• 2 مئی, 2025

دنیا میں امن و سلامتی کے لیے خلافت احمدیہ کی بین الاقوامی کوششیں

دنیا میں امن و سلامتی کے لیے
خلافت احمدیہ کی بین الاقوامی کوششیں
تقریر جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ء

آج دنیا میں ایک بے یقینی اور خوف کی فضا ہےاور جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ عالم انسانیت کو اس وقت دیگر دنیاوی ضروریات کے ساتھ ساتھ امن و آشتی اور سکون کی جس قدر ضرورت ہے وہ شاید اس سے قبل کبھی نہیں رہی۔ دو عالمی جنگیں اور کروڑوں لوگوں کا خون بھی عالمی طاقتوں کو امن کی اہمیت باور نہیں کرا سکا اور تیسری عالمی جنگ کے خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال میں امن عامہ کی کوششوں کی بجائے، دنیا میں اسلحہ و جنگ کی ترویج پر کام ہورہا ہے۔صرف گزشتہ دہائی کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو ہزاروں لاکھوں بے گناہ، بے قصور تہ تیغ ہوئے،بے شمار زخمی ہوکر ہمیشہ کے لیے معذور ہوگئے۔لاکھوں بے گھر ہوئے جن کے دکھوں کا درماں آج تک نہیں ہوسکا۔المیہ یہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں میں اس کا کوئی احساس نہیں۔ اس تناظر میں دنیا میں انسانیت کا ہمدرد اور اسکی بے لوث خدمت اور دعائیں کرنیوالا ایک مقدس ادارہ خلافتِ احمدیہ ہے۔ آج دنیا میں امن عامہ کی جس قدر کوششیں خلافت احمدیہ نے کی ہیں اس کی کوئی نظیر موجود نہیں ہے۔ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہی ہے جو دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے مدت سے مسلسل خبردار کررہا ہے اور یہ تنبیہ کررہا ہے کہ اگر آج طاقتور ملکوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو آنے والی نسلوں کو اس کا تاوان ادا کرنا ہو گاجو آج دنیا کو جنگی جنون کی صورت لاحق ہے۔امن، صلح جوئی اور آشتی کی کوششیں کرنے والا ایک ہی عالمی رہنما ہے اور ہماری خوش قسمتی کہ ہم اس کے ماننے والے ہیں۔ مگر وہ جو اُسے نہیں مانتے، وہ اُن کیلئے بھی ایسے ہی درد رکھتا اور دعائیں کرتا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امن اور اس کا قیام جماعت احمدیہ کے جملہ مقاصد میں سے ایک اہم مقصد ہے۔آنحضرتﷺ نے آخری زمانہ میں آنے والے امام کی ایک ذمہ داری یہ بھی بیان فرمائی تھی کہ وہ جنگ وجدل کا خاتمہ کردے گا۔ اور مذہب کی آڑ میں ہونے والی قتل و غارت کی بنیاد مٹا دے گا۔حضرت اقدس بانی جماعت احمدیہ نے فرمایا تھا:

فرما چکا ہے سیدِ کونین مصطفٰےؐ
عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا اِلتوا
جب آئے گا تو صلح کو وہ ساتھ لائے گا
جنگوں کے سلسلہ کو وہ یکسر مٹائے گا
یہ حکم سُن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت اُٹھائے گا

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 78)

اگر ہم مسلم دنیا میں برپا فساد اور جنگوں کو دیکھیں تو اس کے پیچھے بنیادی وجہ اس زمانے میں تلوار کا جہاد جاری رکھنے کی تحریک ہے۔ اگر امتِ مسلمہ زمانے کے اما م کی بات مان لیتی تو آج پوری مسلم دنیا امن کے حوالہ سے باقی دنیا کے لیے مثال ٹھہرتی۔اس زمانے کے حصنِ حصین کو مانے بغیر امن کا قیام اور اس کا حصول محض دیوانے کا خواب ہے۔

بانیٔ جماعت احمدیہ اور قیام امن

حضرت بانی جماعت احمدیہ مسیح موعودؑ نے امن عالم کے وہ شان دار اصول دنیا کے سامنے رکھے کہ جن پہ حقیقی امن اور سچی خوشحالی کی بِنا ہے۔ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اس حوالہ سے دنیا کے سامنے ایک زرّیں اصول بیان فرمایا:
’’پس یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔ خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھادی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کردی۔ اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے۔‘‘

(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 259)

اس شان دار اصول پر اگر آج بھی دنیا قائم ہوجائے تو دنیا کے ایک بڑے حصہ میں امن اور صلح کی فصلیں پھولیں گی اور دنیاسے فساد اور شر کا خاتمہ ہوگا۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو امن عالم سے متعلق اتنی فکر تھی کہ آپؑ نے اپنی وفات سے صرف دو دن پہلے لکھی اپنی کتاب میں ہندوستان کی دو بڑی قوموں، مسلمان اور ہندوؤں کو امن و صلح کا یہ پیغام دیاکہ باوجود مذہبی اختلاف کے ہم سب انسان ہیں۔ آپؑ نے فرمایا:
’’اس لئے ہمارا فرض ہے کہ صفائے سینہ اور نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کے رفیق بن جائیں اور دین و دنیا کی مشکلات میں ایک دوسرے کی ہمدردی کریں اور ایسی ہمدردی کریں کہ گویا ایک دوسرے کے اعضاء بن جائیں۔‘‘

(پیغامِ صلح، روحانی خزائن، جلد 23صفحہ439)

حضرت مسیح موعودؑ نے امن عامہ کے لیے جو کوششیں کیں۔ آپؑ کی وفات 1908ء کے بعد سے، آپؑ کے خلفا نے بھی یہ سلسلہ گزشتہ صدی میں جاری رکھا اور یہ سلسلہ خلافت خامسہ میں بھی جاری وساری ہے۔سورة النور میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے خلافت کے وعدہ کے ساتھ یہ خوشخبری بھی دی:

وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا

(النور: 56)

کہ اللہ تعالی اُن کے خوف امن میں بدل دے گا۔

خلافت احمدیہ پر ایک اجمالی نظر ڈالنے سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہوجا تا ہے کہ کس طرح خلفائے مسیح موعودؑ مخلوق خدا کی دادرسی کرتے ہیں اور حقوق کی بابت کہیں وہ کسی بادشاہ یا حاکم وقت کی راہ نمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں توکہیں ملکوں کے قانون ساز اداروں پارلیمان میں خطاب کے ذریعہ اقوام عالم کو ظلم سے روکنے اور ہدایت کی طرف گامزن کرنے کےلیے کوشاں ہیں۔ کبھی اپنے خطبات میں مسلمانوں کو اصلاح اور آئندہ کے لائحہ عمل کی بابت آگاہی فراہم کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں اپنے خطوط کے ذریعہ اسی امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کےلیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔خلفائے احمدیت کا مطمح نظر بس یہی رہا ہے کہ خدا کی مخلوق کو سکون نصیب ہو اور ان کے دکھوں کا مداوا ہو۔ان پہ مسلط کردہ جنگوں کا اختتام ہو اور انہیں سکون کی گھڑیاں نصیب ہوں۔ان کے آفات و مصائب امن و سکون سے بدل جائیں،ان کی زندگیاں مشکلات کی پگڈنڈیوں سے نکل کر خوشحالی کی شاہراہ پہ گامزن ہوں اور زمانہ گواہ ہے اور ہم سب گواہ ہیں دنیا میں امن کا شہزادہ اگر کوئی ہے تو وہ جماعت احمدیہ کا رہنما،عالم اسلام کا درد رکھنے والا خدا کا یہ خلیفہ ہی ہے۔ اللّٰھم ایدہ بروح القدس!

