• 7 جولائی, 2025

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 57)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط57

نیو یارک عوام نے اپنی اشاعت 20 جنوری 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’خدا، اسلام اور رسول خدا کے نام پر خون‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ مضمون اس سے قبل تفصیل کے ساتھ پہلے لکھا جاچکا ہے۔ جس میں پاکستان میں ملائیت کی آکاس بیل اور بھٹو کے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے نیز ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے آرڈیننس کو آکاس بیل کے طور پر بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو پاکستان کو پنپنے نہیں دیں گی۔ اور احمدیوں کی 2 بڑی مساجد جو لاہور میں تھیں ان پر وحشیانہ حملے کے نتیجہ میں 80 سے زائد افراد کا موقعہ پر ہی مارا جانا، اس آرڈیننس اور بھٹو کا قومی اسمبلی میں سیاسی فیصلہ، کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا۔

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 14 جنوری 2011ء میں صفحہ A9 پر ہمارے جلسہ سالانہ کی خبر اس عنوان سے دی ہے۔ ’’احمدی مسلمانوں نے چینو میں اپنا جلسہ سالانہ کیا‘‘۔

اخبار نے لکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کا ماٹو ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ ہے۔ انہوں نے اپنا 25 واں جلسہ سالانہ ویسٹ کوسٹ کے ریجن کی جماعتوں کا چینو کی مسجد بیت الحمید میں کیا۔ امام شمشاد نے بتایا کہ گزشتہ 25 سالوں سے جب سے کہ یہ مسجد بنی ہے ہمارا سالانہ جلسہ یہاں بخیر و خوبی انجام پذیر ہوتے رہے اور جلسہ کی اغراض میں سے ایک یہ بھی ہے تا ہم اپنے ہمسایوں کو اس میں آنے کی دعوت دیں اور ان کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوں اور انہیں اسلام کی صحیح تعلیمات سے آگاہی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتی اہل کاروں کابھی ہم شکریہ ادا کریں۔ اس سال یہ گروپ اپنے جلسہ میں 1200 لوگوں کی شرکت متوقع کررہے ہیں اور جلسہ کا مرکزی موضوع مسلم فار پیس ہے۔ جلسہ کی اغراض و مقاصد بانیٔ جماعت احمدیہ نے 100 سال پہلے سے ہی بیان کر دیئے ہیں اور جماعت احمدیہ اس وقت دنیا کے 200 ممالک میں پھیل چکی ہے۔

انڈیا پوسٹ نے اپنی اشاعت 14 جنوری 2011ء میں صفحہ 43 پر ایک خبر اس عنوان سے دی ہے کہ ’’احمدی سلمان تاثیر کے قتل کی مذمت کرتے ہیں‘‘۔ خبر میں سلمان تاثیر کی فوٹو بھی شائع کی گئی ہے۔اخبار لکھتا ہے کہ پنجاب پاکستان کے گورنر جناب سلمان تاثیر صاحب کو اس جرم میں کہ انہوں نے توہین مذہب و رسالتؐ کے قانون کے خلاف آواز بلند کی۔ نیز احمدیوں کو اپنا مسلمان بھائی کہا قتل کر دیا گیا ہے۔

جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک پریس ریلیز کے ذریعہ اس قتل کی مذمت کی گئی ہے انہوں نے کہا کہ سلمان تاثیر کا قتل ایک ظالمانہ اور سفاکانہ فعل ہے۔ ہم ان کی فیملی سے دلی طور پر تعزیت کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ قاتل کو اس کے جرم کی واقعہ سزا دی جائے۔

پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ انسانی زندگی ایک مقدس امانت ہے اور اسلام میں توہین مذہب یا توہین رسالت کی کوئی سزا نہیں ہے۔ یہ اسلام کی صحیح تعلیم ہے جو ہمیں مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام) بانیٔ جماعت احمدیہ نے سکھائی ہے۔ یہ بیان ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ نائب امیر امریکہ نے دیا۔

