• 18 مئی, 2024

اپنے جائزے لیں (قسط 6)

اپنے جائزے لیں
از ارشادات خطبات مسرور جلد 7
قسط 6

ہر ایک مومن رات کو جائزہ لے کہ کون کون سی نیکیاں اور برائیاں اس نے کی ہیں

• اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے اور اس کا رحم اور بخشش مانگنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا تو پھر ایمان میں یہ ترقی ہوتی ہے جو کافی ہوتی ہے اور عبادات اور نیک اعمال کی طرف پھر توجہ پیدا ہو گی۔ ورنہ اگر یہ خیال ہو کہ صرف آیات پڑھ لینا کافی ہے تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمانے کے بعد کہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالا جاتا پھر یہ کیوں کہا کہ لَھَا مَاکَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَااکْتَسَبَتْ۔ یعنی انسان اگر اچھا کام کرے گا تو اس کا فائدہ اٹھائے گا اور اگر برا کام کرے گا تو نقصان اٹھائے گا۔ صرف آیت کے یا ان آیات کے الفاظ دوہرا لینے سے تو مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ یہاں توجہ اس طرف کروائی کہ اپنی عبادتوں اور اپنے اعمال پر ہر وقت نظر رکھنی پڑے گی اور جب یہ توجہ ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی اپنے بندے پر پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ کے بندے کی ایمان میں ترقی اسے اللہ تعالیٰ کے قریب کر رہی ہو گی اور اس کی بخشش کا سامان کرے گی نہ کہ پھر جس طرح عیسائی کہتے ہیں اس کو کسی کفارے کی ضرورت ہوگی۔ پس روزانہ پھرجس طرح یہ آیت پڑھنے سے نیکیوں کے کمانے کی طرف توجہ رہے گی۔ ایک مومن رات کو جائزہ لے گا کہ کون کون سی نیکیاں مَیں نے کی ہیں اور کون کون سی برائیاں کی ہیں۔ پھر اگر نیکیوں کی زیادہ توفیق ملی ہو گی، اگر شام نے یہ گواہی دی ہو گی کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا تو شکر گزاری کے جذبے کے تحت ایک مومن پھر اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکے گا اور ایک مومن کو کیونکہ نفس کے دھوکے کا بھی خیال رہتا ہے اس لئے وہ پھر خداتعالیٰ سے یہ عرض کرتا ہے کہ اگر میرا جائزہ جو مَیں نے شام کو لیا ہے نفس کا دھوکہ ہے تو پھر بھی مجھ پر رحم کر اور بخش دے اور مجھے نیکیوں کی توفیق دے اور اگر کھلی برائیاں سارے دن کے اعمال میں نظر آ رہی ہیں تو پھر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور بخشش اور رحم کے لئے ایک مومن جھکتا ہے۔

(خطبات مسرور جلد7 صفحہ29)

اگر جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے ہمارے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو مزید نکھار کر، چمکا کر پیش کیا

• اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر مفتری ہونے کا نعوذ باللہ الزام لگایا جاتا ہے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا آپؑ نے شریعت میں بدعات پیدا کیں یا اس میں کوئی کمی بیشی کی یا اس کے برخلاف قرآن کریم کی حکومت کو اپنے اوپر لاگو کرنے کا حکم دیا۔ آپؑ کی تحریریں پڑھ لیں۔ ہر جگہ یہ ملے گا کہ قرآن کی حکومت قائم کرو۔ کیا نمازوں میں کوئی کمی کی یا کسی اور رکن اسلام میں کوئی کمی کی؟یا سنت رسول اللہ ﷺکی جو باتیں ہم تک تصدیق کے ساتھ پہنچیں، ان میں کوئی کمی یا بیشی کی؟ یا اس کے برخلاف ان تمام چیزوں کو خوبصورت رنگ میں نکھار کر ہمارے سامنے پیش کیا اور اگر جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ ہمارے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو مزید نکھار کر، چمکا کر پیش کیا۔ آپ ؑ تو قرآن کریم کی شریعت جس کو دنیا بھول چکی تھی نئے سرے سے قائم کرنے کے لئے آئے تھے اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آئے تھے۔

(خطبات مسرور جلد7 صفحہ38)

