری کرنی ہے۔

(Bio Terrorism, page211)

(باقی آئندہ منگل ان شاءاللّٰہ)

(سید انور احمد شاہ۔ بُرکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

انسانیت کی خدمت ہماری پہچان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جنوری 2023