رہنما تو ہیں ہزاروں راستہ کوئی نہیں
گُنجلکوں میں پھنس گئے ہیں اور سرا کوئی نہیں
اپنی اپنی ڈفلیاں ہیں، اپنا اپنا راگ ہے
آسمانی راگ لیکن گا رہا کوئی نہیں
منتظر صدیوں سے تھے کہ اک مسیحا آئے گا
اور جب وہ آگیا پہچانتا کوئی نہیں
ہے مسلمانی کا دعوی اور اسی پر مطمئن
مانتے ہیں رب کو، رب کی مانتا کوئی نہیں
لذتیں دنیا کی ہیں مطلوب و مقصودِ جہاں
پر خدا سے خود اُسی کو مانگتا کوئی نہیں
رات کے پچھلے پہر ہر شب بلاتا ہے خدا
بے خبر سب سو رہے ہیں، جاگتا کوئی نہیں
تُو نہ رسوا کرنا اس دن جب رؔضا کے واسطے
اے خدا! جائے پنہ تیرے سوا کوئی نہیں
(انصر رضا۔ کینیڈا)