میڈیا کی رپورٹ کہتی ہے کہ سلمان تاثیر کو اس جرم میں قتل کیا گیا ہے کہ انہوں نے توہین مذہب کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ ہمیں چاہیئے کہ دنیا کو بتائیں کہ وہ پاکستان کو کہے کہ اس قسم کے قوانین کی روک تھام کریں۔

مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد ناصر نے بتایا کہ سلمان تاثیر گورنر پنجاب حقیقت میں ایک بے باک اور نڈر اور بہادر شخص تھے جنہوں نے ملاؤں کے خلاف آواز بلند کی جو کہ پاکستان میں مذہبی دہشت گردی پھیلا رہے ہیں اور اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سلمان تاثیر نے اس کالے قانون کے ختم ہونے کے بارے میں اپنی آواز کو بلند کیا جس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی جانوں جو ایسے فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن دوسروں کی نظر میں مسلمان نہیں کو خطرہ ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں ایسے لوگ ہیں جو مذہبی اختلاف کی بنیاد پر دوسرے کو ان قوانین کی آڑ میں قتل کر رہے ہیں۔ جب قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ہی مذہبی آزادی اور برداشت کی تعلیم دیتے ہیں اور توہین مذہب کی کوئی سزا تجویز نہیں کرتے ملاں اور مذہبی جنونی لوگ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔

الاخبار نے اپنی اشاعت19 جنوری 2011ء میں صفحہ 9 پر حضرت مسیح موعودؑ علیہ السلام کی تصویر کے ساتھ اسلامی اصول کی فلاسفی سے چند اقتباسات پیش کئے ہیں۔

(1)اخبار لکھتا ہے کہ: ’’انسان کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی حالتیں:پہلا سوال انسان کی طبعی اور اخلاقی اور روحانی حالتوں کے بارے میں ہے۔ سو جاننا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ کے پاک کلام قرآن شریف نے ان تین حالتوں کی اس طرح پر تقسیم کی ہے کہ ان تینوں کے علیحدہ علیحدہ تین مبداء ٹھہرائے ہیں یا یوں کہو کہ تین سرچشمے قرار دئیے ہیں جن میں سے جدا جدا یہ حالتیں نکلتی ہیں۔

پہلی حالت نفس امّارہ: پہلا سرچشمہ جو تمام طبعی حالتوں کا مورَد اور مصدَر ہے اس کا نام قرآن شریف نے نفس امّارہ رکھا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوْٓءِ یعنی نفس امّارہ میں یہ خاصیت ہے کہ وہ انسان کو بدی کی طرف جو اسکے کمال کے مخالف اور اس کی اخلاقی حالتوں کے برعکس ہے جھکاتا ہے اور ناپسندیدہ اور بد راہوں پر چلانا چاہتا ہے……… یہ حالت اس وقت تک طبعی حالت کہلاتی ہے جب تک کہ انسان عقل اور معرفت کے زیر سایہ نہیں چلتا۔ بلکہ چارپایوں کی طرح کھانے پینے، سونے جاگنے یا غصہ اور جوش دکھلانے وغیرہ امور میں طبعی جذبات کا پیرو رہتا ہے۔ اور جب انسان عقل اور معرفت کے مشورہ سے طبعی حالتوں میں تصرف کرتا اور اعتدال مطلوب کی رعایت رکھتا ہے۔ اس وقت ان تینوں حالتوں کا نام طبعی حالتیں نہیں رہتا بلکہ اس وقت یہ حالتیں اخلاقی حالتیں کہلاتی ہیں۔

