• 18 مئی, 2024

جماعت احمدیہ کا نظام (خلافت قسط 4)

جماعت احمدیہ کا نظام خلافت
قسط 4

سوال نمبر9:۔ بعض لوگ ایک حدیث سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ خلفاء قریش میں سے ہوں گے۔

جواب:۔ حضرت مرزا بشرؓ احمد صاحب ایم۔اے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ’’سیرۃ خاتم النبیین‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’دلیل جو اس خیال کو غلط ثابت کرتی ہے یہ ہے کہ اسلام میں اصولاً قومی یا نسلی خصوصیات کودینی یا سیاسی حقوق کی بنیادتسلیم نہیں کیا گیا۔ بالفاظ دیگر اسلام میں ان معنوں کے لحاظ سے کوئی ذاتیں نہیں کہ فلاں ذات کو یہ حقوق حاصل ہوں گے اور فلاں کویہ بلکہ اس میں ذاتوں اور قوموں کو صرف تعارف اور شناخت کا ایک ذریعہ رکھا گیا ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ
… وَجَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ

یعنی اے مسلمانو! تمہارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ایک قوم دوسری قوم پراپنی بڑائی بیان کرے یا دوسری قوم کو اپنے سے نیچا سمجھے۔ کیونکہ تمہیں کیا معلوم ہے کہ خدا کی نظروں میں کون بڑا ہے۔۔۔ اور ہم نے جو تمہیں دنیا میں قوموں اور قبائل کی صورت میں بنایا ہے تو اس کی غرض صرف یہ ہے کہ تم آپس کی شناخت اور تمیز میں آسانی پاؤ۔ یہ نہیں کہ تم اس تفریق پر کسی قسم کی بڑائی یا خاص حقوق کی بنیاد سمجھو۔ کیونکہ خدا کی نظر میں سے بڑا وہ ہے جو خدائی قانون کی زیادہ اطاعت اختیار کرتا ہے۔خواہ وہ کوئی ہو۔‘‘

اس واضح اور غیر مشکوک اصولی تعلیم کے علاوہ قرآن شریف خاص خلافت وامارت کے سوال میں بھی قومی یا خاندانی حق کے خیال کو رد کرتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ وَاِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ

یعنی ’’خداتعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ باگ دوڑ صرف اہل لوگوں کے سپرد کیا کرو (خواہ وہ کوئی ہوں) اور جولوگ امیر منتخب ہوں انہیں چاہیئے کہ اپنی حکومت کو عدل وانصاف کے ساتھ چلائیں‘‘۔

اس آیت میں خلیفہ یا امیر کے لئے صرف یہ شرط رکھی گئی ہے کہ وہ حکومت کا اہل ہواورا س کے علاوہ کوئی اور شرط نہیں لگائی گئی جو اس بات کی یقینی دلیل ہے کہ اسلام میں خلیفہ یا امیر کے لئے اہلیت کے سوا کوئی شرط نہیں ہے۔اسی طرح حدیث میں آنحضرتﷺ فرماتے ہیں:

عَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ قَالَ اِسْمَعُوْاوَاَطِیْعُوْاوَاِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌحَبَشِیٌ

یعنی حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اے مسلمانو! اگر تم پر حبشی غلام بھی امیر بنادیا جاوے تو تمہارا فرض ہے کہ اس کی اطاعت کرو۔

