• 15 جولائی, 2025

حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں دفاع اسلام کی مساعی پر ایک نظر

حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں
دفاع اسلام کی مساعی پر ایک نظر

جب سے اسلام وجود میں آیا، اس اکمل و اتم دین پر ہر قسم کی تہمتیں اور اعتراضات اور الزامات آتے رہے۔ ہر صدی کے سر پر آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق مجدد تو آتے رہے، مگر جب باروھیں صدی شروع ہوئی تو اسلام کی یہ حالت تھی کہ مخالفینِ اسلام اور منکرینِ توحید ہر حد سے بڑھ چکے تھے اور دین مصطفی کی حمایت کرنے والا کوئی باقی نہ رہا۔ گویا امت مسلمہ نے ہار مان لی اور گھبرا کر بیٹھ گئی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کو ہدایت دے دی تھی کہ اسلام کے خلاف تدابیر کی جاتی رہیں گی۔ اس لئے فرمایا:

اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ

(المؤمنون:97)

اس طریق سے جو بہترین ہے بدی کو ہٹا دے۔ ہم اسے سب سے زیادہ جانتے ہیں جو وہ باتیں بناتے ہیں۔
پھر فرمایا کہ اسلام کی تبلیغ اور تربیت اور مدافعت کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ:

اُدْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ

(النحل:126)

اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔ یقیناً تیرا رب ہی اسے، جو اس کے راستہ سے بھٹک چکا ہو، سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔

اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی ظاہر کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔ حضرت مسیح موعودؑ ملت اسلامیہ کی اس نازک حالت اور اپنی بعثت کی حاجت کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راست بازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے کہ تا وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملے سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور اباحت اور شرک اور دہریت کے لباس میں اس الٰہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں……اب سوچ کر کہو کہ کیا اب ضرور نہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس صدی پر کوئی ایسا شخص بھیجا جاتا جو بیرونی حملوں کا مقابلہ کرتا۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 251-252)

چنانچہ آپ علیہ السلام اس حالت کو دیکھ کر فی الفور اسلام کے دفاع میں لگ گئے۔ مگر آپ علیہ السلام نے کوئی تلوار نہ اٹھائی۔ آپ کا ہتھیار قلم تھا۔ آپؑ نے فرمایا: ’’جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ (مخالفین) آئے ہیں، اسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہیے اور وہ ہتھیار ہے قلم۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم اور میرے قلم کو ذو الفقار علی فرمایا۔ اس میں یہی سرّ ہے کہ زمانہ جنگ و جدل کا نہیں ہے، بلکہ قلم کا زمانہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جدید ایڈیشن جلد 1 صفحہ 214)

چنانچہ آپؑ نے اسلام کے دفاع میں 80 سے زیادہ کتب تحریر فرمائیں۔ ان کتب کے ذریعہ سے آپؑ نے دین اسلام کو ایک نئے سرے سے ترو تازہ کیا۔ اسلام کی تائید میں آپؑ نے وثوق دلائل سے باقی تمام مذاہب کو باطل اور نصرتِ الٰہی سے معدوم و محروم ثابت کیا اور تمام تر برکات و فیوض کا مرجع آنحضرت ﷺ کے وجود پر ختم کر دیا اور سب مخالفین اور معترضین کو قرآنی آیت فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ کا مصداق ٹھہرایا۔
غرض آپؑ کی ساری زندگی کا خلاصہ ہی دفاعِ اسلام ہے۔ آپ نے اپنی جان و مال کو اس مقصد کے لئے قربان کر دیا اور ہر طاقت اور قوت اس کام میں لگا دی۔ آپ کی زندگی کے کسی بھی حصہ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ دفاعِ اسلام کے لئے ہی کام کر رہے تھے۔ آپ کے سفر۔ آپ کے مباحثات و مناظرات۔ آپ کی پیشگوئیاں اور نصرتِ الہٰی کے نشانات و معجزات۔ آپ کی تحریرات اور ملفوظات اور اشتہارات اور مکتوبات۔ سب کے سب دفاع اسلام کی غرض سے تھے۔ آپ کی پاک سوانح یہ شہادت دیتی ہے کہ آپ کا مقصود بالذات دفاعِ اسلام تھا۔ ان ساری خدمات کا ذکر کرنا گویا دریا کو کوزہ میں بند کرنا ہو گا۔

حضورؑ کی تبلیغی سرگرمیاں آپ کی جوانی میں ہی شروع ہو گئیں تھیں۔ حضور ابھی تخمیناً تیس سال کے تھے جب آپ کے کثرت مطالعہ کی وجہ سے آپ کے والد صاحب نے آپ کو سیالکوٹ بھیج دیا۔ وہاں بھی آپ نے مطالعہ نہ چھوڑا بلکہ وہاں لوگوں کے ارد گرد ہونے کا پورا فائدہ اٹھایا اور تبلیغی سرگرمیاں آپ نے شروع کر دیں۔ اس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ آپ کے کثرت مطالعہ نے آپ کو اس کام کے لئے تیار کر رکھا تھا کہ اسلام پر کسی قسم کے ہونے والے حملے کا جواب دے پاتے۔

