• 19 مئی, 2024

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط نمبر27)

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
کوئی دن منحوس نہیں ہوتا
قسط نمبر27

آنحضرتﷺ نے فرمایا:

أَنَّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ يَوْمُ الدَّمِ وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يَرْقَأُ

(رواہ ابو داؤد مشکوٰۃ المصابیح کتاب الطب والرقی حدیث نمبر4549 صفحہ 389 کراچی)

کہ منگل کا دن خون کا دن ہے اس میں ایک گھڑی ایسی بھی ہوتی ہے کہ خون بند نہیں ہوتا۔

آپ ؐ نے یہ کہیں نہیں فرمایا تھا کہ منگل کے دن میں نحوست ہوتی ہے۔ ہمارے مذہب میں کوئی دن بھی منحوس نہیں ہوتا۔ سارے دن بابرکت اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے مظہر ہیں حقیقی مسبب الاسباب وہی ذات بابرکات ہے اس کے اذن کے بغیر کوئی چیز نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتی تقدیر خیر و شرّ کا منبع خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاِنۡ یَّمۡسَسۡکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗۤ اِلَّا ہُوَ ۚ وَاِنۡ یُّرِدۡکَ بِخَیۡرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضۡلِہٖ ؕ یُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ ؕ وَہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۰۸﴾

(يونس: 108)

اور اگر اللہ تجھے کوئی ضرر پہنچائے تو کوئی نہیں جو اُسے دور کرنے والا ہو مگر وہی۔ اور اگر وہ تیرے لئے کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو ٹالنے والا کوئی نہیں۔ اپنے بندوں میں سے جسے وہ چاہتا ہے وہ (فضل) عطا کرتا ہے اور وہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

اسی طرح سورۃ شوریٰ میں ارشاد ہے:

وَمَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَیَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ﴿۳۱﴾

(الشوریٰ: 31)

اور تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس سبب سے ہے جو تمہارے اپنے ہاتھوں نے کمایا۔ جبکہ وہ بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔

اور سورۃ النساء میں فرمان ہے:

مَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ۫ وَمَاۤ اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفۡسِکَ

(النساء: 80)

جو بھلائی تجھے پہنچے تو وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ اور جو ضرر رساں بات تجھے پہنچے تو وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہوتی ہے۔

ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علم میں آیا کہ لوگ آنحضرتﷺ کی طرف منسوب کرکے کہہ رہے ہیں کہ نحوست اور بد شگونی گھر، عورت اور گھوڑے سے ہوتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا یہ سن کر سخت ناراض ہوئیں، اور فرمایا:
’’خدا کی قسم! جس نے محمدﷺ پر قرآن اُتارا ہے رسول اللہﷺ نے ایسا ہرگز نہیں فرمایا بلکہ آپﷺ نے تو فرمایا تھا کہ اہلِ جاہلیت ان تین چیزوں کے متعلق نحوست اور بد شگونی کے قائل تھے‘‘

(مسند احمد بن حنبل الملحق المستدرک من مسندالانصار،مسند الصدیقہ عائشۃ بنت الصدیقؓ 26562)

دینِ اسلام میں آج تک جتنی بھی رسوم، رواج، تبدیلیاں اور بدعات داخل ہوئی ہیں ان کی بنیادی وجہ احکام الٰہی کو نہ سمجھنا، توہم پرستی اور دیگر مذ اہبِ باطلہ کی بلا سوچے سمجھے پیروی شامل ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
بنیادی طور پر کسی دوسرے سے بیماری کے لگ جانے اور بد فا لی لینے کا خیال وہم کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یعنی اس بارہ میں خواہ مخواہ کے وہم سے بچنا چاہئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے نیک فال پسند ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ نیک فال کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا پاکیزہ کلمہ یعنی اچھی بات کہنا اور اچھی بات سے اچھا نتیجہ نکالنا۔

(بخاری کتاب الطب باب الفال)

تمام گھڑیاں، دن، مہینے اور سال اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں نیک کام کریں تو مبارک اور بد کریں تو منحوس ہوجاتے ہیں۔ ایسے بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی دن کسی کے لئے مبارک اور کسی کے لئے منحوس ہو جیسا کہ قرآن پاک میں قومِ عاد کی سزا کے دنوں کے بارے میں فرمایا:
اس نے اُسے اُن پر مسخر کئے رکھا سات راتوں اور آٹھ دن تک اس حال میں کہ وہ اُنہیں جڑوں سے اکھیڑ کر پھینک رہی تھی۔ پس قوم کو تُو اُس میں پچھاڑ کھاکر گرا ہوا دیکھتا ہے جیسے وہ کھجور کے گرے ہوئے درختوں کے تنے ہوں۔

(الحٓاقّہ: 8)