(2) دوسری حالت نفس لوّا مہ: اور اخلاقی حالتوں کے سرچشمہ کا نام قرآن شریف میں نفس لوّامہ ہے جیسا کہ وہ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ وَلَا اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃ (القیامہ: 3) یعنی میں اس نفس کی قسم کھاتا ہوں جو بدی کے کام اور ہر ایک بے اعتدالی پر اپنے تئیں ملامت کرتا ہے۔ یہ نفس لو ّامہ انسانی حالتوں کا دوسرا سرچشمہ ہے۔ جس سے اخلاقی حالتیں پیدا ہوتی ہیں اور اس مرتبہ پر انسان دوسرے حیوانات کی مشابہت سے نجات پاتا ہے۔ اور اس جگہ نفس لو ّامہ کی قسم کھانا اس کو عزت دینے کے لئے ہے گویا وہ نفس امّارہ سے نفس لو ّامہ بن کر بوجہ اس ترقی کے جناب الٰہی میں عزت پانے کے لائق ہوگیا۔ اور اس کا نام لو ّامہ اس لئے رکھا کہ وہ انسان کو بدی پر ملامت کرتا ہے اور اس بات پر راضی نہیں ہوتا کہ انسان اپنے طبعی لوازم میں شُتربے مہار کی طرح چلے اور چارپایوں کی زندگی بسر کرے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ اس سے اچھی حالتیں اور اچھے اخلاق صادر ہوں………اس لئے اس کا نام نفس لوّامہ ہے یعنی بہت ملامت کرنے والا۔ اور نفس لو ّامہ اگرچہ طبعی جذبات پسند نہیں کرتا بلکہ اپنے تئیں ملامت کرتا رہتا ہے لیکن نیکیوں کے بجالانے پر پورے طور سے قادر بھی نہیں ہو سکتا اور کبھی نہ کبھی طبعی جذبات اس پر غلبہ کر جاتے ہیں۔ تب گر جاتا ہے اور ٹھوکر کھاتا ہے۔ گویا وہ ایک کمزور بچہ کی طرح ہوتا ہے۔ جو گرنا نہیں چاہتا ہے۔ مگر کمزوری کی وجہ سے گرتا ہے۔ پھر اپنی کمزوری پر نادم ہوتا ہے۔

(3) تیسری حالت نفس مطمئنہ: پھر ایک تیسرا سرچشمہ ہے جس کو روحانی حالتوں کا مبداء کہنا چاہئے۔ اس سرچشمہ کا نام قرآن شریف نے نفس مطمئنہ رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ یٰٓأَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْ إِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر: 28تا 31) یعنی اے نفس آرام یافتہ جو خدا سے آرام پاگیا اپنے خدا کی طرف واپس چلا آ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ یہ وہ مرتبہ ہے جس میں نفس تمام کمزوریوں سے نجات پاکر روحانی قوتوں سے بھر جاتا ہے اور خدائے تعالیٰ سے ایسا پیوند کر لیتا ہے کہ بغیر اس کے جی بھی نہیں سکتا۔

(اسلامی اصول کی فلاسفی)

الانتشار العربی نے اپنی اشاعت 19 جنوری 2011ء میں صفحہ 25 پر خاکسار کا ایک مضمون انگریزی سیکشن میں بعنوان ’’امن تو صرف عدل و انصاف سے ہی قائم ہوسکتا ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ مضمون اس سے قبل دوسرے اخبارات کے حوالہ سے پہلے آچکا ہے۔ نئے سال کی مناسبت سے امن قائم کرنے کے لئے عدل و انصاف کا ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو کسی صورت میں بھی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اس ضمن میں قرآن مجید سے متعدد آیات بھی لکھی گئی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ہر ایک کے ساتھ حتّٰی کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل و انصاف کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ اور وہ مشہور حدیث کا حصہ بھی شامل مضمون ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’امام عادل‘‘ کہ وہ حکمران جو انصاف سے اور عدل سے کام لیتا ہے قیامت کے دن اس پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہوگا اور مضمون کے آخر میں کشتیٔ نوح سے ہماری تعلیم کا ایک حصہ درج کیا گیا ہے۔

