• 20 اپریل, 2024

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات (قسط 1)

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ
قسط 1

ایک نئے سلسلے کا آغاز

رائے کی اہمیت

جب ایران پر حملہ کیا گیا تھا تو دشمن نے ایک پُل کو توڑ دیا اور بہت سے مسلمان مارے گئے تھے۔ سعد ابن ابی وقاصؓ نے لکھا کہ مسلمان تباہ ہو جائیں گے اگر جلد فوج نہ آئے گی تو عرب میں دشمن گُھس آئیں گے۔ حضرت عمرؓ نے رائے طلب کی تو سب نے کہا خلیفہ کو خود جانا چاہئے۔ حضرت علیؓ خاموش رہے۔ حضرت عمرؓ کو اُن کی خاموشی پر خیال آیا اور پوچھا آپ کیوں چُپ ہیں کیا آپ اس رائے کے خلاف ہیں؟ انہوں نے کہاہاں میں خلاف ہوں۔ پوچھا کیوں؟ تو کہا اس لئے کہ خلیفہ کو جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا کام یہ ہے کہ لڑنے والوں کو مدد دے۔ جو قوم ساری طاقت خرچ کر دے اور جسے مدد دینے کے لئے کوئی نہ رہے وہ تباہ ہو جاتی ہے۔ اگر آپ کے جانے پر بھی شکست ہو گئی تو پھر مسلمان کہیں نہ ٹھہر سکیں گے اور عرب پر دشمنوں کا قبضہ ہو جاوے گا۔ اِس پر حضرت عمرؓ نہ گئے اور انہی کی بات مانی گئی۔

تو مشورہ کی غرض ووٹ لینے نہیں بلکہ مفید تجاویز معلوم کرنا ہے پھر چاہے تھوڑے لوگوں کی اور چاہے ایک ہی کی بات مانی جائے۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ12-13)

کئی دفعہ بعض باتیں مشورہ سے ایسی معلوم ہو جاتی ہیں جو انسان کے ذہن میں نہیں ہوتیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم بھی مشورہ کیا کرتے تھے۔

چنانچہ جنگِ احزاب کے موقع پر جب تمام کفّار مل کر مدینہ پر چڑھ آئے اور یہود بھی کفار کے ساتھ مل گئے تو حضور ﷺ نے اپنے اصحاب سے مشورہ طلب کیا۔ حضرت سلمانؓ نے ایک مشورہ دیا کہ مدینہ کے اِردگِرد خندق کھودی جائے کیونکہ ایران میں یہی طریق رائج ہے اِس سے ایک وقت تک دشمن اپنے حملے میں ناکام رہتا ہے۔

یہ رائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند آئی اِس کے مطابق عمل کیا گیا اوراس سے مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچا۔ اس مجلس میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی موجود تھے حضرت سلمانؓ کا ان سے رُتبہ اور درجہ کم تھا مگرایک بات میں وہ اُن سے بڑھا ہوا تھا یعنی اس نے غیر ممالک کو دیکھا ہوا تھا اِس لئے فن کی واقفیّت تھی۔ پس جو لوگ فن سے واقف ہوں اُن کی رائے سے بہت سے کام درست ہو جاتے ہیں۔ ایسے اوقات میں اخلاص کام نہیں آتا بلکہ فن سے واقفیّت کام دیتی ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ47-48)

پس تم لوگ اظہارِ رائے کے وقت خشیت اللہ اور خدا تعالیٰ کی رضا کو مدّنظر رکھو کیونکہ ہماری چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی دین کے حق میں بڑی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں اور ہمارے قدم کی ذرا سی لغزش اس قدر نقصان پہنچا سکتی ہے جو صدیوں میں بھی دور نہ ہو سکے۔

