• 26 اپریل, 2024

حکمت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جو بات ہو وہ دلوں کو نرم کرتی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر حکمت یہ بھی تقاضا کرتی ہے کہ کبھی کوئی غلط بات نہ ہوبلکہ سچی اور صاف بات ہو اور اسلام نے تو ایسی خوبصورت اور سچی تعلیم دی ہے، اسلام ایسا خوبصورت اور سچا مذہب ہے کہ اس کے لئے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے کہ کوئی گول مول بات کی جائے۔ ہم اُن علماء کی طرح نہیں جو کہتے ہیں کہ حکمت کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اگر جھوٹ بھی بولنا ہو تو بول دو اور یہ اُن کی تفسیروں کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ وہ حکمت کیسی ہے جس میں جھوٹ ہے؟ جہاں جھوٹ آیا وہاں انصاف، عدل اور امن ختم ہوا۔ اور جہاں یہ چیزیں ختم ہوئیں وہاں فتنہ و فساد پیدا ہوا اور یہی چیز آجکل ہم پاکستان میں اور دوسرے اسلامی ملکوں میں دیکھ رہے ہیں اور جب فتنہ پیدا ہو تو پھر وہاں اسلام نہیں رہتا۔

پس اسلام کی حقیقی تعلیم اگر کوئی پھیلا سکتا ہے، اگر کوئی بتا سکتا ہے تو وہ احمدی ہے جس کی ہر بات صداقت، عدل اور علم پر منحصر ہے۔ پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے ہر احمدی کی جو ہم نے ادا کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسی طرح حکمت کے تقاضے پورے کرو۔ یعنی اپنے علم کو بڑھاؤ، اپنے صبر کے معیار کو بڑھاؤ، اپنے عدل کے معیار کو بڑھاؤ، اپنی روزمرہ زندگی میں جس چیز کا اظہار ہوتا ہو، وہ کرو۔ اپنے اندر مزاج شناسی پیدا کرو کیونکہ مزاج شناسی کے بغیر بھی تبلیغ نہیں ہو سکتی۔ مزاج شناسی بھی تبلیغ کے لئے ایک اہم گُر ہے۔ تو پھر تمہارا وعظ جو ہے وہ اعلیٰ ہو سکتا ہے، تمہاری جو تبلیغ ہے وہ پُر حکمت ہو سکتی ہے۔ تب تم موعظہ حسنہ پر عمل کرنے والے ہو سکتے ہو۔ موعظہ حسنہ کاکا مطلب یہ ہے کہ ایسی بات جو دل کو نرم کرے۔

پس حکمت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جو بات ہو وہ دلوں کو نرم کرتی ہے۔ یہاں مختلف قومیں آباد ہیں ان کے لئے مختلف طریق سوچنے ہوں گے کہ کس طرح ان کو احسن رنگ میں تبلیغ کی جائے۔ اس کی طرف بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرما دی ہے کہ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ۔ یعنی تبلیغ ایسی احسن دلیل اور حکمت کے ساتھ ہو، تمہاری نصیحت ایسی دل کو لگنے والی ہو کہ دل نرم ہونے شروع ہو جائیں۔ تبلیغ کرنا ہر احمدی کا کام ہے۔ باقی اسے پھل لگانا خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ ہدایت فرمانا خدا تعالیٰ کا کام ہے لیکن اس کام کے لئے جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا اپنی حالتوں کو بدلنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ تبھی بات اثر کرتی ہے۔ تبھی دلیلیں کارگر ہوتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر نصیحت کرنے کے طریق کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’جسے نصیحت کرنی ہو اُسے زبان سے کرو۔ ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرایہ میں دوست بنا دیتی ہے۔ پس جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (النحل: 126) کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو۔ اسی طرزِ کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ104 ایڈیشن 2003ء)

