• 19 اپریل, 2024

دیدارالٰہی

دیدارالٰہی
جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا

بن دیکھے کس طرح کسی مہ رخ پہ آئے دل
کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل
دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی
حسن و جمال یار کے آثار ہی سہی

قرآن کریم

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عربی منظوم کلام میں فرماتے ہیں

تُرٰی صُوْرَۃُ الرَّحْمَانِ فِیْ خِدْرِ سُوْرِہٖ
فَھَلْ مِنْ بَصِیْرٍ بِالتَّدَبُّرِ یَنْظُرُ

یعنی خدائے رحمان کی صورت اس (قرآن) کی سورتوں کے پردہ میں دکھائی دیتی ہے کیا کوئی دیکھنے والا ہے جو تدبر کی نگاہ سےدیکھے؟

(قصائد الاحمدیہ صفحہ38)

قرآن کریم میں اللہ کا نام 2699 مرتبہ آیا ہے قرآن کریم کی 114 سورتیں ہیں اور ہر سورۃ میں اس کا وجود نظر آتا ہے اس کی صفات ستاروں کی طرح جگمگا رہی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ’’کبھی انسان خدا کی صفات جلالیہ اور استغنائے ذاتی کے پرتوہ کے نیچے ہوتا ہے اور کبھی صفات جمالیہ کاپر توہ اس پر پڑتا ہے اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ‘‘

(تفسیر مسیح موعود جلد8 صفحہ58)

حضرت موسیٰ کا واقعہ

قرآن کریم میں آیا ہے:..

قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰٮنِیۡ وَلٰکِنِ انۡظُرۡ اِلَی الۡجَبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوۡفَ تَرٰٮنِیۡ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّخَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا

(الاعراف: 144)

(موسیٰ نے) کہا اے میرے رب (اپنا وجود) مجھے دکھا تاکہ میں تجھے دیکھوں اس نے جواب دیا تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا مگر پہاڑ کی طرف دیکھ اگر وہ اپنی جگہ پر قائم رہا تو تو مجھے دیکھ لے گا پھر جب اس (یعنی موسیٰ) کے رب نے پہاڑ پر اپنا جلوہ دکھایا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے (تفسیر صغیر)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ’’موسیٰ علیہ السلام کا بیہوش ہو کر گرنا ایک واقعہ نورانی تھا جس کا موجب کوئی جسمانی ظلمت نہ تھی بلکہ تجلیات صفات الہیہ جو بغایت اشراق نور ظہور میں آئی تھیں وہ اس کا موجب اور باعث تھیں جن کا اشراق تام کی وجہ سے ایک عاجز بندہ عمران کا بیٹا بیہوش ہو کر گر پڑا اور اگر عنایت الٰہیہ اس کا تدارک نہ کرتیں تو اسی حالت میں گداز ہو کر نابود ہو جاتا مگر یہ مرتبہ ترقیات کاملہ کا انتہائی درجہ نہیں ہے انتہائی درجہ وہ ہے جس کی نسبت لکھا ہے مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَمَا طَغٰی (نجم: 18) (تفسیر جلد4 صفحہ191) ’’انتہائی درجہ (ترقیات کاملہ کا) وہ ہے جس کی نسبت لکھا ہے مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَمَا طَغٰی انسان زمانہ سیر سلوک میں اپنے واقعات کشفیہ میں بہت سے عجائبات دیکھتا ہے اور انواع و اقسام کی واردات اس پر وارد ہوتی ہیں مگر اعلیٰ مقام اس کا عبودیت ہے جن کا لازمہ صحو اور ہوشیاری اور سکر اور شطح سے بکلی بیزاری ہے‘‘

(تفسیر جلد8 صفحہ24)

مت کہہ کہ لَنۡ تَرٰٮنِیۡ

حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرماتے ہیں: ’’لَنۡ تَرٰٮنِیۡ کے ارشاد سے دیدار کا انکار نہیں ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج شریف میں اللہ جل جلالہ کو دیکھا امت کو کہا تم قیامت میں اپنے اپنے رب کو چودھویں رات کے چاند کی طرح دیکھو گے اور بہت سے اولیاء اللہ نے شرف دیدار حاصل کیا ابن کثیر کا قول ہے کہ دیدار کا مسئلہ صحابہ میں متفق علیہ تھا تابعین اور آئمہ مجتہدین میں بھی اسی پر اتفاق رہا اور کتب سابقہ سے بھی دیدار کا حق ہونا ‍ثابت ہے‘‘

