• 29 اپریل, 2024

اسلام میں استخارہ کا بابرکت نظام

زیر نظر مضمون کوئی تحقیقی مقالہ کی صورت میں پیش نہیں کیا جا رہا بلکہ اس موضوع پر آنحضورﷺ کے ارشادات مبار کہ کی روشنی میں جو کچھ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے بعض خلفائے عظام اور دیگر مقدسین نے بعض تحریرات اور ملفوظات بیان فرمائے ہیں ان کو جمع کر کے قارئین کے استفادہ کیلئے پیش کرنا مقصود ہے۔ اور اس مضمون کا عنوان بھی حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ کے ایک مضمون مطبوعہ (الفضل 4نومبر 1949) سے آپ ہی کے الفاظ میں اخذ کیا گیا ہے اس لحاظ سے اس مواد کو صرف ایک یاددہانی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے تاکہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی کے اہم فیصلوں میں ان ارشادات سے کما حقہ فائدہ اٹھا سکیں۔

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ اسلام استخارہ کو بے حد ضروری قرار دیتے اور اس کی بڑے اصرار سے تلقین فرمایا کرتے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عر فانی رضی اللہ تعالی عنہ اپنی تصنيف سيرة حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں فرماتے ہیں:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دوران ایام مقدمہ کرم دین میں ایک صاحب ابوسعید نامی کو جو ابوسعید عرب کے نام سے مشہور تھے لاہور سے بعض اخباروں کے پرچے لانے کے واسطے بھیجا گیا۔ انہیں کہا گیا کہ آپ سفر سے قبل استخارہ کر لیں اس وقت نماز عصر ہونے والی تھی اور مسجد مبارک میں احباب جمع تھے وہاں ہی ان کے سفر کے متعلق تجویز قرار پائی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابو سعید عرب صاحب سے فرمایا کہ آپ نماز عصر میں ہی استخارہ کر لیں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پھر لاہور چلے گئے اور جس مقصد کے واسطے گئے اس میں کامیاب ہو کر آئے۔ ایسا معلوم ہو تا ہے کہ حضرت ابوسعید صاحب کو لاہور بھجوانے کا فیصلہ بہت عجلت میں کیا گیا تھا اور اغلبا ًنماز عصر کے معا بعد ہی انہوں نے روانہ ہو جانا تھا تا ہم حضرت اقدس علیه السلام نے انہیں بغیر استخارہ کے روانہ نہیں ہونے دیا اور جس قدربھی وقت یا موقعہ (نماز عصر کی صورت میں) میسر تھا اسی میں استخارہ کر لینے کا ارشاد فرمایا اور اس کی برکت سے انہیں کامیابی نصیب ہوئی۔ پس کسی بھی اہم کام اور سفر و غیرہ سے پہلے حضور علیہ السلام استخارہ پر بہت زور دیتے تھے۔ یہ ایک ایسی بابرکت دعا ہے کہ جس سے مسلمانوں کی بھاری اکثریت نے منہ پھیر لیا ہوا ہے اور اسی وجہ سے وہ قعر مذلت میں جاگرے ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’آج کل اکثر مسلمانوں نے استخارہ کی سنت کو ترک کر دیا ہے حالانکہ آنحضرتﷺ پیش آمد ہ امر میں استخارہ فرمالیا کرتے تھے۔ سلف صالحین کا بھی یہی طریق تھا تو چونکہ دہریت کی ہوا پھیلی ہوئی ہے اس لئے لوگ اپنے علم و فضل پر نازاں ہو کر کوئی کام شروع کر لیتے ہیں اور پھر نہاں در نہاں اسباب سے جن کا انہیں علم نہیں ہو تا نقصان اٹھاتے ہیں۔ اصل میں یہ استخارہ ان بدرسومات کے عوض میں رائج کیا گیا تھا جو مشرک لوگ کسی کام کی ابتداء سے پہلے کیا کرتے تھے لیکن اب مسلمان اسے بھول گئے۔ حالانکہ استخارہ سے عقل سلیم عطا ہوتی ہے۔ جس کے مطابق کام کرنے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے بعض لوگ کوئی کام خود ہی اپنے رائے سے شروع کر بیٹھتے ہیں اور پھر در میان میں آکر ہم سے صلاح پوچھتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں جس علم و عقل سے پہلے شروع کیا تھا اس سے نبھائیں۔ اخیر میں مشورے کی کیا ضرورت‘‘

(بدر 13 جون1907 صفحہ3)

ہم دنیاوی امور میں بھی دیکھتے ہیں کہ ایک عقلمند انسان کسی بھی اہم فیصلہ سے پہلے اپنے قابل اعتماد دوستوں احباب سے مشورہ طلب کرتا ہے اور اس طرح اس کو اس مخصوص امر میں مالہ وما علیہ معلوم ہو جاتے ہیں اور تب وہ کوئی قدم اٹھاتا ہے۔ استخارہ میں بھی ہم دراصل علام الغیوب خدا کے فضل کو تلاش کرتے اور اس کی راہنمائی طلب کرتے ہیں اور اس سے کام کے کرنے یا نہ کرنے کے سلسلہ میں مشورہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ تحریر کرتے ہوئے مجھے کسی دوست کا ایک بیان کر دہ واقعہ اچانک یاد آگیا جو انہوں نے محترم مولانا سلطان محمود انور صاحب جو ابھی حال ہی میں اپنے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں کے بارہ میں بیان کیا تھا مگر افسوس کہ خود محترم مولانا صاحب سے کبھی اس کی تصدیق کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ اس لئے اس تحریر کو روک کر ان کے صاحبز ادے مکر م نعمان احمد صاحب کو فون کر کے اس کی تفصیل دریافت کی تو پہلی بار یہ حیران کن مگر ایمان افروز تفصیلات سامنے آئیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ واقعہ اند ازاً 2000ء کے لگ بھگ کا ہو گا۔ ان کے خالو مکرم چوہدری رشید الدین صاحب (جو کھاریاں کے امیر بھی رہ چکے تھے ) اپنی گاڑی پر ربوہ آئے ہوئے تھے۔ ان کی واپسی کے وقت صدر انجمن احمدیہ کا weekend آگیا۔(ربوہ میں آخری ہفتہ کو چھٹی ہوتی ہے لہذا جمعہ اور ہفتہ دودن چھٹی تھی )انہوں نے محترم مولانا سلطان محمود انور صاحب (جو ان کےہم زلف تھے) کو بھی دعوت دی کہ چلیں آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں آپ کو چھٹی تو ہے ہی۔ چھٹی ختم ہونے پر آپ کو کھاریاں سے واپس بھجوادیں گے۔ (مولانا صاحب خود بھی کھاریاں کے تھے)۔ مولانا صاحب نے فرمایا کہ اگر چہ چھٹی ہے تاہم station leave کی اجازت پھر بھی درکار ہو گی چنانچہ آپ نے ناظر اعلی (جو کہ ہمارے موجودہ حضرت صاحب ایدہ اللہ تھے) صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب (اطال اللہ بقاء) کو فون کیا اور آپ سے اجازت کی درخواست کی جو (حضرت) ناظر اعلیٰ صاحب نے منظور فرمائی اور سفر کی اجازت دیدی۔ چنانچہ سفر کا پروگرام بن گیا ار مکرم مولانا صاحب نے چوہدری صاحب کو مطلع فرما دیا کہ صبح جب روانہ ہوں تو مجھے گھر سے لے لیں۔

