• 16 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ سیدنا حضرت امیر المومنین بیان فرمودہ مورخہ 17؍ دسمبر 2010ء

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

فرمودہ مورخہ 17؍ دسمبر 2010ء بمطابق 26؍ نبوت 1398 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن

صحابہ کے حضرت مسیح موعودؑ سے عشق و محبت کے ایمان افروز واقعات

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ (البقرۃ: 166) اور جو لوگ مومن ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہی ہے جو درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے پیار اور محبت کی طرف مائل کرتی ہے۔ اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کس طرح اُس دلدار کو راضی کریں۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ جس روز خدا تعالیٰ کے سایہ عاطفت کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہو گا، اُس روز جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ عاطفت میں لے گا اُن میں وہ دو لوگ بھی شامل ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں۔

(بخاری کتاب الصلٰوۃ باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلٰوۃ حدیث نمبر 660)

یہ اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنی شدید محبت کا اظہار ہو۔ پس جب عام مومن کو ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس طرح نوازتا ہے تو جو اللہ تعالیٰ کے فرستادے اور نبی ہوتے ہیں اُن سے محبت کو خدا تعالیٰ کس طرح نوازے گا، اس کا تو اندازہ لگایا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ عشق و محبت کے عجیب نظارے ہیں جس کا آخری سرا اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتا ہے۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے عشق و وفا کے نمونے دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور فرستادوں کا زمانہ پاتے ہیں۔ یہ نمونے دکھانے کا موقع ہم میں سے بعض کے باپ دادا کو بھی ملا، آباؤ اجداد کو بھی ملا، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وقت پایا اور اپنی محبت اور پیار اور عقیدت اور احترام کا اظہار براہِ راست آپ سے کیا۔ اور پھر آپؑ کے پیار اور شفقت سے بھی حصہ لینے والے بنے۔

اس وقت مَیں ایسے ہی چند بزرگوں کی روایات اور واقعات کا ذکر کروں گا۔ وہ کیا ہی بابرکت وجود تھے جنہوں نے مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں کو چھوا، آپ سے براہِ راست فیض پایا۔

مَیں نے جو بعض روایات لی ہیں ان میں سے پہلی روایت حضرت ولی داد خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے جو راجپوت قوم کے تھے۔ ملک خان صاحب کے بیٹے ساکن مراڑا تحصیل نارووال، کہتے ہیں کہ ’’مَیں نے دسمبر 1907ء میں جلسہ سالانہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ مبارک پر بیعت کی تھی اور تاریخِ جلسہ سے ایک دن پہلے رات کو قادیان پہنچا تھا۔ صبح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گھر سے باہر تشریف لانا تھا تو مَیں نے دیکھا کہ مسجد مبارک کے پاس بہت بڑا ہجوم ہے۔ آدمی ایک دوسرے پر گِر رہے تھے۔ مَیں چونکہ نووارد تھا، مَیں دوسری گلی پر کھڑا ہو کر دعا مانگ رہا تھا کہ اے مولا کریم! اگر حضور اس گلی سے تشریف لے آویں تو سب سے پہلے مَیں مصافحہ کر لوں۔ اُسی وقت کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مع حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اسی راستے سے تشریف لے آئے ہیں‘‘۔ کہتے ہیں کہ ’’یکلخت مجھے ایسا معلوم ہوا جس طرح سورج بادل سے نکلتا ہے اور روشنی ہو جاتی ہے۔ مَیں نے دوڑ کر سب سے پہلے مصافحہ کیا۔ حضور آریہ بازار کے راستے باہر تشریف لے گئے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ نواب محمد علی خان صاحب کے باغ کا جو شمالی کنارہ ہے وہاں سے حضور واپس مڑے۔ غالباً مسجدنور یا مدرسہ احمدیہ کی مغربی حد ہے، وہاں حضور بیٹھ گئے۔ صحابہ کرام ارد گرد جمع تھے اور میر حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹی نے کچھ نظمیں اپنی بنائی ہوئیں سنائیں‘‘۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3صفحہ 84 روایت حضرت ولی داد خان صاحبؓ۔ غیر مطبوعہ)

پھر حضرت مدد خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ انسپکٹر بیت المال قادیان جو کہ راجہ فتح محمد خان صاحب کے بیٹے تھے، یاڑی پورہ ریاست کشمیر کے رہنے والے تھے۔ 1896ء میں انہوں نے بیعت کی اور 1904ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کی۔ کہتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ مجھے اپنے وطن میں رمضان المبارک کے مہینے میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس دفعہ قادیان میں جا کر روزے رکھوں اور عید وہیں پڑھ کر پھر اپنی ملازمت پر جاؤں۔ اُن دنوں میں ابھی نیا نیا ہی فوج میں جمعدار بھرتی ہوا تھا‘‘۔ (میرا خیال ہے آج کل تو یہ عہدہ نہیں لیکن یہ junior comissioned officer ہوتے تھے) تو کہتے ہیں کہ ’’میری اُس وقت ہر چند یہی خواہش تھی کہ اپنی ملازمت پر جانے سے پہلے مَیں قادیان جاؤں تا حضور کے چہرہ مبارک کا دیدار حاصل کر سکوں اور دوبارہ آپ کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کروں، کیونکہ میری پہلی بیعت 1895ء یا 96ء کی تھی جو ڈاک کے ذریعے (خط کے ذریعے) ہوئی تھی‘‘۔ کہتے ہیں ’’میرا ان دنوں قادیان میں آنے کا پہلا ہی موقع تھا۔ نیز اس لئے بھی میرے دل میں غالب خواہش پیدا ہوئی کہ ہو نہ ہو ضرور اس موقع پر حضور کا دیدار کیا جاوے۔ شاید اگر ملازمت پر چلا گیا تو پھر خدا جانے حضور کو دیکھنے کا موقع ملے یا نہ ملے۔ لہٰذا یہی ارادہ کیا کہ پہلے قادیان چلا جاؤں اور حضور کو دیکھ آؤں اور پھر وہاں سے واپس آ کر اپنی ملازمت پر چلا جاؤں‘‘۔ کہتے ہیں ’’مَیں قادیان کو اس سوچ کے ساتھ آیا تھا لیکن جونہی یہاں آ کر مَیں نے حضور کے چہرہ مبارک کا دیدار کیا تو میرے دل میں یکلخت یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر مجھ کو ساری ریاست کشمیر بھی مل جائے تو بھی آپ کو چھوڑ کر قادیان سے باہر ہرگز نہ جاؤں۔ یہ محض آپ کی کشش تھی جو مجھے واپس نہ جانے پر مجبور کر رہی تھی۔ میرے لئے آپ کا چہرہ مبارک دیکھ کر قادیان سے باہر جانا بہت دشوار ہو گیا۔ یہاں تک کہ مجھے آپ کو دیکھتے ہی سب کچھ بھول گیا۔ میرے دل میں بس یہی ایک خیال پیدا ہو گیا کہ اگر باہر کہیں تیری تنخواہ ہزار بھی ہو گی تو کیا ہو گا۔ لیکن تیرے باہر چلے جانے پر پھر تجھ کو یہ نورانی مبارک چہرہ ہرگز نظر نہیں آئے گا۔ میں نے اس خیال پر اپنے وطن کو جانا ترک کر دیا اور یہی خیال کیا کہ اگر آج یا کل تیری موت آ جائے تو حضور ضرور ہی تیرا جنازہ پڑھائیں گے جس سے تیرا بیڑا بھی پار ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو جائے گا۔ اور قادیان میں ہی رہنے کا ارادہ کر لیا۔ میرا یہاں پر ہر روز کا یہی معمول ہو گیا کہ ہر روز ایک لفافہ دعا کے لئے حضور کی خدمت میں آپ کے دَر پر جا کر کسی کے ہاتھ بھجوا دیا کرتا لیکن دل میں یہی خطرہ رہتا کہ کہیں حضور میرے اس عمل سے ناراض نہ ہو جائیں اور دل میں یہ محسوس نہ کریں کہ ہر وقت تنگ کرتا رہتا ہے۔ لیکن میرا یہ خیال غلط نکلا وہ اس لئے کہ ایک روز حضور نے مجھے تحریراً جواب میں فرمایا کہ آپ نے یہ بہت اچھا رویہ اختیار کر لیا ہے کہ مجھے یاد کرواتے رہتے ہو۔ جس پرمَیں بھی آپ کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہوں اور ان شاء اللہ پھر بھی کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خود ہی دین و دنیا میں کامیابی دے گا۔ اور خدا آپ پر راضی ہو جائے گا۔ اور آپ کی شادی بھی خدا ضرور ہی کرا دے گا۔ آپ مجھے یاد دہانی کراتے رہا کرو۔ مَیں آپ پر بہت خوش ہوں‘‘۔ کہتے ہیں کہ ’’خاکسار نے حضور کی اس تحریر کو شیخ غلام احمد صاحب نو مسلم کو دکھایا اور کہا کہ حضور نے خاکسار کو آج یہ تحریر فرمایا ہے اور پھر کہا یہ کیا بات ہے کہ مَیں نے تو کبھی کسی موقع پر بھی حضور کو اپنی شادی کرنے یا کرانے کے بارے میں اشارہ تک نہیں کیا۔ اس پر شیخ صاحب ہنس کر کہنے لگے کہ اب تو تمہاری شادی بہت جلد ہونے والی ہے۔ کیونکہ حضور کا فرمانا خالی نہیں جایا کرتا۔ آپ تیارہی رہیں‘‘۔ لکھتے ہیں کہ ’’خدا شاہد ہے کہ حضور کے اس فرمانے کے قریباً دو ماہ کے اندر اندر ہی میری شادی ہو گئی۔ اس سے پہلے میری کوئی بھی کسی جگہ شادی نہیں ہوئی تھی۔ میری دو شادیاں حضور نے ہی کرائی تھیں۔ ورنہ مجھ جیسے پردیسی کو کون پوچھتا تھا۔ یہ محض حضور کی خاص مہربانی اور نظرِ کرم تھی کہ آپ کے طفیل میری شادیاں ہوئیں۔ کہاں مَیں اور کہاں یہ عمل‘‘۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 4صفحہ 95تا 97 روایت حضرت مدد خان صاحبؓ۔ غیر مطبوعہ)

