• 18 مئی, 2024

؎ کیوں عجب کرتے ہو گر میں آگیا ہو کر مسیح

یہ وہ عظیم الشان موضوع ہے جس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پاک الفاظ میں مختلف پہلوؤں اور زاویوں سے بڑی تفصیل سے اپنی کتب میں روشنی ڈالی ہے اور اتمام حجت کا حق ادا کر دیا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ ؑ کے پاک اور مقدس الفاظ میں اس مضمون کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالوں۔ و باللّٰہ التوفیق

اس مضمون کا ایک پہلو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس شعر کے دوسرے مصرعہ میں یوں بیان فرما دیا ہے کہ:

خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِبہار

کہ زمانہ کی آواز تو سنو کہ وقت خود پکار پکار کر کسی مسیحا کا منتظر اور متلاشی ہے جیسا کہ اپنے اس شعر میں بیان فرماتے ہیں۔

اسمعوا صوت السماء جاء المسیح جاء المسیح
نیز بشنو از زمیں آمد امام کامگار

کہ آسمان کی آواز تو سنو جو مسیح کی آمد کا بگل بجا رہی ہے اور خوشخبری دے رہی ہے کہ مسیح آگیا مسیح آگیا۔ اسی طرح زمین بھی امام وقت کی آمد کا نقارہ بجا رہی ہے۔ مگر تم تعجب کی اتھاہ گہرائیوں میں گرفتار ہو

پھر اسی مضمون کو اپنے اس شعر میں یوں بیان فرمایا

وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا

اس شعر کے دوسرے مصرعہ میں یہ بیان فرمادیا کہ بحر و بر میں فساد برپا ہو چکا اور زمین ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا نظارہ پیش کر رہی ہے اور تم ابھی تعجب و حیرانگی کے سمندر میں غوطے مار رہے ہو کہ یہ کیا ہو گیا اور مسیح موعود ہمیں خواب غفلت سے جگانے کیوں آگیا؟

فرمایا:
’’خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پا کر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لیے مامور فرمایا۔۔۔ وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا۔۔۔ وہ میں ہی ہوں۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 3-4)

*پھر فرمایا:
’’درحقیقت یہ ایسا زمانہ آگیا ہے کہ شیطان اپنے تمام ذریات کے ساتھ ناخنوں تک زور لگا رہا ہے کہ اسلام کو نابود کر دیا جاوے۔۔۔اس لیے یہ زمانہ بھی اس بات کا حق رکھتا تھا کہ اس کی اصلاح کے لیے کوئی خدا کا مامور آوے پس وہ مسیح موعود ہے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 94-95)

*نیز فرمایا:
’’خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راست بازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے کہ تا وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 251)

*پھر فرماتے ہیں۔
’’زمین بگڑ گئی اور آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے پر لوگوں کا ایمان نہیں رہا۔ ہونٹوں پر اس کا ذکر ہے لیکن دل اس سے پھر گئے ہیں اس لیے خدا نے کہا کہ اب میں نیا آسمان اور نئی زمین بناؤں۔۔۔ وہ کیا ہے نیا آسمان؟ اور کیا ہے نئی زمین؟ نئی زمین وہ پاک دل ہیں جن کو خدا اپنے ہاتھ سے تیار کر رہا ہے جو خدا سے ظاہر ہوئے اور خدا ان سے ظاہر ہوگا۔ اور نیا آسمان وہ نشان ہیں جو اس کے بندے کے ہاتھ سے اسی کے اِذن سے ظاہر ہو رہے ہیں‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 7)

*حضور اقدس اپنی آمد کی غرض کا عظیم الشان روحانی فائدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’اس تاریکی کے زمانہ کا نور میں ہی ہوں۔ جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لیے تیار کئے ہیں۔ مجھے اس نے بھیجا ہے کہ تا میں امن اور حلم کے ساتھ دنیا کو سچے خدا کی طرف رہبری کروں‘‘

(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 13)

*ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیاء ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لیے میں دنیا میں بھیجا گیا۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306-307)

نیز فرمایا:
’’میں ظاہر ہوا ہوں تا خدا میرے ذریعہ سے ظاہر ہو۔ وہ ایک مخفی خزانہ کی طرح تھا مگر اب اس نے مجھے بھیج کر ارادہ کیا کہ تمام دہریوں اور بے ایمانوں کا منہ بند کرے جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 619-620)

*اسی طرح ایک اور نقطہ نگاہ سے اس کی تفصیل یوں بیان فرمائی۔
’’وہی ایک نبی ہے جس کے لیے ہر ایک زمانہ میں خدا اپنی غیرت دکھلاتا رہا ہے۔۔۔اسی طرح اس زمانہ میں بھی اس پاک نبی کی بہت توہین کی گئی اس لیے خدا کی غیرت نے جوش مارا اور سب گزشتہ زمانوں سے زیادہ جوش مارا اور مجھے اس نے مسیح موعود کر کے بھیجا تا کہ میں اس کی نبوت کے لیے تمام دنیا میں گواہی دوں‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ618-619)

