• 20 اپریل, 2024

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ بابت مختلف ممالک و شہر (قسط 10)

ارشادات حضرت مسیح موعودؑ
بابت مختلف ممالک وشہور
قسط 10

ارشادات برائے بٹالہ

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
دوسرا ذرىعہ گناہ سے بچنے کا احساسِ موت ہے۔ اگر انسان موت کو اپنے سامنے رکھے تو وہ ان بدکارىوں اور کوتاه اندىشىوں سے باز آجائے اور خدا تعالىٰ پر اسے اىک نىا اىمان حاصل ہوا پنے سابقہ گناہوں پر توبہ اور نادم ہونے کا موقعہ ملے۔ انسان عاجز کى ہستى کىا ہے؟ صرف اىک دم پر انحصار ہے۔ پھر کىوں وہ آخرت کى فکر نہىں کرتا اور موت سے نہىں ڈرتا اور نفسانى اور حىوانى جذبات کا مطىع اور غلام ہو کر عمر ضائع کر دىتا ہے۔ مىں نے دىکھا ہے کہ ہندوؤں کو بھى احساس موت ہوا ہے۔ بٹالہ مىں کشن چند نام اىک بھنڈارى ستر ىا بہتر برس کى عمر کا تھا۔ اس وقت اس نے گھر بار سب کچھ چھوڑ دىا اور کانشى مىں جا کر رہنے لگا اور وہاں ہى مر گىا۔ ىہ صرف اس لىے کہ وہاں مرنے سے اس کى موکش ہوگى مگر ىہ خىال اس کا باطل تھا۔ لىکن اس سے اتنا تو مفىد نتىجہ ہم نکال سکتے ہىں کہ اس نے احساسِ موت کىا اور احساسِ موت انسان کو دنىا کى لذات مىں بالکل منہمک ہونے سے اور خدا سے دور جا پڑنے سے بچا لىتا ہے۔ ىہ بات کہ کانشى مىں مرنامکتى کا باعث ہوگا ىہ اسى مخلوق پرستى کا پردہ تھا جو اس کے دل پر پڑا ہوا تھا مگر مجھے تو سخت افسوس ہوتا ہے جبکہ مىں دىکھتا ہوں کہ مسلمان ہندوؤں کى طرح بھى احساسِ موت نہىں کرتے۔ رسول اللہ صلى الله علىہ وسلم کو دىکھو صرف اس اىک حکم نے کہ فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ نے ہى بوڑھا کر دىا۔کس قدر احساس موت ہے۔ آپ کى ىہ حالت کىوں ہوئى صرف اس لئے کہ تا ہم اس سے سبق لىں۔ ورنہ رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کى پاک اور مقدس زندگى کى اس سے بڑھ کر اور کىا دلىل ہوسکتى ہے کہ اللہ تعالىٰ نے آپ کو ہادى کامل اور پھر قىامت تک کے لىے اور اس پر کل دنىا کے لىے مقرر فرماىا۔ مگر آپ کى زندگى کے کل واقعات اىک عملى تعلىمات کا مجموعہ ہے جس طرح پر قرآن کرىم الله تعالىٰ کى قولى کتاب ہے اور قانون قدرت اس کى فعلى کتاب ہے اسى طرح پر رسول اللہ صلى الله علىہ وسلم کى زندگى بھى اىک فعلى کتاب ہے جو گوىا قرآن کرىم کى شرح اور تفسىر ہے۔ مىرے تىس سال کى عمر مىں ہى سفىد بال نکل آئے تھے اور مرزا صاحب مرحوم مىرے والد ابھى زندہ ہى تھے۔ سفىد بال بھى گو ىا اىک قسم کا نشان موت ہوتا ہے جب بڑھاپا آتا ہے جس کى نشانى ىہى سفىد بال ہىں تو انسان سمجھ لىتا ہے کہ مرنے کے دن اب قرىب ہىں۔ مگر افسوس تو ىہ ہے کہ اس وقت بھى انسان کو فکر نہىں لگتا۔ مومن تو اىک چڑىا اور جانوروں سے بھى اخلاق فاضلہ سىکھ سکتا ہے کىونکہ خدائے تعالىٰ کى کھلى ہوئى کتاب اس کے سامنے ہوتى ہے۔ دنىا مىں جس قدر چىز ىں اللہ تعالىٰ نے پىدا کى ہىں وہ انسان کے لىے جسمانى اور روحانى دونوں قسم کى راحتوں کے سامان ہىں۔ مىں نے حضرت جنىد رحمۃ اللہ علىہ کے تذکرے مىں پڑھا ہے کہ آپ فرماىا کرتے تھے۔ مىں نے مراقبہ بلى سے سىکھا ہے۔ اگر انسان نہاىت پرغور نگاہ سے دىکھے تو اسے معلوم ہوگا کہ جانور کھلے طور پر خُلق رکھتے ہىں۔ مىرے مذہب مىں سب چرند و پرند اىک خلق ہىں اور انسان اس کے مجموعہ کا نام ہے ىہ نفس جامع ہے اور اسى لىے عالم صغىر کہلاتا ہے کہ کل مخلوق کے کمال انسان مىں ىکجائى طور پر جمع ہىں اور کل انسانوں کے کمالات بہىئت مجموئى ہمارے رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم مىں جمع ہىں اور اسى لىے آپ کل دنىا کے لىے مبعوث ہوئے اور رحمۃ للعالمىن کہلائے۔ اِنَّكَ لَعَلىٰ خُلُقٍ عَظِيْمٍ (القلم: 5) مىں بھى اسى مجموعہ کمالات انسانى کى طرف اشارہ ہے اسى صورت مىں عظمت اخلاق محمدى کى نسبت غور کرسکتا ہے اور ىہى وجہ تھى کہ آپ پر نبوت کاملہ کے کمالات ختم ہوئے ىہ اىک مسلم بات ہے کہ کسى چىز کا خاتمہ اس کى علت غائى کے اختتام پر ہوتا ہے۔ جىسے کتاب کے جب کل مطالب بىان ہو جاتے ہىں تو اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے اسى طرح پر رسالت اور نبوت کى علت غائى رسول الله صلى الله علىہ وسلم پر ختم ہوئى اور ىہى ختم نبوت کے معنے ہىں۔ کىونکہ ىہ اىک سلسلہ ہے جو چلا آىا ہے اور کامل انسان پر آ کر اس کا خاتمہ ہو گىا۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ145-147 اىڈىشن 2016ء)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
مىں ىہ بھى بتلا دىنا چاہتا ہوں کہ استقامت جس پر مىں نے ذکر چھىڑا تھا۔ وہى ہے جس کو صوفى لوگ اپنى اصطلاح مىں فنا کہتے ہىں اور اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ (الفاتحہ: 6) کے معنے بھى فنا ہى کےکرتے ہىں۔ ىعنى روح کے جوش اور ارادے سب کے سب اللہ تعالىٰ کے لىے ہى ہو جائىں اور اپنے جذبات اور نفسانى خواہشىں بالکل مر جائىں۔ بعض انسان جو اللہ تعالىٰ کى خواہش اور ارادے کو اپنے ارادوں اور جوشوں پر مقدم نہىں کرتے وہ اکثر دفعہ دنىا ہى کے جوشوں اور ارادوں کى ناکامىوں مىں اس دنىا سے اٹھ جاتے ہىں۔ ہمارے بھائى صاحب مرحوم مرزا غلام قادر کو مقدمات مىں بڑى مصروفىت رہتى تھى اور ان مىں وہ ىہانتک منہمک اورمحور ہتے تھے کہ آخر ان ناکامىوں نے ان کى صحت پر اثر ڈالا اور وہ انتقال کر گئے اور بھى بہت سے لوگ دىکھے ہىں جو اپنے ارادوں کو خدا پر مقدم کرتے ہىں۔ آخر کار ہوائے نفس مىں بھى وہ کامىاب نہىں ہوتے اور بجائے فائدہ کے نقصان عظىم اٹھاتے ہىں۔ اسلام پر غور کرو گے تو معلوم ہوگا کہ نا کامى صرف جھوٹے ہونے کى وجہ سے پىش آتى ہے۔ جب خدائے تعالىٰ کى طرف سے التفات کم ہوجاتى ہے تو اللہ تعالىٰ کا قہر نازل ہوتا ہے جو اس کو نا مراد اور ناکام بنادىتا ہے۔ خصوصاً ان لوگوں کو جو بصىرت رکھتے ہىں جب وہ دنىا کے مقاصد کى طرف اپنے تمام جوش اور ارادے کے ساتھ جھک جاتے ہىں تو اللہ تعالىٰ ان کو نا مراد کر دىتا ہے۔ لىکن سعىدوں کو وہ پاک اصول پىش نظر رہتا ہے جو احساس موت کا اصول ہے۔ وہ خىال کرتا ہے کہ جس طرح ماں باپ کا انتقال ہو گىا ہے ىا جس طرح پر اور کوئى بزرگ خاندان فوت ہو گىا ہے اسى طرح پر مجھ کو اىک دن مرنا ہے اور بعض اوقات اپنى عمر پر خىال کر کے کہ بڑھاپا آ گىا ہے اور موت کے دن قرىب ہىں خدائے تعالىٰ کى طرف رجوع کرتا ہے۔ بعض خاندان اىسے ہوتے ہىں کہ ان مىں عمرىں على العموم اىک خاص مقدار تک مثل 50 ىا 60 تک جاتى ہىں۔ بٹالہ مىں مىاں صاحب کا جو خاندان ہے اس کى عمرىں بھى على العموم اسى حد تک پہنچتى ہىں۔ اس طرح پر اپنے خاندان کى عمروں کا انداز ہ اور لحاظ بھى انسان کو احساس موت کى طرف لے جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ147-148اىڈىشن 2016ء)