(قرآن مجید مع ترجمہ و تشریح مرتبہ حضرت مولانا میر محمد سعید صاحب از درس قرآن حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفۃ المسیح الاول صفحہ 348 حاشیہ)

وہ تمثل کے طور پر اہل کشف
پر اپنے تئیں ظاہر کر سکتا ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الوصیت میں تحریر فرمایا
’’ہمارا خدا وہ خدا ہے جو اب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ پہلے بولتا تھا اور اب بھی وہ سنتا ہے جیسا کہ پہلے سنتا تھا یہ خیال خام ہےکہ اس زمانہ میں وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں بلکہ وہ سنتا بھی ہے اور بولتا بھی ہے اس کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نہ کبھی ہو گی وہ وہی واحد لا شریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں وہ وہی بے مثل ہے جس کا کوئی ثانی نہیں اور جس کی طرح کوئی فرد کسی خاص صفت سے مخصوص نہیں اور جس کا کوئی ہمتا نہیں جس کا کوئی ہم صفات نہیں اور جس کی کوئی طاقت کم نہیں وہ قریب ہے باوجود دور ہونے کے اور وہ دور ہے باوجود نزدیک ہونے کے

وہ تمثل کے طور پر اہل کشف پر اپنے تئیں ظاہرکر سکتا ہے مگر اس کے لئے نہ کوئی جسم ہے اور نہ کوئی شکل ہے اور وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہےاور وہ عرش پر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ زمین پر نہیں۔ وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہے تمام محامد حقہ کا اور سرچشمہ ہے تمام خوبیوں کا اور جامع ہے تمام طاقتوں کا اور مبداء ہے تمام فیضوں کا اور مرجع ہے ہر ایک شئے کا۔ اور مالک ہے ہر ایک ملک کا اور متصف ہے ہر ایک کمال سے اور منزہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے اور مخصوص ہے اس امر میں کہ زمین والے اور آسمان والے اسی کی عبادت کریں اور اس کے آگے کوئی بات بھی انہونی نہیں‘‘

(الوصیت صفحہ10)

وہ تمثل کے طور پر حضرت مسیح موعودؑ پر ظاہر ہوا

ایک مرتبہ مجھے یاد ہے کہ میں نے عالم کشف میں دیکھا کہ بعض احکام قضاء و قدر میں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں کہ میں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہوگا اور پھر اس کو دستخط کرانے کے لئے خدا وند قادر مطلق جل شانہ کے سامنے پیش کیا ہے اور یاد رکھنا چاہیئے کہ مکاشفات اور رویا صالحہ میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض صفات جمالیہ یا جلالیہ الہیہ انسان کی شکل میں متمثل ہو کر صاحب کشف کو نظر آجاتے ہیں اور مجازی طور پر وہ یہی خیال کرتا ہے کہ وہی خدا وند قادر مطلق ہے اور یہ امر ارباب کشوف میں شائع و متعارف و معلوم الحقیقت ہے جس سے کوئی صاحب کشف انکار نہیں کر سکتا غرض وہی صفت جمالی جو بعالم کشف قوت متخیلہ کے آگے ایسی دکھلائی دی تھی جو خدا وند قادر مطلق ہے اس ذات بیچون و بیچگون کے آگے وہ کتاب قضا و قدر پیش کی گئی اور اس نے جو ایک حاکم کی شکل پر متمثل تھا اپنے قلم کو سرخی کی دوات میں ڈبو کر اول اس سرخی کو اس عاجز کی طرف چھڑکا اور بقیہ سرخی کا قلم کے مونہہ میں رہ گیا اس سے اس کتاب پر دستخط کر دیئے اور ساتھ ہی وہ حالت کشف دور ہو گئی اور آنکھ کھول کر جب خارج دیکھا، تو کئی قطرات سرخی کے تازہ بتازہ کپڑوں پر پڑے چنانچہ ایک صاحب عبد اللہ جو سنور ریاست پٹیالہ کے رہنے والے تھے اور اس وقت اس عاجز کے پاس نزدیک ہو کر بیٹھے ہوئے تھے دو یا تین قطرہ سرخی کے ان کی ٹوپی پر پڑے پس وہ سرخی جو ایک امر کشفی تھا وجود خارجی پکڑ کر نظر آگئی اسی طرح اور کئی مکاشفات میں، جن کا لکھنا موجب تطویل ہے مشوہدہ کیا گیا ہے‘‘

