• 19 اپریل, 2024

حیاتِ نورالدینؓ (قسط 1)

حیاتِ نورالدینؓ
قسط 1

(نوٹ از ایڈیٹر۔ ادارہ الفضل آن لائن نے ’’ارشاداتِ نور‘‘ کے عنوان سے 14 قسطوں میں قارئین الفضل کے لئے مائدہ پیش کرنے کی توفیق پائی۔ جو قارئین میں بہت مقبول ہوئے اور ہر قسط نے ہی ’’مقبول ترین‘‘ کی کیٹیگری میں جگہ بنائی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ یہ مائدہ ہمارے لئے بحرین سے مکرمہ فائقہ بشریٰ نے مہیا فرمایا۔ جَزَاہَا اللّٰہُ تَعَالیٰ۔ اب اس کی جگہ مسز مریم رحمٰن کا تیار کردہ مائدہ الفضل آن لائن کے دسترخوان پر قسط وار سجایا جارہا ہے۔)

مبارک سیرت خلیفۃ المسیح الاوّل
حضرت مولانا حاجی حافظ حکیم نور الدینؓ

’’میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلیٰ درجے کا صدّیق دیا۔‘‘

چہ خوش بودے اگر ہر یک زاُمّت نورِ دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نورِ یقین بوُدے

شجرۂ نسب

حضرت مولانا حاجی حافظ حکیم نور الدین خلیفۃ المسیح الاوّلؓ شجرۂ نسب کے اعتبار سے حضرت فاروق اعظم عمر بن الخطاب خلیفۃ الرسول الثانیؓ کی نسل سے ہیں۔ آپ کے نسب میں جہاں مشائخ، اولیاء، علماء گزرے ہیں وہاں آپ سے اوپر گیارہویں پشت تک تمام بزرگ حفاظ قرآن چلے آتے ہیں۔

والد بزرگوار

آپؓ کے والد ماجد کا نام حضرت حافظ غلام رسول تھا۔آپ بھیرہ ضلع سرگودہا کے رہنے والے تھے۔آپؓ کے والد کو قرآن سے ایک خاص عشق تھا۔آپ ہزاروں روپے کے قرآن خرید کر لوگوں میں پھیلا دیتے تھے۔آپ کے متعلق آتا ہے کہ ایک تاجر بمبیٔ سے تیس ہزار کے قرآن لے کربھیرہ آیا تو آپ نے تمام قرآن خرید لئے۔آپ اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت پر بہت زور دیتے تھے۔

آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’تم بھی اپنے بچوں کے لئے ایسے باپ بنو اللہ تعالیٰ میرے باپ پر رحم فرمائے۔ میرا باپ ایسا بلند ہمت تھا کہ اگر وہ اس زمانہ میں ہوتا تو مجھے تحصیل علم کے لئے امریکہ بھیج دیتا۔‘

آپ کے سات بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ سب سے چھوٹے تھے۔

والدہ ماجدہ

آپ کی والدہ کا نام نور بخت تھا۔آپ کا تعلق اعوان قوم سے تھا۔آپ نہایت دیندار گھرانہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپ نیک عورت تھیں اور نماز کی انتہائی پابند تھیں۔ باورچی خانہ میں جائے نماز کھونٹی پر لٹکا رہتا نماز کا وقت ہوتا تو وہیں پڑھ لیتیں۔آپ بچوں کو قرآن اور فقہ پڑھایا کرتی تھیں۔ آپؓ نے بھی قرآن اور فقہ کی ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی۔ آپ کی والدہ نے تیرہ سال کی عمر سے بچوں کو قرآن پڑھانا شروع کیا اور پچاسی سال کی عمر تک برابر ہزاروں بچوں کو قرآن کریم پڑھایا۔

آپؓ فرماتے ہیں کہ بچوں کو مارنا نہیں چاہئے کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ أَكْرِمُوْٓا أَوْلَادَكُمْ … اولاد کے نیک بنانے کے لئے بہت دعا کرو۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے والدین نے ہمیں کبھی زدو کوب نہیں کیا۔ اور نہ کبھی گالی دی۔وہ ہمارے تعلیم کے لئے بڑے سے بڑے خرچ کی بھی پرواہ نہ کرتے تھے۔