اور ان سات راتوں اور دنوں کو ان کے لئے منحوس قرار دیا ورنہ تو سارے دن ان کے لئے منحوس تھے۔

پس ہم نے سخت منحوس دنوں میں اُن پر ایک تیز آندھی چلائی تاکہ ہم انہیں (اس) دنیا کی زندگی میں ذِلّت کا عذاب چکھائیں اور یقیناً آخرت کا عذاب زیادہ رُسواکن ہے اور وہ مدد نہیں دیئے جائیں گے۔

(حٰمٓ السّجدہ: 17)

نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اچھا کام کریں تو بابرکت اور برا ہو تو منحوس۔ کسی دن کو منحوس نہیں کہہ سکتے۔

منگل کے دن کے بارے میں آنحضرتﷺ کے ارشاد کی حکمت آپﷺ کے عاشقِ صادق نے خوب سمجھی۔بلکہ اس کی خوب وضاحت فرمائی تاکہ توہمات کا سلسلہ شرک تک نہ لے جائے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم رضی اللہ عنہا کی پیدائش کا مرحلہ تھا منگل کو ولادت متوقع تھی آپؑ نے دعا کی کہ:

’’خدا اسے منگل کے تکلیف دہ اثرات سے محفوظ رکھے‘‘

اس کی وضاحت میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں:
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ رضی اللہ عنہانے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنوں میں سے منگل کے دن کو اچھا نہیں سمجھتے تھے نیز بیان کیا حضرت خلیفۃ المسیح ثانی رضی اللہ عنہ نے کہ جب مبارکہ بیگم (ہماری ہمشیرہ) پیدا ہونے لگی تو منگل کا دن تھا اس لئے حضرت صاحب نے دعا کی کہ خدا اسے منگل کے تکلیف دہ اثرات سے محفوظ رکھے خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن پیدا ہوئے تھے اور فوت ہوئے منگل کے دن۔ اور جاننا چاہئے کہ زمانہ کی شمار صرف اہل دنیا کے واسطے ہے اور دنیا کے واسطے واقعی آپ کی وفات کا دن ایک مصیبت کا دن تھا۔

اس روایت سے یہ مراد نہیں ہے کہ منگل کا دن کوئی منحوس دن ہے بلکہ اس سے صرف یہ مراد ہے کہ منگل کا دن بعض اجرام سماوی کے مخفی اثرات کے ماتحت اپنے اندر سختی اور تکلیف کا پہلو رکھتا ہے چنانچہ منگل کے متعلق حدیث میں بھی آنحضرتﷺ کا یہ قول آتا ہے کہ منگل وہ دن ہے جس میں خدا تعالیٰ نے پتھریلے پہاڑ اور ضرر رساں چیزیں پیدا کی ہیں (دیکھو تفسیر ابن کثیر آیت خلق الارض فی یومین)

(سیرت المہدی حصہ اول روایت11 صفحہ 8۔9)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جولائی 1954ء میں کسی سوال کے جواب میں وضاحت فرماتے ہیں:
’’یہ وہم کرلینا کہ فلاں دن منحوس ہے اور فلاں دن غیر منحوس یہ تو بڑی خرابی پیدا کرنے والا ہے اس پر انہوں نے کہا کہ آپ ہی نے تو کسی تقریر میں کہا تھا کہ منگل کے دن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو شاید کوئی الہام ہوا تھا یا کوئی اور وجہ تھی کہ آپ اسے ناپسند فرمایا کرتے تھے۔ میں نے کہا میں نے تو صرف ایک روایت کی تشریح کی تھی یہ تو نہیں کہا تھا کہ منگل کا دن منحوس ہے۔ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف ایک ایسی روایت منسوب کی جاتی ہے۔ اس لئے میں نے بتایا تھا کہ اگر اس روایت کو درست تسلیم کیا جائے تو شاید منگل کے دن سے آپ کو اس لئے تخویف کرائی گئی ہو کہ آپ کی وفات منگل کے دن ہونے والی تھی۔ مگر بعض لوگوں نے اس مخصوص بات کو جو محض آپ کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی وسیع کر کے اسے ایک قانون بنا لیا اور منگل کی نحوست کے قائل ہو گئے۔ حالانکہ جو چیز خدا کی طرف سے ہو اس کو نحوست قرار دینا بڑی بھاری نادانی ہوتی ہے۔ اگر منگل کا دن منحوس ہوتا تو خدا تعالیٰ کوکہنا چاہئے تھا کہ اور تو سب دنوں میں میری صفات کام کرتی ہیں لیکن منگل کا دن چونکہ منحوس ہے اس میں میری صفات کام نہیں کرتیں۔ اور اگر خدا تعالیٰ نے کسی دن کی نحوست محسوس نہیں کی تو ہم یہ کریں یہ ایسی باتیں ہیں جن سے وہم بڑھتا ہے اور زندہ قوموں کے افراد کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کے وہموں میں مبتلا ہونے سے اپنے آپ کو بچائیں۔