حضرت ماسٹر محمد پریل صاحبؓ ساکن کمال ڈیرہ سندھ لکھتے ہیں کہ اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہ۔ اما بعدٗ۔ یہ عاجز اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جولائی 1905ء میں حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء پر دست بیعت ہوا تھا۔ اُس زمانے میں مسجد مبارک بہت چھوٹی تھی۔ چار پانچ آدمی صف میں بیٹھتے تو جگہ بھر جاتی تھی۔ اُس ماہ میں بہت گرمی تھی یعنی جولائی میں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب مسجد میں تشریف آور ہوتے تو مَیں پنکھا چلاتا تھا، (ہاتھ کا پنکھا جھلا جاتا تھا)۔ مولوی محمد علی صاحب کا دفتر مسجد مبارک کے اوپر تھا۔ ایک دن مولوی محمد علی صاحب کو کچھ حضور کے آگے گزارش کرنی تھی، (اُن کا خیال تھا کہ بیٹھ کر گزارش کروں ) مگر بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ کہتے ہیں یہ عاجز حضرت اقدس کے زانوئے مبارک سے اپنے زانو کو ملا کر پنکھا چلاتا تھا۔ مولوی محمد علی نے ایک آدمی کو اشارہ کیا کہ اس کو پیچھے ہٹنے کے لئے اشارہ کرو۔ کہتے ہیں مَیں اشارے پر پیچھے ہٹنے لگا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے زانوپر ہاتھ مار کر فرمایا: مت ہٹو، بیٹھے رہو اسی طرح۔ یہ عاجز پھر پنکھا چلانے لگا۔ اور مولوی محمد علی صاحب نے کھڑے ہو کر اپنی گذارش کی۔ حضرت اقدس نے ان کو مناسب جواب دیا۔ مولوی صاحب تحریر کر کے (لکھ کے) چلے گئے۔ لکھتے ہیں کہ اُس زمانے میں تو اس بات کا خیال نہیں رہا۔ اب اس بات سے بہت سُرور اور لذّت آتی ہے کیونکہ مَیں ایک ادنیٰ آدمی اور بے سمجھ اردو بھی پوری طرح نہیں آتی تھی اور مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے اور عالم تھے مگر نبی اللہ کی نظر میں ادنیٰ اور اعلیٰ ایک ہی ہوتا ہے۔ یہ عاجز پندرہ دن صحبت میں رہا اور ہر ایک دن میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا نورانی چہرہ روشن دیکھنے میں آتا تھا۔ اس عاجز کو یہ ہی معلوم ہوتا تھا کہ اب حمام خانہ سے غسل کر کے آ گئے ہیں اور سرِ مبارک کے بالوں (جو کندھے کے برابر تھے) سے گویا موتیوں کے قطرے گر رہے ہیں۔ اس عاجز نے پندرہ روز میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے چہرہ مبارک میں غم نہیں دیکھا۔ جب بھی مجلس میں آتے خوش خندہ پیشانی ہوتے‘‘۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3صفحہ 92 روایت حضرت ماسٹر محمد پریل صاحبؓ۔ غیرمطبوعہ)

پھر حضرت چوہدری عبد الحکیم صاحب ولد چوہدری شرف الدین صاحب ساکن گھاکڑ چیماں تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ لکھتے ہیں کہ ’’1902ء کی گرمیوں کا موسم تھا۔ مَیں ان دنوں ملتان چھاؤنی ریلوے سٹیشن پر بطور سگنلر (signaler) ملازم تھا۔ میرے خیالات اہلحدیث کے تھے اور میں مولوی عبدالجبار اور عبدالغفار اہلحدیث جو دونوں بھائی تھے اور ملتان شہر کے قلعے کے پاس ان کی کتابوں کی دکان تھی اُن سے قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا کرتا تھا کہ اتفاقاً میری ملاقات مولوی بدرالدین احمدی سے ہوئی جو شہر کے اندر ایک پرائیویٹ سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ انہوں نے مجھے اخبار الحکم پڑھنے کو دیا۔ مجھے یاد ہے کہ اخبار الحکم کے پہلے صفحے پر لکھا ہوا تھا کہ خدا تعالیٰ کی تازہ وحی اور کلماتِ طیبات امام الزمان۔ مَیں ان کو پڑھتا تھا اور میرے دل کو ایک ایسی کشش اور محبت ہوتی تھی کہ فوراً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمتِ اقدس میں پہنچوں۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوا اور باوجود اہلحدیث کے مولویوں کے بہکانے اور ورغلانے کے میں نے تھوڑے ہی عرصے میں احمدیت کو قبول کر لیا۔ مولوی بدر الدین صاحب نے مجھے قادیان فوراً جانے کا مشورہ دیا۔ اور میرے ساتھ ایک اور اہلحدیث مولوی بھی تیار ہو گئے۔ وہ مولوی سلطان محمود صاحب اہلحدیث کے شاگردِ خاص تھے۔ کہتے ہیں غربت کی حالت تھی۔ پندرہ روپے میری تنخواہ تھی۔ مَیں نے رخصت لی اور ریلوے پاس کا حق نہیں تھا۔ مَیں نے بمعہ دوسرے دوست کے امرتسر کا ٹکٹ لیا۔ کیونکہ ہمارے پاس قادیان کا کرایہ پورا نہ تھا۔ امرتسر پہنچ کر ہمارا ٹکٹ ختم ہو گیا۔ اور ہم نے بٹالے والی گاڑی میں سوار ہونا تھا مگر ہمارے پاس صرف آٹھ آنے کے پیسے تھے۔ اس لئے ہم نے دو دو آنے کا ‘ویرکہ’کا ٹکٹ لے لیا اور گاڑی میں سوار ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ یہ بھی وہاں سوار ہونے کے بعد پھر ہمیں خیال آیا کہ بٹالے جانا ہے اور ٹکٹ بھی اتنا نہیں ہے۔ خیر ہم بیٹھے رہے۔ اس دوران میں ٹکٹ چیکر آ گیا۔ اس نے ٹکٹ ہمارا چیک کیا۔ لیکن ٹکٹ اچھی طرح چیک کرنے کے باوجود ہمیں ٹکٹ چیک کر کے واپس کر دیا کہ ٹھیک ہے۔ اور اسی طرح سٹیشن سے باہر نکلتے ہوئے ٹکٹ چیک کرنے والے نے ٹکٹ چیک کیا اور ہمیں کچھ نہیں کہا۔ ہم یہی دعا کرتے رہے کہ ایک نیک مقصد کے لئے ہم جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی بے عزتی سے بچا لے۔ تو کہتے ہیں کہ اس ٹکٹ نے ہمیں آخر تک پہنچا دیا۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے لئے ایک پہلا معجزہ جو ہم نے دیکھا وہ یہی تھا۔ لیکن بہر حال نیت نیک تھی۔ مجبوری تھی اس کی وجہ سے انہوں نے ٹکٹ لیا نہ کہ ارادۃً دھوکہ دینے کے لئے۔ تو بہر حال لکھتے ہیں کہ بٹالے سے پھر پیدل قادیان چلے گئے۔ قادیان جب ہم مسجد مبارک میں داخل ہوئے اُسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے۔ میرے ساتھ جو دوست تھا وہ ایک اہلحدیث عالم تھا۔ اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملتے ہی ایک سوال کیا کہ جب قرآن اور حدیث ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے تو آپ کی بیعت کی کیا ضرورت ہے؟ حضور اُسی وقت وہیں کھڑے ہو گئے اور تقریر شروع فرمائی۔ ابھی حضور کی تقریر ختم نہ ہوئی تھی کہ معترض ساتھی نے عرض کیا کہ حضور میری تسلی ہو گئی ہے۔ مَیں بیعت کرتا ہوں۔ حضور نے فرمایا کہ ابھی ٹھہرو اور پوری تسلی کر لو۔ شاید آپ کو دھوکہ نہ لگ جائے۔ پھر نماز ظہر پڑھا کر گھر تشریف لے گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تقریر کے خاتمے پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا کہ اخباروں میں سب کچھ لکھا جا چکا ہے۔ (یعنی یہ سوال جواب پہلے ہو چکے ہوئے ہیں جو اس نے کیا تھا کہ کیا ضرورت ہے قرآن اور حدیث کی موجودگی میں کسی اور کی بیعت کرنے کی؟)۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ پھر باہر سے آنے والے لوگ حضور کی خدمت میں سوال کر کے تکلیف دیتے ہیں اور اخبار کو نہیں پڑھتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب! تقریر تو میں کرتا ہوں اور تکلیف آپ کو ہوتی ہے۔ حضور ہر سوال کرنے والے کا بڑی خندہ پیشانی سے جواب فرمایا کرتے تھے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمر 3 صفحہ 121 تا 124 روایت حضرت چوہدری عبدالحکیم صاحبؓ۔ غیر مطبوعہ)

