• 19 مئی, 2024

رمضان کے فضائل

ہم آج ایک بہت ہی مبارک مہینہ جو تمام مہینوں کا سردار ہے، میں داخل ہورہے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی بساط اور طاقت سے، عبادات کے ذریعہ، جانی اور مال کی قربانیوں کے ذریعہ رمضان کو اپنے اندر داخل کرنے کی کوشش کرے گا اور جس کسی کےا ندر رمضان داخل ہو گیا وہی خدا کی نگاہ میں کامیاب ٹھہرا۔ کیونکہ یہی رمضان کا مقصد اور لب لباب ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے رمضان کو اپنے اندر داخل کرنے کے لئے جو طریق ہمارے بزرگوں، آباؤ اجداد نے اپنائے اور وہ لوگ خدا کے بن گئے اور خدا ان کا ہو گیا وہ جاننے ضروری ہیں۔

سب سے بڑھ کر ہمارے بزرگ تو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح رمضان گزارے۔ کس طرح رمضان ان کے اندر داخل ہوتے گئے۔

آپؐ عبادات میں اضافہ فرماتے،نوافل بڑھادیتے، قرآن کریم کی تلاوت کثرت سے فرماتے، تسبیحات بہت کرتے گویا کمر ہمت کس لیتے۔مخلوق بالخصوص غرباء کی دیکھ بھال فرماتے۔صدقہ و خیرات کثرت سے کرتے۔ گویا تیز آندھی سے بھی زیادہ کرتے یوں لگتا جیسے معمولات زندگی یکسر بدل گئے ہیں۔ اتنے لمبے رکوع و سجود فرماتے کہ

حضرت سودہؓ فرماتی ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز میں کھڑی ہو گئی۔ مگر آپؐ کے رکوع اور سجود اتنے لمبے تھے کہ مجھے لگتا تھا کہ میری نکسیر پھوٹ پڑے گی۔اس لئے میں دیر تک ناک پکڑے کھڑی رہی۔ بعد میں جب رسول اللہ ﷺ کو بتایا تو آپؐ مسکرا دئیے۔

(الاصابہ)

آنحضور ﷺ زندگی کو ایک سفر سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔

ایک دفعہ آپؐ چٹائی پر لیٹ گئے۔ نرم و نازک جسم پر نشان پڑ گئے۔ صحابہؓ نے عرض کی کہ گدیلا کا انتظام کر دیں تو فرمایا میں تو ایک مسافر کی طرح ہوں جو کچھ آرام کے لئے ایک درخت کے نیچے آرام کرتا ہے پھر چل پڑتا ہے اور کچھ دیر کے بعد دوسرے درخت تلے آرام کرلیتا ہے۔

اس واقعہ میں ہم سب کے لئے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ سفر کرتے وقت یا سفر پر جاتے وقت سفر کے تمام تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سفر کی بھر پور تیاری کرتے ہیں۔ زادِراہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ سفر میں متوقع hardles پر پیشگی غور کرتے ہیں۔ اپنے سامان کو ہلکا رکھتے ہیں تا سفر میں آسانی پیدا ہو۔ ہم اپنی اصطلاح میں اس کو excess luggages بولتے ہیں۔ زندگی کے سفر میں بھی ہمارے ساتھ جو excess luggages ہیںجیسے جھوٹ، نفرت، ہر بُرا خُلق اس کو اتار پھینکیں تا زندگی کا سفر بھی آسان ہو اس کے لئے رمضان بطور پریکٹس ایک بہترین تربیت گاہ ہے۔

حضرت مرزا بشیر احمدؓ کا نسخہ ہے کہ ہر ماہ ایک نیکی اپنائیں اور ایک بدی ترک کرنے کا ارادہ کریں۔

اگر رمضان ایک نماز کا عادی بنا گیا تو سمجھیں کہ یہ رمضان کامیابی کے ساتھ گزر گیا۔

دنیا اور زندگی کی بات ہو رہی تھی اس بارہ میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زندگی ایک سہانا سفر ہے۔ اسلامی نکتہ نگاہ سے کفار اورغیر مومنوں کے لئے سہانا سفر ہے مگر مومنوں کے لئے تو قید خانہ ہے جیسا کہ فرمایا

اَلدُّنْیَا سِجْنٌ لِلْمُؤْمِنِ وَ جَنَّۃٌ لِلْکَافِر

مومن کو اللہ کی رضا پر قدم مارنے کے لئے اپنے اوپر موت وارد کرنی پڑتی ہے۔ عبادات کی حقیقی لذت سے آشنا ہونے کے لئے اپنے اوپر سختی وارد کرنی پڑتی ہے۔راتوں کو نرم اور گرم بستر چھوڑ کر اللہ کے دربار میں حاضری دینی ہوتی ہے۔

؎ خاک کو مٹھی میں بھر کر دیکھیں گے
زندگی کیا ہے مر کے دیکھیں گے

مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کا بھی یہی مفہوم ہے کہ مرنے سے قبل اپنے اوپر ایک قسم کی موت وارد کرو جو دنیا کی آلائشوں سے الگ ہو کر اپنے خدا کی طرف سفر اختیار کرے اور اس کے لئےرمضان بہترین موقع ہے۔

جس طرح انسان گھر، کاروبار چلانے کےلئے اخراجات کو meet up کرنے کے لئے over time لگاتا ہے یا بسا اوقات کوئی نئی چیز خریدنے کا ارادہ ہوتا ہے تومتوسط طبقہ کا آدمی اس چیز کی خرید کے لئے دفتر میں زائد وقت لگاتا ہے۔ کاروباری آدمی کاروبار میں زیادہ وقت دیتا ہے۔