خلافتِ اولی میں

حضرت مسیح موعودؑ کی رحلت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ مسند خلافت پہ جلوہ افروز ہوئے اور حضرت اقدسؑ کے مشن کو جاری رکھا۔آپؓ نے دنیا کی ترقی اورخوشحالی کا سربستہ راز بیان کرتے ہوئےفرمایا:
’’تم امن پسند جماعت بنو دنیا کا کام امن پر موقوف ہے۔اور اگر امن دنیا میں قائم نہ ر ہے تو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ جس قدر امن ہوگا۔ اسی قدر اسلام ترقی کرے گا۔ اس لئے ہمارے نبی کریم ﷺ امن کے ہمیشہ حامی رہے۔آپ نے طوائف الملوکی میں جو مکہ معظمہ میں تھی اور عیسائی سلطنت کے تحت جو حبشہ میں تھی۔ ہم کو تعلیم دی کہ غیر مسلم سلطنت کے ماتحت کس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اس زندگی کے فرائض سے ’’امن‘‘ ہے۔ اگر امن نہ ہوتو کسی طرح کا کوئی کام دین و دنیا کا ہم عمدگی سے نہیں کر سکتے۔ اس واسطے میں تاکید کرتا ہوں کہ امن بڑھانے کی کوشش کرو اور امن کیلئے طاقت کی ضرورت ہے۔ وہ گورنمنٹ کے پاس ہے۔ میں خوشامد سے نہیں بلکہ حق پہنچانے کی نیت سے کہتا ہوں کہ تم امن پسند جماعت بنو تا تمہاری ترقی ہو اور تم چین سے زندگی بسر کرو۔اس کا بدلہ مخلوق سے مت مانگو۔ اللہ سے اس کا بدلہ مانگو۔ اور یاد رکھو کہ بلا امن کوئی مذہب نہیں پھیلتا اور نہ پُھول سکتا ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 553-554)

خلافتِ ثانیہ میں

1914ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جماعت احمدیہ کے خلیفہ منتخب ہوئے تو ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ آپ ؓ حضرت اقدسؑ کی دعاؤں کا حاصل اور پیشگوئی مصلح موعودؓ کے مصداق تھے۔ آپؓ کے دورِ خلافت میں آپؓ کی شبانہ روز کوششوں اور کاوشوں کے نتیجے میں خدا نے بہت سی روحوں کو امن وسکون سے سرفراز فرمایا۔ کیا ہندوستان اور کیا ہندوستان سے باہر کے علاقے، آپ کی شفقت اکناف ِعالم پہ محیط تھی۔جنگ زدہ علاقوں میں خدمت خلق سے لے کر ظالموں کی قید میں مظلوم جانوں کی گردنیں آزاد کروانے تک،مذاہب عالم کے مابین ہم آہنگی اور باہمی احترام سے لے کر سیاسی کشیدگی میں فریقین کو سمجھانے تک،ہر محاذ پہ حضرت مصلح موعودؓ نے گرانقدر خدمات انجام دیں اور امن عالم میں وہ کردار ادا کیا جس کی نظیر ملنا محال ہے۔

دنیا میں بپا بے چینی اور فساد کی ایک بہت بڑی وجہ مذہبی عد م برداشت ہے اور تیسری دنیا کے ملکوں میں جاری کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔اگر ایک دوسرے کے بزرگان کا تذکرہ احترام سے کیا جائے تو امن کی ایسی فضا قائم ہو جس سے معاشرہ سکون میں آجائے۔اسی بنیاد کو حضرت مصلح موعودؓ نے ہندوستانی معاشرہ میں قائم کیا اور جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ کاآغاز کیا۔ جس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ احمدیہ پلیٹ فارم سے تمام فرقوں اورتمام مذاہب کےلوگ آنحضرتﷺ کی خوبیاں اور عظمتیں بیان کریں آپ کےپاکیزہ اخلاق کا تذکرہ کریں جس کےنتیجہ میں معاشرہ میں نیکی اور رواداری کا ماحول پیدا ہو۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے 1928ء میں اس سلسلہ میں بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے جلسے ایک تسلسل کے ساتھ ہندوستان میں شروع کروائے۔

انہی جلسوں کی ایک برکت، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق، جلسہ پیشوایانِ مذاہب کی شکل میں ظاہر ہوئی اور جماعت نے یہ اہتمام کیا کہ ایک ہی سٹیج پر تمام مذاہب کے لیڈر اور مقررین اپنے اپنے پیشواؤں کے کارنامے اور خو بیاں بیان کریں۔ چنانچہ جماعت کے سالانہ پروگراموں کا ایک حصہ یوم پیشوایانِ مذاہب پر مشتمل ہے اور یہ سلسلہ ایک منظم انداز سے ساری دنیا میں جاری وساری ہے۔ یہ امتیاز آج احمدیت کے علاوہ کسی جماعت کو حاصل نہیں۔ ان کے علاوہ بھی دنیا بھر میں جماعت کی مساجد اور مشن ہاؤسز میں ایسی خیر سگالی تقاریب منعقد ہوتی رہتی ہیں جن میں مختلف مذاہب کے لوگ خوشدلی سے شرکت کرتے ہیں جس سے نہ صرف باہمی اعتماد اور احترام کی فضا قائم ہوتی ہے بلکہ دنیا کو امن اور سکون نصیب ہوتا ہے اور اس کے پس پردہ کارفرما سوچ خلافت احمدیہ کی رہنمائی اور مخلوق خدا سے ہمدردی پہ مشتمل ہے۔

دنیا میں امن اور صلح جوئی کی کوششیں جماعت احمدیہ کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ اور قومیں کرنے کی کوشش کرتی ہیں،لیکن ان کاوشوں کے پیچھے ذاتی یا گروہی مفاد کی کوئی نہ کوئی ایسی صورت پوشیدہ ہوتی ہے جس کے نتیجے میں بسا اوقات ان کی ساری کاوشیں یا تو رائیگاں جاتی ہیں یا پھر ان کے الٹ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔اقوام متحدہ اس کی بہت بڑی مثال ہے۔دنیا میں قوموں کے تنازعات حل کرنے کے لئے لیگ آف نیشنز اور پھر اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی گئی مگران کی تعمیر میں خرابی کی ایسی صورتیں رکھ دی گئیں جو مستقلاً ظلم اور بے انصافی کا عنوان ہیں اور اسی وجہ سے یہ دونوں ادارے اپنے بنیادی مقاصد میں ناکام رہے۔ اس کے متعلق جماعت احمدیہ کے امام نے پہلے سے متنبہ کر دیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فرماتے ہیں:
’’جب لیگ آف نیشنز قائم ہوئی، اُن دنوں مَیں انگلستان گیا ہوا تھا۔ میں نے اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ کیونکہ قرآن کریم نے یہ شرط رکھی ہے کہ جب دوقوموں میں اختلاف ہو جائےاور اُن میں سے کوئی تمہارا فیصلہ نہ مانے تو باقی سب حکومتیں اُس پرمل کر لشکر کشی کر دیں۔ لیکن لیگ آف نیشنز میں اس قسم کی لشکر کشی کی کوئی صورت نہیں رکھی گئی اور اب جو یونائیٹڈ نیشنز کی انجمن بنی ہے اس کے متعلق بھی میں وہی کچھ کہتا ہوں کہ یہ بھی کبھی کامیاب نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اپنے قواعد نہ بدلے۔ کیونکہ اِس میں بھی وہ شرائط پورے طور پر نہیں پائی جاتیں جواسلام نے تجویز کی ہیں۔ اس میں لشکرکشی کے لئے اختیارات تو رکھے ہیں مگر پھر بھی کوئی معین فیصلہ نہیں کیا گیا اور پھر اس میں بعض حکومتوں کو شامل کیا گیا ہے اور بعض کو شامل نہیں کیا گیا…اس طرح بعض کو کم اختیارات دیئے گئے ہیں اور بعض کو زیادہ۔ گو یا اب بھی ایسے امتیازات رکھے گئے ہیں جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ اس لئے یہ بھی کامیاب نہیں ہوگی۔ آج یورپ بڑا خوش ہے کہ اُس نے ایسا قانون مقرر کر دیا ہے۔ مگر اسے کیا معلوم کہ وہ قانون جو ہرلحاظ سے مکمل اور قابل ِعمل ہے، آج سے تیرہ سو سال پہلے کی نازل شدہ قرآنی آیات میں موجود ہے۔ اگر اُس قانون پر عمل کیا جائے تو وہ جھگڑے جنہوں نے آج دنیا کو ہلاکت اور بر بادی کے گڑھے میں گرا رکھاہے بالکل دورہوجائیں اوردنیا ایک بار پھر امن اور اطمینان کی زندگی بسرکرنے کے قابل ہوجائے۔‘‘