الاخبار نے اپنی اشاعت 19جنوری 2011ء میں صفحہ 21 پر ہمارے ویسٹ کوسٹ کے 25 ویں جلسہ سالانہ کی خبر 5 تصاویر کے ساتھ شائع کی جس کا عنوان یہ ہے۔

1300 Ahmadi Muslims gather for peace at 25th annual West Coast Convention in Chino.

ایک بڑی تصویر سامعین کی اور ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب نائب امیر امریکہ صدارت کر رہے ہیں جبکہ ان کے ساتھ ہی مکرم مرزا احسان نصیر احمد صاحب نیشنل سیکرٹری مال تشریف رکھتے ہیں اور مولانا نسیم مہدی صاحب تقریر کر رہے ہیں۔ دوسری تصویر بھی سامعین کی ہے۔ تیسری تصویر میں خاکسار سید شمشاد احمد ناصر تقریر کر رہا ہے۔ ایک تصویر میں مکرم ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب تقریر کر رہے ہیں۔ ایک تصویر میں مولانا نسیم مہدی صاحب نائب امیر و مشنری انچارج تقریر کر رہے ہیں۔

خبر کا متن قریباً وہی ہے جو اس سے پہلے دیگر اخبارات کے حوالہ سے اوپر گذر چکا ہے۔

اردو ٹائمز نے اپنی اشاعت 20 جنوری 2011ء میں صفحہ 8 پر ایک خبر اس عنوان سے شائع کی ہے۔ یہ اخبار نیویارک کے علاوہ امریکہ کی دیگر ریاستوں سے شائع ہونے والا کثیر الاشاعت اخبار ہے۔

’’ناموس رسالتؐ قانون کے تحت اب تک ساڑھے نو سو950 مقدمات درج ہوئے‘‘

’’480 مقدمات مسلمانوں اور 350 احمدی فرقے کے ارکان کے خلاف درج کئے گئے‘‘

اسلام آباد: (خصوصی رپورٹ) پاکستان میں تحفظ ناموس رسالت قانون کے تحت اب تک 950 مقدمات درج ہو چکے ہیں 480 مقدمات مسلمانوں اور 350 احمدی فرقے کے ارکان کے خلاف درج کئے گئے ہیں۔ ان مقدمات کا ریکارڈ رکھنے والے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق اس قانون کے غلط استعمال نے نہ صرف غیر مسلم اقلیتوں بلکہ مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے پر اس قدرسنگین الزامات عائد کرنا جس میں بیشتر ابتدائی پولیس تحقیق ہی میں ثابت نہیں ہوسکے۔ ملک میں مختلف فرقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مخاصمت کا پتہ دیتی ہے۔ ناموس رسالت کے قانون پر تحقیق کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے کے مطابق اس قانون کے تحت اب تک ملک میں 950 سے زائد مقدمات درج کئے گئے ہیں…… اس عرصے میں جتنے مقدمات درج ہوئے وہ ان درخواستوں کا پانچواں حصہ تھے جو اس طرح کے مقدمات درج کروانے کے لئے پولیس کے پاس دائر کی گئیں۔ چار ہزار درخواستیں پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد بالکل ہی بے بنیاد ہونے کی بناء پر مسترد کر دیں۔ انسانی حقوق سے متعلق ایک غیر سرکاری ادارے کا ناموس رسالت قانون پر تحقیق کرنے والے ایک اہل کار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس قانون کے معرض وجود میں آنے کا ابتدائی چند برسوں میں یہ قانون صرف احمدی فرقے کے ان ارکان کے خلاف استعمال کیا گیا جنہیں تازہ تازہ دائرہ اسلام سے خارج کیا تھا۔

ویسٹ سائڈ سٹوری نیوز پیپر نے اپنی اشاعت 20 جنوری 2011ء میں صفحہ2، 3 پر ایک تصویر کے ساتھ ہماری خبر شائع کی ہے۔ جس کا عنوان ہے۔

Agricultural Leadership Traning Group Visits Chino Mosque

زراعت کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ کے لیڈرشپ نے چینو مسجد کا وزٹ کیا۔