امام ابو حنیفہ ؒ کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ بارش ہو رہی تھی۔ ایک بچہ دَوڑتا پھرتا تھا۔ اُنہوں نے اس بچہ سے کہا بچے! سنبھل کر چلو، گر نہ جانا۔ معلوم ہوتا ہے وہ بڑا ہوشیا راو ر ذکی لڑکا تھا۔ اُس نے کہا اگر میں گرا تو اپنے کپڑے جھاڑ کر پھر کھڑا ہو جاؤں گا۔ آپ سنبھل کر چلئے کیونکہ اگر آپ گر گئے تو بہت سے لوگ تباہ ہو جائیں گے۔ امام ابو حنیفہؒ کہتے ہیں مجھ پر کبھی کسی نصیحت کا اتنا اثر نہیں ہوا جتنا اس لڑکے کے یہ کہنے سے ہوا۔میں نے سمجھا کہ جو لوگ مجھ پر اعتقاد رکھتے ہیں اگر میں ٹھوکر کھا گیا تو وہ تباہ ہو جائیں گے۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ120)

وقت کی اہمیت

جو قومیں کام کرنے والی ہوتی ہیں اور جنھوں نے دُنیا کو فتح کرنا ہوتا ہے،اُن کے اعمال اور عادات دوسری قوموں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے اور وقت کی قدر کرتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں عام طورپر یہی طریق ہے کہ جووقت کسی کام کے لئے مقرر کیا جاتا ہے ہمیشہ یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ وقت نہیں ہے۔

ہماری مثال اُس لڑکے کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں وہ جانور چرا رہا تھا کہ اسے خیال پیدا ہوالوگوں کاتجربہ کروں۔ وہ میری آواز پر آتے ہیں یا نہیں؟ اس خیال سے اس نے کہنا شروع کیا شیر آگیا، شیر آگیا۔ کسی نے اِس مثال کو نظم میں لکھا ہے۔ اورپہلی جماعت کے کورس میں جو کتاب ہوتی تھی اُس میں درج تھی۔ جب اُس کی آواز پر لوگ دَوڑتے ہوئے گئے تو دیکھا وہ ہنس رہا ہے اور کوئی شیر نہیں ہے لیکن اُس سے کچھ دن بعد حقیقتاً شیر آ گیا۔ اِس پر اُس نے پھر شور مچانا شروع کیا مگر پھر کوئی نہ آیا اور شیر نے آکر اُسے پھاڑ ڈالا۔

چونکہ ہم لوگوں کی عادت میں یہ بات داخل ہو گئی ہے کہ ہم وقت کی پابندی نہیں کرتے اِس لئے جب کہا جاتا ہے کہ فلاں وقت آنا ہے تو لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اُس وقت ضرور نہیں آنا۔لیکن جہاں تک میرا خیال ہے اگر ہم دُنیا میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وقت کی پابندی کی جائے کیونکہ وقتِ معیّن پر نہ آنا سُستی پر دلالت کرتا ہے اور کامیاب ہونے والے لوگوں میں سُستی نہیں ہونی چاہئے۔ اُمید ہے کہ دوست آئندہ ہر کام میں اِس کی احتیاط کریں گے۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ123-124)

موقع شناسی

مرزا مظہر جان جاناں کے پاس ایک دفعہ بادشاہ آیاوزیر بھی ساتھ تھا۔ اُسے پیاس لگی۔ پاس جھجری اور آب خورہ رکھے تھے۔ اُس نے آب خورہ لیا اور جھجری سے پانی پی کر اس پر اُسی طرح اُلٹا کر رکھ دیا جس طرح پہلے رکھا تھامگر کسی قدر ٹیڑھا۔ مظہر جان جاناں نے کہا یہ کیسا وزیر ہے جسے آبخورہ بھی رکھنا نہیں آتا۔

یہ تو ان کی طبع کی نزاکت کا حال ہے۔ مگر بات یہ بالکل سچی ہے کہ اگر موقع اور محل کو مدّنظر نہ رکھا جائے تو اعلیٰ سے اعلیٰ بات اور چیز بھی بہت بُری بن جاتی ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ130)

خدمت دین

مجھے بعض دفعہ ہنسی آتی ہے اور بعض دفعہ تعجب کہ بعض لوگ جو کبھی چندہ نہیں دیتے وہ کہتے ہیں کہ اتنی بڑی رقم جو جمع ہوتی ہے، جاتی کہاں ہے۔ حالانکہ خود اُنہوں نے کبھی اِس میں حصہ نہیں لیا ہوتا اور اگر لیا ہوتا ہے تو نہایت ہی قلیل۔

