• 29 اپریل, 2024

مَیں کافر کیوں کہوں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اسی طرح حضرت خلیفہ نور الدین صاحبؓ سکنہ جموں (یہ جموں کے رہنے والے تھے، خلیفہ نور الدین کہلاتے تھے) یہ لکھتے ہیں کہ ’’مَیں مولوی عبدالواحد صاحب غزنوی کو ایک سال تک سمجھاتا رہا۔ انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا کہ مرزا صاحب پر علماء نے کفر کے فتوے لگائے ہوئے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ تمہارے باپ پر بھی تو مولویوں نے کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک مولوی صاحب (غالباً مولوی محمد لکھوکے والے) کے متعلق کہا کہ اُسے بھی الہام ہوتا ہے۔ اس سے لکھ کر پوچھتا ہوں کہ مرزا صاحب کے دعویٰ کے متعلق خدا کا کیا حکم ہے۔ ایک ماہ بعد اس مولوی کا یہ جواب آیا کہ مَیں نے دعا کی تھی، (جواب سنیں ذرا مولوی صاحب کا) مَیں نے دعا کی تھی، خدا کی طرف سے جواب ملا ہے کہ ’’مرزا صاحب کافر‘‘۔ مَیں بھدرواہ کام پر گیا ہوا تھا۔ جب جموں واپس آیا تو مجھے یہ خط دکھلایا گیا۔ مَیں نے کہا کہ الہام کرنے والا خدا نعوذ باللہ کوئی بڑا ڈرپوک خدا ہے جومرزا صاحب کو کافر بھی کہتا ہے اور ساتھ ’’صاحب‘‘ بھی بولتا ہے۔ (یہ نکتہ بھی انہوں نے اچھا نکالا کہ کہہ رہا ہے کہ ’مرزا صاحب کافر‘۔ ایک طرف تو اللہ کہہ رہا ہے کہ کافر ہے اور دوسرے ’صاحب‘ کا لفظ بھی استعمال کر رہا ہے جو بڑا عزت کا لفظ ہے۔) ایسے ڈرپوک خدا کا الہام قابل اعتبار نہیں۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 66 تا 67)۔ تو اس طرح بھی یہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے نکتے نکالا کرتے تھے۔