آپؑ نے تمام مذاہب کا گہرا مطالعہ کیا اور ان کی کتب پڑھیں۔ جس سے آپ کو معلوم ہو گیا کہ اب روئے زمین پر صرف اسلام کا خدا ہی اب بولتا ہے۔ جوانی سے ہی آپ عبادات میں مشغول ہو گئے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑ لیا۔ آپؑ کو اسلام سے ایسا پیار ہو گیا اور اس کی تبلیغ و اشاعت کے لئے آپؑ میں ایک تڑپ پیدا ہو گئی۔ چنانچہ مولوی فتح الدین صاحب دھرم کوٹی حضور کی جوانی کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں:
’’میں حضرت مسیح موعودؑ کے حضور اکثر ہوا کرتا تھا اور کئی مرتبہ حضور کے پاس ہی رات کو بھی قیام کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا۔ کہ آدھی رات کے قریب حضرت صاحب بہت بے قراری سے تڑپ رہے ہیں اور ایک کونہ سے دوسرے کونہ کی طرف تڑپتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ جیسے کہ ماہیٔ بے آب تڑپتی ہے یا کوئی مریض شدت درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہوتا ہے۔ میں اس حالت کو دیکھا کر سخت ڈر گیا اور بہت فکر مند ہوا اور دل میں کچھ خوف طاری ہوا کہ اس وقت میں پریشانی میں ہی مبہوت لیٹا رہا۔ یہاں تک کہ حضرت مسیح موعودؑ کی وہ حالت جاتی رہی۔ صبح میں نے اس واقعہ کا حضورؑ سے ذکر کیا کہ رات کو میری آنکھوں نے اس قسم کا نظارہ دیکھا ہے۔ کیا حضور کو کوئی تکلیف تھی۔ یا درد گردہ وغیرہ کا دورہ تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا۔
’’میاں فتح دین کیا تم اس وقت جاگتے تھے؟ اصل بات یہ ہے کہ جس وقت ہمیں اسلام کی مہم یاد آتی ہے۔ اور جو جو مصیبتیں اس وقت اسلام پر آ رہی ہیں۔ ان کا خیال آتا ہے۔ تو ہماری طبیعت سخت بے چین ہو جاتی ہے۔ اور یہ اسلام ہی کا درد ہے۔ جو ہمیں اس طرح بے قرار کر دیتا ہے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد 1 حصہ سوم صفحہ 524 روایت نمبر 516)

غرض آپؑ کی ساری زندگی کا خلاصہ ہی دفاعِ اسلام ہے۔ آپ نے اپنی جان و مال کو اس مقصد کے لئے قربان کر دیا اور ہر طاقت اور قوت اس کام میں لگا دی۔ آپ کی زندگی کے کسی بھی حصہ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ دفاعِ اسلام کے لئے ہی کام کر رہے تھے۔ آپ کے سفر۔ آپ کے مباحثات و مناظرات۔ آپ کی پیشگوئیاں اور نصرتِ الہٰی کے نشانات و معجزات۔ آپ کی تحریرات اور ملفوظات اور اشتہارات اور مکتوبات۔ سب کے سب دفاع اسلام کی غرض سے تھے۔ آپ کی پاک سوانح یہ شہادت دیتی ہے کہ آپ کا مقصود بالذات دفاعِ اسلام ہی تھا۔ آپؑ کی دفاع اسلام کے لئے ساری خدمات کا ذکر کرنا گویا دریا کو کوزہ میں بند کرنا ہو گا۔ لہذا ان میں سے بعض جھلکیاں پیشِ خدمت ہیں۔

دعویٰ سے قبل دفاعی مہمات
سیالکوٹ میں اسلام کی حمایت

آپؑ جب سیالکوٹ اپنے والد ماجد کے کہنے پر منتقل ہوئے تو آپؑ نے جلد ہی تبلیغ اسلام شروع کر دی۔ عام حالات میں مسلمان اگر کسی عیسائی سے گفتگو کرتا اور مذہبی بحث چھیڑتا تو عیسائی اسے شکست دے دیتا۔ مگر آپؑ نے اسلام کا ایسا دفاع کیا کہ آپؑ سیالکوٹ کی مذہبی فضا پر چھا گئے۔ عیسائی پادری آپ کے دلائل کے سامنے ہمیشہ لا جواب رہ جاتے۔