بٹالہ مىں اىک خانسامہ جو مشنرى لىڈى کے ہاں ملازم تھا۔ حضرت صاحب کا خادم تھا۔ مشنرى لىڈى نے اسے اس تعصب کے با عث برخواست کر دىا۔

حضرت اقدس نے فرماىا کہ:- اگر مکھن کھاتے دانت جاتے ہىں تو جاوىں۔

مشنرى لىڈى نے اسے کہا تھا کہ تم اتنى دىر ہمارے پاس رہے اور اثر نہ ہوا۔ اس پر حضرت نے فرماىا کہ اثر تو ہوا کہ اس نے مقابلہ کر کے دىکھ لىا کہ حق اِدھر ہے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ268 اىڈىشن 2016ء)

مفتى صاحب نے اخبار سول ملٹرى مىں طاعون کا مضمون پڑھ کر سناىا اس مضمون کو سن کر حضرت نے فرماىا کہ:۔
ىہ لوگ اللہ تعالىٰ کا لفظ ہرگز منہ پر نہىں لاتے حالانکہ اگر حاکم کے منہ سے اىک بات نکلتى ہے تو ہزاروں آدمىوں پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ بٹالہ کا ذکر ہے کہ اىک دفعہ اىک اىکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر جو کہ اىک دىسى آدمى تھا اس کے منہ سے ىہ بات نکلى کہ نماز پڑھنى چاہىے۔ اس پر بہت سے مسلمانوں نے نماز شروع کر دى۔ اسى طرح کبھى گورنمنٹ کى طرف سے ىہ تا کىد ہو کہ ىہ لوگ خدا کى طرف رجوع کرىں تو دىکھئے پھر لوگوں کى کىا تبدىلى ہوتى ہے مگر اس وقت امراء لوگ اىسے فسق و فجور مىں مبتلا ہىں کہ گوىا ىہ ان کے نطفہ کا اىک جزو بن گىا ہے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ301 اىڈىشن 2016ء)

حضور علىہ الصلوٰۃ والسلام نماز ادا فرمارہے تھے اور آپ کى طبىعت ناساز تھى کہ نماز کے اندر طبىعت مىں ىہ خواہش پىدا ہوئى کہ اگر انگور ملىں تو وہ کھائے جاوىں مگر چونکہ نزدىک و دور ان کا ملنا محال تھا اس لىے کىا ہوسکتا تھا کہ اس اثنا مىں اىک صاحب جناب حکىم محمد حسىن صاحب ساکن بلب گڈھ ضلع دبلى جو کہ حضرت اقدس کے مخلص خدام سے ہىں قادىان سے واپس ہو کر حضرت اقدس کى خدمت مىں حاضر ہوئے اور انہوں نے اىک ٹوکرى انگوروں اور دوسرے ثمرات مثل انار وغىرہ کى حضرت کى خدمت مىں پىش کى اور بىان کىا کہ مجھے علم نہ تھا کہ حضورت بٹالہ تشرىف لائے ہىں۔ مىں قادىان چلا گىا وہاں معلوم ہوا تو اسى وقت مىں واپس ہوا اور ىہ پھل حضور کے لىے ہىں۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ254۔ اىڈىشن 2016ء)