حضرت خلیفہ اوّلؓ ایک شخص کے متعلق سُنایا کرتے تھے کہ اس نے کہا مجھے بخاری لے دیں۔ میں نے کہا کبھی لے دونگا، اِن دنوں تو مَیں غریب ہوں۔ کہنے لگا آپ کس طرح غریب ہو سکتے ہیں۔ اِس وقت تین لاکھ کی جماعت ہے اگر ایک ایک روپیہ بھی ہر شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نذر دے تو چار آنے آپ کو بھی دیتا ہوگا اور اِس طرح کئی ہزار کی آپ کو آمدنی ہے۔ اُسے میں نے جواب دیا تم ہی بتاؤآج تک تم نے مجھے کتنی چونّیاں دی ہیں؟

تو ایسے لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ لوگ جو دیتے ہیں، ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم بھی دیں حالانکہ جب تک ہر ایک شخص حصہ نہ لے ہم سلسلہ کے کاموں کو اُس حد تک نہیں پہنچا سکتے جو موجودہ حالت میں ضروری ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ180-181)

خلوص نیت

بعض لوگ بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں مگر خداتعالیٰ کے حضور قبول نہیں کی جاتیں کیونکہ انہوں نے اپنے نفس کو مارا نہیں ہوتا۔

حدیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو جنگ کے موقع پر دیکھا کہ وہ ایسے ایسے خطرناک موقع پر جاتا ہے کہ سب لوگ اُس کی طرف دیکھ کر واہ واہ کہہ اُٹھتے ہیں لیکن آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر فرمایا کہ اگر کسی نے دوزخی کو چلتے پھرتے دیکھنا ہو تو اسے دیکھ لے۔صحابہؓ میں یہ سن کر ایک جُنبش اور حرکت پیدا ہوئی۔ وہ حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے کہ وہ شخص جو سب سے زیادہ جنت کا مستحق ہونا چاہئے اُس کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ دوزخی ہے۔ بعض کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات یونہی کہہ دی ہے اور بعض نے اس کا اظہار بھی کر دیا۔ اِس پر ایک صحابی جو بہت اخلاص رکھتے تھے اُنہوں نے کہا میں اس شخص کا پیچھا نہ چھوڑوں گا جب تک اس کا انجام نہ دیکھ لوں۔ چنانچہ وہ شخص اِسی جنگ میں زخمی ہوا اور جب اسے سخت تکلیف ہوئی تو اُس نے نیزہ گاڑ کر اُس پر اپنے آپ کو گرایا اور اس طرح خود کشی کر لی۔ اُس وقت اس نے کہا مَیں ان لوگوں سے اسلام کے لئے نہ لڑا تھا بلکہ اِن سے پرانی عداوت تھی اِس لئے لڑا تھا۔

چونکہ خودکشی کرنے والا خداتعالیٰ پر بدظنی کرتا ہے اِس لئے خدا کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اِس طرح معلوم ہو گیا کہ فیِ الواقعہ وہ شخص دوزخی تھا۔ اُس کا انجام دیکھ کر صحابی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور آکر کہا یَارَسُولَ اللّٰہ! آپ ﷺ خدا کے سچے رسول ہیں، میں نے اس شخص کا اس طرح انجام دیکھا۔ اِس پر آپ ﷺنے فرمایا مَیں خدا کا رسول ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ خدا ایک ہے۔

اب دیکھو! ایک شخص باوجود مسلمانوں کے ساتھ مل کر دشمنوں سے لڑتا ہے اور ایسے ایسے مقام پر حملہ کرتا ہے جہاں عام مسلمان بھی نہ کرتے مگر اُس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ دوزخ میں جاتا ہے اِس لئے کہ اس نے جان کی قربانی تو کی لیکن ’’مَیں‘‘ کی قربانی نہ کی تھی۔ اُس نے جان کی قربانی اپنی انانیّت کے لئے کی تھی۔

