• 29 اپریل, 2024

مال تو اللہ ہی کا ہے

حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ مَیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں تھا۔ آپ نے ایک موٹے حاشیہ والی چادر زیب تن کی ہوئی تھی۔ ایک بدوی نے آپ کی چادر کو اتنی زور سے کھینچا کہ اس کے حاشیہ کے نشان آپ کے کندھے پر پڑ گئے۔ پھر اس نے کہا اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے اللہ تعالیٰ کے اس مال میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عنایت فرمایا ہے یہ دو اونٹ دے دیں۔ آپ نے مجھے کوئی اپنا یا اپنے والد کا مال تو نہیں دینا؟ اُس کی ایسی کرخت باتیں سن کر پہلے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے پھر فرمایا: اَلْمَالُ مَالُ اللّٰہِ وَاَنَا عَبْدُہٗ کہ مال تو اللہ ہی کا ہے اور مَیں اللہ کا بندہ ہوں۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے جو مجھے تکلیف پہنچائی ہے اس کا تم سے بدلہ لیا جائے گا۔ اُس بدوی نے کہا مجھ سے اس کا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم سے بدلہ کیوں نہیں لیا جائے گا؟ اُس بدوی نے کہا۔ اس لئے کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، تبسم فرمایا (تو نرمی کا، عفو کا جو سلوک تھا، پتہ تھا۔ اسی نے ان لوگوں میں جرأت پیدا کی تھی کہ جو دل چاہے کر دیں)۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کے مطلوبہ دو اونٹوں میں سے ایک اونٹ پر جَو اور دوسرے پر کھجوریں لاد دیں اور وہ اس کو عنایت فرمائیں۔

(الشفاء لقاضی عیاض الباب الثانی فی تکمیل اللہ تعالیٰ …الفصل و اما الحلم صفحہ74
جزء اول دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

(خطبات مسرور جلد9 صفحہ22)

پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو تھا جو مخالفوں کی نظر میں بظاہر ایک بہت مشکل بات تھی۔ کبھی اس طرح کا عفو دکھایا جا سکتا ہے؟ لیکن جب آپؐ سے یہ حسنِ سلوک دیکھا تو اس کا نتیجہ کیا ہوا کہ اسلام قبول کر لیا۔ کاش آج مسلمان بھی اس نکتہ کو سمجھ لیں تو اسلام کے پیغام کو کئی گنا ترقی دے سکتے ہیں۔ کاش کہ یہ لوگ شدت پسند گروہوں کے چنگل سے نکل کر اس اسوہ پر غور کریں جو ہمارے سامنے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے۔ آمین

(خطبات مسرور جلد9 صفحہ26)

(خطبہ جمعہ 14؍جنوری 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اکتوبر 2022