جائزہ لیں کہ ہدایت کے راستے کی دعا مانگنے کے بعد ذاتی رنجشیں تو نہیں

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اِھْدِنَا کی دعا سکھائی ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم َ کہ ہمیں صحیح رستے پر چلا۔ بے شک انسان اپنی ذاتی ترقی کے لئے بھی دعا مانگتا ہے لیکن جب ایک جماعت میں شامل ہو گئے تو ہماری سوچوں اور دعائوں کے دھارے جماعت کو سامنے رکھ کر بھی ہونے چاہئیں۔ اس لئے جب آپ یہ دعا کر رہے ہوں گے تو ذاتی کمزوریاں دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ جب یہ تصور کرکے دعا مانگی جائے گی کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ہمیں سیدھے راستے پر اور کامیابی کے راستے پر اور جلد منزلیں حاصل کرتے چلے جانے والے راستے پر چلاتو اپنا جائزہ بھی انسان لے گا کہ مَیں بحیثیت فرد جماعت اس میں کیا کردار ادا کر رہا ہوں۔ مَیں نے اپنی روحانیت کو کس حد تک بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ حقوق العباد کی ادئیگی کی کس حد تک کوشش کی ہے جب ہم اللہ تعالیٰ سے ’ہمیں ہدایت کے راستے دکھا‘ کی دعا مانگتے ہیں تو پھر ذاتی رنجشیں کیسی؟ ہم نے تو مل کر ان راستوں پر چلنا ہے جہاں ذاتی فائدے بھی حاصل ہو رہے ہوں اور جماعت کی ترقی کے لئے بھی اور اس کی مضبوطی کے لئے بھی کوششیں ہو رہی ہوں۔ ہمیں اپنی روحانی حالتوں کی بہتری کے سامان کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہو رہی ہو۔ اپنی علمی حالتوں کی بہتری کی طرف بھی توجہ پیدا ہو رہی ہو اور اپنی عملی حالتوں کی بہتری کی طرف بھی توجہ پیدا ہو رہی ہو۔ اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق ترقی اور ہدایت کے راستے کھولتا چلا جاتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی (سورۃ محمد: 18) یعنی اور وہ لوگ جو ہدایت پاتے ہیں اللہ ان کو ہدایت میں زیادہ کرتا جاتا ہے۔

(خطبات مسرور جلد7 صفحہ78)

اگر ہم جائزہ لیں تو جہاں جہاں ہماری جماعتیں پنپ رہی ہیں وہاں مخالفین بھی سرگرم ہیں

• اگر ہم جائزہ لیں تو جہاں جہاں ہماری جماعتیں پنپ رہی ہیں وہاں مخالفین بھی سرگرم ہیں۔ سیاسی فائدے بھی اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور مالی فائدے بھی اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں گویا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے ان کے لئے روٹی کے سامان بھی پیدا ہو گئے ہیں، ان کو دنیاوی فائدے پہنچنے شروع ہو گئے ہیں۔ بہرحال یہ ایک فائدہ ہے جو ہر جگہ پہنچ رہا ہوتا ہے۔ اس کا اظہار بھی بعض دفعہ بعض لوگ کر دیتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ تو جب انسانوں میں مُردنی کے آثار دیکھتا ہے تو آسمانی پانی اتارتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’میں وہ پانی ہوں جو آسمان سے آیا وقت پر۔‘‘

(خطبات مسرور جلد7 صفحہ189)