(سرمہ چشم آریہ، بحوالہ تذکرہ چوتھا ایڈیشن صفحہ126 – 128)

1885ء

’’میں نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں ہوں اور منتظر ہوں کہ میرا مقدمہ بھی ہو اتنے میں جواب ملا
اِصْبِرْ سَنَفْرُغُ یَا مِرْزَا

(مرزا ذرا ٹھہرو ہم ابھی فارغ ہوتے ہیں) پھر ایک بار دیکھا کہ کچہری میں گیا ہوں تو اللہ تعالیٰ ایک حاکم کی صورت پر عدالت کی کرسی پر بیٹھا ہے اور ایک سررشتہ دار کے ہاتھ میں مثل ہے جو وہ پیش کر رہا ہے حاکم نے مثل دیکھ کر کہا کہ مرزا حاضر ہے تو میں نے غور سے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک خالی کرسی پڑی ہے مجھے اس کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر میں بیدار ہو گیا‘‘

(تذکرہ صفحہ129)

1903ء

’’میں نے ایک دفعہ کشف میں اللہ تعالیٰ کو تمثل کے طور پر دیکھا میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر فرمایا:

’’جے تو میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو‘‘

(تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ471)

26 اگست 1901ء

’’آج ہم نے رؤیا میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا درباہے اور ایک مجمع ہے اور اس میں تلواروں کا ذکر ہو رہا ہے تو میں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا کہ

سب سے بہتر اور تیز تر وہ تلوار ہے جو تیری تلوار میرے پاس ہے

اس کے بعد ہماری آنکھ کھل گئی اور پھر ہم نہیں سوئے کیونکہ لکھا ہے کہ مبشر خواب د یکھو، تو اس کے بعد جہاں تک ہو سکے نہیں سونا چاہیئے اور اس سے مراد یہی حربہ ہے جو کہ ہم اس وقت مخالفوں پر چلا رہے ہیں جو آسمانی حربہ ہے‘‘

(تذکرہ صفحہ410)

1902ء

’’حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ رَاَیْتُ رَبِّیْ عَلیٰ صُوْرَۃِ اَبِیْ یعنی میں نے اپنے رب کو اپنے باپ کی شکل پر دیکھا میں نے بھی اپنے والد صاحب کی شکل پر اللہ تعالیٰ کو دیکھا ان کی شکل بڑی بارعب تھی انہوں نے ریاست کا زمانہ دیکھا ہؤا تھا اس لئے بڑے بلند ہمت اور عالی حوصلہ تھے غرض میں نے دیکھا وہ ایک عظیم الشان تخت پر بیٹھے ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ خدا تعالیٰ ہے

اس میں سر یہ ہوتا ہے کہ باپ چونکہ شفقت اور رحمت میں بہت بڑا ہوتا ہے اور قرب اور تعلق شدید رکھتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کا باپ کی شکل میں نظر آنا اس کی عنایت، تعلق اور شدید محبت کو ظاہر کرتا ہے اس لئے قرآن شریف میں بھی گزرا ہوں آیا ہے کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَکُمْ اور میرے الہامات میں یہ بھی ہے اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِیْ یہ قرآن شریف کی اسی آیت کے مفہوم اور مصداق پر ہے‘‘

(تذکرہ صفحہ419)

1903ء

’’میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہاء نالیاں ہو تی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں‘‘

(تذکرہ صفحہ464)

اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ’’اگر تمام مذہبوں کی کتابیں نابود ہو کر ان کے سارے تعلیمی خیالات اور تصورات بھی محو ہو جائیں تب بھی وہ خداجس کی طرف قرآن راہنمائی کرتا ہے آئینہ قانون قدرت میں صاف نظر آئے گا‘‘ (تفسیر مسیح موعود جلد4 صفحہ207) حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرماتے ہیں ’’نسانی سرشت میں ہی اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان داخل ہے پس تمام دنیا میں جو خدا تعالیٰ کا تصور پایا جاتا ہے یہ اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ یہ انسانی سرشت میں مرتسم ہے‘‘ (فٹ نوٹ)