ارشادات برائے لىل اور دھارىوال

اىڈىٹر صاحب اخبار الحکم لکھتے ہىں۔ جب لِىل (دهار ىوال کے پاس اىک گاؤں ہے) جہاں حضرت اقدسؑ نے بغرض پىروى مقدمہ ضمانت برائے حفظ امن منجانب مولوى محمد حسىن صاحب بٹالوى، دھارىوال تشرىف لے جاتے ہوئے قىام فرماىا تھا۔ (مرتب) سے روانہ ہو کر کھنڈہ (جہاں حضرت اقدسؑ تشر ىف فرماتے تھے۔ (مرتب) آ پہنچے۔ تو حضرت اقدسؑ نے فرماىا کہ:
’’اللہ تعالىٰ کے ہر کام مىں مصلحت ہے۔ چونکہ سنا گىا ہے کہ محمد حسىن بھى و ہىں اترنے والا تھا۔ اس لىے اچھا ہوا کہ ہم وہاں نہىں ٹھہرے۔ اىسے لوگوں سے دور ہى رہنا اچھا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ265-266 اىڈىشن 2016ء)

بعد نماز صبح روانگى کا حکم ہوا۔ جب کارخانہ (دھارىوال) کے قرىب سے گزرے تو اس کے متعلق ذکر مىں فرماىا:۔
’’اس کو کسى وقت دىکھنا چاہىے۔ دىکھى ہوئى چىز کچھ کام ہى دىتى ہے۔‘‘

اىک شخص نے کہا کہ حضرت مىں نے اىک بار دىکھا، تو مجھے خدا تعالىٰ کى قدرت پر عجىب جوش آىا اور جب تک مىں نے چار رکعت نماز نہ پڑھ لى صبر نہ آىا۔ حضرت نے فرماىا:
’’اصل بات ىہ ہے کہ سارى باتىں اس لئے ہىں کہ وہ اپنا جلوہ دکھا رہا ہے۔ دىکھو کىڑے تک کو کس قدر طاقتىں دىں ہىں اور الله تعالىٰ کے ہاتھ مىں تو سارى طاقتىں اور قوتىں ہىں۔‘‘

حضور کے لئے خىمہ چونکہ نہر پر لگاىا گىا تھا۔ نہر کو دىکھ کر اور اس کے اردگرد درختوں کے نظارہ کو دىکھ کر فرماىا کہ ’’بہت اچھى جگہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ267 اىڈىشن 2016ء)

ارشادات برائے قادىان

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
اب رہا مکان کے متعلق۔ سو ىا در ہے کہ دجال کا خروج مشرق مىں بتاىا گىا ہے۔ جس سے ہمارا ملک مراد ہے چنانچہ صاحب حجج الکرامہ نے لکھا ہے کہ فتن دجال کا ظہور ہندوستان مىں ہورہا ہے اور ىہ ظاہر ہے کہ ظہورمسىح اسى جگہ ہو جہاں دجال ہو۔ پھر اس گاؤں کا نام قدعہ قراردىا ہے جو قادىان کا مخفف ہے۔ ىہ ممکن ہے کہ ىمن کے علا قہ مىں بھى اس نام کا کوئى گاؤں ہو لىکن ىاد رہے کہ ىمن حجاز سے مشرق مىں نہىں بلکہ جنوب مىں ہے۔ آخر اسى پنجاب مىں اىک اور قادىان بھى تو لدھىانہ کے قرىب ہے۔

