• 31 اکتوبر, 2024

سپین کی پہلی تاریخی مسجد بشارت کا تعارف

سپین کا مختصر تعارف

سپین یورپ کا ایک خوبصورت ملک ہے۔ اس کانام ہسپانیہ ہے۔ سرکاری طور پر مملکت ہسپانیہ ،کاستین، کتالان، باسک سمیت بہت سی قدیم قوموں کا ملک ہے۔ مغرب کی جانب يہ پرتگال، جنوب ميں جبل الطارق اور مراکش اور شمال مشرق ميں انڈورا اور فرانس کے ساتھ ملتا ہے۔سپین میں زیادہ تر لوگ مسیحی مذہب کو مانتے ہیں۔ 76 فی صد ہسپانیہ کے باشندے مسیحی ہیں۔ 2 فی صد باشندے دوسرے مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

سپین میں اسلام کی آمد

تاریخ میں عام طور پر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ مسلمان سپین یعنی اندلس میں 91 ہجری بمطابق 709 عیسوی کاؤنٹ جولیس کی درخواست پر آئے جس کی بیٹی کے ساتھ راڈرک بادشاہ نے زیادتی کی تھی اور پھر 711ء میں طارق بن زیاد کے ہاتھوں راڈرک کی شکست کے بعد یکے بعد دیگرے قرطبہ، طلیطلہ اور اشبیلیہ مسلمانوں کے قبضہ میں آتے چلے گئے۔ لیکن ایک اور حقیقت جس کا بعض مؤرخین نے ذکر کیا ہے اسے عموما ً فراموش کر دیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان یہاں پر اسلام کے آغاز میں ہی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد پہنچ گئے تھے اور ان کی یہ ہجرت کسی دنیاوی لالچ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس زمانے میں ابھرنے والے بعض فتنوں سے بچنے کی خاطر تھی۔ بہر حال جب مسلمان اس ملک میں آئے تو انہوں نے یہاں آ کر ایک تو اس ملک کے قوانین کا احترام برقرار رکھا دوسرے یہاں کی رعایا کا ہر طرح سے خیال رکھا اور عدل و انصاف کو قائم کیا۔

مسلمانوں نے یہاں کی زمینوں کو آباد کر کے زراعت کے قابل بنایا اور اجاڑ بستیوں کو آباد کیا۔ بڑی پُر شکوہ اور خوبصورت عمارتیں تعمیر کیں اور دوسری اقوام سے تجارتی تعلقات استوار کئے۔ مہمانوں کے لئے سرائیں اور مریضوں کے لئے بڑے بڑےشفا خانے بنائے جہاں امیر اور غریب کے فرق کے بغیر سب کو بہترین علاج اور دوسری سہولیات مہیا کی جاتیں۔ تعلیم و تدریس کو عام کیا یونانی اور لاطینی کتب کے تراجم ہونے لگے اور ایسی یونیورسٹیاں بنائی گئیں جو مدت تک پورے یورپ کے لئے علم کا مرکز بنی رہیں۔ مسلمانوں کے ان کارناموں کی وجہ سے عوام کے دلوں میں ان کی محبت مسلسل بڑھتی رہی اور سات سو سال تک انہوں نے بڑی شان و شوکت کے ساتھ یہاں پر حکومت کی حتیٰ کہ قرونِ وسطی کے ایک جرمن مؤرخ نے اپنے مخطوط میں قرطبہ کو دنیا کا نگینہ قرار دیا اور لکھا کہ قرطبہ کی صاف اور پکی سڑکیں اس زمانہ میں بھی لندن اور پیرس کی ریتلی اور گرداُڑاتی سڑکوں سے بالکل مختلف تھیں۔

احیاء دین کا آغاز

سپین کی یہ حکومت اگرچہ اس وقت کے مسلمان حکمرانوں کی بد عملیوں اور سازشوں کے نتیجہ میں قائم نہ رہ سکی لیکن خلفائے احمدیت نے سپین میں دین حق کے از سر نو احیاء کے لئے ہمیشہ جو مخلصانہ کوششیں اور درد مندانہ دعائیں کی ہیں وہ ایک دن ضرور رنگ لائیں گی۔