نفس کا جائزہ لینے والا ہی مزکی اور مفلح ہوتا ہے

نفس کی پاکیزگی صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِ (الانبیاء: 50) یعنی جو اپنے ربّ سے غیب میں ہونے کے باوجود ڈرتے ہیں۔ پس جب یہ حالت ہوتی ہے تو ان کی نمازیں بھی اور دوسری عبادتیں بھی اور دوسرے نیک اعمال بھی دل میں خداتعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اس کی رضا کے حصول کے لئے ہوتے ہیں اور جب یہ حالت ہو، جب اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں ہو تو وہ انسان خود اپنے نفس کو پھر کبھی پاک نہیں ٹھہرا سکتا بلکہ ہر نیکی کو جو وہ بجا لاتا ہے اور ہر اس موقع کو جو نیکی بجا لانے کا اس کو میسر آتا ہے خداتعالیٰ کے فضل پر محمول کرتا ہے۔ پس جو اس حالت میں اپنے نفس کا جائزہ لیتے ہوئے اُسے پاک کرنے کی کوشش کرے اور پاک کرنے کی کوشش کرتے ہوئے تقویٰ پرچلتا ہے وہی اللہ تعالیٰ کی نظر میں مُزَکّٰی ہے اور فلاح پایا ہوا ہے۔ اگر نیکیوں کو اپنی کسی خوبی کی طرف منسوب کرے گا تو وہ تزکیہ نفس نہیں ہے۔ پس ایک مومن ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خوف لئے ہوئے ان نیکیوں کی تلاش میں رہتا ہے تاکہ انہیں کرکے، انہیں بجا لا کر، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ان گناہوں سے بچنے کی کوشش کرو گے تو خداتعالیٰ خود تمہاری بدیاں دور کر دے گا اور تمہیں عزت والے مقام میں داخل کرے گا۔ جیسا کہ فرماتا ہے اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَنُدۡخِلۡکُمۡ مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا ﴿۳۲﴾ (النساء: 32) اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو ہم تمہارے سے تمہاری بدیاں دُور کر دیں گے اور نہ صرف بدیاں دُور کر دیں گے بلکہ تمہیں عزت کے مقام میں داخل کریں گے۔

(خطبات مسرور جلد7 صفحہ237)

جائزہ لیں کہ کس حد تک پاک تبدیلیاں کیں ہیں

• روایت میں آتاہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سورۃ البقرہ کی دس آیات پڑھ کر سوئے صبح تک اس کے گھر میں شیطان نہیں آتا۔ (سنن الدارمی کتاب فضائل القرآن باب فضل اول سورۃ البقرہ وآیۃ الکرسی حدیث نمبر 3383) آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ پڑھ لی اور سو گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت کو اور ان آیات کو غور سے پڑھا جائے۔ ان پر غور کیا جائے۔ ان کے معانی پر غور کیا جائے۔ پھر انسان اپنا جائزہ لے اور دیکھے کہ کس حد تک ان پر عمل کرتا ہے، کس حد تک اس میں پاک تبدیلیاں ہیں اور جائزہ لینے کے بعد جو بھی صورت حال سامنے آئے، یہ عہد کرے کہ آئندہ سے یہ پاک تبدیلیاں مَیں اپنے اندر پیدا کروں گا۔پھر یہ چیز ہے جو شیطان سے دُور کرتی ہے۔

(خطبات مسرور جلد7 صفحہ254)

اپنے نفس کا جائزہ حضرت مسیح موعودؑ کے اس فقرہ کی روشنی میں لیں کہ ’’وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنیٰ کو شریک کرنا ظلم ہے‘‘

• پس ایک مومن کے دل میں خوف خدا پیدا ہوتا ہے جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فقرے کو سامنے رکھتے ہوئے کہ ’’وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنیٰ کو شریک کرنا ظلم ہے‘‘، اپنے نفس کا جائزہ لیتا ہے۔ کئی باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں، ہمارے سے روزانہ ہو جاتی ہیں جس میں ہم لاشعوری طور پر بہت سی چیزوں کو خداتعالیٰ کا شریک بنا کر اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا ربّ ہے اور اس کی ربوبیت زمین و آسمان پر پھیلی ہوئی ہے۔ اللہ ہماری ایسی حالتوں کو اپنی مغفرت اور رحم کی صفات سے ڈھانپ لے۔ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚۖ۸۸﴾َ (الانبیاءء: 88) کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے، میں یقینا ظالموں میں سے ہوں۔ پس اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ کی طرف جانے کے لئے یا صحیح راہنمائی حاصل کرنے کے لئے لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ کی دعا بھی بڑی اہم دعا ہے جو پڑھتے رہنا چاہئے۔

(خطبات مسرور جلد7 صفحہ257)

حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے جائزے سے آپ کی زندگی میں آنحضرت ؐ کی جھلکیاں نظر آتی ہیں
• آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق ہی اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق مسلمانوں کی روحانی حالت میں بے انتہا زوال آیا اور اس روحانی زوال سے بعض جگہ مسلمانوں کی دنیاوی حکومتیں بھی متاثر ہوئیں اور ہاتھ سے جاتی رہیں۔ لیکن جیسا کہ خداتعالیٰ کا وعدہ ہے، اسلام ہی وہ دین ہے جو کامل ہے اور تمام انسانیت کے لئے ہے۔ اس لئے اس حالت نے جو اس وقت تھی پھر سنبھالا لینا تھا اور یہ سنبھالا آنحضرت ﷺ کے غلام صادق اور مسیح و مہدی کے ذریعہ سے ہونا تھا تاکہ اسلام ایک نئی شان سے تمام دنیا کے ادیان پر غالب آئے اور دنیا کے وہ کنارے جہاں اسلام کا پیغام نہیں پہنچا تھا وہاں بھی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچے۔

اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے اس مشن کو پورا کرنے کے لئے اور اپنے آخری دین کی تکمیل اشاعت کے لئے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح و مہدی اور آنحضرتﷺکی کامل پیروی اور اتباع میں غیر شرعی نبی کا اعزاز دے کر دنیا میں بھیجا۔ آپؑ کی ابتدائی زندگی کا ہم جائزہ لیں تو ہمیں آپ ؑ کی زندگی میں بھی اپنے آقا و مطاع کی زندگی کے ابتدائی دور کی جھلکیاں نظر آتی ہیں اور اس کے بعد بھی ہر لمحہ یہی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ دنیا سے آپ ؑ کو کوئی سرور کار نہیں تھا۔اگر کوئی خواہش اور آرزو اور عمل تھا تو یہ کہ خدائے واحد کی عبادت میں مشغول رہوں۔ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عشق و محبت میں مخمور رہتے ہوئے آپ پر درود وسلام بھیجتا رہوں اور اس عبادت اور آنحضرت ﷺ سے عشق کا نتیجہ تھا کہ آپ کو مسلمانوں کی دینی اور دنیاوی حالت زار بے چین کر دیتی تھی جس کے لئے آپ ؑ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے کا جوش اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ یہ عشق و محبت ہی تھا جس کی وجہ سے آپ اسلام کے دفاع کے لئے جہاں قرآن کریم کا گہرا مطالعہ فرماتے تھے وہاں دوسرے مذاہب کی کتب کا بھی مطالعہ کرکے قرآن کریم کی برتری ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے اور جہاں بھی آپؑ کو موقع ملتا تھا اسلام کی برتری ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ اور کوئی نام و نمود اور دنیا دکھاوا آپؑ کی جوانی کے دور میں بھی ہمیں نظر نہیں آتا۔ اس کے غیر بھی گواہ ہیں اور اپنے بھی گواہ ہیں۔

(خطبات مسرور جلد7 صفحہ265)

جماعت احمدیہ کے کام کے جائزے پر قبول احمدیت کی توفیق پائی

• آئیوری کوسٹ سے ایک واقعہ یہ لکھتے ہیں۔ آبنگرو شہر میں مسجد کی تعمیر کے بعد لوگوں کی احمدیت کی طرف خاص توجہ ہوئی ہے۔ ایک ہفتہ قبل کالج کے پروفیسر وِتْرَا ابوبکر مشن ہائوس آئے اور کچھ لٹریچر خرید کر لے گئے۔ مطالعہ کے بعد آئے کہ لٹریچر کے مطالعہ سے پہلے میں نے مسلسل استخارہ کیا کہ اسلام میں بہت سارے فرقے ہیں۔ خدا سے سیدھی راہ کی راہنمائی کے لئے دعا کی تو مجھے خواب میں جماعت احمدیہ کے بارے میں بتایا گیا کہ اس جماعت کو دیکھو۔ مَیں نے آپ لوگوں کے کام کا جائزہل لیا ہے۔ مطالعہ کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے میری راہنمائی فرمائی ہے اور پھر انہوں نے احمدیت قبول کر لی۔

(خطبات مسرور جلد7 صفحہ272)