سلسلۂ مضامین

حضورؑ نے قریباً 1872ء میں باقاعدہ مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ آپؑ کے پہلے مضمون نے ہی برّ صغیر کو ششدر کر دیا۔ آپؑ نے ایک سچے مذہب کو شناخت کرنے کا سہل طریق یہ بیان فرمایا کہ موصوف مذہب سچائی پر کار بند رہنے کی کتنی تاکیدی تلقین کرتا ہے۔ مولانا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت حضورؑ کے پہلے مضمون کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعودؑ نے یہ زبردست معیار قائم کرتے ہوئے پورے وثوق سے یہ اعلان فرمایا کہ آپ ہر اس غیر مسلم کو پانچ سو روپیہ کی رقم بطور انعام پیش کرنے کے لئے تیار ہیں جو اپنی مسلمہ مذہبی کتابوں سے ان تعلیمات کے مقابل آدھی بلکہ تہائی تعلیمات بھی پیش کر دے جو آپ اسلام کی مسلمہ اور مستند مذہبی کتب سے سچائی کے موضوع پر نکال کر دکھائیں گے۔ خدا کے شیر کی یہ پہلی للکار تھی جسے سن کر پورے ہند و ستان میں خاموشی کا عالم طاری ہو گیا اور کسی شخص کو حضرت اقدس کا یہ زبردست چیلنج قبول کرنے کی جراٴت نہیں ہو سکی۔‘‘

(تاریخِ احمدیت جلد1 صفحہ118-119)

1877ء کے آخر میں آریہ سماج کے لیڈر نے یہ باطل عقیدہ شائع کیا کہ تمام ارواح بے انت ہیں۔ حضورؑ اسلام کی خدا کے متعلق خوبصورت تعلیم کے بر عکس اس توہین کو برداشت نہ کر پائے۔ آپ نے 1878ء کے شروع میں ہی مضامین کا سلسلہ شائع کیا اور یہ چیلنج دیا کہ اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ ارواح بے انت ہیں تو اسے پانچ سو روپیہ انعام دیا جائے گا۔

(مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 1-2)

اسلام کی یہ عظیم الشان فتح تھی کہ آریہ سماج کے خلاف اس پہلے چیلنج نے کھلبلی مچا دی اور لاہور کے آریہ سماج سیکرٹری نے اس باطل عقیدہ کو رد کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس کے بعد گو یا آریہ سماج اور اسلام کی ایک علمی جنگ شروع ہوئی اور حضورؑ نے مسلسل اسلام کو فتوحات سے سرفراز کیا۔

(تاریخِ احمدیت جلد 1 صفحہ 153-159)

غرض اس دور کی ایسی شاندار خدمات آپؑ نے اسلام کے لئے کیں کہ آج تک غیر از جماعت احباب بھی ان کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ چنانچہ سید حبیب صاحب سابق مدیر سیاست تحریک قادیان کا حوالہ تاریخ احمدیت میں دوست محمد شاہد صاحب نے خاص ذکر کیا ہے۔ انہوں نے حضورؑ کو قبول تو نہیں کیا مگر لکھتے ہیں:
‘‘اس وقت کے آریہ اور مسیحی مبلغ اسلام پر بے پناہ حملے کر رہے تھے۔ اکے دکے جو عالم دین بھی کہیں موجود تھے۔ وہ ناموس شریعت حقہ کے تحفظ میں مصروف ہو گئے مگر کوئی زیادہ کامیاب نہ ہوا۔ اس وقت مرزا غلام احمد صاحب میدان میں اترے۔ اور انہوں نے مسیحی پادریوں اور آریہ اپدیشکوں کے مقابلہ میں اسلام کی طرف سے سینہ سپر ہونے کا تہیہ کر لیا……مجھے یہ کہنے میں ذرا باک نہیں کہ مرزا صاحب نے اس فرض کو نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دئیے۔’’

(تحریک قادیان مطبوعہ 1933ء مقبول عام پریس لاہور صفحہ207-210، ماخذ تاریخِ احمدیت جلد1 صفحہ167)

براہینِ احمدیہ حصہ اول و دوم

1879ء میں آپ کے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ بات ڈالی کہ جبکہ ہر مذہب ہر زاویہ سے اسلام پر حملہ آور ہے تو کیوں نہ ایک ایسی کتاب تحریر کی جائے جو دین مصطفی کے دفاع کا لا زوال کام کرتی رہے۔ چنانچہ اس تصنیف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ذاتی روحانی تجربات اور صداقت اسلام کے اعلیٰ نشانات پیش کیے اور اسلام کی فضیلت اور رسول اللہ ﷺ کی عظمت اور قرآن کریم کی فوقیت مثبت اوردندان شکن دلائل سے پائیدار کی حتیٰکہ دشمن کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ اسی کے ساتھ آپ نے یہ چیلنج دیا کہ اگر کوئی اس کتاب کی تمثیل لا سکتا ہے تو لائے۔ ہم اس کو دس ہزار روپیہ کا انعام دینے کو تیار ہیں۔ یہ چیلنج آج تک قائم ہے اور اب تک کوئی مخالف یا معترض نہیں جس نے اس چیلنج کو قبول کیا ہو۔

یہ کتاب جب 1880ء کو شائع ہوئی تو ہندوستان میں شور پڑ گیا۔ تمام مخالفینِ اسلام عاجز ہو گئے اور اسلام کو بہت دیر بعد ایک فتح عظیم بخشی گئی۔ نیز مسلمان قوم نے اس کتاب کو اسلامی مدافعت کا ایک زبردست شاہکار قرار دیا۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے جن کو اہل حدیث کا سردار بھی مانا جاتا تھا اپنے رسالہ اشاعت السنہ میں اس کتاب کو اسلامی تاریخ میں ایک خاص اسلامی خدمت قرار دیا۔ چونکہ محمد حسین بٹالوی اس وقت ہند میں ایک اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے اور با عزت عالم دین سمجھے جاتے تھے ان کا یہ تبصرہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
‘‘ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں شائع نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں……اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے۔ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کو کم سے کم ایک ایسی کتاب بتا دے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً فرقہ آریہ سماج سے اِس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو۔’’