(تفسیرِ کبیرجلد 10 صفحہ 313)

امن عالم کےقیام کےلئے جماعت احمدیہ کا ایک سنہری اصول یہ ہے کہ احمدی اپنے ملک کا وفادار ر ہے اور اُس کی بہتری اور بہبود کےلئے کوشاں رہے اوراپنے ملک کی حکومت کے خلاف کسی بغاوت، فساد یا مظاہرے میں حصہ نہ لے۔ ہاں قانونی اور اخلاقی ذرائع اختیار کرتا رہے۔دنیا کےکئی ممالک میں جماعت احمدیہ کو عوامی مخالفت کے علاوہ حکومتی جبر کا بھی سامنا ہے۔ جماعت کو ہر قسم کے انسانی اورشہری حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ جبرواستبداد، قیدوبند،قتل وغارت اورتشدد معمول ہے مگر جماعت کی تاریخ کسی بھی قسم کے فساد سے مبرا ہے۔ اگر احمدی حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور خلفائے احمدیت کے سکھائے راستوں پہ نہ چلتے تو یہ امن کبھی بھی ممکن نہیں تھا۔

1952ء میں انٹرنیشنل ورلڈ پیس ڈے منانے کے لئے جاپان کی ایک انجمن نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں لکھا کہ جماعت احمدیہ بھی قیام امن کی کوشش میں شریک ہواور اس اہم مقصد کے لئے ایک معین دن مقرر کر کے دعائیں کر یں۔ حضور نے دنیا بھر کی جماعتوں کو ہدایت کی کہ وہ 2 اگست 1952ء بروز جمعہ قیام امن کے لئے دعا کر یں۔ عام رہنمائی کے لئے حضور نے سورۃ فاتحہ کی جامع دعا کو مندرجہ ذیل الفاظ میں یوں تحریر کیا:
’’اے خدا ہمیں سیدھا رستہ دکھا۔ایسا رستہ جس پر مختلف اقوام کے چنیدہ لوگ جنہوں نے تیری رضا مندی کو حاصل کرلیا تھا چلے تھے۔ ہمارے ارادے پاکیزہ ہوں۔ ہماری نیتیں درست ہوں۔ ہمارے خیالات ہر بدی سے پاک ہوں۔ ہمارے عمل ہرقسم کی کجی سے منزہ ہوں۔ سچائی اور صداقت کے لئے ہم اپنی ساری خواہشات اور رغبتیں قربان کر دیں۔ایسا انصاف جس میں رحم ملا ہوا ہو ہمارے حصہ میں آئے اور ہم تیرے ہی فضل سے دنیا میں سچا امن قائم کرنے والے بن جائیں۔ جس طرح کہ تیرے برگزیدہ بندوں نے دنیا میں امن قائم کیا اور تو ہمیں ایسے کاموں سے محفوظ رکھ جن کی وجہ سے تیری ناراضگی حاصل ہوتی ہے اور تو ہمیں اس بات سے بچا کہ ہم جوش عمل سے اندھے ہو کر ان فرائض کو بھول جائیں جو تیری طرف سے عائد ہوتے ہیں اور ان طریقوں سے بے راہ ہو جا ئیں جوتیری طرف لے جاتے ہیں۔‘‘

(روزنامہ الفضل لاہور 9 جولائی 1952 صفحہ6)

نصف صدی سے زائد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ مسندِ خلافت پہ جلوہ افروز رہے اور اک عالم نے آپؓ سے فیض پایا۔ قوموں نے نہ صرف آپؓ سے برکت پائی بلکہ انہیں امن اور صلح نصیب ہونے کی تمام کوششیں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے مستقل فرمائیں۔سیاست،سماج،مذہب اور دفاع غرض ہر شعبہ میں آپ نے امن اور انصاف کے اصول بیان فرمائے۔بیسویں صدی انقلابات کی صدی تھی۔ایک طرف اقوام عالم میں آزادی کا شعور بیدار ہورہا تھا تو دوسری طرف صنعتی انقلاب سے دنیا ایک نئے دور میں داخل ہورہی تھی۔اسی کے ساتھ ساتھ عالمی جنگ بھی دنیا کے امن کو نہ صرف گہنا رہی تھی بلکہ بے چینی اور بے سکونی کی بڑی وجہ بھی بن رہی تھی۔ہندوستان ایک لحاظ سے ان سارے عوامل کا مرکز بنا ہوا تھا۔ترقیات اور انقلابات کے سنگ ایک شدید بے سکونی اور بدا منی کی لہر نے بھی اہلِ ہندوستان کو گھیرا ہوا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نہ صرف سیاسی حوالوں سے جاری بدامنی ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ مذہبی حوالے سے بھی شان دار خدمات انجام دیں۔کشمیر کے مسلمانوں کی زندگیاں بدلنے سے لے کر فلسطین کے باشندوں کی رہنمائی تک اور تقسیمِ ہندوستان سے لے کر اقوام متحدہ کے بنیادی چارٹر کے متعلق راہنمائی تک، ہر جگہ آپ امن کے قافلے کے سالار نظر آتے ہیں۔

قیامِ امن کے حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی کوششیں اور کاوشیں اس قدر ہیں کہ اس مختصر وقت میں اُن کا احاطہ مشکل ہے۔تقسیم ہندوستان کے وقت جب خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی، تب بھی آپ کی ذات با برکات غمزدہ روحوں کے لیے موجب تسکین بنی ہوئی تھی۔ہزاروں لٹے پٹے قافلے آپ کے در پہ امن کی تلاش میں کشاں کشاں چلے آرہے تھے اور انہیں ہرگز مایوسی نہیں ہوئی۔قیام پاکستان کے بعد بھی آپ مسلسل ملکی و بین الاقوامی امن کے پیامبر کے روپ میں جلوہ گر رہے۔

خلافت ثالثہ میں

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے پیش رؤوں کی سنت کو جاری رکھا اور دنیا کو امن و سلامتی نصیب ہونے کے لیے دعاؤں کی تحریک کے ساتھ مسلسل عملی اقدامات بھی فرمائے۔ 1967ء میں اسرائیل نے قاہرہ اور بعض دیگر شہروں پر فضائی حملہ کیا، جس کے نتیجہ میں عرب اسرائیل جنگ شروع ہوگئی۔ چنانچہ مسلمان ممالک کو اس آفت میں دیکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے خصوصی طور پر دعائیہ تحریک کا اعلان فرمایا۔اسی جنگ کے دوران صدر پاکستان ایوب خان نے عرب ممالک کی امداد کےلیے ایک ریلیف فنڈ قائم کیا۔ چنانچہ حضورؒ نے احباب جماعت کو اس فنڈ میں بڑھ چڑھ کر شامل ہونے کی ہدایت فرمائی اور فنڈ کی رقم جمع کر کے صدرِ مملکت کو بھجوائی۔

(تاریخ احمدیت جلد 24 صفحہ 60)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے 1967ء میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان امن اور اتفاق پیدا کرنے کی خاطر یہ تجویز دی کہ مسلمانوں کے تمام فرقے کچھ عرصہ کے لیے اپنے اندرونی اختلافات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے محض اسلام کی تبلیغ اور تشہیر کےلیے مل کر کوشش کریں۔

(تاریخ احمدیت جلد24 صفحہ157)

آج جماعت احمدیہ بطور امن پسند جماعت کے دنیا بھر میں معروف ومقبول ہے۔قیام امن کے لیے دنیا بھر میں جاری جماعتی کاوشوں کو بھی تشکر اورقدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور جماعت کے سلوگن Love for All Hatred for none کی بہت تعریف کی جاتی ہے یعنی محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں۔ یہ نعرۂ امن و سلامتی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی زبان مبارک سے ہی ادا ہوا تھا۔ جو حضور نے 1980ء میں سپین کی سرزمین پہ فرمایا۔نفرتوں سے بھری دنیا میں محبت کا یہ اعلان عام تھا جس کے سبب مغرب نے حضورؒ کو سفیرِ محبت کے نام سے یاد کیا۔

