• 5 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز
دورہٴ جرمنی و ہالینڈ 2015ء کی چند ایمان افروز جھلکیاں

لوکل احمدیوں پر حضور انور کی ملاقات کے اثرات

30مئی بروز ہفتہ ہم حضور انور کے دورہٴ جرمنی 2015ء کے دوسرے ہفتے میں داخل ہوئے۔ دن میں حضور انور نے احمدی احباب سےفیملی ملاقاتیں فرمائیں اور ہمیشہ کی طرح حضور انور کی ملاقات کے چند لمحات کا برقی اثر مختلف عمر کے احمدی احباب پر خوب عیاں تھا۔

اس صبح میری ملاقات ایک احمدی دوست مکرم میاں عبدالاکبر (بعمر40 سال) سے ہوئی جنہوں نے بتایا کہ جس وقت انہوں نے حضور انور کو دیکھا اوراپنی آنکھوں سے آپ کے اعلیٰ کردار کا مشاہدہ کیا تو انہیں اپنی کمزوریوں پر شرمساری محسوس ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ حضور انور سے ملاقات کے بعد انہیں احساس ہوا ہے کہ ’’جماعت خلافت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘

آپ کی اہلیہ مکرمہ ثناء عروج (بعمر25 سال) کی ابھی ابھی حضور انور سے پہلی بار ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے بتایا کہ اگرچہ موسم گرم ہے حضور انور کی موجودگی میں وہ کپکپاہٹ محسوس کر رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ حضور انور سے ملاقات کے بعد ان کے جذبات کچھ یوں ہیں کہ وہ ہمیشہ کوشش کریں گی کہ اپنی اصلاح اور بہتری کی کوشش کریں۔

حضور انور کے ساتھ طلباء کی کلاس

اسی شام حضور انور نے یونیورسٹی میں زیر تعلیم احمدی طلبہ و طالبات کے ساتھ دوکلاسز کا انعقاد فرمایا۔ پہلی کلاس خدام جب کہ دوسری لجنہ کی ممبرات کے ساتھ منعقد ہوئی۔

خدام کی کلاس کے دوران میں، میں مسجد کی طرف بیٹھا ہوا تھا۔ کلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔جس کے بعد محترم نیشنل سیکرٹری صاحب تعلیم نے رپورٹ پیش کی۔ بعد ازاں احمدی طلباء نے دو presentations دیں۔ پہلی presentation ایک معین دل کی بیماری کے علاج کے حوالے سے تھی جبکہ دوسری nuclear waste کو حفاظت سے ٹھکانے لگانے کے متعلق تھی۔

دونوں presentations نہایت advanced تھیں اور اگر میں یہ کہوں کہ مجھے ان دونوں کا پچاس فیصد ہی سمجھ آیا ہوگا تو میں مبالغہ کر رہا ہوں۔

بعد ازاں میں نے قافلے کے دیگر ممبران سے بات چیت کی اور انہوں نے بھی اس بات کا اظہار کیا کہ وہ ان presentations کے جملہ نکات کو نہیں سمجھ سکے تاہم یہ بات نہایت واضح تھی کہ حضور انور نے ہر دو presentations کو نہایت احسن طور پر سمجھا تھا۔

حضور انور نے اس research کے بارے میں سوالات پوچھے اور جب دیگر طلباء نے سوالات کیے تو حضور انور نے presenter کی موجودگی میں خود جوابات سے نوازا۔ ایسے موقع پر یہ خوب عیاں تھا کہ حضور انور نے presenter کو ایک مشکل سوال کا جواب دینے سے بچا لیا تھا۔

اچھی صحت کے لیے حضور انور کی ہدایات

دل کی بیماری کے متعلق presentation کے بعد حضور انور نے اچھی صحت کو قائم رکھنے کے حوالے سے ہدایات سے نوازا۔ آپ نے فرمایا زیتون کا تیل دل کے لیے اچھا ہے اور یہ بھی کہ نئی تحقیق نے بتایا ہے کہ دہی بھی مفید ہے۔