(اشاعت السنہ جلد7 صفحہ169-170)

اس کتاب کی شان و شوکت ہر دانشمند پر واضح ہے۔ محمد حسین بٹالوی گو بعد میں حضورؑ کا سخت مخالف ہو گیا مگر اس کی یہ شہادت آج تک تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔

براہین احمدیہ حصہ سوم

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو براہین احمدیہ حصہ اول اور دوم تحریر کیے ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماموریت کا الہام ہوا جس سے اللہ تعالیٰ کی یہ غرض تھی کہ آپؑ جس کام پر لگے ہوئے تھے (یعنی دفاع اسلام) اسی کام کو اب اللہ تعالیٰ کی خاص رہنمائی کے ساتھ سر انجام دیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور دین مصطفی کی تجدید اور آپ ﷺ کی تعظیم اور قرآن کریم کی تفسیر کی از سر نو بنیاد رکھیں۔

آپؑ نے انہی دنوں میں براہین احمدیہ حصہ سوم تحریر فرمائی جس میں آپؑ نے ہر طالبِ حق کو یہ دعوت دی کہ جو اسلام کی سچائی اور زندہ مذہب کے زندہ نشانات کی شہادت کرنا چاہے وہ خلوص نیت سے حضورؑ کے پاس آ ئے اور ان کی صحبت میں رہے تو ضرور اللہ تعالیٰ کی تجلیات اور معجزات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘ان شاءاللہ تعالیٰ ہر یک طالب صادق اپنے مطلب کو پائے گا اور ہر یک صاحب بصارت اس دین کی عظمت کو دیکھے گا۔ مگر کون ہمارے سامنے آ کر اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ وہ آسمانی نور ہمارے کسی مخالف میں بھی موجود ہے۔ اور جس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت اور فضیلت اور قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے سے انکار کیا ہے۔ وہ بھی کوئی روحانی برکت اور آسمانی تائید اپنی شامل حال رکھتا ہے۔ کیا کوئی زمین کے اس سرے سے اس سرے تک ایسا متنفس ہے کہ قرآن شریف کے ان چمکتے ہوئے نوروں کا مقابلہ کر سکے۔ کوئی نہیں ایک بھی نہیں۔’’

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ291-292 حاشیہ در حاشیہ نمبر1)

یہ آپؑ کی اسلام کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے ایک مضبوط دلیل تھی مگر کوئی غیر مسلم حق و باطل میں امتیاز کرنے کی غرض سے قادیان نہ آیا۔ یہ آسمانی دعوت حضورؑ نے اپنی ساری حیات مبارکہ میں بر قرار رکھی اور بار بار دعوت دی کہ تااسلام کی صداقت اور اس کی عظمت مخالفین پر کھل جائے اور اسلام کا زندہ مذہب ہونا ثابت ہو جائے۔

آئینہ کمالات اسلام

پھر آپؑ نے آئینہ کمالات اسلام تحریر فرمائی۔ اس تصنیف میں حضورؑ نے دفاع اسلام کے سلسلہ کو جاری رکھا۔ اس کتاب کا پس منظر یہ ہے کہ ایک طرف سے عیسائی پادری اسلام اور بانیٔ اسلام اور قرآن کریم پر بے تحاشا اعتراضات اور الزامات گھڑ رہے تھے۔ دوسری طرف علماء اسلام ایسے مضر عقائد کے حامل تھے کہ عیسائی پادریوں کا کام آسان کر دیتے تھے اور حضرت عیسیٰؑ کی آنحضرت ﷺ پر فضیلت ثابت کر دیتے تھے اور دراصل دشمنان اسلام کی تقویت کا باعث بن رہے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی آئینہ کمالات اسلام کی غرض تالیف یہ تھی کہ اسلام کے محاسن اور خوبصورت تعلیمات کا مزین چہرہ دنیا کے سامنے پیش کریں اور ان اعتراضات اور الزامات اور غلط فہمیوں کو دور کریں جو دشمنان اسلام اور مسلمان قوم میں رائج ہو چکی تھیں۔ آپؑ نے اسلام کی اعلیٰ تعلیمات اور رسول اللہ ﷺ کی برتری اور فوقیت ثابت کی اور قرآنی حقائق اور زندہ نشانات سے دنیا کو متنبہ کیا۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘اِس زمانہ میں جو مذہب اور علم کی نہایت سرگرمی سے لڑائی ہو رہی ہے اس کو دیکھ کر اور علم کے مذہب پر حملے مشاہدہ کر کے بے دل نہیں ہونا چاہیئے کہ اب کیا کریں یقیناً سمجھو کہ اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے جیسا کہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری طاقت دکھلا چکا ہے۔ یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلّت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا۔ حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں۔ کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجام کار ان کے لئے ہزیمت ہے۔ میں شکر نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے جس علم کی رو سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کو جہالتیں ثابت کر دے گا اسلام کی سلطنت کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ اور طبعی کی طرف سے ہو رہے ہیں اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں۔ یہ اقبال روحانی ہے اور فتح بھی روحانی تا باطل علم کی مخالفانہ طاقتوں کو اس کی الٰہی طاقت ایسا ضعیف کرے کہ کالعدم کر دیوے……’’