اگر اسلام میں امیر کا قریشی ہونا ضروری تھا تو آنحضرتﷺ کا یہ ارشاد بے معنی قرار پاتا کہ تم ہر امیر کی فرمانبرداری کرو خواہ وہ کیسا ہی ہو۔الغرض کیا بلحاظ اصول کے اور کیا بلحاظ تخصیص کے یہ بات بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ اسلام میں حکومت اور خلافت کو کسی خاص قوم کے ساتھ وابستہ کردیاگیا ہے اور اسلامی تعلیم کی روح اس خیال کودور سے دھکے دیتی ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ پھر ان احادیث کا کیا مطلب ہے جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خلفاء ائمہ قریش میں سے ہوں گے۔ سو ان احادیث پر ایک ادنیٰ تدبر بھی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ یہ ایک پیشگوئی تھی نہ کہ حکم یا سفارش یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے ذریعہ اور بہت سی باتوں کا اظہار فرمایا تھا جو آئندہ ہونے والی تھی اسی طرح خلفاء آپ کے بعد ہونے والے تھے ان کے متعلق آپ کو یہ علم دیا گیا تھا کہ وہ قبیلہ قریش میں سے ہوں گے اور پیشگوئی کی صورت میں قطعاً کوئی اعتراض نہیں رہتا کیونکہ بہرحال خلفاء نے کسی نہ کسی قوم یا قبیلہ میں سے ہونا تھا اور اس وقت کے حالات کے ماتحت وہ سب کے سب قریش میں سے ہوئے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔۔۔اس زمانہ میں قریش کو دوسرے قبائل عرب پر ایک حقیقی اور یقینی فوقیت حاصل تھی اور انہیں چھوڑ کر کسی دوسرے قبیلہ میں عنان حکومت کا جانا ملک کے لئے سخت ضرررساں تھا کہ اسلام نے قریش کو ہمیشہ کے لئے حکومت کا ٹھیکہ دے دیا تھا۔ چنانچہ اگر ایک طرف آنحضرتﷺکا یہ قول مروی ہوا ہے کہ میرے بعد خلفاء وائمہ اسلام قریش میں سے ہوں گے تو دوسری طرف آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ بالآخر قریش حکومت کی اہلیت کو کھو بیٹھیں گے اور اسلام کی حکومت کوتباہ وبرباد کرنے کا موجب بن جائیں گے۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ ﷺھَلَکَۃُ اُمَّتِیْ عَلیٰ اُمَّتِی عَلیٰ یَدَیْ غِلْمَۃٍ مِّنْ قُرَیْشٍ یعنی ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ فرمایا کرتےتھے کہ میری امت کی تباہی بالآخر قریش کے نوجوانوں کے ہاتھوں سے ہوگی۔

یعنی جب قریش کی حالت خراب ہو جائے گی اور وہ حکومت کے اہل نہیں رہیں گے تو پھر اس کے بعد ان کے ہاتھ میں حکومت کا رہنا بجائے رحمت کے زحمت ہو جائے گااور بالآخر قریش ہی کے ہاتھوں سے اسلامی حکومت کی تباہی کا سامان پیدا ہو جائے گا۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اور یہ جو بعض حدیثوں میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺفرمایا کرتے تھے کہ قریش کی امارت قیامت تک رہے گی۔اس سے بھی یہ مراد ہے کہ امت اسلامی کی تباہی تک قریش برسرحکومت رہیں گے اور پھر بالآخر انہیں کے ہاتھوں سے تباہی کا بیج بویا جا کر اسلام میں ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے گا۔خلاصہ کلام یہ کہ قرآن واحادیث کے مجموعی مطالعہ سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ قریش کی امارت وخلافت کے متعلق آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے اس سے محض پیشگوئی مراد ہے،حکم یا سفارش مراد نہیں اور پھر یہ پیشگوئی بھی معیادی اثر رکھتی ہے یعنی اسلام کے دور اول کے ساتھ مخصوص تھی اور آپؐ کا منشاء یہ تھا کہ چونکہ اس وقت حکومت کی اہلیت سب سے زیادہ قریش میں ہے اس لئے آپ ؐکے بعد وہی برسرحکومت واقتدار رہیں گے۔ لیکن جب ایک عرصہ کے بعد وہ اس اہلیت کو کھو بیٹھیں گے تو پھر اس وقت امت محمدیہ پر ایک انقلاب آئے گااور اس کے بعد ایک نئے دور کی داغ بیل قائم ہو جائے گی۔ الغرض یہ بات درست نہیں ہے کہ اسلام نے حکومت کے حق کو کسی خاص خاندان یا قوم کے ساتھ محدود کر دیا ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اسلام میں حکومت انتخاب سے قائم ہوتی ہے اور انتخاب میں ہر شخص کے لئے دروازہ کھلا رکھا گیا ہے۔

(سیرۃ خاتم النبیین ازحضرت مرزا بشیر احمدؓ ایم۔اے صفحہ 644-647)

خلیفہ سے غلطی کا امکان

سوال نمبر10:۔ ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیاخلیفہ کوئی غلطی کرسکتا ہے؟

جواب:۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓبیان فرماتے ہیں:
’’میں اس بات کا قائل نہیں کہ خلیفہ کوئی غلطی نہیں کرسکتا۔ مگر اس بات کا قائل ہوں کہ کوئی ایسی غلطی نہیں کرسکتا جس سے جماعت تباہ ہو۔۔۔مگر سب کاموں میں غلطی نہیں کرسکتا اور اگر وہ کوئی ایسی غلطی کربھی بیٹھے جس کا اثر جماعت کےلئے تباہی خیز ہو تو خداتعالیٰ اس غلطی کو بھی درست کردے گا اس کے نیک نتائج پیدا ہوں گے۔یہ عصمت کسی اور جماعت یا کسی اور مجلس کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ میں مانتا ہوں کہ خلفاء غلطی کرتے رہے اوراب بھی کرسکتے ہیں۔ بعض اوقات میں فیصلہ کرتاہوں جس کے متعلق بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ غلطی ہوئی ہے۔