اِس کے مقابلہ میں ہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ابوبکرؓ کو اُس چیز کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے جو اس کے دل میں ہے اور مَیں دل میں ہی ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ انہوں نے اپنے نفس کو مٹا دیا اور مَیں کو مار دیا اِس لئے خدا کے حضور قبول کئے گئے۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ216-217)

خدا تعالیٰ کی گرفت اور استغناء سے ڈرتے رہنا چاہئے

دنیا میں سب سے بڑی چیز انسان کے لئے انجام بخیر ہونا ہے۔ درمیانی ترقیاں اور کامیابیاں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ ایک انسان نیکی میں بہت ترقی کر جاتا ہے لیکن ایک وقت اُس پر ایسا آتا ہے کہ وہ نیکی سے بالکل محروم ہو جاتا ہے جس طرح کہتے ہیں بال اگر چکنائی میں سے گزار کر نکال لیا جائے تو چکنائی سے خالی نکل آتا ہے اِسی طرح وہ تقویٰ اور نیکی سے بالکل خالی ہوتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان غلط راستہ پر چل رہا ہوتا ہے مگر اُس کے لئے خدا تعالیٰ ایسا وقت لے آتا ہے کہ اسے ہدایت نصیب ہو جاتی ہے۔ پس انسان کو ہر وقت اور ہر حالت میں خدا تعالیٰ کی گرفت اور اُس کےاستغناء سے ڈرتے رہنا چاہئے مگر میں دیکھتا ہوں بہت لوگ جو بظاہر نیک اور متقی ہوتے ہیں اپنی نیکی کے گھمنڈ میں خدا تعالیٰ کے استغناء کو مدنظر نہیں رکھتے اِس لئے کئی دفعہ سخت ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ وہ غلطی میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو مامور سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ جتنا کوئی انسان خدا تعالیٰ کے قریب ہو اُتنی ہی زیادہ اُس میں خشیت اللہ ہونی چاہئے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے انسان کو ہم دیکھتے ہیں ذرا بادل گرجتا یا ذرا آندھی آتی تو آپﷺ گھبرا جاتے۔ ایک دفعہ کسی نے آپﷺ سے سوال کِیا، کیا بات ہے کہ آپﷺ ایسے موقع پر گھبرا جاتے ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا مجھے خیال آتا ہے کہ کئی ایسی قومیں گزری ہیں جن پر بظاہر بادل آئے مگر وہ ان کے لئے خدا کا عذاب تھا۔ اس بات کو مدّنظر رکھتے ہوئے مَیں ڈرتا ہوں کہ اس قسم کا بادل نہ ہو۔

مگر غور کرو ہم میں سے کتنے ہیں جو اِن چھوٹی چھوٹی باتوں کو چھوڑ کر بڑی سے بڑی باتوں سے یہ سبق حاصل کرتے ہیں۔ ذرا کسی کو اپنے متعلق نیکی اور تقویٰ حاصل ہونے کا خیال ہو تو وہ سمجھنے لگتا ہے کہ مَیں مامور ہوں۔ اگر ایسے لوگ خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کو اپنے لئے نازل ہوتا دیکھ کر سمجھتے کہ اِس کی وجہ سے اُن کی ذمہ واریاں بڑھ گئی ہیں اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ بنائے گئے ہیں تو وہ کبھی ٹھوکر نہ کھاتے اور نہ گمراہی کے گڑھے میں گرتے۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی صحیح راستہ پر جا رہا ہو مگر خدا تعالیٰ اُسے سیدھے رستہ سے ہٹا کر گمراہ کر دے تاوقتیکہ وہ خدا تعالیٰ کے استغناءکو بُھلا کر اپنے لئے آپ گمراہی کے سامان نہ پیدا کر لے۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ264)