حضرت چوہدری عبدالحکیم صاحب ولد چوہدری شرف الدین صاحب گاکھڑ چیماں تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ لکھتے ہیں کہ ’’جس شام کو میں نے بیعت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تشریف لے جانے کے بعد میں حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہوا جو مسجد مبارک کے چھت کے پاس ہی کوٹھڑی میں رہتے تھے‘‘۔ پہلی روایت بھی ان کی ہے۔ ’’انہوں نے ایک چھوٹی سی چارپائی چھت پر بچھائی ہوئی تھی۔ مَیں اُن کی خدمت میں دیر تک بیٹھا رہا اور بہت سے مسئلے پوچھتا رہا۔ مگر سوائے ایک بات کے اور کوئی مجھے یادنہیں رہی اور وہ یہ کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے فرمایا کہ مخالف لوگ کہتے ہیں کہ نورالدین دنیا کمانے کے لئے قادیان آیا ہے۔ مگر مجھے تو وہ چارپائی ملی ہے‘‘ (چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے) ’’جس پر میرا آدھا جسم نیچے ہوتا ہے۔ میں تو صرف خدا کے لئے یہاں آیا ہوں اور میں نے وہ حضرت اقدس کی بیعت میں پا لیا۔ جس خدا کے لئے میں یہاں آیا ہوں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر کے میں نے پا لیا‘‘۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمر 3 صفحہ 125 روایت حضرت چوہدری عبدالحکیم صاحبؓ۔ غیر مطبوعہ)

یہی اعزاز تھا جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شعر میں حضرت خلیفۂ اوّل کی تعریف اس طرح کی ہے کہ

چہ خوش بودے اگر ہر یک زِ امت نورِ دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نورِ یقیں بودے

(درثمین فارسی صفحہ 117 مطبوعہ ربوہ)

کہ کیا ہی خوشی کی بات ہو اگر ہر ایک دل میں نور الدین کی طرح کا جذبہ ہو۔ اور یہ اسی وقت ہو تا ہے جب ہر دل میں ایک یقین بھرا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کے بارے میں حق الیقین پر قائم ہوں تو تبھی وہ رُتبہ ملتا ہے جو حضرت مولانا نورالدین صاحب کو ملا۔

حضرت حامد حسین خان صاحبؓ جو محمد حسین خان صاحب مراد آباد کے بیٹے تھے۔ کہتے ہیں کہ مَیں 1902ء میں علی گڑھ سے آ کر میرٹھ میں ملازم ہوا تھا۔ میری ملازمت کے کچھ عرصے بعد مکرمی خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب بسبیلِ تبادلہ بعہدہ انسپکٹر آبکاری میرٹھ میں تشریف لے آئے۔ آپ چونکہ احمدی تھے اور حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کر چکے تھے، لہٰذا آپ کے گھر پر دینی ذکر و اذکار ہونے لگے۔ اور شیخ عبد الرشید صاحب زمیندار ساکن محلہ رنگ ساز صدر بازار میرٹھ کیمپ پر مولوی عبدالرحیم صاحب وغیرہ خان صاحب موصوف کے گھر پر آنے جانے لگے۔ خان صاحب موصوف سے چونکہ مجھے بوجہ علی گڑھ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے محبت تھی۔ اس لئے میری نشست و برخاست بھی خان صاحب کے گھر پر ہونے لگی۔ مَیں نے کتابیں دیکھنے کا شوق ظاہر کیا تو حضرت اقدس مسیح موعود کی چھوٹی چھوٹی تصانیف خان صاحب نے مجھے دیں جن میں غالباً برکات الدعا پہلے پڑھی اور اس طرح اور کتابیں تھیں۔ کہتے ہیں وہ مَیں نے دیکھنی شروع کیں۔ مولوی محمد احسن صاحب امروہی خان صاحب کے ہاں تشریف لائے اور میرٹھ میں مناظرے کے طور پر گئے۔ اُس وقت صرف ایک ہی مسئلہ زیرِ بحث تھا۔ اور وہ وفاتِ مسیح کا مسئلہ تھا۔ مناظرہ وغیرہ تو میرٹھ کے شریر اور فسادی لوگوں کے باعث نہ ہوا۔ لیکن مولوی محمد احسن صاحب مرحوم کی تقریر ضرورمَیں نے وفاتِ مسیح کے متعلق سنی۔ کہتے ہیں کہ میرٹھ کی پبلک سے جو جھگڑا مناظرے کے متعلق ہوا اُس کے علیحدہ ایک رسالے میں واقعات آ گئے ہیں۔ بہر حال اس کے بعد کہتے ہیں کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملنے کا شوق پیدا ہوا۔ میں نے خان صاحب موصوف سے عرض کیا کہ اگر حضرت اقدس کہیں میرٹھ کے قریب قریب تشریف لائیں تو مجھے ضرور اطلاع دیں۔ میں ایسے عظیم الشان شخص کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ اگر نہ دیکھوں تو بڑی بدنصیبی ہو گی۔ وہ کہتے ہیں اُس وقت مجھے بیعت کاخیال تو نہیں تھا۔ اس کے بعد 1904ء میں ایک بہت بڑا زلزلہ آیا جس کے متعلق یہ کہا گیا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آیاہے۔ اس کے بعدایک دن خانصاحب موصوف نے مجھ سے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی تشریف لارہے ہیں۔ آپ بھی زیارت کے لئے چلیں۔ کہتے ہیں میں نے آمادگی ظاہر کر دی اور پھر ہم دہلی چلے گئے۔ دہلی میں حضرت اقدسؑ کا قیام الف خان والی حویلی میں جو محلہ چنلی قبر میں واقع ہے وہاں تھا۔ میں اور خانصاحب موصوف بذریعہ ریل دہلی پہنچے۔ غالباً بارہ، ایک بجے کا وقت تھا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ مکان کے اوپر کے حصہ میں تشریف رکھتے تھے اور نیچے دوسرے دوست ٹھہرے ہوئے تھے۔ مکان میں داخل ہوتے ہوئے میری نظر مولوی محمد احسن صاحب پرپڑی۔ چونکہ ان سے تعارف میرٹھ کے قیام کے وقت سے ہو چکا تھا تو میں ان کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں غالباً خان صاحب نے جو اس برآمدہ میں بیٹھے تھے جس کے اوپر کے حصہ میں حضرت اقدسؑ کا قیام تھا مجھ کو اپنے پاس بلالیا۔ میں ایک چارپائی پر پائینتی کی طرف بیٹھ گیا اور باتیں کر نے لگا۔ جہاں میں بیٹھا تھا ان کے قریب ہی زینہ تھا، سیڑھیاں تھیں گھر کے اوپر والے حصے میں جانے کی، تو کہتے ہیں کہ حضرت اقدسؑ اوپر سے تشریف لے آئے۔ سیڑھیوں کی طرف میری پشت تھی۔ اور مَیں نے آتے ہوئے دیکھا نہیں۔ حضور علیہ السلام نیچے تشریف لائے اور آہستگی سے آ کر میرے برابر پلنگ کی پائینتی پر بیٹھ گئے۔ میرے ساتھ ہی بڑی بے تکلفی سے بیٹھ گئے۔ کہتے ہیں مَیں تو پہچانتا نہیں تھا۔ جب حضور بیٹھ گئے تو اس وقت پہچاننے والا اور کوئی تھا نہیں۔ تو کسی نے مجھے بتلایا کہ حضرت صاحب تشریف لے آئے۔ اس وقت میں گھبراکر وہاں سے اٹھنا چاہتا تھا کہ حضرت صاحب نے ارشاد فرمایا کہ یہیں بیٹھے رہیں۔ یہ یاد نہیں کہ حضور نے مجھ کو بازو سے پکڑ کر بٹھا دیا یا صرف زبان سے ارشاد فرمایا۔ حضرت صاحب کے تشریف لانے کے بعد تمام دوستوں کو جو مکان کے مختلف حصوں میں قیام پذیر تھے اطلاع ہو گئی اور مکان میں ایک ہلچل مچ گئی۔ اس قدر یاد ہے کہ غالباً خانصاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ میرٹھ سے آئے ہیں۔ اور اتنے میں اور باتیں ہونے لگیں۔ پھر آگے کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے بعد ظہر اور عصر کی نمازیں وہاں ادا کی گئیں اور اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو دوست بیعت کرنا چاہتے ہوں وہ آگے آجائیں۔ اس پر کسی اور دوست نے بھی اونچی آواز میں اعلان کیا۔ چنانچہ بہت سے دوست آگے ہوئے اور میں سب سے پیچھے رہ گیا۔ حضور نے بیعت شروع کرنے سے قبل ارشاد فرمایا کہ جو دوست مجھ تک نہیں پہنچ سکتے وہ بیعت کرنے والوں کی کمر پر ہاتھ رکھ کر جو مَیں کہوں وہ الفاظ دہراتے جائیں۔ کہتے ہیں کہ مَیں اس وقت بھی خاموش الگ سب سے پیچھے بیٹھا رہا کیونکہ ارادہ نہیں تھا بیعت کرنے کا، اور ہاتھ بیعت کرنے والوں کی کمر پر نہیں رکھا۔ جب حضرت صاحب نے بیعت شرو ع کی تو میرا ہاتھ بغیر میرے ارادے کے آگے بڑھا اور جو صاحب میرے آگے بیٹھے ہوئے تھے، مَیں نے ہاتھ اُن کی کمر پر رکھ دیا اور اُس کے ساتھ بیعت کے الفاظ دہرانے لگا۔ اور پھر دوبارہ لکھتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یادہے کہ میراہاتھ میرے ارادے سے آگے نہیں بڑھا بلکہ خود بخود آگے بڑھ گیا۔ جب حضرت اقدسؑ نے رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ کی دعاکا ارشاد فرمایا۔ سب نے اس کو دہرایا۔ میں نے بھی دہرایا۔ لیکن جب حضرت صاحب نے اس کے معنے اردو میں فرمانے شروع کئے اور بیعت کنندوں کو دہرانے کا ارشاد فرمایا تومیں نے جس وقت وہ الفاظ دہرائے تو اپنے گناہوں کو یادکرکے سخت رقّت طاری ہو گئی۔ اوریہاں تک کہ اس قدرزور سے میں چیخ کر رونے لگا کہ سب لوگ حیران ہو گئے۔ اور میں روتے روتے بیہوش ہو گیا۔ مجھ کو خبر ہی نہیں رہی کہ کیا ہو رہاہے۔ جب دیر ہو گئی تو حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ پانی لاؤ۔ وہ لایا گیا اور حضور نے اس پر کچھ پڑھ کر میرے اوپر چھڑکا۔ یہ مجھ کو خانصاحب سے معلوم ہوا۔ انہوں نے بعد میں بتایا۔ ہاں اس قدر یاد ہے کہ حالتِ بیہوشی میں مَیں نے دیکھا کہ مختلف رنگوں کے نور کے ستون آسمان سے زمین تک ہیں۔ اس کے بعد مجھ کو کسی دوست نے زمین سے اٹھایا۔ میں بیٹھ گیا مگر میرے آنسو نہ تھمتے تھے۔ اس قدر حالت متغیر ہوگئی کہ میرٹھ آکر بھی باربار روتا تھا۔ پھر خانصاحب موصوف نے میرے نام ’’بدر‘‘ و ’’ریویو‘‘ جاری کرادیا۔ اور بدر میں حضرت اقدسؑ کی وحی مقدس شائع ہوتی تھی۔ اس سے بہت محبت ہوگئی۔ اور ہر وقت یہ جی چاہتا تھا کہ تازہ وحی سب سے پہلے مجھ کو معلوم ہو جائے۔ پھر جلسہ پر دارالامان جانے لگا اور برابر جاتارہا۔ حضرت اقدسؑ کو دعاؤں کے لئے خط لکھتا رہا۔ اور ایک خط کا جواب حضرت اقدسؑ نے اپنے دستِ مبارک سے دیا تھا۔ وہ میرے پاس اب تک موجود تھا۔ لیکن بعد میں کہیں گم گیا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 63 تا 67۔ روایت حضرت حامد حسین خان صاحبؓ۔ غیرمطبوعہ)