اس کے علا وہ خود قضاء وقدر نے اس عاجز کا نام جورکھواىا ہے تو وہ بھى اىک لطىف اشارہ اس طرف رکھتا ہے۔ کىونکہ غلام احمد قادىانى کے عدد بحساب جمل پورے تىرہ سو (1300) نکلتے ہىں۔ ىعنى اس نام کا امام چودہوىں صدى کے آغاز پر ہوگا۔ غرض آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کا اشارہ اسى طرف تھا۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ43 اىڈىشن 2016ء)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
فرائض مذہبى اور عبادات کے بجالانے مىں سلطنت نے پورى آزادى دے رکھى ہے۔ اور کسى کے مال و جان و آبرو سے کوئى ناحق کا تعرض نہىں۔ برخلاف اس پُرفتن وقت کے کہ ہر اىک شخص کىسا ہى اس کا حساب پاک ہو، اپنى جان و مال پر لرزتا رہتا تھا۔ اب اگر کوئى خودا پنا چلن خراب کر لے اور اپنى بے اندامى اور ارتکاب جرائم سے خودمستوجب عقوبت ٹھہر جائے تو اور بات ہے ىا خود ہى سوء اعتقاد اور غفلت کى وجہ سے عبادت مىں کوتاہى کرے تو جدا امر ہے لىکن گورنمنٹ کى طرف سے ہر طرح کى پورى آزادى ہے۔ اس وقت جس قدر عابد بننا چاہو بنوکوئى روک نہىں۔ گورنمنٹ خود معابد مذہبى کى حرمت کرتى ہے اور ان کى مرمت وغىرہ پر ہزاروں روپے خرچ کر دىتى ہے۔ سکھوں کے زمانہ مىں اس کے خلاف ىہ حال تھا کہ مسجدوں مىں بھنگ گھٹتى تھى اور گھوڑے بندھتے تھے۔ جس کا نمونہ خود ىہاں قادىان مىں موجود ہے اور پنجاب کے بڑے بڑے شہروں مىں اس کے نمونے ملىں گے۔ لاہور مىں آج تک کئى اىک مسجدىں سکھوں کے قبضہ مىں ہىں۔ آج اس کے مقابل مىں گورنمنٹ انگلشىہ ان بزرگ مکانوں کى ہرقسم کى واجب عزت کرتى ہے اور مذہبى مکانات کى تکرىم اپنے فرائض مىں سے سمجھتى ہے جىسا کہ انہى دنوں حضور وائسرائے لارڈ کرزن صاحب بہادر بالقانہ نے دہلى کى جامع مسجد مىں جوتا پہن کر جانے کى مخالفت اپنے عملى حالت سے ثابت کر دى اور قابل اقتداء نمونہ بادشاہانہ اخلاق فاضلہ کا دىا اور ان کى ان تقرىروں سے جو وقتا ًفوقتاً انھوں نے مختلف موقعوں پر کى ہىں، صاف معلوم ہو گىا ہے کہ وہ مذہبى مکانات کى کىسى عزت کرتے ہىں۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ430-431 اىڈىشن 2016ء)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
خود ہمارے اس گاؤں مىں جہاں ہمارى مسجد ہے۔ کارداروں کى جگہ تھى۔ ہمارے بچپن کا زمانہ تھا، لىکن مىں نے معتبر آدمىوں سے سنا ہے کہ جب انگرىزى دخل ہو گىا تو چند روز تک و ہى قانون رہا۔ اىک کاردار آىا ہوا تھا اس کے پاس اىک مسلمان سپاہى تھا۔ وہ مسجد مىں آىا اور مؤذن کو کہا کہ بانگ دے۔ اس نے وہى گنگنا کر اذان دى۔ سپاہى نے کہا کہ کىا تم اسى طرح پر با نگ دىتے ہو؟ مؤذن نے کہا ہاں! اسى طرح دىتے ہىں۔ سپاہى نے کہا کہ نہىں کوٹھے پر چڑھ کر اونچى آواز سے اذان دے اور جس قدر زور سے ممکن ہے وہ دے۔ وہ ڈرا، آخر اس نے زور سے بانگ دى۔ تمام ہند واکٹھے ہوگئے اور مُلاّں کو پکڑ لىا۔ وہ بے چارہ بہت ڈرا اور گھبراىاکہ کاردار مجھے پھانسى دے دے گا۔ سپاہى نے کہا کہ مىں تىرے ساتھ ہوں۔ آخر سنگدل چھرى مار برہمن اس کو پکڑ کر کاردار کے پاس لے گئے اور کہا کہ مہاراج! اس نے ہم کو بھرشٹ کر دىا۔ کاردار تو جانتا تھا کہ سلطنت تبدىل ہوگئى ہے اور اب وہ سکھا شاہى نہىں رہى، مگر ذرا دبى زبان سے پوچھا کہ تو نے اونچى آواز سے کىوں با نگ دى؟ سپاہى نے آگے بڑھ کر کہا کہ اس نے نہىں مىں نے بانگ دى۔ کاردار نے کہا کہ کم بختو ! کىوں شور ڈالتے ہو۔ لاہور مىں تو اب کھلے طور سے گائے ذبح ہوتى ہے۔ تم اىک اذان کو روتے ہو۔ جاؤ چپکے ہو کر بىٹھ رہو۔ الغرض ىہ واقعى اور سچى بات ہے جو ہمارے دل سے نکلتى ہے۔ جس قوم نے ہم کو تحت الثرىٰ سے نکالا ہے۔ اس کا احسان ہم نہ مانىں ىہ کس قدر ناشکرى اور نمک حرامى ہے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ432-433 اىڈىشن 2016ء)