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 254-255 حاشیہ)

پیشگوئی مصلح موعود کا اعلان

1886ء میں حضورؑ کو اللہ تعالیٰ نے تحریک فرمائی کہ آپؑ قادیان سے باہر چلہ کشی کریں اور آپؑ نے اس کا ارادہ فرمایا اور الہاماً خبر پاکر ہوشیارپور کا قصد کیا۔ یہاں آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ آپؑ کے بعد آپ کا فرزند اسلام کے تبلیغی اور دفاعی مہمات کو جاری رکھے گا اور اسلام کی تائید و نصرت کا یہ ایک بہت بڑا زندہ نشان تھا۔ یہ پیشگوئی جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کے وجود میں پوری ہوئی آج تک اپنی عظمت ظاہر کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کے ذریعہ سے جماعت کو اس قدر ترقیات بخشیں کہ آج تک جماعت کو اسلام اور بانی اسلام کا دفاع کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔

فتح اسلام

1890ء کے آخر پر آپؑ نے فتح اسلام تحریر فرمائی جس میں پہلی دفعہ آپؑ نے مسیح موعود اور مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور اسی دوران آپؑ پر اللہ تعالیٰ نے وفات مسیح کی حقیقت کو کھول دیا۔ اسلام کی حمایت اور مخالفین پر اتمام حجت کی غرض سے آپ نے فتح اسلام میں ملت اسلامیہ کی اشاعت اور اس کے پُر معارف حقائق کھولنے کے پانچ وسائل بیان کیے۔ آپ علیہ السلام نے امت مسلمہ کو خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا:
’’اے دانشمندو! تم اس سے تعجب مت کرو کہ خدا تعالیٰ نے اس ضرورت کے وقت میں اور اس گہری تاریکی کے دنوں میں ایک آسمانی روشنی نازل کی اور ایک بندہ کو مصلحتِ عام کے لئے خاص کر کے بغرض اعلائے کلمۂ اسلام و اشاعتِ نُور حضرت خیر الانام اور تائید مسلمانوں کے لئے اور نیز اُن کی اندرونی حالت کے صاف کرنے کے ارادہ سے دنیا میں بھیجا۔ تعجب تو اس بات میں ہوتا کہ وہ خدا جو حامی دین اسلام ہے جس نے وعدہ کیا تھا کہ میں ہمیشہ تعلیم قرآنی کا نگہبان رہوں گا اور اسے سرد اور بے رونق اور بے نور نہیں ہونے دوں گا۔ وہ اس تاریکی کو دیکھ کر اور اِن اندرونی اور بیرونی فسادوں پر نظر ڈال کر چپ رہتا…… اگر تعجب کی جگہ تھی تو یہ تھی کہ اُس پاک رسول کی یہ صاف اور کھلی کھلی پیشگوئی خطا جاتی جس میں فرمایا گیا تھا کہ ہر ایک صدی کے سر پر خدا تعالیٰ ایک ایسے بندہ کو پیدا کرتا رہے گا کہ جو اس کے دین کی تجدید کرے گا سو یہ تعجب کا مقام نہیں بلکہ ہزار در ہزار شکر کا مقام اور ایمان اور یقین کے بڑھانے کا وقت ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے وعدہ کو پورا کر دیا اور اپنے رسول کی پیشگوئی میں ایک منٹ کا بھی فرق پڑنے نہیں دیا اور……آئندہ کے لئے بھی ہزاروں پیشگوئیاں اور خوارق کا دروازہ کھول دیا۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 6-7)

اس کتاب میں آپؑ نے مسلمانوں کو بالخصوص مخاطب کیا کہ تا مسلمان اپنی اصلاح کرتے ہوئے اسلام کو بیرونی اور اندرونی حملوں سے بچائیں اور مخالفین کے سامنے ثابت قدمی سے پیش آتے ہوئے روشن دلائل سے دین کی مدافعت میں لگ جائیں۔

