• 19 مئی, 2024

ہادی کو شناخت کرنے کے طریق

وَ النَّجۡمِ اِذَا ہَوٰی ۙ﴿۲﴾ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمۡ وَ مَا غَوٰی ۚ﴿۳﴾ وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۴﴾ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۵﴾ عَلَّمَہٗ شَدِیۡدُ الۡقُوٰی ۙ﴿۶﴾

(سورة النجم آیت2-6)

ان آیات کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
وہ اللہ تعالیٰ جس کی ذاتِ بابرکات میں جسمانی ظلمتوں میں تمہارے آرام کے واسطے ایسے جسمانی سامان بنائے ہیں جن سے تم آرام پاؤ بشرطیکہ ان کی طرف توجّہ کرو۔ اس نے تمہارے ابدی آرام اور روحانی راحتوں کے واسطے تدابیر نہ رکھی ہوں۔ بےریب رکھی ہیں۔ جسمانی لیل اور چند گھنٹوں کی رات میں اگر کوئی راہنما ستارہ موجود ہے تو اس روحانی لیل اور غموم اور ھموم کی نہایت بڑی لمبی رات کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل نے تمہاری منزلِ مقصود اور جاودانی آرام تک پہنچانے کا راہنما بھی ضرور رکھا ہوگا۔ وہ کون ہے؟ بےریب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ثبوت۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمۡ وَ مَا غَوٰی۔ وجہ ثبوت۔ اپنے ہی ملک میں ذرا تجربہ اور بلند نظری سے کام لو۔ نظر کو اونچا کر کے دیکھو یہ شخص تمہارے شرکاء تمہارا ہم صحبتی جس کا نام محمد، احمد، امین ہے اور جس کو تمہارے چھوٹے بڑے انہیں پیارے ناموں سے پکارتے ہیں۔ کیسا ہے؟ کیا تمھارے لیے کافی راہنما نہیں؟ بے ریب ہے، کیونکہ نظریات کا علم ہمیشہ بدیہات سے ہوتا ہے۔ اور غیرمعلومہ نتائج تک پہنچنا ہمیشہ معلومہ مقدمات سے ممکن ہے۔ نہایت باریک فلسفی کا پتہ عامہ قواعد سے لگتا ہے۔ جانتے ہو۔ کسی انسان کو انسانِ کامل یقین نہ کرنے کے تین اسباب ہوتے ہیں۔ اوّل یہ کہ تم اس شخص کے حالات سے پورے واقف نہیں جس نے ہادی اور انسانِ کامل ہونے کا دعوٰی کیا۔ دوم یہ کہ وہ شخص جس نے ہادیٔ کامل اور انسانِ کامل ہونے کا دعوٰی کیا اسے صحیح علم نہ ہو۔ سوم یہ کہ باوجود علمِ صحیح رکھنے کے اس کی عادت ایسی ہو کہ علمِ صحیح پر عمل نہ کرے۔ سو اس رسول خاتم الرسل محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ان تینوں عیوب میں سے ایک بھی نہیں۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمۡ وَ مَا غَوٰی۔ یعنی نہ بھولا اور نہ بےعلمی سے کام کیا تمہارے ساتھ رہنے والے نے اور نہ کبھی علمِ صحیح کے خلاف کرنے کا ملزم ہوا۔ پہلی وجہ عدمِ تسلیم کا جواب تو یہ ہے کہ چالیس برس کامل کے تجربہ سے دیکھ لو۔ یہ شخص محمد امین (بابی وامّی صلی اللہ علیہ وسلم) بھلا اس میں کوئی عیب رکھنے کی بات ہے۔ دوسری وجہ کا جواب یہ ہے کہ مَا ضَلَّ جس کے معنے ہیں کبھی نہ بھولا۔ ہمیشہ تمہاری اور اپنی بہتری کی جو تدبیر نکالی وہ تدبیر آخر مثمر ثمرات نیک ہوئی۔ تیسری وجہ کا جواب دیا۔ وَ مَا غَوٰی۔ چالیس برس تمہارے ساتھ رہا اور تمہارا صاحب کہلایا مگر کبھی کسی بدعملی کا ملزم ہوا؟ ہرگز نہیں۔ چالیس برس تک جس نے راستی اور راست بازی کا برتاؤ کیا۔ جس کے ہاتھ پر صدیق نے بھی بیعت کی۔ جس کے سینکڑوں مریضوں میں سے ایک بھی تبلیغ احکامِ اسلام میں کذب کا ملزم نہ ہوا۔ وہ جس نے کبھی مخلوق پر افتراء نہ باندھا اب وہ کیا ہماری ذات پاک پر مفتری ہوگا؟ ہرگز نہیں۔ اگر اپنے پہلے تجارب اور اپنے پہلے معلومات صحیحہ پر نظر کرو گے اور اس کے چالیس سال کے برتاؤ سے پتہ لو گے تو یہ نتیجہ نکلے گا۔

وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی۔ اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی اور سُنو! اس کے علوم اور اس کی ہدایات کسی کمزور معلّم کی تعلیم کا نتیجہ نہیں اور نہ ایسا ہے۔ کہ یہ پورا تعلیم یافتہ نہ ہو۔ اس کی تعلیم تو اس کی نبوّت اور رسالت کا عمدہ نشان ہے۔ اس کی تعلیم بڑے طاقت ور معلم کی تعلیم ہے اور یہ بھی تعلیم کے اعلیٰ مدارج پر پہنچ کر ٹھیک اور درست ہوچکا ہے۔ یہی معنیٰ ہے آیات ثلٰثہ: اور نہیں بولتا اپنی خواہش سے مگر جو بولا وہ الہٰی الہام ہے جو بھیجا گیا۔جب کوئی ہادی دنیا میں آتا ہے تو اس کی شناخت کے کئی طریقے ہوتے ہیں۔