* ’’کیوں عجب کرتے ہو گر میں آ گیا ہو کر مسیح‘‘ کا ایک عظیم الشان پہلو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’میرے مقابل پر کسی مخالف کو تاب و تواں نہیں کہ اپنے دین کی سچائی ثابت کر سکے۔ میرے ہاتھ سے آسمانی نشان ظاہر ہورہے ہیں اور میری قلم سے قرآنی حقائق اور معارف چمک رہے ہیں۔ اٹھو اور تمام دنیا میں تلاش کرو کہ کیا کوئی عیسائیوں میں سے یا سکھوں میں سے یا یہودیوں میں سے یا کسی اور فرقہ میں سے کوئی ایسا ہے کہ آسمانی نشانوں کے دکھلانے اور معارف اور حقائق کے بیان کرنے میں میرا مقابلہ کر سکے۔ میں وہی ہوں جس کی نسبت یہ حدیث صحاح میں موجود ہے کہ اس کے عہد میں تمام ملتیں ہلاک ہو جائیں گی۔ مگر اسلام کہ وہ ایسا چمکے گا جو درمیانی زمانوں میں کبھی نہیں چمکا ہوگا۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 267-268)

* ایک اور زاویہ نگاہ سے اس موضوع کو یوں بیان فرمایا کہ ہماری مجلس دنیاوی مجالس کی نسبت ایک عظیم اور روحانی اور خدا نما مجلس ہے پھر بھی تم لوگ میرے مسیح بننے پر تعجب کرتے ہو۔ فرمایا:
’’اس کے فضل و کرم سے ہماری مجلس خدا نما مجلس ہے۔ جو شخص اس مجلس میں صحت نیت اور پاک ارادہ اور مستقیم جستجو سے ایک مدت تک رہے تو میں یقین کرتا ہوں کہ اگر وہ دہریہ بھی ہو تو آخر خداتعالیٰ پر ایمان لاوے گا۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 55)

*آپ علیہ السلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسمان سے وقت پر
میں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار

’’یہ عجیب سخت دلی ہے جو سمجھ میں نہیں آتی۔ جبکہ میرے دعویٰ کے ساتھ سب نشان ظاہر ہو چکے اور میری مخالفت میں کوششیں بھی ہو کر ان میں نامرادی اور ناکامی رہی مگر پھر بھی انتظار کسی اور کی ہے؟۔۔۔ میں یہ پیشگوئی کرتا ہوں کہ میرے بعد قیامت تک کوئی مہدی نہیں آئے گا جو جنگ اورخوں ریزی سے دنیا میں ہنگامہ برپا کرے اور خدا کی طرف سے ہو اور نہ کوئی ایسا مسیح آئے گا جو کسی وقت آسمان سے اترے گا۔ ان دونوں سے ہاتھ دھو لو یہ سب حسرتیں ہیں جو اس زمانہ کے تمام لوگ قبر میں لے جائیں گے۔۔۔جو شخص آنا تھا وہ آچکا وہ میں ہی ہوں جس سے خدا کا وعدہ پورا ہوا۔ جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا وہ خدا سے لڑتا ہے کہ تو نے کیوں ایسا کیا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 633)

* ’’مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افتراء کرنا لعنتیوں کا کام ہے کہ اس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے۔۔۔میرے لیے زمین نے بھی گواہی دی اور آسمان نے بھی۔ اس طرح پر میرے لئے آسمان بھی بولا اور زمین بھی کہ میں خلیفۃ اللہ ہوں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 210)

* ’’اس زمانہ کے لوگوں کو میں کس سے تشبیہ دوں وہ اس بد قسمت کی طرح ہیں جس کی آنکھیں بھی ہیں پر دیکھتا نہیں اور کان بھی ہیں پر سنتا نہیں اور عقل بھی ہے پر سمجھتا نہیں۔ میں ان کے لیے روتا ہوں اور وہ مجھ پر ہنستے ہیں اور میں ان کو زندگانی کا پانی دیتا ہوں اور وہ مجھ پر آگ برساتے ہیں۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 619)

کیوں عجب کرتے ہو گر میں آگیا ہو کر
مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ باد بہار
اس میں میرا جرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا
کون ہوں تا رد کروں حکم شہ ذی الاقتدار

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الہام ’’میں تیری تبلیغ کو ۔۔۔‘‘ اور سرزمین امریکہ (قسط 1)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مارچ 2022