• 5 مئی, 2024

فقہی کارنر

نماز میں مقتدیوں کا آپس میں مل کر کھڑے ہونے کا اصل طریق

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خواجہ عبدالرحمٰن صاحب متوطن کشمیر نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ میرے والد میاں حبیب اللہ صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے نماز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقعہ ملا اور چونکہ میں احمدی ہونے سے قبل وہابی (اہلحدیث) تھا۔ میں نے اپنا پاؤں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاؤں کے ساتھ ملانا چاہا مگر جب میں نے اپنا پاؤں آپ کے پاؤں کے ساتھ رکھا تو آپ نے اپنا پاؤں کچھ اپنی طرف سِر کا لیا جس پر میں بہت شرمندہ ہوا اور آئندہ کے لئے اس طریق سے باز آ گیا۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ فرقہ اہل حدیث اپنی اصل کے لحاظ سے ایک نہایت قابلِ قدر فرقہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے مسلمان بدعات سے آزاد ہو کر اتباع سنت نبوی سے مستفیض ہوئے ہیں مگر انہوں نے بعض باتوں پر اس قدر نامناسب زور دیا ہے اور اتنا مبالغہ سے کام لیا ہے کہ شریعت کی اصل روح سے وہ باتیں باہر ہو گئی ہیں۔ اب اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ نماز میں دو نمازیوں کے درمیان یونہی فالتو جگہ نہیں پڑی رہنی چاہئے بلکہ نمازیوں کو مل کر کھڑا ہونا چاہیے تاکہ اوّل تو بے فائدہ جگہ ضائع نہ جاوے۔ دوسرے بے ترتیبی واقع نہ ہو۔ تیسرے بڑے آدمیوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ وہ بڑائی کی وجہ سے اپنے سے کم درجہ کے لوگوں سے ذرا ہٹ کر الگ کھڑے ہو سکیں۔ وغیر ذالک۔ مگر اس پر اہل حدیث نے اتنا زور دیا ہے اور اس قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کہ یہ مسئلہ ایک مضحکہ خیز بات بن گئی۔ اب گویا ایک اہل حدیث کی نماز ہو نہیں سکتی جب تک وہ اپنے ساتھ والے نمازی کے کندھے سے کندھا اور ٹخنہ سے ٹخنہ اور پاؤں سے پاؤں رگڑاتے ہوئے نماز ادا نہ کرے حالانکہ اس قدر قرب بجائے مفید ہونے کے نماز میں خواہ مخواہ پریشانی کا موجب ہوتا ہے۔

(سیرت المہدی جلد1 صفحہ313-314)

(مرسلہ: داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 اکتوبر 2022