مگر سوال یہ ہےکہ غلطی سے زیادہ محفوظ کون ہے؟ اجتہادی اور سیاسی غلطیاں رسول سے بھی ہوسکتی ہیں۔ پھر خلیفہ ایسی غلطیوں سے کس طرح بچ سکتا ہے۔

نبی اجتہاد کی غلطی کرسکتا ہے۔ بحیثیت فقیہ غلطی کرسکتا ہے۔بحیثیت بادشاہ غلطی کرسکتا ہے۔ لیکن بحیثیت نبی غلطی نہیں کرسکتا۔ اور وہ باتیں جو نبی سے بحیثیت فقیہ اور بحیثیت حاکم تعلق رکھتی ہیں۔خلفاء ان میں نبی کے وارث ہوتے ہیں۔ خلفاء نبی کی ہر بات کے وارث ہوتے ہیں۔ سوائے نبوت کے اور جو احکام نبوت کے سوا نبی کے لئے جاری ہوتے ہیں وہی خلیفہ کے لئے جاری ہوتے ہیں۔۔۔۔

بیشک خلفاء غلطی کرسکتے ہیں۔مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ان کے آگے سرتسلیم خم نہ کیاجائے تو کوئی جماعت جماعت نہیں رہ سکتی۔ پس خلیفہ بھی غلطی کرسکتا ہے اور تم بھی غلطی کرسکتے ہو۔مگر فرق یہی ہے کہ خلیفہ کی خطرناک غلطی کی خداتعالیٰ اصلاح کردے گا۔ مگر آپ لوگوں سے خدا کا یہ وعدہ نہیں ہے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1925ء)

بعض لوگوں کے نزدیک خلیفہ وقت کی غلطی کا امکان یا کسی خلیفہ سے اجتہادی یا سیاسی امر میں کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اس میں اس کی اطاعت واجب نہیں۔اگر کبھی کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے تو پھر بھی خلیفہ کی اطاعت لازم ہے۔ چنانچہ حضرت اسمٰعیل شہیدؒ منصب امامت میں تحریر کرتے ہیں:
’’اسی بناء پر علمائے امت نے اطاعت امام کو غیر منصوصہ مقام میں صحت قیاس پر موقوف نہیں رکھا بلکہ اس کی اطاعت کے باوجود اس کے ضعیف قیاس کو بھی واجب جانا ہےا ور اس کے مخالف کو اگرچہ اس کا قیاس امام کے قیاس سے اظہر اور قوی ہو،جائز نہیں رکھا اور اس میں راز یہی ہےکہ اس کا حکم بذاتہٖ اصول دین سے ایک اصل ہے اور ادلّہٴ شرعیہ سے ایک دلیل ہے جو صحیح قیاس سے قوی ہے۔اگرچہ فی الحقیقت کسی اور کے قیاس سے مستنبط ہو۔لیکن دوسرے کا قیاس اگرچہ صحیح ہو، ظنی ہے اور یہ حکم اگرچہ بنفس الامر قیاس سے مستند ہو لیکن قطعی ہے۔مثال اس کی یہ ہے کہ اجماع صحت قطعیہ ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مستند اجماع نفس الامر میں ایک قیاس ہوتا ہے یا خبر غیر مشہور اور وہ بھی ظنی ہے‘‘

(منصب امامت صفحہ149-150 از شاہ اسمٰعیل شہید ایڈیشن دوم 1969ء نقوش پریس لاہور)