اىک معزز افسر جو کسى تقرىب پر اگلے دن قادىان تشرىف لائے تو حضرت اقدس امامنا مرزا غلام احمد صاحب رئىس قادىان نے بھى ان کى دعوت کى جب کہ سب مہمان کھانے کے واسطے جمع ہوئے تو دسترخوان کے بچھائے جانے سے پہلے حضرت اقدس نے اس مہمان کو اور دوسرے احباب کو مخاطب کر کے فرماىا۔

جب بھى آپ اس جگہ قادىان مىں تشرىف لا وىں، بے تکلف ہمارے گھر مىں تشرىف لاىا کرىں۔ ہمارے ہاں مطلقاً تکلف نہىں ہے۔ ہمارا سب کار و بار دىنى ہے۔ اور دنىا اور اس کے تعلقات اور تکلفات سے بالکل ہم جدا ہىں۔ گوىا ہم دنىا دارى کے لحاظ سے مثل مردہ کے ہىں۔ ہم محض دىن کے ہىں اور ہمارا سب کارخانہ دىنى ہے۔ جىسا کہ اسلام مىں ہمىشہ بزرگوں اور اماموں کا ہوتا آىا ہے۔ اور ہمارا کوئى نىا طرىق نہىں بلکہ لوگوں کے اس اعتقادى طرىق کو جو کہ ہر طرح سے ان کے لئے خطرناک ہے دور کرنا اور ان کے دلوں سے نکالنا ہمارا اصل منشا ء اور مقصود ہے مثلاً بعض نادان ىہ عقىده رکھتے ہىں کہ غىر قوموں کے لوگوں کى چىزىں چرا لىنا جائز ہے اور کافروں کا مال ہمارے لئے حلال ہے اور پھر اپنى ان نفسانى خواہشوں کى خاطر اس کے مطابق حدىثىں بھى گھڑ رکھى ہىں۔ پھر وہ ىہ عقىدہ رکھتے ہىں کہ حضرت عىسىٰ جو دو بارہ دنىا مىں آنے والے ہىں تو ان کا کام لاٹھى مارنا اور خونرىزىاں کرنا ہے؛ حالانکہ جبر سے کوئى دىن دىن نہىں ہوسکتا۔ غرض اسى قسم کے خوفناک عقىدے اور غلط خىالات ان لوگوں کے دلوں مىں پڑے ہوئے ہىں جن کو دور کر نے کے واسطے اور پر امن عقائد ان کى جگہ قائم کرنے کے واسطے ہمارا سلسلہ ہے۔ جىسا کہ ہمىشہ سے ہوتا رہا ہے کہ مصلحوں کى اور اولىاءاللہ کى اور نىک با تىں سکھانے والوں کى دنىا دار مخالفت کرتے ہىں۔ اىسا ہى ہمارے ساتھ بھى ہوا ہے اور مخالفوں نے غلط خبرىں محض افترا اور جھوٹ کے ساتھ ہمارے بر خلاف مشہور کىں ىہاں تک کہ ہم کو ضرر پہنچانے کے واسطے گورنمنٹ تک غلط ر پور ٹىں کىں کہ ىہ مفسد آدمى ہىں اور بغاوت کے ارادے رکھتے ہىں اور ضرور تھا کہ ىہ لوگ اىسا کرتے کىونکہ نادانوں نے اپنے خىر خواہوں ىعنى انبىاء اور ان کے وارثىن کے ساتھ ہمىشہ اور ہر زمانہ مىں اىسا ہى سلوک کىا ہے، مگر خدا تعالىٰ نے انسان مىں اىک زىرکى رکھى ہے اور گورنمنٹ کے کارکن ان لوگوں کو خوب جانتے ہىں۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ283-284 اىڈىشن 2016ء)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
