• 14 جولائی, 2025

NickName اور اسلامی ہدایات

موجودہ زمانے میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سے معاشروں میں nickname رکھنے کا بہت رواج ہے۔ یہ رواج مغربی معاشرے کے علاوہ ہمارے مشرقی معاشرے کا بھی حصہ ہے۔ اگر ہم اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو ہمیں بہت سے لوگ nicknames پکارتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ عادت معاشرے میں بسا اوقات اتنی راسخ ہو چکی ہوتی ہے کہ کئی دفعہ کسی فرد کا اصل نام بھی یاد نہیں رہتا۔

بعض اوقات لوگ ایک دوسرے کو ایسے ناموں سے پکارتے ہیں جو ادب و احترام کے خلاف ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ بسا اوقات انجانے میں خدائی صفات کی بے حرمتی کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ اسلام ہمیں کسی کو اس طرح پکارنے سے منع کرتا ہے۔ دیکھا گیا ہے بعض اوقات ایسے ناموں سے پکارنے کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہوتا، مگر وہ نام کے مطالب اور ان کے مفاہیم کو مسخ کر دیتا ہے۔

نام بگاڑنے کی ممانعت

اسلام کے مطابق کسی کا نام بگاڑنا ایک سخت گناہ ہے ۔قرآن میں خدا تعالی نے اس کے بارے میں بہت سخت الفاظ بیان فرمائے ہیں۔ خدا تعالی فرماتا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ

(الحجرات 12)

ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! (تم میں سے) کوئی قوم کسی قوم پر تمسخر نہ کرے۔ ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں)۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوجائیں۔ اور اپنے لوگوں پر عیب مت لگایا کرو اور ایک دوسرے کو نام بگاڑ کر نہ پکارا کرو۔ ایمان کے بعد فسوق کا داغ لگ جانا بہت بری بات ہے۔ اور جس نے توبہ نہ کی تو یہی وہ لوگ ہیں جو ظالم ہیں۔

اس آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان لانے کے بعد کسی کا نام بگاڑنا یا کسی کو تمسخر کے ساتھ پکارنا ایک بڑا گناہ ہے۔ اس لئے اس سے حتی الوسع اجتناب کرنا چاہئے۔

اچھے نام اور محبت کے ساتھ پکارنا

اوپر بیان کی گئی تمام باتوں کے بعد اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کیا اسلام نے nickname رکھنے کی اجازت دی ہے؟ اگر ہم اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر دوڑائیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات مبارک میں بہت سے لوگوں کو پیار بھرے ناموں سے بھی پکارا کرتے تھے۔ مگر ان ناموں کا پکارنا کسی بھی طرح اس قرآنی آیت کی خلاف ورزی نہیں تھا۔ کیونکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی کا نام نہیں بگاڑا اور نہ ہی کبھی کسی کی دل آزاری کیلئے اس کا نام تبدیل کیا۔ بلکہ اس کے برعکس آپ نے ہمیشہ پیار اور محبت سے ایسے پکارا کہ سننے والے کو بھی حلاوت محسوس ہوئی۔ ذیل میں آنخضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے چند مثالیں پیش ہیں۔

ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ اکثر اوقات حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو پیار سے ’’عائش‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ذکر آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا

يَا عَائِشَ هَذَا جِبْرِيلُ يُقْرِئُكِ السَّلَامَ

(صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب فضل عائشہ رضی اللہ عنھا)

اسی طرح اور کئی مواقع پر بھی آپؐ نے حضرت عائشہؓ کو عائش کہہ کر پکارا۔

اسی طرح ایک موقع پر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیار اور شفقت بھرے انداز سے ’’عثیم‘‘ کہہ کر پکارا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔

’’اكْتُبْ يَا عُثَيْمُ’’، فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُنْزِلَهُ تِلْكَ الْمَنْزِلَةَ إِلَّا كَرِيمًا عَلَى اللّٰهِ وَرَسُولِهِ‘‘

(مسند احمد بن حنبل، سادس عشر الانصار، حديث (السيدة عائشة رضي الله عنها))

مندرجہ بالا دونوں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پکارنے کے انداز میں شفقت اور محبت کا عنصر نمایاں ہو کر جھلکتا ہے۔ اس ضمن میں ہمیں یہ خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ ہم اپنی طرف سے جو پیار بھرا نام یا nickname کسی کو دے رہے ہیں، کیا وہ انہی اصولوں کے مطابق ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دکھایا ہے۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنے زعم میں کسی کو مخصوص نام سے پکارتا ہے مگر وہ دل ہی دل میں مخاطب شخص کو برا محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی یقینی بنانی چاہئے کہ اصل نام کی بے حرمتی نہ ہو اور نہ ہی اس نام کا مطلب مسخ ہو۔ اس سلسلے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ سے نہایت خوبصورت راہنمائی ملتی ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ اپنے بچپن کا ایک واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک کتّا ہمارے دروازے پر آیا۔ میں وہاں کھڑا تھا، اندر کمرے میں صرف حضرت صاحبؑ تھے۔ میں نے اس کتّے کو اشارہ کیا اور کہا ’’ٹیپو! ٹیپو!‘‘ حضرت صاحب بڑے غصے سے باہر نکلے اور فرمایا ’’تمہیں شرم نہیں آتی کہ انگریز نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام پر ٹیپو رکھ دیا ہے اور تم اُن کی نقل کر کے کتے کو ٹیپو کہتے ہو، خبردار! آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا۔‘‘ میری عمر شاید آٹھ نو سال کی تھی، وہ پہلا دن تھا جب سے میرے دل کے اندر سلطان ٹیپو کی محبت قائم ہوگئی۔

(روزنامہ الفضل ربوہ یکم اپریل 1958ء)

اس واقعے سے یہ مضمون واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح کسی کے نام کی بے حرمتی نہ ہو اور کسی بھی طرح کسی کے نام کو نہ بگاڑا جائے کیونکہ یہ قرآنی حکم کی صریح خلاف ورزی ہے۔

ان تمام ہدایات کو مدنظر رکھتے ہو پیار اور محبت کے انداز سے nickname دینا جائز ہے بشرطیکہ نام کا تقدس پامال نہ ہو اور اس میں کسی قسم کا بگاڑ نہ آئے۔ خدا تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام اوامر و نواہی پر کماحقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

(راجہ اطہر قدوس)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 24 جون 2020ء