حضرت خلیفۃ ا لمسیح الثالثؒ جب پہلی بار سپین تشریف لائے تو غرناطہ میں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کی متضرعانہ دعاؤں کو سنا اور ایک عظیم الشان بشارت سے نوازا۔ چنانچہ حضورؒ نے فرمایا۔
’’میں بہت پریشان تھا۔ سات سو سال تک وہاں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے۔ اس وقت کے بعض غلط کار علماء کی سازشوں کے نتیجہ میں وہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی… غرناطہ جاتے ہوئے میرے دل میں آیا کہ ایک وقت وہ تھا کہ یہاں کے در ودیوار سے درود کی آوازیں اُٹھتی تھی۔ آج یہ لوگ گالیاں دے رہے ہیں۔ طبیعت میں بڑا تکدر پیدا ہوا۔ چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ جس حد تک کثرت سے درود پڑھ سکوں گا پڑھوں گا تاکہ کچھ تو کفارہ ہو جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت نے مجھے بتائے بغیر میری زبان کے الفاظ بدل دیئے۔ گھنٹے دو گھنٹے کے بعد اچانک جب میں نے اپنے الفاظ پر غور کیا تو میں اس وقت درود نہیں پڑھ رہا تھا بلکہ اس کی جگہ لا الہ الا انتَ اور لا الہ الا ھو پڑھ رہا تھا یعنی توحید کے کلمات میری زبان سے نکل رہے تھے۔ تب میں نے سوچا کہ اصل تو توحید ہی ہے۔‘‘

الغرض حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ارض اندلس پر ازسرِ نو دین حق کا جھنڈا لہرانے کے لئے یکم فروری 1936ء کو محترم ملک محمد شریف صاحب گجراتی کو قادیان سے سپین روانہ فرما کر جس مشن کا آغاز فرمایا تھا وہ خلفائے احمدیت کی بابرکت دعاؤں اور تاریخ ساز منصوبوں کے ذریعہ محترم مولانا کرم الٰہی صاحب ظفر جیسے وفا شعار اور فدائی واقفین زندگی کی بے لوث قربانیوں کے جلو میں مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور اللہ کے فضل سے ہر آنے والے دن میں اس میں تقویت اور وسعت پیدا ہو رہی ہے۔

جماعت احمدیہ کو سپین میں تقریباً750 سال کے طویل عرصہ کے بعد خلافت ثالثہ کے عہد با سعادت میں پیدرو آباد کے مقام پر بیت الذکر بنانے کی توفیق ملی اور 9؍اکتوبر 1980ء کو وہ ساعت سعد آئی جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے دست مبارک سے نہایت متضرعانہ دعاؤں کے ساتھ اس کا سنگ بنیاد رکھا اور اسے ’’بیت بشارت‘‘ کے نام سے موسوم کیا۔ پیدرو آباد میڈرڈ سے قرطبہ جانے والی شاہراہ پر قرطبہ سے 34 کلو میٹر پہلے واقع ہے۔ بیت الذکر کے دونوں اطراف سے سڑکیں گزرتی ہیں اور بلند مقام پر واقع ہونے کی وجہ سے بیت کے سفید مینار دور سے دکھائی دیتے ہیں۔ بلاشبہ جماعت احمدیہ کی یہ بیت اس خطہ میں دین حق کے احیائے نو کے اس عظیم الشان انقلاب کا پیش خیمہ ہے جس کا ظہور خدا تعالیٰ کا منشاء اور اس کی اٹل تقدیر ہے۔

(روزنامہ الفضل 29؍اپریل 2010ء صفحہ5-6)

سپین میں مسجد بشارت کا سنگِ بنیاد رکھے جانے کی دلوں کوگرما دینے والی تفصیلات

9؍اکتوبر 1980ء کو چودھویں صدی اسلامی کے آخری سال…انتہائی مبارک تقریب سعید، انتہائی مبارک دن، انتہائی مبارک گھڑی