آپؓ فرماتے ہیں: میرے سامنے کبھی لڑکوں نے گالی نہیں دی۔ جب میں سامنے ہوتا تو کہتے یارو اب سنبھل کے۔

سن پیدائش

آپؓ بھیرہ کے محلہ معماراں میں پیدا ہوئے۔گلدستہ علم وادب کی 13جنوری 2020ء کی اشاعت میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی سوانح پر ایک مضمون شائع ہوا جس میں جماعتی کتب کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی عمر 74ء سال اور پیدائش1841ء درج تھی۔ جس پر ہمارے پیارے آقا سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک جماعتی ادارہ کو اس کی تحقیق کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس تحقیق کی مطابق وصیت کے ریکارڈ کے مطابق بوقت وفات آپؓ کی عمر 80 برس تھی۔ اس طرح خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے وقت آپ کی عمر74ء سال بنے گی۔ اس لحاظ سے آپؓ کا سن پیدائش نکالا جائے تو وہ 1834ء بنے گا۔

اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ ’’اس کے مطابق درستی کر لیں جَزَاہُ اللّٰہُ ٰ اَحْسَنَ الْجَزَآء‘‘

چنانچہ اس ہدایت پر ’’ایک ضروری تصحیح‘‘ کے عنوان پر درج بالا الفاظ گلدستہ علم و ادب کی اشاعت 28فروری 2020ء میں درج ہے۔

حصول علم واسفار


آپ کا کمال کا حافظہ تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب میری والدہ نے مجھے دودھ چھڑایا تھا مجھے یاد ہے۔ ابتدائی تعلیم گھرسے حاصل کی اس کے بعد لاہور اور راولپنڈی سے تعلیم حاصل کرنے چلے گئے۔ اس کے بعد تحصیلی امتحان پاس کرنے پر چار سال تک پنڈدادنخان میں بطور ہیڈماسڑ تعینات رہے۔ ملازمت ترک کرکے مزید علوم کے حصول کے لئے رام پور، لکھنؤ، میرٹھ اور بھوپال کے سفر اختیار کئے۔ ان ایام میں آپؓ نے عربی، فارسی، منطق، فلسفہ، طب غرض ہر قسم کے مروّجہ علوم سیکھے۔

بھوپال سے واپسی پر آپؓ کے استاد نے آپ کو ایک ایسی نصیحت کی جس کے متعلق آپؓ کا فرمانا ہے کہ اس نصیحت پر عمل کرکے میں ساری زندگی خوش رہا۔وہ نصیحت آپ کے استاد مولوی عبدالقیوم صاحب نے آپؓ کے استفسار پر کی۔مولوی صاحب نے فرمایا کہ ’’خدا نہ بننا، رسول نہ بننا۔‘‘ اس پر آپؓ نے عرض کیا کہ مولوی صاحب سمجھ نہیں آئی۔ اس پر مولوی صاحب نے فرمایا کہ تم خدا کس کو کہتے ہو؟ اس پر آپؓ کی زبان سے نکلا کہ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ: وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ بس ہماری مراد یہی ہے کہ تمہاری کوئی خواہش ہو اور وہ پوری نہ ہو تو تم اپنے نفس سے کہو کہ میاں کیا تم کوئی خدا ہو؟ رسول یقین کرتا ہے کہ جو احکام اس کو خدا کی طرف سے ملے ہیں اس کی نافرمانی کرکے لوگ جہنم میں گر جائیں گے۔ اس لئے اس کو بہت رنج ہوتا ہے۔ لیکن اگر لوگ تمہارا فتویٰ نہ مانیں تو تھوڑی وہ اس سے جہنمی ہو جائیں گے۔ اس لئے تم کو رنج نہیں ہونا چاہئے۔