اوّل۔ جاہل اور بے علم نہ ہو۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ہادی کے لیے ضروری ہے کہ وہ نادان اور بے خبر نہ ہو۔ اب کتاب اللہ کو پڑھو اور دیکھو کہ جو معارف اور حقائق اس میں بیان کئے گئے ہیں۔ وہ ایسے ہیں کہ کسی جاہل اور نادان کے خیالات کا نتیجہ ہوسکتے ہو۔ سوچو! اور پھر سوچو!!! نادان ایسی معرفت اور روح وراستی سے بھری ہوئی باتیں نہیں کرسکتے۔ دوم۔ وہ ہادی اجنبی نہ ہو۔ کیونکہ ایک ناواقف انسان دور دراز ملک میں جا کر بدکار اور شریر ہونے کے بھی چند روز تصنّع اور ریاکاری کے طور پر اپنے آپ کو نیک ظاہر کرسکتا ہے۔ پس ہادی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں کا واقف ہوں۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوٰی صاف ہے کہ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمۡ وَ مَا غَوٰی۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہادی یا امام مرشد اپنے سچے علوم کے مطابق عمل درآمد بھی کرتا ہو۔ اوروں کو بتلا دے اور خود نہ کرے۔ پس اس امر کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت فرمایا ہے۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمۡ وَ مَا غَوٰی۔ حضور کے عمل درآمد کا یہ حال ہے کہ جنابہ صدیقہ علیہا السلام نے ایک لفظ میں سوانح عمری بیان فرما دی۔ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنَ یعنی آپؐ کے اعمال و افعال بالکل قرآن کریم ہی کے مطابق ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ایک ہادی کی ضرورت اور پھر اس میں جو ضروری اوصاف ہونے چاہئیں۔ پھر ان اوصاف کا اعلیٰ واکمل واتم طور پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات میں پایا جانا جس دل آویز و دلنشین پیرائے میں بیان کیا ہے۔ وہ قرآن مجید کی ان اعجازی خواص میں سے ہے۔ جو بالخصوص اسی کتاب حکیم میں پائے جاتے ہیں۔ پہلے تو وَ النَّجۡمِ اِذَا ہَوٰی فرما کر جسمانی انتظام سے روحانی نظام کی طرف متوجہ کیا۔ اَلنَّجۡم کے سمت الرّاس سے نیچے ہونے کی وجہ سے مغرب۔ مشرق۔ جنوب۔ شمال کے راستوں کا علم ہوتا ہے۔ جب جسمانی بہتری و بہبودی کے لیے یہ انتظام ہے۔ تو روحانی دنیا میں صِرَاط مُسْتَقِیْم کی ہدایت کے واسطے کسی اَلنَّجۡم کی ضرورت کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد فرمایا کہ تین وصف اس راہنما میں ہونے ضروری ہے۔ ایک تو وہ خود واقفِ کار ہو۔ اسے نیکی وبدی نافع و ضار کا علم ہو۔ دوم۔ وہ اجنبی نہ ہو۔ اس ملک کے رسم و رواج، مذاق، عادات، حالات سے آگاہ ہو اور اس ملک کے باشندے بھی اس کے کیریکٹر، علم، قابلیت کو خوب جانتے ہوں تاکہ نہ وہ دھوکہ کھائے۔ نہ اس کے بارے میں احتمال ہوکہ یہ ہمیں دھوکہ دے گا؟ سوم عالم باعمل ہو۔ اپنے علم کو اپنی اور اپنے بھائی بندوں کی اصلاح میں خرچ کرنے والا ہو۔ نہ یہ کہ وہ اپنے علم سے مفاسد و شرارت کو بڑھانے والا ہو۔ یہ اوصاف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اعلیٰ درجے کے انتہائی کمال کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ آپؐ کا علم ایسا کہ شدید القویٰ نے آپؐ کو سکھایا۔ وَ ہُوَ بِالۡاُفُقِ الۡاَعۡلٰی کا خطاب پا کر يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (الجمعۃ: 3) آپ کی شان میں آیا۔ پھر جو کچھ آپ نے فرمایا۔وہ ہَوٰی نہیں تھا۔ بلکہ وَحۡیٌ یُّوۡحٰی تھا۔ اس لیے آپ پر مَا ضَلَّ خوب صادق آتا ہے۔ اور اجنبی نہیں۔ اس کے لیے صَاحِبُکُمۡ فرمایا۔ عرب کے عمائد و اہل الرائے آپ کے مکارمِ اخلاق کے مقرّ تھے۔ آپؐ نے اپنے اعلیٰ کیریکٹر کا دعویٰ بڑی تحدی سے پیش کیا اور فرمایا۔ فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ (یونس: 17) امین کا لقب تو آپؐ پا ہی چکے تھے اور یہ کہ آپ اپنے علم سے لوگوں کو سیدھی راہ پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ واقعات اس کی تصدیق کر رہے تھے۔ وہ لوگ جو زنا۔ شراب۔ جوآبازی جیسے بدترین گناہوں کو اپنی مجالس میں بڑے فخر کے ساتھ ذکر کرتے تھے۔ وہ اپنے کیے پر نادم ہوئے اور شراب کے پانچ بلکہ آٹھ وقتوں کی بجائے اتنے وقتوں کی نمازیں پڑھنے لگے۔ ایسا ہی ہر بدی کو چھوڑ کر اس کے مقابلہ میں انہوں نے ایک نیکی اختیار کرلی۔ پس مَا غَوٰی آپؐ پر صادق آیا۔

( حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 24 تا 26)

(مدثرہ عباسی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

اعلان نکاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 ستمبر 2021