• 26 اپریل, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 14)

قرآنی انبیاء
دانشمند بیٹا
قسط 14

بادشاہ کے دربار میں آنے والی دونوں عورتوں میں سے ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ وہ بچہ اس کا ہے۔ وہ دونوں اپنے موقف کی حمایت میں دلائل دے رہی تھیں اور کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کون سی عورت سچی ہے اور کون سی عورت جھوٹ بول رہی ہے۔ تمام درباری سوچ رہے تھے کہ بادشاہ سلامت اس مشکل مقدمے کا فیصلہ کیسے کریں گے۔ کہ اچانک بادشاہ نے ایک تلوار لانے کا حکم دیا۔ تلوار حاضر کی گئی تو بادشاہ نے کہا اس بچے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے اور ایک ایک حصہ، دونوں عورتوں کو دے دیا جائے۔ بچے کی حقیقی ماں یہ برداشت نہ کر سکی اور چلا اٹھی اور یوں مقدمے کا فیصلہ ہو گیا۔

حضرت داؤد کے دانشمند بیٹے کی زندگی کے واقعات جنہیں اللہ تعالیٰ نے نبوت اور حکومت دونوں عطا کئے تھے۔

حضرت داؤد جب بڑھاپے کی عمر کو پہنچے تو بنی اسرائیل کیلئے آپ کے کسی جانشین کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ آپ بوڑھے ہو جانے کے باعث اب کاروبار مملکت صحیح رنگ میں چلا نہ سکتے تھے اور سب کو معلوم تھا کہ اب داؤد چند دن کے مہمان ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ بعض فتنہ پرداز لوگوں نے آپ کے بعد بنی اسرائیل کا بادشاہ بننے کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے۔ انہی لوگوں میں سے ایک حضرت داؤد کا اپنا بیٹا اور نیاہ بھی تھا جو یہ سوچ رہا تھا کہ کس طرح آپ کی وفات کے بعد میں بادشاہ بن جاؤں اس مقصد کے لئے اس نے آہستہ آہستہ قوم کے سر کردہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا شروع کر دیا اور یہ سازش زور پکڑنے گی۔

حضرت داؤد کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ نے کسی بھی قسم کے فتنے سے بچنے کے لئے اپنی زندگی میں ہی اپنا جانشین مقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ نے اپنے تمام بیٹوں کی طرف دیکھا اور بالآخر آپ کی نگاہ انتخاب اپنے بیٹے سلیمان علیہ السلام پر جا کر ٹھہر گئی۔ آپ حضرت سلیمان علیہ السلام کی نیکی اور دانشمندی سے واقف تھے اور آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ بنی اسرائیل کی قیادت بہتر طور پر سلیمان علیہ السلام ہی کر سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ نے حکم دیا کہ میری زندگی میں ہی جانشینی کا فیصلہ کیا جائے گا اور سلیمان علیہ السلام کو تخت پر بٹھایا جائے گا۔ یوں آپ کی زندگی میں ہی یہ فیصلہ کر دیا گیا کہ آپ کے بعد سلیمان علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہ ہوں گے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ جب حضرت داؤد نے وفات پائی تو آپ کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہ بنے۔ اور یوں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایک مرتبہ پھر احسان کے طور پر ایک نیک، معاملہ فہم اور بزرگ انسان بادشاہ کے طور پر عنایت کیا۔ یوں ان کے دن بہت اچھے گزرنے لگے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے والد کی طرح بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نبی بھی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے تمام کاموں میں حکمت و دانائی کے ساتھ ساتھ نیکی اور تقوی بھی ہو تا تھا۔ آپ کے پاس جو لوگ بھی انصاف کے لئے آتے وہ آپ کی دانشمندی سے بہت متاثر ہوتے۔