دنوں میں اگر کوئی خاص برکت نہیں ہوتی تو رسولِ کریمﷺ نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری قوم کے لئے جمعرات کے سفر میں برکت رکھی ہے تو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ وہاں ایک وجہ موجود ہے اور وہ یہ کہ رسول کریمﷺ کا منشاء یہ تھا کہ جمعہ کے دن تمام لوگ شہر میں رہیں اور اکٹھے ہو کر نماز ادا کریں تاکہ جب لوگ اکٹھے ہوں تو وہ ایک دوسرے کی مشکلات حل کریں اہم امور میں ایک دوسرے سے مشورہ لیں اور اپنی ترقی کی تدابیر سوچیں اور یہ چیزیں اتنی اہم ہیں کہ ان کو ترک کرکے کسی سفر کے لئے چلے جانا کسی صورت میں بھی درست نہیں پس رسول کریمﷺ نے فرمایا اگر تم کہیں سفر پرجانا چاہو تو جمعرات کو جاؤ تاکہ جمعہ کسی شہر میں ادا کرسکو اور یہ چیز ایسی ہے جس سے کوئی وہم پیدا نہیں ہوتا …

باقی رہی وہ روایت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب کی جاتی ہے اگر وہ درست ہے تو اس نحوست سے مراد صرف وہ نحوست تھی کہ آپ کی وفات منگل کے دن ہونے والی تھی ورنہ جب خدا تعالیٰ نے خود تمام دنوں کو بابرکت کیا ہے اور تمام دنوں میں اپنی صفات کا اظہار کیا ہے تو اس کی موجودگی میں اگر کوئی روایت اس کے خلاف ہمارے سامنے آئے گی تو ہم کہیں گے کہ یہ روایت بیان کرنے والے کو غلطی لگی ہے۔ ہم ایسی روایت کو تسلیم نہیں کر سکتے اور یا پھر ہم یہ کہیں گے کہ ہر ایک انسان کو بشریت کی وجہ سے بعض دفعہ کسی بات میں وہم ہو جاتا ہے ممکن ہے کہ ایسا ہی کوئی وہم منگل کی کسی دہشت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی ہو گیا ہو۔ مگر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ یہ دن منحوس ہے۔ ہم اس روایت میں یا تو راوی کو جھوٹا کہیں گے یا پھر یہ کہیں گے کہ شاید بشریت کے تقاضے کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو اس دن کے بارے میں اپنے لئے بیان فرمایا۔ ورنہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں مسئلے کے طور پر یہی حقیقت ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے کہ سارے کے سارے دن بابرکت ہوتے ہیں مگر مسلمانوں نے اپنی بدقسمتی سے ایک ایک کر کے دنوں کو منحوس کرنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کامل طور پر نحوست اور ادبار کے نیچے آ گئے‘‘

(ماخوذ ازالفضل 21ستمبر1960ء صفحہ3-2 جلد49/14 نمبر217)

پیش گوئی جنگِ عظیم کے نام سے نظم میں منگل کے دن آنے والے زلزلہ اور اس کی تباہی کا ذکر ہے فرماتے ہیں:

یہ نشان ِزلزلہ جو ہو چکا منگل کے دن
وہ تو اِک لقمہ تھا جو تم کو کھلایا ہے نہار
اِک ضیافت ہے بڑی اے غافلو کچھ دن کے بعد
جس کی دیتا ہے خبر فرقاں میں رحماں بار بار
دوسرے منگل کے دن آیا تھا ایسا زلزلہ
جس سے اِک محشر کا عالم تھا بصد شور و پکار
ایک ہی دم میں ہزاروں اس جہاں سے چل دئیے
جس قدر گھر گر گئے ان کا کروں کیونکر شمار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ97 مطبوعہ 1908ء)

وفات کے وقت حضرت مسیح موعودؑ کی عمر سوا تہتر سال کے قریب تھی۔ دن منگل کا اور شمسی تاریخ 26 مئی 1908ء جو ڈاکٹر محمد شہیداللہ صاحب پروفیسر راجشاہی یونیورسٹی کی جدید تحقیق کے مطابق آنحضورﷺ کا یومِ وصال بھی یہی ہے۔

(تاریخِ احمدیت جلد دوم صفحہ541-542)

رب کل شیء خادمک رب فاحفظنی وانصرنی وارحمنی۔

اے رب ساری مخلوق تیری خادم ہے میری حفاظت فرما میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما۔ آمین اللّٰھم آمین۔

شرک اور بدعت سے ہم بے زار ہیں
خاکِ راہِ احمدِ مختار ہیں

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

رپورٹ جلسہ ہائے یوم خلافت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جون 2022