اپنے دل کے جائزے کی ضرورت ہے کہ اصل روح پید ا ہورہی ہے کہ نہیں

• گزشتہ دنوں مجلس خدام الاحمدیہ UK کی عاملہ اور ان کے قائدین کے ساتھ ایک میری میٹنگ تھی کسی بات پر مَیں نے انہیں کہہ دیا کہ تم لوگ میری باتوں پر عمل نہیں کرتے۔ اس کے بعد صدر صاحب خدام الاحمدیہ میرے پاس آئے، جذبات سے بڑے مغلوب تھے، تحریری طورپر بھی معذرت کی کہ آئندہ ہم ہر بات پر مکمل عمل کرنے کی کوشش کریں گے اور اسی طرح عاملہ کے اراکین جو تھے انہوں نے بھی معذرت کے خط لکھے۔ تو یہ تعلق ہے خلیفہ اور جماعت کا۔ اس کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر سے بھر جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مادی دور میں، اس مادی ملک میں، وہ لوگ جو دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہیں اور دنیاوی کاموں میں مصروف ہیں لیکن دین کے لئے اور خلافت سے تعلق کے لئے مکمل اخلاص و وفا دکھانے والے ہیں۔ اور یہ سب اس لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خداتعالیٰ سے تعلق کے طریق ہمیں سکھائے۔ ہماری عبادتیں بھی خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتی ہیں اور ہونی چاہئیں۔ جو ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتی ہیں۔ لیکن دوسرے مسلمان اس سے محروم ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک غیر از جماعت دوست ملنے کے لئے آئے۔ بڑے پڑھے لکھے طبقہ کے ہیں اور میڈیا میں بھی معروف مقام رکھتے ہیں۔ کہنے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں خاص طور پر مساجد آج کل اس طرح آباد ہیں جو گزشتہ 62سال میں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ حج پر جانے والے ہمیں اتنی تعداد میں نظر آتے ہیں جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آتے۔ پھر اور کئی نیکیاں انہوں نے گنوائیں۔ پھر کہنے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ اس کے باوجود وہ اثرات اور وہ نتائج نظر نہیں آتے جو ہونے چاہئیں۔ پھر خود ہی انہوں نے کہا کہ مسجد کے باہرکے معاملات اصل میں صاف نہیں ہیں اور یہ اس لئے کہ دل صاف نہیں ہیں۔مسجد سے باہر نکلتے ہی معاملات میں ایک قسم کی کدورت پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ ایک بات تو یہ ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ ہماری عبادتیں، ہماری نمازیں، ہماری دوسری نیکیاں تبھی فائدہ مند ہو سکتی ہیں جب ہمارے جائزے بھی ہوں اپنے خود کے۔ اس بات پر خوش ہوجانا کہ ہم عبادت کر رہے ہیں یاہم اپنے آپ پر اسلامی رنگ کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمارے حلیے سے ہماری حالتوں سے اسلامی رنگ کا اظہار ہوتا ہے تو یہ تو کوئی نیکی نہیں ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک فقرہ مجھے یاد آیا مَیں نے انہیں بتایا کہ یہ لوگوں کا کام بے شک ہے کہ تمہارے اعمال کو وہ دیکھیں۔ لیکن تمہارا یہ کام ہے کہ ہمیشہ اپنے دل کا مطالعہ کرو۔ پس اگر لوگ یہ کہتے ہیں کہ بڑا نمازی ہے بڑا روزہ دار ہے، بڑا حاجی ہے، اس سے نیکیاں پیدا نہیں ہو جاتیں ان چیزوں سے۔ نیکی کی اصل روح تب پیدا ہوتی ہے جب یہ احساس ہو کہ کیا یہ سب کام مَیں نے خدا کی خاطر کئے ہیں؟ اور اس کے لئے اپنے دل کے جائزہ کی ضرورت ہے اور جب یہ جائزے ہوں گے تو ان نیکیوں کے حقیقی اثرات جو ہیں وہ ظاہر ہو رہے ہوں گے۔

(خطبات مسرور جلد7 صفحہ290)

اپنی نیتوں کو بھی صحیح نہج پر رکھنا ہو گا اپنے نفس کا جائزہ بھی لیتے رہنا ہو گا

• قرآن کریم کا ایک دعویٰ یہ ہے کہ اس میں سب کچھ موجود ہے۔ بنیادی اخلاق ہیں اور اس اخلاقی تعلیم سے لے کر اعلیٰ ترین علوم تک اس کتاب مکنون میں ہر بات چھپی ہوئی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ یونس میں فرماتا ہے کہ وَمَا تَکُوۡنُ فِیۡ شَاۡنٍ وَّمَا تَتۡلُوۡا مِنۡہُ مِنۡ قُرۡاٰنٍ وَّلَا تَعۡمَلُوۡنَ مِنۡ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیۡکُمۡ شُہُوۡدًا اِذۡ تُفِیۡضُوۡنَ فِیۡہِ ؕ وَمَا یَعۡزُبُ عَنۡ رَّبِّکَ مِنۡ مِّثۡقَالِ ذَرَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ وَلَاۤ اَصۡغَرَ مِنۡ ذٰلِکَ وَلَاۤ اَکۡبَرَ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۶۲﴾ (یونس: 62) اور تو کبھی کسی خاص کیفیت میں نہیں ہوتا اور اس کیفیت میں قرآن کی تلاوت نہیںکرتا۔ اسی طرح تم اے مومنو! کوئی اچھا عمل نہیں کرتے مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب تم اس میں مستغرق ہوتے ہو اور تیرے ربّ سے ایک ذرہ برابر بھی کوئی چیز چھپی نہیں رہتی۔ نہ زمین میں اور نہ آسمان میں اور نہ ہی اس سے چھوٹی اور نہ کوئی بڑی چیز ہے مگر کھلی کھلی کتاب میں تحریر ہے۔