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے بنیادی اینٹ رکھنے کے بعد حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کو دنیا کی تمام احمدی مستورات کی طرف سے اینٹ رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

(یہ رپورٹ کتاب ’’دورۂ مغرب1400ھ‘‘ سے اخذکی گئی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے چودھویں صدی ہجری کے آخری سال 1400ھ بمطابق 1980ء میں خالص دینی اغراض و مقاصد کے لیے پورے چار ماہ دنیا کے تین بر اعظموں میں پھیلے ہوئے تیرہ ممالک کا جو دورہ فرمایا اس کی تفصیلی رپورٹ جناب مسعود احمد خان صاحب دہلوی مدیر روزنامہ الفضل ربوہ اپنے موقر روزنامہ کو بھیجتے رہے جو بالاقساط شائع ہوتی رہی اور بعد ازاں کتابی صورت میں بھی شائع ہوکر مستند دستاویز کا درجہ پا گئی۔)

اسلام کی نشأةثانیہ میں 9؍اکتوبر 1980ء (بمطابق28؍ذی القعدہ 1400ھ۔ بروز جمعرات) کا دن انتہائی برکتوں، انتہائی خوشیوں اور انتہائی مسرتوں سے معمور دن تھا جبکہ حضرتِ مہدی علیہ السلام کے تیسرے اور مقدس نافلہ سیدنا حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے درد مندانہ اور عاجزانہ دعاؤں کے پر کیف ماحول میں اسلامی عظمتِ رفتہ کے شہر قرطبہ سے 32 کلومیٹر کے فاصلہ پر قصبہ پیدروآباد (PEDRO ABAD) میں خدائے واحدو یگانہ کی عبادت اور اس کی حمد کے لیے مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔

سپین میں اسلام کے احیا کے لیے سات سو چوالیس (744) سال بعد یہ سب سے پہلی مسجد ہے جس کی تعمیر کی سعادت جماعت احمدیہ کو حاصل ہوئی۔ تا خدائے واحد کی توحید اس زمین پر پھیلے اور ہسپانوی قوم ایک دفعہ پھر توحید کے نور سے منور ہو کر اس فخر الانبیاء حضرت محمد رسول اللہﷺ کی غلامی اختیار کر کےسلامتی اور امن کی زندگی بسر کر سکے۔

امریکہ، سویڈن، ناروے، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، نائیجیریا، انگلستان، ہالینڈ، ایران اور پاکستان کے ممالک کے احمدی احباب اس بابرکت تقریب میں شامل ہونے کے لیے تشریف لائے۔

آج عید ہے

حضورؒ نے اہلِ خانہ کو ہدایت فرمائی کہ آج کے روز کوئی ملاقات نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی اور disturbance ہو۔ آپ نے فرمایا تھا کہ میں سارا وقت دعاؤں میں گزارنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ حضورؒ ساڑھے تین بجے صبح سے قبل کے وقت سے ہی دعاؤں میں مصروف رہے۔ اڑھائی بجے سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ ہوٹل سے باہر تشریف لائے اور مولوی کرم الٰہی ظفر صاحب سے فرمایا: ’’خوش ہوں آج عید کا دن ہے۔‘‘

پیدروآباد: میڈرڈ سے قرطبہ جانے والی شاہراہ پر واقع ہے اور قرطبہ سے 34 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ مسجد کے لیے خریدی گئی زمین کا کل رقبہ 15کنال کے قریب ہے۔ زمین کے دونوں طرف سڑک گزرتی ہے۔ ایک طرف میڈرڈ کو جانے والی شاہراہ ہے اور دوسری طرف گاؤں کو جانے والی پختہ سڑک ہے۔ اونچی جگہ ہے جہاں سے اردگرد کا سارا علاقہ نظر آتا ہے۔ جماعت احمدیہ سپین کے احباب نے بہت ہی محنت اور مستعدی سے کام کیا۔ کئی روز تک وقار عمل کر کے مسجد کے علاقہ کو صاف کیا۔