ہاں اگر خلیفہٴ وقت سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہوجو نص صریح کے خلاف ہو توپھر بھی حکم یہ ہے کہ ادب کے ساتھ اس معاملہ کو خلیفہ ٴوقت کی خدمت میں پیش کرکے خاموشی اختیار کرلی جائے۔ نہ تواس امر کو عوام الناس میں زیر بحث لانے کی اجازت ہے اور نہ ہی خلیفہٴ وقت کے ساتھ بحث و جدال کا طرز عمل اپنایا جائے بلکہ تسلی نہ ہونے کی صورت میں بھی خاموشی اختیار کرلی جائے۔ اس سلسلہ میں بھی حضرت شاہ اسمٰعیل شہید ؒ ہماری راہنمائی فرماتے ہیں:
’’امام کا حکم نص حکمی ہے۔یعنی جس وقت مجتہدین کا اجتہاد اور قیاس آراؤں کا قیاس نص قطعی کے مقابل ہوتا ہے تو بیشک پایہٴ اعتبارسے ساقط ہوجاتا ہے۔یعنی مذکورہ امور پر مخالفت کی نص کی صورت میں ہرگز قابل عمل نہیں رہتا۔ ایسے ہی جب مذکورہ امور امام یا اس کے نائب کے حکم کے متعارض ہوں تو پایہٴ اعتبار ساقط ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ جس وقت مواضع اختلاف اور مسائل اجتہاد میں امام کا حکم دو جانب میں سے ایک جانب متوجہ ہوتو ہر مجتہد، مقلد، عالم، عامی، عارف اور غیر عارف پر واجب العمل ہوگا۔ کسی کو اس کے ساتھ اپنے اجتہاد یا مجتہدین سابقین کے اجتہاد یا اپنے الہام یا شیوخ متقدمین کے الہام سے تعرض نہیں ہوسکتا۔جو کوئی حکم امام کی مخالف کرے اور مذکورۃ الصدر امور کے خلاف عمل کرے تو بیشک عنداللہ عاصی اور گہنگارہے اور عذر اس کا حضور رب العالمین و حضور انبیائے مرسلین و مجتہدین میں قابل قبول نہ ہوگا اور یہ مسئلہ اجماعی ہے کہ اہل اسلام سے کسی کو اس کے ساتھ اختلاف نہیں ہے۔

(منصب امامت صفحہ146-147 از شاہ اسمٰعیل شہیدؒ ایڈیشن دوم1996ء نقوش پریس لاہور)

خلیفہ وقت کے ساتھ اختلاف

سوال نمبر 11:۔ کیا خلیفہٴ وقت کے ساتھ اختلاف کیا جاسکتا ہے؟

جواب:۔ خلیفہٴ وقت کے ساتھ اختلاف رکھنے کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ ارشاد فرماتے ہیں:
’’خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ کے منہ سے کوئی بات نکلے اس وقت سب اسکیموں، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیاجائے کہ اب وہی اسکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔جب تک یہ روح جماعت میں پیدانہ ہو اس وقت تک سب خطبات رائیگاں،تمام اسکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت محسوس کرے کہ خلیفہ ٴوقت جو کچھ کہتا ہے اس پرعمل کرناضروری ہے اگر تو وہ سمجھتی ہے کہ خلیفہ نے جو کچھ کہا وہ غلط کہا اور اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکل سکتا تو جو لوگ یہ سمجھتے ہوں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ خلیفہ کو سمجھائیں اور اس سے ادب کے ساتھ تبادلہ خیالات کریں۔لیکن اگر یہ نہیں کرسکتے۔تو پھر ان کا فرض ہے کہ وہ اس طرح کام کریں جس طرح ہاتھ دماغ کی متابعت میں کام کرتا ہے۔ہاتھ کبھی دماغ کو سمجھاتا بھی ہے کہ ایسا نہ کرو،مثلاً دماغ کہتا ہے فلاں جگہ مکا مارو ہاتھ مکا مارتا ہے تو آگے وہ ذرہ سی سختی محسوس کرتا ہے اور ہاتھ کو درد ہوتا ہے۔ اس پر دماغ سے کہتاہے کہ اس جگہ مکا نہ مروائیں۔یہاں تکلیف ہوتی ہے اور دماغ اس کی بات مان لیتا ہے۔ اسی طرح جماعت میں سے ہر شخص کا حق ہے کہ اگر وہ خلیفہ ٴوقت سے کسی بات میں اختلاف رکھتا ہے تووہ اسے سمجھائے اور اگراس کے بعد بھی خلیفہ اپنے حکم یا اپنی تجویز کو واپس نہیں لیتا تواس کاکام ہے کہ وہ فرمانبرداری کرے اور یہ تو دینی معاملہ ہے۔دنیوی معاملات میں بھی افسروں کی فرمانبرداری کے تاریخ میں ایسے ایسے واقعات آتے ہیں کہ انہیں پڑھ کر طبیعت سرور سے بھرجاتی ہے۔‘‘

(الفضل قادیان 31جنوری 1936ء)