حضرت مستری اللہ دتہ ولد صدر دین صاحب رضی اللہ عنہ سکنہ بھانبڑی ضلع گورداسپور کہتے ہیں کہ 1894ء میں انہوں نے بیعت کی تھی اور 1894ء میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کی۔ کہتے ہیں کہ ’’میرے استاد کا نام مہر اللہ تھا۔ میں نے اُن سے قرآن شریف سادہ پڑھا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ امام مہدی ظاہر ہونے والا ہے اس کی بیعت کر لینا۔ جب خبر سنائی دی کہ قادیان میں حضرت امام مہدی ظاہر ہوگئے تو میں نے اپنے استاد مہراللہ صاحب کے کہنے پر بیعت کرلی۔ مَیں نے اور میرے بھائی رحمت اللہ صاحب نے قادیان میں آکر بیعت دستی کرلی تھی۔ اور بھانبڑی سے ہمیشہ جمعہ قادیان میں آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہم پڑھا کرتے تھے۔ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے دوست اگر تمہارے پاس آیا کریں تو ان کی خاطر تواضع کیا کرو۔ ماسٹر عبد الرحمان صاحب بی اے بھانبڑی بھی ہمارے پاس جایا کرتے تھے اور مفتی فضل الرحمان صاحب بھی کبھی کبھی جایا کرتے تھے‘‘۔ کہتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبانی اکثر دفعہ سنا ہے کہ حضور فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا سلسلہ سچا ہے۔ اس کو ان شاء اللہ زوال نہ ہوگا۔ جھوٹ تھوڑے دن رہتا ہے اور سچ سدا رہتا ہے۔ کچھ زمیندار مہمان قادیان میں آگئے تھے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ اس وقت صبح آٹھ بجے کا وقت ہوگا۔ حضرت صاحب نے باورچی سے پوچھا۔ کچھ کھانا ان کو کھلایا جائے۔ باورچی نے کہا کہ حضور رات کی بچی ہوئی باسی روٹیاں ہیں۔ حضور نے فرمایا۔ کچھ حرج نہیں ہے لے آؤ۔ چنانچہ باسی روٹیاں لائی گئیں۔ حضور نے بھی کھائیں اور سب مہمانوں نے بھی کھالیں۔ غالباً وہ مہمان قادیان سے واپس اپنے گاؤں اٹھوال کو جانے والے تھے۔ حضور نے فرمایا کہ باسی کھا لینا سنت ہے‘‘۔

(رجسٹر روایت صحابہ نمبر 4 صفحہ 106 روایت حضرت مستری اللہ دتہ صاحبؓ۔ غیرمطبوعہ)

حضرت میراں بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد میاں شرف الدین صاحب درزی گوجرانوالہ آبادی چاہ روڈا محلہ احمد پورہ لکھتے ہیں کہ ’’خاکسار نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت قریباً 1897ء یا 98ء میں کی۔ مگر اپنے والد صاحب سے کچھ عرصہ تک اس امر کا اظہار نہ کیا۔ آخرکب تک پوشیدہ رہ سکتاتھا۔ بھید کھل گیاتو والد صاحب نے خاکسار کو صاف جواب دے کر گھر سے نکال دیا۔ تو خاکسارنے خدارازق پر توکل کرکے ایک الگ دوکان کرایہ پر لے لی۔ تنگدستی تو تھی ہی مگر دل میں شوق تھاکہ جس طرح بھی ہو سکے بموجب حیثیت حضرت اقدسؑ کے لئے ایک پوشاک بنا کر اور اپنے ہاتھ سے سی کر حضور کی خدمت میں پیش کی جائے۔ اسی خیال سے مَیں نے ایک کرتہ ململ کا اور ایک شلوارلٹھے کی اور ایک کوٹ صرف سیاہ رنگ کا اور ایک دستارململ کی خریدکر اور اپنے ہاتھ سے سی کر پوشاک تیارکرلی اور قادیان شریف کا کرایہ ادھر ادھر سے پکڑ پکڑاکر قادیان شریف پہنچ گیا۔ دوسرے روزجمعہ کا دن تھا۔ اس لئے خیال تھا کہ اگر ہو سکے تو یہ ناچیز اور غریبانہ تحفہ آج ہی حضور کی خدمت ِبابرکت میں پہنچ جائے تو شاید حضور جمعہ کی نماز سے پہلے ہی اس کو پہن کر اس غریب کے دل کو خوش کردیں۔ غرض اسی سوچ بچار میں قاضی ضیاء الدین صاحب کی دوکان پر پہنچ گیااوران کے آگے اپنی دلی خواہش کا اظہار کر دیا۔ وہ سنتے ہی کہنے لگے کہ چل میاں، میں تم کو حضور کی خدمت میں پہنچا دیتا ہوں۔ چنانچہ وہ اسی وقت اٹھ کر مجھے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں لے گئے۔ اس وقت حضور علیہ السلام ایک تخت پوش پر بیٹھے ہوئے کچھ لکھ رہے تھے۔ اور خواجہ صاحب کمال الدین تخت پوش کے سامنے ایک چٹائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم دونوں بھی وہاں خواجہ صاحب کے پاس بیٹھ گئے۔ خواجہ صاحب نے دریافت کیا کہ اس وقت کیسے آئے۔ قاضی صاحب نے میری خواہش کا اظہارکردیا۔ خواجہ صاحب تھوڑی دیر خاموش رہ کر میری طرف مخاطب ہوئے اور کہا کیوں میاں ! مَیں ہی تمہاری وکالت کردوں۔ مَیں نے کہا یہ تو آپ کی بہت مہربانی ہوگی۔ اس پر خواجہ صاحب نے مجھ سے وہ کپڑے لے کر حضورؑ کو پیش کردیئے۔ اور ساتھ ہی یہ عرض بھی کر دی کہ حضور اس لڑکے کی خواہش ہے کہ حضور ان کپڑوں کو پہن کر جمعہ کی نمازپڑھیں۔ خواجہ صاحب کی یہ بات سن کر حضور نے کپڑے اٹھاکر پہننے شروع کردیئے‘‘۔ (مطلب یہ کہ فوری تو نہیں پہنے ہوں گے لیکن دیکھنے شروع کر دئیے) ’’لیکن جب کوٹ پہنا تو وہ تنگ تھا۔ تومَیں نے عرض کی کہ حضور کوٹ بہت تنگ ہے۔ اگر اس کو اتاردیں تو میں اس کو کچھ کھول دوں۔ حضور نے کوٹ اتارکرمجھے دے دیا۔ میں جلدی سے اٹھ کر بازار میں آیا اور ایک درزی کی دوکان پر بیٹھ کر تھوڑا ساکوٹ کو کھولا اور خدمت میں پیش کیا۔ حضور نے کوٹ پہن لیا مگر ابھی بھی بٹن بندنہیں ہوتے تھے۔ مگر حضور نے کھینچ تان کر بٹن لگا لئے اور کچھ بھی خیال نہ کیا کہ یہ کپڑے حضور کے پہننے کے لائق بھی ہیں یا نہیں‘‘۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 12 تا 14۔ روایت حضرت میاں میراں بخش صاحبؓ۔ غیرمطبوعہ)