جلسہ اعظم مذاہب اور اسلامی اصول کی فلاسفی

1896ء میں حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے دفاع کے لئے جلسہ اعظم مذاہب کی صورت میں ایک عظیم الشان موقعہ نصیب کیا۔ اس جلسہ کا مقصد یہ تھا کہ سچے مذہب کے کمالات اور خوبیاں ایک عام مجمع میں ظاہر کی جائیں اور اس کے دلائل اور براہین لوگ سمجھ سکیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جو اسلام کے دفاع کے لئے پچھلے پندرہ سال سے مساعی کرتے رہے تھے، اس موقعہ کو پا کر مسرت کا اظہار کیا۔ اس سے جلسہ کے سامعین کو بھی مختلف مذاہب میں تمیز اور موازنہ کرنے کی توفیق ملی۔ چنانچہ جب جلسہ منعقد کیا گیا اور حضورؑ کا مضمون پڑھا گیا تو انتظامیہ نے جلسہ کے ایام میں ایک اور دن بڑھا دیا تا کہ مضمون مکمل کیا جا سکے۔ لوگوں پر مضمون کا بہت گہرا اثر پڑا۔ ایک اخبار نے لکھا:
’’اس جلسہ میں سامعین کو دلی اور خاص دلچسپی مرزا غلام احمدؑ قادیانی کے لیکچر کے ساتھ تھی جو اسلام کی حمایت و حفاظت میں ماہر کامل ہیں۔‘‘

(سول اینڈ ملٹری گزٹ ماخذ روحانی خزائن جلد10 تعارف کتب)

ایک اور اخبار نے لکھا:
’’مرزا صاحب نے کل سوالوں کے جواب (جیسا کہ مناسب تھا) قرآن شریف سے دئیے اور تمام بڑے بڑے اصول اور فروعاتِ اسلام کو دلائل عقلیہ سے اور براہین فلسفہ کے ساتھ مبرہن اور مزین کیا۔‘‘

(اخبار چودھویں صدی راولپنڈی بمطابق یکم فروری 1897ء ماخذ روحانی خزائن جلد 10 تعارف کتب)

ایک اور اخبار نے لکھا:
’’جلسے میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے روبرو ذلّت و ندامت کا قشقہ لگتا۔ مگر خدا تعالیٰ کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچا لیا۔ بلکہ اُس کو اِس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین مخالفین بھی سچی فطرتی جوش سے کہہ اٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے۔ بالا ہے۔ صرف اسی قدر نہیں بلکہ اختتام مضمون پر حق الامر معاندین کی زبان پر یوں جاری ہو چکا کہ اب اسلام کی حقیقت کھلی اور اسلام کو فتح نصیب ہوئی…… اب اس کی مخالفت میں دم زدن کی گنجائش ہے ہی نہیں۔ بلکہ وہ ہمارے فخر و ناز کا موجب ہے اس لئے اِس میں اسلامی شوکت ہے۔ اور اِسی میں اسلامی عظمت اور حق بھی یہی ہے۔‘‘

(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب لاہور ماخذ روحانی خزائن جلد 10 تعارف کتب)

بشپ جارج الفریڈ کی شکست اور اسلام کی فتح

مئی 1900ء میں جب بانی اسلام پر ایک بشپ صاحب نے یہ اعتراض کیا اور ساتھ تردید کا چیلنج دیا کہ نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ گناہگار تھے تو حضورؑ نے نہ صرف اس کی تردید کی بلکہ مضامین کا سلسلہ لکھا جس میں دیگر انبیاء کے بالمقابل آنحضرت ﷺ کے اعلیٰ و ارفع مقام کی امتیازی حیثیت بیان کی اور انبیاء کے استغفار کرنے کی حقیقت کو کھول دیا۔ آپؑ نے آنحضرت ﷺ کا ہر جہت سے اعلیٰ اور برتر ہونا نمایاں کر دکھایا۔

آپؑ نے بشپ صاحب کو چیلنج بھی دیتے ہوئے فرمایا:
’’اگر بشپ صاحب تحقیق حق کے در حقیقت شایق ہیں تو وہ اس مضمون کا اشتہار دے دیں کہ ہم مسلمانوں سے اسی طریق سے بحث کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں نبیوں میں سے کمالات ایمانی و اخلاقی و برکاتی و تاثیراتی و قولی و فعلی و ایمانی و عرفانی و علمی و تقدسی اور طریق معاشرت کے رو سے کون نبی افضل و اعلیٰ ہے۔ اگر وہ ایسا کریں اور کوئی تاریخ مقرر کر کے ہمیں اطلاع دیں تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی شخص تاریخ مقررہ پر ضرور جلسہ قرار دادہ پر حاضر ہو جائے گا ورنہ یہ طریق محض ایک دھوکہ دینے کی راہ ہے جس کا یہی جواب کافی ہے اور اگر وہ قبول کر لیں تو یہ شرط ضروری ہو گی کہ ہمیں پانچ گھنٹہ سے کم وقت نہ دیا جائے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 28)

حضورؑ کا اسلام کے دفاع میں اس عظیم الشان معرکہ کے نتیجہ کا ذکر کرتے ہوئے دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت لکھتے ہیں:
’’عیسائیوں کی سرگرمیوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت جلد پورے ہندوستان کو زیر نگیں کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ مگر خدا کی قدرت!! انیسویں صدی ختم نہیں ہوئی کہ کاسر صلیب کے ہاتھوں اسلام کو عیسائیت کے مقابل زبردست اور نمایاں فتح حاصل ہو گئی۔ اس معرکہ نے تثلیث پرستوں کے حوصلے انتہائی پست کر ڈالے اور پھر آج تک کسی بشپ کو جراٴت نہ ہو سکی کہ وہ بر ملا مسلمانوں کو گزشتہ انداز میں بحث کا چیلنج دے سکے بلکہ اس کے بر عکس یہ تبدیلی رو نما ہوئی کہ دوران گفتگو جوں ہی پادریوں کو معلوم ہوتا کہ ان کا مخاطب کوئی احمدی ہے تو وہ بحث بند کر دیتے اپنا کیمپ اکھاڑ کر دوسری طرف چل دیتے تھے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 95)