اسی طرح ایک دوسرے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:
’’میں نے متواتر جماعت کو بتایا ہے کہ خلافت کی بنیاد محض اور محض اس بات پر ہے کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرآئِہٖ یعنی امام ایک ڈھال ہوتا ہے اور مومن اس ڈھال کے پیچھے سے لڑائی کرتا ہے۔مومن کی ساری جنگیں امام کے پیچھے کھڑے ہوکر ہوتی ہیں۔اگر ہم اس مسئلہ کو ذر ابھی بھلادیں۔اس کی قیود کو ڈھیلا کردیں اور اس کی ذمہ داریوں کو نظر انداز کردیں۔ تو جس غرض کے لئے خلافت قائم ہے۔وہ مفقود ہوجائے گی۔میں جانتا ہوں کہ انسانی فطرت کی کمزوریاں کبھی کبھی اسے اپنے جوش اور غصہ میں اپنے فرائض سے غافل کردیتی ہیں۔پھر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کبھی انسان ایسے اشتعال میں آجاتاہے کہ وہ یہ نہیں جانتا کہ میں مونہہ سے کیا کہہ رہاہوں۔مگر بہرحال یہ حالت اس کی کمزوری کی ہوتی ہے نیکی کی نہیں اور مومن کا کام یہ ہے کہ کمزوری کی حالت کو مستقل نہ ہونے دے اور جہاں تک ہوسکے۔اسے عارضی بنائے۔بلکہ بالکل دورکردے۔اگر ایک امام اور خلیفہ کی موجودگی میں انسان یہ سمجھے کہ ہمارے لئے کسی آزاد تدبیر اور مظاہرہ کی ضرورت ہے۔ تو پھر خلیفہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔امام اور خلیفہ کی ضرورت یہی ہے کہ ہر قدم جو مومن اٹھاتا ہے۔اس کے پیچھے اٹھاتا ہے۔ اپنی مرضی اورخواہشات کو اس کی مرضی اور خواہشات کے تابع کرتاہے۔ اپنی تدبیروں کو اس کی تدبیروں کے تابع کرتا ہے۔اپنے ارادوں کواس کے ارادوں کے تابع کرتاہے۔ اپنی آرزوؤں کو اس کی آرزوؤں کے تابع کرتا ہے اور اپنے سامانوں کو اس کے سامانوں کے تابع کرتاہے۔اگر اس مقام پر مومن کھڑے ہوجائیں توا ن کےلئے کامیابی اور فتح یقینی ہے۔‘‘

(الفضل قادیان 4ستمبر 1937ء)

اسی طرح ایک دوسرے موقع پر فرمایا:
’’ایک شخص جو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اسے سمجھنا چاہئے کہ خلفاء خدا مقرر کرتا ہے اور خلیفہ کا کام دن رات لوگوں کی راہنمائی اور دینی مسائل میں غور وفکر ہوتا ہے اس کی رائے کا دینی مسائل میں احترام ضروری ہے اور اس کی رائے سے اختلاف اسی وقت جائز ہوسکتا ہے جب اختلاف کرنے والے کو ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہوجائے کہ جو بات وہ کہتا ہے وہ دوست ہے۔پھر یہ بھی شرط ہے کہ پہلے وہ اس اختلاف کو خلیفہ کے سامنے پیش کرے۔۔۔۔نہ کہ خود ہی اس کی اشاعت شروع کردے۔۔ ۔اگر کوئی شخص اس طرح نہیں کرتا اور اختلاف کو اپنے دل میں جگہ دے کر عام لوگوں میں پھیلاتا ہے تو وہ بغاوت کرتا ہے اسے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔‘‘

(منہاج الطالبین لیکچر حضرت مصلح موعودؓ انوار العلوم جلد9 صفحہ162)

پس اگر کبھی واجب الاطاعت خلیفہ کے احکام اور ارشادات کے ساتھ کسی چیز کا مقابلہ آپڑے۔تو پھر تمام فرمانبرداریوں اور اطاعتوں کاخاتمہ۔ تمام عہدوں اور شرطوں کی شکست تمام رشتوں اور تعلقات کا انقطاع تمام دوستیوں اور محبتوں کا اختتام ہوگا صرف اور صرف خلیفہ کی ا طاعت مومن کو مدنظر ہوگی کیونکہ اس کی اطاعت کی مخالفت میں کوئی اطاعت نہ ہوگی۔اس وقت نہ باپ باپ ہے نہ افسر افسر ہے۔نہ بھائی بھائی ہے۔ نہ دوست دوست ہے نہ رشتہ دار رشتہ دارہے کیونکہ سب رشتے ٹوٹ گئے۔