لیکن جہاں تک دنیا کو متنبہ کرنے کی بات ہے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے آج سے 55 سال قبل، 28 جولائی 1967ء کو وانڈز ورتھ ٹاؤن ہال لندن میں ’’امن کا پیغام اور ایک حرفِ انتباہ‘‘ کے عنوان سےایک تاریخی خطاب فرمایا۔ جس میں حضور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق ایک تیسری عالمی جنگ سے متنبہ کیا۔ اس کی ہولناک تباہی کا پیشگوئیوں سے ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک اقتباس پیش کرتے ہوئے بات ختم کی کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا:
’’یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا مُنہ دیکھو گے۔ اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔‘‘

(حقیقۃ الوحی صفحہ256-257)

(تاریخ احمدیت جلد24 صفحہ135-140)

خلافتِ رابعہ میں

خلافت رابعہ میں جماعت احمدیہ کو شدید تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ریاستی جبر ایک نئے روپ میں سامنے آیا۔ ایسے عالم میں بھی جماعت اپنی امن پسند پالیسی اور تعلیم پہ نہ صرف قائم رہی بلکہ خلافت احمدیہ کے وجود سے عالمگیر امن و سلامتی کی کوششوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔1991ء میں جب خلیج عرب کے ممالک میں شدید بحران تھا اور مختلف طاقتوں نے خلیجی ریاستوں پر دھاوا بولا تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس ساری صورت حال کی بابت مسلمانوں کو سمجھانے کے لئے خطبات کا ایک سلسلہ شروع فرمایا۔ آج تیس سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ حضور کے وہ تمام تجزیے، جو مومنانہ فراست سے کئے گئے تھے، حرف بحرف پورے ہو ئے اور ہو رہے ہیں۔ کاش کہ اس وقت کے سربراہان نے کان دھرے ہوتے تو خود بھی بچ جاتے اور عرب دنیا بھی آج کی شدید تر بے چینی سے بچ جاتی۔

(خلیج کا بحران اور نظام جہانِ نو)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 1990 میں ’’اسلام اور عصرحاضر کے مسائل کا حل‘‘ کے عنوان سے ایک معرکۃ الآراء خطاب فرمایا جو بعدازاں کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔ اس میں آپؒ نے انسانوں کو نسل پرستی کی وبا سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ آنے والے وقت میں یہ وبا امن عالم کے لیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوگی۔ آپؒ نے نہ صرف اس کے بارہ میں توجہ دلائی بلکہ اسلام کی حسین تعلیم سے اس کا حل بھی بتایا۔آپؒ نے فرمایا:
’’میں یقین رکھتا ہوں کہ کسی بھی لحاظ سے اور کسی بھی سطح پر بنی نوع انسان کی تقسیم اور امتیازی سلوک سے کچھ لوگ وقتی فائدہ تو حاصل کرسکتے ہیں لیکن بالآخر اس کے دور رس نتائج سب کے لیے لازما برے ہی ہوا کرتے ہیں۔عصر ِحاضر کے اس تناظر میں اسلام ایک ایسا واضح اور امید افزا پیغام دیتا ہے جو موجودہ حالات میں بڑا مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسلام نسل پرستی اور طبقاتی منافرت کی پُرزور مذمت کرتا ہے اور فساد کی کوئی بھی شکل کیوں نہ ہو اسے قابل ِمذمت قرار دیتا ہے۔‘‘

(ہفت روزہ بدر قادیان 19-26 دسمبر 2013ء صفحہ26)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا یہ خطاب امن کے حوالے سے ایسا مکمل لائحہ عمل لئے ہوئے ہے کہ اس میں امن عالم کی راہ میں رکاوٹ بننے والے تمام مسائل اور اُن کے موثر ترین حل کا ذکر فرمایا۔ اس میں جہاں مذاہبِ عالم کے مابین امن و آشتی اور ہم آہنگی کا طریق بتایا گیا، وہیں معاشرتی امن، معاشرتی اقتصادی امن، اقتصادی امن، قومی و بین الاقوامی سیاسی امن اور انفرادی امن کے ہر پہلو پہ بات کی گئی۔

خلافت رابعہ میں جماعت احمدیہ کو پہلے سے بڑھ کرعالمگیر شہرت اور کامیابی نصیب ہوئی اور قیام امن کے لیے جماعتی کوششوں اور کاوشوں کو ایک دنیا نے سراہا اور ان سے فیضیاب ہوئے۔قدرتی آفات و مصائب میں دنیا کو پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے Humanity First کا قیام ہو یا افریقہ کےدور دراز علاقوں میں شفاخانوں کی تعمیر، خلافت احمدیہ نے امن وسلامتی اور اس کی ترویج میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

خلافتِ خامسہ میں

خلافت خامسہ کے آغاز سے ہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی و رہنمائی میں امن عالم کے لئے ہمہ جہت کوششیں اور کاوشیں جاری ہیں۔ آج جب دنیا امن کو ترس رہی اور تیسری عالمی جنگ کے بادل فضاؤں میں منڈلا رہے ہیں، امن کا یہ شہزادہ دنیا کو بار بار امن کی طرف بلا رہا ہے۔ان کاوشوں کی مختصر سی جھلک پیش خدمت ہے۔

حضور انور کے خطبات

حضور انور نے مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے ساتھ ہی مختلف مواقع پر اپنے خطبات کے ذریعہ دنیا کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے افراد ِجماعت کو بالخصوص اور تمام عالم کو بالعموم مخاطب کرتے ہوئے تمام دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے کوششوں کی تلقین فرمائی۔اور احباب جماعت کو اسلام کی امن و آشتی کی جو حسین اور خوبصورت تعلیم ہے وہ دنیا کے سامنے رکھنے کی تلقین فرمائی۔ اور مسائل کے حل کے لئے متعدد بار دعاؤں کی تحریک فرمائی۔ نیز مسلم امہ اور بڑی طاقتوں کو انتباہ فرمایا اور ان معاملات میں رہنمائی فرمائی۔اِن میں حضورانور نے کسی ایک خطہ کو ہی مخاطب نہ کیا، بلکہ ایشیائی ممالک کے مسائل ہوں، یا یورپ کے ممالک کے خطرات، افریقی ممالک میں پائی جانے والی بے چینی ہو یا عرب دنیا میں پھیلی حکمران طبقے سے ناراضگی۔ حضور انور نے ہر جگہ کے مسائل کا وقتا فوقتا ذکر کر کے اُن کی بار بار راہنمائی فرمائی۔

حضور انور کے سربراہان کو لکھے گئے خطوط

قیام امن عالم کی خاطردنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں اور سربراہوں کو بذریعہ خطوط مخاطب کرنا خلافت خامسہ کے کارہائے نمایاں کا ایک درخشاں اور تاریخی پہلو ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے حکمرانوں کو درپیش عالمی خطرات کے تناظر میں2012ء میں قیامِ امن کی خاطر سنجیدہ تعاون اور جدو جہد کے لئے خطوط لکھنے کا اہتمام فرمایا۔ یہ خطوط پوپ بینیڈکٹ XVI، اسرائیل کے وزیر اعظم، صدر اسلامی جمہوریہ ایران، صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ، وزیر اعظم کینیڈا، خادم حرمین شریفین سعودی، عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم، وزیراعظم برطانیہ، چانسلر جرمنی، صدر جمہوریہ فرانس، ملکہ برطانیہ، صدر روسی فیڈریشن اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کو لکھے۔ حضور انور کے یہ تمام مکتوبات بعد ازاں اپریل اور اگست 2012ء کے شماروں میں شائع کر دیئے گئے تھے۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان عالمی راہنماؤں کے نام خطوط میں حضور انور نے کمال حکمت سے ان سربراہان کو سمجھایا۔

پوپ کے نام حضور کا مکتوب، امیر جماعت احمدیہ کبابیر نے ویٹیکن میں ایک ملاقات میں خود پوپ کی خدمت میں پیش کیا۔ بعض ملکوں کی پالیسیوں کی نشاندہی کر کے بھی اُنہیں توجہ دلائی کہ وہ عالمی امن کی خاطر ملکی مفادات کو پیچھے رکھ کر غور کریں۔ اسی تناظر میں اسرائیل کے وزیر اعظم کے نام خط میں حضورانور نے عہد نامہ قدیم کی کتب استثناء اور زبور کے حوالہ دے کر بھی سمجھایا کہ اگر آپ ظلم سے باز نہ آئے تو آپ ہی کی مقدس کتاب میں اِن الفاظ میں عواقب کا ذکر ہے، جس سے بچنے کے لئے امن کو موقع دیں۔