حضرت ماسٹر خلیل الرحمن صاحب چھبرجو ریاست جموں کے مولوی نیک عالم صاحب کے بیٹے تھے، لکھتے ہیں کہ 1929ء میں پینشن حاصل کی اور قادیان آ گیا۔ 1907ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے تو تمام مسجد پُر ہوگئی اور کوئی جگہ باقی نہ تھی۔ حضور کے ساتھ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے۔ اُن کی بغل میں جائے نماز تھی۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے حکم دیا کہ جو تیاں لوگوں کی ہٹا کر جائے نماز بچھادی جاوے جس پر شمال کی طرف ڈاکٹر صاحب مذکور اور ان کے بائیں طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے بائیں طرف عاجز راقم نے نماز پڑھی۔ الحمد للہ۔ الحمدللہ۔ اُس دن حضرت صاحب جری اللہ مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر سب تقریروں کے بعد تھی۔ یعنی کم ازکم پانچ گھنٹے بعد حضور کی تقریر ہوئی تھی۔ پہلے مقررین کی تقریروں میں سے راقم نے کچھ نہیں سنااور حضرت جری اللہ مسیح موعود الصلوۃ والسلام کی پاک صورت اور مبارک چہرے پر میری نظر تھی اور میں زار زار رو رہا تھا۔ غالباً اس کی وجہ اب مجھے یہ معلوم ہوتی ہے کہ میں نے زندگی میں اس کے بعد حضور انورؑ کو نہیں دیکھنا تھا۔ اس لئے اس روز راقم نے پانچ گھنٹہ حضور کے رُوئے مبارک کو ٹکٹکی باندھے دیکھااور بخدا مجھے کسی کی تقریرکا کوئی حصہ یادنہیں ہے اور اس عرصہ میں زار قطار رویاا ور پرجوش محبت سے گریہ و بُکا کیا۔ الحمدللہ۔ پھر اپنے وقت پر حضرت اقدسؑ سٹیج پر تشریف لے گئے اور سورہ الحمد شریف کی نہایت ہی لطیف اور لذیذو پُر تاثیر تفسیر بیان فرمائی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 4 صفحہ 125-136 روایت حضرت ماسٹر خلیل الرحمن صاحبؓ۔ غیرمطبوعہ) (آج برف پڑنے کی وجہ سے ٹریفک زیادہ تھا، اس لئے لیٹ ہو گیا، حالانکہ نکلا بھی پہلے تھا لیکن جمعہ شروع ہونے کے بعد اب دھوپ نکل آئی ہے۔ چلیں تھوڑی دیر آپ لوگ صبر سے انتظار کر لیں۔ وقت تو مَیں اگر پورا نہیں تو کم از کم زائد ضرور لوں گا۔)

حضرت غلام رسول صاحب رضی اللہ عنہ چانگریاں تحصیل پسرور، ڈاکخانہ پھلورہ ضلع سیالکوٹ لکھتے ہیں کہ ’’خاکسار خدا کے فضل وکرم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں داخل ہے۔ میں نے 1901ء میں یا 1902ء میں بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر کی تھی۔ اُس وقت حضور کی خدمت میں ایک ہفتہ رہا۔ اور ہم آپ کو جب آپ مسجد میں عموماً مغرب کی نماز کے بعد بیٹھتے تھے دباتے تھے۔ یعنی ٹانگیں وغیرہ دبایا کرتے تھے۔ اور آپ ہم کو منع نہیں کرتے تھے۔ اور آپ کا چہرہ مبارک ایسا تھاکہ وہ شبہات جو مولوی ڈالتے تھے آپ کا چہرہ دیکھنے سے دور ہوجاتے تھے۔ چنانچہ مَیں نے سنا ہوا تھا کہ مہدی معہود کا چہرہ ستارے کی طرح چمکتا ہوگا اور مَیں نے ایسا ہی پایا۔ اور میرے سارے اعتراضات آپ کے چہرہ دیکھتے ہی حل ہوگئے۔ اور جب آپ پر کرم دین نے دعویٰ کیا تھا اور مجسٹریٹ چندولال کی عدالت میں دعویٰ تھا اور بہت شور تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ضرور جیل میں جائیں گے اور حضرت مسیح موعودؑ فرماتے تھے کہ لوگ یہ افواہ اٹھا رہے ہیں کہ میں جیل میں جاؤں گا۔ ہمارا خد اکہتا ہے تمہیں ایسی فتح دوں گا جیسے صحابہ کو جنگ بدر میں دی تھی اور وہ الفاظ آپ کے اب تک کانوں میں گونجتے ہیں‘‘۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 111 روایت حضرت غلام رسول صاحبؓ۔ غیرمطبوعہ)

حضرت رحمت اللہ صاحب احمدی پنشنر۔ سنگرور ریاست جیند لکھتے ہیں کہ ’’میرا نام رحمت اللہ خلف مولوی محمد امیر شاہ قریشی سکنہ موضع بیرمی ضلع لدھیانہ ہے۔ کہتے ہیں خدانے اپنے فضل و رحم سے مجھے چن لیا۔ اور غلامی حضور سے سرفراز فرمایا ورنہ من آنم کہ من دانم۔ تفصیل اس کی یہ ہے: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چند ماہ لدھیانہ میں قیام فرمایا۔ میری عمر اس وقت قریباً سترہ اٹھارہ برس کی ہوگی۔ اور طالب علمی کا زمانہ تھا۔ میں حضور کی خدمتِ اقدس میں گاہے بگاہے حاضر ہوتا۔ مجھے وہ نور جو حضور کے چہرہ مبارک پر ٹپک رہاتھا نظرآیا۔ جس کے سبب سے میراقلب مجھے مجبور کرتاکہ یہ جھوٹوں کا منہ نہیں ہے۔ مگر گردونواح کے مولوی لوگ مجھے شک میں ڈالتے۔ اسی اثناء میں حضور کا مباحثہ مولوی محمد حسین بٹالوی سے لدھیانہ میں ہواجس میں مَیں شامل تھا۔ اس کے بعد خدانے میری ہدایت کے لئے ازالہ اوہام کے ہردوحصے بھیجے۔ وہ سراسر نوروہدایت سے لبریز تھا۔ خدا جانتا ہے کہ میں اکثراوقات تمام رات نہیں سویا۔ اگر کتاب پر سررکھ کر غنودگی ہوگئی تو ہوگئی ورنہ کتاب پڑھتا رہا اور روتا رہاکہ خدایہ کیا معاملہ ہے۔ مولوی لوگ کیوں قرآن شریف کو چھوڑتے ہیں؟ خدا جانتا ہے کہ میرے دل میں شعلۂ عشق بڑھتا گیا۔ میں نے مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کو لکھا کہ حضرت مرزا صاحب عیسیٰ علیہ السلام کی وفات تیس آیات سے ثابت کرتے ہیں۔ آپ براہِ مہربانی حیات کے متعلق جو آیات و احادیث ہیں تحریر فرماویں۔ اور ساتھ جو تیس آیاتِ قرآنی جو حضرت مرزاصاحب لکھتے ہیں تردید فرماکر میرے پاس بھجوا دیں۔ میں شائع کرادوں گا۔ جواب آیا کہ آپ عیسیٰ کی حیات و ممات کے متعلق حضرت مرزا صاحب یا اُس کے مریدوں سے بحث مت کرو۔ کیونکہ اکثر آیاتِ وفات ملتی ہیں۔ (قرآنِ کریم میں اگر دیکھنا ہے تو پھر وہاں تو وفات کی آیات ہی ملتی ہیں) یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ لکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ اُن غیر احمدی مولوی صاحب نے لکھا کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے اس امر پر بحث کرو کہ مرزاصاحب کس طرح مسیح موعود ہیں؟ جواب میں عرض ہوا کہ اگر حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے ہیں تو حضرت مرزاصاحب صادق ہیں۔ جواب ملا کہ آپ پر مرزاصاحب کا اثر ہوگیاہے۔ میں دعاکروں گا۔ جواب میں کہتے ہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ آپ اپنے لئے دعا کریں۔ آخرمَیں آستانۂ الوہیت پر گرا اور میرا قلب پانی ہو کر بہہ نکلا۔ گویا میں نے عرش کے پائے کو ہلادیا۔ عرض کی خدایامجھے تیری خوشنودی درکارہے۔ میں تیرے لئے ہر ایک عزت کو نثارکرنے کو تیارہوں اور ہرایک ذلت کو قبول کروں گا۔ تو مجھ پر رحم فرما۔ تھوڑے ہی عرصہ میں مَیں اس ذات کی قسم کھاتاہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ بوقت صبح قریباً چار بجے 25 دسمبر 1893ء بروز سوموار جناب سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ تفصیل اس خواب کی یہ ہے کہ خاکسار موضع بیرمی میں نماز عصر کا وضو کر رہاتھا کہ کسی نے مجھے آکر کہا کہ رسول ِعربی آئے ہوئے ہیں اور اسی ملک میں رہیں گے۔ میں نے کہا کہاں؟ اس نے کہا یہ خیمہ جات حضور کے ہیں۔ میں جلد نماز ادا کرکے گیا۔ حضور چند اصحاب میں تشریف فرماتھے۔ بعد سلام علیکم مجھے مصافحہ کا شرف بخشا گیا۔ میں بہ ادب بیٹھ گیا۔ حضور عربی میں تقریر فرمارہے تھے۔ خاکسار اپنی طاقت کے موافق سمجھتا تھا۔ اور پھر اردو بولتے تھے۔ فرمایا میں صادق ہوں۔ میری تکذیب نہ کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔ لکھتے ہیں کہ مَیں نے کہا آمَنَّا وَ صَدَّقْنَایَا رَسُوْلَ اللّٰہ۔ تمام گاؤں مسلمانوں کا تھا۔ مَیں حیران تھاکہ خدایا! یہ کیا ماجرا ہے؟ آج مسلمانوں کے قربان ہونے کا دن تھا۔ گویا حضور کا ابتدائی زمانہ تھا۔ گو مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ حضور اسی ملک میں تشریف رکھیں گے مگر حضور نے کوچ کا حکم دیا۔ مَیں نے روکر عرض کی حضور جاتے ہیں۔ مَیں کس طرح مل سکتا ہوں۔ میرے شانہ پر حضور نے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے) اپنا دستِ مبارک رکھ کر فرمایاکہ گھبراؤ نہیں ہم خود تم کو ملیں گے۔ کہتے ہیں اس کی تفہیم مجھے یہ ہوئی کہ حضرت مرزا صاحب رسولِ عربی ہیں۔ مجھے فعلی رنگ میں سمجھایا گیا۔ کہتے ہیں میں نے بیعت کا خط لکھ دیا۔ مگر بتاریخ 27 دسمبر 1898ء قادیان حاضرہو کر بعدنمازِ مغرب بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا اور خدا کے فضل نے مجھے وہ استقامت عطا فرمائی کہ کوئی مصائب مجھے تزلزل میں نہیں ڈال سکے۔ مگر یہ سب حضور کی صحبت کا طفیل تھا جو بار بار حاصل ہوئی۔ اور ان ہاتھوں کو حضور کی مٹھیاں بھرنے کا فخر ہے (یعنی کہ دبانے کا بھی فخر ہے)۔ گو مجھے اعلان ہونے پر رنگا رنگ کے مصائب پہنچے مگر خدانے مجھے محفوظ ہی نہیں رکھا بلکہ اس نقصان سے بڑھ کر انعام عنایت کیا۔ اور میرے والد اور میرے بھائی اور قریبی رشتہ دار احمدی ہو گئے۔ اَلْحَمْدُللّٰہ۔