کرنے اور کہنے میں بڑا فرق ہے

کرنے اور کہنے میں بڑا فرق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بلّی اور چُوہوں کی ایک مثال بیان فرمایا کرتے تھے۔ فرماتے:
چُوہوں نے ایک دفعہ بِلّی سے تنگ آکر اُس کے مارنے کا مشورہ کیا اور تجویز یہ ہوئی کہ بہت سے چُوہے مل کر اس پر حملہ کریں کسی نے کہا میں اس کا ایک کان پکڑ لوں گا، کسی نے کہا میں اس کا دوسرا کان پکڑ لوں گا، کسی نے کہا میں اُس کی ایک ٹانگ پکڑ لوں گا، کسی نے کہا میں اُس کی دم پکڑ لوں گا اِس طرح ہر ایک نے ایک ایک حصہ جسم پکڑ لینے پر آمادگی ظاہر کی۔ یہ سب باتیں ایک بوڑھا چوہا خاموش بیٹھا سنتا رہا۔ جب سب باتیں کر چکے تو اُس نے کہا ہر ایک نے بلی کا کوئی نہ کوئی حصہ پکڑ لینے کا اقرار کیا ہے مگر یہ تو بتاؤ کہ اس کی میاؤں کون پکڑے گا۔ اتنے میں بلی آگئی اور اُس نے میاؤں کی جسے سُن کر سب چُوہے بھاگے اور اپنے بِلوں میں جا گُھسے۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ246-247)

حقیقی کامیابی کا گر

مجھ سے جب کوئی کہتا ہے کہ تبلیغ میں کامیابی حاصل کرنے اور قرآن کریم کے معارف سمجھنے کے لئے کوئی نصیحت کرو تو میں اُسے یہی مشورہ دیتا ہوں کہ اپنے دماغوں اور دلوں کو بالکل خالی کر لو اور خدا تعالیٰ کے سامنے اپنے آپ کو بالکل جاہل بنا لو۔ یہی اور صرف یہی ذریعہ ہے روحانی علوم حاصل کرنے اور روحانی امور کے سمجھنے کا۔ خداتعالیٰ کے آگے گر جاؤ وہ خود تمہیں اُٹھائے گا، اپنے آپ کو بے طاقت سمجھ لو وہ خود تمہیں طاقت عطا کرے گا۔

ایک بزرگ نے کیا ہی لطیف مثال دی ہے کہتے ہیں دیکھو جب کسی درندے کے آگے انسان لیٹ جائے تو وہ بھی اُسے زخمی نہیں کرتا۔ پھر تم خدا تعالیٰ کو کیوں ایسی ہستی نہیں یقین کرتے کہ جو اُس کے آگے گرجاتا ہے اُسے وہ ضائع نہیں کرتا۔پس سچی اور حقیقی کامیابی کا گُر یہی ہے کہ خداتعالیٰ کے آگے گر جاؤ۔ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا اُس کے سامنے اقرار کرو۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ269)

خدا عاملوں کے عمل کا اجر کم نہیں کرتا

ایک دفعہ حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ میں تجویز ہوئی کہ چونکہ قحط ہے اس لئے سالانہ جلسہ کے دن تین کی بجائے دو کر دیئے جائیں۔ ا ُس وقت مَیں لنگرخانہ کا منتظم تھا۔دِنوں میں کمی کرنا میرا کام نہ تھا یہ مجلس نے فیصلہ کیا تھا۔ مگر حضرت خلیفہ اولؓ کا جس طرح طریق تھاکہ جس کاقصور ہوتا اُسے مخاطب نہ کرتے دوسرے کو مخاطب کر کے وہ بات کہہ دیتے۔

آپؓ نے مجھے خط لکھا۔اُس میں عربی کا ایک مصرعہ لکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ خداسے یہ خوف مت کرو کہ وہ عاملوں کے عمل کا اجر کم دے گا۔ پس اگر خداتعالیٰ پر یقین ہو اور جو کچھ پاس ہو اُسے قربان کر دیا جائے تو پھر جس قدر زائد کی ضرورت ہو وہ خود پوری کر دے گا۔

ہمیں دون ہمتی سے نہیں بلکہ علو ہمتی سے ان مسائل پر غور کرنا چاہیے جو ہمارے سامنے پیش ہوں۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ272-273)

