• 19 مئی, 2024

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط نمبر 23)

بنیادی مسائل کے جوابات
قسط نمبر 23

سوال:۔ ایک نوجوان نے احمدیت کے بارہ میں نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لباس اور آپ کے زیر استعمال بعض اشیاء کے بارہ میں متفرق استفسارات حضور انور کی خدمت اقدس میں تحریر کئے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 23 مارچ 2020ء میں ان سوالات کے درج ذیل جوابات ارشاد فرمائے۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ احادیث میں مختلف صحابہ سے مروی ہے کہ حضورﷺ عمامہ کا استعمال فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت جابر بن عبد اللہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو ا ٓپ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا۔

اسی طرح حضرت عمرو بن حریثؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے لوگوں سے خطاب فرمایا اور آپ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا۔

(صحیح مسلم کتاب الحج باب جَوَازِ دُخُولِ مَكَّةَ بِغَيْرِ إِحْرَامٍ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضورﷺ کی اس سنت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’آنحضرتﷺ تہ بند بھی باندھا کرتے تھے اور سراویل بھی خریدنا آپ کا ثابت ہے جسے ہم پاجامہ یا تنبی کہتے ہیں۔۔۔ ۔علاوہ ازیں ٹوپی۔ کڑتہ۔ چادر اور پگڑی بھی آپؐ کی عادت مبارک تھی۔‘‘

(الحکم نمبر14 جلد7۔ مؤرخہ 17اپریل 1903ء صفحہ8)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آقا و مطاع حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے حقیقی عاشق، آپ کے کامل متبع اور سچے غلام تھے۔ پس آپؑ نے حضورﷺ کی سنت کے مطابق پگڑی کا استعمال فرمایا۔

باقی جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پگڑی پہننے کی بجائے بالوں کی Knot بنانے کی بات ہے تو اس بارہ میں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضورﷺ کی اعلیٰ درجہ کی اطاعت اور آپ ؐ سے حد درجہ کی محبت کے نتیجہ میں ظلی اور امتی نبی کے مقام پر فائز فرمایا۔ انبیاء خدا تعالیٰ کے شعائر میں سے ہیں جن کا ادب اور احترام ہم پر واجب ہے۔ پس انبیاء کی ذات کے بارہ میں اس قسم کے سوال ان کی شان کے خلاف متصور ہوتے ہیں۔

خود بخود چلنے والے پین والی بات غلط ہے۔ نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایسا کوئی پین تھا اور نہ میرے پاس ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا اپنے پیاروں کے ساتھ ایسا تعلق ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملہ میں خود ان کی راہنمائی کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہی تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے ساتھ ہے۔

جہاں تک احمدیہ کمیونیٹی کا تعلق ہے تو یہ کوئی نیا مذہب نہیں ہے۔ بلکہ اسلام کی حقیقی جماعت ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے بانیٔ اسلام حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق قائم فرمایا ہے۔

جس طرح اللہ تعالیٰ دنیا کی اصلاح اور بہتری کیلئے پہلے وقتوں میں مختلف علاقوں اور مختلف زمانوں میں انبیاء مبعوث کرتا رہا ہے اور لوگوں کی راہنمائی کیلئے انہیں تعلیمات سے نوازتا رہا ہے۔ اسی طرح اس نے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو ساری دنیا کی ہدایت کیلئے مبعوث فرمایا اور قیامت تک قائم رہنے والی دائمی تعلیم قرآن کریم کا آپ پر نزول فرمایا۔

حضورﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب امت مسلمہ میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا اور مسلمان اسلام کی حقیقی تعلیم سے دور ہو جائیں گے۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ اس امت پر رحم فرماتے ہوئے اس کی راہنمائی کیلئے حضورﷺ کے ہی متبعین میں سے آپ کے ایک غلام صادق کو کھڑا کرے گا جو لوگوں کو اُس تعلیم پر قائم کرے گا جو اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ پر نازل فرمائی تھی اور جس کی تشریح آپؐ نے اپنے اقوال و افعال سے فرمائی تھی۔

چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی اس ذمہ داری کو نبھانے میں صرف فرمائی۔ آپ کے وصال کے بعد حضورﷺ کی ہی پیشگوئی کے مطابق جماعت احمدیہ میں خلافت کا بابرکت سلسلہ جاری ہوا اور جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت کے بابرکت سائے میں اسلام کا پر امن پیغام اور اس کی خوبصورت تعلیم ساری دنیا میں پہنچانے پر کمربستہ ہے۔

پس احمدیہ کمیونیٹی کسی انسان کا بنایا ہوا ادارہ نہیں جس کے سادہ ہونے یا نہ ہونے پر بات کی جائے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا لگایا ہوا ایک پودہ ہے جو اسی کی دی ہوئی تعلیمات انسانوں کی بھلائی کیلئے دنیا میں پھیلانے میں کوشاں ہے۔

بُرائی اور اچھائی کے بارہ میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ بُرائی اور اچھائی کا معیار کیا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ ایک بات آپ کے نزدیک بُری ہو لیکن کسی دوسرے کے نزدیک اچھی ہو۔ اور دنیا میں اس کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں۔ لیکن مذہب کی دنیا میں جن باتوں کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا وہ اچھائی ہے اور جن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا وہ بُرائی ہے، جسے اسلامی اصطلاح میں اوامر و نواہی کہا جاتا ہے۔ اور ایک مسلمان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان اوامر و نواہی پر کار بند ہو۔ یعنی جن باتوں کے کرنے کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے حکم دیا ان کو بجا لائے اور جن باتوں سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ان کر ترک کر دے۔ اس کے اسی قسم کے اعمال کے مطابق اس سے معاملہ کیا جائے گا۔

جہاں تک دوسرے مذاہب کے لوگوں کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان میں سے جس نے بھی کوئی نیک عمل کیا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہر گز ضائع نہیں کرے گا۔ چنانچہ ایک فاحشہ عورت کے پیاسے کتے کو پانی پلانے پر اللہ تعالیٰ نے اس عورت کو معاف کر دیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا۔ یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم پر مبنی صفات کا بھی مالک ہے اور جب چاہے وہ انہیں استعمال کرنے پر قادر ہے۔

باقی آپ کے کوڑا اٹھانے پر جنہوں نے اعتراض کیا ہے، ان کی بات غلط ہے۔ جماعت احمدیہ میں تو ایسے کام کیلئے وقار عمل کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ یعنی ایسا کام جس کے کرنے سے انسان کا وقار اور عزت بڑھتی ہے۔ اپنے علاقہ اور ماحول کو صاف رکھنا تو ایک بہت اچھی عادت ہے جس کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے بھی حکم دیا ہے۔ میں نے خود بھی کئی دفعہ وقار عمل کے تحت کوڑا کرکٹ اٹھایا ہے اور گندی نالیاں صاف کی ہیں۔

صفائی کرنے اور کوڑا کرکٹ اٹھانے سے ہر گز عزت نہیں جاتی۔ عزت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس کے حکموں کی خلاف ورزی کرنے سے عزت جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔

سوال:۔ ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ عام ضرورت کی اشیاء کی فروخت کے کاروبار میں اشیاء کی قیمت قسطوں میں ادا کرنے والوں سے عام قیمت سے کچھ زیادہ لینا سود تو نہیں؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 30 مارچ 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ آپ اپنے کاروبار میں چیز خریدنے والوں کو اگر پہلے بتا دیں کہ نقد کی صورت میں اس چیز کی اتنی قیمت ہو گی اور اگر وہ اُسی چیز کی قیمت قسطوں میں ادا کریں گے تو انہیں اتنے پیسے زیادہ دینے پڑیں گے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ سود کے زمرہ میں نہیں آتا۔ کیونکہ اس صورت میں آپ کو قسطوں میں چیزیں خریدنے والوں کا باقاعدہ حساب رکھنا پڑے گا اور ہو سکتا ہے کہ انہیں ان کی قسطوں کی ادائیگی کیلئے یاد دہانیاں بھی کروانی پڑیں، جس پر بہرحال آپ کا وقت صرف ہو گا اور دنیا وی کاموں میں وقت کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے چنانچہ ملازمت پیشہ لوگ اپنے وقت ہی کی بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں۔