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 58-59 روایت حضرت رحمت اللہ صاحبؓ۔ غیرمطبوعہ)

حضرت مولوی فتح علی صاحب احمدی منشی فاضل دوالمیال ضلع جہلم کہتے ہیں کہ مَیں نے 1904ء میں بمعہ بال بچہ آکر حضور مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور حضور کی حیاتِ مقدس میں ہر سال بمعہ بال بچہ ہی حضور کی خدمت اقدس میں یہاں پہونچتا رہا اور جب کبھی حضور باہر نماز کے لئے تشریف لاتے اور مسجد میں بیٹھتے تو ہم دوالمیال کی جماعت جو پانچ سات کس تھے پاس بیٹھتے۔ اور حضور کی زبان مقدس کے الفاظ سے فیض اٹھاتے اور چند دفعہ دعا کے لئے بھی عرض کی گئی تھی۔ اس وقت وہ چھوٹی سی مسجد جس میں پانچ چھ آدمی بصد مشکل کھڑے ہوسکتے تھے۔ پھر مسجد مبارک وسیع کی گئی۔ ایک دفعہ ہماری جماعت کے امام مسجد مولوی کرم داد صاحب نے عرض کی کہ حضور ہماری مسجد میں قدیم سے ایک امام سید جعفر شاہ صاحب ہیں۔ وہ حضور کے معتقد ہیں۔ وہ آپ کو مانتے ہیں لیکن غیروں کی بھی گاہ بگاہ جنازوں میں یا نمازوں میں اقتداء کرتے ہیں (مانتے تو ہیں لیکن غیروں کے پیچھے، مولویوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں)۔ تومیں نے عرض کی کہ وہ شخص یہاں تک معتقد ہے کہ ایک دفعہ مجھ سے اس نے خط لکھوایا اور یہ لفظ لکھوائے کہ میں حضورکے کتوں کا بھی غلام ہوں۔ اگر کسی وقت جہالت یا نادانی سے کمی بیشی ہوگئی ہو تو حضور فی سبیل اللہ معاف فرما دیں۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جب وہ اب تک دنیا کی لالچ یا خوف سے غیروں کے پیچھے نماز یا جنازہ پڑھتا ہے (جو تکفیر کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُن کے پیچھے نماز پڑھتا ہے) تو کب اس نے ہم کو مانا۔ آپ اس کے پیچھے نمازیں مت پڑھیں۔ درزی تھے، کہتے ہیں: مَیں نے اسی وقت حضرت امّ المومنین کے حکم سے اندرسے سلائی مشین منگوائی اور حضرت صاحبزادہ شریف احمد ؓ کا جو اس وقت آٹھ دس سال کے ہوں گے گرم کوٹ تیار کررہا تھا اور اس طرح انہوں نے تیار کیا اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کھیوڑہ سے آیا کرتے تھے تو ہماری عورتوں نے کہا کہ دس گیارہ میل ہمیں پیدل پہاڑی سفر کرنا پڑتا ہے، اس لئے ہم بستر نہیں لا سکتے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حامد علی (حامد علی صاحب جو آپ کے خدمت گار تھے) دوالمیال والوں کو رضائیاں اور بستر دے دیا کرو۔

حضور کی برداشت کا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ کسی کو کوئی تکلیف ہوتی تھی تو ہم حضور سے دوائیاں وغیرہ بھی منگو الیتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میرا لڑکا عبدالعزیز مرحوم جو سات آٹھ سال کا تھا جو میرے ساتھ بھی آتا رہا اور حضور کی درثمین کے اشعار نہایت خوش الحانی، خوش آوازی سے پڑھتا تھا (خوش الحانی سے پڑھا کرتا تھا)۔ جلسوں میں بھی اور حضور کے اندر بھی آکر سناتا تھا۔ حضور اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ دوالمیال والوں کی درخواستیں بھی یہی اندر میں حضورکو پہنچاتا تھا۔ ایک دفعہ محمد علی ولدنعمت نے ایک عرضی کسی خاص دعا کے لئے لکھ کر عبد العزیز کو دی کہ حضور کو دے آؤ اور گھر جانے کی اجازت لے آؤ۔ چونکہ ابھی سویرا ہی تھا اور حضور نماز فجر کے بعد رضائی اوڑ ھ کر بمعہ بچوں کے لیٹے ہوئے تھے۔ یہ بھی بچہ تھا۔ اس قدر ادب اور احترام کو نہیں سمجھتا تھا کہ حضور آرام کررہے ہیں۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض دفعہ، بلکہ اکثر نمازِ فجر کے بعد آرام کیا کرتے تھے) یہ بچہ اندر گیا اور فوراً حضور کے چہرہ ٔمبارک سے رضائی اٹھا لی اور وہ رُقعہ دیا اور ساتھ اجازت جانے کی بھی مانگی۔ لکھتے ہیں قربان ہوں میرے ماں باپ کہ ذرا بھی حضور کے چہرہ مبارک پر ملال نہ آیاکہ ارے بیوقوف! ہم کو بے آرام کردیا بلکہ پیار سے کہا کہ اچھا اجازت ہے۔ یہ تھے حضور کے اخلاق فاضلہ جس نے تمام مخلوقات کو اپنا گرویدہ بنالیا۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 3 صفحہ 72-73 روایت حضرت مولوی فتح علی صاحبؓ۔ غیرمطبوعہ)