سچ جاننے کے لئے تحقیق کرو

ایک دفعہ ایک لڑکے کے والد نے لکھا میرا لڑکا عربی میں بہت ہوشیار تھا مگر ہیڈ ماسٹر نے فلاں بات کی وجہ سے اسے فیل کر دیا۔ میں نے اس لڑکے کا عربی کا پرچہ منگا کر دیکھا۔ اسے سَو میں سے اڑھائی نمبر دئیے گئے تھے۔ جب مَیں نے پرچہ دیکھا تو مجھے افسوس ہوا کہ اسے اڑھائی نمبر بھی کیوں دئیے گئے ہیں، وہ اِس قابل بھی نہ تھا۔ میں نے اُس کے والد کو لکھا آپ کے لڑکے کو تو صفر ملنا چاہئے تھا۔ پرچہ موجود ہے، اس میں جو کچھ اس نے لکھا ہے وہ ظاہر ہے۔

تو ایسی شکائتیں بھی ہوتی ہیں۔ یہ ماں باپ کی غلطی ہوتی ہے کہ لڑکے کی طرف سے جو رپورٹ ملے اسے درست تسلیم کر لیں۔

ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّلؓ کے پاس ایک خط آیا جس میں لکھا تھا ہمیں اپنا بچہ بہت پیارا ہے مگر معلوم ہوا ہے اس سے وہاں یہ سلوک کیا جا رہا ہے کہ اسے پنجرے میں بند کر رکھا ہے اور لڑکوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جو اس کے پاس سے گزریں وہ اس پر تُھوکیں۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ خط پڑھتے جاتے اور مسکراتے جاتے۔ وہ لڑکا بھی آپ کے پاس ہی بیٹھا تھا، اُس سے پوچھتے بھئی! آج تم پر کتنوں نے تُھوکا ہے؟

تو ایسی باتیں طالب علم کرتے رہتے ہیں مگر والدین کا فرض ہے کہ ان کی ہر بات پر یقین نہ کر لیا کریں۔ دراصل لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

ابھی پرسوں کا واقعہ ہے ایک آدمی کو بھیجا گیا کہ فلاں دکان سے یہ چیز لے آؤ۔ مطلب یہ تھا کہ پیسے لے جاؤاور جا کر لے آؤمگر وہ یونہی چلا گیا۔ مَیں نے اس دکاندار سے کہا ہوا تھا کہ میرے لئے یا تو پیسے لے کر چیز دیاکرو یا رُقعہ لے کر۔ اُس نے یونہی جانے پر چیز تو دے دی مگر ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ مجھے اِس طرح دینے کا حکم نہیں ہے۔ جو شخص لینے کے لئے گیا تھا اُس نے آکر بتایا دکاندار نے میری چادر چھین لی تھی کہ پیسے لا کر دو۔ تو بات کی تحقیقات کر کے دیکھنا چاہئے کہ کس حد تک وہ صحیح ہے اور کس حد تک اُس میں مبالغہ داخل ہے۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ282-283)

تبلیغ کا ایک ذریعہ دعوت ہے

ہر طبقہ تک پہنچنے کے لئے مختلف ذرائع ہوتے ہیں اور دعوت کرنا کوئی بُری بات نہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام جب ایک دفعہ لاہور تشریف لے گئے تو امراء کو تبلیغ کرنے کے لئے آپ نے اُن کی دعوت کی۔ یہ دعوت ایک غیر احمدی شاہزادہ محمد ابراہیم صاحب کی طرف سے کی گئی اور روپیہ ہمارا اپنا خرچ ہوا۔ اس میں بہت سے لوگ آگئے جنھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے باتیں سُنائیں۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ایک دفعہ اِسی قسم کی دعوت کی جب لوگ کھانا کھا چکے تو آپ ﷺ وعظ کے لئے کھڑے ہوئے مگر لوگ چلے گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اگرچہ اُس وقت بچے تھے مگر انھوں نے کہا پہلے تبلیغ کی جائے اور پھر کھانا کھلایا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِسی طرح کیا اور تبلیغ کی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جب اس دعوت کے موقع پر وعظ شروع کیا تو کسی نے کہا ہم تو کھانا کھانے کے لئے آئے تھے مگر یہ کیا ہونے لگا ہے؟ اِس پر ایک شخص نے جسے شرابی کہا جاتا تھا کہا کھانا تو ہم روز کھاتے ہی ہیں مگر یہ کھانا کہاں نصیب ہوتا ہے۔