بھوپال میں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کے حج کے سفر کے اسباب اس طرح پیدا کئے کہ ایک امیر زادہ کو سوزاک ہوگئی اس کے علاج پر اس نے اس قدر رقم دی کے سفر حرمین کے لئے رخت سفر باندھ لیا۔

مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ

اللہ تعالیٰ نے آپ کو1865ء میں حج کی سعادت نصیب فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو دو مرتبہ مکہ مکرمہ جانے کی توفیق دی۔ آپﷺ سے عشق واطاعت کا اسقدر جوش اور جذبہ تھا کہ عمومًا آپﷺ کداء کی طرف سے مکہ داخل ہوتے تھے۔ چونکہ کداء کی طرف سے جانے کے لئے پیدل بھی چلنا پڑتا تھا لوگ اس طرف رخ نہ کرتےتھے۔ لیکن آپ ؓ کو اطاعت رسول کا اسقدر جذبہ تھا کہ جس راستہ پر آپﷺ کے قدم پڑے ہیں اس کی پیروی کرنی ہےخواہ سواری سے اتر کر پیدل ہی چلنا پڑے۔

آپ نے جہاں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کی وہاں علماء کرام سے علم حدیث پڑھا۔ جن میں سے حضرت شاہ عبدالغنی مجددیؒ قابل ذکر ہیں۔جن کو علم حدیث پر کمال دسترس تھی۔

پابندی ٔ نماز

جن دنوں مدینہ میں آپ ؓحضرت شاہ عبدالغنی ؒسے علم حاصل کرتے تھے۔ نماز ظہر جماعت سے رہ گئی۔ آپؓ کو اسقدر صدمہ ہوا کہ آپ کا رنگ زردہوگیا کہ یہ ایسا گناہ ہے کہ جو قابل معافی نہیں۔ آپ کومسجد میں بھی داخل ہونے سے ڈر لگ رہا تھا۔ وہاں ایک باب الرحمت ہے جس پر یہ قرآنی آیت درج ہے کہ

قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ

(الزمر: 54)

اس آیت کو پڑھ کر بھی آپ ڈرتے ہوئے اورحیرت زدہ ہو کر مسجد میں داخل ہوئے۔ آپ گھبرائے ہوئے تھے، آپ جب منبر اور حجرہ شریف کے درمیان پہنچے اور نماز ادا کرنے لگے تو رکوع کے درمیان آپ کو ایک خیال زور سے آیا کہ حدیث میں آیا ہے کہ مَا بَيْنَ بَيْتِيْ وَمِنْبَرِيْ رَوْضَةٌ مِّنْ رِّيَاضِ الْجَنَّةِ: جنت ایسی جگہ ہے کہ جہاں جو التجاکی جاتی ہے قبول ہوتی ہے۔ آپ نے دعا کی کہ الٰہی میرا قصور معاف کر دیا جائے۔

عشق قرآن ومسئلہ ناسخ ومنسوخ

آپؓ فرماتے ہیں: ہزاروں کتابیں پڑھیں لیکن قرآن جیسی کوئی کتاب نہیں۔ اس کتاب کا ایک رکوع انسان کو بادشاہ سے بڑھ کر بنا دیتا ہے۔ فرمایا کہ قرآن میری غذا ہے۔ اگر آٹھ پہر میں قرآن پڑھ، سن نہ لوں، سکون نہیں آتا۔ سونے سے قبل آدھ پارہ میرا بیٹا مجھے سنا دیتا ہے۔ غرض قرآن کے بغیر میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ میری غذا ہے۔

آپ نے مسئلہ ناسخ ومنسوخ کے حل کے لئے مختلف کتب کا مطالعہ کیا جیسے اتقان، الفوز الکبیر وغیرہ۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان پانچ آیات کو جن کے متعلق شاہ اللہ محدث دہلوی نے کہا تھا کہ وہ منسوخ ہیں ان کو بھی حل کرلیا۔ آپ نے فرمایا کہ گزشتہ مفسرین جن آیات کو حل نہ کرسکے، دراصل وہ ان آیات کا فہم وادراک حاصل نہ کرپائے اسلئے ان آیات کو منسوخ قرار دے دیا۔ اگر ان آیات کا حل تلاش کیا جاتا تو وہ ان کو حل کر سکتے تھے۔