حضرت بہاول شاہ صاحب ولد شیر محمد صاحب جو انبالہ کے تھے، لکھتے ہیں کہ اس عاجز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح ومہدی سے کیونکر ملایا اور مل کر ان سے کیا فیض حاصل ہوا، اس کے متعلق خاص حالات ہیں۔ میں اپنے وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک خدا کو حاضر ناظر جان کر جس کے آگے جھوٹ بولنا کفر وضلالت اور جہنم حاصل کرنا ہے، بیان کرتا ہوں کہ مجھے خدا کے فضل سے دین کے ساتھ بچپن سے ہی محبت تھی۔ تقریباً 30سال کی عمر میں ایک سنت نبوی پر عمل کرنے اور اس میں کچھ کج روی پیدا ہونے کے باعث ایک فوجداری مقدمہ تین سال تک رہا جس میں تنگی وتکلیف کی کوئی حدنہ تھی۔ میرے سے زیادہ گاؤں والوں کو تکلیف تھی کیونکہ اس کج روی کا وہی باعث تھے۔ بچپن ہی سے مجھے کسی سچے رہبر وراہنما کی دل میں خواہش تھی۔ کئی بزرگوں کی طرف نظر تھی دل کو اطمینان نہ تھا۔ آخر میاں جی امام الدین صاحب چک لوہٹوی کی معرفت جو میرے استاد اور مولوی عبدالحق صاحب کے جو اس وقت زندہ، لیکن مسیح موعود سے منحرف ہیں کے والد تھے (جو اس وقت زندہ ہیں لیکن مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں مانا، ان کے والد تھے) یعنی عبد الحق کے والد تھے۔ جو میرے احمدی ہونے کے بعد احمدی ہوکر فوت ہوئے۔ یعنی بیٹا احمدی نہیں ہوا۔ والد احمدی ہوئے لیکن ان کے بعد۔ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے۔ کہتے ہیں کہ مسیح موعودؑ کے دعاوی کی نسبت باتیں سننے میں آتیں اور فرمایا کرتے کہ زمانہ امام کو چاہتا ہے اور واقعی مرزا صاحب سچے امام ہیں۔ لوگ ان کو برا کہتے ہیں۔ میری طرف اور مولوی عبد الحق صاحب کی طرف مخاطب ہوکر فرماتے کہ دیکھنا تم ان کو کبھی برانہ کہنا۔ جب مولوی محمد حسین دہلی میں مولوی نذیر حسین صاحب کے پاس حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام پر کفر کا فتویٰ لگانے کے لئے گئے تھے۔ اس وقت میں اور مولوی عبد الحق، مولوی نذیر حسین کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لئے دہلی ہی میں تھے۔ مَیں تو چھ، سات ماہ کے بعد واپس اپنے استاد کی خدمت میں چک لوہٹ حاضر ہوگیا لیکن مولوی عبد الحق صاحب دہلی میں پڑھتے رہے۔ مولوی محمد حسین نے دہلی سے واپس آکر ہمارے اردگرد کے گاؤں میں حضرت صاحب کو لوگوں سے کافر کہلوانے کی خاطر دورہ شروع کیا۔ میاں جی امام الدین صاحب کے پاس بھی پہنچے لیکن انہوں نے ہرگز برا نہ کہااور یہ جواب دیا کہ آپ نے جو کفر کا محل تیار کیا ہے اس میں میرے لئے اینٹ لگانے کو کونسی جگہ خالی ہے۔ آپ عالم ہیں۔ آپ ہی کو مبارک ہو۔ آخر محمد حسین ناامیدہوکر چلا گیا۔ مجھے منشی عبد اللہ صاحب سنوری جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سچے خادم تھے اور ان کا ذکر خیر اکثر مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں نہایت خوبی سے کیا ہے، اُن سے محبت تھی۔ جب مقدمہ نے زیادہ طول پکڑا تو مولوی عبد اللہ صاحب سنوری اور مولوی عبد الحق صاحب نے حضور مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کروانے کے لئے بھیجا۔ جب مَیں بٹالہ سے چلا اور لوگوں سے مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت حالات دریافت کرنے شروع کئے تو جو بھی ملتا وہ یہی کہتا کہ وہاں مت جاؤ۔ وہ ایسے ہیں ویسے ہیں۔ مولوی برا کہتے ہیں تم بھی برے یعنی کافر ہو جاؤگے۔ مگر مَیں ان کو کہتا کہ اب تو مَیں آگیا ہوں جو بھی خدا کرے۔ اگر سچ ہوا پھر تو میں خدا کے فضل سے مولویوں سے ہرگز نہیں ڈرتا۔ آخر میں 11؍ستمبر1898ء کو دارالامان پہنچا۔ تھوڑا سادن باقی تھا۔ حضور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد مبارک کے اوپر تشریف فرما تھے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مفتی صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اور بھی چند اصحاب خدمت میں حاضر تھے۔ ایک مولوی عبدالقادر صاحب مرحوم لدھیانوی سیڑھیوں کے قریب مسجد مبارک کے اوپر کھڑے تھے۔ یہ مولوی عبد الحق صاحب کے صرف ونحو کے استاد تھے اور مجھ سے بھی واقف تھے۔ وہ بڑی خوشی اور تپاک سے مجھ سے ملے اور مجھے انہیں دیکھ کر بڑی خوشی حاصل ہوئی۔ انہوں نے فرمایا کہ تم بیعت کرنے کے لئے آئے ہو۔ مَیں نے کہا۔ دعا کروانے کے لئے آیا ہوں۔ پھر فرمایا کہ تم مولویوں سے ڈرتے ہو۔ مَیں نے کہا نہیں۔ مولویوں سے تو نہیں ڈرتا۔ حضور کی سچائی تو مجھے حضورکے چہرہ مبارک کو دیکھنے سے ہی ظاہر ہوگئی کہ یہ منہ جھوٹ بولنے والا نہیں ہے۔ اتنے میں سورج غروب ہونے کے قریب چلا گیا۔ ایک اور شخص کئی روز سے حضور کی خدمت میں بیعت کے لئے آیا ہوا تھا۔ اس نے عرض کیا کہ حضور میری بیعت لے لیں۔ میں نے گھر کو واپس جانا ہے۔ حضور نے جواب فرمایا کہ ٹھہرو، خوب تسلی کرنی چاہئے۔ پھر اور باتوں میں مشغول ہوگئے۔ مولوی عبد القادر صاحب نے میری نسبت حضور کی خدمت میں خود ہی عرض کیا کہ یہ شخص بیعت کرنا چاہتا ہے۔ حضور اسی وقت جو کسی قدر اونچے بیٹھے تھے، نیچے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آؤ جس نے بیعت کرنی ہے(وہ شخص تو پہلے ہی پاس بیٹھا تھا جو پہلے بیعت کرنا چاہتا تھا)۔ میں سیڑھیوں پر سے کھڑا حضور کی طرف چلا۔ دو تین ہاتھ کے فاصلہ پر رہا تو میرے دل پر ایسی کشش ہوئی جیسے کوئی رسّہ پاکر اپنی طرف کھینچتا ہے۔ میری چیخیں نکل گئیں اور بے اختیار ہوکر حضور کے پاس بیٹھا۔ اور خوشی سے حضور کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے اور ہم دونوں شخصوں نے بیعت کی اور بعد میں حضور سے مقدمہ کے بارے میں دعا کے لئے عرض کی۔ حضور نے دعا فرمائی اور میں اس کے بعد دس دن وہاں ٹھہرا۔ کہتے ہیں کہ حضور سے اور قادیان سے ایسی محبت ہوگئی کہ واپس گھر جانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ قادیان بالکل بہشت کا نمونہ دکھائی دیتا تھا۔ یہاں ہر وقت سوائے خدا کے ذکر کے دنیا کے ذکر وفکر کی آواز تک سنائی نہ دیتی تھی۔ ہر طرف سے سلاماً سلاماً کی آواز آتی تھی۔ میرے سارے غم واندوہ دور ہوگئے۔ اس وقت حضور علیہ السلام پر قتل کا جھوٹا مقدمہ جو پادریوں کی سازش سے ایک لڑکے کے ذریعہ تھا چل رہا تھا یا چل چکا تھا۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ مَیں اجازت لے کر پھر آ گیا لیکن کہتے ہیں کہ بیعت کرنے پر میری حالت بالکل تبدیل ہوگئی۔ خدا کے ساتھ ایسی محبت اور عشق پیدا ہوگیا کہ رات دن سوائے اُس کے ذکر کے سونے کو بھی دل نہ چاہتا تھا۔ اگر سوتا تھا تو دھڑ دھڑا کر (یعنی گھبراکر) اٹھتا تھا جیسے کوئی اپنے پیارے سے علیحدہ ہوگیا ہوتا ہے۔ میرے دل کی عجیب حالت تھی۔ گاہ گاہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی دل کو پکڑ کر دھوتا ہے۔ خشوع خضوع ہر روز بڑھتا جاتا تھا۔ یہ حضور کی توجہ کا اثر تھا۔ ایک دن خشوع کی حالت میں ایسا معلوم ہوا کہ میرا دل چیراگیا اور اس کو دعا کرکے دھودیا گیا اور ایک نئی روح اس میں داخل ہوگئی ہے۔ جسے روح القدس کہتے ہیں۔ میری حالت حاملہ عورت کی طرح ہوگئی۔ مجھے اپنے پیٹ میں بچہ سا معلوم ہوتا تھا۔ میرا وجود ایک لذت سے بھر گیا اور نورانی ہوگیا اور نور سینے میں دوڑتا معلوم ہوتا تھا۔ ذکر کے وقت زبان میں ایسی لذت پیدا ہوتی تھی جو کسی چیز میں وہ لذت نہیں۔ میرے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو بھی نمازوں میں بہت لذت آتی تھی۔ اور خوش ہوکر کہتے تھے کہ کیسی اچھی نماز پڑھائی ہے۔ یہ حالت اصل میں میری حالت نہ تھی بلکہ مسیح موعود کی حالت کا نقشہ تھا۔ مقدمہ تو خدا کے فضل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں سے میرے دارالامان ہوتے ہی جاتا رہا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچانے کا یہ سبب بنایا تھا جس کے ذریعہ اپنے ناچیز بندے کو آسمانوں کی سیر کرائی اور اپنے دیدار سے مشرف فرمایا۔ مَیں مسیح موعودؑ کی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کو لے کر اکیلا مسجد میں بیٹھتا اور خوب غور سے سب کا مطالعہ کرتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل کو قرآن شریف کی آیتوں کے مطابق پاتا۔ ایک دن میں ایک مخالف کی کتاب دیکھ رہا تھا اور دل میں حیران ہورہا تھا کہ یہ کیسے عالم ہیں جو ایسی کتابیں لکھ رہے ہیں۔ یہ خیال آتے ہی نیند آگئی اور سوگیا اور الہام ہوا۔ بَلْ عَجِبُوْا اَنْ جَاءَ ھُمْ قَوْمٌ مُنْذِرٌ یہ الہام میرے دل پر ایسا داخل ہوا جیسے کوئی چیز نالی کے راستے داخل ہوتی ہے۔ دل پر آتے ہی زبان پر جاری ہوگیا۔ اور اس الہام کے یہ معنی سمجھائے گئے کہ یہ عالم (یہ مولوی لوگ جو ہیں ) ایک ایسی قوم ہیں جب ان کے پاس ڈرانے والی قوم آئی۔ یعنی نبی، تو یہ تعجب ہی کرتے رہے ہیں۔ مَیں اپنے الہاموں اور خوابوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھتا رہتا تھا۔ جب کوئی کسی قسم کا اعتراض مسیح موعود علیہ السلام پر کرتا، اس کے جواب کے لئے جھٹ قرآنِ شریف کی آیت میرے سامنے آ جاتی اور میں قرآن شریف سے اس کا جواب دیتا۔ ایک دفعہ ایک مولوی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت قرآن شریف سے دکھاؤ۔ جہاں موت کا لفظ آیا ہو۔ مَیں نے کہا۔ دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ (النساء: 160)۔ یعنی اب کوئی بھی اہل کتاب قرآن شریف کے اس فیصلہ کو پڑھ کر کہ عیسیٰ علیہ السلام سولی اور قتل کی موت سے نہیں مرے بلکہ اپنی طبعی موت سے مرے ہیں۔ طبعی موت پر ایمان لانے سے پہلے ایسی بات پر ایمان لائیں گے کہ سولی اور قتل کی موت سے نہیں مرے۔ بِہٖ کی ضمیر وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ کی طرف ہے۔ مَوْتِہٖ سے عیسیٰؑ کی طبعی موت مراد ہے جس کی عیسیٰؑ قیامت کو گواہی دیں گے کہ مَیں سولی اور قتل کی موت سے نہیں مرابلکہ قرآن شریف کے فیصلہ کے مطابق طبعی موت سے مرا ہوں۔ وہ مولوی اس بات کو سن کر جھٹ بھاگ گیا۔ اور اس وجہ سے وہاں کے گاؤں کی اکثریت احمدی ہو گئی تھی لیکن بعد میں پھر مولویوں کے ورغلانے پر اور ڈرانے پر کچھ لوگ پِھر بھی گئے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 4 صفحہ 107 تا 112 روایت حضرت بہاول شاہ صاحبؓ۔ غیر مطبوعہ)