حضور انور نے بتایا کہ جب آپ غانا میں قیام پذیر تھے تو آپ ملاحظہ فرماتے کہ لوگ کام پر جانے کے لیے چھ سے سات میل چلتے تھے جو انہیں قدرتی طور پر صحت مند رکھتا تھا۔ تاہم مغربی دنیا میں لوگ زیادہ تر اپنی گاڑیوں یاپبلک ٹرانسپورٹ پر انحصار کرتے ہیں۔ اس لیے قدرتی طور پر ہشاش بشاش نہ ہیں۔ اس لیے حضور انور نے فرمایا کہ لوگوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ لوگ جسمانی ورزش یا سرگرمیاں کرتے رہیں۔

حضور انور نے فرمایا کہ گھوڑ سواری ایک اچھی سرگرمی ہے لیکن شہروں میں رہنے والوں کے لیے گھوڑ سواری کرنا مشکل ہے۔ اس لیے ایسے لوگوں کو کم از کم پیدل چلنا چاہیے یا سائیکلنگ کرنی چاہیے۔ حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو یوکے کےچند ایسے خدام کا علم ہے جنہوں نے سایئکلنگ کی وجہ سے اپنی صحت بہت اچھی کر لی ہے۔

حضور انور نے فرمایا کہ جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں وہ اپنے آپ کو سخت نقصان پہنچا رہے ہیں اس لیے اگر کہیں ایسے خدام ہیں جو سگریٹ پیتے ہیں تو جماعت کو انہیں اس کے خطرے سے آگاہ کرنا چاہیے اور اس بری عادت کو چھوڑنے میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔

حضور انور کا امیر صاحب (جرمنی) کے سوال کا جواب دینا

Presentations کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ آپ کی خواہش ہے کہ دنیا انرجی سورسز کی مثبت ترقی میں آگے بڑھے۔ جیسے solar energy ہے اور خطرناک sources پر کم سے کم انحصار کریں جیسا کہ nuclear power ہے۔

presentation کے اختتام پر حضور انور نے ریسرچر کی حوصلہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ ان کی research انسانیت کی ایک خدمت ہے کیونکہ وہ nuclear waste کو احتیاط سے ٹھکانے لگانے کے ایسے طریقے کی تلاش میں ہیں جو انسانی زندگی کو خطرے میں نہ ڈالے۔

بعد ازاں حضور انور نے احمدی طلباء سے استفسار فرمایا کہ کیا ان کا احمدی ریسرچر سے کوئی سوال ہے۔ اگرچہ طلباء میں سے تو نہیں مگر امیر صاحب جرمنی جو میرے بائیں طرف تشریف فرما تھے، نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا اور اس احمدی طالب علم سے سوال پوچھنے کی اجازت چاہی۔ محترم امیر صاحب نے کہا کہ چند سال قبل جرمن گورنمنٹ نے اعلان کیا تھا کہ ہمیشہ کے لیے نیوکلیئر energy کے استعمال کو ختم کر دیں گے اور انہوں نے اس احمدی researcher سے پوچھا کہ کیا وہ اس کے حق میں ہیں۔

امیر صاحب کا سوال سننے پر حضور انور مسکرائے اور اس سوال کا جواب خود عطا فرمایا، آپ نے فرمایا:
’’اگرچہ وہ اس کے حق میں ہے یا نہیں، میں یقینی طور پر اس کے حق میں ہوں اور اس پالیسی کی حمایت کرتا ہوں۔‘‘

امیر صاحب اس جواب سے بہت خوش ہوئے اور حضور انور کے بیان ارشاد فرمانے کے بعد اس احمدی ریسرچر کے لیے مزید کچھ کہنے کی کوئی گنجائش باقی نہ تھی۔

حضور انور کا اپنے تعلیمی دور کے متعلق تبصرہ

پھر طلباء کو حضور انور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا تو ایک طالب علم نے حضور انور سے پوچھا کہ وہ دورطالب علمی میں کیسے طالب علم تھے۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا:
’’میں پڑھائی میں بہت کمزور تھا اور میں صرف دعاؤں سے ہی پاس ہوتا تھا۔‘‘

