• 25 اپریل, 2024

جھوٹ ایک گناہ ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ جھوٹ ایک گناہ ہے اور سچائی ایک نیکی ہے اور خُلق ہے۔ اس کو بچپن سے ہی بچوں کے دلوں میں قائم کرنے کے لئے آپ نے اس طرح نصیحت فرمائی کہ ایک صحابی اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اور میں اپنے بچپن کی وجہ سے تھوڑی دیر بعد ہی گھر میںآپ کی موجودگی میں ہی کھیلنے کے لئے باہر جانے لگا تو میری ماں نے مجھے اس بابرکت ماحول سے دُور جانے سے روکنے کے لئے کہا کہ اِدھر آؤ۔ ابھی یہیں رہو۔ میں تمہیں ایک چیز دوں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تم اسے کچھ دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے کہا کہ ہاں میں اسے ایک کھجور دوں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اگر تمہارا یہ ارادہ نہ ہوتا اور تم صرف بچے کو بلانے کے لئے یہ کہتی تو تم پھر جھوٹ بولنے کا گناہ کرنے والی ہوتی۔ (سنن ابی داؤد) اب اس بچے پر بھی اس چھوٹی عمر میں سچائی کی اہمیت اور جھوٹ سے نفرت واضح ہو گئی اور بڑے ہونے تک انہوں نے یہ بات یاد رکھی اور اس کے بعد بیان فرمائی کہ میرے دل میں یہ اہمیت تھی۔

ایک مرتبہ ایک شخص کو فرمایا کہ اگر تم ساری برائیاں نہیں چھوڑ سکتے تو جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔ ایک برائی کم از کم چھوڑو۔(تفسیر کبیر امام رازی )اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا آجکل کے مسلمانوں کے یہ معیار ہیں کہ اس باریکی سے جھوٹ سے بچیں اور سچائی کو قائم کریں بلکہ ہمیں اپنے بھی جائزے لینے چاہئیں کہ کیا ہمارے یہ معیار ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گناہ کبیرہ کے بارے میں بتاتے ہوئے فرمایا کہ گناہ کبیرہ یہ ہے کہ اللہ کا شرک کرنا۔ والدین کی نافرمانی کرنا اور پھر راوی کہتے ہیں کہ آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے یہ باتیں کر رہے تھے تو اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ غور سے سنو۔ جھوٹ اور جھوٹی گواہی۔ پھر آپ نے فرمایا جھوٹ اور جھوٹی گواہی اور بار بار فرمایا۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ یہ کہتے چلے گئے اور ہم نے خواہش کی کہ کاش حضورﷺ اب خاموش ہو جائیں۔

(صحیح البخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدین من الکبائر حدیث 5976)

پھر ہم اس رنگ میں بھی آپؐ کے اخلاق کا مظاہرہ دیکھتے ہیں۔ برداشت اور صبر کا کیا معیار ہے اور کس طرح آپؐ نصیحت فرماتے تھے۔ ایک بدّو مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ لوگ اس کی طرف روکنے کے لئے دوڑے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور جہاں پیشاب کیا ہے وہاں پانی بہا دو۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ تم لوگوں کی آسانی کے لئے پیدا کئے گئے ہو نہ کہ تنگی کے لئے۔ اس پر وہ بدّو ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کا ذکر کیا کرتا تھا۔‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ 2 مارچ 2018ء)

پچھلا پڑھیں

جلسہ سالانہ بینن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2020