اگلی صبح جب مکرم چوہدری صاحب اپنی گاڑی لیکر مولانا صاحب کے گھر پہنچے تو مولانا تیار تھے۔ بیگ گاڑی میں رکھا اور بیٹھ گئے۔ لیکن ساتھ ہی آپ کو کوئی خیال آیا اور اچانک یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ ایک گستاخی ہوگئی ہے۔ آپ لوگ ذرا انتظار کریں میں ابھی آتاہوں۔ چنانچہ گاڑی سے نکل کر واپس مکان کے اندر گئے اور (حضرت) ناظر اعلیٰ صاحب کو دوبارہ فون کیا کہ مجھ سے دراصل یہ گستاخی ہو گئی کہ آپ سے سیدھا ہی جانے کی اجازت مانگ لی۔ مگر آپ کا مشورہ نہیں مانگا۔ اب اس لئے فون کیا ہے کہ گو آپ نے اجازت دیدی ہے مگر مشورہ بھی عطا فرمائیں کہ مجھے جانا چاہئے یا نہیں۔ تو ناظراعلیٰ صاحب فرمانے لگے کہ اگر مشورہ طلب کرتے ہیں تو پھر میرا مشورہ یہی ہے کہ نہ جائیں۔ چنانچہ مولانا صاحب اسی وقت باہر آئے اور فرمانے لگے کہ میں نہیں جا رہا مکرم ناظر اعلیٰ صاحب کا مشورہ یہی ہے کہ نہ جاؤں اور اپنا سامان بھی نکال لیا۔ اس پر چوہدری صاحب اور آپ کے ہمراہیوں کو کچھ ملال بھی ہواکہ ہم تو آپ کی خاطر صبح نو بجے سے تیار ہوکر منتظر تھے اور اب آکر آپ نے انکار کردیا ہے۔ بہرحال چوہدری صاحب اپنی گاڑی پر روانہ ہوگئے۔گاڑی ابھی کھاریاں نہیں پہنچی تھی کہ کچھ میل پہلے گاڑی کا حادثہ ہوگیا اور ایک کھڈ میں جاگری اس میں ڈرائیور صاحب تو موقع پرہی فوت ہوگئے اور خود چوہدری صاحب بھی شدید زخمی ہوگئے اور آپ کی کولہے کی ہڈی میں فریکچر ہوگیا۔ اور کچھ عرصہ بعد آپ خود بھی وفات پاگئے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ الغرض یہ ایک تقدیرالٰہی تھی جو اسی طرح پوری ہوئی۔ مگر محترم مولانا صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے حضرت صاحب جو ان دنوں ناظر اعلیٰ تھے کے مشورہ کی برکت سے بچا لیا۔ اور اس کے بعد سالہاسال آپ سلسلہ کی خدمت پر بھی مامور رہے۔ پس استخارہ میں ایک مومن دراصل اللہ تعالیٰ جو علام الغیوب ہے سے مشورہ اور راہنمائی طلب کرتاہے اور اس کی برکت سے کامیاب ہوجاتا ہے اور یہی کسی مومن کی خوش قسمتی کا رازہوتاہے۔ آنحضورﷺ کی ایک حدیث بھی اسی راز کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسان کی خوش قسمتی کا راز اسمیں ہے کہ وہ ہر اہم کام اللہ تعالیٰ کے مشورہ کرنے یعنی استخارہ کرنے کے بعد کرتا ہے یعنی جب کوئی اہم کام درپیش ہو تووہ اللہ تعالیٰ سے اس معاملہ میں کوئی فیصلہ کرنے یا کوئی اقدام کرنے سے پہلے خیرطلب کرلے ورنہ ایک مرتبہ فیصلہ کرلیا جائے اور قدم اٹھا لیا جائے تو اس کے بعدپھر مشورہ طلب کرنے کے کیا معنی؟ اور یہی بات اوپر ذکر کر آیا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ارشاد فرمائی کہ:
بعض لوگ کوئی کام خود ہی اپنی رائے سے شروع کر بیٹھتے ہیں اور پھر درمیان میں آکر ہم سے صلاح پوچھتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں جس علم و عقل سے پہلے شروع کیا تھا اسی سے نبھا ئیں۔ اخیر میں مشورے کی کیا ضرورت ہے؟

(بدر13جون 1907 صفحہ3)

امام سیوطی نے اپنی جامع صغیر میں آنحضورﷺ کی ایک حدیث درج فرمائی ہے:

’’من سعادة ابن آدم استخارتہ اللّٰہ ومن سعادة ابن آدم رضاہ بما قضی اللّٰہ۔ومن شقاوة ابن آدم ترکہ استخارة اللّٰہ ومن شقاوة ابن آدم سخطہ بما قضی اللّٰہ لہ‘‘

(ترمذی ومستدرک للحاکم)

یعنی انسان کی خوش قسمتی کا راز اس میں ہے کہ وہ اپنے جملہ کاموں میں اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرتا ہے اور راضی بقضائے الٰہی رہتا ہے۔ اور انسان کی بدبختی کا راز اس میں ہے کہ وہ استخارہ یعنی اللہ تعالیٰ سے اپنے کاموں میں خیر طلب کرنے کو نظر انداز کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر ناراض ہو جاتا ہے۔ اس حدیث سے یہی معلوم ہوتاہے کہ اگر خوش قسمت بننا مطلوب ہو تو انسان استخارہ کی عادت اپنا لے کیونکہ استخارہ سے اللہ تعالیٰ انسان کے کاموں کا ضامن ہوجاتا ہے چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ استخارہ کے بعد متولی اور متکفل ہو جاتا ہے اور فرشتے اس کے نگہبان رہتے ہیں۔‘‘

(مکتوبات احمد جلددوم صفحہ350)

پس اس شخص سے کون بڑھ کر خوش قسمت ہوسکتا ہے جس کا متولی اور متکفل خود اللہ تعالیٰ ہوجائے اور وہ اپنے فرشتوں کو اس کا نگہبان بنادے جو اس کی منزل مقصودتک اس کی حفاظت پر مامورر ہیں۔

سطوربالا میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے جس مضمون کا ذکرکرآیاہوں جس کے عنوان کو خاکسار نے اپنے اس مضمون کے عنوان کے طورپر اختیارکیا ہے۔ وہ مضمون آپ نے اپنے کسی عزیز کے اس استفسار کے جواب میں قارئین ’’الفضل‘‘ کے استفادہ کے لئے شائع کرایا تھا جس میں اس عزیز نے کسی جماعتی تحریک میں شمولیت کے لئے راہنمائی طلب کی تھی جس کے جواب میں آپ نے فرمایاتھا کہ
’’تحریک تو یقینا نیک اور بابرکت ہے لیکن کسی تحریک کے بابرکت ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ لازماً ہر فرد کے لئے بھی بابرکت سمجھی جائے۔ کیونکہ ہر شخص کے حالات جدا ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ جوبات ایک شخص کے لئے بابرکت ہو۔یا جو بات کثرت کے لئے بابرکت ہے وہ لازماً قلت کے لئے بھی بابرکت ہو اور پھر بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر آج حالات ایک رنگ میں ہیں تو کچھ عرصہ کے بعد دوسرا رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لئے میں نے اس عزیز کولکھا کہ اس تحریک کے بابرکت ہونے کے باوجود یہ ضروری ہے کہ آپ ا س معاملہ میں مسنون طریق پر استخارہ کریں اور استخارہ کے بعدجس بات پر اللہ تعالیٰ شرح صدر عطا کرے اسے اختیار کریں کہ یہی اسلام میںسعادت اور سلامت روی کارستہ ہے‘‘

یہ تحریر کرچکنے کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے مزید فرمایا کہ:
’’اس عزیز کے اس استصواب اور اس پر اپنے جواب سے مجھے تحریک ہوئی کہ میںاس معاملہ میں الفضل کے ذریعہ بھی استخارہ کے مسئلہ کے متعلق ایک مختصر نوٹ شائع کرادوں تا اگر خدا چاہے تو میرا یہ نوٹ دوسرے دوستوں کے لئے بھی مفید ثابت ہو اور وہ استخارہ کے بابرکت نظام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاسکیں۔ سو سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہئے کہ استخارہ کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ یہ وہ بابرکت نظام ہے جس کے متعلق آنحضرت .ﷺ . نے انتہائی تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ:۔

کان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یعلّمنا الاستخارة فی الامور کلھا کما یعلّمنا سورۃ فی القرآن

یعنی آنحضرتﷺ ہمیں اس طرح ہر امر میں استخارہ کی تاکید فرماتے اور اس کی تعلیم دیتے تھے جس طرح کہ آپ قرآنی سورتوں کے متعلق ہمیں تاکید کرتے۔

(مکتوبات احمدجلددوم صفحہ350)