یہ بات تو اس نے بہت معقول کہی مگر وہ بھی کھانا کھانے کے لئے ہی آیا تھا خود بخود نہ آیا تھا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں پہلے حق کی خواہش نہ تھی مگر جب اُسے موقع مل گیا تو اس نے اس خواہش کا اظہار کیا۔تو یہ تبلیغ کے ذرائع ہوتے ہیں۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ303-304)

خدا تعالیٰ کی خشیت کے ماتحت فیصلے ہی بہتر ہیں

میں نہیں سمجھتا ہم سے زیادہ نقصان اور گھاٹے میں کون ہو سکتا ہے جبکہ ہم دنیا کو خداتعالیٰ کے لئے چھوڑ کر آئیں لیکن جب خداتعالیٰ کے قریب پہنچیں تو ایسی حرکات کریں کہ اُس کے حضور سے نکالے جائیں اور ہم اِس کے مصداق بن جائیں

نہ خدا ہی مِلا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے

میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارا کوئی فیصلہ غلط بھی ہو مگر خداتعالیٰ کے خوف اور خشیت کو دل میں رکھتے ہوئے ہو تو ہماری کامیابی میں زیادہ روک نہ ہوگا۔ لیکن اگر ہمارے فیصلے تو صحیح ہوں مگر خداتعالیٰ سے دُور ہو کر کئے گئے ہوں تو باوجود ان فیصلوں کی صحت کے کامیابی سے ہم بہت دُور رہیں گے کیونکہ اِس دنیا کے تغیرات ہمارے فیصلوں پر مبنی نہیں ہیں۔ ہمارے فیصلے محدود معاملات کے متعلق ہوں گے اِس لئے صحیح فیصلوں کے بعد بھی ایسی باتیں رونما ہوں گی جو ہمارے فیصلوں کے خلاف اثرانداز ہوں گی لیکن اگر ہم میں خشیت اللہ پائی جائے اور پھر کوئی غلطی ہو جائے تو اس غلطی کا ازالہ خود خداتعالیٰ کر دے گا اور خود ہمیں اُس راہ پر چلائے گا جو ہمارے لئے مفید ہوگی۔ شاید وہ لوگ جو الفاظ کے ایسے معنی لینے کے عادی ہیں جو الفاظ کہنے والے کے مدنظر نہیں ہوتے، وہ یہ کہیں یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ غلط فیصلہ تو فائدہ کا موجب ہو جائے جو خشیت اللہ کو دل میں جگہ دیتے ہوئے کیا گیا ہو، اور وہ فیصلہ جو خشیت اللہ سے دور ہو کر کیا گیا ہو وہ صحیح ہونے کے باوجود مُضرِہو۔ میں ایسے لوگوں کی توجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فیصلہ کی طرف مبذول کراتا ہوں۔

آپ ﷺکو رؤیا دِکھایا گیا کہ آپ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں۔ اِس پر آپ محض خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کسی عزت اور بڑائی کے لئے نہیں، نہ اس لئے کہ مکہ والوں پر اپنا رُعب جمائیں مکہ کی طرف چل پڑے۔ یہ اجتہادی غلطی تھی۔ خداتعالیٰ کا یہ منشاء نہ تھا کہ اُسی سال طواف ہو مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کی رضا اور اُس کی منشاءکو پورا کرنے کے لئے یہ فیصلہ کیا کہ اُسی سال طواف کیا جائے۔ یہ آپ ﷺ کو اجتہادی غلطی لگی لیکن خداتعالیٰ نے اِسی کے متعلق فرمایا۔ اِنَّا فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا (الفتح: 2) یہ غلطی ہوئی ہے لیکن چونکہ ہماری محبت اور ہماری رضا کے حصول کے لئے کی گئی ہے اِس لئے اِسی کو ہم نے بہت بڑی فتح کا پیش خیمہ بنا دیا۔

