• 28 اپریل, 2024

انسان سے کُتپن نہیں ہوتا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر ایک موقع پر جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ کسی کی پرواہ نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی۔ آپس میں اخوّت اور محبّت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو۔ ہر ایک قسم کے ہزل اور تمسخر سے کنارہ کش ہو جاؤ، کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دُور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزّت سے پیش آؤ۔ ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے‘‘۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کرلو‘‘۔ اللہ تعالیٰ سے کوئی لڑائی تو نہیں، اللہ تعالیٰ سے سچی صلح یہی ہے کہ اُس کے احکامات پر عمل کیا جائے اور اُس کی عبادت کا حق ادا کیا جائے، اُس کے بندوں کے حقوق ادا کئے جائیں۔ ’’اور اس کی اطاعت میں واپس آجاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے توبہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں۔ تم یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے‘‘۔ کوشش کرو گے ’’تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کسان عمدہ پودوں کی خاطر کھیت میں سے ناکارہ چیزوں کو ’’جڑی بوٹیوں کو‘‘ اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ اور کھیت کو خوش نما درختوں اور بار آور پودوں سے آراستہ کرتا اور ان کی حفاظت کرتا اور ہر ایک ضرر اور نقصان سے ان کو بچاتا ہے۔ مگر وہ درخت اور پودے جو پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں، ان کی مالک پروا نہیں کرتا کہ کوئی مویشی آکر ان کو کھا جاوے یا کوئی لکڑہارا ان کو کاٹ کر اپنے تنور میں پھینک دیوے۔ سو ایسا ہی تم بھی یاد رکھو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھہرو گے تو کسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی۔ پر اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری کا ایک سچا عہدنہ باندھو تو پھر اللہ تعالیٰ کو کسی کی بھی پروا نہیں۔ ہزاروں بھیڑیں اور بکریاں ہر روز ذبح ہوتیں ہیں۔ پر اُن پر کوئی رحم نہیں کرتا۔ اور اگر ایک آدمی مارا جاوے تو کتنی باز پُرس ہوتی ہے‘‘۔ ایک انسان مارا جاتا ہے تو بازپرس ہوتی ہے، قانون پوچھتا ہے، لیکن جانور ذبح ہوتے ہیں، کوئی رحم نہیں کرتا۔ ’’سو اگر تم اپنے آپ کو درندوں کی مانند بیکار اور لاپروا بناؤ گے تو تمہارا بھی ایسا ہی حال ہو گا۔ چاہئے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ تا کہ کسی وبا کو یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہو سکے، کیونکہ کوئی بات بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پرہو نہیں سکتی۔ ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنیٰ باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ۔ …یہ میری وصیت ہے اور اس بات کو وصیت کے طور پر یاد رکھو کہ ہر گز تندی اور سختی سے کام نہ لینا بلکہ نرمی اور آہستگی اور خُلق سے ہر ایک کو سمجھاؤ۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ174-175 ایڈیشن 2003ء)

پھر جماعت کو اخلاقی ترقی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ: ’’پس ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں کیونکہ اَلْاِسْتِقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ مشہور ہے۔ وہ یاد رکھیں کہ اگر کوئی اُن پر سختی کرے تو حتی الوسع اس کا جواب نرمی اور ملاطفت سے دیں۔ تشدد اور جبر کی ضرورت انتقامی طور پر بھی نہ پڑنے دیں‘‘۔ اور یہی ایک سبق ہے جو ہم دنیا کو دیتے ہیں کہ یہ معیار ہے دنیا میں امن قائم کرنے کا، اور دنیا پھراس کو پسند کرتی ہے۔ لیکن ہمارے عملی نمونے بھی ایسے ہونے چاہئیں۔ فرمایا: ’’انسان میں نفس بھی ہے اور اس کی تین قسم ہیں۔ اَمّارہ، لَوّامہ، مُطمَئِنّہ۔ اَمّارہ کی حالت میں انسان جذبات اور بے جا جوش کو سنبھال نہیں سکتا‘‘ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بتایا ’’اور اندازہ سے نکل جاتا اور اخلاقی حالت سے گر جاتا ہے۔ مگر حالت لوّامہ میں سنبھال لیتا ہے‘‘۔ دل بار بار اُس کوملامت کرتا ہے کہ میں نے برائی کی۔ فرماتے ہیں کہ: ’’مجھے ایک حکایت یاد آئی جو سعدی نے بوستان میں لکھی ہے کہ ایک بزرگ کو کتّے نے کاٹا۔ گھر آیا تو گھر والوں نے دیکھا کہ اسے کتّے نے کاٹ کھایا ہے۔ ایک بھولی بھالی چھوٹی لڑکی بھی تھی۔ وہ بولی ’’آپ نے کیوں نہ کاٹ کھایا؟ اُس کتّے کو۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’بیٹی! انسان سے کُتپن نہیں ہوتا۔‘‘ اسی طرح سے انسان کو چاہئے کہ جب کوئی شریر گالی دے تو مومن کو لازم ہے کہ اعراض کرے۔ نہیں تو وہی کُتپن کی مثال صادق آئے گی۔ خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں۔ بہت بری طرح ستایا گیا، مگر ان کو اَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ (الاعراف: 200) کا ہی خطاب ہوا۔ خوداُس انسان کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں، بد زبانی اور شوخیاں کی گئیں مگر اس خُلق مجسّم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا۔ اُن کے لئے دعا کی اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گا تو تیری عزّت اور جان کو ہم صحیح وسلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اُس پر حملہ نہ کر سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور کے مخالف آپؐ کی عزّت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے۔ غرض یہ صفت لوّامہ کی ہے جو انسان کشمکش میں بھی اصلاح کر لیتا ہے۔ روزمرّہ کی بات ہے اگر کوئی جاہل یا اوباش گالی دے یا کوئی شرارت کرے۔ جس قدر اس سے اعراض کرو گے، اسی قدراُس سے عزت بچا لو گے۔

(خطبہ جمعہ 4؍اکتوبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اگست 2022