یہ آیت اللہ تعالیٰ کی شان کا اظہار ہے۔ ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی نظر کا اظہار ہے۔ غائب اور حاضر اور دور اور نزدیک اور چھوٹی اور بڑی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ پس یہ اعلان ہے مومن کے لئے اور غیر مومن کے لئے بھی، مسلمان کے لئے بھی اور کافر کے لئے بھی کہ یہ عظیم کتاب کامل علم رکھنے والے خدا کی طرف سے اتاری گئی ہے اور اس میں تمام قسم کے علوم، واقعات، انذاری خبریں اور اس کے ماننے والوں کی ذمہ داریوں کے بارہ میں بھی بتا دیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص کتاب ہے اسی لئے اس کتاب کے نازل ہونے کے بعد اس کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ بھی رکھا ہوا ہے اور اس کے نازل ہونے کے بعد نہ اس کا انکار کرنے والے کے لئے راہ فرار ہے اور نہ ہی اس کو ماننے کا دعویٰ کرکے عمل نہ کرنے والوں کے لئے کوئی عذر رہ جاتا ہے۔ پس ماننے والوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب صداقت کا اقرار کیا ہے تو اپنے قبلے بھی درست رکھنے ہوں گے۔ اپنی نیتوں کو بھی صحیح نہج پر رکھنا ہو گا۔ اپنے نفس کا جائزہ بھی لیتے رہنا ہو گا۔ صرف یہ کہنا کہ ہم قرآن کریم کو پڑھتے ہیں اور یہ کافی ہے۔ یہ کافی نہیں ہے۔ صرف یہ کہنا کہ ہم اس کے ذریعہ سے دنیا کو اپنی طرف بلاتے ہیں تو یہ کافی نہیں ہے۔ بلکہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے پڑھنے سے ہمارے اندر کیا تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے دوسرے ہم سے کیا اثر لے رہے ہیں۔ اُن میں کیا تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اُن کا اسلام کی طرف کیسا رجحان ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کا رشتہ دارنہیں ہے۔ جب اس نے ہر بات کھول کر قرآن کریم میں بیان کر دی۔ جب اس نے اپنے وعدے کے مطابق زمانے کا معلم بھیج دیا تو پھر اس بات پر ماننے والوں کو جوابدہ ہونا ہو گا کہ اگر تم نے اپنے اوپر اس تعلیم کو لاگو کرنے کی کوشش نہیں کی تو کیوں نہیں کی؟ اور منکرین کو بھی جواب دینا ہو گا۔ ان کی بھی جواب طلبی ہو گی کہ جب اتنی واضح تعلیم اور نشانات آ گئے تو تم نے امام کوکیوں قبول نہیں کیا۔ اور جہاں تک منکرین کا تعلق ہے ان کا معاملہ تو خداتعالیٰ کے پاس ہے۔ (وہی جانتاہے کہ ان سے) وہ کیا سلوک کرتا ہے۔ لیکن ہمیں اپنا معاملہ صاف رکھتے ہوئے اس کتاب کی تلاوت اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔

(خطبات مسرور جلد7 صفحہ435)

جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی بھی قسم کی قربانی پیش کرنے والے کسی احمدی کے ہاتھ میں مخالفین نے اپنی خواہش کے مطابق کبھی کشکول نہیں پکڑایا نہ پکڑا سکے