تیراکی

آپ کو تیراکی میں کمال مہارت تھی آپ فرماتے ہیں کہ جب جہلم کا دریا پورے زور پر ہوتا تھا تو میں اس کو تیر کر عبور کر لیتا تھا۔

توکل علی اللہ

آپؓ فرماتے ہیں: آدمی کو ڈپلومہ یا ڈگری پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہئے۔ ایک افسر مدارس پنڈدادنخان میں آیا۔ آپؓ کو کہنے لگا آپ کو اپنے ڈپلومہ پہ گھمنڈ ہے۔ آپ نے ڈگری منگوا کر اس کے سامنے پھاڑ دی۔ فرمایا کہ اس ڈگری پر آدمی کو غرور اور تکبر نہیں کرنا چاہئے ورنہ شرک ہوتا ہے۔ مجھے ان ڈگریوں پر بھروسہ نہیں اللہ پر بھروسہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مجھے اس کے بعد کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہوئی۔

آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ میری آمدنی کا راز خدا نے کسی کو بتانے کی اجازت نہیں دی۔ آپ سے کوئی قرض کا مطالبہ کرنے آیا۔ آپ کے پاس رقم نہیں تھی۔ آپ نے دعا کی۔ مصلّی اٹھایا تو اس میں سے ایک پاؤنڈ مل گیا۔ایک کشمیری دوست نے آپ کے پاس 4سور روپے امانت رکھوائی۔ چند دن بعد تار آئی کے مجھے امانت لوٹا دیں۔ آپ اپنے ہسپتال میں تھے۔ اسی دوران دو ہندورئیس شاہ پور سے آئے انہوں نے نذرانہ کے طور پر چار سو روپیہ اور پھل پیش کر دیئے۔

زیارت رسولؐ

ایک مرتبہ آپﷺ نے خواب میں آکر مجھے فرمایا کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ بہت پڑھا کرو۔

حضرت خلیفہ اولؓ کی قادیان کی زندگی

حضرت خلیفہ اوّلؓ حضرت اقدس مسیح موعود کےسچے عاشق صادق تھے۔ اول المبائعین، اول المہاجرین تھے۔ ریاست جموں میں جہاں آپ طبیب تھے۔آپ کی ماہوار آمدنی 1500 روپے تھی۔ اس کو چھوڑنے پر آپ کوکوئی ملال نہ تھا۔ 1893ء میں جب حضرت عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے آپؓ سے بیان کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا منشاء ہے کہ اب آپ یہیں رک جائیں۔تو آپ نے فرمایا: بہت اچھا اور پھر کبھی بھیرہ کا نام نہ لیا۔پھر حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ اپنی بیوی کو بلالیں۔ آپ نے پہلے اپنی ایک بیوی کو پھر دوسری کو بلا لیا۔پھر کبھی اپنے آبائی وطن کا نام نہ لیا۔

قادیان میں آپ کے مشاغل

قبل ازخلافت 13 سال، بعداز خلافت 6 سال۔ صبح کے وقت بیماروں کو دیکھتے۔ حدیث اور طب پڑھاتے۔ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری کرتے۔ امر بالمعروف، نہی عن المنکر کا سلسلہ بھی چلتا رہتا۔ عصر کے بعد درس قرآن ہوتا۔ صبح کے وقت زنانہ میں درس قرآن ہوتا۔ امامت کے فرائض بھی ادا کرتے۔

صدر انجمن کے قیام پر 29 جنوری 1906ء کو حضرت مسیح موعودؑ نے آپ کو پریذیڈنٹ مقرر کیا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا آپ کی رائے انجمن کی سو رائے کے برابر سمجھنی چاہئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ تصانیف کے کام میں مصروف رہتے۔ آپ کا رجحان ادب کی وجہ سے کتب لکھنے کی طرف نہیں گیا۔ دھرمپال کی کتاب ترک اسلام کا جو جواب آپ نے تحریر فرمایا۔ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے اس کا لفظ لفظ سن کر اس کانام نورالدین تجویز فرمایا۔

