• 7 مئی, 2024

فقہی کارنر

نکاح پر باجا بجانے وغیرہ

نکاح پر باجا بجانے اور آتش بازی چلانے کے متعلق (حضرت مسیح موعودؑ سے) سوال ہوا فرمایا کہ:
ہمارے دین کی بنا یُسر پر ہے عسر پر نہیں اور پھر اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِاانِّیَّاتِ ضروری چیز ہے باجوں کا وجود آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں نہ تھا۔ اعلان نکاح جس میں فسق و فجور نہ ہو۔ جائز ہے بعض صورتوں میں ضروری شے ہے کیونکہ اکثر دفعہ نکاحوں کے متعلق مقدمات تک نوبت پہنچی ہے پھر وراثت پر اثر پڑتا ہے۔ اس لئے اعلان کرنا ضروری ہے مگر اس میں کوئی ایسا امر نہ ہو جو فسق و فجور کا موجب ہو۔ رنڈی کا تماشا یا آتش بازی فسق و فجور اور اسراف ہے یہ جائز نہیں۔

باجے کے ساتھ اعلان پر پوچھا گیا کہ جب برات لڑکے والوں کے گھر سے چلتی ہے کیا اسی وقت سے باجا بجتا جاوے یا نکاح کے بعد؟

فرمایا:۔
ایسے سوالات اور جزو در جزو نکالنا بے فائدہ ہے۔ اپنی نیت کو دیکھو کہ کیا ہے اگر اپنی شان و شوکت دکھانا مقصود ہے تو فضول ہے اور اگر یہ غرض ہے کہ نکاح کا صرف اعلان ہو تو اگر گھر سے بھی باجا جاوے تو کچھ حرج نہیں ہے اسلام جنگوں میں بھی تو باجا بجتا ہے وہ بھی ایک اعلان ہی ہوتا ہے۔

(الحکم 24 اپریل 1903ء صفحہ10)

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اگست 2022