ایک روز آپ کے دربار میں ایک بہت مشکل مقدمہ آگیا جس کا فیصلہ کرنا بظاہر بہت مشکل تھا۔ ہوا یوں کہ دو عورتیں ایک بچے کو ساتھ لئے آپس میں لڑتی جھگڑتی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ ان دونوں کا دعویٰ تھا کہ بچہ جو انکے پاس ہے اس کا ہے۔ فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کیونکہ بچہ ابھی بہت چھوٹا تھا اس لئے اس سے کچھ معلوم نہیں ہو سکتا تھا اور عورتوں میں سے ہرایک یہی کہہ رہی تھی کہ بچہ اس کا ہے۔ دربار میں خاموشی چھا گئی اور تمام لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف دیکھنے لگے کہ اب آپ کیسے فیصلہ کریں گے۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے کچھ دیر توقف کیا اور پھر حکم دیا کہ ایک تلوار لائی جائے۔ تلوار آ گئی تو آپ نے فرمایا اس بچے کو درمیان سے کاٹ کر دو ٹکڑے کر دو اور ایک حصہ ایک عورت کو دے دو اور دوسرادو سری عورت کو۔اس حکم کا سننا تھا کہ بچے کی حقیقی ماں فوراً چلا اٹھی کہ نہیں بادشاہ سلامت ! اس بچے کو دو سری عورت کے حوالے کر دیں لیکن اس کے دو ٹکڑے مت کریں۔ بچے کو دو ٹکڑے کرنے کا فیصلہ سن کر دونوں عورتوں کا جو رد عمل تھا اس نے فوراً فیصلہ کر دیا کیونکہ حقیقی ماں کو بچے سے بہت محبت تھی اس لئے وہ برداشت نہ کر سکی کہ بچہ دو ٹکڑے کر دیا جائے اسی وجہ سے وہ فور اًچلائی کہ اس بچے کو دو سری عورت کے حوالے کر دیا جائے۔ جب کہ دوسری عورت کو اس فیصلے سے کوئی تکلیف نہ ہوئی تھی اس لئے وہ خاموش کھڑی رہی۔آپ نے حکم دیا کہ یہ بچہ اس عورت کا ہے جو چلائی تھی۔ اس لئے بچہ اس کے حوالے کر دیا جائے۔ یوں آپ نے خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک مشکل مقدمے کو حکمت اور دانائی کے ساتھ حل کر دیا۔ اس مقدمے کے چرچے باہر بھی ہونے لگے اور لوگوں نے جان لیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایک دانا انسان ہیں اس لئے فتنہ پرداز لوگ آپ کی دانائی سے خوف کھانے لگے۔

آپ نے بنی اسرائیل کی اس حکومت کو مضبوط سے مضبوط تر کر دیا۔ آپ کے والد حضرت داؤد چونکہ اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ جنگوں میں مصروف رہے تھے اور ملک میں اندرونی طور پر کوئی تعمیرات وغیرہ نہ کر سکے تھے اس لئے آپ کی خواہش تھی کہ اب حکومت میں اندرونی طور پر ترقی کی جائے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے آپ نے خدا تعالیٰ کا ایک عظیم الشان گھر بنانے کا ارادہ کیا۔ ایک عظیم الشان مسجد۔ ایک بے مثل ہیکل کی تعمیر شروع ہو گئی جسے ’’ہیکل سلیمان‘‘ کہتے ہیں۔ دور دور کے علاقوں سے خوبصورت لکڑی اور پتھر منگوا لیا گیا مختلف ممالک کے مشہور اور ماہر معماروں کی خدمات حاصل کی گئیں اور ایک خوبصورت عمارت کی تعمیر ہوئی۔ جو خدا تعالیٰ کے گھر کے طور پر استعمال ہونی تھی۔ جب یہ معبد مکمل ہو گیا تو اسے خالص سونے کا کام کر کے سجا لیا گیا اور یوں یہ عظیم معبد تمام علاقے میں اپنی نوعیت کا پہلا معبد تھا جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی حکومت میں تعمیر کیا۔

اس عظیم عبادت گاہ کے مکمل ہونے کے بعد بھی آپ نے مختلف ترقیاتی کام جاری رکھے اور اپنے لئے بھی ایک خوبصورت محل تعمیر کیا۔ محل کی یہ عمارت بھی اپنی مثال آپ تھی لیکن صرف عمارت ہی نہیں بلکہ تمام نظم و نسق بے انتہا خوبصورت تھا۔ ملازموں کے اٹھنے بیٹھنے کے طریق ان کی مستعدی اور تیزی ہر آنے والے کے دل پر گہرا اثر ڈالتی تھی اور بڑے بڑے بادشاہ بھی آپ کے محل میں آ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔

چنانچہ ملکہ سبا بھی جب آپ کے محل میں حاضر ہوئی تو آپ کی حکمت و دانائی کی باتیں سن کر اور آپ پر خدا تعالیٰ کے بے انتہاء فضل دیکھ کر بے حد متاثر ہوئی اور آپ کے ساتھ وہ خدائے بزرگ و بر تر پر ایمان لے آئی۔ یہ وہی ملکہ تھی جو یمن کے ایک علاقے کی رہنے والی تھی اور وہاں اس کی ایک سلطنت تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب یہ اطلاع ملی کہ یہ ملکہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ حکومت کر رہی ہے لیکن خرابی یہ ہے کہ یہ ملکہ اور اس کی قوم سورج کی پوجا کرتے ہیں تو آپ نے اس قوم کے لئے اپنے دل میں درد محسوس کیا اور چاہا کہ اس قوم کو اور ان کی اس ملکہ کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا جائے۔ چنانچہ آپ نے اپنا ایک ایلچی ملکہ کی طرف روانہ کیا اور اسے ایک خط دیا جس میں اسے خدا تعالیٰ کی طرف بلایا۔ اور کہا کہ بہتر یہ ہے کہ تم خدائے واحد پر ایمان لے آؤ تاکہ تم دنیا میں بھی بھلائی حاصل کرو اور آخرت میں بھی بھلائی کی حقدار بن جاؤ۔ جب یہ خط ملکہ کے پاس پہنچا تو اس نے اپنے دربار میں موجود اپنے سرداروں سے اس بارے میں مشورہ طلب کیا۔

سردار حضرت سلیمان علیہ السلام کی شان و شوکت سے آگاہ تو تھے لیکن انہوں نے ملکہ سے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہم سلیمان علیہ السلام کی بات کو ضرور مانیں۔ اگر آپ حکم دیں تو ہم اس سے ٹکرا جائیں گے اور نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے ہم اس سے ڈریں گے ہر گز نہیں۔ ملکہ ایک سمجھدار عورت تھی۔ جانتی تھی کہ جنگوں کے نتیجے میں بہت ہولناک تباہی پھیلتی ہے بستیاں اجڑ جاتی ہیں اور شہر ویران ہو جاتے ہیں اس لئے اس نے سرداروں کی بہادری کی قدر کی لیکن انہیں سمجھایا کہ جنگ کے بجائے اگر ہم سلیمان علیہ السلام کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔ چنانچہ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایلچی کو عزت و احترام سے بٹھا لیا اور اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے تحفے تحائف اور دوستی کا پیغام دیکر رخصت کیا۔ اس کے بعد ملکہ خود حضرت سلیمان علیہ السلام سے ملنے ان کی حکومت میں گئی اور خدا تعالیٰ کے متعلق سلیمان علیہ السلام کی دانائی کی باتیں سن کر ایمان لے آئی۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کا دور ہر لحاظ سے ترقی کا دور تھا۔ عوام خوش اور خوشحال تھے اور بیرونی طور پر بھی امن تھا۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود بنی اسرائیل کا ایک طبقہ حضرت سلیمان علیہ السلام سے نالاں تھا۔ فتنہ پرداز لوگوں پر مشتمل یہ گروہ پوشیدہ طور پر آپ کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف تھا۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ اس طرح سازشیں کر کے وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام صرف ایک بادشاہ ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی بھی ہیں اور خدا تعالیٰ ہر آن آپ کی حفاظت فرما رہا ہے۔ چنانچہ ان شیطانی ٹولوں نے بہت کوششیں کیں لیکن اللہ تعالیٰ کے اس پاک نبی کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے۔ اور آپ پوری طاقت اور شان و شوکت کے ساتھ حکومت کرتے رہے اور بالآخر آپ نے طبعی طور پر وفات پائی اور اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔ آپ کی وفات کا زمانہ قریباً 924 ق م بیان کیا جا تا ہے۔ آپ کے بعد آپ کا بیٹا آپ کا جانشین بنا لیکن افسوس کہ یہ بیٹا دنیاوی لحاظ سے تو آپ کا جانشین بن گیا لیکن روحانی طور پر یہ کسی قابل بھی نہ تھا چنانچہ اس کے بادشاہ بننے کے بعد ملک میں بہت افراتفری پھیل گئی۔ بنی اسرائیل کے اکثر قبائل اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور یوں یہ عظیم سلطنت جسے حضرت داؤد نے تقوی اور نیکی کی بنیادوں پر قائم کیا تھا۔ اور جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے عظمت بخشی تھی ایک دنیا دار وارث کی وجہ سے منتشر ہو گئی اور اس کی عظمت جاتی رہی۔

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

پردہ تعلیم میں رکاوٹ نہیں ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مئی 2022