تصویر میں زراعت کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے احباب، میزوں پر احمدی احباب کے ساتھ بیٹھے محو گفتگو ہیں اور آپس میں تبادلہ خیالات کر رہے ہیں جس میں نمایاں مکرم مونس چوہدری صاحب تبلیغ سیکرٹری اور دیگر احباب ہیں۔

اخبار نے لکھا ہے کہ 30 لوگ (لیڈر شپ) شعبہ زراعت تعلق رکھنے والے احباب نے چینو کی مسجد احمدیہ کا وزٹ کیا جہاں انہیں امام شمشاد کی سرکردگی میں جماعت احمدیہ کے دیگر ارکان نے استقبال کیا۔ یہ گروپ کے سوال و جواب کا سیشن بھی تھا۔ امام شمشاد نے اسلام کے پانچ ارکان اور دیگر بنیادی عقائد کا تعارف کرایا۔ اس کے بعد سوال و جواب ہوئے۔ سوالوں میں سب سے زیادہ سوال ’’عورت کا مقام‘‘ کے بارے احمدی اور غیر احمدی میں فرق اور دنیا میں کس طرح امن کا قیام ممکن ہے جیسے سوالات پوچھے گئے۔ امام شمشاد نے سوالوں کے جواب دینے کےساتھ جماعت احمدیہ کا تعارف بھی کرایا کہ اس کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہیں۔ جنہوں نے اس کے بارے میں تعلیم دی ہے۔ اور بتایا کہ مسیح و مہدی کے آنے سے جنگوں کا خاتمہ ہوگا۔ ہمارا ماٹو تو یہ ہے محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 27 جنوری میں صفحہ 12 پر خاکسار کی تصویر کے ساتھ ایک مضمون بعنوان ’’امن اور رحمت کا مذہب‘‘ شائع کیا ہے۔ خاکسار نے اپنے اس مضمون کی ابتداء یوں کی ہے کہ آج کل وطن عزیز پاکستان میں اخبارات اور T.V پر جو خبریں آرہی ہیں ان سب کا موضوع سخن سلمان تاثیر صاحب مرحوم سابق گورنر پنجاب کے بہیمانہ قتل اور ناموس رسالت کی توہین کے بارے میں علماء کرام و سیاسی لیڈروں کے بیانات پر مبنی ہیں۔ علماء میں سے ہر ایک جب بھی اپنا مؤقف بیان کرتا ہے تو بغیر سانس لئے یہی کہتا ہے کہ اسلام اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی تصور پیش کیا کہ اسلام امن، پیار اور محبت کا مذہب معلوم نہیں ہوتا۔ حیرانگی کی یہ بات ہے کہ ایک طرف تو اپنے لئے بیانات کے آخر میں وہ یہ کہتے ہیں رسول خدا رحمۃ للعالمین تھےلیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات گرد ن زنی، قتل و غارت کے بیان کر رہے ہیں۔ اصل بات یہی ہے کہ یہی وہ زمانہ ہے جس کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت پر وہ زمانہ آنے والا ہے جب اسلام نام کا رہ جائے گا۔ قرآن صرف کتابی شکل میں رہ جائے گا اور علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے۔ اس حدیث کے صحیح ہونے پر کسی کو بھی شک نہیں ہے آج کل یہی کچھ توہو رہا ہے۔ سلمان تاثیر کے قاتل کو غازی کہا جارہا ہے اس پر پھول کی پتیاں نچھاور کی جارہی ہیں کہ اس نے ناموس رسالت کی خاطر انہیں مارا ہے۔ سلمان تاثیر نے اس خیال سے کہ اقلیتوں کے بارے میں جو قانون ہے اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اسے ’’کالا قانون‘‘ قرار دیا ہے۔ حالانکہ اگر سچ کی نظر سے دیکھا جائے تو اس قانون کے ذریعہ ایک بھی اقلیتی فرقہ کے مذہب کو اور لوگوں کو آج تک تحفظ حاصل نہیں ہوسکا۔ بلکہ الٹا نقصان ہوا ہے۔ ایک فرقے کا شخص مخالفت میں دوسرے فرقہ کے آدمی پر الزام لگا کر FIR کٹوادیتا ہے۔ اور پولیس اسے بے جا پکڑ کر حوالات میں ڈال دیتی ہے۔ اور اسے جھوٹے مقدمات میں گھسیٹا جاتا ہے۔ پولیس بھی ظالموں ہی کی مدد کرتی ہے اور جنونی لوگ عدالتوں میں ہلڑ بازی کرتے ہیں اور جج پر اپنے حق میں فیصلہ کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں۔ تو کس طرح یہ قانون اقلیتوں کے تحفظ کے لئے بنایا گیا ہے۔