در حقیقت انسان کا علم نہایت ہی محدود اور ناقص ہے اسے ایک گھنٹہ کے بعد پیش آنے والے حالات کا بھی علم نہیں ہوتا بلکہ اسے تو اگلے لمحہ پیش آنے والے حالات کا بھی علم نہیں ہوتا پس ایسے ناقص اور محدود علم والے انسان کے لئے تو حددرجہ ضروری ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے غیر محدود علم سے برکت حاصل کرنے کا طریق اختیار کرے اور اسی کا نام دوسرے لفظوں میں استخارہ ہے چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں:
’’کئی باتیں آج اچھی ہوتی ہیں لیکن کل کو ہمارے حالات کے بدل جانے کی وجہ سے یا خود اس بات کے حالات میں تبدیلی آجانے سے وہ ہمارے لئے اچھی نہیں رہتیں۔ اس لئے ضرور ہے کہ ہر اہم امر کا فیصلہ کرتے ہوئے خواہ وہ دینی ہویا دنیاوی، ہم خدا سے دعاکریں کہ اے ہمارے آسمانی آقا جو ہر قسم کے ذاتی اور مکانی غیب کا علم رکھتا ہے تو اپنی طرف سے ہمیں روشنی اور ہدایت عطا کر اور ہمیں اس رستہ پر ڈال دے جوتیرے علم میں ہمارے لئے آج بھی بہترہے اور کل بھی بہتر رہنے والا ہے، اور ہمیں اس راستہ سے بچا جو ہمارے لئے بہتر نہیں یاآج تو بہتر ہے مگر کل کو بہتر نہیں رہے گا۔‘‘

(مکتوبات احمد جلددوم صفحہ350)

پس استخارہ کا اصل مقصد دراصل انسان کو ایسے صراط مستقیم پر ڈالنا ہے جس کا آخری انجام فلاح دارین اور کامیابی ہے اور یہی مغز ہے آنحضورﷺ کے اس ارشاد مبارکہ کا کہ ’’من سعادة ابن آدم استخارتہ اللّٰہ‘‘ یعنی ابن آدم کی خوش بختی کا راز اس کی اس عادت میں پنہاں ہے کہ وہ ہر اہم کام میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کے ذریعے خیر حاصل کرے۔ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی اسی نقطہ نگاہ سے اس مضمون پر بہت بصیرت افروز طریق سے روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’مجھے یہ بات معلوم کر کے بہت تعجب ہوا کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ استخارہ کیا ہوتا ہے حالانکہ استخارہ اسلام کے اعلیٰ رُکنوں میں سے ایک رُکن ہے اور اتنا بڑا رُکن ہے کہ ہر ایک مسلمان کے لئے فرض کیا گیا ہے اور بغیر اس کے اس کی عبادت مکمل ہی نہیں ہوسکتی کہ ایک دن رات میں پانچ وقت اور ہر ایک رکعت میں ایک بار استخارہ نہ کرے۔ تو یہ ایک ایسا ضروری اور لازمی رُکن ہے کہ اسلام نے اس کے لئے ایک دن رات میں پانچ اوقات مقرر کئے ہیں اور ہر وقت میں جتنی رکعت پڑھی جاتی ہیں اتنی ہی بار استخارہ کیا جاتا ہے۔ پھر سُنن اور نوافل میں بھی استخارہ ہوتا ہے۔ پس جب یہ ایسا ضروری اور اہم ہے تو اس سے ناواقفیت نہایت تعجب اور افسوس کا مقام ہے۔ استخارہ کے کیا معنی ہیں؟ یہ کہ خدا تعالیٰ سے خیر طلب کرنا اور اﷲ تعالیٰ سے یہ چاہنا کہ وہ کام جو مَیں کرنے لگا ہوں اس کے کرنے کا سیدھا اور محفوظ رستہ دکھایا جائے۔ سورۃ فاتحہ جس کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے اس میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

پہلے اﷲ تعالیٰ کی تعریف کی جاتی ہے پھر تعریف کے بعد اپنی عبودیت کا اظہار ہوتا ہے اور اس کے بعد انسان اﷲ تعالیٰ سے کہتا ہے کہ اے میرے خدا! جس طرح تو اپنے خاص بندوں کی راہنمائی کیا کرتا ہے اسی طرح میری راہنمائی فرما اور اس راہ پر چلنے سے مجھے بچا جس پر وہ لوگ چلے جو کہ ایک وقت تک تو تیرے حکم کے ماتحت رہے لیکن پھر انہوں نے اس راہ کو چھوڑ دیا۔ یہ ہے سورہ فاتحہ جس کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اس کے پڑھنے کے بغیر نماز ہی نہیں ہو سکتی۔ یہی استخارہ ہے صرف نام کا فرق ہے۔ اسی کو سورۃ فاتحہ کہا جاتا ہے اور دوسرے وقت اسی کا نام استخارہ رکھا جاتا ہے۔ استخارہ کے معنی خیر مانگنا ہے اور اس خیر مانگنے کا طریق سورۃ فاتحہ میں بتایا گیا ہے اس لئے استخارہ کرنا اور سورۃ فاتحہ پڑھنا ایک ہی ہے۔ فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھتے وقت ہر ایک بات، ہر ایک معاملہ اور ہر ایک کام کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے مگر استخارہ کرتے وقت کسی خاص معاملہ کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے۔ تو اسلام نے سب عبادتوں کی جڑ استخارہ ہی کو مقرر کیا ہے۔

(الفضل 5فروری 1918)

یہاں ضروری ہے کہ مسنون استخارہ کی دعاکے الفاظ اور اس کا ترجمہ اور استخارہ کا مسنون طریق بھی درج کردیا جائے۔احادیث میں یہ روایت حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ ہے اس کا پہلا حصہ تو اوپر بیان ہوچکا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ ہمیں ہر کام میں استخارہ اس طرح سکھاتے جس طرح قرآن سکھاتے تھے۔پس ان الفاظ سے استخارہ کی اہمیت اور فضیلت خوب اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ آنحضورﷺ استخارہ پر کس قدر زور دیتے تھے اور آپ اس کو کس قدر اہم سمجھتے تھے۔اس کے بعد کی روایت یوں ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا:

یَقومُ اذا ھَمَٓ احدُکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة ثم لیَقل اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَ اَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُوَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْب۔ اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ خَیْر لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعِیْشَتِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ شَرّ’‘لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعِیْشَتِیْ وَ عَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِ فْنِیْ عَنْہُ وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہٖ۔

فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت نماز نفل پڑھے پھر یہ پڑھے۔ اللّٰھم انی استخیرک۔۔۔ثم ارضنی بہ۔۔ تک پڑھے اور اپنی حاجت کا نام لے (لفظ ھذالامر کی جگہ حاجت کا نام لے) یعنی اے اللہ میں تیرے علم کے وسیلے سے تجھ سے بھلائی اور تیری قدرت کے وسیلے سے تجھ سے قدرت مانگتا ہوں۔ اور تیرے فضل عظیم کا طلبگار ہوں تو ہر چیز پر قادر ہے اور میں کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا۔ تو ہر چیز کو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا۔تو تو پوشیدہ چیزوں کو بھی جانتا ہے۔ اے اللہ اگر یہ مقصد میرے لئے، میرے دین، دنیا، آخرت، زندگی یا فرمایا: اس جہان میں اور آخرت کے دن جہان میں بہتر ہے تو اسے میرے لئے مہیا فرما دے۔ اور اگر تواسے میرے دین، میری زندگی اور آخرت یا فرمایا اس جہان یا اس جہان کے لئے برا سمجھا ہے تو مجھے اس سے اور اسے مجھ سے دور کردے اور میرے لئے جہاں بھلائی ہووہ مہیا فرما پھر اس سے مجھے راضی کر۔

یہاں مناسب ہوگا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا بھی اس دعا کے متعلق ارشاد درج کردیا جائے جس میں حضور علیہ السلام نے استخارہ کا طریق بھی بیان فرما دیا ہے۔

حضرت اقدس علیہ السلام بھی اس دعا پر بہت زور دیتے تھے۔ آپ نے ایک مرتبہ حضرت سیٹھ عبدالرحمن مدراسیؓ کو ایک خط میں لکھا کہ:
’’امید ہے کہ بعد تین دن کے استخارہ مسنونہ جو سفر کے لئے ضروری ہے اس طرف کا قصد فرما دیں بجز استخارہ کے کوئی سفر جائز نہیں۔ ہمارا اس میں طریق یہ ہے کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ پہلی رکعت میں سورۃ قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ پڑھیں۔ یعنی الحمد تمام پڑھنے کے بعد ملالیں جیسا کہ سورۃ فاتحہ کے بعد دوسری سورۃ ملایا کرتے ہیں اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر سورۃ اخلاص یعنی قل ہو اللہ احد ملا لیں اور پھر التحیات میں آخیر میں اپنے سفر کے لئے دعا کریں کہ یا الٰہی میں تجھ سے کہ تو صاحب فضل او ر خیر ہے اور قدرت ہے اس سفر کے لئے سوال کرتا ہوں۔ کیونکہ تو عواقب امور کو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو ہر ایک امر پر قادر ہے اور میں قادر نہیں سو یا الٰہی اگر تیرے انجام امر میں یہ بات ہے کہ یہ سفر سراسر میرے لئے مبارک ہے میری دنیا کے لئے میرے دین کے لئے اور انجام امر کے لئے اور اس میں کوئی شر نہیں سو یہ سفر میرے لئے میسر کر دے اور پھر اس میں برکت ڈال دے اور ہر ایک شر سے بچا اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ سفر میر امیری دنیا یا میری دین کے لئے مضر ہے اور اس میں کوئی مکروہ امر ہے تو اس سے میرے دل کو پھیر دے اور اس سے مجھ کو پھیر دے۔ آمین‘‘