جان الیگزینڈر ڈوئی کی پیشگوئی اور چیلنج مباہلہ

حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں بہت سے دشمنان اسلام کو آپؑ نے عاجز کر دیا مگر ان میں سے ایک نمایاں اور حضورؑ کی اسلام کے دفاع میں جوش و غیرت کا ایک عظیم الشان نمونہ جان الیگزینڈر ڈوئی کی پیشگوئی اور چیلنج مباہلہ ہے۔ اس واقعہ کے بہت سے پہلو ہیں مگر اختصار سے یہ بیان کرنا کافی ہے کہ ڈوئی اسلام کا سخت دشمن تھا۔ حضورؑ کو خبر پہنچی تو حضورؑ نے اسلام کے دفاع کے لئے ڈوئی کو مباہلہ کا ان الفاظ میں چیلنج دیا:
’’ہم ڈوئی صاحب کی خدمت میں بادب عرض کرتے ہیں کہ اس مقدمہ میں کروڑوں مسلمانوں کے مارنے کی کیا حاجت ہے ایک سہل طریق ہے جس سے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ آیا ڈوئی کا خدا سچا خدا ہے یا ہمارا خدا۔ وہ بات یہ ہے کہ وہ ڈوئی صاحب تمام مسلمانوں کو بار بار موت کی پیشگوئی نہ سناویں بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ دعا کر دیں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے کیونکہ ڈوئی یسوع مسیح کو خدا جانتا ہے مگر میں اس کو ایک بندہ عاجز مگر نبی جانتا ہے۔ اب فیصلہ طلب یہ امر ہے کہ دونوں میں سے سچا کون ہے۔ چاہیے کہ اس دعا کو چھاپ دے اور کم سے کم ہزار آدمی اس پر گواہی لکھے اور جب وہ اخبار شائع ہو کر میرے پاس پہنچےگی تب میں بھی بجواب اس کے یہی دعا کروں گا اور انشاء اللہ ہزار آدمی کی گواہی لکھ دوں گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ڈوئی کے اس مقابلہ سے اور تمام عیسائیوں کے لئے حق کی شناخت کے لئے ایک راہ نکل آئے گی۔ میں نے ایسی دعا کے لئے سبقت نہیں کی بلکہ ڈوئی نے کی۔ اس سبقت کو دیکھ کر غیور خدا نے میرے اندر یہ جوش پیدا کیا……اگر ڈوئی اپنے دعویٰ میں سچا ہے اور در حقیقت یسوع مسیح خدا ہے تو یہ فیصلہ ایک ہی آدمی کے مرنے سے ہو جائے گا……ہم اس جواب کے لئے ڈوئی کو تین ماہ تک مہلت دیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا سچوں کے ساتھ ہو۔ آمین۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 273-274)

زندہ خدا کی تجلیاں اسلام کی تائید اور دفاع میں حضرت مسیح موعودؑ کے لئے ہمیشہ آتی رہیں اور اس دفعہ بھی اللہ تعالیٰ نے ایک اور بار اپنا نشان دکھایا اور ڈوئی کا تنزل شروع ہو گیا اور وہ حضورؑ کی زندگی میں ہی مر گیا۔ اسلام کے لئے یہ ایک اور فتح عظیم تھی۔ چنانچہ جب حضورؑ کو خبر ملی کہ آپؑ کی پیشگوئی کے مطابق مر گیا ہے تو آپؑ نے ایک اور اشتہار چھپوایا اور فرمایا:
’’…… (ڈوئی) اسلام کا سخت درجہ پر دشمن تھا اور علاوہ اس کے اُس نے جھوٹا دعویٰ پیغمبری کا کیا اور حضرت سید النبیین و اصدق الصادقین و خیر المرسلین و امام الطیبین جناب تقدس مآب محمد مصطفیٰ ﷺ کو کاذب اور مفتری خیال کرتا تھا اور اپنی خباثت سے گندی گالیاں اور فحش کلمات سے آنجناب کو یاد کرتا تھا …… اب ظاہر ہے کہ ایسا نشان (جو فتح عظیم کا موجب ہے) جو تمام دنیا ایشیا اور امریکہ اور یورپ اور ہند و ستان کے لئے کھلا کھلا نشان ہو سکتا ہے وہ یہی ڈوئی کے مرنے کا نشان ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 413-419)

پس حضورؑ کی حیات طیبہ میں دین مصطفیٰؐ کی تائید اور دفاعی مہم صرف ہند و ستان تک محدود نہ تھی۔ بلکہ ڈوئی کے واقعہ کی اشاعت ساری دنیا میں ہوئی اور اس نظارے کا مشاہدہ ایک عالم نے کیا۔