• مامورین کو اور ان کی جماعتوں کو جومشکلات آتی ہیں اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ’’کوئی مامور نہیں آتا جس پر ابتلا نہ آئے ہوں۔ مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کو قید کیا گیا اور کیا کیااذیت دی گئی۔ موسیٰ ؑکے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ آنحضرت ﷺ کا محاصرہ کیا گیا۔ مگر بات یہ ہے کہ عاقبت بخیر ہوتی ہے۔(یعنی ساری تکلیفوں کا جو انجام ہے وہ بہتر ہوتا ہے)۔ اگر خدا کی سنت یہ ہوتی کہ مامورین کی زندگی ایک تنعم اور آرام کی ہو اور اس کی جماعت پلائو زردے وغیرہ کھاتی رہے تو پھر اَور دنیاداروںمیں اور ان میں کیا فرق ہوتا۔‘‘ (اگر آرام اورصرف نعمتوں والی آسائش والی زندگی ہوتی اور کوئی تکلیفیں نہ برداشت کرنی ہوتیں تو فرمایا کہ پھر دنیا دار میں اور الٰہی جماعت میں فرق کیا رہ گیا)۔

فرماتے ہیں: ’’پلائوزردے کھا کر حمداًللہ و شکرا ًللہ کہنا آسان ہے۔‘‘ اگر آسانیاں ہی آسانیاں ہوں۔ کھانے پینے کو ملتا جائے تو اللہ تعالیٰ کا شکرکرنا بڑا آسان ہے ’’اور ہر ایک بے تکلف کہہ سکتاہے لیکن بات یہ ہے جب مصیبت میں بھی و ہ اسی دل سے کہے۔‘‘ (اصل بات یہ ہے کہ جب مشکلات آتی ہیں تب بھی اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر جو ہے وہ اسی دل اور شوق اور جذبے سے ہونا چاہئے جیسا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ملنے پر ہوتاہے۔) فرمایا ’’مامورین اور ان کی جماعت کو زلزلے آتے ہیں۔ہلاکت کا خوف ہوتاہے۔طرح طرح کے خطرات پیش آتے ہیں کَذَّبُوْا کے یہی معنے ہیں۔دوسرے ان واقعا ت سے یہ فائدہ ہے کہ کچوں اور پکوں کا امتحان ہو جاتاہے۔ کیونکہ جو کچے ہوتے ہیں ان کا قدم صرف آسودگی تک ہی ہوتاہے۔جب مصائب آئیں تو وہ الگ ہو جا تے ہیں۔‘‘ (یہ کمزور ایمان والے میں اور پکے میں امتحان ہے۔ جب مشکلیں آتی ہیں تو پھر ان کے قدم رک جاتے ہیں۔ لیکن جو مضبوط ایمان والے ہوتے ہیں وہ مشکلوں میں بھی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔) فرمایا کہ ’’میرے ساتھ یہی سنت اللہ ہے کہ جب تک ابتلا نہ ہو تو کوئی نشان ظاہر نہیں ہوتا۔ خدا کا اپنے بندوں سے بڑا پیار یہی ہے کہ ان کو ابتلا میں ڈالے۔ جیسے کہ وہ فرماتاہے وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ٓ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یعنی ہرایک قسم کی مصیبت اور دکھ میں ان کا رجوع خداتعالیٰ ہی کی طرف ہوتاہے۔ خداتعالیٰ کے انعامات انہی کو ملتے ہیں جو استقامت اختیار کرتے ہیں۔ خوشی کے ایام اگرچہ دیکھنے کو لذیذ ہوتے ہیں مگر انجام کچھ نہیں ہوتا۔ رنگ رلیوں میں رہنے سے آخر خدا کا رشتہ ٹوٹ جاتاہے۔‘‘ (زیادہ آسائشوں میںاور رنگ رلیوں میں رہو تو اللہ تعالیٰ سے رشتہ ختم ہوجاتاہے)۔ ’’خدا کی محبت یہی ہے کہ ابتلا میں ڈالتاہے اور اس سے اپنے بندے کی عظمت کو ظاہر کرتاہے۔‘‘ (اس ابتلا سے بندے کی جو عظمت ہے، بڑائی ہے، اس کے ایمان کی مضبوطی ہے وہ ظاہر ہوتی ہے)۔ ’’مثلاً کسریٰ اگر آنحضرت ﷺ کی گرفتاری کا حکم نہ دیتا تو یہ معجزہ کہ وہ اسی رات مارا گیا کیسے ظاہر ہوتا اور اگر مکّہ والے لوگ آپ کو نہ نکالتے تو فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا (الفتح: 2) کی آواز کیسے سنائی دیتی۔ہر ایک معجزہ ابتلاء سے وابستہ ہے۔ غفلت اور عیاشی کی زندگی کو خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کامیابی پر کامیابی ہو تو تضرّع اور ابتہال کا رشتہ تو بالکل رہتا ہی نہیں ہے حالانکہ خداتعالیٰ اسی کو پسند کرتا ہے۔ اس لئے ضرور ہے کہ درد ناک حالتیں پیدا ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 586-587 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنی جانیں دیتے ہیں ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوںکو خوشخبریاں دیتا ہے۔