پس یہ حکمت سے بات کرنا آپس میں بھی ضروری ہے اور تبلیغ کے لئے بھی ضروری ہے۔ تربیت کے لئے بھی ضروری ہے اور دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف بلانے کے لئے بھی ضروری ہے۔ تبلیغ کے راستے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کھول دئیے۔ اس سے فائدہ اُٹھانا اور ایک ہو کر ایک مہم کی صورت میں تبلیغ کے میدان میں اترنا اب افرادِ جماعت کا کام ہے۔ آپ پر منحصر ہے کہ کس حد تک اس کو بجا لاتے ہیں۔ اخباروں نے تو مسجد کے حوالے سے خبریں لگا دیں کہ اسلام نے جھنڈے گاڑ دئیے۔ خلیفہ نے کہا کہ سترھویں صدی میں مسلمانوں کو یہاں سے نکالا گیا تھا اب ہم نے واپس یہاں آنا ہے۔ لیکن صرف ان خبروں سے تو ہمارا مقصد حاصل نہیں ہو گا۔ اس سے ملتی جلتی خبریں تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے بھی اخباروں میں شائع ہوئی تھیں جب مسجد بشارت پیدروآباد کا افتتاح ہوا تھا۔ لیکن جائزہ لیں۔ کیا گزشتہ تیس سال میں ہم نے کچھ حاصل کیا۔ پس ترقی کرنے والی قومیں اخباری خبروں سے خوش نہیں ہوتیں۔ مقصد حاصل کرنے والی قومیں ریسپشن میں یا دوستوں کی مجالس میں مہمانوں کے جذباتی اظہار سے خوش نہیں ہو جایا کرتیں بلکہ اپنے جائزے لیتی ہیں۔ نئے نئے پروگرام بناتی ہیں۔ آپس میں ایک اکائی بن کر نئے عزم کے ساتھ اپنے پروگراموں کو عملی جامہ پہناتی ہیں۔ اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتیں جب تک اپنے مقصد کو حاصل نہ کر لیں۔ چھوٹی چھوٹی باتیں اُن کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس ٹوہ میں نہیں رہتیں کہ امیر جماعت نے یا صدر جماعت نے میرے متعلق کیا بات کی تھی بلکہ ایسی باتیں پہنچانے والوں کو ترقی کرنے والے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی میرے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مَیں نے تو زمانے کے امام کے ساتھ عہدِ بیعت باندھا ہوا ہے اور اُسے میں نے پورا کرنا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔ ان باتوں کی طرف توجہ تو میرے خیالات کو منتشر کر دے گی اور مَیں اپنے مقصد کو بھول جاؤں گا۔ اپنے ہم وطنوں کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے میں یہ باتیں آپس کی چپقلشیں روک بن جائیں گی۔ میرے سے تفرقہ کا اظہار ہوگا۔ اس طرح میں اپنی دنیا و عاقبت برباد کرنے والا بن جاؤں گا۔ پس اگر تمہیں میرے سے ہمدردی ہے، اگر تمہیں جماعت سے ہمدردی ہے تو یہ باتیں مجھ تک نہ پہنچاؤ بلکہ کسی شخص کو بھی ان کے بارے میں جو باتیں تم سنو، وہ نہ بتاؤ کیونکہ یہ چغلی کے زمرہ میں آتی ہیں۔ اگر یہ سوچ ہر احمدی کی، ہر مبلغ کی، ہر عہدیدار کی ہو جائے گی تو پھر ان شاء اللہ تعالیٰ انقلاب کے راستے کھلتے چلے جائیں گے۔ پس ہر سطح پر یہ عزم کریں، چاہے وہ خادم ہیں یا انصار ہیں یا لجنہ کے ممبر ہیں کہ میں نے اسلام کی سربلندی کی خاطر ہر قسم کے تفرقے کو ختم کرنا ہے اور ہر قسم کی رنجشوں اور فتنوں کو جڑ سے اکھیڑنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 5؍اپریل 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

پردہ تعلیم میں رکاوٹ نہیں ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مئی 2022