• 5 مئی, 2024

نیکی کے مختلف راستے

کسی حدیث کی تلاش میں استا ذی المحترم حضرت ملک سیف الرحمٰن مرحوم کی کتاب ’’حدیقۃ الصالحین‘‘ میرے ہاتھوں میں ہے۔ جس میں حضرت ملک صاحب نے ’’نیکی کے مختلف راستے اور سبقت الیٰ خیر العمل‘‘ عنوان باندھ کر اس کے نیچے بہت سی اہم، کارآمد احادیث اکٹھی کی ہیں۔ چونکہ الفضل آن لائن کے قارئین مجھے بہت پیارے ہیں اس لئے دل نے چاہا کہ اس عنوان کے پہلے حصے ’’نیکی کے مختلف راستے‘‘ کے تحت درج نیکیوں کے ان راستوں اور ان ابواب کی راہنمائی اپنے قارئین کے لئے کروں تا وہ ان راستوں اور دروازوں سے باآسانی گزر کر جنت کی سیر کریں، وہاں استراحت محسوس کریں۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کریں، اپنے پیارے رسولؐ کا دیدار کریں اور مسیح دوران کے لئے راحت و سکون کا باعث بنیں۔

نیکیوں کے راستے

• ایک دفعہ ایک شخص نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ مجھے نیکیوں کے کچھ راستے بتائیں جو مجھے جنت میں لے جائیں۔ آپؐ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز با جماعت پڑھو، زكوٰة دو اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ650 حدیث نمبر 689)

• ایک اور روایت کے مطابق حضرت معاذؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے ملتا جلتا جب سوال کیا تو آپؐ نے اوپر بیان پانچ نیکیوں کو دہرا کر درج ذیل مزید نیکیوں کا اضافہ فرمایا۔

رمضان کے روزے رکھو، زاد راہ ہو تو حج کرو۔ پھر فرمایا کیا میں بھلائی اور نیکی کے دروازوں کے متعلق تجھے نہ بتاؤں؟ (جن سے گزر کر جنت کی راہ دیکھی جا سکتی ہے) سنو! روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے۔ صدقہ گناہ کی آگ کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ رات کے درمیانی حصہ میں نماز پڑھنا اجر عظیم کا موجب ہے۔ دین کی جڑ اسلام ہے اس کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔ اور سارے دین کا خلاصہ یہ کہ اپنی زبان کو روک رکھو۔ لوگ اپنی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتیوں یعنی اپنے بُرے بول اور بے موقع باتوں کی وجہ سے جہنم میں اوندھے منہ گرتے ہیں۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ 651-650)

مسلمان کے پانچ حقوق

• آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر یوں پانچ حق گنوائے جو نیکیوں کے راستے ہی تو ہیں۔

سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، وفات یافتہ کے جنازے میں شامل ہونا، کسی کی دعوت قبول کرنا اور کوئی چھینک مارے تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہنا۔ اور اس کے جواب میں یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہنا۔ ایک روایت میں پانچ کی بجائے چھ حقوق درج ہیں اور چھٹا حق یہ ہے جب تو کسی سے ملے تو السلام علیکم کہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب کوئی تجھ سے خیر خواہانہ مشورہ مانگے تو خیر خواہی اور بھلائی سے مشورہ دے۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ654 حدیث:692)

سات باتوں کا حکم اور سات باتوں کی مناہی

• حضرت براء بن عازبؓ نے بتایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات باتوں پر عمل کرنے کا حکم دیا اور سات ہی باتوں سے بچنے کا حکم دیا۔ سات کرنے والی باتیں یہ ہیں۔ بیمار کی عیادت، جنازوں میں شمولیت، چھینک کا جواب، قسم کھانے والے کو قسم پوری کرنے کی امداد دینا، مظلوم کی مدد، دعوت قبول کرنا، اور سلام کو رواج دینا۔ اور جن باتوں سے روکا ان میں سونے کی انگوٹھی پہننا (مردوں کو)، چاندی کے برتن میں پانی پینا، سرخ رنگ کے ریشمی گدوں پر بیٹھنا (یعنی زرّیں مرصّع پالان اور کاٹھیاں بنانے ریشمی فرش بچھانے سے) قسی نامی کپڑا (ریشم اور سوت سے ملا ہوا) پہننا، اطلس اور دیباج یعنی خالص ریشم پہننا۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ655 حدیث نمبر693)