جب حضورؒ پیدرو آباد تشریف فرما ہوئے تو سب سے پہلے زمین کے رقبہ کا جائزہ لیا۔ پھر حضورؒ نے ظہر و عصر کی نماز پڑھائی۔ مکرم منیر الدین شمس صاحب نے اذان کہی۔ حضورؒ کے ارشاد پر مکرم کمال یوسف صاحب نے ظہر کی نماز کی اقامت کہی اور عصر کی اقامت سید محمود احمد ناصر صاحب نے کہی۔ ہر دل خدا کی حمد سے معمور اور رقت کے جذبات سے بھرپور تھا۔ خداتعالیٰ سے رو رو کر عاجزانہ دعائیں کیں کہ خدا اسلام کو ایسا غلبہ عطا کرے جو قیامت تک باقی رہے۔

مسجد کا سنگِ بنیاد

ٹھیک 3 بج کر40 منٹ پر سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ اس جگہ پہنچے جہاں مسجد کی بنیاد رکھی جانی تھی۔ مکرم سید محمود احمد صاحب ناصؔر بنیاد کے پتھر (slab) کو جو تقریباً بارہ انچ چوڑا، بارہ انچ لمبا اور ڈیڑھ انچ موٹا تھا، تھامے ہوئے تھے۔ حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی کے ساتھ بنیاد کےپتھر کو برکت دی۔ پھر فرمایا: میں کچھ وقت دعا کروں گا پھر بنیاد رکھوں گا۔

چنانچہ حضورؒ نے حسبِ ذیل آیات قرآنیہ اور دعائیں پڑھیں اس وقت ہر آنکھ سے آنسو رواں تھے اور ہر دل میں انتہائی رقت طاری تھے۔

وَاِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَاِسۡمٰعِیۡلُ ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۱۲۸﴾ رَبَّنَا وَاجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبۡ عَلَیۡنَا ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۲۹﴾

(البقرة: 128-129)

رَبَّنَا اسْتَجَبْتَ دُعَاءَ اِبْرَاھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ (عَلَیْھمَا السَّلَامُ) وَ بَعَثْتَ فِیْنَا رَسُوْلاً تَلَی عَلَیْنَا آیَاتِکَ وَ عَلَّمْنَا الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ زَکَّانَابِقُوَّتِہِ الْقُدْسِیَة وَ اَحْیَانَا بِحَیَاتِہِ الْاَبْدِیَّةِ وَ نَوَّرَنَا بِنُوْرِہِ الْاَتَمِّ الَّذِیْ وَسِعَ الزَّمَانَ وَ الْمَکَانَ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ. رَبَّنَا بِفَضْلِکَ آتَیْتَنَا عَقْلًا سَلِیْمًا وَ قَلْبًا مُنِیْبًا فَنَجْھَدُ اَنْ لَا نَرْغَبَ عَنْ مِلَّةِ اِبْرَاھِیْمَ وَ لَا عَنْ دِیْنِ الْمُصْطَفٰی خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ . رَبَّنَا قُلْتَ أَسْلِمُوْا۔أَسْلَمْنَا یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔ أَسْلَمْنَا یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔

(قرآنی دعا اپنے الفاظ میں)

پھر حسب ذیل آیات تلاوت فرمائیں:

رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَکَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ ﴿۱۹۴﴾ۚ رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدۡتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخۡزِنَا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّکَ لَا تُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ ﴿۱۹۵﴾ فَاسۡتَجَابَ لَہُمۡ رَبُّہُمۡ اَنِّیۡ لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی

(آل عمران: 194-196)

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ ﴿۹﴾

(آل عمران: 9)

ان آیات اور دعاؤں کا ترجمہ صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے پر شوکت اور پر سوز آواز میں پڑھ کر سنایا جبکہ اس کا سپینش زبان میں ترجمہ مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر نے کیا۔ حضورؒ ابھی بنیاد میں نیچے اترے ہی تھے کہ ساری فضا اللّٰہ اکبر، اسلام زندہ باد، احمدیت زندہ باد، طارق بن زیاد زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔

سب سے پہلا نعرہ مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے لگایا۔ اس کے بعد نعروں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کو ایک فتحِ عظیم حاصل ہوئی ہے اور ایک بہت بڑا محاذ جیت لیا گیاہے۔

حضور ؒکے بنیادی اینٹ رکھنے کے بعد حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کو دنیا کی تمام احمدی مستورات کی طرف سے اور پھر حضور کے ارشاد پر حسبِ ذیل دوستوں کو اینٹ رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

سید محمود احمد صاحب ناصر امریکہ، مولانا شیخ مبارک احمد صاحب لندن، کمال یوسف صاحب ناروے، نسیم مہدی صاحب سوئٹزرلینڈ، منصور احمد خاں صاحب مغربی جرمنی، لئیق منیر صاحب مغربی جرمنی، مسٹر سوین ہینسن (Mr Svend Hansen) ڈنمارک، منیر الدین صاحب سویڈن، اللہ بخش صادق صاحب ہالینڈ، منیر الدین شمسؔ صاحب لندن، صالح محمد خان صاحب، سردار منیر احمد صاحب لندن، آرکیٹیکٹ۔ پیدروآباد کی سب سے معمر عورت Sra Madalen A Lope Ruiz، سب سے چھوٹا بچہ Jose Osuna Salina، مولوی کرم الٰہی صاحب ظفؔر، مولوی عبد الستار صاحب، قرطبہ کے سپینش احمدی محمد احمد صاحب، عبد الرحمٰن صاحب، صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب نائب صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب پرائیویٹ سیکرٹری۔

اس دوران سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی اقتداء میں تمام حاضرین لاالہ الا اللّٰہ۔ لا الہ الا اللّٰہ پڑھ رہے تھے۔

سنگِ بنیاد کی تقریب کے دوسرے حصہ میں عطاء الٰہی صاحب ابن مولوی کرم الٰہی صاحب ظفؔر نے تلاوتِ قرآن پاک جبکہ طارق احمد بھٹی صاحب نے نظم پڑھی۔

حضورؒ نے احباب کو انگریزی میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مسجد کی تعمیر کا کام اپنی حقیقت کے لحاظ سے بہت اہم کام ہے۔ مسجد خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنائی جاتی ہے۔ مسجد ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمام انسان برابر ہیں۔ خواہ وہ غریب ہوں یا امیر۔ پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ۔ پیدروآباد کے رہنے والے ہوں یا ہزاروں میل دور پاکستان میں مقیم ہوں۔ بلحاظ انسان سب برابر ہیں۔ حضورؒ نے فرمایا اسلام ہمیں باہم محبت اور الفت سے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمیں انکساری سکھاتا ہے۔اور بتاتا ہے کہ انسانوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے وقت ہمیں مسلم اور غیر مسلم میں کسی قسم کی کوئی تمیز روا نہیں رکھنی چاہیے۔ انسانیت کا یہی تقاضا ہے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ میرا پیغام صرف یہ ہے کہ Love for All Hatred For None یعنی سب کے ساتھ پیار کرو، نفرت کسی سے نہ کرو۔ حضورؒ کا یہ پیغام اہلیان پیدرو آباد کے لیے بہت مسرت کا باعث ہوا۔ جس کا اظہار انہوں نے تالیاں بجا کر کیا۔ آخر پر حضورؒ نے دعا دی کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو۔نیک اور سعادت مند اولاد میں بہت بہت ترقی ہو۔ ان کی عمروں میں اور صحت میں برکت دے اور زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی ہو۔

حضورؒ کے خطاب کے بعد پیدرو آباد کے میئر نے حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا This is your village کہ یہ گاؤں آپ ہی کا ہے۔ ہم ہر لحاظ سے آپ کے تابعدار ہیں اور آپ کو یہاں آنے اور مسجد بنانے کو مبارکباد دیتے ہیں۔