’’یہ دعا ہے جو کی جاتی ہے تین دن کرتے ہیں یہ حکمت ہے کہ بار بار کرنے سے اخلاص میسر آجائے آج کل اکثر لوگ استخارہ سے لاپراہ ہیں حالانکہ وہ ایسا ہی سکھایا گیا ہے جیسا کہ نماز سکھائی گئی ہے۔ سو یہ اس عاجز کا طریق ہے کہ اگرچہ دس کوس کا سفر ہو تب بھی استخارہ کیا جائے۔ سفروں میں ہزاروں بلائوں کا احتمال ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ استخارہ کے بعد متولی اور متکفل ہو جاتا ہے او راس کے فرشتے اس کے نگہبان رہتے ہیں جب تک کہ اپنی منزل تک نہ پہنچے۔ اگرچہ یہ دعا تمام عربی میں موجود ہے۔ لیکن اگر یاد نہ ہو تو اپنی زبان میں کافی ہے اور سفر کا نام لے لینا چاہئے کہ فلاں جگہ کے لئے سفر ہے‘‘

(مکتوبات احمد جلد5 مکتوب نمبر10)

حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ طریق عمل تھا۔ کہ ہر ایک اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے ضرور دعا کیا کرتے تھے اور دعا بطریق مسنون دعائے استخارہ ہوتی تھی۔ استخارہ کے معنی ہیں خدا تعالیٰ سے طلب خیر کرنا۔ استخارہ کے نتیجے میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کوئی خواب آجائے جیسا کہ آج کل کے بعض صوفی استخارہ کرتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ سے خبر طلب کرتے ہیں یہ طریق مسنون نہیں۔ اصل مقصد تو یہ ہونا چاہئے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے خیر حاصل ہو اور دعائے استخارہ سے اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پید اکردیتا ہے کہ جو کام ہمارے لئے بہتری اور بھلائی کا ہو وہ آسان ہوجاتا ہے۔ بغیر دِقّتوں کے حاصل ہوجاتا ہے اور قلب میں اس کے متعلق انشراح اور انبساط پیدا ہوجاتا ہے۔

عمومًا استخارہ رات کے وقت بعد نماز عشاء کیا جاتا ہے۔ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر التحیات میں درود شریف اور دیگر مسنون دعاؤں کے بعد دعائے استخارہ پڑھی جاتی ہے اور اس کے بعد فورًا سو رہنا چاہئے اور باتوں میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہوتا لیکن حسبِ ضرورت دوسرے وقت بھی استخارہ کیا جاسکتا ہے۔

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی عرفانی صفحہ508)

ذکر حبیب میں بھی حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ نے دعائے استخارہ کا طریق بیان فرمودہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اسی طرح کا درج فرمایاہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص کو استخارہ کا یہ طریق بھی بتلایا کہ پہلی رکعت میں قُلۡ یٰۤاَیُّہَا الۡکٰفِرُوۡنَ پڑھیں دوسری رکعت میں قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اور التحیات میں اپنے مطلب کے واسطے دعا کریں۔‘‘

(ذکرحبیب صفحہ231)

بدر 2جنوری 1903 میں اسی طریق سے ملتا جلتا ایک اور ارشاد حضرت اقدس علیہ السلام کا یوں درج ہے کہ حضرت اقدسؑ نے ایک مہمان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
آپ استخارہ کر لیویں۔ استخارہ اہل اسلام میں بجائے مہورت کے ہے چونکہ ہندو شرک وغیرہ کے مرتکب ہو کر شگن وغیرہ کرتے ہیں اس لئے اہل اسلام نے ان کو منع کر کے استخارہ رکھا۔اس کا طریق یہ ہے کہ انسان دو رکعت نماز نفل پڑھے۔ اول رکعت میں سورۃ قُلْ یٰاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ پڑھ لے اور دوسری میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ۔ التحیات میں یہ دعا کرے۔

یا الٰہی! میں تیرے علم کے ذریعہ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت سے قدرت مانگتا ہوں کیونکہ تجھ ہی کو سب قدرت ہے مجھے کوئی قدرت نہیں اور تجھے سب علم ہے مجھے کوئی علم نہیں اور تو ہی چھپی باتوں کو جاننے والا ہے۔ الٰہی اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر میرے حق میں بہتر ہے بلحاظ دین اور دنیا کے، تو تُو اسے میرے لئے مقدر کر دے اور اسے آسان کر دے اور اس میں برکت دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ امر میرے لئے دین اور دنیا میں شر ہے تو مجھ کو اس سے باز رکھ۔

اگر وہ امر اس کے لئے بہتر ہوگا تو خد اتعالیٰ اس کے لئے اس کے دل کو کھول دے گا ورنہ طبیعت میں قبض ہو جائے گی۔ دل بھی عجیب شے ہے جیسے ہاتھوں پر انسان کا تصرف ہوتا ہے کہ جب چاہے حرکت دے۔دل اس طرح اختیار میں نہیں ہوتا۔اس پہ اﷲ تعالیٰ کا تصرف ہے۔ ایک وقت میں ایک بات کی خواہش کرتا ہے پھر تھوڑی دیر کے بعد اسے نہیں چاہتا۔یہ ہوائیں اندر سے ہی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے چلتی ہیں۔

ان تمام اقتباسات سے ہمیں باآسانی استخارہ کی اہمیت، برکات اور اس کا طریق معلوم ہوجاتے ہیں۔ اورہمیں یہ احسا س ہوجاتا ہے کہ مقدسین نے استخارہ کو کس قدر اہمیت دی ہے اور کس قدرجماعت کو اس کی تاکید فرمائی ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الاولؓ بھی اس کی بہت تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ’’ارشادات نور‘‘ میں درج ہے کہ تمام غیر معمولی کاموں کے لئے حضرت نے استخاروں کے کرنے کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ (اہم کاموں میں مثلا کسی کودکان یا کاروبار میں شریک بنانے، رشتے ناطے قائم کرنے میں، دوستی لگانے میں، کسی کو ہم سفر یا طالب علم بنانے میں سات دفعہ استخارہ کرلیا کریں) اس کے لئے ہدایات درج ہیں۔ حضرت نے فرمایا شیخ محی الدین ابن عربی ایک استخارہ ہر روز آئندہ آٹھ پہر کے کاموں کے لئے کیاکرتے تھے۔ (اس کے بعد طریق درج کیا ہے کہ) سوائے ان اوقات کے جن میں نوافل پڑھنا ممنوع ہے مثلا صبح صادق کے پھٹنے سے طلوع آفتاب تک یا نماز عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک غرض اوقاتِ ممنوعہ کو مدنظر رکھ کر کسی وقت دو رکعت نماز نفل پڑھ لی جاوے اس کے بعد دعا مندرجہ ذیل بعد فراغت نماز ہاتھ اٹھاکر پڑھ دی جاوے یا نماز میں ہی تشہد کے بعدپڑھ لی جاوے۔ (گویا دونوں طریق جائزہیں نماز کے اندر اور نماز کا سلام پھیرنے کے بعد۔حضرت اقدس علیہ السلام کا رحجان نماز کے اندر کا زیادہ معلوم ہوتاہے۔ناقل)

(اسکے بعد پوری دعا کا متن اور ترجمہ درج کیا گیا ہے) اور پھر فرمایا کہ:
’’استخارہ کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کو اپنا مشیربنالیتا ہے۔استخارہ کے معنے ہیں خیروبرکت طلب کرنا۔اس کا نتیجہ یہ ضروری نہیں ہوتا جیسا عام طور پر خیال کیاجاتاہے کہ خداتعالیٰ اس کام کے متعلق ضرورہی کوئی اشارہ فرمائے بلکہ یہ کہ اگر مجوزہ کام ہوتو اسکے کرنے کی توفیق دے اور اس میں سہولت اور برکت رکھ دے اور اگر کام مفید نہ ہو تو اس سے روک دے اگر عربی دعا یاد نہ ہو تو اپنی زبان میں اس کا مفہوم ادا کر دے۔‘‘