ایک وصیت

• حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کی کہ مجھے کوئی وصیت کریں۔ آپؐ نے فرمایا۔ نمبر1 اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ تمام بھلائیوں کی یہ بنیاد ہے۔ نمبر2 اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرو کیونکہ یہ مسلمان کی رہبانیت ہے۔

نمبر3: اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو کیونکہ یہ تیرے لیے نور ہے۔

(حدیقۃ الصالحین صفحہ656 حدیث 694)

صدقہ کی تعریف

• ایک شخص کے سوال پر کہ ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا صدقہ کیا ہے؟ جواب میں آنحضور صلی اللہ علیہ واسلم نے فرمایا۔ سب سے بڑا صدقہ یہ ہے کہ تُو اس حالت میں صدقہ کرے کہ تُو تندرست ہو اور مال کی ضرورت اور حرص رکھتا ہو، غربت سے ڈرتا ہو اور خوشحالی چاہتا ہو۔ صدقہ و خیرات میں ایسی دیر نہ کرو مبادا جب جان حلق تک پہنچ جائے تو تُو کہے کہ فلاں کو اتنا دے دو اور فلاں کو اتنا۔ حالانکہ وہ مال اب تیرا نہیں رہا وہ تو فلاں کا ہو ہی چکا۔ (یعنی مرنے والے کے اختیار سے نکل چکا ہے)

(حدیقۃ الصالحین صفحہ656-657 حدیث:695)

آرٹیکل کے حصہ اول میں ’’نیکی کے مختلف راستے‘‘ کے تحت احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔ اب اس کے دوسرے حصّہ ’’سبقت الیٰ خیر العمل‘‘ کے حوالہ سے بعض احادیث قارئین کے لیے ذیل میں درج ہیں۔

جہاں تک نیکیوں میں ایک دوسرے سےآگے بڑھنے کا تعلق ہے تو یہ ایک ایسا ترقی کا گر ہے جس سے قوم، قوم بنتی ہے اور اسلامی دنیا میں ایک مسلمان نکھر کر ایک نو مولود بچے کی طرح اللہ کے حضور حاضر ہوتا ہے۔

حضرت ابوبکرؓ کا نیک نمونہ

• آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ میں مسابقت الی الخیر کی دوڑ لگی رہتی تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اشاعت و ترویج اسلام کے لئے جب ایک دفعہ رقم کی ضرورت تھی تو حضرت عمرؓ اپنے گھر کا آدھا اثاثہ لے کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں اس زُعم کے ساتھ حاضر ہوئے کہ آج ابوبکرؓ میرے سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ اپنے گھر کا سارا اثاثہ گٹھڑی میں باندھے سر پر اٹھائے حاضر ہو گئے۔ آنحضورؐ کے پوچھنے پر فرمایا کہ میں گھر میں اللہ اور اس کا رسولؐ چھوڑ آیا ہوں۔ یہ سارا نظارہ دیکھ کر حضرت عمرؓ نے ایک ہُوک بھری اور کہا کہ یہ بڈھا مجھے نیکی میں آگے نہیں بڑھنے دیتا۔

• پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پر صحابہ سے دریافت فرمایا کہ آج کس کس نے روزہ رکھا ہے؟ تمام خاموش تھے مگر حضرت ابو بکرؓ نے عرض کی کہ حضور! میں نے آج روزہ کی نیت کر لی تھی۔ پھر آنحضور ؐ نے دریافت فرمایا کہ آج کسی نے کسی غریب کو کچھ دیا؟ تو تمام صحابہ نے کہا کہ حضورؐ! ابھی تو صبح ہے کیسے اس نیکی پر عمل ہو سکتا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ نے عرض کی حضورؐ! میں کچھ دے آیا ہوں۔ پوچھا کیسے؟ عرض کی۔ میرے اس بیٹے نے نماز پر آتے کچھ کھانے کی ضد کی۔ میں نے روٹی کا ایک ٹکڑا اسے دے دیا جو اس کے پاس تھا میں نے اس سے لے کر مسجد کے باہر کھڑے ایک فقیر کو دے دیا تھا۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ آج کسی نے تیمار داری کی ہے؟ تمام صحابہ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے کہ یہ صبح سویرے کیسے ممکن ہے؟ حضرت ابو بکرؓ فوراً بولے یا رسول اللہ ؐ! مجھے رات کو علم ہوا کہ فلاں صحابی بیمار ہیں۔ میں مسجد آتے ہوئے ان کا دروازہ کھٹکھٹا کر حال پوچھ آیا ہوں۔