ایک اخبار نے لکھا ہےکہ ’’سلمان تاثیر کے قاتل کی جو پذیرائی دیکھنے میں آئی اس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان پر جاہلوں کی حاکمیت قائم ہوچکی ہے اور انتہاء پسند طبقہ پاکستان پر قابض ہوچکا ہے۔ اور بدقسمتی یہ ہے کہ یہ لوگ مذہب کے نام پر وہ کچھ کر رہے ہیں جو کہ نہ صرف انسانیت کے خلاف ہے بلکہ خود مذہب کی تعلیم کے بھی خلاف ہے۔ یہ لوگ توہین خدا کرتے ہیں دل بھر کر کرتے ہیں مزاروں پر دیکھ لیں کیا کچھ ہو رہا ہے لیکن اس پر کسی کو غصہ نہیں آتا۔توہین خدا پر کسی کو غیرت نہیں آتی بس توہین رسالت پر گردن زنی ہورہی ہے حالانکہ یہ ان کی اپنی سمجھ کا قصور ہے۔ اس کے بعد خاکسار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآنی احکامات لکھے ہیں۔ کہ ’’(اے نبی! ہمیشہ) درگذر سے کام لے اور مطابقِ فطرت باتوں کا حکم دیتا رہ اور جاہل لوگوں سےمنہ پھیر لے‘‘۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عفو اور درگذر کی ایسی مثالیں قائم فرمائی ہیں جن کو پیش کرنے سے دوسرے مذاہب بالکل قاصر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رئیس المنافقین کی غائبانہ نمازہ جنازہ پڑھی۔ ستر مرتبہ سے زیادہ دعائیں مانگیں طائف کے موقع پر عکرمہ بن ابی جہل کو اور دیگر لوگوں کو معاف فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسے شخص کو جس نے آپؐ کی نعوذ باللہ توہین کی ہو گردن زنی نہیں کی۔ بلکہ محبت کے تیر سے گھا ئل کیا اور لوہے کی تلوار سے نہیں مارا۔ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم۔

مضمون کے آخر میں خاکسار نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا پیغام صلح سے ایک اقتباس دیا ہے جس میں آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ہے:
’’مگر جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجنابؐ پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بد زبانی سے باز نہیں آتے ہیں، اُن سے ہم کیونکر صلح کریں۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبیؐ پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے، ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔‘‘

ڈیلی بلیٹن نے اپنی اشاعت 21 جنوری 2011ء میں صفحہ 4 پر ہمارے جلسہ سالانہ کی خبر شائع کی ہے۔ جس میں خاکسار کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے کہ ’’گذشتہ 25 سال سے جب کہ یہ مسجد تعمیر(مسجد بیت الحمید) ہوئی ہے ہم اپنا جلسہ یہاں کرتے چلے آرہے ہیں جس کی وجہ صرف بانیٔ جماعت احمدیہ کی تعلیمات کا فروغ اور اسلام کی صحیح تعلیمات پر آگاہی کے علاوہ ہمسایوں اور حکومتی سطح پر تعلقات استوار کرنا ہے۔‘‘

