• 29 اپریل, 2024

اس دنیا کی سزا سے اگلے جہاں کی سزا زیادہ سخت ہے۔ اس لئے اِسے برداشت کرلو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اسی قسم کا ایک مقدمہ پچھلے دنوں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے بھائی پر ہوا۔ چوہدری صاحب اُس وقت ولایت میں تھے۔ (یہاں لندن میں تھے)۔ انہوں نے اپنے بھائی کو لکھا کہ یہ ایمان کی آزمائش کا وقت ہے۔ اگر تم سے قصور ہوا ہے تو میں تمہارا بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اس دنیا کی سزا سے اگلے جہان کی سزا زیادہ سخت ہے۔ اس لئے اُسے برداشت کر لو اور سچی بات کہہ دو۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ سیالکوٹ کے رہنے والے ہمارے ایک دوست ہیں جو ابھی زندہ ہیں۔ احمدی ہونے کے بعد جب اُنہیں معلوم ہوا کہ رشوت لینا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے تو اُنہوں نے تمام اُن لوگوں کے گھروں میں جا جا کر جن سے وہ رشوتیں لے چکے تھے، واپس کیں۔ اس سے وہ بہت زیرِ بار بھی ہو گئے۔ مقروض ہو گئے۔ مگر اس کی انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ تو حضرت مصلح موعود کہتے ہیں ہماری جماعت میں ہر قسم کے اعمال کے لحاظ سے ایسے نمونے ملتے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ صحابہ کے نمونے ہیں لیکن ہمیں اس پر خوش نہیں ہونا چاہئے بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ ساری جماعت ایسی ہو جائے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ مَیں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس امانت کی قدر کریں جو اُن کے سپرد کی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آ کر ہمیں جائیدادیں نہیں دیں، حکومتیں نہیں دیں، کوئی ایجادیں نہیں کیں، سامانِ تعیش ہمیں مہیا نہیں کئے، عیش کرنے کے سامان مہیا نہیں کئے، صرف ایک سچائی ہے جو ہمیں دی ہے۔ اگر وہ بھی جاتی رہے تو کس قدر بدقسمتی ہو گی اور ہم اس فضل کو اپنے ہاتھ سے پھینک دینے والے ہوں گے جو تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے نازل کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم کو اسلام دیا، اخلاقِ فاضلہ دئیے اور نمونے سے بتا دیا کہ ان پر عمل ہو سکتا ہے۔

پھر آپ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مارٹن کلارک نے عدالت میں یہ دعویٰ کیا کہ میرے قتل کے لئے مرزا صاحب نے ایک آدمی بھیجا ہے۔ مسلمانوں میں علماء کہلانے والے اُس کے ساتھ اس شور میں شامل ہو گئے۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تو اس مقدمہ میں آپ کے خلاف شہادت دینے کے لئے بھی آئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت الہاماً بتا دیا تھا کہ ایک مولوی مقابل پر پیش ہو گا مگر اللہ تعالیٰ اُسے ذلیل کرے گا۔ لیکن باوجود اس کے کہ الہام میں اس کی ذلت کے متعلق بتا دیا گیا تھا اور الہام کے پورا کرنے کے لئے ظاہری طور پر جائز کوشش کرنا بھی ضروری ہوتا ہے مگر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ مجھے خود مولوی فضل دین صاحب نے جو لاہور کے ایک وکیل اور اس مقدمے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے پیروی کر رہے تھے، سنایا کہ جب میں نے ایک سوال کرنا چاہا جو ذاتی سوال تھا، جس سے مولوی محمد حسین کی ذلت ہوتی تھی۔ مطلب اس وجہ سے ذات پر اُن کے حرف آتا تھا۔ تو آپ نے مجھے اس سوال کے پیش کرنے سے منع کر دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم ایسے سوالات کو برداشت نہیں کر سکتے۔ مولوی فضل دین صاحب نے کہا کہ اس سوال سے آپ کے خلاف مقدمہ کمزور ہو جائے گا اور اگر یہ نہ پوچھا جائے تو آپ کو مشکل پیش آئے گی۔ مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں، ہم اس سوال کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ جو وکیل تھے مولوی فضل دین، یہ احمدی نہیں تھے بلکہ حنفی تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے وکیل تھے اور آپ کی طرف سے مقدمہ لڑ رہے تھے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ حنفیوں کے لیڈر بھی تھے یہ، انجمن نعمانیہ وغیرہ کے سرگرم کارکن تھے، اس لئے مذہبی لحاظ سے تعصب رکھتے تھے مگر جب بھی کبھی غیر احمدیوں کی مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر کوئی حملہ کیا جاتا تو وہ پُر زور تردید کرتے اور کہتے کہ عقائد کا معاملہ الگ ہے لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ آپ کے اخلاق ایسے ہیں کہ ہمارے علماء میں سے کوئی بھی اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اخلاق کے لحاظ سے میں نے ایسے ایسے مواقع پر اُن کی آزمائش کی ہے کہ کوئی مولوی وہاں نہیں کھڑا ہو سکتا تھا جس مقام پر آپ کھڑے تھے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ جس خدا نے قبل از وقت مولوی محمد حسین صاحب کی ذلت کی خبر آپ کو دی تھی، اُس نے ایک طرف تو آپ کے اخلاق دکھا کر آپ کی عزت قائم کی اور دوسری طرف غیر معمولی سامان پیدا کر کے مولوی صاحب کو بھی ذلیل کر دیا اور یہ اس طرح ہوا کہ وہی ڈپٹی کمشنر جو پہلے سخت مخالف تھا اُس نے جونہی آپ کی شکل دیکھی، اُس کے دل کی کیفیت بدل گئی اور باوجود اس کے کہ آپ ملزم کی حیثیت سے اُس کے سامنے پیش ہوئے تھے اُس نے کرسی منگوا کر اپنے سامنے بچھوائی اور اس پر آپ کو بٹھوایا۔ جب مولوی محمد حسین صاحب گواہی دینے کے لئے آئے، چونکہ وہ اس امید پر آئے تھے کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہو گی یا کم سے کم آپ کو ذلت سے کھڑا کیا گیا ہو گا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مجسٹریٹ نے اپنے ساتھ کرسی پر بٹھایا ہوا ہے تو وہ غصہ سے مغلوب ہو گئے اور جھٹ مطالبہ کیا کہ مجھے بھی کرسی دی جائے۔ ا س پر عدالت نے کہا کہ نہیں۔ آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا۔ جب انہوں نے اصرار کیا تو جج نے اُن کو بڑا سخت ڈانٹا۔

(خطبات مسرور جلد11 صفحہ666-668)

(خطبہ جمعہ 29؍نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اکتوبر 2022