… اسی طرح حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی ایک واقعہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’وزیر آباد میں ثمن راجگان کو جو وزیر آباد کے شمالی حصے میں موجود ہے ایک بڑا مکان جس میں ریاست راجوری کشمیر کے راجے مسلمان رہتے ہیں، ایک شخص مسمی اللہ والے نے راجہ عطاء اللہ خان صاحب مرحوم سفیر کابل کوجا کر کہا کہ یونہی لوگ غلام رسول کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ راجہ صاحب نے فرمایا تو پھر کیا ہے (یہ احمدی ہو گئے تھے تو انہوں نے کہا یونہی پڑ گئے ہیں) حافظ صاحب کولاؤ۔ یہاں آ کر بیان کر دیں کہ ہم مسیح کا رفع جیسا قرآنِ مجید میں موجود ہے مانتے ہیں اور نزولِ مسیح جو حدیثوں میں آیا ہے وہ بھی بیان کر دیں۔ چنانچہ شہر میں منادی کی گئی اور مسلمانوں کے تمام فرقے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو گئے۔ میں جانتا تھا جو مَیں نے کہنا ہے (یہ غلام رسول صاحب وزیرآبادی احمدی ہو چکے تھے) کہتے ہیں میں جانتا تھا جو مَیں نے کہنا ہے اور یہ بھی جانتا تھا کہ میری بات کو کسی نے نہیں سمجھنا۔ (اشاروں میں بات کروں گا)، صرف ایک شخص ہے جس کا نام حکم سلطان علی تھا، وہ میرے خاندان کا آدمی ہی تھا اگر کوئی سمجھا تو وہ سمجھے گا۔ الغرض جب میں پہنچا تو راجہ صاحب نے فرمایا کہ مسمی اللہ والے نے کہا ہے کہ حافظ صاحب مسیح کا رفع اور نزول مانتے ہیں، کیا یہ سچ ہے؟ مَیں نے کہا بے شک۔ لوگ سب خاموش ہو جائیں تو میں بیان کر دیتا ہوں۔ چنانچہ جب سب خاموش ہو گئے۔ ہزارہا کے مجمع میں مَیں اکیلا ہی احمدی تھا۔ اُس وقت میں نے کہا سنو لوگو! جب قرآنِ مجید میں مسیح کا رفع آیا ہے اور جس طرح حدیث شریف میں نزول کا ذکر (آیا) ہے، مَیں اس کو برحق مانتا ہوں۔ جو اُس کو نہیں مانتا، میں اُس کو بے ایمان جانتا ہوں۔ اتنا لفظ کہنا تھا کہ مخلوق میں آفرین، مبارک بادی کے الفاظ بے ساختہ حاضرین کی زبان سے بآوازِ بلند شروع ہو گئے اور شور پڑ گیا۔ مَیں نے اُس وقت جلدی مجلس سے نکلنا غنیمت سمجھا اور نکل آیا۔ مگر میرے نکل آنے کے بعد اُس شخص حکیم سلطان علی نے میرے خیال کے مطابق جیسا کہ میں نے سوچا ہوا تھاراجہ صاحب کو کہہ دیا کہ تم لوگوں نے کچھ نہیں سمجھا، وہ تمہاری آنکھوں میں خاک جھونک کر چلا گیا۔ اُس کو پھر بلاؤ۔ چنانچہ ثمن کے دروازے سے نکلتے ہی کچھ آدمی میری تلاش کے لئے آئے کہ مجھے واپس لے جائیں مگر میں کسی اور راہ سے نکل کر گھر پہنچ گیا۔ رات خیر خیر سے گزری تو بعد از فجر راجہ صاحب کا ایک پیغامبر بابو فضل دین صاحب میرے پاس پہنچا اور کہا کہ راجہ صاحب اور دیگر اہلِ مجلس کہتے ہیں کہ رفع اور نزول کے فقروں سے ہمیں اطمینان نہیں ہوا۔ مَیں نے کہا کہ پھر کس طرح اطمینان ہو۔ اُس نے کہا کہ راجہ صاحب وغیرہ کہتے ہیں کہ جب تک آپ مرزا صاحب کو کافر نہ کہیں ہم نہیں مانتے۔ مَیں نے کہا مَیں کافر کیوں کہوں۔ اُس نے کہا کہ مولوی جو کہتے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ چونکہ مولوی مرزا صاحب کو کافر کہتے ہیں مَیں بھی اُن (مولویوں ) کو کافر کہتا ہوں (یعنی دل میں کہا کہ مولویوں کوکافر کہتا ہوں۔ اُن کو کافر کہتا ہوں نیت میری یہی تھی کہ مولویوں کو کافر کہتا ہوں )اب وہ مطمئن ہو کر چلا گیا۔ جب اس مجلس میں جا کر کہا کہ لو جی اب تو مرزا صاحب کو بھی اُس نے کافر کہہ دیا ہے۔ پھر وہی سلطان علی بولا کہ میاں ! تم دوبارہ آنکھوں میں خاک ڈلوا آئے ہو۔ اُس نے تو مولویوں کو کافر کہا ہے۔ یہ نہیں۔ پھر جاؤ، جا کے کہوکہ یہ لفظ لکھ دے کہ مَیں مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام) کو کافر کہتا ہوں (نعوذ باللہ)۔ پھر وہ آیا، مجھ سے یہ کہلوانا چاہا۔ آخر دو دن گزر گئے تھے۔ میرا دل بھی کچھ دلیر ہو گیا تو پھرمَیں نے صاف کہہ دیا کہ بھائی جو کچھ مَیں نے کہا تھا وہی ٹھیک ہے۔ یعنی مرزا صاحب کو جو کافر کہتے ہیں میں اُن کو کافر سمجھتا ہوں۔ پس پھر تو وہ مایوس ہو گئے۔ اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ (المائدہ: 4)۔ (قرآن شریف کی یہ آیت انہوں نے یہاں لکھی ہوئی ہے کہ آج کے دن وہ لوگ جو کافر ہوئے، تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم اُن سے نہ ڈرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو)۔ کہتے ہیں۔ بس پھر مقدمات شروع ہو گئے۔ (ان کے خلاف مقدمے شروع ہو گئے۔) یہاں تک کہ جن لوگوں پر کبھی بھی جھوٹ بولنے کی امیدنہ تھی، انہوں نے مجھے نقصان پہنچانے کے لئے کھلم کھلا عدالتوں میں جھوٹ بولے۔ مگر مَیں نے ان کی کوئی پرواہ نہ کی، نہ کرتا ہوں۔ الغرض مَیں نے یہ واقعہ جو مرزا صاحب کو کافر کہتے ہیں مَیں اُن کو کافر کہتا ہوں، حضرت صاحب (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے حضور بیان کیا تو حضور کھلکھلا کر ہنسے۔ حضور نے فرمایا کہ دیکھو کتمانِ ایمان کا بھی ایک درجہ ہوتا ہے، (یعنی ایمان کو چھپانے کے لئے یا فساد سے بچنے کے لئے اخفاء رکھنا ایک درجہ ہوتا ہے) جیسا کہ سورۃ المؤمن میں۔ وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ ٭ۖ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗ (المومن:29)۔ آیا ہے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ موقع شناسی کر کے شریروں سے اپنی جان بچا لی۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر12 صفحہ167، 170 تا 172)

(خطبہ جمعہ 2؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سُرینام میں عید الاضحی

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اگست 2021