• 27 اپریل, 2024

علیکم بالشفائین: العسل و القرآن

(قسط اوّل)

قرآن ِحکیم اور عسل مصفّیٰ یعنی شہد میں روحانی اور جسمانی بیماریوں کا علاج
خدا تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت کے دو انمول اور لا محدود خزانے

خدائے رحمٰن نے ہمیں دو ایسی انمول نعمتیں عطا کی ہیں جن میں اس نے ہمارے لئے روحانی اور جسمانی شفاء کے سامان رکھے ہیں۔ ایک تو ان میں سے قرآنِ شریف ہےا ور دوسرا ہے شہد۔

قرآن کریم میں تین مختلف مقامات پر یہ دعویٰ بڑی تحدّی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ یہ لوگوں کی شفاء کا ایک عظیم وسیلہ ہے۔ چنانچے سورۂ بنی اسرائیل آیت ۸۳ میں فرمایا۔ وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْ مِنِیْنَ یعنی ہم نے قرآنِ کریم میں وہ کچھ نازل کیا ہے جو مؤمنوں کے لئے شفاء اور سراسر رحمت کا موجب ہے۔ اسی طرح سورۂ یونس آیت ۵۸ میں قرآنِ کریم کو شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ یعنی سینوں کی بیماریوں کے لئے شفاء کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ جبکہ سورۃ حٰمٓ سجدہ کی آیت ۴۵ میں دوبارہ اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ قرآنِ مجید مؤمنوں کے لئے ہدایت اور شفاء کا سرچشمہ ہے چنانچے فرمایا۔ قُلْ ھُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھُدیً وَّ شِفَآءٌ۔

دوسرا بیش قیمت خزانہ جو خدائے رحمٰن نے ہمیں عطا کیا ہے وہ شہد کا انمول تحفہ ہے۔اللہ تعالیٰ سورۃ النحل آیت ۷۰ میں شہد کے بارے میں فرماتا ہے فِیْہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ۔ یعنی اس میں بھی لوگوں کی شفاء کے سامان رکھے گئے ہیں۔ آنحضور ﷺ نے اسی ضمن میں ہمیں تاکیدی ارشاد فرمایا ہے کہ عَلَیْکُمْ بِالشِّفَائَیْنِ: اَلْعَسَلِ وَ الْقُرْاٰنِ (ابن ِ ماجہ کتاب الطب باب العسل) یعنی شہد اور قرآن ہر دوشفاؤں کو تھامے رکھواور ان سے اپنی روحانی اور جسمانی بیماریوں کا علاج کرو۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ علیم و خبیر خدا ایک دعویٰ فرمائے اور اُس کا اصدق القول رسول ﷺ اس کی توثیق کرئے اور وہ من و عن سچی اور پوری نہ ہو۔لہٰذا اس بات کی تائید میں چند واقعات و دلائل پیشِ خدمت ہیں۔

قرآنِ کریم ۔اکسیرِ اعظم
قرآنِ کریم سے روحانی شفاء پانے کے چند واقعات

مندرجہ ذیل واقعات اس بات کی بیّن دلیل ہیں کہ قرآن ِ کریم نے نہ صرف لوگوں کےدلوں کی ناپاکی اوررجس کو دور کیا بلکہ انہیں وہ نورِ صافی بخشا جس نے اُنہیں فرشتوں سے بھی افضل و ارفع مقام پر سرفراز کیا۔