تو یہ تھا صحابہ میں ایک دوسرے سے نیکیوں میں آگے بڑھنے کا شوق۔ وہ شوق ہی تھا کہ صحابہ پہلی صف میں بیٹھنے کا ثواب لینے کے لئے سب سے پہلے مسجد میں آنے لگے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کا یہ اشتیاق دیکھ کر فرمایا کہ خدشہ ہے مجھے پہلی صف میں بیٹھنے کے لئے قرعہ اندازی کرانی پڑے۔

نیکی کے تمام راستوں سے داخلہ

• آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ جو شخص جس نیکی میں ممتاز ہو گا اسے اس نیکی کے دروازے سے گزرنے کو کہا جائے گا تا وہ جنت میں داخل ہو سکے۔ اسے آواز آئے گی کہ اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ تیرے لیے بہتر ہے۔ اس سے اندر آجاؤ۔ بعض لوگ نماز کے دروازے سے، بعض جہاد کے دروازے سے، بعض روزے کے دروازے سے یعنی سیرابی کے دروازے سے اور جو صدقہ میں ممتاز ہوئے انہیں صدقہ کے دروازے سے بلایا جائے گا۔

آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد سن کر حضرت ابو بکرؓ نے پوچھا اے اللہ کے رسولؐ! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا۔ کوئی ایسا شخص بھی ہو گا جس کو ان سب دروازوں سے آواز آئے گی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

نَعَمْ! وَاَرْجُوْا اَنْ تَکُوْنَ مِنْھُمْ (بخاری کتاب الصوم) کہ ہاں مجھے امید ہے کہ تم بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہو گے۔

ایک اور مسابقت الی الخیر کی مثال

• ایک دفعہ کچھ لوگوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ یا رسول اللہ ؐ! دولت مند لوگ سارا ثواب لے جاتے ہیں۔ وہ بھی نماز پڑھتے ہیں جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں اور روزے بھی ہماری طرح رکھتے ہیں۔ مگر وہ صاحب مال ہونے کی وجہ سے ہم سے صدقہ و خیرات میں سبقت لے جاتے ہیں جس کا ہمیں بہت دکھ اور قلق رہتا ہے کیونکہ ہم صدقہ نہیں دے پاتے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا۔
سنو! ہر تسبیح صدقہ ہے، ہر تکبیر صدقہ ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہنا صدقہ ہے، لَآ اٖلٰہَ اِلَّا للّٰہُ کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے بلکہ وظیفہ زوجیت ادا کرنا بھی صدقہ ہے (تم یہ بجا لاتے ہو)

(حدیقۃ الصالحین صفحہ656-657 حدیث:696)

• ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ تم ہر فرض نماز کے بعد 33 دفعہ سُبْحَان اللّٰہ، 33 دفعہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اور 34 دفعہ اللّٰہ اکبر پڑھا کرو تو تمہیں صدقہ و خیرات کرنے والے صحابہ کے برابر ثواب ملے گا۔

اس عمل کا جب مالدار صحابہ کو علم ہوا تو انہوں نے بھی اس نیکی کے عمل کو دہرانا شروع کر دیا۔ وہ مفلس اور غریب صحابہؓ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اس نیکی کا ان صحابہ کو بھی علم ہو گیا ہے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب المساجد)

پس ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی تعلیم کو اپنوں میں اُ جاگر کریں اور صحابہؓ کی تقلید میں مسابقت الیٰ الخیر کی عادت اپنے اندر اور اپنی نسل کے اندر راسخ کرنے کی کوشش کریں۔ نیکیاں تو اور بھی بہت ہیں ان سب کی فہرست بنا کر نہ صرف خود عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے بلکہ مسابقت کی رو سے دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 ستمبر 2022