اس کے مقابلہ میں ایک اور فیصلہ ہوا جو صحیح فیصلہ تھا لیکن چونکہ اِس کے کرنے کے وقت خشیت اللہ باقی نہ رہ گئی تھی، اس لئے وہ نہایت خطرناک ثابت ہوا۔ وہ فیصلہ بعض صحابہ کا تھا جنہیں اُحدکی جنگ میں ایک مقام پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے کرکے فرمایا تھا کہ چاہے ہمیں فتح ہو یا شکست تم یہاں سے نہ ہٹنا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح ہوئی اور دشمن بھاگنے پر مجبور ہوا تو اُس وقت ان لوگوں کا یہ بالکل صحیح فیصلہ تھا کہ وہ بھی آگے بڑھتے اور بھاگتے ہوئے دشمن پر حملہ کرتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے چونکہ یہ نکل چُکا تھا کہ خواہ فتح ہو یا شکست، تم اِس جگہ سے نہ ہٹنا اِس لئے خشیت اللہ چاہتی تھی کہ وہ دشمن کے بھاگنے پر بھی وہاں سے نہ ہلتے۔ خواہ وہ یہ دیکھتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لشکر کو لے کر بیس میل آگے بڑھ گئے ہیں مگر جب تک انہیں وہاں سے ہٹنے کا حکم نہ دیتے نہ ہٹتے۔ اُس وقت انہیں عقل کہتی تھی بھاگتے ہوئے دشمن کے پیچھے جائیں گے تو فتح اور زیادہ یقینی ہو جائے گی لیکن خشیت اللہ کا یہ تقاضا تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی پابندی کرتے مگر اُنہوں نے ایسا نہ کیا۔ نتیجہ کیا ہوا؟ یہ کہ خداتعالیٰ نے دشمنوں کی نظر ادھر پھرا دی اور انہیں بتایا کہ تم کہاں بھاگے جا رہے ہو؟ تمہاری کامیابی کی صورت نکل آئی ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے مڑکر ادھر سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا جہاں سے وہ صحابہ ہٹے تھے۔

یہ خدائی فعل تھا۔ یہ غلط ہے کہ خالد کی نظر اُس مقام کی طرف پڑی اور یہ بھی غلط ہے کہ مکہ کے بعض سرداروں کی نظر اُدھر گئی۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے ہم نے یہ تدبیر کی تھی اور مسلمانوں کو یہ نقصان ہم نے پہنچایا تھا اور اِس بات کی سزا میں پہنچایا تھا کہ انہوں نے رسولﷺ کی بات کا ادب کیوں نہیں کیا تھا۔ وہ غم جو رسول کو پہنچایا گیا اُس کے بدلے خداتعالیٰ نے اِن کو غم پہنچایا۔

تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ہمارا کام تھا پس یقینا کفار کی نظر اُس وقت اپنے آپ نہ اُٹھی تھی بلکہ خداتعالیٰ کے فرشتوں نے اٹھائی تھی تا مسلمانوں کو بتائے کہ خواہ بحالات ظاہرہ کوئی فیصلہ صحیح نظر آئے اگرخشیت اللہ مدنظر نہ ہو تو پھر کامیابی نہیں ہو سکتی۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اور کئی مثالیں اس قسم کی مل سکتی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی زندگی میں بھی پائی جاتی ہیں بلکہ میں تو کہوں گا کہ یہ مومن کی زندگی میں پائی جاتی ہیں کہ کئی صحیح فیصلے اُس کے لئے وبالِ جان ثابت ہوتے ہیں اور کئی غلط فیصلے یعنی اجتہادی غلطیاں اُس کی کامیابی کا ذریعہ بن جاتی ہیں جبکہ وہ خشیت اللہ کے ہوتے ہوئے سرزد ہوں۔

(خطابات شوریٰ جلد1 صفحہ323-325)

(باقی آئندہ بروز ہفتہ ان شاء اللہ)

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 ستمبر 2022