مورخہ 7مارچ 2012ء کو اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد کے نام خط میں حضور انور نے تیسری عالمی جنگ کا انتباہ کرتے ہوئے ایران کے صدر کو لکھا کہ وہ اپنی عالمی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے تیسری عالمی جنگ کے امکانات کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور اسرائیل کے ساتھ جس حد تک ممکن ہو تصفیہ طلب امورکے لئے بین الاقوامی تعلقات کے انصرام اور مذاکرات کی راہ اپنانے اور اختلافی امور کے حل کے لئے طاقت کے استعمال کی بجائے ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں۔

مورخہ 8مارچ 2012ء کو حضور انور ایدہ اللہ نے امریکہ کے صدر باراک اوباما کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’دنیا میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ ضروری محسوس کیا کہ آپ کی طرف یہ خط روانہ کروں کیونکہ آپ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر کے منصب پر فائز ہیں اور یہ ایسا ملک ہے جو سُپر پاور ہے…ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی اور اقتصادی مشکلات نے کئی چھوٹے ممالک کو جنگ میں دھکیل دیا ہے اور بعض ممالک کی داخلی بدامنی اور عدم استحکام میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ ان تمام امور کا منطقی نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں ہی نکلے گا… میری آپ سے بلکہ تمام عالمی لیڈروں سے یہ درخواست ہے کہ دوسری قوموں کو زیر نگین کرنے کے لئے طاقت کی بجائے سفارتکاری، سیاست اور دانشمندی کو بروئے کارلائیں۔ بڑی عالمی طاقتوں، مثلاً امریکہ کو دنیا میں امن کے قیام کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے…اللہ تعالیٰ آپ کو اور تمام عالمی لیڈروں کو یہ پیغام سمجھنے کی توفیق بخشے۔‘‘

(ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل لندن 8 جون 2012ء صفحہ 11-12)

ان تمام خطوط کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حضور انور کس درد کے ساتھ عالمی امن کے لئے کوشاں ہیں۔ حضور انور نےجماعت احمدیہ برطانیہ کے زیرِ اہتمام نوویں امن سمپوزیم سے خطاب میں فرمایا: میں نہیں جانتا کہ وہ میرے خطوط کو کوئی اہمیت دیں گے یا نہیں، مگر اُن کا رد عمل جو بھی ہو میں نے خلیفہ وقت ہونے اور لاکھوں احمدیوں کے روحانی پیشوا کی حیثیت سے احمدیوں کے احساسات اور جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے دنیا کے شدید خوفناک حالات کے بارہ میں تنبیہ کر دی ہے۔

(الفضل انٹرنیشنل 22 جون 2012ء صفحہ 11 کالم 1)

کورونا وبا ءکے دنوں میں2020ء کے ماہِ جون میں حضور انور نے ایک بار پھر عالمی راہنماؤں کو ذاتی طور پہ خطوط لکھ کر اِ س وباء سے ہونے والے جانوں کے نقصان پہ افسوس کے اظہار کے ساتھ ساتھ ان کو خداتعالی کی طرف رجوع کرنے،اپنی قوم اور اقوام عالم سے تعلقات میں انصاف کرنےکی طرف توجہ دلائی۔ اس بار ان خطوط میں حضور انور نے 17 عالمی راہنماؤں کو مخاطب کیا۔ جن میں پوپ اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے علاوہ آسٹریلیا، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، گھانا، انڈیا، اسرائیل، جاپان، نائیجیریا، روس، سیرالیون، برطانیہ اور امریکہ کے سربراہانِ مملکت شامل تھے۔

(پریس ریلیز 6 دسمبر 2020ء بحوالہpressahmadiyya.com
امن کانفرنسز اور امن سمپوزیمز کا انعقاد)

گو کہ جماعت احمدیہ نے ہر دور میں دنیا بھر میں امن کانفرنسز کا اہتمام کیا ہے۔ ان کانفرنسز کا مقصد آج کی پریشان حال دنیا میں امن کی تدابیر پر غور کرنا ہے۔ لیکن دنیا کے موجودہ خطرناک حالات کے پیش نظر خلافت خامسہ کے دور میں ان کانفرنسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یہاں پر ان تمام کانفرنسز کا ذکر تفصیل سے تو کیا مختصراًبھی ناممکن ہے۔ حضورانور نے اپنی خلافت کے آغاز سے ہی جماعت احمدیہ برطانیہ کو ایک سالانہ پروگرام امن سمپوزیم کے انعقاد کی طرف توجہ دلائی۔ سوائے کورونا وبا کے گزشتہ دو سالوں کے، یہ پروگرام بلاتعطل جماعت احمدیہ برطانیہ کے سالانہ پروگرام کا ایک لازمی اور اہم ترین حصہ رہا ہے۔ جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنفس نفیس شرکت کرتے اور حاضرین سے خطاب فرماتے ہیں۔اسی کی پیروی میں دنیا بھر میں جماعتیں امن کانفرنسز اور سمپوزیم منعقد کرتی ہیں۔ ان پروگراموں میں اعلی حکومتی وزراء، اعلیٰ عہدیداران، ملکوں کے سفراء،پارلیمینٹیرینز، شہروں کے میئر، مذہبی رہنما، تھنک ٹینکس سے تعلق رکھنے والے افراد اور معززین شرکت کرتے ہیں۔ ان میں اپنے خطاب میں دنیا میں امن کے قیام کے موضوع پر اسلامی تعلیم کے حوالہ سے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ اپنے خیالات کا اظہار کیا اور جماعت احمدیہ کی امن پسندی اور قیام امن کے لئے کی گئی کوششوں کو سراہا۔

احمدیہ مسلم امن انعام

جماعت احمدیہ کی عالمی امن کے لئےکی گئی کوششوں میں سے ایک کوشش یہ بھی کی گئی کہ دنیا میں کسی بھی جگہ پر کسی بھی لیول پر امن کے لئے کی گئی انفرادی یا اجتماعی کوششوں کو سراہا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔خلافت خامسہ میں جماعت احمدیہ برطانیہ نے حضور انور کی اجازت و راہنمائی سے احمدیہ مسلم پیس پرائز کا آغاز کیا۔ جو کسی ایسی اہم شخصیت یا ادارے کو دیا جاتا ہے جنہوں نے امن کے قیام کے لئے غیر معمولی کام کیا ہو۔ اس کے ساتھ 10000پونڈانعام کی رقم دی جاتی ہے۔ امن عالم کے قیام میں نمایاں کردار ادا کرنے والی بہت سی نیک روحوں کو یہ انعام دیا جاچکا ہے۔ اب تک یہ انعام درج ذیل شخصیات کو دیا جا چکا ہے۔

  1. مکرم ڈاکٹر لارڈ ایرک ایوبری صاحب Lord Eric Avebury آف یوکے۔
  2. مکرم عبدالستار ایدھی صاحب Abdul Sattar Edhi آف پاکستان۔
  3. ایس او ایس چلڈرن ولیج SOS Children’s Villages UK آف یوکے۔
  4. مکرم ڈاکٹر اہنبا بوچی ایڈجی Dr.Oheneba Boachie-Adjei آف گھانا۔
  5. مکرم میگنس میک فرلانس بارو صاحب Magnus-MacFarlane-Barrow آف سکاٹ لینڈ۔
  6. مکرمہ سندھوتی سپکل Sindhutai Sapkal آف انڈیا۔
  7. مکرمہ حادیل قاسم Hadeel Qasim آف عراق۔
  8. مکرمہ سٹوسکو تھرلو Mrs: Setsuko Thurlow آف جاپان۔
  9. مکرم ڈاکٹر لیونڈ روشل Dr: Leonid Roshal آف روس
  10. مکرم ڈاکٹر فریڈ میڈنک Dr: Fred Mednick آف امریکہ۔