حضرت عمرؓ کا قبولیتِ اسلام

حضرت عمر فاروق ؓ کے دل کو خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار کرنے کا باعث یہ قرآن ِ کریم ہی تھا ۔روایات میں مذکور ہے کہ حضرت عمر ؓ جو قبولیتِ اسلام سے قبل اسلام اور پیغمبرِ اسلام سے اس قدر مخالفت اور عناد رکھتے تھے کہ ایک دفعہ اپنے گھر سے تلواد اُٹھائے اس نیت سے نکلے کہ آج (معاذ اللہ) رسولِ خدا ﷺ کو شہید کردیں گے لیکن ابھی رستے میں ہی تھے کہ نعیم بن عبداللہ نے انہیں آگاہ کیا کہ تمہاری بہن فاطمہ اور بہنوئی دونوں اسلام قبول کرچکے ہیں۔ یہ سنتے ہی آپؓ اپنی بہن کے گھر تشریف لائے اور انہیں مارنا شروع کردیا ۔اس پر آپ ؓ کی بہن نے کہا اے عمر! جو کرنا ہے کرلو ہم اسلام کو ہر گز چھوڑنے والے نہیں ہیں۔بہن کی زخمی حالت دیکھ کر جب آپؓ کا دل کچھ نرم ہوا تو کہا کہ تم میرے آنے سے قبل جو پڑھ رہے تھے وہ مجھے بھی دکھاؤ۔اس پر آپکی بہن نے آپؓ کو سورۃ الحدید کی کچھ آیات اوراق پر تحریر شدہ عطا کیں جن کو پڑھتے ہی حضرت عمرؓ کا دل خدا اور رسولِ خدا اور اسلام کے حق میں مسخَّر ہوگیا۔ اور اس محبت او راخلاص و وفا میں اس قدر ترقی کی کہ اسلام کے دوسرے خلیفہ منتخب ہوئے اور آپؓ کا نام تا ابد عزت و توقیر سے لیا جاتا رہے گا۔ ان شاء اللہ

(سیر الصحابۃ جلد اوّل صفحہ ۹۸۔۹۹)

حضرت نجاشیؓ شاہِ حبشہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا بہہ پڑنا

حضرت نجاشیؓ جو حبشہ کے بادشاہ تھے جب ان کے دربار میں حضرت جعفر بن طیارؓ نے سورۂ مریم کی چند آیات کی تلاوت کی تو آپ ؓپر رقت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے ۔کہنے لگے۔ خدا کی قسم ! یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پَر تو ہیں۔

(سیرت النبی ؐ از علامہ شبلی نعمانی حصہ سوئم صفحہ۰ ۲۹)

شعراء نے شعر کہنا چھوڑ دئیے

حضرت حسّان بن ثابت ،حضرت عامر بن اکوع، حضرت طفیل بن عمرو، حضرت اسود بن سریع، حضرت کعب بن زبیر اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضوان اللہ علیہم سب عرب کے مشہور شعراء میں گردانے جاتے تھے لیکن جب قرآنِ کریم سُنا تو اسی کے دیوانے ہوگئے۔ ایک مشہور شاعر لبید نے تویہ کہہ کر شعر کہنا چھوڑ دیئے کہ جب خدا نے مجھے البقرۃ اور آلِ عمران سکھادی ہے تو اب دل کی تسکین کا سامان کہیں اور تلاش کیا ہی نہیں جاسکتا۔

(سیرت النبی ؐ از علامہ شبلی نعمانی حصہ سوئم صفحہ ۲۸۹)

ایک کہانی مسیح پاکؑ کی زبانی

۵ ستمبر ۱۹۹۸ء کے روزبعد نمازِ عصرحضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓ کی درخواست پر حضرت مسیحِ موعود ؑ نے ایک بزرگ اور چور کی کہانی سُنائی۔ جس میں ایک چور کسی جنگل میں ایک بزرگ کو لوٹنے لگا تو اس اس بزرگ نے یہ آیت پڑھی وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ یعنی تمہارا رزق آسمان پر موجود ہے تم خدا پر بھروسہ کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور چوری چھوڑ دو وہ تمہاری تمام ضروریات پوری فرمائے گا۔اس پر اس چور نے توبہ کی اور اس بات پر عمل کرنے لگا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اسےاسقدر نوازا کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں اسے کھانا ملنے لگا۔ وہ کھانا کھا کر برتن اپنی جھونپڑی سے باہر پھینک دیتا تھا۔ کچھ عرصے بعد جب اس کی ملاقات دوبارہ اُسی بزرگ سے ہوئی تویہ ان سے کہنے لگا کہ مجھے کوئی اور آیت بتائیں۔ اس پر اس بزرگ نے یہ آیت پڑھی۔ فِی السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِنَّہٗ الْحَقُّ یعنی وہی ہے جو آسمان اور زمین میں حق ہے۔ یہ پاک الفاظ سُن کر اس پر ایسا اثر ہوا کہ وہ خدا کی قدرومنزلت سے تڑپ اُٹھا اور اسی میں جان دے دی۔

(حیاتِ احمد جلد اوّل نمبر دوئم صفحہ ۱۵۶مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی ؓ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 24 جون 2020ء