باقی خبر کی تفصیل وہی ہے جو پہلے گذر چکی ہے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 27 جنوری 2011ء میں صفحہ 14 پر پورے صفحہ پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطبہ جمعہ فرمودہ 19نومبر 2010ء کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس خطبہ کی ہیڈ لائن اخبار نے یہ دی ہے۔

’’دکھوں اور تکلیفوں کے مقابلے میں صبر و استقامت دکھانے اور مضبوطی ایمان کے اعلیٰ نمونوں کی ایک جھلک‘‘۔ صبر کے ساتھ قربانیاں دینے اور اپنے ایمانوں کو سلامت رکھنے والے دائمی جنتوں کا اجر پانے والے ہیں‘‘۔

فرمایا: ’’جو بیٹیوں کے ذریعہ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے صبر کیا تو وہ بیٹیاں اس کے اور آگ کے درمیان روک بن جائیں گی‘‘۔ اس خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ العنکبوت کی آیات 59 اور 60 تلاوت فرمائی تھیں۔

فرمایا: ’’مذکورہ آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی سے اپنےاندر ایک عظیم انقلاب لانے والے لوگوں کا ذکر ہے۔ ……جنہوں نے انتہائی صبر سے قربانیاں دیں۔ پس ایمان میں مضبوطی اور اعمال صالحہ بجا لانے کی طرف توجہ ان صحابہؓ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور قوت قدسی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ حضور انور نے عائلی زندگی میں بھی میاں بیوی کو صبر کے نمونے دکھانے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بیان فرمایا۔

فرمایا: مومنوں پر جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ گھبراتے نہیں بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 27 جنوری 2011ء میں صفحہ 13 پر 6 تصاویر کے ساتھ ہمارے جلسہ سالانہ کی خبر شائع کی ہے۔ تصاویر میں مکرم مولانا نسیم مہدی صاحب، مکرم میاں ظہیر الدین احمد صاحب سیکرٹری تعلیم القرآن اور خاکسار سید شمشاداحمد ناصر کو تقاریر کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ باقی تین تصاویر سامعین کی ہیں۔

خبر کا متن وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبارات کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے۔ جماعت احمدیہ کا ماٹو ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ کو نمایاں ہیڈ لائن میں دیا ہے۔ کہ جماعت احمدیہ امریکہ کا ویسٹ کوسٹ کا 25 واں جلسہ سالانہ۔ آخر میں خاکسار کا فون نمبر اور مسجد کا ایڈریس بھی دیا ہے۔

دنیا انٹرنیشنل نے اپنی اشاعت 27 جنوری 2011ء کو خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’کیا اسلام واقعۃ پیار، محبت اور امن و رحمت کا مذہب ہے یا قتل و غارت اور گردن زنی کا؟‘‘ خاکسار کا یہ وہی مضمون ہے جو اس سے پہلے دوسرے اخبارات کے حوالہ سے گزرچکا ہے۔ یہ مضمون سلمان تاثیر کے حوالہ سے اور پاکستانی علماء جو TV یا اخبارات میں اپنے بیانات دے رہے تھے، کے بارے میں ہے۔ ان بیانات سے قطعاً نہیں لگتا کہ اسلام واقعی امن اور پیار کا مذہب ہے بلکہ جتنی مثالیں بھی دیں ان سے یہی پتہ لگتا ہےکہ اسلام قتل و غارت کا مذہب ہے۔

خاکسار نے اس مضمون میں ان سب باتوں کی تردید کی ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو امن کا شہزادہ نیز آپ کی حیات طیّبہ سے عفو و درگذر کے واقعات بیان کر کے آپ کی شان کو اجاگر کیا ہے۔ اللّٰھم صلِّ علٰی محمد و بارک وسلم انک حمید مجید۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاءاللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ اختتامی خطاب برموقع جلسۂ سالانہ جرمنی مؤرخہ 21؍اگست 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