دورہ جات وخطابات

دنیا میں امن کے قیام کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کی گئی کوششوں میں ایک بہت بڑا حصہ آپ کے مختلف ممالک کے دورہ جات ہیں۔ ان دوروں میں حضور انور نے سربراہان مملکت سے ملاقاتوں، حکومتی وزراء،ممبر ان پارلیمنٹ، کونسلرز، میئرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز، وکلاء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے معز زین کے ساتھ ملاقاتوں کے ذریعہ اسلامی تعلیم کے مطابق امن کا پیغام پہنچایا۔ دنیا کی موجودہ صورت حال، عالمی معیشت، ماحولیاتی آلودگی، دہشتگردی کے سدّ باب اور عالمی امن کے قیام جیسے موضوع زیر بحث رہے۔ حضور انور کے اعزاز میں استقبالیہ تقاریب میں حضور انور نے اپنے خطابات میں اسلام کی پُر امن تعلیمات کا خوبصورت تذکرہ فرمایا۔دوسرے ان دورہ جات میں دنیا کے کئی ممالک میں پارلیمنٹس سے حضور انور کے خطابات بھی شامل ہیں۔

برطانوی پارلیمنٹ، ہاوسز آف پارلیمنٹ
(Houses Of Parliament) میں تاریخی خطاب

22اکتوبر 2008ء کو صد سالہ خلافت جوبلی کے سلسلہ میں علاقہ پٹنی کی ممبر آف پارلیمنٹ نے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اعزاز میں برطانیہ کے پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک تقریب منعقد کی۔جس میں دونوں ایوانوں سے آئے ہوئے 30 سے زائد ممبران پارلیمنٹ، حکومتی وزراء، مختلف ملکوں کے سفراء اور دیگر معززین سے حضورِ انور نے حالات حاضرہ کے تناظر میں نہایت پُر حکمت اور بصیرت افروز خطاب فرمایا۔

یورپین پارلیمنٹ میں پہلی دفعہ
جماعت احمدیہ کے متعلق ایک پُر شکوہ تقریب

20ستمبر 2011ء کو یورپین پارلیمنٹ کے وسیع ہال میں تقریب کا انعقاد ہوا جس میں 80 سے زائد یورپین پارلیمنٹ کے ممبران، سفارتی شخصیات،اعلیٰ علمی شخصیات اور صحافی حضرات کے علاوہ 16ممالک کے غیر از جماعت مہمان شریک ہوئے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالی نے اس تقریب میں فرمایا کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے انسان کو لازماً خدا کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور یہی تمام مسائل کا حل ہے۔

کیپیٹل ہل واشنگٹن ڈی سی

27جون 2012ء کو کیپیٹل ہل CAPITOL HILL واشنگٹن ڈی سی میں امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اہم اراکین کانگریس و سینٹ، سفیروں، وائٹ ہاؤس اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے سٹاف، غیر سرکاری تنظیموں کے رہنماؤں، مذہبی قائدین، اساتذہ کرام، مشیروں، سفارتی نمائندوں، تھنک ٹینک اور پینٹا گون کے نمائندوں اور میڈیا کے افراد سے خطاب فرمایا۔

حضور انور نے اس موقع پہ امریکہ کی حکومت کے ان نمائندگان سے خطاب میں امن کا راستہ بتاتے ہوئے انصاف پر مبنی بین الاقوامی تعلقات پر زور دیا۔ یقینا یہ خطاب پڑھ کر ہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے مقرر کردہ خلفاء دنیا داروں کو کیسے مخاطب کرتے ہیں۔ اور یہ کہ حضور انور نے کس طرح اتمام حجت کرتے ہوئے ان اعلی ترین ایوانوں میں امن کا پیغام پہنچایا۔ اور آئندہ کے خطرات سے آگاہ کیا۔

سیدنا حضور انور کے خطاب برموقعہ کیپیٹل ہل امریکہ مورخہ 27 جون 2012ء کے موقعہ پر Democratic Leader عزت مآب Nancy Pelosi نے آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کے متعلق فرمایا:
’’اپنی قیادت کی وجہ سے آپ دنیا میں ایک عالمی اہمیت کی حامل شخصیت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں… آپ سرحدوں کے پار ایک عظیم طاقت اور ترقی پذیر دنیا کیلئے ایک سرمایہ ہیں… آپ حکمت اور خدا ترسی سے پُررہنما ہیں جنہوں نے عدم تشدد نیز مختلف مذاہب کے درمیان باہمی احترام کو ایک فاتح کے طور پر قائم کیا ہے۔‘‘

مورخہ 29 جنوری 2015ء کو برطانیہ میں ایک تقریب کے دوران کے دوران عزت مآب David Cameron (سابق وزیر اعظم برطانیہ) نے اپنی تقریر میں سیدنا حضور انور کے متعلق کہا کہ:
’’سیدنا حضور انور حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز امن کے پیغامبر ہیں… میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ کے فلاحی کام اور باہمی پیار و محبت کی آپ کی فلاسفی (محبت سب کیلئے، نفرت کسی سے نہیں)برطانیہ میں بھی اور ساری دنیا میں یونہی پھلتی پھولتی رہے گی۔‘‘

مورخہ 11 مئی 2013ء کو ساؤتھ کیلیفورنیا میں سیدنا حضور انور نے ایک تاریخی خطاب فرمایا۔اس موقعہ پر عزت مآب Congresswoman Karen Bass نے کہا:
’’آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک انقلابی شخصیت ہیں جنہوں نے پوری دنیا میں امن اور رواداری کو بڑھاوا دیا ہے۔‘‘

سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے2015ء میں ٹوکیو میں استقبال کے دوران Mike Sata Yasuhiko, Chairman Tokibo group of Industries نےکہا کہ:
’’سیدنا حضور انور حضرت مرزا مسرور احمد نے اپنی ساری زندگی قیام امن کیلئے وقف کی ہوئی ہے۔آپ کی زندگی کا مقصد بین المذاہب امن کا قیام ہے۔یہ میری خواہش ہے کہ سیدنا حضور انور مستقل طور پر جاپان تشریف لے آئیں تا ہمارا ملک بھی حقیقی اسلام کے نور سے منور ہو جائے۔‘‘

بین المذاہب کانفرنس، گِلڈ ہال، لندن

دنیا کے امن کو بڑھاوا دینے کیلئے جماعت احمدیہ برطانیہ کے قیام کی سو سالہ تقریبات کے سلسلہ میں فروری 2014 ءمیں ایک بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد لندن کی مشہور ترین بلڈنگز میں سے ایک گِلڈ ہال میں کیا گیا۔ جس میں مختلف مذاہب کے علماء یا نمائندوں کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنی اپنی مقدس کتب پر بنیاد رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ اور مذہب کے تصور کی تعلیم کو پیش کریں، اور یہ کہ اکیسویں صدی میں خدا تعالیٰ کا کردار اور خدا تعالیٰ کی کیا ضرورت ہے۔ اس کانفرنس میں اسلام کی نمائندگی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے کی۔جبکہ یہودیت، عیسائیت، بدھ مت، دروزی، ہندومت، زرتشت ازم اور سکھ ازم کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ سب مذاہب کے ماننے والوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ تقریب لندن کے سب سے بڑے پرانے اور روایتی ہال، گِلڈ ہال (Guildhall) میں منعقد ہوئی۔ جو 600 سال پرانی اور لندن کی قدیم ترین دو عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یقینا اس مختصروقت میں اس تقریب کا تفصیلی احوال بتانا تو ممکن نہیں۔اس موقع پہ حضور انور کا خطاب ایسے وجد آفرین مناظر لئے ہوئے تھا کہ جو دیکھنے اور پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس نے سامعین پر غیر معمولی اثرات چھوڑے۔

انگلستان میں گریناڈا (Grenada) کے ہائی کمشنر He Joselyn Whiteman نے کہا کہ:
’’یہ بہت زبردست تقریب تھی۔ یہ بات کہ اتنے سارے مذاہب ایک ہی چھت کے نیچے اس طرح اکٹھے ہو سکتے ہیں جہاں ہمارے ایمانوں میں اضافہ کا باعث ہے۔ وہاں یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ آج کل دنیا کے مسائل کے حل کے لئے لوگوں کو اکٹھا کس طرح کیا جاسکتا ہے۔‘‘