پریس کانفرنس

اس موقعہ پر ایک پریس کانفرنس بھی ہوئی۔ ریڈیو اور ٹی وی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ اس سوال کے جواب میں کہ آپ نے مسجد کے لیے پیدرو آباد کی جگہ کو کیوں انتخاب کیا؟ حضورؒ نے فرمایا کہ ہم نے اس جگہ کو نہیں چنا بلکہ خدا تعالیٰ نے چنا ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے لوگ بہت اچھے ہیں۔

مقامی احباب کا شوق

پیدرو آباد کے مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان آہستہ آہستہ سینکڑوں کی تعداد حضورؒ کے اردگرد جمع ہو گئے اور جلد ہی ایسی صورتِ حال پیدا ہوگئی کہ نقل و حرکت مشکل ہوگئی۔ حال یہ تھا کہ جہاں بھی اور جس سمت میں حضورؒ تشریف لے جاتے آپ کے گرد جمگھٹے کی صورت ہو جاتی۔ یوں معلوم ہوتا کہ ہر شخص حضورؒ کے قرب کا متمنی ہے ان میں سے شاید کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو انگریزی بول سکتا ہو۔ لیکن ان کے چہروں کی بشاشت اور ان کی آنکھوں کی چمک سے ا ن کی محبت کے جذبات کچھ ایسے رنگ میں ان کی قلبی کیفیات کو ظاہر کر رہے تھے جس کے بیان سے زبان عاجز تھی۔

وہ بادشاہ ہے

حضورؒ جب مستورات کے حصہ میں جہاں حضرت بیگم صاحبہ اور دیگر احمدی خواتین اور دوسری خواتین جمع تھیں، تشریف لے گئے تو پیدروآباد کی کم عمر بچیوں نے وہاں ایک دائرہ بنا کر اور خوشی سے تالیاں بجا بجا کر گانا اور اچھلنا کودنا شروع کردیا اور اس کے ساتھ یہ فقرہ بھی کہنا شروع کیا۔ El-Rey El-Rey یعنی He is king, He is king۔

آرکیٹیکٹ سے ملاقات

شام چھ بجے اس گاؤں سے واپس روانگی ہوئی۔ اسی روز شام کو حضورؒ نے José Luis Lope y López de Rego آرکیٹکٹ سے ملاقات فرمائی اور مسجد کے نقشہ و تعمیر کے متعلق تفصیلاً ہدایات دیں۔ آرکیٹیکٹ حضورؒ سے ملاقات سے بہت خوش تھا اور حضور کی نورانی شخصیت سے بے حد متاثر ہوا۔

سنگِ بنیاد رکھنے کی اس تقریب سے دل اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء سے بھرپور تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ’’ناصر دین‘‘ کی تضرعات کو قبولیت کا شرف بخشا۔ چنانچہ اسی کی دی ہوئی توفیق سے اور اسی کے نام کی سربلندی کے لیے احیائے اسلام کی ایک نئی صبح کا سپین کی سر زمین میں آغاز ہوا۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذلک۔

(ماخوذ از دورہ مغرب 1400ھ۔ صفحہ528-549)

مسجد بشارت کا افتتاح

10؍ستمبر 1982ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اس مسجد کا افتتاح کرنا تھا آپ اپنے اور قافلے کے ویزے لگوانے ربوہ سے مئی 1982ء میں اسلام آباد تشریف لے گئے۔ 25؍مئی عشاء کی نماز پڑھاتے ہوئے آپ کو Heart Attack ہوا اور 9؍جون 1982ء کو اسلام آباد گیسٹ ہاؤس (بیت الفضل، ہاؤس نمبر 1، سٹریٹ 69، سیکٹر 3/F8 اسلام آباد) میں فجر سے پہلے آپ کی وفات ہوگئی۔