سب تعلقات منقطع ہوگئے۔ رشتہ دراصل ایک ہی تھا اور یہ سب رشتے اسی ایک رشتہ کی خاطر تھے۔

پس خلیفہ کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور جو خدا کی اطاعت کا جوا اپنی گردن سے اتارنے کی کوشش کرتا ہے وہ دین ودنیا میں ناکام و نامراد رہتاہے۔

خلافت سے معزولی

سوال نمبر12:۔ کیا خلافت سے معزولی جائز ہے؟

ایک سوال یہ اٹھایا جاتاہے کہ اگر کوئی خلیفہ کسی بیماری یا عارضہ یابعض غیر معمولی حالات کی وجہ سے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے قابل نہ رہے تو کیا اس صورت میں خلیفہ وقت کومعزول کرکے کسی نئے خلیفہ کا انتخاب یاتقرر ہوسکتاہے؟

جواب:۔ اس سوال کاجواب یہ ہےکہ جب قرآن کریم،احادیث صحیحہ،اقوام خلفاء راشدہ وصلحاء امت اور خدا کی فعلی شہادت سے یہ ثابت ہوگیا کہ خلیفہ خدا بناتا ہےتوپھر کسی دوسرے کو کوئی حق نہیں کہ وہ کسی خلیفہ راشدکو کسی بھی وجہ سے معزول کردے۔خلیفہ نبی کا جانشین اور قائمقام ہوتا ہے۔جب نبی معزول نہیں ہو سکتاتو اس کا قائمقام اور جانشین کیسے معزول ہوسکتا ہے؟کیونکہ یہ ایک روحانی منصب ہے جوتا قیامت جاری رہتا ہے۔

آنحضرتؐ کی ایک حدیث جس میں آپ نے حضرت عثمانؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ:

اِنَّ اللّٰہَ یُقَمِّصُکَ قَمِیْصًا فَاِنْ اَرَادَکَ الْمُنَافِقُوْنَ عَلیٰ خِلْعِہٖ فَلَا تَخْلَعْہُ اَبَدًا۔

(تاریخ طبری حصہ سوم صفحہ482 ازابی جعفر محمدبن جریر الطبری)

یعنی اے عثمان! یقیناً تجھے اللہ تعالیٰ ایک قمیص پہنائے گا اگر منافق اس قمیص کو اتارنے کی کوشش کریں تو ہرگز ہرگز نہ اتارنا۔

پس اس حدیث سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خلیفہ معزول نہیں کیا جاسکتا۔یہ عہد روحانی ہے،جس سے کسی کو ہٹانے کا کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں۔

اس سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’خدا نے جس کام پر مجھے مقررکیا ہے میں بڑے زور سے خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اب میں اس کُرتے کو ہرگز نہیں اتار سکتا۔اگر ساراجہان بھی اور تم بھی میرے مخالف ہو جاؤ تو میں تمہاری بالکل پرواہ نہیں کرتااور نہ کروں گا۔خدا کے مامور کا وعدہ ہے اور اس کا مشاہدہ ہے کہ وہ اس جماعت کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔اس کے عجائبات قدرت بہت عجیب ہیں اور اس کی نظر بہت وسیع ہے۔تم معاہدہ کا حق پورا کروپھر دیکھو کس قدر ترقی کرتے ہواور کیسے کامیاب ہوتے ہو۔‘‘

(خطبات نور صفحہ419)

مزید فرماتے ہیں:
’’پس جب میں مرجاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہوگا جس کوخداچاہے گا۔خدا اس کو آپ کھڑا کردےگا۔۔۔۔تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں تم خلافت کا نام نہ لومجھے خدا نے خلیفہ بنادیا ہےاوراب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہوسکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے۔اگر تم زیادہ زور دوگے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزادیں گے۔‘‘

(بدر 4جولائی 1912ء)

حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ اس مسئلہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’خلیفہ خدا ہی بناتا ہے اور اس کی طاقت ہے کہ معزول کرے۔ کسی انسان میں نہ خلیفہ بنانے کی طاقت ہے نہ معزول کرنے کی۔‘‘

(آئینہ صداقت، انوارالعلوم جلد6 صفحہ168)