ایک غمزدہ فیملی کے لیے حضور انور کی محبت

جب حضور انور اپنی رہائش گاہ کی طرف واپس تشریف لے جا رہے تھے تو آپ کا تعارف ایک احمدی دوست مکرم نادر الطاف سے کروایا گیا میں چند قدم پیچھے تھا اور دیکھ رہا تھا کہ نادر صاحب بے اختیار رو رہے تھے۔ان کی آنکھوں سے آنسو روا ں تھے جب انہوں نے حضور انور کو اپنے نومولود بچے کے متعلق بتایا جو اٹھارہ دن قبل پیدا ہوا تھا اور نہایت تشویش ناک حالت میں ہسپتال میں زیر علاج تھا اور ایک لائف سپورٹ مشین پر زندہ تھا ،جس کو ڈاکٹر جلد ہی اتارنے والے تھے۔ حضور انور نے نہایت شفقت سے اپنا ہاتھ مکرم نادر صاحب کے بازو پر رکھا اور ان کے بیٹے کی بیماری کے حوالے سے تفصیلات دریافت فرمائیں۔ چند لمحات کے بعد حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

حضور انور سے ملنے کے بعد نادر صاحب اب اس صدمے کو برداشت کرنے کے لیے تیار تھے اور اللہ کی رضا کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار تھے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ چند دنوں میں ہمیں پتہ چلا کہ وہ نومولود بچہ وفات پا گیا ہے (اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ)۔ چند دنوں کے بعداس نومولود بچے کی نماز جنازہ کا انتظام مسجد میں کیا گیا، جو حضور انور نے نماز ظہر اور عصر سے قبل ادا فرمائی۔

جب حضور انور (نماز جنازہ) پڑھانے کے لیے تشریف لائے تو نادر صاحب اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ اپنے بچوں کا حضور انور سے تعارف کرواتے ہوئے وہ بے حد جذباتی ہو گئے اور اس دوران وہ اپنے آنسو صاف کر رہے تھے۔ انہوں نے حضور انور کو بتایا کہ ان دونوں کی صحت بھی خراب رہتی ہے خاص طور پر ان کی بیٹی کی جس کی عمر دو سے تین سال ہے۔

نادر صاحب نے حضور انور سے دعا کی درخواست کی اور پھر حضور انور سے درخواست کی کہ وہ ان کی بیٹی کو اٹھائیں تاکہ وہ براہ راست خلیفہ وقت کی برکات سے مستفیض ہو سکے۔ اس پر نہایت مشفقانہ انداز میں حضور انور نے اس بچی کو اپنے سینے سے لگایا اور اس کا ماتھا چوما۔ حضور انور کو اس قدر محبت اور شفقت سے اس معصوم بچی کو پیار کرتے دیکھنا یقینا ایک جذباتی کر دینے والا لمحہ تھا اور ایسا منظر تھا جو میں کبھی نہیں بھول سکوں گا۔

پھر حضور انور نے اس بچے کی نماز جنازہ پڑھائی۔ جب میں تابوت کے پاس سے گزرا تو حیران تھا کہ وہ کس قدر کمزور تھا اور یہ بہت تکلیف دہ تھا کہ اتنا چھوٹا سا بچہ فوت ہو گیا ہے۔ احمدی مسلمان اس بات کے خوب شاہد ہیں کہ خلافت کی محبت ان کی تسکین کا ذریعہ ہے اور بڑے سے بڑے غم اور درد کا سہارا ہے۔ پس اس بچے کی نمازجنازہ ادا کرنے کے بعد نادر صاحب نے کہا کہ ان کی فیملی کے دل کا بوجھ اور غم اسی لمحے غائب ہو گیا تھا جب حضور انور نہایت محبت اور شفقت سے ان کی بیٹی کو سینے سے لگایا تھا۔ یقیناً خلیفہ وقت کی محبت ہی غم اور تکلیف کو تسکین اور امید سے بدل سکتی ہے۔

(حضور انور کا دورہ جرمنی مئی – جون 2015ء اردو ترجمہ از ڈائری مکرم عابد خان)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 6)