• جو آیتیں مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں سے آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا پھر اعادہ فرمایا۔ پھر اسی بات کو دوہرایا ہے کہ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور رحمتیں ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کے وارث بن جائیں وہی لوگ حقیقی ہدایت یافتہ ہیں۔ کیونکہ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس لئے برکتیں اور مغفرت ترجمہ ہو گا۔ یعنی صبر اور دعا کا مظاہرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور مغفرتوں کے ایسے نظارے دیکھیں گےجو اُن کے روحانی مدارج بلند کرنے والے ہوں گے۔ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ کہ اللہ تعالیٰ کوئی دعائیں نہیں دے رہا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کو مغفرت اور رحمتیں پہنچ رہی ہیں۔ اور جب رحمتیں اور برکتیں پہنچ رہی ہوں تو ایسے لوگوں کے روحانی مدارج جو ہیں بلند ہوتے چلے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی ان کے شامل حال رہے گی۔ ایسے لوگوں کے دنیاوی نقصانات بھی خداتعالیٰ پورے فرما دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی خاطرہر قربانی کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی بھی قسم کی قربانی پیش کرنے والے کسی احمدی کے ہاتھ میں مخالفین نے اپنی خواہش کے مطابق کبھی کشکول نہیں پکڑایا نہ پکڑا سکے۔ بلکہ کشکول انہی کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے احمدیوں کو تکلیفیں پہنچائی ہیں اور آئین اور قانون کی اغراض کی خاطر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کی اس واضح تائید کے بعد بھی ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی اور یا سمجھنا نہیں چاہتے تو پھر کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ ہم تو دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔

(خطبات مسرور جلد7 صفحہ471)

• اگر انسان اپنا جائزہ لے تو خوف سے کانپ جاتا ہے اولیاء اللہ کے بارہ میں احادیث میں مزید وضاحت بھی ملتی ہے کہ کون لوگ اللہ تعالیٰ کے ولی ہونے کے حقدار ہوتے ہیں اور کس طرح یہ مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں ایک حدیث ہے۔ حضرت عمرو بن الجموحؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بندہ اس وقت تک ایمان خالص کا حقدار نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کسی سے محبت نہ کرے اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کسی سے بغض نہ رکھے۔ جب تک وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے کسی سے محبت کرتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے کسی سے بغض رکھتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کا حقدار ہو جاتا ہے۔ اور فرمایا اور میرے بندوں میں سے میرے اولیاء اور میری مخلوق میں سے میرے محبوب ترین وہ ہیں جو مجھے یاد رکھتے ہیں اور مَیں انہیں یاد رکھتا ہوں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد5 حدیث عمر و بن الجموح صفحہ353-354
حدیث 15634 عالم الکتب بیروت 1998ء)

• پس اس حدیث میں خالص ایمان کی یہ نشائی بتائی گئی ہے کہ ان کا ہر عمل حتیٰ کہ آپس کی محبت اور نفرت جو ہے وہ بھی خداتعالیٰ کی رضا کے لئے ہوتی ہے۔ ذاتی عناد اور ذاتی دشمنیاں نہیں ہوتیں۔ اگر انسان اپنا جائزہ لے تو خوف سے کانپ جاتا ہے کہ ایک طرف تو ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں۔ دوسری طرف بہت سارے ایسے ہیں جن کے دلوں میں ذاتی عناد اور ذاتی بغض بھرے ہوتے ہیں، کینے بھرے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ کسی کی غلطیاں دیکھتے ہیں تو معاف نہیں کرنا چاہتے۔ اور جب کسی کو اللہ تعالیٰ کی رضا اس وجہ سے مل جائے کہ ہر فعل اس کا اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوتا ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کا دوست بن جاتا ہے۔

(خطبات مسرور جلد7 صفحہ532)

(باقی آئندہ بروز ہفتہ ان شاء اللہ)

(نیاز احمد نائک۔ استاد جامعہ احمدیہ قادیان)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 ستمبر 2022