رسالہ تشحیذ الاذہان کا اجراء

مارچ 1906ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی ادارت میں ایک سہ ماہی رسالہ کا اجراء ہوا جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تشحیذالاذہان رکھا۔ اس رسالہ کے اغراض میں سے چند قابل ذکرمندرجہ ذیل ہیں:

  1. اسلام کا نورانی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا۔
  2. اسلام اور خصوصاً سلسلہ احمدیہ پر اعتراضات کا تہذیب کے ساتھ رد کرنا۔

(تشحیذ الاذہان جلد نمبر 1 سرورق 4 ماخذ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 457)

اس رسالہ نے بہت کامیابی دیکھی اور کئی سال اپنے اغراض کو پورا کرتا رہا۔ آج جماعت احمدیہ کے دیگر رسالہ جات انہی اغراض پر قائم ہیں جن میں اردو رسالہ جات الفضل، البدر اور موازنہ مذاہب قابل ذکر ہیں اور انگریزی رسالہ جات الحکم اور ریویو آف ریلیجنز بھی قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے البدر، الحکم اور ریویو آف ریلیجنز کا اجراء حضورؑ کے دست مبارک سے ہوا۔

الغرض حضرت مسیح موعودؑ کی ساری پاک سوانح کا لب لباب دفاع اسلام ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اگر آپؑ کی حیات مبارکہ پر ایک گہری نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ دفاع اسلام ساری زندگی پر محیط تھی۔ آپؑ ہمارے لئے ایک روشن نمونہ ہیں اور آج تک آپ کے خلفاء نے یہ سلسلہ جاری رکھا ہے۔ آج بھی ہم حضورؑ کے مساعی کی برکات و فیوض سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

مگر حضور کا یہ اعلیٰ نمونہ ہم پر ایک عظیم ذمہ داری ڈالتا ہے۔ اب ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کے دفاع کا یہ سلسلہ جاری رکھیں تاکہ ہم آپؑ کی جماعت کے حقیقی متبع ٹھہریں۔ چنانچہ حضورؑ فرماتے ہیں:
’’اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا۔ یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔ اسی اسلام کا زندہ کرنا خدا تعالیٰ اب چاہتا ہے اور ضرور تھا کہ وہ مہم عظیم کے رو براہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا۔ سو اس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاح خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا اور دنیا کو حق اور راستی کی طرف کھینچنے کے لئے کئی شاخوں پر امر تائید حق اور اشاعت اسلام کو منقسم کر دیا۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 10-12)

نیز حضورؑ نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’اس وقت جو ہم پر قلم کی تلواریں چلائی جاتیں ہیں اور اعتراضات کے تیروں کی بو چھاڑ ہو رہی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنی قوتوں کو بےکار نہ کریں اور خدا کے پاک دین اور اس کے برگزیدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے اثبات کے لئے اپنے قلموں کے نیزوں کو تیز کریں۔‘‘

(ملفوظات جدید ایڈیشن جلد 1 صفحہ 213)

پس اب ہمارا کام ہے کہ ہم حضورؑ کے حقیقی جانشین بننے کے لئے حضورؑ کے کام کو جاری رکھیں۔ اس کے لئے بیان کرنا ضروری ہے کہ سلسلہ مدافعت اسلام آپؑ کی زندگی میں ہر گز ختم نہ ہوا بلکہ آپؑ کے خلفاء نے آپؑ کے مذکورہ بالا ارشاد کے مطابق یہ سلسلہ جاری رکھا اور آج جبکہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کی پانچویں مظہر کا براہ راست مشاہدہ کر رہے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ کام جاری رکھا ہوا ہے اور آپ ہمیشہ جماعت کو اس طرف توجہ دلاتے بھی رہتے ہیں اور خود بھی ہمارے لئے حضرت مسیح موعودؑ کے پاک نمونہ پر چلتے ہوئے اعلیٰ مثالیں قائم کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ آپ ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

‘‘اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ

(حٰم السجدۃ: 35)

کہ ایسی چیز سے دفاع کر جو بہترین ہو۔ تب ایسا شخص جس کے اور تیرے درمیان دشمنی تھی وہ گویا اچانک ایک جاں نثار دوست بن جائے گا۔ پس بہترین دفاع اسلام کی خوبصورت تعلیم سے، اور اس تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے سے ہو گا۔ یہ سب الزامات جو آج اسلام پر لگائے جاتے ہیں اُن کو عملی نمونے کے ساتھ دھونے کے لئے، اس پیغام کو پہنچانا بہت ضروری ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 16 جون 2006ء بحوالہ خطبات مسرور جلد4 صفحہ299)

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کے حقیقی سلطان نصیر بننے کی توفیق دے اور ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی توقعات کو پورا کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

(جاذب محمود۔ طالب علم، جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

الہام ’’میں تیری تبلیغ کو ۔۔۔‘‘ اور سرزمین امریکہ (قسط 1)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مارچ 2022