مىرى غرض اس سے ىہ ہے کہ خدا تعالىٰ نے ان کے دعووں کى حقىقت کھول دى اور بے جا شىخى کا بھانڈا پھوڑ کر دکھاىا۔ جو دعوىٰ کىا اسى دعوے مىں پست ہوئے۔ معلوم ہوا کہ دعوىٰ نہىں کرنا چاہىے۔ ہمارے والد صاحب مرحوم بھى مشہور طبىب تھے۔ اور پچاس برس کا تجربہ تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ حکمى نسخہ کوئى نہىں۔ حقىقت ىہى ہے۔ تصرف اللہ کا خانہ خالى رہتا ہے۔ خدا تعالىٰ کى طرف توجہ کرنے والا سعادت مند ہے۔ مصىبت مىں شىخى مىں نہ آوے۔ غىر اللہ پر بھروسہ نہ کرے۔ ىک دفعہ ہى خفىف عوارض شدىد ہونے لگتے ہىں۔ کبھى قلب کا علاج کرتے کرتے دماغ پر آفت آجاتى ہے کبھى سردى کے پہلو پر علاج کرتے کرتے گرمى کا زور چڑھ جاتا ہے۔ کون اس کو طے کر سکتا ہے۔ خدا پر بھروسہ کرنا چاہىے۔ ان حشرات الارض اور سمىات کو کوئى کب گن سکتا ہے۔ بىمارىوں کو بھى نہىں گن سکتے۔ لکھا ہے۔ کہ آنکھ ہى کى تىن ہزار بىمارىاں ہىں۔ بعض بىار ىاں اىسى ہوتى ہىں کہ وہ اىسے طور پر غلبہ کرتى ہىں کہ ڈاکٹر نسخہ نہىں لکھ چکتا جو بىمار کا خاتمہ ہو جا تا ہے۔ پس اللہ تعالىٰ ہى کى پناہ مىں آنا چاہىے آج کل دىکھا جا تا ہے کہ لوگوں کو خدا سے سخت غفلت اور استغنا ہے۔ قبر ىں کھودى جارہى ہىں۔ فرشتے ہلاکت کے مواد تىار کر رہے ہىں اور لوگ کاٹے جاتے ہىں۔ اس پر بھى نادان دھىان نہىں کرتے۔ و با قادىان سے 35کوس کے فاصلہ پر ہے۔ گوشدت حرارت کى وجہ سے کم ہوتى جاتى ہے مگر کىا کوئى کہہ سکتا ہے کہ شدت حرارت مىں کم ہوگئى تو آئندہ سال نہ آئے گى مجھے چند مرتبہ بذرىہ الہام اور رؤىا سے معلوم ہوا ہے کہ وباء ملک مىں پھىلے گى اور مىں اس کو پىشتر شائع کر چکا ہوں کہ سىاه رنگ کے پودے لگائے جارہے ہىں۔ لگانے والوں سے پوچھا۔ تو انہوں نے طاعون کے درخت بتلائے۔ ىہ بڑى خطرناک بات ہے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ232-233 اىڈىشن 2016ء)