اسی طرح فرمایا:
’’اس کا جواب یہ ہے کہ گو خلیفہ کا تقرر انتخاب کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن آیت کی نص صریح اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ امت کو اپنے فیصلہ کا اس امر میں ذریعہ بناتا ہے اور اس کے دماغ کو خاص طور پر روشنی بخشتاہےلیکن مقرر اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ کہ وہ خود ان کو خلیفہ بنائے گا۔پس گو خلفاء کا انتخاب مومنوں کے ذریعہ سے ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا الہام لوگوں کے دلوں کو اصل حقدار کی طرف متوجہ کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ایسے خلفاء میں میں خاصیتیں پیدا کردیتا ہوں اور یہ خلفاء ایک انعام الٰہی ہوتے ہیں۔ پس اس صورت میں اس اعتراض کہ تفصیل یہ ہوئی کہ کیا امت کو حق نہیں کہ وہ اس شخص کو جوکامل موحد ہے جس کے دین کو اللہ تعالیٰ نے قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لئے خدا نے تمام خطرات کو دور کرنے کا وعدہ کیا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ شرک کو مٹانا چاہتا ہے اور جس کے ذریعہ سے وہ اسلام کو محفوظ کرنا چاہتا ہے معزول کردے۔ایسے شخص کوتوشیطان کے چیلے ہی معزول کریں گے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ اس جگہ وعدہ کا لفظ ہے اور وعدہ احسان پر دلالت کرتا ہے۔ پس اس اعتراض کے معنی یہ ہوں گے کہ چونکہ انعام کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے امت کے ہاتھ میں رکھا ہے اسے کیوں حق نہیں کہ وہ اس انعام کو ردکر دے۔ ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ استنباط بدترین استنباط ہے، جو انعام منہ مانگے ملے اس کا رد کرنا تو انسان کو اور بھی مجرم بنا دیتا ہے اور اس پر شدید حجت قائم کردیتا ہے۔اللہ تعالیٰ توفرمائے گا کہ اے لوگو!میں نے تمہاری مرضی پر چھوڑا اور کہا کہ میرے انعام کو کس صورت میں لینا چاہتے ہو؟ تم نے کہا ہم اس انعام کو فلاں شخص کی صورت میں لینا چاہتے ہیں اور میں نے اپنے فضل اس شخص کے ساتھ وابستہ کردئیے۔جب میں نے تمہاری بات مان لی تو اب تم کہتے ہو کہ ہم اس انعام پر راضی نہیں۔اب اس نعمت کے اوپر میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ اسی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ
وَ مَنْ کَفَرَ بَعْدَذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ یعنی انتخاب کے وقت تو ہم نے امت کو اختیار دیا ہے مگر چونکہ اس انتخاب میں ہم امت کی راہبری کرتے ہیں اور چونکہ ہم اس شخص کو اپنا بنا لیتے ہیں اس کے بعد امت کا اختیار نہیں ہوتا اور جو شخص پھر بھی اختیار چلانا چاہے تو یاد رکھے وہ خلیفہ کا مقابلہ نہیں کرتا بلکہ ہمارے انعام کی بے قدری کرتاہے۔پس وَ مَنْ کَفَرَ بَعْدَذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ اگر انتخاب کے وقت وہ اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتَ کی فہرست سے کاٹ کر فاسقوں کی فہرست میں لکھا جائے گا۔

(خلافت راشدہ573-576، انوارالعلوم جلد15 از فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)

ایک دوسرے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’اب کون ہے جو مجھے خلافت سے معزول کرسکے۔ خدانے مجھے خلیفہ بنایا ہے اور خداتعالیٰ اپنے انتخاب میں غلطی نہیں کرتا ہے۔اگر سب دنیا مجھے مان لے تو میرے خلاف بڑی نہیں ہوسکتی اور سب کے سب خدانخواستہ مجھے ترک کردیں تو بھی خلافت میں فرق نہیں آسکتا۔جیسے نبی اکیلا بھی نبی ہوتا ہے اس طرح خلیفہ اکیلا بھی خلیفہ ہوتا ہے۔پس مبارک ہے وہ جو خدا کے فیصلہ کو قبول کرے۔خداتعالیٰ نے جو بوجھ مجھ پررکھا ہے وہ بہت بڑا ہے اور اگر اسی کی مدد میرے شامل حال نہ ہو تو میں کچھ بھی نہیں کرسکتالیکن مجھے اس پاک ذات پر یقین ہے کہ وہ ضرور میری مدد کرے گا۔‘‘