10؍جون 1982ء کو ربوہ مسجد مبارک میں حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا انتخاب ہوا اور اسی پروگرام کے تحت حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 10؍ستمبر 1982ء کو بڑے جذباتی رنگ میں مسجد بشارت سپین کا افتتاح فرما دیا۔
’’آج کا دن تمام دنیا کے ا حمدیوں کے لئے اور خصوصاً ان کے لئے جو آج اس مبارک تقریب میں شامل ہیں۔ بے انتہا خوشیوں کا دن ہے اور دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھرے ہوئے ہیں، لیکن یہ خوشیاں عام دنیا کی خوشیوں سے کس قدر مختلف ہیں! ان خوشیوں کا اظہار بھی ایک بالکل انوکھا اور اجنبی اظہار ہے۔ یہ خوشیاں ایک مقدس غم بن کر ہمارے دماغ پر چھا گئی ہیں۔یہ خوشیاں حمد کے آنسو بن کر ہماری آنکھوں سے بہتی ہیں۔ دنیا کی خوشیوں سے ان خوشیوں کو کوئی تعلق نہیں۔ دنیا کی خوشیوں کو ان خوشیوں سے کوئی نسبت نہیں۔‘‘

آپ نے خطبہ جمعہ میں یہ فرمایا کہ اس موقع پر مجھے ایک شخص کی یاد ستا رہی ہے جو اس مسجد کا افتتاح کرنے کا زیادہ حقدار تھا۔ جن کی دعاؤں سے یہ مسجد بنی یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تو آپ کے رقت بھرے الفاظ سن کر ساری جماعت تڑپ اٹھی کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو غم سے نڈھال ہو کر اشکبار نہ ہوئی ہو یہ عجیب جذباتی لمحات تھے۔

مسجد بشارت کے افتتاح کی خبریں تصاویر سمیت عرب دنیا کے ٹی وی چینلز پر بھی نشر ہوئیں۔

مسجد بشارت کا بننا اور سات سو سال بعد سپین میں پھر سے اذان کی آواز بلند ہوئی اور مسجد کے میناروں سے پانچ وقت اللہ اکبر کی صدا بلند ہونے لگے جو اللہ کے فضل سے آج تک جاری ہے۔ مسجد کے افتتاح کے موقعہ پر ساری د نیامیں شکرانے کے نوافل ادا کیے اور چراغاں کا اہتمام بھی کیا گیا۔

مسجد بشارت کا آرکیٹیکچر مغل سٹائل کا ہے اور اب تو extend ہوکر وہاں بڑا کمپلیکس بن گیا ہے۔ مسجد کی کئی بار توسیع ہوئی۔ مہمانوں کے لیےگیسٹ ہاوسزز، مسجد کے احاطہ کے اندر گھر بھی بن گے ہیں۔ لجنہ ہال، ایک کانفرس ہال، مرکزی لائبریری اور حضرت خلیفۃ المسیح کی رہائش۔ مسجد بہت خوبصورت ہے اور دور سے دیکھنے والوں کا دعوت نظارہ دیتی ہے۔ مسجد کے اردگرد گھاس لگی ہوئی اور پھل پھولدار پودے اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔

مسجد بشارت میڈرڈ سے قرطبہ جانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع ہے۔ اس سڑک سے گزرنے والے ہزاروں لوگ سڑک سے مسجد کا خوبصورت نظارہ کرتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے مسجد بشارت سپین کے سنگِ بنیاد کے موقع پر ایک ارشاد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس جگہ کا انتخاب نہ میں نے کیا ہے نہ کرم الہی ظفر صاحب نے بلکہ اس جگہ کا انتخاب خدا تعالیٰ نے کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے لئے اس جگہ کو چنا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا پس اب یہ جگہ اور یہ مسجد بہت اہم ہے اور اب ان شاء اللّٰہ اسی جگہ سے سپین میں اسلام کا نور پھیلے گا اس جگہ کو اب ہمیشہ کے لئے ایک مرکزی حیثیت حاصل رہے گی۔

(روزنامہ الفضل 19؍جنوری 2005ء صفحہ1-2)

(کلیم احمد۔ مبلغ سپین)

پچھلا پڑھیں

سالانہ اجتماع 2022ء مجلس انصار اللہ ڈنمارک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 دسمبر 2022