(ارشادات نور صفحہ342-344)

نیز یہ ارشاد بھی درج ہے کہ ’’یہ اللہ تعالیٰ کاہم مسلمانوں پر بڑافضل ہے کہ اس نے ہمیں احتیاج کا طرز بتلایا کہ کس طرح ہم ایک ضرورت یا احتیاج کو اپنے لئے نعمت اللہ بنا سکتے ہیں وہ ہے استخارہ، شادی کے لئے استخارہ بتلایا، ہر ایک کام کے شروع کرنے سے پہلے استخارہ بتلایا کیونکہ ہرایک کام اس کے فضل سے ہی ہوتا ہے۔‘‘

(صفحہ508)

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا ایک ارشاد پیچھے درج کر آیا ہوں۔ ایک اور موقع پر حضورؓ نے استخارہ کی فلاسفی پر ایک نہایت ہی عجیب وغریب اچھوتے انداز میں روشنی ڈالی ہے آپ نے 12اپریل 1950 کو تعلیم الاسلام کالج کے جلسہ تقسیم اسناد میں ارشاد فرمایا (سورة الرحمان کی آیت کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ سے استدلال فرماتے ہوئے) کہ:
’’آیت مذکورہ بالا میں یہ امر واضح کیا گیا ہے کہ صفات باری تعالیٰ میں ہرایک وقت ایک نئی تبدیلی پیدا ہوتی رہتی ہے اور اس تبدیلی کے ساتھ انسان کو بھی اپنے اندر صفات باری کے موجودہ دور کے مطابق تبدیلی کرنی پڑتی ہے اور اس سے بنی نوع انسان کا قدم ترقی کی طرف اٹھتا ہے۔ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ مختلف ادوار میں بنی نوع انسان کا قدم ترقی کی ایک خاص جہت کی طرف اٹھا ہے۔ کسی وقت فلسفہ کا دورآیا ہے تو کسی وقت ادب کا۔ کسی وقت اخلاق کا دور آیا ہے تو کسی فنون لطیفہ کا۔ کسی وقت قانون سازی کا دورآیا ہے تو کسی وقت تہور وشجاعت کا۔ غرض اچھے انسانی دماغوں میں ہرزمانہ میں ایک ہم آہنگی معلوم ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ عالم بالا کی کشش ہرزمانہ میں اعلیٰ دماغوں کو اس زمانہ کے صفاتی دورکی طرف کھینچنے میں لگی رہتی ہے اور اس فن میں انسانی دماغ زیادہ ترقی کرجاتاہے۔ جس طرف کہ صفات باری اس وقت اشارہ کر رہی ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے اسے ’’ملاء اعلیٰ‘‘ کی مشاورت کا نام دیا ہے۔ یہ آسمانی فیصلے جس طرح روحانی امور کے متعلق ہوتے ہیں اسی طرح دنیوی علوم کے عین مطابق کردینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اپنے زمانہ کے اور اپنے فن کے راہنما بننے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور تاریخ میں ایک نام پیدا کرلیتے ہیں۔اسی کی طرف رسول کریمﷺ نے دعائے استخارہ سے اشارہ کیا ہے۔ انسان بے شک اپنی محنت کا پھل کھاتاہے لیکن بے موسم محنت بھی تورائیگاں جاتی ہے شاید ہر غلہ سال کے ہر حصہ میں بویا جاسکتاہے اور کچھ نہ کچھ روئیدگی بھی اس سے حاصل کی جاسکتی ہے۔لیکن وہ غلہ جو اپنے موسم میں بویا جاتا ہے لیکن وہ غلہ جو اس ملک میں بویاجاتاہے جس کی زمین کو اس غلہ سے مناسبت ہے اس کی کیفیت ہی اور ہوتی ہے۔ ہر انسان کے لئے ہرعلم کا حاصل ہونا اور ہرقسم کا کام کرناممکن ہے لیکن ہرفن میں اس کا صاحب کمال ہونا ضروری نہیں۔ اس کے دماغ کی مخفی قابلیتوں کو اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے۔ وہی جانتا ہے کہ مختلف مفید علوم میں سے کون سا علم اور مختلف مفید کاموں میں سے کون سا کام اس کی طاقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس کے زمانہ اور اس کے ملک اور اس کی قوم کی ضرورتوں کو مدنظررکھتے ہوئے اس کے لئے مناسب ہے پس فرمایا کہ خواہ اچھے سے کام ہواس کے شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے دعا کر لیا کرو جس کے الفاظ آپ نے یہ تجویز فرمائے ہیں (اور اسکے بعد حضور رضی اللہ عنہ نے دعائے استخارہ کے مکمل الفاظ اور ان کا ترجمہ بیان فرمایا۔ناقل) اور پھر فرمایا: ’’یہ دعاکتنی کامل ہے اور اس میں کس لطیف پیرایہ میں اس امر کی طرف (توجہ۔ناقل) دلائی گئی ہے کہ ہر اچھا کام ہرزمانہ اور انسان کے لئے مفید نہیں ہوتا بلکہ اچھے سے اچھا کام بھی بعض زمانوں میں اچھا نہیں رہتا۔اور اچھے سے اچھا کام بھی بعض قوموں اور بعض افراد کے لئے اچھا نہیں ہوتا؟ اور اس کی قوم کے لئے اور بنی نوع انسان کے لئے اس زمانہ میں مفید ہو اور جسے اعلیٰ طور پر بجالانے کی اس میں ذاتی قابلیت موجود ہو۔ اگر یہ نہ ہوتو اسے وہ کام یا علم کسی دوسرے بھائی کے لئے چھوڑ دینا چاہئے اور خود اپنے لئے اپنے مناسب حال کام یا علم تلاش کرنا چاہئے لیکن چونکہ بنی نوع انسان کی ترقی کا معاملہ انسانی جدوجہد اور اس کی دماغی قابلیتوں کے علاوہ خداتعالیٰ کے صفات کے ظہور کے موجودالوقت مرکز کے ساتھ بھی وابستہ ہے اس لئے کسی کام کو شروع کرنے یا کسی علم کی تحصیل کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے بھی یہ دعا کر لینی چاہئے کہ اس زمانہ کے متعلق جو اس کی تجویز اور فیصلہ ہے وہ اسے اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بخشے تاکہ اچھا بیج اچھی زمین میں مناسب موسم میں پڑے تااعلیٰ سے اعلیٰ کھیتی پیدا ہواور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو۔‘‘

(مشعل راہ جلد اول صفحہ 556تا559)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا بیان فرمودہ ترجمہ دعائے استخارہ کا خاکسار پیچھے درج کر آیا ہے۔ مناسب ہوگا کہ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جو اس دعا کا تفسیری ترجمہ بیان فرمایا وہ بھی اس دعائے استخارہ کے مفہوم کو مزید واضح کرنے کے لئے درج کر دیاجائے۔چنانچہ آپ اس دعا کا مکمل متن بیان فرمانے کے بعد اس کا ترجمہ یوں بیان فرماتے ہیں:
’’اے میرے رب جو کام میں کرنے لگا ہوں یا جوعلم میں حاصل کرنے لگا ہوں یا جو ذمہ داری میں اٹھانے لگاہوں اس کے بارہ میں تجھ سے جو میری مخفی طاقتوں سے بھی واقف ہے اپنے زمانہ حال کے متعلق ارادوں سے بھی واقف ہے اور میری ذاتی،قومی،ملکی اور عالمگیری ضرورتوں اور ذمہ داریوں سے بھی واقف ہے سب سے بہتر فیصلہ طلب کرتاہوں اور پھر تجھ سے یہ بھی درخواست کرتاہوں کہ اس فیصلہ کے مطابق مجھے کام کرنے کی تجھ سے توفیق اور امداد حاصل ہو اور تیسری بات تجھ سے یہ طلب کرتاہوں کہ جو بات میرے لئے مناسب ہو اور جس کی طرف تومیری راہنمائی کرے اور جس کے حاصل کرنے کے لئے تو میری مددکرے اس کام یا اس ذمہ داری کے اداکرنے میں تیرا انتہائی فضل مجھ پر نازل ہو اور میں اس کام میں ادنیٰ مقام حاصل نہ کروں بلکہ مجھے اس میں اعلیٰ مقام حاصل ہو۔میں تجھ سے یونہی اور بلاوجہ درخواست نہیں کرتا بلکہ اس وجہ سے درخواست کرتاہوں کہ مجھے یقین ہے کہ جن امور کے پوراکرنے کی مجھے طاقت نہیں، تجھے ہے اور جن مخفی باتوں کا مجھے علم نہیں، تجھے ہے پس اے خدا اگر تیرے علم میں وہ کام جو میں کرنا چاہتاہوں میرے لئے اچھا ہے میری دینی ضرورتوں کے لحاظ سے بھی اور اس لحاظ سے بھی کہ جو طاقت اور محنت میں اس کام میں خرچ کروں گا اس کا نتیجہ مجھے زیادہ سے زیادہ اچھا حاصل ہوسکے گا تو پھر تو اس کام کے کرنے کی مجھے توفیق عطافرما اور اس کام کو اعلیٰ درجہ کی تکمیل تک پہنچانے کے لئے مجھے سہولت بخش اور اس کے نتائج کو میرے لئے وسیع سے وسیع تربنا اور اگر اس کے برخلاف تیرے علم میں یہ ہوکہ یہ کام میرے لئے مناسب نہیں دین کے لحا ظ سے یا اس لحاظ سے کہ میری محنت کے مطابق اس سے نتیجہ پیدا نہ ہوگا توتو اس کام کے راستے میں روکیں ڈال دے اور میرے دل میں بھی اس سے بے رغبتی پیدا کر دے اور اس کے سواجس امر میں میرے لئے بہتری ہے اس کے سامان میرے لئے پیداکردے اور اس کیطرف میری توجہ پھیردے اور اس کی خواہشیں میرے دل میں پیدا کر دے۔‘‘