حضرت مدد خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو انسپکٹر بیت المال قادیان بھی تھے، کشمیر کے رہنے والے تھے۔ 1896ء میں بیعت، 1904ء میں زیارت۔ کہتے ہیں کہ اے میرے پیارے خدا! کہ میں تیرے پاک نبی کے حالات لکھنے لگا ہوں تو اس میں برکت ڈال۔ اس میں کوئی بناوٹی بات نہ لکھی جائے۔ اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ 1904ء میں جبکہ کرم دین کے ساتھ مقدمہ تھا گورداسپور میں چندولعل کی عدالت میں اپنی طرف سے وکیل خواجہ کمال الدین صاحب تھے۔ اور کرم دین کی طرف سے مول راج و نبی بخش وکیل تھے قادیان سے خاکسار، سید احمدنور صاحب اور حافظ حامد علی صاحب گڈے پر کتابیں لے کر گورداسپور پہنچے۔ تو دیکھا کہ ڈاکٹرمحمد اسماعیل صاحب کڑیانی والے بہت ہی بگڑے ہوئے ہیں۔ مَیں نے پوچھا کہ ڈاکٹرصاحب آپ کو اتنی گھبراہٹ کیوں ہے؟ فرمایابھائی صاحب ! مجھ کو اس واسطے گھبراہٹ ہے کہ مَیں نے سناہے کہ یہاں پر یہ مشورہ کیاگیاہے کہ حضور کو ضرور ہی حوالات میں دیاجائے چاہے پانچ منٹ کے واسطے ہی کیوں نہ ہو۔ مگر ضرور ہی آپ کو حوالات میں دیاجائے۔ چندولعل نے یہ پختہ ارادہ کرلیاہواہے۔ مجھ کو یہ خبر ایک بڑے افسرنے دی ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کوکہا کہ اب آپ کیا چاہتے ہیں۔ کیاکرناچاہئے۔ ڈاکٹرصاحب نے کہا کہ کوئی ثواب کا کام کرے حضور کو یہ پیغام پہنچا دے کہ آپ گورداسپور نہ آئیں۔ بیماری کا سرٹیفیکیٹ لے لیں۔ اگر سو روپیہ بھی خرچناپڑے تو خرچ کر دیں۔ مَیں خود اداکردوں گا۔ مَیں نے ڈاکٹرصاحب کو کہا کہ کیا حضور جھوٹا سرٹیفیکیٹ لیں؟ ڈاکٹرصاحب نے کہا بھائی صاحب ! اگر کسی نے ثواب لیناہے تو لے۔ میں نے کہا کہ کیا اسی وقت کوئی جائے؟ کہا ہاں۔ اس کے بعدمَیں نے کہا آپ مجھ کولالٹین لے دیں۔ مَیں ابھی رات رات ہی چلا جاتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے اسی وقت مجھے لالٹین دی۔ میں گورداسپور سے قادیان کو روانہ ہوا اور رستے میں مجھے دو آدمی بھی مل گئے۔ شیخ حامد علی صاحب اور منشی عبدالغنی صاحب۔ دوبجے ہم مسجد مبارک پہنچے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام باہرتشریف لائے جب ہم نے آواز دی۔ تو السلام علیکم بعد میں نے عرض کیا۔ ڈاکٹر اسماعیل صاحب کی بہت ہی بری حالت ہے انہوں نے یہ پیغام دے کر مجھے واپس بھیجا ہے۔ تو حضور نے فرمایا کہ چکروں کی بیماری تو مجھے پہلے ہی ہے اور سرٹیفیکیٹ لینے کا ارادہ تو میراپہلے ہی تھا مگر (اب جو پیغام دیا اور روکا ہے) اب تو میں گورداسپور ہی جاکر سرٹیفیکیٹ حاصل کروں گا۔ اب یہاں نہیں رکوں گا۔ خوف والی کوئی بات نہیں۔ آپ نے اندر سے میرے واسطے رضائی بھجوائی۔ مَیں سو گیا۔ تھکا ہوا تھا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گورداسپور روانہ ہو گئے۔ وہاں قادیان میں رُکے نہیں۔ خیر ایک لمبی کہانی ہے۔ کہتے ہیں مَیں سویا رہا۔ اس کے بعد مجھے لوگوں نے روکا بھی کہ اب تم نہ جاؤ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام روانہ ہو چکے ہیں بلکہ پہنچ بھی گئے ہوں گے۔ لیکن جب میری آنکھ کھلی اس کے بعد میں تیار ہو کے دوبارہ پیدل چل پڑا۔ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اب یہ پیدل نہ آئے بلکہ ٹانگے پر بھیجنا۔ بہر حال کہتے ہیں رستے میں میری بہت بری حالت ہو گئی۔ مجھے بخار بھی چڑھ گیااور لوگوں نے مجھے صحیح روکا تھا کہ نہ جاؤ۔ یہ تمہارا تیسرا چکر ہے۔ تھکے ہوئے ہو گے اور تمہیں سختی کی عادت بھی نہیں ہے۔ لیکن بہر حال کہتے ہیں مَیں وہاں پہنچ گیا۔ شام کے وقت اس مکان میں پہنچا جہاں حضور ٹھہرے ہوئے تھے تو دروازے کے اندر ابھی داخل ہی ہوا تھا کہ میرے کان میں آواز آئی کہ کیا مدد خان کو بھی یکے پر بٹھا کر لے آئے تھے یا نہیں۔ تو یہ آواز میرے کان میں آ گئی۔ جیسے کوئی سویا ہوا جاگ اٹھتا ہے اسی طرح میں بھی یہ آواز سن کر جاگ اٹھا۔ جب میں صحن میں پہنچا توکسی دوست نے آواز دی کہ حضور مدد خان آ گیا ہے۔ مَیں نے بھی جا کر حضور کو السلام علیکم عرض کیا۔ حضور نے جھٹ اپنا دستِ مبارک آگے کیا۔ میرے ہاتھ کو پکڑ کر فرمانے لگے۔ جزاک اللہ۔ یہ بہت ہی بڑے بہادر ہیں یہ ان کا تیسرا چکر ہے۔ (یعنی قادیان اور گورداسپور کے درمیان) حضورنے میراہاتھ اپنے ہاتھ مبارک میں یہاں تک پکڑاتھا۔ مجھے محسوس ہواکہ گویا کہ میں گورداسپور سے کبھی قادیان گیاہی نہیں۔ یا تومیری حالت نیند و تھکان سے سخت مضطرب ہو رہی تھی کہ کسی کے ساتھ بولنے کو بھی دل نہیں کرتاتھااور بدن میں بخار ہورہا تھا۔ مگر خدائی نشان خداکے مرسل نے اس خاکسار کا ہاتھ نہ چھوڑاجب تک کہ میں نے محسوس کیا کہ میری تھکان بالکل اترگئی ہے۔ چند منٹ پہلے میں مردہ تھا۔ حضور کا دستِ مبارک میرے ہاتھ کو لگتے ہی میری کوفت اتر گئی۔ تھکان دورہوئی۔ بدن ہلکا پھلکا ہوگیا۔ اور کوئی بھی تکلیف باقی نہ رہی۔ یہ کیا بات ہے ! یہ تو حضور ہی کی کوئی کرامت ہے۔ مجھ کو اس وقت یہ خیال ہوا کہ مان لیا بھوک اور پیاس کسی خوشی سے دور ہو سکتی ہے۔ مگر یہ کوفت، تھکان، نیند کا غلبہ حضور کے دستِ مبارک کے چھونے سے دور ہوگئے۔ یہ حضور کی ہی کرامت نہیں تو اور کیاہے۔ مجھ مردہ میں گویا روح آگئی۔ حضور نے میرا ہاتھ نہیں چھوڑ اجب تک کہ ہرقسم کی تکلیف خاکسار کی دور نہ ہوگئی۔ اس سے پیشتر میراجسم پتھر تھا۔ ہلنا دشوارتھا۔ میرے خیال میں مردہ کو زندہ کرنا اسی کو کہتے ہیں۔ مَیں نے محسو س کیا کہ گویا مَیں گورداسپور گیا ہی نہیں تھا۔ حضور نے حکم دیا کہ کھانا لاؤ۔ خاکسارکو بھی حضور نے ساتھ ہی بٹھالیا۔ مَیں نے حضورکے ساتھ کھانا کھایا۔ یہ حضور کی مہربانی اور خاص شفقت تھی۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ میرا نام کسی طرح حضور کے منہ پر چڑھ جائے اور حضور میرا نام لیں۔ اور یہ مختلف مواقع بیان کئے ہیں کہ اس طرح موقعے پیدا ہوتے رہے حضور میرا نام لیتے رہے اور ذاتی طور پر مجھے جانتے تھے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 4 صفحہ 82 تا 87 روایت حضرت مدد خان صاحبؓ۔ غیرمطبوعہ)

تو یہ ان بزرگوں کے واقعات ہیں جو مَیں پہلے بھی ایک دو دفعہ سنا چکا ہوں۔ وقتاً فوقتاً بیان کرتا ہوں کہ خاص طور پر اُن خاندانوں کو جن کے بزرگ ہیں، یہ یاد رہے کہ اُن بزرگوں کے کس قدر ہم پر احسان ہیں۔ ورنہ شاید آج بہت سوں میں اتنی جرأت نہ ہوتی کہ حق کو اس طرح قبول کر لیتے جس جرأت سے اُن بزرگوں نے قبول کیا۔ پس ان بزرگوں کی نسلوں کو بہت زیادہ اپنے بزرگوں کے لئے دعائیں بھی کرنی چاہئیں اور پھر ساتھ ہی اپنے ایمان کی ترقی اور استقامت کے لئے بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔ نیز ان بزرگوں کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو تعلق تھا اس کو سامنے رکھتے ہوئے، اُن کے نمونوں پر، ان کے نقش قدم پر چلنے کی ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے۔ وہ لوگ ایسے تھے جن میں سے بعض میں علم کی کمی بھی تھی لیکن علمی اور روحانی پیاس بجھانے کے لئے وہ لوگ ایک تڑپ رکھتے تھے جو انہوں نے بجھائی اور ایک سچے عاشق ثابت ہوئے۔ اور اسی طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ سے بھی تعلق پیدا کیا، جیسا کہ بعض واقعات میں ابھی سنا۔ پس یہ وہ محبت اور وفا کے نمونے ہیں جوآگے نسلوں کو بھی قائم رکھنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت اور وفا کے ان نمونوں کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 24 جولائی 2020ء