آپؓ فرماتے ہیں خداتعالیٰ مجھے يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ عطا فرماتا رہتا ہے۔ کسی چیز کی بھی ضرورت ہو اللہ تعالیٰ خود پوری کرتا چلا جاتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی اجازت سے کئے گئے سفر

بھیرہ سے قادیان ہجرت کرنے کے بعد کو ئی سفر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی اجازت کے بغیر نہ کیا۔وہ سفر جو آپ نے اجازت سے کئے درج ذیل ہیں۔

  1. ریاست جموں وکشمیر کے بعض اراکین نے بلایا
  2. نواب بہاولپور کے علاج کے لئے۔
  3. آپؑ نے نواب محمد علی خان صاحب کی درخواست پر مالیر کوٹلہ درس قرآن وحدیث کے لئے ایک سال آپؓ کو بھیجا۔
  4. آریاؤں کے جلسہ میں لاہور حضرت اقدس کا مضمون پڑھنے گئے۔ وہ مضمون چشمہ معرفت میں ہے۔
  5. ملتان مقدمہ کی پیروی میں جانا پڑا۔ واپسی پر لاہور میں آپ کا لیکچر ہوا۔
  6. شیخ رحمت اللہ صاحب کے گھر اور دوکان کی بنیادی اینٹ رکھنے لاہور گئے۔
  7. حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے بلانے پر دہلی کا سفر اختیار کیا۔ آپؑ نے فرمایا: ’’بلاتوقف دہلی پہنچو۔‘‘ بغیر کرایہ اور گھر بتائے اس طرح فوراً دہلی روانہ ہوگئے۔ امرتسر پہنچنے پر کرایہ بھی ختم ہوگیا۔ اسٹیشن پر ایک ہندو رئیس نے کہا کے حضور میری بیوی سخت بیمار آپ اسے دیکھ لیں میں آپ کو وقت سے پہلے واپس چھوڑ جاؤں گا۔ واپسی پر اس نے دہلی کی ٹکٹ اور پیسہ بھی ساتھ دے دیئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انتظام فرما دیا۔

عہد خلافت

اصحاب حضرت مسیح موعودؑ کے اصرار پر آپ نے 27ء مئی 1908 کوبیعت لی۔ آپ نے ایک پر معارف تقریر ارشاد فرمائی کہ اگر تم نے مجھے خلیفہ چن لیا ہے تو اب تم کو میری فرمانبرداری واطاعت کرنی ہوگی۔

واقعات زمانہ خلافت (1) محلہ دارالعلوم کی زمین کی خریداری (2) مدرسہ تعلیم الاسلام وبورڈنگ ہاؤس کی شاندار عمارات کی تعمیر (3) مسجد نور کی عمارت کی تعمیر (4) نور ہسپتال (5) مدرسہ احمدیہ کا قیام (6) برہمن بڑیا کے مشہور عالم مولانا مولوی عبدالواحد صاحب سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور اس ذریعہ سے سینکٹروں لوگ نے بیعت کی۔ (7) اخبار نور کا اجراء (8) اخبار الفضل کا اجراء (9) اخبار الحق کا اجراء (10) بہت سے شہروں میں احمدیوں اور غیر از جماعت کے مابین مباحثات ہوئے۔ (11) واعظین سلسلہ نے ہندوستان کے مختلف حصوں میں دورے کئے۔ (12) غیر احمدی حضرات نے واعظین سلسلہ کو اپنے جلسوں پر بلانا شروع ہوگیا۔ (13) لندن میں اسلامی مشن کا قیام،خواجہ کمال الدین، حضرت چوہدری فتح محمد سیال لنڈن پہنچے۔ (14) بیت المال کا قیام (15) لنگر خانہ کاباقاعدہ انتظام (16) قادیان میں پبلک لائبریری کا قیام (17) انجمن انصار اللہ کا قیام (18) رسالہ احمدی خواتین۔