(مشعل راہ جلد اول صفحہ558)

پس انسانی زندگی میں کسی بھی اہم کامیابی کا راز استخارہ میں مضمر ہے اور یہی وجہ ہے کہ آنحضورﷺ نے استخارہ پر یہاں تک زور دیا ہے کہ فرمایا کہ انسان کی تمام تر خوش بختی کا راز اس میں مضمر ہے کہ وہ اپنے کاموں میں اللہ تعالیٰ سے مشورہ یا دوسرے الفاظ مین استخارہ یا طلب خیر میں کبھی کوتاہی نہ کرے اور ہرامر میں اللہ تعالیٰ کو اپنا مشیر بنائے تب اللہ تعالیٰ اس کا متکفل اور ضامن ہوجائے گا اور اس کو ہرناکامی سے بچائے گا پس اس سے بڑی خوش قسمتی انسان کی اور کیا ہوسکتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگان اور سلف صالحین نے ہمیشہ اپنے تمام امور میں استخارہ کو مقدم رکھا۔ چنانچہ اس ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے علاوہ ہمارے بعض دیگر مقدسین کے بھی بعض مزید ارشادات یہاں درج کرنے نامناسب نہ ہوں گے۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے ایک اعلان نکاح کے موقع پر فرمایا:
’’سب سے پہلے تدبیر یہ بتائی کہ نکاح کی غرض ذات الدِّین ہو۔حسن وجمال کی فریفتگی یامال ودولت کا حصول یامحض اعلیٰ حسب و نسب اس کے محرکات نہ ہوں۔ پہلے نیت نیک ہو۔ پھر اس کے بعد دوسرا کام یہ ہے کہ نکاح سے پہلے بہت استخارہ کرواور دعائیں کرو۔‘‘

(خطبات نور صفحہ518)

ایک اور موقع پر فرمایا:
’’بیاہ کے معاملہ میں ایک بڑی غلطی ہو رہی ہے۔ اور مجھے افسوس ہے کہ یہ میرے گھر میں بھی ہوئی ہے اس لئے کہ مجھ سے مشورہ نہیں کیا گیا اور وہ یہ ہے کہ اس کے لئے ضروری امر یہ ہے کہ بہت استخارہ کئے جاویں اور خدا تعالیٰ سے مدد طلب کی جاوے۔ ہم انجام سے بےخبر ہوتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے۔ اس لئے اول خوب استخارہ کرو اور خدا سے مدد چاہو۔‘‘

(خطبات نور صفحہ478)

ایک اور موقع پر فرمایا:
’’بڑے بڑے کاموں میں سے نکاح بھی ایک کام ہے۔ اکثر لوگوں کا یہی خیال ہوتا ہے کہ بڑی قوم کا انسان ہو۔ حسب نسب میں اعلیٰ ہو۔ مال اس کے پاس بہت ہو۔ حکومت اور جلال ہو۔ خوبصورت اور جوان ہو۔ مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ کوشش کیا کرو کہ دیندار انسان مل جاوے۔ اور چونکہ حقیقی علم، اخلاق، عادات اور دینداری سے آگاہ ہونا مشکل کام ہے، جلدی سے پتہ نہیں لگ سکتا اس لئے فرمایا کہ استخارہ ضرور کر لیا کرو۔ اور صرف ناطہ کی رسم رکھی ہے اور نکاح کی نسبت اللہ کریم فرماتا ہے کہ اس سے غرض صرف مستی کا مٹانا ہی نہ ہو بلکہ مُحۡصِنِیۡنَ غَیۡرَ مُسٰفِحِیۡنَ (المائدہ: 6) کو مدنظر رکھے اور ہر ایک بات میں اس خدا کے آگے جس کے ہاتھ میں مال،جان، اخلاق و عادات اور ہر ایک طرح کا آرام ہے بہت بہت استغفار کرے اور بےرواہی سے کام نہ لے خواہ وہ انتخاب لڑکوں کا ہو یا لڑکیوں کا۔ کیونکہ بعد میں بڑے بڑے ابتلائوں کا سامنا ہوا کرتا ہے‘‘

(خطبات نور صفحہ254)

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ بھی اس کی بہت اہمیت بیان فرمایا کرتے تھے آپ فرماتے ہیں:
’’پھر ایک بات اسلام نے یہ رکھی کہ نکاح سے قبل استخارہ کر لو۔ رسول کریم ؐ نے ہر اہم امر میں استخارہ کا حکم دیا ہے بالخصوص شادی کے بارے میں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جلد بازی کے برے انجام سے انسان بچ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی مدد حاصل کر سکتا ہے۔ جلد بازی سے بھی کئی جھگڑے پیدا ہو جاتے ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ بڑا اچھا رشتہ ہے آج ہی کر لو لیکن مقصد ان کا یہ ہوتا ہے کہ ان کے عیوب ظاہر نہ ہونے پائیں۔ لیکن اگر سات روز تک استخارہ کیا جائے تو اس عرصہ میں اور لوگوں سے بھی شادی کا ذکر آئے گا اور اس طرح بات کھل جائے گی۔ پھر استخارہ کی وجہ سے جذبات دب جاتے ہیں اور انسان روحانی تصرف کے ماتحت ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اس کے علاوہ ہے‘‘

(انوارالعلوم جلد12 صفحہ538)

استخارہ بلائیں ٹالنے کا بھی ذریعہ بن سکتاہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت سید میر محمد اسحاق صاحبؓ کی وفات پر جو خطاب فرمایا اس میں آپ نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی۔ آپ نے فرمایا:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت تھی کہ جب کبھی سلسلہ کے لئے غم کا کوئی موقع ہوتا آپ دوستوں سے فرماتے کہ دعائیں کرو اور استخارے کرو تا اللہ تعالیٰ دلوں سے گھبراہٹ دور کر دے اور بشارات دیکر دلوں کو مضبوط کر دے۔ پس آپ لوگ بھی آئندہ چند دنوں تک متواتر دعائیں کریں خصوصاً آج کی رات بہت دعائیں کی جائیں کہ اگر جماعت کے لئے کوئی اور ابتلاء مقدرہوں تو اللہ تعالیٰ انہیں ٹال دے اور اگر تمہاراخیال غلط ہو تو دلوں سے دہشت کو دور کر دے اور اپنے فضل سے ایسی سچی بشارتیں عطا کرے کہ جن سے دل مضبوط ہوں اور کمزور لوگ ٹھوکر سے بچ جائیں۔ پس خوب دعائیں کرو اور اگر کسی کو خواب آئے تو بتائے۔‘‘

(انوارالعلوم جلد17 صفحہ250)