سوال:۔ ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں کسی اخبار میں سے شائع ہونے والا ایک عورت کا واقعہ کہ اس نے اپنے خاوند کو اس کے شراب کے نشے میں دُھت ہونے کی وجہ سے ہمبستری سے انکار کر دیا، بیان کر کے دریافت کیا ہے کہ اگر میاں بیوی میں سے ایک فریق نشے میں ہو تو کیا باہم محبت کے جذبات قائم رہ سکتے ہیں؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 30 مارچ 2020ء میں اس مسئلہ کے بارہ میں درج ذیل ارشاد فرمایا۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ ایسی صورت میں سوال محبت کے جذبات قائم رہنے یا نہ رہنے کا نہیں بلکہ سلیم فطرت کی بات ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرعون کی بیوی کی اس دعا کو ہمارے لئے محفوظ کرکے ہماری راہنمائی فرمائی ہے کہ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ یعنی اے خدا! تو اپنے پاس ایک گھر جنت میں میرے لئے بھی بنا دے اور مجھے فرعون اور اس کی بداعمالیوں سے بچا لے۔

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ فرعون کی بیوی فرعون سے علیحدگی لینے میں بہرحال مجبور تھی جو اس نے خدا کے حضور یہ التجا کی۔

پس اس قرآنی تعلیم سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی مومنہ عورت کے بُرے خاوند کی سمجھانے کے باوجود اصلاح نہ ہو رہی ہو اور عورت کو اس سے علیحدگی لینے میں کوئی مجبوری درپیش نہ ہو تو اس مومنہ عورت کو دعا کر کے ایسے بُرے خاوند سے علیحدگی لے لینی چاہئے۔

سوال:۔ محترم امیر صاحب جرمنی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات میں نماز باجماعت کیلئے باہم نمازیوں کے درمیان ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھنے کے بارہ میں راہنمائی چاہی ہے؟ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 28 اپریل 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل ہدایات سے نوازا۔ حضور نے فرمایا:۔

جواب:۔ آنحضورﷺ کے ارشاد إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کے تحت اسلام کے ہر حکم کی بناء نیت پر ہے۔ پس نماز باجماعت کیلئے جو نمازیوں کو آپس میں کندھے سے کندھا، گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑے ہونے اور باہم درمیان میں فاصلہ نہ چھوڑنے کی تاکید فرمائی گئی ہے، اس کی ایک حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر تم ظاہراً اپنے اندر دوری پیدا کر لو گے تو شیطان تمہارے درمیان اپنی جگہ بنا کر تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا کر دے گا۔

اب جبکہ مجبوری ہے اور حکومتیں اپنے شہریوں کی بھلائی کیلئے ایسے اقدامات کر رہی ہیں تو جب ہم حکومتی قوانین کے مطابق اس طرح باہم فاصلہ کے ساتھ نماز میں کھڑے ہوں گے تو چونکہ ہماری نیت یہ نہیں کہ ہمارے درمیان پھوٹ پڑے یا ہمارے درمیان شیطان اختلاف ڈال دے، بلکہ ہماری تو یہی نیت ہے کہ ہم متحد رہیں اور ملکر اس بیماری کا مقابلہ کریں اور عوام کی بھلائی کیلئے کئے جانے والے ان حکومتی اقدامات میں ان کے ساتھ تعاون کریں تو اس نیت کے ساتھ اضطراری حالت میں نماز باجماعت میں نمازیوں کے درمیان فاصلہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور اس کا استنباط سفر میں بحالت مجبوری سواری پر نماز پڑھنے سے بھی کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس وقت بھی کندھے سے کندھا، گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنہ نہیں ملا ہوتا اور بعض اوقات نمازیوں کے درمیان باہم فاصلہ بھی ہوتا ہے۔ پس جس طرح سفر میں مجبوری کی وجہ سے ایسا کرنا آنحضورﷺ کی سنت سے ثابت ہے تو اس بیماری کی مجبوری کی حالت میں بھی نمازیوں کے درمیان فاصلہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور جلد ان مشکل حالات کو ساری دنیا سے دور کر دے تا کہ اس کے عبادتگزار بندے پھر پوری شرائط اور احسن انداز میں اپنی عبادتوں کے نذرانے اپنے رب کے حضور پیش کرنے کی توفیق پائیں۔ آمین

(مرتبہ:۔ ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

پچھلا پڑھیں

رپورٹ جلسہ ہائے یوم خلافت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جون 2022