تو نے خود روحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑکا نمک
اس سے ہے شور محبت عاشقان زار کا

اللہ تعالیٰ کیا چاہتا ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ’’خدائے تعالیٰ نے کل عالم کو اس غرض سے پیدا کیا کی تا وہ اپنی خالقیت کی صفت سے شناخت کیا جائے اور پھر پیدا کرنے کے بعد اپنی مخلوقات پر رحم اور کرم کی بارشیں کیں تا وہ رحیمی اور کریمی کی صفت سے شناخت کیا جائے ایسا ہی اس نے سزا اور جزا تا اس کا منتقم اور منعم ہونا شناخت کیا جائے غرض وہ اپنے سب عجیب کاموں سے یہی مدعا رکھتا ہے کہ تا وہ پہچانا جائے اور شناخت کیا جائے سوجب کہ دنیا کے پیدا کرنے اور جزا سزا وغیرہ سے اصل غرض معرفت الہی ہے جو لب لباب پرستش و عبادت ہے تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ خود تقاضا فرماتا ہے کہ تا اس کی معرفت جس کی حقیقت کاملہ پرستش و عبادت کے ذر یعہ سے کھلتی ہے اس کے بندوں سے حاصل ہو جائے جیسا کہ ایک خوبصورت اپنے کمال خوبصورتی کی وجہ سے اپنے حسن کو ظاہر کرنا چاہتا ہے سو خدائے تعالیٰ جس پر حسن حقیقی کے کمالات ختم ہیں وہ بھی اپنے ذاتی جوش سے چاہتا ہے کہ وہ کمالات لوگوں پر کھل جائیں۔‘‘

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ266-267)

دیدار گر نہیں تو گفتار ہی سہی

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ’’لاکھوں مقدسوں کا یہ تجربہ ہے کہ قرآن شریف کے اتباع سے برکات الٰہی نازل ہوتی ہیں اور عجیب پیوند مولیٰ کریم سے ہو جاتا ہے خدائے تعالیٰ کے انوار اور الہام ان کے دلوں پر اترتے ہیں اور معارف اور نکات ان کے مونہہ سے نکلتے ہیں ایک قوی توکل ان کو عطا ہوتی ہے اور ایک محکم یقین ان کو دیا جاتا ہے اور ایک لذیذ محبت الہی جو لذت وصال سے پرورش یاب ہے ان کے دلوں میں رکھی جاتی ہے‘‘

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ79 حاشیہ)

مظہر تام الوہیت

اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے اس نے تمثیل کے طور پر اپنے وجود کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کے طور پر پیش کیا ہے حضرت مسیح موعود کے الفاط میں: انسان کامل جو خدائے ذات کا نمونہ ہے جس طرح ایک مصفا اور وسیع شیشہ میں صاحب روئت کی تمام و کمال شکل منعکس ہو جاتی ہے ایسا ہی انسان کامل کے نمونہ میں الٰہی صفات عکسی طور پر آجاتے ہیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور ظل کا مل نے کیا خوب فرمایا ہے

وَجْہُ الْمُھَیْمِنُ ظَاھِرٌ فِیْ وَجْھِہٖ
وَشُئُوْنُہٗ لَمَعَتْ بِھٰذَا الشَّأْنٖ

یعنی آپ کے چہرہ میں خدا کا چہرہ نمایاں ہے اور خدا کی صفات (آپ کی) اس شان سے جلوہ گر ہو گئیں

وَرَاَیْتُ فِیْ رَیْعَانِ عُمْرِیْ وَجْھَہٗ
ثُمَّ النَّبِیُّ بِیَقْظَتِیْ لَا قَانِیْ

یعنی میں نے تو (اپنے) عنفوان شباب میں ہی آپ کا چہرہ مبارک دیکھا
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری بیداری میں بھی مجھے ملے ہیں۔

(ابن ایف آر بسمل)

پچھلا پڑھیں

پردہ تعلیم میں رکاوٹ نہیں ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مئی 2022