• 26 اپریل, 2024

کتاب، تعلیم کی تیاری (قسط 42)

کتاب، تعلیم کی تیاری
قسط 42

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

استغفار کرتے رہو اور موت کو یاد رکھو۔ موت سے بڑھ کر اور کوئی بیدار کرنے والی چیز نہیں ہے۔ جب انسان سچے دل سے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرتا ہے۔

جس وقت انسان اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ پہلے گناہ بخش دیتا ہے پھر بندے کا نیا حساب چلتا ہے۔ اگر انسان کا کوئی ذرا سا بھی گناہ کرے تو وہ ساری عمر اس کا کینہ اور دشمنی رکھتا ہے اور گو زبانی معاف کر دینے کا اقرار بھی کرے لیکن پھر بھی جب اُسے موقع ملتا ہے تو اپنے اس کینہ اور عداوت کا اس سے اظہار کرتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ ہی ہے کہ جب بندہ سچے دل سے اس کی طرف آتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کو معاف کر دیتا۔ اور رجوع بہ رحمت فرماتا ہے۔ اپنا فضل اس پر نازل کرتا ہے اور اس گناہ کی سزا کو معاف کر دیتا ہے۔ اس لئے تم بھی اب ایسے ہو کر جاؤ کہ تم وہ ہو جاؤ جو پہلے نہ تھے۔ نماز سنوار کر پڑھو۔ خدا جو یہاں ہے وہاں بھی ہے۔ پس ایسا نہ ہو کہ جب تک تم یہاں ہو تمہارے دلوں میں رقّت اور خدا کا خوف ہو اور جب پھر اپنے گھروں میں جاؤ تو بےخوف اور نڈر ہو جاؤ۔ نہیں بلکہ خدا کا خوف ہر وقت تمہیں رہنا چاہئے۔ ہر ایک کام کرنے سے پہلے سوچ لو اور دیکھ لو کہ اس سے خدا تعالیٰ راضی ہوگا یا ناراض۔ نماز بڑی ضروری چیز ہے اور مومن کا معراج ہے۔ خدا تعالیٰ سے دعا مانگنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔ نماز اس لئے نہیں کہ ٹکریں ماری جاویں یا مرغ کی طرح کچھ ٹھونگیں مار لیں۔ بہت لوگ ایسی ہی نمازیں پڑھتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ کہ کسی کے کہنے سننے سے نماز پڑھنے لگتے ہیں۔ یہ کچھ نہیں۔

نماز خدا تعالیٰ کی حضوری ہے اور خدا تعالیٰ کی تعریف کرنے اور اس سے اپنے گناہوں کے معاف کرانے کی مرکّب صورت کا نام نماز ہے۔ اس کی نماز ہرگز نہیں ہوتی جو اس غرض اور مقصد کو مد نظر رکھ کر نماز نہیں پڑھتا۔ پس نماز بہت ہی اچھی طرح پڑھو۔ کھڑے ہو۔ تو ایسے طریق سے کہ تمہاری صورت صاف بتا دے کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں دست بستہ کھڑے ہو اور جھکو تو ایسے جس سے صاف معلوم ہو کہ تمہارا دل جُھکتا ہے اور سجدہ کرو تو اس آدمی کی طرح جس کا دل ڈرتا ہے اور نمازوں میں اپنے دین اور دنیا کے لئے دعا کرو۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ247-248 ایڈیشن 1984ء)

