• 29 اپریل, 2024

مَیں خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ سے اخلاص و محبت میں ترقی کرتا گیا

مَیں نے حضرت خلیفہ ثانیؓ کی بیعت کر لی اور
پھر مَیں خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ سے اخلاص و محبت میں ترقی کرتا گیا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کڑکؓ جنہوں نے 1907ء میں بیعت کی فرماتے ہیں کہ زمانہ گزرتا گیا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہو گئی۔ نیروبی کے تمام احمدیوں نے اُس وقت حضرت خلیفہ ثانی ؓ کی بیعت کر لی مگر مَیں اور محمد حسین صاحب بٹ مرحوم اور خواجہ قمر الدین صاحب مرحوم محروم رہے۔ اور ہم نے بیعت نہ کی۔ بعد ازاں مجھے ہندوستان جانے کا موقع ملا تو مَیں ملازمت سے الگ ہو گیا تھا۔ لڑائی شروع ہو گئی اور مَیں ہندوستان میں رہا اور پھر وہیں ہندوستان میں مجھے میڈیکل کالج لاہور میں ہیڈ لیبارٹری اسسٹنٹ کی ملازمت مل گئی۔ اُن دنوں مَیں پیغام بلڈنگ بہت جایا کرتا تھا اور طبیعت کا رجحان اور خیالات اہلِ پیغام کے ساتھ ہی تھے۔ وہاں نماز پڑھا کرتا اور درس بھی وہیں سنا کرتا اور وقتاً فوقتاً اختلافی مسائل پر تبادلہ خیالات بھی ہوتا رہتا تھا۔ جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم سے مَیں نے ایک دفعہ دریافت کیا کہ اس اختلاف میں کون حق بجانب ہے۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب مرحوم نے کہا کہ سمجھدار لوگ تو سب ہمارے ساتھ ہیں۔ (جتنے بڑے بڑے سمجھدار ہیں وہ تو ہمارے ساتھ آ گئے ہیں۔) اُنہی دنوں مَیں حاجی محمد موسیٰ صاحبؓ کی دوکان پر بھی جایا کرتا تھا۔ وہاں منشی محبوب عالم صاحبؓ جو آجکل راجپوت سائیکل ورکس کے پروپرائٹر ہیں اُن سے بھی ملا کرتا تھا اور اختلافی مسائل پر گرما گرم گفتگو ہوا کرتی تھی۔ منشی صاحب کچھ سخت الفاظ بھی استعمال کیا کرتے تھے مگر مَیں سمجھتا تھا کہ منشی صاحب سخت کلامی کرتے ہیں۔ (یعنی عادت ہے، عادتاً کرتے ہیں) چنانچہ منشی صاحب نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ تم پیغام بلڈنگ میں کیا کرنے جاتے ہو؟ مَیں نے کہا کہ قرآنِ مجید کا درس دینے جاتا ہوں۔ (میرا خیال ہے ’’سننے جاتا ہوں‘‘، ہونا چاہئے) کہنے لگے روزانہ وہاں جاتے ہو آج ہمارے ساتھ بھی قرآنِ مجید سننے کے لئے چلو۔ اُن دنوں نماز میاں چراغ الدینؓ صاحب مرحوم کے مکان پر ہوا کرتی تھی اور درس بھی وہیں ہوتا تھا جو حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ دیا کرتے تھے۔ جب مَیں پہلی دفعہ گیا تو پارہ ’’سَیَقُوْلُ‘‘ کے پہلے ہی رکوع کا درس تھا۔ (دوسرے پارے کا۔) مولانا راجیکیؓ صاحب ایک روانی کے ساتھ مستحکم اور مدلل طور پر قرآنِ مجید کی تفسیر کر رہے تھے جو مَیں نے اس سے پیشتر کبھی نہ سنی تھی۔ اُس وقت مولوی صاحب کی شکل کو جب مَیں نے دیکھا تو میرا خیال تھا کہ یہ شخص تو کوئی جاٹ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے کیا درس دینا ہے؟ مگر میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب مَیں نے دیکھا کہ مولوی صاحب سے نکات و معارف کا دریا رواں ہے۔ چنانچہ مَیں نے منشی محبوب عالمؓ صاحب کے پاس بھی مولوی صاحب کی تعریف کی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ تمہارے مولوی محمد علی صاحب نے بھی ان سے قرآن کا علم حاصل کیا ہے۔ اُن دنوں میں کچھ تذبذب کی حالت میں تھا کہ مَیں نے ایک رؤیا دیکھی کہ ایک مسجد ایسی ہے جیسی کہ بٹالہ کی جامع مسجد اور اس مسجد کے عین وسط میں بیٹھے ہوئے مجھے خیال آ رہا ہے کہ پانی کہیں سے لے کر وضو کر کے نمازپڑھیں۔ ادھر ادھر دیکھ کر مَیں نے خیال کیا کہ پانی وہاں نہیں ہے۔ (مسجد میں بیٹھے ہوئے یہ سوچا کہ اس مسجد میں پانی نہیں ہے۔) اس لئے مَیں بالمقابل پانی کی تلاش میں گیا تو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ایک مسجد ہے جیسا کہ وہ پیغام بلڈنگ کی مسجد ہے جس میں پانی کی نلکیاں لگی ہوئی ہیں۔ مَیں وہاں پر وضو کرنے کے لئے نلکی کھولتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے صاف پانی آیاہے مگر معاً بعد گدلا سا پانی جس میں میل کی سی کثافت ہے، جس کو پنجابی میں پنہ اور انگریزی میں Algae کہتے ہیں، (کائی جو کہتے ہیں، وہ پانی میں سے) نکلا ہے اور میرے ہاتھوں پر پڑ گیا جس سے مَیں نے خیال کیا یہ تو بڑا میلا پانی ہے اور وہ ختم بھی ہو گیا۔ اس کے بعد مَیں نے اُسی مسجد کی طرف(یعنی جو پہلی مسجد تھی، جہاں بیٹھا ہوا تھا) واپسی کا ارادہ کیا اور وہ دیوار جو کہ اونچی معلوم ہوتی ہے اس پر مَیں چڑھ رہا ہوں تو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے میرے پیچھے سے آ کر ٹانگ پکڑ لی ہے کہ تم یہاں کیوں آئے تھے؟ پھر یہاں نہ آنا۔ (غالباً یہ دوبارہ اُسی مسجد کا ذکر کر رہے ہیں جس میں ابھی وضو کررہے تھے) کہ تم یہاں کیوں آئے تھے؟ پھر یہاں نہ آنا۔ مَیں کہتا ہوں کہ مجھے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد جب مَیں اسی مسجدکی طرف واپس گیا ہوں تو وہاں پر نہایت مصفٰی پانی کا ایک حوض ہے۔ (یعنی جہاں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں واپس گئے تو مصفّٰی پانی کا ایک حوض نظر آیا) اور حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ ایک حدیث کی کتاب کا درس دے رہے ہیں جو حنائی کاغذ پر چَھپی ہوئی ہے اور اُس کے حاشیوں پر بھی گنجان چھپا ہوا ہے۔ مَیں یہ خیال کرتا ہوں کہ یہاں تو پانی کثرت کے ساتھ ہے اور مَیں پہلے بھولا ہی رہا۔ خیر جس وقت مَیں وضو کر کے ہاتھ اُٹھاتا ہوں تو مستری محمد موسیٰؓ صاحب کا لڑکا محمد حسین تلوار لے کر میرے سر پر کھڑا ہے اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ اس کو حضرت خلیفہ ثانی کی طرف سے میرے متعلق یہ حکم ہے کہ مَیں منافق ہوں اور مجھے قتل کر دیا جائے۔ مَیں نے محمد حسین صاحب کی طرف مڑ کر دیکھا کہ تم ایک مومن کو قتل کے لئے تلوار اُٹھاتے ہو۔ تمہیں معلوم نہیں کہ مَیں مومن ہوں؟ اُس کے بعد نظارہ بدل گیا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مَیں ہاتھ میں تلوار لئے ہوئے ہوں اور چھوٹے چھوٹے لڑکے سرخ اور سفید رنگ کی وردیاں پہنے ہوئے جیسا کہ مولی ہوتی ہے ماتم کر رہے ہیں اور محرم کے دن معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں تلوار لے کر ان لڑکوں کی طرف جاتا ہوں اور کہتا ہوں چلے جاؤ۔ چنانچہ وہ لڑکے بھاگ گئے۔ اُس کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے لڑکے عبدالغفور خان کا مکان ہے اور مَیں اُس کمرے میں داخل ہونے کے لئے جب جاتا ہوں تو پولیس کے سپاہی تلاشی لینے کے لئے آتے ہیں اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ میرے پاس جو تلوار بغیر لائسنس ہے، اس کی تلاشی کے لئے آئے ہیں۔ مگر مَیں دل میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تلوار تو مَیں افریقہ سے لایا ہوں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس رؤیا کو مَیں نے شاید چند ایک دوستوں کے پاس بھی بیان کیا اور شاید مجھے مستری محمد موسیٰ ؓ صاحب نے کہا کہ کاش کہ خواب میں قتل کر دئیے جاتے تو بہت اچھا ہوتا کہ منافقت بالکل مٹ جاتی۔ (اسے دیکھنے کے بعد بھی انہوں نے بیعت نہیں کی تھی) یہ کہتے ہیں اس کے بعد پھر مَیں نے حضرت خلیفہ ثانیؓ کی بیعت کر لی اور پھر مَیں خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ سے اخلاص و محبت میں ترقی کرتا گیا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر12 صفحہ221 تا 227 از روایات حضرت ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کڑکؓ)

(خطبہ جمعہ 15؍فروری 2013ء)

پچھلا پڑھیں

الہام ’’میں تیری تبلیغ کو ۔۔۔‘‘ اور سرزمین امریکہ (قسط 1)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مارچ 2022