اىک مرتبہ کسى دوست نے عرض کى کہ وہ تجارت کے لئے قادىان آنا چاہتا ہے۔ اس پر حضرت مسىح موعودؓنے فرماىا:
ىہ نىت ہى فاسد ہے۔ اس سے توبہ کرنى چاہىے۔ ىہاں تو دىن کے واسطے آنا چاہىے اور اصلاح عا قبت کے خىال سے ىہاں رہنا چاہىے۔ نىت تو ىہى ہو اور اگر پھر اس کے ساتھ کوئى تجارت وغىرہ ىہاں رہنے کى اغراض کو پورا کرنے کے لئے ہو تو حرج نہىں ہے۔ اصل مقصد دىن ہونہ دنىا۔تجارتوں کے لئے اور شہر موزوں نہىں۔ ىہاں آنے کى اصلى غرض کبھى دىن کے سوا اور نہ ہو۔ پھر جو کچھ حاصل ہو جاوے وہ خدا کا فضل سمجھو۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ415 اىڈىشن 2016ء)

حضرت مسىح موعودؑ فرماتے ہىں:
غرض ىہ حقوق العباد پرانجىل کى تعلىم کا اثر ہے۔ اب مىں ىہ بھى بتادىنا چاہتا ہوں کہ د ىا نند نے جووىد کا خلاصہ ان دونوں اصولوں کے روسے پىش کىا ہے وہ کىا ہے؟ حق اللہ کے متعلق تو اس نے ىہ ظلم کىا ہے کہ مان لىا ہے کہ خدا کسى چىز کا بھى خالق نہىں ہے۔ بلکہ ىہ ذرات اور ارواح خود بخود ہى اس کى طرح ہے۔ وہ صرف اُن کا جوڑنے جاڑنے والا ہے۔ جس کو عربى زبان مىں مؤلف کہتے ہىں، اب اس سے بڑھ کر حق الله کا اتلاف اور کىا ہوگا کہ اس کى سارى صفات ہى کو اڑا دىا اور عظىم الشان صفت خالقىت کا زور سے انکار کىا گىا۔ جبکہ وہ جوڑنے جاڑنے والا ہى ہے تو پھر سمجھ مىں نہىں آتا کہ اگر ىہ تسلىم کر لىا جاوے کہ وہ اىک وقت مر بھى جاوے گا تو اس سے مخلوق پر کىسا اثر پڑ سکتا ہے۔ کىونکہ جب اس نے اسے پىدا ہى نہىں کىا، تو وہ اپنے وجود کے بقا اور قىام مىں قائم بالذات ہىں اس کى ضرورت ہى کىا ہے؟ جوڑنے جاڑنے سے اس کا کوئى حق اور قدرت ثابت نہىں ہوتى۔ جبکہ اجسام اور روحوں مىں مختلف قوتىں اتصال اور انفصال کى بھى موجود ہىں۔ روح مىں بڑى بڑى قوتىں ہىں۔ جىسے کشف کى قوت۔ انسانى روح جىسى ىہ قوت دکھا سکتا ہے اور کسى کا روح نہىں دکھا سکتا۔ مثلا ًگائے ىا بىل کا۔ اور افسوس ہے کہ آر ىہ ان ارواح کو بھى معہ ا ُن کى قوتوں اور خواص کے خدا کى مخلوق نہىں سمجھتا۔ اب سوال ىہ ہوتا ہے کہ جب ىہ اشىاء اجسام اور ارواح خود بخود قائم بالذات ہىں اور ان مىں اتصال اور انفصال کى قوتىں بھى موجود ہىں تو وجود بارى پر اُن کے وجود سے کىا دلىل لى جاسکتى ہے۔ کىونکہ جب مىں ىہ کہتا ہوں کہ ىہ لوٹا اىک قدم چل سکتا ہے۔ دوسرے قدم پر اس کے نہ چلنے کى کىا وجہ؟

وجود بارى پر دو ہى قسم کے دلائل ہو سکتے ہىں۔ اول تو مصنوع کو دىکھ کر صانع کے وجود کى طرف ہم انتقال ذہن کا کر تے ہىں۔ وہ تو ىہاں مفقود ہے کىونکہ اس نے کچھ پىدا ہى نہىں کىا۔ کچھ پىدا کىا ہو تو اس سے وجود خالق پر دلىل پىدا کرىں اور ىا دوسرى صورت خوارق اور معجزات کى ہوتى ہے۔ اس سے وجود بارى پر زبردست دلائل قائم ہوتے ہىں مگر اس کے لىے د ىا ننداور سب آرىوں نے اعتراف کىا ہے کہ وىد مىں کسى پىشگوئى ىا خارق عادت امر کا ذکر نہىں اور معجزہ کوئى چىز ہى نہىں ہے اب بتاؤ کونسى صورت خدا کى ہستى پر دلىل قائم کرنے کى ان کے عقىدہ کے رو سے رہى اور پھر ان کا اىسا خدا ہے کہ کوئى سارى عمرکتنى ہى محنت و مشقت سے اس کى عبادت کرے،مگر اس کو ابدى نجات ملے گى ہى نہىں۔ ہمىشہ جونوں کے چکر مىں اسے چلنا ہوگا کبھى کىڑا مکوڑ اور کبھى کچھ کبھى کچھ بننا ہو گا۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ454-455 اىڈىشن 2016ء)

 (جارى ہے)

(سید عمار احمد)

پچھلا پڑھیں

تبلیغی پروگرام اُترخت (ہالینڈ)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 نومبر 2021