پھر میں یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو آتے ہیں وہ کوئی بُری بات تو کہتے ہی نہیں۔ وہ تو یہی کہتے ہیں کہ خدا ہی کی عبادت کرو اور مخلوق سے نیکی کرو۔ نمازیں پڑھو اور جو غلطیاں مذہب میں پڑ گئی ہوئی ہیں انہیں نکالتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت جو میں آیا ہوں تو میں بھی اُن غلطیوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں جو فیج اعوج کے زمانہ میں پیدا ہو گئی ہیں۔ سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو خاک میں ملا دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی اور اہم اور اعلیٰ تعلیم توحید کو مشکوک کیا گیا ہے۔ ایک طرف تو عیسائی کہتے ہیں کہ یسوع زندہ ہے اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہیں ہیں اور وہ اس سے حضرت عیسیٰ کو خدا اور خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ دو ہزار برس سے زندہ چلے آتے ہیں۔ نہ زمانہ کا کوئی اثر اُن پر ہوا۔ دوسری طرف مسلمانوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ بیشک مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا ہے اور دو ہزار برس سے اب تک اسی طرح موجود ہے۔ کوئی تغیّر وتبدل اس کی حالت اور صورت میں نہیں ہوا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مر گئے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میرا دل کانپ جاتا ہے جب میں ایک مسلمان مولوی کے منہ سے یہ لفظ سنتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مر گئے۔ زندہ نبی کو مُردہ رسول قرار دیا گیا۔ اس سے بڑھ کر بےحُرمتی اور بےعزتی اسلام کی کیا ہوگی۔ مگر یہ غلطی خود مسلمانوں کی ہے۔ جنہوں نے قرآن شریف کے صریح خلاف ایک نئی بات پیدا کر لی۔ قرآن شریف میں مسیح کی موت کا بڑی وضاحت سے ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اصل میں اس غلطی کا ازالہ میرے ہی لئے رکھا تھا۔ کیونکہ میرا نام خدا نے حَکَم رکھا ہے۔ اب جو اس فیصلہ کے لئے آوے وہی اس غلطی کو نکالے۔ دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ پر خدا اُس کو قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ اس قسم کی باتوں نے دنیا کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔

مگر اب وقت آ گیا ہے کہ یہ سب جھوٹ ظاہر ہو جاوے۔ خدا تعالیٰ نے جس کو حَکَم کر کے بھیجا اس سے یہ باتیں مخفی نہیں رہ سکتی ہیں۔ بھلا دائی سے پیٹ چھپ سکتا ہے۔ قرآن نے صاف فیصلہ کر دیا ہے کہ آخری خلیفہ مسیح موعود ہوگا اور وہ آ گیا ہے۔ اب بھی اگر کوئی اس پر لکیر کا فقیر رہے گا۔ جو فیج اعوج کے زمانہ کی ہے تو وہ نہ صرف خود نقصان اٹھائے گا بلکہ اسلام کو نقصان پہنچانے والا قرار دیا جاوے گا۔ اور حقیقت میں اس غلط اور ناپاک عقیدہ نے لاکھوں آدمیوں کو مرتد کر دیا ہے۔ اس اصول نے اسلام کی سخت ہتک کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی توہین۔ جب یہ مان لیا کہ مُردوں کو زندہ کرنے والا، آسمان پر جانے والا، آخری انصاف کرنے والا یسُوع مسیح ہی ہے تو پھر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تو مَعَاذَاللّٰہ ِ کچھ بھی نہ ہوئے۔ حالانکہ اُن کو رحمۃٌ للعالمین کہا گیا اور وہ کافۃ النّاس کے لئے رسول ہو کر آئے۔ خاتم النّبیین وہی ہوئے۔ ان لوگوں کا جنہوں نے مسلمان کہلا کر ایسے بیہودہ عقیدہ رکھتے ہیں، یہ بھی مذہب ہے کہ اس وقت جو پرندے موجود ہیں اُن میں کچھ مسیح کے ہیں اور کچھ خدا تعالیٰ کے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔ میں نے ایک بار ایک موحّد سے سوال کیا کہ اگر اس وقت دو جانور پیش کئے جاویں اور پوچھا جاوے کہ خدا کا کونسا ہے اور مسیح کا کونسا ہے۔ تو اُس نے جواب دیا۔ کہ مل جُل ہی گئے ہیں۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ251-252 ایڈیشن 1984ء)