Mak Chishty، جو لنڈن میں میٹروپولیٹن پولیس میں کمانڈر ہیں نے کہا کہ:
’’مجھے آج کی تقریب میں یہ بات اچھی لگی کہ ہر کسی نے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیں۔ دوسرے مذاہب پر نکتہ چینی نہیں کی۔ اور اسی چیز سے ہم میں باہم اتحاد اور یگانگت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔‘‘

یورپین پارلیمنٹ میں لندن کے نمائندے Dr. Charles Tannock MEP نے برملا کہا:
’’مستقبل میں اس رستہ کو اپنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ہم سب خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم یہ نہیں مان سکتے کہ خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ہم مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے لڑتے چلے جائیں۔‘‘

میگل گارسیا (Miguel Garcia) صاحب، جو پیدرو آباد،سپین کے سابقہ میئر رہے۔انہوں نے اس کانفرنس کے متعلق کہا:
’’مسلم جماعت احمدیہ کی طرف سے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے وفود، ممبرزآف پارلیمنٹ، سیاسی شخصیات، تعلیم دان اور مختلف انسانی ہمدری سے تعلق رکھنے والے اداروں کے نمائندگان کو لندن میں جمع کیا گیا تا کہ وہ اتحاد اور امن کے قیام کیلئے ڈائیلاگ کی ضرورت پر غورکریں۔ یہ انتہائی مثبت قدم تھا۔ میَں جماعت احمدیہ کو اس تقریب کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتاہوں۔ اور میری خواہش ہے کہ یہ جماعت اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے… مَیں حضرت مرزامسرور احمدصاحب کے الفاظ سے بہت محظوظ ہوا ہوں۔ انہوں نے جنگ و جدل سے آزاد ایک پُرامن معاشرے کے قیام کے حوالہ سے بات کی ہے اور اُن حکومتوں کی مذمت کی ہے جو دفاع کے نام پر اسلحہ کو انسانیت پر ترجیح دیتی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ مرزامسرور احمدنے ایک ایسے معاشرہ کے قیام کے لئے جس کی بنیاد انصاف اور باہمی عزت و احترام پر ہو، مختلف مذاہب کے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی دعوت دی ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جو تضادات سے بھری پڑی ہے۔ بعض ممالک ترقی کی انتہا کو چھو گئے ہیں جبکہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھوک اور افلاس کی وجہ سے مررہی ہے۔ ایک طرف ہم لاکھوں ٹن خوراک سمندر میں پھینک دیتے ہیں اور دوسری طرف کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کو کھانے کے لئے انتہائی مشکل کے ساتھ کچھ ملتاہے۔ ایک طرف کروڑپتی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف معاشرے کے بعض طبقے انتہائی غریب ہوگئے ہیں۔ ایک ایسی دنیا کے قیام کی ضرورت ہوگی جو جنگ کو ترک کردے اور امن کی خواہاں ہو، جو سب کو ساتھ لے کر مشترکہ طور پر ترقی کرے، جو ناانصافی کے خلاف کھڑی ہوجائے اور معاشرتی انصاف کو فروغ دے۔‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس مؤرخہ 7 مارچ 2014ء)

عزت مآب سابق وزیر اعظم کینیڈا جناب سٹیفن ہارپر نے سیدنا حضور انور کے متعلق کہا کہ:
’’آپ مذہبی آزادی اور امن کے ایک بہادر فاتح ہیں اور آپ اسلام کا ایک سچا خیر خواہ چہرہ ہیں۔‘‘

کینیڈا کے موجود وزیر اعظم عزت مآب Justin Trudeau نے سیدنا حضور انور کے متعلق کہا کہ:
’’آپ کی رفاقت اور آپ کی رہنمائی کینیڈا کیلئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔‘‘

امسال یوکرین اور روس کی جنگ شروع ہونے کے ساتھ ہی جماعت احمدیہ نے عالمی سطح پہ تیسری عالمی جنگ سے روکنے کیلئے ایک مضبوط ترین اورمؤثر ترین مہم چلائی تا کہ دنیا کو اس ہولناک ترین تباہی سے خبردار کیا جا سکے۔ اس مہم میں دنیا بھر کے طاقتور ممالک میں اہم جگہوں پہ ایسے پروگرام کئے گئے تاکہ عوام کی بڑی تعداد تک پیغام پہنچایا جا سکے۔

خلفائے احمدیت نےدنیا میں امن کے قیام کے لئےوسائل کی مُنصفانہ تقسیم کی طرف تو سب کو توجہ دلائی۔ لیکن جماعت احمدیہ کے افراد کو خصوصا محروم طبقوں تک بنیادی سہولیات کی فراہمی کی طرف بھی توجہ دلائی۔ تا اُن کی تکالیف بھی دور ہوں اور ان طبقات سے احساس محرومی بھی ختم ہو۔ اس ایک پہلو پہ ہی نظر ڈالی جائے تو ہر سال جماعت کو بہت سارے ملکوں میں، ایک ایک ملک میں ہی کروڑوں روپیہ خرچ کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ جن میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی، صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی، ہسپتالوں کا قیام، فری میڈیکل کیمپس، یتیم بچوں کیلئے آرفن ہاؤسز، سکولوں اور مختلف ٹیکنیکل تعلیمی اداروں کا قیام،غریب بچوں کے لئے تعلیمی وظائف، غرباء کو مکان مہیا کرنا، بھوکوں کو کھانے کی فراہمی، اور قدرتی آفات کے موقع پرہر ممکن مدد، اور دکھی انسانیت کی ہر ممکن طریق سے مدد شامل ہے۔ یقینا اس سب سے ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا رہا ہے، جس سے محروم طبقے بجائے اُمراء پہ غصہ کرنے کے مناسب ترین طریق سے دنیا میں مفید وجود بن رہے ہیں۔ اور یہ سب کام دنیا بھر میں ہو رہے ہیں۔

خاکسار اپنی تقریر کے آخر میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ان نصیحت آمیز اور فکر انگیز خطابات میں سے وقت کی رعایت کے مطابق صرف دو اقتباسات پیش کر کے اپنی تقریر کو ختم کرتا ہے۔ اگر چہ حضور انور نے اپنی مبارک خلافت کے ایک لمبے عرصہ کو عالمی لیڈروں کی توجہ، امن عالم اور اتحاد کے لئے وقف کر دیا ہے اور دلچسپی رکھنے والے افراد ان خطابات سے جو کتابی شکل میں World Crises & Pathway to Peace کے نام سے طبع شدہ ہے،اسی کتاب سے خاکسار درج ذیل دو اقتباس پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہاہے۔ دنیا کو ایک اور عالمی جنگ سے خبردار کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:
’’ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جب انسانی کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں تب وہ قادر مطلق خدا انسانی قسمتوں کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہےتا کہ وہ اپنا فیصلہ ظاہر کرے اور لوگوں کو اس کی طرف جانے اور انسانی حقوق کے ادا کرنے کیلئے مجبور کرے۔ یہ بات بہت بہتر ہے کہ اہل دنیا خود ان اہم معاملوں کی طرف دھیان دیں کیونکہ جب اللہ کو ایسی کاروائی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو اس کا غصہ انسان کو نہایت خوفناک ڈھنگ سے پکڑتا ہے۔اس طرح یہ خوفناک پکڑ ایک اور عالمی جنگ کی شکل میں ظاہر ہو سکتی ہے۔اور یہ ایک حقیقت ہے کہ آنے والی عالمی جنگ کے نتائج اور اس کی وسیع تباہ کاریاںصرف اس جنگ تک یا موجودہ نسل تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ اس کے خوفناک نتائج آنے والی کئی نسلوں پر اثر انداز ہوں گے۔ پھر ایسی جنگ کے خوفناک نتائج اور اس کےا ثرات نوزائیدہ بچوں پر اور مستقبل میں پید ا ہونے والے بچوں پر بھی پڑیں گے۔موجودہ جدید ہتھیار اس قدر تباہی مچانے والے ہیں کہ مستقبل میں پیدا ہونے والی کئی نسلوں کے جسموں پر ان کے خوفناک نتائج پڑیں گے۔