(الفضل 14 مارچ 1931ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ خلیفہ کی معزولی کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ:
’’اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ ان تمام جہانوں کااصل اور حقیقی مالک تو خداتعالیٰ ہی کی ذات ہے جس نے انہیں پیدا کیااور جس کے قبضہ اقتدار سے وہ باہر نہیں لیکن اس کی ملکیت کو اس نے ایک طور پر اور نیابت کے رنگ میں آگے بحیثیت مجموعی انسان کے سپرد کیاہے۔پس اسلامی لحاظ سے ملکیت دوقسم کی ہے۔اصلی اور حقیقی ملکیت تو خداتعالیٰ کی ہے مگر ظلی ملکیت اور تنفیذی حکومت بطور نائب کے بنی نوع انسان کی ہے۔پس چونکہ ملکیتیں دوقسم کی ہیں،حقیقی اور ظلی۔اس لئے آگے نائب بنانے کے بھی دو ہی طریق ہوسکتے ہیں۔ایک مالک کابنایا ہو انائب ہوگایعنی نبی اللہ اور وہ نائب ہوگا جسے نوع انسان نے اپنانائب بنایا ہویعنی حاکم وقت۔لیکن اسلام نے نیابت کی ایک تیسری صورت بھی پیش کی ہے اور وہ دونوں قسم کے مالکوں کی مشترکہ نیابت پر دلالت کرتی ہےاورا سی کو اسلامی اصطلاح میں خلیفہ کہتے ہیں۔ایک جہت سے وہ مالک حقیقی کابنایا ہوا نائب ہوتاہےاور ایک جہت سے وہ ظلی مالکوں یعنی بندوں کا تسلیم کردہ حاکم ہوتا ہے۔پس خلافت کے متعلق اسلامی نظریہ یہ ہے کہ خلیفہ بناتا تو خدا ہی ہے لیکن اس انتخاب اور تعین میں وہ امت مسلمہ کو بھی اپنے ساتھ شریک کرتا ہے۔یعنی خد اتعالیٰ کی طرف سے یہ انتخاب بالواسطہ ہوتا ہےاوریہ واسطہ وہ امت مسلمہ ہے جو مضبوطی کے ساتھ اپنے ایمانوں پرقائم اور اپنے ایمان کے مطابق اعمال صالحہ بجالانےوالی ہو۔یعنی امت مسلمہ کے دلوں پر تصرف کر کے اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق خلیفہ کا انتخاب کرواتا ہے۔

اس سے ظاہر ہے کہ جب خلیفہ کا انتخاب امت مسلمہ کی رائے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہو چکے تو پھر امت مسلمہ کو یہ حق نہیں رہتا کہ وہ اس خلیفہ کو اپنی مرضی سے معزول کرسکے۔اس لئے کہ یہ ایک مذہبی انتخاب تھا جو اللہ تعالیٰ کی خاص نگرانی کے تحت کیاگیا اور اس انتخاب میں الہٰی تصرف کا ہاتھ تھا اور جسے خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہو اسے کوئی انسان معزول نہیں کرسکتا۔پس اللہ تعالیٰ نے خلفاء راشدین کے عزل کو خود اپنے ہاتھ میں رکھا۔جب بھی وہ دیکھے خلیفہ بدلنے کی ضرورت ہے وہ خود اسے وفات دےد ے گااور اپنی مرضی اور تصرف کے مطابق امت مسلمہ کے ذریعہ نئے خلیفہ کا انتخاب کروادےگا۔پس روحانی خلفاء بندوں کے ہاتھوں معزول نہیں ہوسکتےاور جو ایسا سمجھے اس کے اندر نفاق اور بے حیائی کامادہ ہے۔۔۔۔

ایک خلیفہ کی زندگی میں نئی خلافت کے متعلق سازشیں کرنا یا منصوبے باندھنا یا باتیں پھیلانا یا اس ضمن میں کسی شخص کا نام لینا خواہ وہ شخص پسندیدہ ہویا غیر پسندیدہ اسلامی تعلیم کے حددرجہ خلاف اور انتہائی بے شرمی اور بے حیائی کی بات ہے اور پاکباز مومن اس قسم کی منافقانہ اور خبیثانہ باتوں سے ہمیشہ پرہیز کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کا وہم اور خیال بھی اس کے ذہن میں نہیں آتا اور اگر کسی منافق طبع کو اس قسم کی بات کرتے سنتے ہیں تو سختی سے ایسے شخص کی بازپرس کرتے ہیں۔‘‘

(بحوالہ ماہنامہ انصاراللہ ربوہ اپریل 1964ء صفحہ28-29)

(آخری قسط آئندہ بروز ہفتہ ان شاءاللہ)ٰ

(ابو ہشام بن ولی)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 ستمبر 2022