1924ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ نے سفر یورپ کا عزم فرمایا تو دومرحلوں میں سفر کے فیصلہ کو حتمی شکل دی۔اولاً آپ نے جملہ جماعتہائے احمدیہ برصغیر کی انجمن ہائے احمدیہ سے مشورہ فرمایا تو اس وقت ایک سوگیارہ یابارہ انجمنوں میں سے سوکے قریب انجمنوں کی طرف سے جو جواب آیا وہ یہ تھا کہ وہ جماعتیں اس امر کی تائید میں تھیں کہ اس موقع پر یعنی انگلستان کی اس بین الاقوامی مذہبی کانفرنس میں شرکت کے لیے حضور رضی اللہ عنہ کو خود بنفس نفیس جانا چاہئے صرف 12 جماعتیں اس خیال کی حامی تھیں کہ حضور کو خود نہیں جانا چاہئے۔

دوسرے مرحلہ میں حضور رضی اللہ عنہ نے استخارہ اختیار فرمایاچنانچہ حضورؓ فرماتے ہیں:
’’مگر میں نے مناسب سمجھا کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے استخارہ بھی کرلیا جائے اور چالیس آدمیوں سے زیادہ کو استخارے کے لئے مقرر کیا۔ بعد استخارہ جب ان لوگوں سے مشورہ لیاگیا تو 18کے قریب آدمی جانے کے مخالف تھے اور چوبیس کےقریب جانے کی تائید میں تھے۔ دوتین کی رائے درمیان میں تھی اس کے بعد میں نے یہی مناسب سمجھا کہ مجھے خودہی جانے کی تیاری کرنی چاہئے کیونکہ ہرایک طریق مشورے میں (یعنی جماعتوں سے مشاورت اور پھر استخارہ) جانے کامشورہ دینے والوں کا پہلوان لوگوں پر جونہ جانے کامشورہ دیتے تھے غالب رہاہے۔‘‘

پس اس مشاورت اور استخارہ کے نتیجہ میں جوسفر حضورؓ نے 1924 میں لندن کا اختیار فرمایا اس کی برکات روز بروز زیادہ ہر سوپھیلتی جارہی ہیں اور حضور رضی اللہ عنہ نے جو دعائیں اس سفر کے دوران مانگیں ان کی قبولیت کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ جاری رہے گا۔

ایک اعلان نکاح کے موقع پر حضورؓ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا:
’’نکاح کا معاملہ بہت خشیت اور ڈرکامعاملہ ہوتاہے کیونکہ اس کا خاتمہ چند سال میں نہیں ہوجاتا۔۔مرنے کے بعد بھی یہ تعلق اپنے اثرات چھوڑتا ہے اس لئے اس میں بہت خشیت اور خوف کی ضرورت ہوتی ہے کہ انسان بہت احتیاط سے کام لے اور تقویٰ کےماتحت دعاؤں اور استخاروں پرزوردے مگر لوگ اس معاملہ میں عموما دعاؤں اور احتیاطوں سے کام نہیں لیتے۔ اس میں استخارہ کی ضرورت ہوتی ہے۔رسول کریمﷺ نےا س پر بہت زیادہ زور دیاہے مسلمان کا کوئی کام استخارہ کے بدون نہیں ہوناچاہئے۔ کم ازکم بسم اللہ سے ضرور شروع ہو اور طریق استخارہ یہ ہے کہ دعائے استخارہ پڑھی جائے ایک دفعہ کم ازکم۔ ورنہ سات دن تک۔صوفیاء نے چالیس دن رکھے ہیں۔اس کی بہت برکات ہوتی ہیں۔‘‘

(خطبات محمود جلد3 صفحہ93)

ایک اور موقع پر حضور نے ایک نکاح کے اعلان کے موقع پر فرمایا کہ:
’’شادی کے معاملہ میں اسلام نے جوچیز مقدم رکھی ہے وہ استخارہ ہے اور استخارہ اتنا کرنا چاہئے کہ کسی نہ کسی طرف دل فیصلہ کرلے اور پھراسکے بعد بھی دعائیں کرتے رہنا چاہئے کیونکہ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ میں شامل ہوجانے کے بعد بھی غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ اور ضَآلِّیۡنَ میں جانے کاامکان ساتھ لگا رہتا ہے۔ اس لئے اس وقت تک دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔‘‘

(خطبات محمودجلد3 صفحہ58)

الغرض اسی قسم کے اور بھی بے شمارمواقع پر حضورؓ نے استخاروں کی اہمیت،ان کی حکمت اور فضیلت وبرکات پر مختلف پیرایوں میں روشنی ڈالی ہے۔جس سے معلوم ہوتاہے کہ استخارہ کامطلب صرف یہی نہیں کہ کسی اہم امر میں اللہ تعالیٰ کا مبارک منشاء معلوم ہوجائے بلکہ اس کی اور بھی بہت سی برکات ہیں۔حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے اپنی حیات قدسی میں ایک اور بھی برکت کی طرف اشارہ فرمایاہے۔آپ فرماتے ہیں:
’’میں ایک لمبے تجربہ سے اس عقیدہ پر قائم ہوں کہ دعا کا جواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور ملتا ہے خواہ جواب اس کی رحمت کے نشان کے طورپر اثبات میں ملے یا حکمت کے نشان کے طورپر نفی میں ملے۔اور قرآن کریم میں اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ اور اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ کا وعدہ بالکل سچا اور کلام واثق ہے۔ اور آنحضرتﷺ نے جو طریق استخارہ سکھایا اس پر عمل کرنے سے یقینا جواب مل جاتاہے اور بسا اوقات جن لوگوں پر یہ فیضان بند ہواس پر بھی الہام کشف یارؤیائے صالحہ کا فیضان دعائے استخارہ کی برکت سے کھل جاتاہے۔‘‘

(حیات قدسی صفحہ489)

حضرت مولانا موصوفؓ نے حضرت اقدس سے ایک مختصر دعائے استخارہ بھی روایت فرمائی ہے جو یہاں درج کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ایک دفعہ قادیان دارالامان میں خاکسار کی ملاقات ایمہ ضلع ہوشیارپور کے ایک دوست سے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ننھیال سے رشتہ دارتھے، ہوئی۔ میں نے ان سے دریافت کیاکہ آپ کوئی خاص بات حضرت اقدس علیہ السلام کی سنائیں تو انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ایک دن حضور اقدس سے دعائے استخارہ کے متعلق دریافت کیا تو حضور نے فرمایا کہ اگر مسنون دعائے استخارہ یادنہ ہو توان الفاظ کے ذریعہ ہی استخارہ کر لیا جائے ’’یَاخَبِیْرُاَخْبِرْنِی۔ یَابَصِیْرُاَبْصِرْنِی۔ یَا عَلِیْمُ عَلِّمْنِی۔ ان صاحب نے بتایاکہ میں استخارہ حضرت اقدس کے بتائے ہوئے الٰہی الفاظ میں کر لیتا ہوں۔‘‘

(ایضا صفحہ223)

ایسی ایک روایت آسان اور مختصر الفاظ دعائے استخارہ والی سیرة المہدی میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ نے بھی درج فرمائی کہ:
مرزا دین محمد صاحب نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ جب حضرت صاحب کے پاس میری آمدورفت اچھی طرح ہو گئی اور مَیں آپ سے پڑھنے بھی لگ گیا۔ تو حضور نے مجھے حکم دیا کہ ہر دو گھروں میں یعنی بخانہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور بخانہ مرزا غلام محی الدین صاحب کہہ دیا کرو کہ سب لوگ ہر روز سوتے وقت استخارہ کرکے سویا کریں اور جو خواب آئے وہ صبح ان سے پوچھ لیا کرو اور مجھ سے بھی استخارہ کراتے تھے۔ استخارہ یہ سکھایا تھا کہ سوتے ہوئے ’’یَا خَبِیْرُ اَخْبِرْنِیْ‘‘ پڑھا کرو۔ اور پڑھتے پڑھتے سو جایا کرو اور درمیان میں بات نہ کیا کرو۔ مَیں صبح سب گھر والوں میں پھر کر خوابیں پوچھتا تھا اور حضرت صاحب کو آ کر اطلاع دیتا تھا۔ پھر حضرت صاحب سب کی تعبیر بتاتے اور مَیں سب کو جا کر اطلاع دیتا۔۔۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ استخارہ کی اصل مسنون دُعا تو لمبی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا دین محمد صاحب کی سہولت کے لئے آپ نے انہیں یہ مختصر الفاظ سکھا دئیے ہوں گے۔

(سیرة المہدی صفحہ628)

حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ کو ایک مرتبہ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الاولؓ جماعت احمدیہ لاہور کے لئے بطور مربی تعینات فرمایا تو آپ نے حضور رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ اگر حضور پسند فرمائیں تو میں استخارہ کرلوں۔ حضورؓ نے فرمایا کہ ہاں ضرور استخارہ کرلیا جائے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’جب میں نے استخارہ کیا تو خواب میں دیکھا کہ لاہور گیاہوں اور جماعت کی خدمت میں مصروف ہوں کہ اچانک خواجہ کمال الدین صاحب اور ان کے بھائی خوابہ جمال الدین صاحب نے احباب جماعت کی دعوت کی ہے۔ جب کھانے کے لئے احمدی احباب صفوں میں بیٹھ گئے تو اس وقت معلوم ہوا۔ کہ دعوت میں عبداللہ نامی ایک بزرگ بھائی کا گوشت پیش کیا گیا ہے۔ اس پر میں یہ کہتے ہوئے کہ انسان کا گوشت کھا نا قطعاً حرام ہے اٹھ بیٹھا۔ میری آواز سن کر اور بھی بہت سے لوگوں نے کھانا کھانے سے انکارکیا اور میرے ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔

میں نے جب صبح حضرت خلیفة المسیح الاول کی خدمت میں یہ رویاء لکھ کر پیش کی تو حضور نے فرمایا کہ اسی لئے توہم آپ کولاہور بھیج رہے ہیں، چنانچہ دوسرے دن میں شیخ رحمت اللہ صاحب کی معیت میں لاہور پہنچ گیا کچھ دنوں کے بعد صدر انجمن کے لاہوری ممبروں نے مجھے خلوت میں بلا کر کہا کہ رسالہ الوصیت میں کہاں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد صدر انجمن کے علاوہ بھی کوئی جانشین ہوگا۔ میں نے کہا۔ اگر صدر انجمن ہی حضرت اقدس کی جانشین تھی تو اس نے الوصیت کی تعلیم کے خلاف حضرت خلیفة المسیح کی بیعت کیوں کی؟ اور دوسروں کو بیعت کی تحریک کر کے گمراہ کیوں کیا؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انجمن نے پہلا قدم ہی غلط اٹھایا ہے اور اگر یہ غلطی نہیں توا سے غلطی کہنا سب سے بڑا جرم ہے۔ اور کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت اقدس نے رسالہ الوصیت میں صاف قدرت ثانیہ کا ذکر کیا ہے۔ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی مثال دے کر خلافت کے مسئلہ کو اور بھی واضح کر دیا ہے۔ میری ان باتوں سے وہ لوگ بہت مایوس ہوئے ہے۔‘‘

(حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ148)

حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ کے اس واقعے سے ہمیں کئی سبق ملتے ہیں۔

  1. بغیر استخارہ کے سفر درست نہیں (قبل ازیں حضرت صاحب کا واقعہ بیان ہوچکاہے)
  2. اگر خلیفة المسیح کسی ڈیوٹی پر روانہ کریں تو ان کی اجازت سے استخارہ کرناچاہئے۔ اور اگر اس کے جواب میں کچھ معلوم ہوتو خلیفہٴ وقت سے بیان بھی کردینا چاہئے تاان کی دعامل جائے۔
  3. استخارہ کے نتیجہ میں پیش آمدہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے انسان کو تیاری کا موقع مل جاتاہے۔۔

استخارہ کے نتیجہ میں جو رؤیا مولانا رضی اللہ عنہ کو دکھایا گیا اس میں یہی بتایاگیا تھا کہ لاہوری حضرات اللہ کے خاص بندے یعنی خلیفة المسیح کے خلاف منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی شاندار اور منہ توڑ جواب آپ کو سمجھادیا جس نے لاہوری حضرات کے منہ بند کردئے

گویا حضرت خلیفة المسیح نے جوڈیوٹی آپ کے سپردکی اس کی بہترین رنگ میں بجاآوری کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں استخارہ کی تحریک جاری فرمادی چنانچہ جب آپ نے استخارہ کیا تو آپ کواس ڈیوٹی کی تفصیلات بھی سمجھادی گئیں اور یہ بھی بتادیاگیا کہ آپ نے ان پیش آمدہ حالات کا کس طور سے مقابلہ کرنا ہے اور اس کے لیے یقینا آپ نے اور بھی زیادہ درد دل سے دعائیں کی ہوں گی تاآپ اپنے مفوضہ فرائض کو صحیح رنگ میں بجا لانے کا حق اداکرسکیں اور پھر آپ نے ایک کامیاب جرنیل کی طرح خلافت اور خلیفة المسیح کے خلاف تعمیر شدہ اس لاہوری مسجد ضرار کی ایک ہی دلیل سے اینٹ سے اینٹ بجادی۔

پس استخارہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انسان کو اکیلا نہیں چھوڑتا اور اس کے کارنامے اس کا کفیل اور کارساز بن جاتاہے اور اس کی حفاظت فرماتا ہے اور اس کے فیصلوں اور اقدامات برکت ڈال دیتاہے۔

خاکسار کے ایک بزرگ دوست جو ماشاء اللہ ایک واقف زندگی سینئیر مربی سلسلہ ہیں نے ایک مرتبہ بتایا کہ ان کی اکلوتی بیٹی کے تو سلسلہ کے ایک پرانے خادم اور ان سے بھی سینئر اور بزرگ مربی سلسلہ تھے کی وساطت سے آئی اور بظاہر بہت معقول تجویز تھی چنانچہ فرماتے ہیں کہ گو کہ یہ تجویز ایک بہت ہی بزرگ مبلغ سلسلہ کی وساطت ہے سے آئی تھی اور خود اس تجویز پر بہت مطمئن بھی تھے تاہم میرے یہ دوست فرماتے ہیں کہ ہم نے مناسب سمجھاکہ استخارہ کرلیا جائے چنانچہ ہم نے دعا شروع کردی مگر کسی بھی مرحلہ پر تسلی نہیں ہورہی تھی تاہم ہم نے استخارہ جاری رکھا اور حالات ایسے پیدا ہوگئے کہ ہمارا عمرہ کا پروگرام بن گیا اور ہم نے استخارہ جاری رکھا اور حالات ایسے پیدا ہوگئے کہ ہمارا عمرہ کا پروگرام بن گیا اور ہم نے حرمین شریفین میں بھی استخارہ جاری رکھا چنانچہ بلاآخر اللہ تعالیٰ نے یوں فضل فرمایا کہ حرمین کی برکت سے اس استخارہ کا جواب یوں ہمیں ملاکہ بعض ایسی باتیں جو پہلے مخفی تھیں وہ ظاہر ہونی شروع ہوگئیں اور پتہ چلاکہ جس لڑکے کا رشتہ آیا ہوا ہے اس کی شادی ہوچکی ہوئی تھی۔

مگر اس نے تجویز کرنے والے بزرگ سے اس بات کو مخفی رکھا ہوا تھا اور دھوکہ دہی سے دوسری شادی کے ذریعہ پاکستان سے باہر یورپ آنے کے چکر میں تھا۔ چنانچہ تجویز کرنے والے بزرگ دوست کو بھی بہت افسوس اور شرمندگی ہوئی کہ ان کی بزرگی سے کسی نے دھوکہ دہی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی مذموم کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے استخارے کی برکت سے لڑکی کی اور اس کے والدین کواس کے شر سے بچالیا اور یہی مقصد ہے اس حدیث کا جو پہلے گزر چکی ہے کہ انسان کی خواش بختی کا راز اسی میں ہے کہ وہ اپنے ہر اہم کام میں کسی بھی قسم کا فیصلہ یا اقدام کرنے سے پہلے استخارہ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ سے مشورہ کرلے اور اس کے فضلوں کی طرف راہنمائی طلب کرے۔ پس اس حدیث کا مطلب اگر یہ ہے کہ خوش بخت ہی استخارہ کرتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ اگر کوئی خوش بخت بننا چاہے تو وہ استخارہ کی عادت اپنالے اور اس بابرکت نظام کا اپنے آپ کو خوگر بنالے تا اللہ تعالیٰ اس کا نگہبان اور محافظ ہوجائے اور اس کی زندگی لغزشوں سے پاک ہوجائے۔

(بشکریہ مجلہ الجامعہ(جامعہ احمدیہ) یوکے)

(مولانا مرزا نصیر احمد۔چھٹی مسیح لندن)

پچھلا پڑھیں

رپورٹ جلسہ ہائے یوم خلافت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جون 2022