نفس کے ہم پر حقوق

قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی ناامید نہ ہو۔ مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ہمارا خدا عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (البقرہ: 21) خدا ہے۔ قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو۔ قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اُس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو۔ نماز کو اسی طرح پڑھو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھتے تھے۔ البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی زبان میں بیشک ادا کرو۔ اور خدا تعالیٰ سے مانگو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اس سے نماز ہرگز ضائع نہیں ہوتی۔ آجکل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے۔ نمازیں کیا پڑھتے ہیں ٹکریں مارتے ہیں۔ نماز تو بہت جلد جلد مُرغ کی طرح ٹھونگیں مار کر پڑھ لیتے ہیں اور پیچھے دعا کے لئے بیٹھے رہتے ہیں۔ نماز کا اصل مغز اور روح تو دعا ہی ہے۔ نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہو سکتا ہے۔ ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جاوے اور اس کو اپنا عرض حال کرنے کا موقع بھی ہو۔ لیکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپنی درخواست پیش کرے، اسے کیا فائدہ۔ ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع خضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے۔ تم کو جو دعائیں کرنی ہوں نماز میں کر لیا کرو۔ اور پورے آداب الدّعا کو ملحوظ رکھو۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ257-258 ایڈیشن 1984ء)

حدیث میں آیا ہے۔ و من حسن الاسلام ترک ما لا یعنیہ۔ یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑ دی جاوے۔

اسی طرح پر یہ پان۔ حُقّہ۔ زردہ (تمباکو) افیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں ہیں۔ بڑی سادگی یہ ہے کہ ان چیزوں سے پرہیز کرے۔ کیونکہ اگر کوئی اور بھی نقصان اُن کا بفرض محال نہ ہو۔ تو بھی اس سے ابتلا آ جاتے ہیں۔ اور انسان مشکلات میں پھنس جاتا ہے۔ مثلاً قید ہو جاوے تو روٹی تو ملے گی لیکن بھنگ چرس یا اور منشّی اشیاء نہیں دی جاوے گی۔ یا اگر قید نہ ہو کسی ایسی جگہ میں ہو جو قید کے قائمقام ہو تو پھر بھی مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں۔ عمدہ صحت کو کسی بیہودہ سہارے سے کبھی ضائع کرنا نہیں چاہئے۔ شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مُضر صحت چیزوں کو مُضر ایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے۔

یہ سچی بات ہے کہ نشوں اور تقویٰ میں عداوت ہے۔ افیون کا نقصان بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ طبی طور پر یہ شراب سے بھی بڑھ کر ہے اور جس قدر قویٰ لے کر انسان آیا ہے اُن کو ضائع کر دیتی ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ292 ایڈیشن 1984ء)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

میرے نزدیک رشوت کی یہ تعریف ہے کہ کسی کے حقوق کو زائل کرنے کے واسطے یا ناجائز طور پر گورنمنٹ کے حقوق کو دبانے یا لینے کے لئے کوئی مابہ الاحتظاظ کسی کو دیا جائے۔ لیکن اگر ایسی صورت ہو کہ کسی دوسرے کا اس سے کوئی نقصان نہ ہو اور نہ کسی دوسرے کا کوئی حق ہو صرف اس لحاظ سے کہ اپنے حقوق کی حفاظت میں کچھ دے دیا جاوے تو کوئی حرج نہیں اور یہ رشوت نہیں۔ بلکہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم راستہ پر چلے جاویں اور سامنے کوئی کُتّا آ جاوے تو اس کو ایک ٹکڑا روٹی کا ڈال کر اپنے طور پر جاویں اور اس کے شر سے محفوظ رہیں۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ317 ایڈیشن 1984ء)

رشوت ہرگز نہیں دینی چاہئے۔ یہ سخت گناہ ہے۔ مگر میں رشوت کی یہ تعریف کرتا ہوں کہ جس سے گورنمنٹ یا دوسرے لوگوں کے حقوق تلف کئے جاویں۔ میں اس سے سخت منع کرتا ہوں۔ لیکن ایسے طور پر کہ بطور نذرانہ یا ڈالی اگر کسی کو دی جاوے۔ جس سے کسی کے حقوق کے اتلاف مدنظر نہ ہو۔ بلکہ اپنی حق تلفی اور شر سے بچنا مقصود ہو۔ تو یہ میرے نزدیک منع نہیں۔ اور میں اس کا نام رشوت نہیں رکھتا۔ کسی کے ظلم سے بچنے کو شریعت منع نہیں کرتی۔ بلکہ۔ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ (البقرہ: 196) فرمایا ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ320 ایڈیشن 1984ء)

(ترتیب و کمپوزڈ: عنبرین نعیم)

پچھلا پڑھیں

پردہ تعلیم میں رکاوٹ نہیں ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مئی 2022