جاپان ایک ایسا ملک ہے جن نے ایٹمی جنگ کے خوفناک نتائج دیکھے ہیں۔آج بھی اگر آپ جاپان جائیں تو اس جنگ سے خوف اور نفرت ان کی آنکھوں میں دیکھیں گے۔حالانکہ وہ ایٹم بم جو اس وقت استعمال کئے گئے تھے وہ آج کے ایٹمی ہتھیاروں، جو اس وقت بہت سے چھوٹے چھوٹے ملکوں کے پاس بھی ہیں، کے مقابلہ میں بہت معمولی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جاپان میں اگر چہ کہ اس واقعہ کو سات دہائیاں گزر چکی ہیں، آج بھی وہ ایٹمی اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ آج بھی وہ ایٹمی ہتھیار نوزائیدہ بچوں پر اپنے بھیانک اثرات دکھا رہے ہیں۔

اگر کسی انسان کو گولی ماری جائے تو اس کا بچ جانا تو ممکن ہے لیکن اگر ایٹمی جنگ شروع ہو جاتی ہے تو جو بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے ان کی ایسی قسمت نہیں ہوگی۔اس کے برعکس ہم دیکھیں گے کہ لوگ اچانک مرنے لگیں گے اور ایک جگہ جم جائیں گے۔ان کی کھالیں پگھلنے لگیں گی۔پینے کا پانی، کھانا اور سبزیاں سب زہر آلود ہو جائیں گی۔ وہ جگہیں جہاں پر سیدھے طور پر جنگ نہ ہوگی وہاں پر بھی اور جہاں جنگ کے اثرات کچھ کم پڑیں گے وہاں پر بھی ایٹمی بیماریوں کے بھیانک نتائج پیدا ہوں گے اور مستقبل کی نسلوں کو کئی طرح کے خطرات سے گزرنا ہوگا۔

اس کے باجوود آج کچھ مفاد پرست اور بے وقوف لوگ اپنی ایجادات پر بڑا فخر محسو س کر رہے ہیں اور انہوں نے دنیا کی تباہ کاریوں کیلئے جو کچھ ایجاد کیا ہے اس کو دنیا کیلئے ایک تحفہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

ایک اندازہ کے مطابق دوسری عالمی جنگ میں 62 ملین لوگ مارے گئے تھے۔بتایا جاتا ہے کہ مارے گئے لوگوں میں 40 ملین عام شہری لوگ تھے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فوج کی نسبت عام آدمی زیادہ مارے جاتے ہیں۔یہ وہ تباہ کاری ہے جو جاپان کے علاوہ باقی جگہوں پر صرف عام ہتھیاروں کے ساتھ ہوئی تھی۔اس جنگ میں صرف بھارت میں 16 لاکھ لوگ موت کا شکار ہوئے تھے۔ لیکن آج حالات بدل گئے ہیں۔آج جیسا کہ میں ذکر کیا کئی چھوٹےچھوٹے ملکوں نے بھی تباہ کار ایٹمی ہتھیار بنا لئے ہیں۔اور سب سے بڑھ کر خوف کی بات یہ ہے کہ ایسے ہتھیار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں بھی آ گئے ہیں جو صحیح شعور نہیں رکھتےیا جو آنے والی تباہی اور بربادی کا صحیح تصور نہیں کر سکتے۔حقیقت میں ایسے لوگ انجام سے اس قدر لا پرواہ ہوتے ہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر بندوقیں تان لیتےہیں۔

پس اگر بڑی طاقتیں انصاف سے کام نہیں لیتیں اور چھوٹے ممالک کی نا امیدیوں کو ختم نہیں کرتیں اور اس سمت میں ٹھیک کاروائیاں نہیں کرتیں تو حالات ہمارے قبضہ سے باہر ہو جائیں گے۔اور اس کے بعد جو تباہی بربادی پھیلے گی ہم اس کا تصور بھی کر نہیں سکتے۔

پس دنیا کے ممالک کو ان موجود ہ حالات پر بہت فکر مند ہونا چاہئے۔اسی طرح بعض مسلم ملکوں کے ناانصاف بادشاہ جن کا واحد مقصد کسی بھی قیمت پر اپنے تسلط کو قائم رکھنا ہے، انہیں بھی ہوش میں آنا چاہئے، ورنہ ان کی بد اعمالیاں اور بے وقوفیاں ان کی بد انجامی کی وجہ بن جائیں گی۔

ہم جو جماعت احمدیہ کے ممبر ہیں دنیا اور انسانیت کو تباہی سے بچانے کیلئے اپنی انتہائی کوشش کرتے رہیں گے۔ یہ اس لئے کہ ہم نے موجود زمانے کے امام کو مانا ہے جسے خد انے مسیح موعود بنا کر بھیجا ہےاور جو خدا کے رسول حضرت محمد ﷺ کا غلام تھا جو دنیا کی بھلائی کیلئے آیا تھا۔‘‘

(خلاصہ خطاب حضور انور نویں سالانہ امن کانفرنس بیت الفتوح مارڈن، 24 مارچ 2012ء
بحوالہ World Crises and Pathway to Peace صفحہ 40-45)

سیدنا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے امن سے متعلق اپنے خطابات میں جو حضور انور نے جرمنی، واشنگٹن اور جاپان میں ارشاد فرمائے کہ امن کے حوالہ سے مختلف النوع تجاویز پیش فرمائیں۔ حضور نے جرمنی میں اپنے خطاب میں جو کہ 2012ء میں ارشاد فرمایا تھا وطن سے محبت کے متعلق اسلامی تعلیمات کو پیش فرمایا۔ حضور نے فرمایا کہ وطن سے وفاداری اور محبت کہنا یا سننا بہت آسان ہے لیکن در حقیقت یہ چند الفاظ اپنے اندر بہت وسعت اور گہرائی سمیٹے ہوئے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق وطن سے وفاداری کی صحیح تعریف اپنے عہد و پیمان کو ہر سطح اور ہر طر ح کے حالات میں مشکلات کے باوجود غیر مشروط طور پر ادا کرنا ہےاور یہی وفاداری کا حقیقی معیار ہے جس کی قرآن مجید مسلمانوں کو تلقین کرتا ہے۔ایسی صورت میں ہر محب وطن کا فرض ہے کہ وہ وطن کی وفاداری کے حوالہ سے جہاں اپنے حقوق کا خیال کرے وہیں اپنے فرائض کی طرف بھی توجہ دے۔ یہ نہیں کہ اپنے حقوق کے حصول کیلئے وطن کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہ کرے۔

اسی طرح حضور انور نے اہل جاپان کو امن کے حوالہ سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگ اس سے پہلے ہونے والی دوسری عالمی جنگ کے خطرناک ایٹمی جنگ کے تباہ کن اثرات کو برداشت کر چکے ہیں۔ اس لئے آئندہ ہونے والی متوقع تیسری عالمگیر جنگ کو ٹالنے کیلئے دنیا کے باقی ممالک اور باشندوں کی نسبت آپ کا کردار بہت واضح اور صاف ہونا چاہئے۔ بہر حال اس سے پہلے ہونے والی عالمی جنگ میں جاپان اپنے تیس لاکھ افراد کی جان سے ہاتھ دھو چکا ہے۔ ہم ممبران جماعت احمدیہ حتی الوسع اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ دنیا اور انسانیت کو تباہی سے بچایا جائے۔ امید ہے کہ جاپان کے دانشور اور انصاف پسند جماعت احمدیہ کی کوششوں میں اس کا ساتھ دیں گے۔

تاریخ احمدیت ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں خلافت راشدہ احمدیہ بھرپور کاوشوں اور دعاؤں کےذریعہ امت ِمسلمہ اور انسانیت کے اتحاد اور قیام امن کی خاطرکوشاں رہی۔ اللہ کرے کہ دنیا خدا کے بھیجے ہوئے فرستادےکو پہچاننے میں اب مزید تاخیر نہ کرے تا عافیت کا یہ حصار اُن کو شَشْ جِہَتْ سے ڈھانپ لے اور ان کی دائمی نجات کا موجب ہوسکے، آمین۔

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف، مَیں عافیت کا ہوں حصار

(ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز۔ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اگست 2022