وصال

آپ ؓ کو گھوڑی سے گرنے کی وجہ سے زخموں میں انفیکشن ہو گیا جو بگڑتے بگڑتے دق کی شکل اختیار کر گیا۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحب آپ ؓ کو اپنی کوٹھی پر لے گئے تھے۔ انہوں نے آپ کی خدمت کا حق ادا کیا۔آپ کا وصال 13مارچ 1914ء کو ہوا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ آپؓ کی تدفین حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے پہلو میں بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی۔

سر سید احمد خان کا تبصرہ

آپ نے سر سید احمد کو خط لکھا کہ جاہل علم حاصل کرکے عالم بنتا ہے، عالم ترقی کرکے حکیم، حکیم ترقی کر کے صوفی بنتا ہے، صوفی ترقی کرکے کیا بنتا ہے؟ سر سید احمد نے جواب دیا صوفی ترقی کر کے نورالدین بنتا ہے۔

اولاد

بوقت وفات آپ کی بیوی مکرمہ صغری بیگم صاحبہ انکی اولاد پانچ لڑکے اور ایک لڑکی زندہ موجود تھے۔اور پہلی بیوی مکرمہ فاطمہ بی بی مرحومہ صاحبہ سے صاحبزادی حفصہ صاحبہ زوجہ مفتی فضل الرحمٰن صاحب زندہ تھیں۔

بیٹوں کے نام: صاحبزادہ عبدالحیی مرحوم صاحب، صاحبزادہ عبدالسلام صاحب، صاحبزادہ عبدالوھاب صاحب، صاحبزادہ عبدالمنان صاحب، صاحبزادہ عبداللہ صاحب، بیٹی صاحبزادی امۃ الحیی صاحبہ جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عقد میں آئیں۔

تصانیف

آپ کی تصانیف میں حقائق الفرقان، دینیات کا پہلا رسالہ، خطابات نور، خطبات نور، ارشادات نور، مرقات الیقین فی حیات نور الدین، تصدیق براہین احمدیہ، فصل الخطاب لمقدمة اہل الکتاب، فصل الخطاب فی مسألة فاتحةالخطاب، نور الدین بجواب ترک اسلام، رد تناسخ، بیاض نور الدین، ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات، ابطال الوہیت مسیح، خطوط جواب شیعہ وردّ نسخ، مبادی الصرف والنحو۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے عشق ومحبت

1885ء میں جموں سے قادیان پہلی مرتبہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی زیارت کی غرض سے تشریف لائے۔ اور پھر قادیان کے ہی ہو کر رہ گئے۔ا۔ آپ فرماتے تھے اگر مجھے کوئی روزانہ ایک ہزار روپیہ دے تو پھر بھی میں حضرت مسیح موعودؑ کی محفل چھوڑ کرقادیان سے نہ جاؤں گا۔

ایک دفعہ نواب خان صاحب مرحوم تحصیلدار نے آپ سے عرض کیا کہ آپ کو مرزا صاحب کی مریدی سے کیا فائدہ ملا۔ آپ نے فرمایا: بہت فائدے ہوئے۔ پہلے آپﷺ کی زیارت خواب میں ہوتی تھی لیکن اب بیداری میں بھی ہوتی ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ آپؓ کے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کانام ان کے نورِ اخلاص کی طرح نور الدین ہے۔ میں ان کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مالِ حلال سے کر رہے ہیں۔ ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہوسکتیں۔‘‘

فرمایا: ’’آپ (مومنوں) کا فخر ہیں۔ آپ ایک بے مثال وجود ہیں۔‘‘

فرمایا: ’’میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلیٰ درجے کا صدّیق دیا۔‘‘

چہ خوش بودے اگر ہر یک زاُمّت نورِ دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نورِ یقین بوُدے

فرمایا: ’’ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔‘‘

(روحانی خزائن جلد5 صفحہ586)

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَهٗ وَارْحَمْهُ وَارْفَعْ دَرَجَاتِهٖ فِی الْجَنَّةِ النَّعِیْمِ

(مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

پردہ تعلیم میں رکاوٹ نہیں ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مئی 2022