بعینہٖ رمضان اپنے روحانی معیاربڑھانےکےلئے اخلاقیات، مذہبی امور کو درست کرنے کے لئے خدا کے ساتھ تعلق اور رشتے کو مضبوط بنا نے کے لئے over time لگانے کا مہینہ ہے۔ روحانی زادِ راہ اکٹھی کرنے کا مہینہ ہے۔ bank balance بنانے کا مہینہ ہے۔ کیونکہ انسان کی اصل کمائی، اصل زر، اصل بچت یہی ہے۔ یہ دنیوی جائیداد جس کو دیکھ کر انسان بعض اوقات گھمنڈ کرتا ہے۔ انسان کے کسی کام نہیں آئے گی۔ انسان بغیر کپڑوں کے اس دنیا میں آیا اور بغیر کپڑوں کے اس دنیا سے جائے گا۔اس کا جمع کیا ہوا روپیہ،پیسہ، ڈالر یا سٹرلنگ پونڈ اس کے ساتھ نہیں جائےگا۔

اس لئے آنے والے دنوں کو معمولی سمجھ کر نہ گنوادیں، اس کی ایک ایک گھڑی، ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے۔ اس میں مضمر برکتوں کے حصول کے لئے سر توڑ کوشش کریں۔ راتوں کو اُٹھیں۔ نماز سنٹرز آباد کریں۔ نماز تراویح جہاں جہاں ہو رہی ہو وہاں حاضر ہو کر قرآن کریم سُنیں۔تسبیحات درود شریف کے لئے اپنے اوقات وقف کریں۔ قرآن کریم کا کم از کم ایک دور مکمل کریں بچوں سے بھی کروائیں۔ اپنے ماتحتوں کا خیال رکھیں۔ ماتحتوں سے مراد ملازم ہی نہیں بلکہ گھر میں بسنے والے تمام افراد بھی ہیں۔

رمضان کا ایک سبق مخلوق سے ہمدردی ہے۔ آنحضورؐ نےفرمایا: ’’رمضان میں مزدور سے کام ہلکا لیں۔‘‘

گھر کے ہر فرد سےکام کا بوجھ ہلکا کردیں۔افطاری یا سحری کی وجہ سے کام بڑھ جاتے ہیں۔ گھر کے تمام افراد مِل جُل کر ایک د وسرے کا ہاتھ بٹائیں۔

فرمایا: افطاری کے لئے جو شخص بازار سے کوئی چیز لاکر دیتا ہے وہ بھی ثواب کا مستحق ہے۔ اس حکم کے مطابق افطاری تیار کرنے والے کو بھی ثواب ملتا ہے۔ یہ بھی خدا تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے کیونکہ وہ عیال ہے۔ اسلامی حکومتیں اپنے ملازمین کے لئے working hours میں کمی کردیتی ہیں۔ دراصل وہ مندرجہ بالا حدیث پر عمل کر رہی ہوتی ہیں۔

رمضان میں نیکیاں 700 گنا تک بڑھیں گی۔ یا ان کا اجر 700 گنا تک ملے گا۔ لیکن 700 گنا تک نیکیاں بنانے یا اجر پانے کے لئے فنافی اللہ کا سبق حاصل کرنا ضروری ہے۔

ایک دانہ جب قرآنی اُصول کے مطابق 700 دانوں میں تبدیل ہوتا ہے تو وہ دانہ اپنی ذات کو فنا کر دیتا ہے۔ اس کا اپنا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ اِسی اصول کو اپناتے ہوئے اپنے وجود کو ہست سے نیست میں تبدیل کرنا ہے۔

جو کونپلیں جو کلیاں ہمارے روحانی درختوں پر ماہ شعبان میں وجود میں آئی تھیں۔ اب وہ پھلوں میں تبدیل ہونے والی ہیں اور جب درختوں پر پھل لگتے ہیں تو ان کی ٹہنیاں جھک جایا کرتی ہیں۔ پس یہ اُصول بھی اپنانا ہے کہ خدا کے آگے بھی جھکنا ہے۔ اس کی مخلوق سے بھی عاجزی سے پیش آنا ہے۔ صرف زبان سے عاجزی نہیں بلکہ اپنے عمل سے دکھلانا ہے اور رمضان کی سرحدوں پر عبادات کی چھاؤنیاں قائم کرنی ہیں۔ حفاظت کے لئے ان سرحدوں پر گھوڑے باندھنے ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا اور درجات بلند کرتا۔ صحابہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ضرور بتائیے۔ آپؐ نے فرمایا:

’’دل نہ چاہنے کے باوجود خوب اچھی طرح وضو کرنا، مسجد میں دور سے چل کر آنا اور ایک نماز کےبعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔ یہ رباط ہے۔‘‘ (یعنی سرحد پر چھاؤنی قائم کرنا)

حضرت ربیعہ بن کعبؓ سے آنحضورؐ نے پوچھا کوئی خواہش ہے؟ عرض کی۔ جنت میں بھی آپؐ کی رفاقت نصیب ہو۔ آپؐ نے فرمایا : اپنے لئے کثرت سجود سے میری مدد کرو۔

(مسلم)


(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

افریقہ Covid-19 ڈائری نمبر7 ،23 ۔اپریل 2020

اگلا پڑھیں

افریقہ Covid-19 ڈائری نمبر8 ،24۔اپریل2020ء